(انوار ھدایت) نظریۂ توحید اور انسان - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

7 /

نظریۂ توحید اور انسانپروفیسر محمد یونس جنجوعہ

زمین پر بسنے والی لاتعداد مخلوق میں سے صرف انسان ہی ہے جس کو عقل و شعور سے نوازا گیا ہے۔ جانوروں میں غور و فکرکی صلاحیت نہیں ہے ۔صرف انسان ہی ہے جو دیکھتا ہے ‘سنتا ہے اوراس سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ جانور دیکھتے تو ہیں لیکن صرف یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ کہاں جانا ان کے لیے مفید ہے اور کس جگہ ان کے لیے خطرہ ہے۔ کتّا سڑک پر چلتا ہے تو اس کو بس اتنا پتا ہے کہ سامنے سے اگرکوئی گاڑی آ رہی ہے تو اسے ایک طرف ہوجانا ہے تاکہ وہ اسے کچل نہ دے۔ پرندہ صرف یہ جانتا ہے کہ اس جگہ بیٹھے جہاں کوئی اسے پکڑ نہ سکے۔ یہی چرند پرند ہیں جن کو انسان پکڑ سکتا ہے ۔ان سے طرح طرح کے فائدے حاصل کرتا ہے۔ بعض کا گوشت کھاتا ہے‘ بعض کو پالتا ہےاور ان سے شکار کرتا ہے۔ بعض جان داروں سے باربرداری کا کام لیتا ہے۔ ہاتھی اور شیر وغیرہ اتنے بڑے جانور ہیں لیکن انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل و شعور سے انہیں پکڑ سکتا ہے اور ان سے خدمت لے سکتا ہے۔ جانوروں کا چیزوں کو دیکھنا ایک معمول کی بات ہے جبکہ انسان کسی چیز کو دیکھتا ہے اور غور کرتا ہے تو وہ کچھ مزید حاصل کرتا ہے۔
انسان کا دیکھنا نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ جو انسان چیزوں کو دیکھتا ہے مگر غور نہیں کرتا اُس کا دیکھنا حیوانوں کا سا ہے۔ گویا ایک طرح سے وہ حیوانوں کی سطح پر زندگی گزار رہا ہے۔آدمی جب کوئی درخت دیکھتا ہے تو اس امر پرغور کرتا ہے کہ یہ کیونکر اتنا بڑا ہو گیا ہے۔ پھر اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ بیج کو زمین میں دبایا گیا ‘پھر پانی دیا گیا تو اس بیج سے ایک ننھا سا پتا نکلا ‘پھر ٹہنیاں بنیں اور آج یہ اتنا بڑا تناور درخت بن گیا۔ جب انسان پر یہ انکشاف ہوا تو خداداد عقل و شعور سے بھرپور فائدہ اٹھا کر وہ اس قابل ہو گیا کہ اس درخت کی لکڑی سے اپنے لیے طرح طرح کی چیزیں بنانے لگا۔ اب جب انسان نے مزید غور کیا تو سمجھ گیا کہ مٹی میں تو یہ خاصیت نہیںکہ وہ بیج میں زندگی پیدا کر سکے۔ نہ تنہا پانی کسی بیج کو تناور درخت بنا سکتا ہے۔ پھر وہ کون ہے جس نے ننھے سے بیج سے ایک پتا بنایا ‘اس کو ترقی دی اور ایک تناور درخت بن گیا؟
ہر گھر میں چھوٹی بڑی ہزاروں چیزیں ہوتی ہیں۔ کوئی شے بھی خود بخود نہیں بنتی۔ تاج محل اور اس طرح کی ہزاروں مضبوط اور خوبصورت عمارتیں ہیں‘جن میں کوئی بھی آسمان سے بن کر نہیں آئی۔ سبھی انسانوں نے بنائی ہیں۔ اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر چیز کو کسی نے بنایا ہے تو وہ بنی ہے۔ اپنے طور پر خود ہی کوئی چیز وجود میں نہیں آ گئی۔ زمین اور آسمان ازل سے وجود میں ہیں۔ لوگ ان کی عظمت کے قائل ہیں لیکن کسی کا یہ یقین نہیں کہ آسمان فلاں شخص نے بنایا ہے اور زمین فلاں آدمی کی تخلیق ہے۔ مخلوق میں سے ایسی کوئی ہستی نہیں جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے زمین و آسمان بنائے ہیں۔ انسان اپنی عقل و شعور کی نعمت کو استعمال کرے تو غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ زمین و آسمان ‘ پہاڑ ‘ سمندر ‘چاند‘ سورج‘ ستارے اور ہزارہا اجرامِ فلکی خود ہی نہیں بن گئے ۔جس نے ان کو بنایا ہےوہ وہی ہے جو ہر شے کا خالق ہے۔
کیا وہ بندہ اشرف المخلوقات کہلانے کا حق دار ہے جو اپنے ہاتھ سے کسی نامور شخص کا بت بنا کر کھڑاکر دیتا ہے اور پھر اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر اُس سے اپنی حاجت طلب کرتا ہے ؟یا وہ شخص جو خوبیوں کے مالک کسی انسان کا عقیدت مند ہو جاتا ہے ؟ جب وہ شخص فوت ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ہاتھوں قبر میںڈال دیتا ہے۔ جب وہ زمین پر رہنے کے قابل نہ رہا تو اس کی قبر پر جا کر اس کے حضور اپنی حاجت پیش کرنے والا اشرف ہے یا قبر میں پڑا ہوا مردہ؟ مردےسے مدد مانگنا تو بے وقوفی اور نادانی ہے۔
اسلامی تعلیم یہ ہے کہ ہر ذی روح کو فوت ہونا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ واحد ہستی ہے جوغیر فانی ہے۔وہ ہر وقت زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ ہر آن ہر جگہ پر موجود ہے۔ ہر انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اس کو پکارا جائے تو وہ سنتا ہے۔ وہ واحد ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ انسانوں کو نبی بنا کر لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ وہ اللہ کے پسندیدہ بندے ہیں لیکن قدرت اور اختیار کا مالک صرف اللہ ہے جو ہر ایک کا خالق ہے۔ ہر نبی نے بھی اپنی حاجت اللہ ہی سے مانگی اور لوگوں کو بھی یہی تعلیم دی کہ وہ صرف اللہ کو پکاریں۔ ہزاروں انبیاء و رُسل علیہم السلام دنیا میں آئے لیکن ہر ایک فوت ہو گیا اور اسے قبر میں دفن کر دیا گیا ۔ ہر نبی نے یہی تعلیم دی کہ اللہ ایک ہی ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے۔زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ نہ اس کو نیند آتی ہے نہ اونگھ۔ زمین اور آسمانوں کا وہ واحد مالک ہے ۔ ہر نبی نے اللہ تعالیٰ کا واضح تعارف کرایا مگر شیطان نے لوگوں کو گمراہی پر لگایا۔انسانوں نے اپنوں ہی میں سے بعض کو اپنا سرپرست بنا لیا اور بھٹک گئے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ شرک ہے ‘یعنی اُس وحدہ لا شریک ہستی کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھنا‘موت و حیات کا مالک سمجھنا‘ مشکل کشا یا حاجت روا جاننا‘ اُس کو سمیع اور علیم جاننا۔ تمام انبیاء و رُسل ؑ کی یہ مشترک تعلیم رہی ہے۔ اللہ انسانوں پر مہربان ہے‘ اُس نے دنیا میں اپنے پیارے بندے لوگوں کی راہنمائی کے لیے بھیجے۔ انبیاء کا آنا اب ختم ہو چکا ہے ۔ ہر نبی نے یہ تعلیم دی کہ خالق و مالک صرف اللہ ہے۔ باقی لوگ اس کے بے اختیار بندے اور اس کے سامنے عاجز ہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو زندہ یا مردہ انسانوں ‘ بتوں یا تصویروں کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت بھی اس بے عقلی کے کام میں لگی ہوئی ہے حالانکہ قرآن مجید میں کئی بار بتا دیا گیا ہے کہ ایسا کرنا بے انصافی ہے۔اللہ کا کوئی شریک نہیں اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے وہ ایسا نادان ہے کہ مرنے کے بعد دوزخ میں ڈالاجائے گا۔
انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہر کسی سے گناہ ہو جاتا ہے ۔ جب وہ استغفار کرتا ہے تو اس کا گناہ بخشا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کے گناہ بغیر توبہ واستغفار کے بھی معاف کر دیتا ہے۔ البتہ شرک ایسا گناہ ہے کہ جس کی کوئی بخشش نہیں ‘ جب تک کہ اس کا مرتکب توبہ استغفار اور تجدید ِایمان کر کے اس سے باز نہ آ جائے‘ اس لیے کہ ایسا شخص خالق کائنات کا باغی ہوجاتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک زندہ انسان مشکل میں کسی مردے کو پکارے ‘یا پتھر یا لکڑی کے بت کے سامنے اپنی حاجت رکھے ۔ یہ تو اللہ کی دی ہوئی عقل سے فائدہ نہ اٹھانے بلکہ اس کی ناشکری کرنے کے مترادف ہے‘ کیونکہ قبر میں پڑا ہوا انسان کسی کی پکار کو سن سکتا ہے نہ کوئی بت ۔ یہ دنیا دار العمل ہے۔ یہاں وہ کام کرنے چاہئیں جو دار الجزا میں کام آ سکیں۔