(عرض احوال) یومِ تکبیر اور تکبیر ِربّ کے تقاضے! - خورشید انجم

12 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یومِ تکبیر اور
تکبیر ِربّ کے تقاضے!


۲۸ مئی۲۰۲۴ء کو ہم نے قومی سطح پر یومِ تکبیر منایا ہے۔ کہنے کو تو ’’تکبیر‘‘ ایک لفظ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر معانی کا ایک سمندر ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم بڑی سے بڑی حقیقت کو بھی ایک رسم بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ جیسے اقبال نے کہا ؎
رہ گئی رسمِ اذاں‘ رُوحِ بِلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا‘ تلقین غزالی نہ رہی
تکبیر کے حوالے سے بھی وہ روح تکبیر نکل گئی ہے ‘صرف اس کے الفاظ رہ گئے ہیں ۔ذرا سوچئے کہ ایک مجاہد جب نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے تو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ پھراس کا تقابل کریں کہ ہم دن میں کم از کم پانچ بار اذان میں تکبیر سنتے ہیں لیکن ہم پر اس کے اثرات مرتّب کیوں نہیں ہوتے؟سورۃ المدثّر کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو فرمایا: {قُمْ فَاَنْذِرْ(۲)} ’’اُٹھیے (اب کھڑے ہو جائیے) اور لوگوں کو خبردار کیجیے!‘‘ یہ کارِ رسالت کی وہ کٹھن ذمہ داری تھی جو آپﷺ پر ڈالی جا رہی تھی۔ پہلا قدم انذارہے ‘تبشیر کا معاملہ بعد میں آتا ہے۔ درحقیقت اُس وقت کے عرب معاشرے میں تبشیر کا کوئی محل و مقام ہی نہیں بنتا تھا‘ بلکہ اُنہیں ڈرایا جارہا ہے کہ شرک کے جس راستے پر تم چل رہے ہو‘ یہ جہنم کے گڑھے کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ پھر فرمایا کہ کھڑے ہو جائیے ’’اوراپنے ربّ کو بڑا کیجیے!‘‘ عموماً اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ’’اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے!‘‘ بڑائی بیان کرنے کے تین درجے ہیں: سب سے پہلے انسان اپنے شعور میں‘ذہنی اور قلبی طور پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا قائل ہو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ ربّ کی کبریائی کااظہار و اعلان ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ ربّ کی کبریائی و الے نظام کے نفاذ اور قیام کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک حکومت اور بادشاہت آسمانوں پرتکوینی طور پر پوری ہو رہی ہے لیکن جہاں انسان کو اختیار دیا گیا وہاں یہ معاملہ پورا نہیں ہو رہا۔ لہٰذا وہاں کے لیے فرمایا گیا کہ انذار کیجیےاور اللہ کی کبریائی کو قائم اور نافذ کیجیے۔ آج یہاں جو خود کو خدا سمجھ کر بیٹھے ہوئے ہیں‘ کوئی فرعون ہے ‘ کوئی نمرود ہے‘ کوئی شداد ہے ‘ کہیں پارلیمنٹ ہے‘ کہیں عدلیہ ہے اور کہیں اسٹیبلشمنٹ ‘ان کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کی کبریائی قائم اور نافذ کرنے کی جدّوجُہد کریں۔ نبی کریمﷺ نے اپنی ۲۳ سالہ جدّوجُہد کے نتیجے میں اللہ کی کبریائی کو قائم اور نافذ کر کے دکھا دیا ۔
سورۃ المدثّر ہی میں ایک اور مقام پر فرمایا: {کَلَّا وَالْقَمَرِ(۳۲) وَالَّـیْلِ اِذْ اَدْبَرَ(۳۳)} ’’ہرگز نہیں! قسم ہے چاند کی‘ اور قسم ہے رات کی جب کہ وہ پیٹھ موڑے ۔‘‘ یہاں رات کے آخری پہر کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ رات اب رخصت ہواچاہتی ہے۔ {وَالصُّبْحِ اِذَآ اَسْفَرَ(۳۴)} ’’اور قسم ہے صبح کی جب وہ روشن ہو جائے۔‘‘
بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے ان آیات کے حوالے سے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ یہ جو قسمیں کھائی جا رہی ہیں‘ یعنی رات کی قسم‘ درحقیقت یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد نبی آخر الزماںﷺ تک جو ۶۰۰ سال کا وقفہ تھا اُس تاریکی کی طرف اشارہ ہے جس میں وحی کا سلسلہ منقطع رہا اور آسمانی ہدایت کی روشنی بہت مدّھم پڑچکی تھی۔ جیسے چاند کی روشنی کا تقابل اگر سورج کے ساتھ کریں تو وہ بہت مدّھم سی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ ہے کہ وہ ایک طویل اندھیری رات تھی اور اگرچہ اس میں کہیں کہیں چاند کی مدّھم سی روشنی موجودتھی‘ لیکن اب وہ بھی جا رہی تھی اور ختم ہورہی تھی۔ اس کے بعد فرمایا کہ قسم ہے صبح کی جب وہ روشن ہو جائے‘ یعنی یہ امر بالکل واضح ہو جائے کہ رات ختم ہو گئی ہے۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز روشن ہو جاتی ہے۔ یہ نبی کریمﷺ کی بعثت کے لیے استعارہ ہے۔ جو جہالت اور ضلالت دنیا پر چھائی ہوئی تھی‘جیسے تاریک رات مسلط تھی ‘اب محمد ِعربیﷺ کی رسالت سے وہ روشن اور منور ہونے کو ہے ۔ وہ ہدایت اپنی تکمیلی شان کو پہنچ گئی جس کے حوالے سے فرمایا گیا: ’’آج کے دن مَیں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور مَیں نے اپنی نعمت کا تم پر اِتمام دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند فرمایا۔‘‘ اس آیت میں اُمّت ِمسلمہ کے لیے بہت بڑا سرٹیفکیٹ ہے ‘جسے ذاتِ باری تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے۔یہ وہ آیت ہے جس کے بارے میں یہود کہا کرتے تھے کہ اگر ہمارے لیے نازل ہوئی ہوتی تو اس کے نزول والے دن کو ہم بطورِ عید مناتے۔ نوعِ انسانی کی تاریخ میں نبی کریمﷺ کی بعثت ‘نبوتِ محمدیؐ کا ظہور بہت بڑا واقعہ ہے۔
اس کے بعد سورۃ الانشقاق کی آیات میں کچھ اور قسمیں بھی کھائی گئی ہیں۔فرمایا ـ:{فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ(۱۶) وَالَّـیْلِ وَمَا وَسَقَ(۱۷) وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ(۱۸)} ’’پس نہیں‘ مجھے قسم ہے شام کی سرخی کی‘ اور رات کی اور اُن چیزوں کی جن کو وہ سمیٹے ہوئے ہے‘ اور چاند کی جب وہ پورا ہوجاتا ہے۔‘‘ سورۃ المدثّر کی آیات میں نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی خوش خبری دی گئی تھی۔ اب اسلام کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل گئی‘ لیکن پھر آہستہ آہستہ زوال آنا شروع ہوتا ہے۔ اس کی وجہ بھی بڑے واضح انداز میں اقبال نے بتا دی تھی؎
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں‘ تقدیر اُمم کیا ہے!
شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رباب آخر
جب طاؤس و رباب مقدّم ہو گئے تو زوال آگیا۔ اُس وقت نام کے تو خلیفۃ المسلمین تھے لیکن ان کے رنگ ڈھنگ قیصر و کسریٰ کی طرح ہو گئے تھے۔ وہی بڑے بڑے محلّات بنائے جا رہے تھے‘ سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا‘حرم آباد ہو رہے تھے۔ ایسے میں اللہ کے عذاب کا کوڑا تاتاریوں کی صورت میں برسا۔ آہستہ آہستہ زوال بڑھتا گیا۔
اِسی کو نبی کریمﷺ نے ایک حدیث میں پانچ ادوارکی صورت میں بیان فرمایا ہے۔ پہلا دور نبوتﷺ کا‘ دوسرا دورخلافت راشدہ کا‘ اس کے بعد کاٹ کھانے والی ملوکیت‘ کہ تھے تو مسلمانوں کے خلیفہ لیکن انداز ملوکیت والے تھے۔اگرچہ خلافت راشدہ والا نظام تو نہیں تھا لیکن بہرحال مسلمانوں کی حکومت تو تھی۔ پھر اگلادور مطلق جبریت والا آگیا۔ پورے عالم ِاسلام میں استعمار نے اپنے پنجے گاڑدیے۔کہیں انگریز‘کہیں ولندیزی‘کہیں اطالوی اور کہیں جرمن آگئے۔ آخر کارپھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور آئے گا اور اسی کی طرف یہاں پر بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے گا۔ اب وہ معاملہ نہیں ہوگا جیسے رسالت ِمحمدیﷺ کا آفتاب طلوع ہوا تھا۔ اب چاند کی طرح یہ نشاۃ ثانیہ کا معاملہ ہے۔ دوبارہ جو عروج حاصل ہوگا‘ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھےگا۔ پہلے ہزار سال میں تمام مجددین عالم ِعرب میں آئے۔ عمر بن عبد العزیز‘ امام ابو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل‘ امام غزالی‘ امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ سب عالم ِعرب میں تھے‘ لیکن چار سو سال سے اللہ تعالیٰ نے اس خطے یعنی برصغیر پاک و ہند کو پسند فرمایا ہے۔چنانچہ دوسرےہزار سالہ دور میں برصغیر میں مجدد الف ثانی‘ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہم اللہ جیسی انتہائی جامع شخصیات پیدا ہوئیں۔ سیّد احمد شہید جیسی شخصیت جن کے جہاد و قتال نے دورِ صحابہ کا عکس پیش کردیا ۔ شیخ الہند ‘ محمود حسن اسیر مالٹا‘ علّامہ اقبالؒ جیسا مفکر‘ ابو الکلام آزاد جیسا عبقری‘ مولانا مودودی جیسا مصنّف ‘ مولانا الیاس جیسا مبلغ پوری دنیا میں کہیں نہیں (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)۔ پھر داعی ٔ قرآن ‘ بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس احیائی عمل کو آگے بڑھایا۔ یہ احیائی عمل اس طرح سے جاری رہے گا جو بالآخر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ پر منتج ہو گا۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’میرے لیے زمین کو سکیڑ دیا گیا پس مَیں نے اس کے مشارق ومغارب کو دیکھ لیا‘ اور میری اُمّت کا اقتدار وہاں تک پہنچے گا جہاں تک مجھے سمیٹ کردکھا دیا گیا۔‘‘
اس خطے میں پاکستان کا قیام بھی اسی تجدیدی مساعی کا حصہ ہے۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن جیسا مسلم دشمن شخص یہاں وائسرائے تھا۔ اسی طرح ہندواپنے راج کی سوچ رکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے پرکہا تھا کہ ہم نے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ ہندو تو اپنے راج کاسوچ کر بیٹھا ہوا تھالیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ہمیں پاکستان عطا کیا۔ البتہ ہم نے دین سے دوری کی روش اختیار کی۔ جس مقصد کے لیے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھاوہ پورا نہ ہوسکا۔ قراردادِ مقاصد منظور ہوئی تو یہاں پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں نے کہا کہ آج ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں‘ ع’’کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!‘‘ یہ عوامی حاکمیت کا دور ہے‘ یہ جمہوریت کا دورہے لیکن اس میں بھی تم کہتے ہو کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور قرآن وسُنّت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی!
پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پرایک اور فضل و کرم کیا اور ہمیں ایٹمی صلاحیت عطا کی۔ بہرحال یہ صلاحیت بھی ہمیں معجزانہ طور پر ہی حاصل ہوئی۔ گویایہ دو معجزے آپس میں مل گئے۔پہلا پاکستان کا قیام جو ایک نظریاتی مملکت ہے۔ پوری دنیا میں نظریے کی بنیاد پر قائم کی گئی یہ واحد ریاست ہے۔ اسرائیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نظریاتی ریاست ہے لیکن درحقیقت وہ نسلی بنیاد پروجود میں آئی تھی کیونکہ یہودیت ایک نسلی مذہب ہے۔ مذہب کی بنیاد پر صرف یہ ایک ملک پاکستان ہے۔ یہاں اگر نظریہ نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایٹمی صلاحیت عطا کی۔ درحقیقت یہ پوری اُمّت ِمسلمہ کی امانت ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ جب ایٹمی دھماکے ہوئے تھے تو فلسطین اور عالم ِعرب میں مٹھائیاں بانٹی گئی تھیں۔ اُنہیں معلوم تھا کہ یہ پاکستان کی نہیں بلکہ پوری اُمّت ِمسلمہ کی طاقت ہے۔ سازشیں تو پاکستان بننے کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں۔چنانچہ بن گوریان نے ۱۹۶۷ء میں کہہ دیا تھا کہ عربوں سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے‘ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کے قیام کے نو مہینے بعد اسرائیل وجود میں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی دوا اس کے ظہور سے پہلے پیدا کی ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل ایک بہت بڑی بیماری ہے‘ جس کی دوا اللہ تعالیٰ نےپاکستان کی صورت میں پہلے پیدا کر دی۔ اسی طرح ہماری ایٹمی صلاحیت بھی اسرائیل کے توڑ کے لیے ہے۔ افسوس کہ آج یومِ تکبیر کے حوالے سے بس ٹوٹے پھوٹے‘ پھس پھسے ‘ بے روح قسم کے بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں جن میں حمیت اور غیرت کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ جو دو تحفے ہیں ان کی قدر کی جائے۔
پاکستان نے جو کردار ادا کرناہے‘ اسے نبھایا جائے۔ ایک آزاد خارجہ پالیسی اپنائی جائے۔ اسماعیل ہنیہ کہہ رہے ہیں کہ اگر پاکستان کی طرف سے صرف دھمکی بھی دے دی جائے تو یہ اسرائیل کو روکنے کے لیے کافی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے ہمت اورجرأت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہماری تکبیر ُملّا کی نہیں ‘ مجاہد کی ہونی چاہیے۔ اس کا علی الاعلان اظہار کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے تنظیم اسلامی نےاپنی حد تک بھرپور آواز بلند کی ہے۔ ہمارے بس میں جو ہے وہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عوام سے بھی اپیل ہے کہ اسرائیل کے خلاف جہاں بھی مظاہرے ہو رہے ہوں اس میں حصہ لینے کی کوشش کریں۔ اسرائیل کو سپورٹ کرنے والی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حماس کی مالی امداد کی جائے۔ خطباتِ جمعہ ‘ سیمینارز اور دوسرے عوامی پروگراموں کے ذریعہ اس موضوع کو زندہ رکھا جائے۔ سب سے بڑھ کر دعاؤں خصوصاً قنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا جائے۔ہم نے بہرحال اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ حق و باطل کی اس جنگ میں ہمیں درست سمت میں کھڑا ہونا ہے۔ قرآن و حدیث میں قیامت سے قبل آخری دور کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے‘ جو خبریں بیان کی گئی ہیں اس میں اس خطے یعنی پاکستان اور افغانستان کی بہت اہمیت ہے۔ یہیں سےوہ قافلے چلیں گےجو امام مہدی کی مدد کریں گے اور خراسان ہی سے کالے جھنڈے نکلیں گے جنہیں کوئی نہیں روک سکے گا ۔ یہاں تک کہ وہ ایلیا یعنی بیت المقدس میں نصب کر دیئے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اُس وقت تک یہاں اسلامی نظام قائم ہو چکا ہوگا ‘تب ہی یہاں سے فوجیں جانا ممکن ہو گا۔ اس حوالے سے پاکستان کی خصوصی اہمیت ہے۔ یہ وطن جو ہمیں ملا ہے ‘یہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں۔ ہندوستان میں کس چیز کی کمی تھی؟ کیاوہاں مساجد نہیں تھیں؟ مدارس نہیں تھے؟ کیا وہاں نمازیں نہیں پڑھی جاتی تھیں؟ روزے نہیں رکھے جاتے تھے؟ قائد اعظم کی ۱۰۱ تقاریر نکال کردیکھ لیجیے ‘انہوں نےاسلام کی ’’قوالی‘‘ کی ہے۔ بہرحال ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ تکبیر ِربّ کے تقاضوں کو پورا کریں۔ اسی میں ہماری آخرت کی کامیابی بھی ہے اور دنیا کی کامیابی بھی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!