سُوْرَۃُ الْفَجْرِ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَالْفَجْرِ (۱) وَلَیَالٍ عَشْرٍ (۲) وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ(۳) وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ(۴) ھَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ (۵) اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ (۶) اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (۷)الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِیْ الْبِلَادِ(۸) وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ (۹) وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ (۱۰) الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ ہ (۱۱) فَاَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ (۱۲) فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ (۱۳) اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ (۱۴) فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ ڏ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ (۱۵) وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ ڏ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ (۱۶) کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ (۱۷) وَلَا تَحٰۗضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ(۱۸) وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا (۱۹) وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (۲۰) کَلَّآ اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا(۲۱) وَّجَاۗءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا (۲۲) وَ جِایْۗءَ یَوْمَئِذٍۢ بِجَھَنَّمَ ڏ یَوْمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی (۲۳) یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ (۲۴) فَیَوْمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗٓ اَحَدٌ (۲۵) وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ (۲۶)یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ(۲۷) ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً(۲۸) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ (۲۹) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(۳۰)
آیت ۱{وَالْفَجْرِ(۱)} ’’قسم ہے فجر کی۔‘‘
سورۃ الفجر کی ابتدائی آیات قسموں کے حوالے سے مشکلات القرآن میں سے ہیں اور ان کے بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ بہرحال اس پہلی آیت کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ اس سے ۱۰ ذی الحجہ کی فجر مراد ہے جس کے بعد قربانی ہوتی ہے اور یہ دن مناسک ِحج کے حوالے سے بنیادی اور خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
آیت۲{وَلَیَالٍ عَشْرٍ(۲)}’’اور قسم ہے دس راتوں کی۔‘‘
پہلی قسم کی مناسبت سے اکثر مفسرین نے ان راتوں سے ۱۰ ذی الحجہ کی فجر سے پہلے کی دس راتیں مراد لی ہیں۔ ظاہر ہے ۱۰ذی الحجہ کی فجر سے پہلے ۱۰ ذی الحجہ کی رات گزر چکی ہوتی ہے‘اس لیے وہ رات بھی ان میں شامل ہے۔
آیت ۳{وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ(۳)} ’’اور قسم ہے جفت کی اور طاق کی۔‘‘
اس سے عموماًرمضان کے آخری عشرہ کی جُفت اور طاق راتیں مرادلی جاتی ہیں اور طاق راتوں میں لیلۃ القدر ہے۔ البتہ دنیا کے تمام علاقوں میں چاند چونکہ ایک ساتھ نظر نہیں آتا اس لیے مختلف علاقوں کی طاق اور جُفت راتوں میں فرق ہو گا۔ مثلاً ہو سکتا ہے ہمارے ہاں پاکستان میں جو رات طاق ہو سعودی عرب میں وہ جُفت ہو۔
آیت۴{وَالَّــیْلِ اِذَا یَسْرِ(۴)} ’’اور قسم ہے رات کی جب وہ گزرنے لگے ۔‘‘
آیت ۵{ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ(۵)} ’’کیا اس میں کوئی قسم (دلیل) ہے اُن لوگوں کے لیے جو عقل مند ہیں؟‘‘
یعنی ان تمام چیزوں کو اگلی آیات کے مضمون پر گواہ ٹھہرایا گیا ہے ۔
آیت ۶{اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ (۶)} ’’کیاآپ نے دیکھا نہیں کیا کیا تھا آپ کے ربّ نے عاد کے ساتھ؟‘‘
آیت ۷{اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (۷)} ’’وہ ارم جو ستونوں والے تھے ۔‘‘
’’اِرم‘‘ کے بارے میں عام مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ قومِ عاد کے شاہی خاندان کا لقب تھا۔ یعنی جس طرح مصر میں فراعنہ‘ عراق میں نماردہ اور یمن میں تبایعہ خاندانوں کی حکومتیں تھیں‘ اسی طرح قومِ عاد کے علاقے میں ارم خاندان برسرِاقتدار تھا ۔یہاں ان کے حوالے سے ستونوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ وہ لوگ اپنی تعمیرات میں ستونوں کو خصوصی اہمیت دیتے تھے اور دنیا میں ستونوں پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے انہوں نے ہی شروع کیا تھا ۔ جیسے اس قوم کے ایک شہر کے جوزیرزمین آثار دریافت ہوئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر کی فصیل پر تیس ستون یا مینار بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر شدّاد نے خصوصی اہتمام کے ساتھ بسایا تھا جو اُس قوم کا بہت بڑا بادشاہ تھا۔
آیت ۸{الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ(۸)}’’جن کے مانند نہیں پیدا کیے گئے (دنیا کے) ملکوں میں۔‘‘
یعنی قد و قامت اور جسمانی قوت کے لحاظ سے دنیا میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہ ہوا۔ ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس قوم نے جس معیار اور جس انداز کی تعمیرات کی تھیں ایسی تعمیرات ان سے پہلے دنیا میں کسی اور قوم نے نہیں کی تھیں۔شاید اسی لیے تاریخ میں شدّاد کی ’’جنت ِارضی‘‘ مشہور ہے۔
آیت ۹{وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ(۹)} ’’اور ثمود کے ساتھ (کیا کیا آپ کے رب نے) جنہوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا تھا۔‘‘
قومِ ثمود کے لوگ پہاڑوں کو تراشنے کے ماہر تھے۔ وہ بڑے بڑے پہاڑوں کو تراش کر خوبصورت کشادہ گھر اور محلّات بناتے تھے۔ پہاڑوں سے تراشے ہوئے اُن کے گھر اور محلّات آج بھی موجود ہیں۔
آیت ۱۰{ وَفِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ(۱۰)}’’اور فرعون کے ساتھ (کیا کیا) جو میخوں والا تھا۔‘‘
اوتاد ( وتدکی جمع) لوہے کی میخوں کو بھی کہتے ہیں اور لکڑی کے کھونٹوں کو بھی جن کے ساتھ خیموں کی رسیاں باندھی جاتی ہیں۔چنانچہ ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ اُس کے لشکروں کے خیموں کے کھونٹوں کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ اس کے لشکر بہت بڑے تھے اور وہ بڑی شان و شوکت کا مالک تھا۔ جب وہ چڑھائی کرتا تو لشکروں کے خیمے نصب کرنے کے لیے کھونٹوں کا ایک بڑا ذخیرہ ان کے ہمراہ ہوتا۔ ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ وہ جس سے ناراض ہوتا اسے صلیب پر چڑھا کر اس کے جسم میں میخیں لگوا دیتا تھا۔ (واللہ اعلم!)
آیت۱ ۱{الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ(۱۱)} ’’جنہوں نے (اپنے اپنے) ملکوں میں سرکشی اختیار کی تھی۔‘‘
آیت ۱۲{فَاَکْثَرُوْا فِیْہَا الْفَسَادَ(۱۲)}’’سوانہوں نے ان میں بکثرت فساد پھیلا دیاتھا۔‘‘
ظاہر ہے جب اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے نظام سے سرکشی ہو گی تو اس کا نتیجہ مخلوقِ خدا پر ظلم و زیادتی کی صورت میں سامنے آئے گا اور اسی ظلم و زیادتی کا نام فساد ہے۔ جس طرح آج G-7اورG-9ممالک کی انسان دشمن پالیسیاں دنیا میں فساد کا باعث بن رہی ہیں۔ ان ظالمانہ پالیسیوں کے نتیجے میں سرمایہ داروں اور محروم طبقہ کے افراد کے درمیان North versus Southکے عنوان سے خطرناک محاذ آرائی شروع ہو چکی ہے۔ لیکن اب وہ وقت بھی دور نہیں جب اس صورتِ حال کے خطرناک نتائج خود ان کے اپنے گلے کا طوق بنیں گے: ؎
اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے!بہرحال زمین میں فساد ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکام سے انسانوں کی سرکشی کی وجہ سے ہی پیدا ہوتا ہے‘ جیسا کہ سورۃ الروم کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے: {ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ} (آیت ۴۱)’’بحر و بر میں فساد رونما ہوچکا ہے‘لوگوں کے اعمال کے سبب۔‘‘
آیت ۱۳{فَصَبَّ عَلَیْہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ(۱۳)} ’’تو دے مارا ان کے اوپر آپ کے رب نے عذاب کا کوڑا۔‘‘
چنانچہ یہ سب قومیں اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار بنیں اور دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔
آیت ۱۴{اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ(۱۴)}’’بے شک آپ کا رب تو (سرکشوں اور مفسدوں کی) تاک میں ہے۔‘‘
یعنی کوئی فرد ہو یا کوئی قوم ‘ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے سرکشی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس جرم کی سزا ضرور دے گا۔
آیت ۱۵{فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ا بْتَلٰـىہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ لا} ’’انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب اُس کا ربّ اُسے آزماتا ہے پھر اُسے عزّت دیتا ہے اور نعمتیں عطا کرتا ہے ‘‘
{فَـیَـقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ(۱۵)} ’’تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزّت دی!‘‘
آیت ۱۶{وَاَمَّــآ اِذَا مَا ابْتَلٰـىہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ لا}’’اور جب وہ اسے آزماتا ہے پھر اُس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے‘‘
{فَـیَـقُوْلُ رَبِّیْٓ اَہَانَنِ(۱۶)} ’’تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا!‘‘
آیت ۱۷{کَلَّا}’’ایسا ہرگز نہیںہے!‘‘
یہ مقام اپنے مضمون کے اعتبار سے پورے قرآن مجید میں منفرد و ممتاز ہے۔ مذکورہ دونوں کیفیات کے حوالے سے انسان کے جن مکالمات کا یہاں ذکر ہوا ہے بظاہر ان میں کوئی خرابی یا شرک کی آلودگی نظر نہیں آتی۔ دونوں کلمات توحید کے عین مطابق ہیں۔ رزق کی فراخی اور تنگی کے حوالے سے عزّت اور ذِلّت کو کسی دیوی یا دیوتا سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے منسوب کیا گیا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزّت دی ہے اور یہ کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کیا ہے۔ بظاہر تو یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان {وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط} (آلِ عمران:۲۶) ہی کا اقرار ہے ‘کہ اے اللہ تُوجس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور تُوجسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔تو پھر یہاں ان جملوں کو آخر قابلِ مذمت کیوں ٹھہرایا گیا ہے؟ اس نکتہ لطیف کو سمجھنے کے لیے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ توحید تو ہدایت کی جڑاوربنیاد ہے ‘جبکہ اس بنیاد سے اوپر بھی ہدایت کی بہت سی منازل ہیں۔ اس لیے ایک بندئہ مؤمن کو زندگی میں راہنمائی کے لیے اپنی نگاہیں صرف مینارئہ توحید پر ہی مرکوز نہیں رکھنی چاہئیں بلکہ اسے شاہراہِ ہدایت کے ہر سنگ ِمیل اور ہر موڑ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اندازِ فکر اور طرزِعمل کا رخ متعین کرنا چاہیے۔
چنانچہ ان جملوںکے حوالے سے اصل اور بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہاں انسانی سوچ نے رزق کی فراخی اور تنگی کو عزّت اور ذِلّت کا معیار سمجھ لیا ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے کہ انسان کے رزق کی بست و کشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ امتحان اور آزمائش کے لیے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی زیادہ رزق دے کر آزماتا ہے تو کبھی اس کو معاشی تنگی سے دوچار کر کے اس کا امتحان لیتا ہے۔ گویا انسان کے لیے عیش و آرام اور مال و دولت کی فراوانی میں بھی امتحان ہے اوررنج و عسرت اور تنگدستی و ناداری بھی امتحان ہی کے مراحل ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو جس انسان نے مال ودولت کی کمی یازیادتی کو ذِلّت اور عزّت کا معیار سمجھ لیا وہ دھوکا کھا گیا ---- ایک بندئہ مؤمن کو تو دنیوی عزّت و ذِلّت کی ویسے بھی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ظاہرہے اصل اور حقیقی عزّت یا ذِلّت کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا۔ چنانچہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ رزق کی فراخی سے آزمارہا ہے اس کی عزت اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اور اپنے دائیں بائیں محروم و نادار لوگوں کو ان کا وہ حق ادا کرے جو اللہ تعالیٰ نے آزمائش کی غرض سے اس کے مال میں رکھ دیا ہے۔ اسی طرح جس شخص کا امتحان رزق کی تنگی کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی عزّت اس میں ہے کہ وہ صبر کرے اور اپنی عزّتِ نفس کو بچا کر رکھے۔
اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر رزق کی کمی بیشی اور عزت و ذلت کے حوالے سے مذکورہ فلسفہ واقعتاً ہماری سمجھ میں آبھی جائے تو بھی ہمارا نفس ہمیں یہ پٹی ضرور پڑھاتا ہے کہ رزق کی فراخی والی آزمائش آسان ہے اور اس کے مقابلے میں غربت و تنگدستی کی آزمائش بہت مشکل ہے‘ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ اس حوالے سے اصل حقیقت یہ ہے کہ غربت و تنگدستی کی آزمائش سے سرخرو ہونا انسان کے لیے نسبتاً آسان ہے اور اس کے مقابلے میں مال و دولت کی فراوانی کی آزمائش میں ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آسائش و آرام میں انسان کے غافل ہوجانے اور اللہ تعالیٰ کو بھول جانے کا زیادہ امکان ہے‘ جبکہ مشکل اور پریشانی کی کیفیت میں انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہتا ہے ۔ اس حوالے سے حضورﷺ کا فرمان ہے : ((مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی))(رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر ۔ راوی : ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ’’جو(مال) مقدار میں کم ہو مگر کفایت کر جائے وہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ ہو مگر غافل کر دے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جب خلیفہ ٔوقت کے عتاب کا شکار ہوئے تو جیل میں آپ پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں آپؒ کو جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا ویسا تشدد اگر ہاتھی پر بھی کیا جاتا تو وہ بھی بلبلا اٹھتا۔ لیکن آپ نے وہ اذیت ناک آزمائش کمال صبر و استقامت سے برداشت کی اور اس دوران آنکھوں میں کبھی آنسو تک نہ آنے دیے۔ لیکن دوسرے خلیفہ کے دور میں جب آپؒ کو رہائی ملی اور آپؒ کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے بطور نذرانہ پیش کیے گئے تو آپؒ یہ ’’نذرانہ‘‘ دیکھ کر بے اختیار رو پڑے اور اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ اے اللہ! تیری یہ آزمائش بہت سخت ہے ‘مَیں اس آزمائش کے قابل نہیں ہوں۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’توحید‘‘ ہدایت کا پہلا اور بنیادی درجہ ہے۔ اگر انسان اپنے اچھے بُرے ہر طرح کے حالات کو من جانب اللہ سمجھے تو اس کا یہ طرزِعمل توحید کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس کے اوپر بھی ہدایت کے بہت سے درجات ہیں۔ ان درجات میں سے ایک درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی آزمائش و ابتلاء کے اصول و ضوابط کو سمجھے اور یقین رکھے کہ دنیا کے عیش وآرام اور تنگدستی و عسرت کی کیفیات اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہی کی مختلف صورتیں ہیں اور یہ کہ تنگدستی و عسرت کی آزمائش کے مقابلے میں دولت کی فراوانی کی آزمائش کہیں زیادہ سخت اور خطرناک ہے۔
{ بَلْ لَّا تُـکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ (۱۷)}’’بلکہ تم لوگ یتیم کی عزّت نہیں کرتے۔‘‘
آیت ۱۸{وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (۱۸)} ’’اور نہ ہی تم لوگ آپس میں مسکینوں کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔‘‘
کسی دوسرے شخص کو کسی نیکی کی ترغیب دینا اس لیے بھی مشکل ہے کہ اس کے لیے انسان کو پہلے خود اس نیکی پر کاربند ہونا پڑتا ہے۔ آیت زیر مطالعہ میں دراصل اسی انسانی کمزوری کی طرف توجّہ دلائی گئی ہے کہ نہ تم خود بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہو اور نہ ہی دوسروں کو اس نیک کام کی ترغیب دیتے ہو۔
آیت ۱۹{وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا(۱۹)}’’اور تم ساری کی ساری میراث سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔‘‘
اس آیت میں انسانوں کے بنائے ہوئے غیر متوازن اور ظالمانہ قوانین ِوراثت کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس سے یہ بھی مراد ہے کہ تم میں سے جو طاقتور ہے وہ مختلف حیلوں بہانوںسے تمام وراثت پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ قرآن مجید نے دنیا کو مفصل‘ جامع اور متوازن قوانین ِوراثت عطا کیے ہیں- اسلام سے قبل عرب معاشرے میں باپ کی پوری وراثت بڑے بیٹے کو منتقل ہو جاتی تھی اور چھوٹے تمام بہن بھائیوں کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ دنیا کے بعض ممالک میں ایسے ظالمانہ قوانین آج بھی نافذ العمل ہیں۔
آیت ۲۰{وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا(۲۰)} ’’اور تم مال سے ٹوٹ کر محبّت کرتے ہو۔‘‘
دنیوی مال و دولت کی محبّت تمہارے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ سورتوں کے اس جوڑے یعنی سورۃ الفجر اور سورۃ البلد میں نزولِ قرآن سے قبل کے عرب معاشرے کے تمدن اور رسم و رواج کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ مثلاً طاقتوروں کے میراث کو زبردستی ہڑپ کر جانے ‘ مال و دولت کی غیر معمولی محبّت اور اسی محبّت کی وجہ سے خدمت ِخلق کے کاموں سے پہلوتہی کرنے کی مثالیں اس معاشرے میں عام تھیں۔
آیت ۲۱{کَلَّآ اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا(۲۱)} ’’ہرگز نہیں! جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کر دیا جائے گا۔‘‘
اس آیت کا یہ ترجمہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کے ترجمہ کے مطابق ہے‘ جبکہ ان کے بھائی شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ جب زمین کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔
آیت۲۲{وَّجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا(۲۲)} ’’اور آپ کا رب جلوہ فرما ہو گا جب کہ فرشتے قطار در قطار حاضر ہوں گے۔‘‘
سورۃ الحاقہ میں قیامت کے دن کا ایک منظر اس طرح بیان کیا گیا ہے :{وَالْمَلَکُ عَلٰٓی اَرْجَآئِہَاط وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ(۱۷)}’’اور فرشتے ہوں گے اس کے کناروں پر ‘ اور اس دن آپ کے ربّ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے آٹھ فرشتے‘‘۔سورۃ الرحمٰن میں اس دن کے آسمان کی کیفیت کا ذکر یوں آیا ہے : {فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّہَانِ(۳۷)} ’’پھرجب آسمان پھٹ جائے گا اور ہوجائے گا گلابی‘ تیل کی تلچھٹ جیسا۔‘‘
قرآن مجید میں قیامت کے دن سے متعلق جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ میدانِ حشر اسی زمین پر قائم ہو گا۔ زمین کو کھینچ کر چپٹا {وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ(۳)}(الانشقاق) اور کوٹ کوٹ کر ایسے ہموار کر دیا جائے گا کہ اس کے تمام نشیب و فراز ختم ہو جائیں گے {لَا تَرٰی فِیْھَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا(۱۰۷)} (طٰہٰ)۔ پہاڑوں کو روئی کے گالوں کی طرح اڑا دیا جائے گا۔ پھر زمین پر اللہ تعالیٰ کا نزولِ اجلال ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تجلی کے ساتھ آٹھ فرشتے نازل ہوں گے۔ دوسرے فرشتے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت لگے گی ‘حساب کتاب ہو گا اور یوں قصہ ٔزمین برسر ِزمین ہی طے ہو گا۔ گویا جس زمین پر انسانون نے اپنے اچھے بُرے اعمال کا ارتکاب و اکتساب کیا ہے ‘اسی زمین پر ان کا حساب ہو گا۔
آیت۲۳{وَجِایْٓ ئَ یَوْمَئِذٍ بِجَہَنَّمَ لا} ’’اور لے آئی جائے گی اُس روز جہنّم بھی‘‘
جہنّم کا ظہور بھی شاید زمین کے اندر سے ہی ہو گا۔ یعنی جب زمین کو کھینچ کر چپٹا کیا جائے گا تو اس کے اندر کا کھولتا ہوا لاوا باہر نکل آئے گا ‘جو جہنّم کا سماں پیدا کر دے گا۔ (واللہ اعلم!)
{یَوْمَئِذٍ یَّـتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَـہُ الذِّکْرٰی(۲۳)} ’’اُس دن انسان کو سمجھ آئے گی‘ لیکن اب سمجھنے کا کیا فائدہ!‘‘
شاہ عبدالقادرؒ صاحب نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ’’اُس دن سوچے آدمی اور کہاں ملے اس کو سوچنا؟‘‘یعنی اُس دن انسان کو بہت کچھ یاد آ جائے گا کہ وہ دنیا سے اپنے ساتھ کیا لے کر آیا تھا اور اسے نصیحت بھی حاصل ہو جائے گی۔ لیکن اُس وقت کی نصیحت سے اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ظاہر ہے فائدہ تو تب ہو تا اگر اس نے دنیا میں نصیحت پکڑی ہو تی۔
آیت ۲۴{یَـقُوْلُ یٰــلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ(۲۴)} ’’وہ کہے گا :اے کاش مَیں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا!‘‘
یہاں لفظ حَیَاتِیْ (میری زندگی)خاص طور پر لائق ِتوجّہ ہے۔ یعنی اُس وقت انسان کو معلوم ہوجائے گا کہ میری اصل زندگی تو یہ ہے جواَب شروع ہوئی ہے۔ میں خواہ مخواہ دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھتا رہا جو اس اصل زندگی کی تمہید تھی۔
دراصل انسانی زندگی عالم ِارواح سے شروع ہوتی ہے اور دنیا سے ہوتی ہوئی ابد الاباد تک جاتی ہے۔ دنیا کے ماہ و سال اور شب و روز کی گنتی سے زندگی کے اس طویل سفر کا حساب ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس فلسفے کی ترجمانی یوں کی ہے : ؎
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ‘ پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی!چنانچہ انسان کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی دُنیوی زندگی اُس کی جاودانی زندگی کے تسلسل کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اُس کے امتحان کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اس وقفہ ٔامتحان کے اختتام کی علامت کے طور پر اُس نے موت کو تخلیق فرمایا ہے‘ تاکہ ہر انسان کے اعمال کی جانچ کی جا سکے : {الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط} (الملک:۲) ’’اُس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ ‘‘
آیت ۲۵{فَـیَوْمَئِذٍ لَّا یُـعَذِّبُ عَذَابَہٗٓ اَحَدٌ(۲۵)} ’’تو اُس دن اللہ جو عذاب دے گا ویسا عذاب کوئی نہیں دے سکتا۔‘‘
آیت۲۶{وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ(۲۶)} ’’اور اُس کا سا باندھنا کوئی اور نہیں باندھ سکتا۔‘‘
میدانِ حشر میں ایک طرف تو یہ نقشہ ہو گا اور دوسری طرف کچھ ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوں گے جن سے کہا جائے گا :
آیت ۲۷{یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ(۲۷)} ’’اے نفسِ مطمئنّہ!‘‘
جو اس امتحانی زندگی میں مطمئن ہو کر یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی بندگی میں لگا رہا اور اس کے دین کے ساتھ چمٹارہا۔
آیت ۲۸{ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً(۲۸)}’’اب لوٹ جائو اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اس سے راضی‘ وہ تم سے راضی۔‘‘
سورۃ البینہ کی آیت ۸ میں ایسے خوش قسمت لوگوں کی یہی کیفیت {رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ط} ’’اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی!‘‘کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔
آیت۲۹{فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ(۲۹)} ’’توداخل ہو جائو میرے (نیک) بندوں میں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ان نیک بندوں کی نشاندہی سورۃ النساء کی اس آیت میں کی گئی ہے :
{وَمَنْ یُّطِـعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(۶۹)}
’’اور جو کوئی اطاعت کرے گا اللہ کی اور رسول ؐکی تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں معیت حاصل ہو گی اُن کی جن پر اللہ کا انعام ہوا‘ یعنی انبیاء ِکرام‘ صدیقین‘ شہداء اورصالحین۔ اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے!‘‘
آیت ۳۰{وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(۳۰)}’’اور داخل ہو جائو میری جنّت میں!‘‘
چنانچہ اس نَفسِ مُطمَئنّہ سے کہا جائے گا کہ آئو!میرے ان انعام یافتہ بندوںکی صف میں شامل ہو جائو۔ ایسے خوش قسمت لوگوں کے مراتب کی بلندی کے تصوّر اور اپنی تہی دامنی کے احساس کے پیش نظر ہمارا ان کی معیت کے لیے دُعا مانگنا اگرچہ ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ کے زمرے میں آتا ہے مگر پھر بھی دل سے بے اختیار دُعا نکلتی ہے: اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ----آمین!
سُوْرَۃُ الْبَلَدِ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لَآ اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ (۱) وَاَنْتَ حِلٌّۢ بِھٰذَا الْبَلَدِ (۲) وَ وَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ (۳) لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (۴) اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ (۵) یَقُوْلُ اَھْلَکْتُ مَالًا لُّبَدًا (۶) اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرَہٗٓ اَحَدٌ (۷) اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ (۸) وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ (۹) وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ (۱۰) فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ (۱۱) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْعَقَبَۃُ (۱۲) فَکُّ رَقَبَۃٍ (۱۳) اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ (۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ (۱۵) اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ (۱۶) ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (۱۷) اُولٰۗئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ (۱۸) وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا ھُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ (۱۹) عَلَیْھِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ(۲۰)
آیت ۱{لَآ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ(۱)} ’’نہیں! مَیں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔‘‘
اس آیت میں بھی لَآ اُقْسِمُ کا مفہوم بالکل وہی ہے جو اس سے پہلے ہم سورۃ القیامہ کی پہلی اور دوسری آیات یا سورۃ الانشقاق کی آیت ۱۶ میں پڑھ چکے ہیں۔ یعنی ان آیات میں لَا نافیہ نہیں ہے بلکہ مخاطبین کے خیالاتِ باطلہ کے ابطال کے لیے ہے۔ چنانچہ سورۃ القیامہ کی پہلی آیت {لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ(۱)} کا اگر ہم انگریزی ترجمہ کریں تو ہم کہیں گے : Nay, I swear by the Day of Judgement! دراصل انگریزی میں توNayکے بعد کوما (,)آجانے سے مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے‘ لیکن عربی میں چونکہ ’’کوما‘‘ وغیرہ کا استعمال نہیں ہوتا اس لیے سننے یا پڑھنے والا لَآ اُقْسِمُ کا مفہوم یوں بھی سمجھ سکتا ہے کہ ’’مَیں قسم نہیں کھاتا‘‘۔ بہرحال اس آیت کا مفہوم یہی ہے کہ جو کچھ تم لوگ کہہ رہے ہو وہ درست نہیں‘ بلکہ مَیں اس شہر یعنی مکّہ مکرمہ کی قسم کھاتا ہوں کہ تمہارے خیالات و نظریات باطل ہیں۔آگے چل کر واضح ہو جائے گا کہ یہاں مکّہ مکرمہ کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔
آیت۲{وَاَنْتَ حِلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ(۲)}’’اور(اے نبیﷺ!) آپ حلال کرلیے گئے ہیں اس شہر میں۔‘‘
کچھ مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے کہ ’’آپ کے لیے حلال ہو جائے گا یہ شہر‘‘۔یعنی اگرچہ یہ بلد الحرام ہے‘ یہاں خون ریزی وغیرہ کی اجازت نہیں‘ لیکن ایک وقت آئے گا کہ آپؐ کو اس کی اجازت مل جائے گی‘ جیسے فتح مکّہ کے دن مکّہ مکرمہ حضورﷺ کے لیے حلال کردیا گیا اور اس دن لشکرکشی کے دوران مسلح تصادم کے اِکا دُکا واقعات بھی ہوئے ۔ البتہ میرے نزدیک آیت کا اصل مدّعا اور مفہوم وہی ہے جو مَیں نے ترجمے میں اختیار کیا ہے کہ اے نبی(ﷺ) ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بلد الحرام میں آپؐ کی عزت پرحملے ہورہے ہیں‘ آپؐ کی عزّتِ نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے‘ آپؐ کو مسلسل ستایا جا رہا ہے ۔ اس وادی غَیْر ذِی زَرْعٍ کے ماحول میں جہاں معمول کی زندگی بھی سراپا مشقّت ہے وہاں اہل ِشہر کی مخالفت نے آپؐ کے لیے زندگی کو مزید کٹھن اور مشکل بنا دیا ہے۔ چنانچہ دعوتِ حق کی جدّوجُہد میں مسلسل سختیاں برداشت کرتے ہوئے آپؐ کی زندگی کے شب و روز کی اس وقت جو صورتِ حال اور کیفیت ہے‘ ہم اس کی قسم کھا رہے ہیں۔
آیت ۳{وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ(۳)} ’’اور قسم ہے والد کی اور اولاد کی۔‘‘
اس قسم میں اس مشقّت اور ذمہ داری کی طرف اشارہ ہے جو ایک والد کو اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت وغیرہ کے حوالے سے برداشت کرنی پڑتی ہے۔اب اگلی آیت میں اس حقیقت یعنی مقسم علیہ کا ذکر ہے جس پر یہ قسمیں کھائی جا رہی ہیں:
آیت۴{لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ (۴)}’’بے شک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقّت میں کیا ہے۔‘‘
سورۃ الانشقاق میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے :{یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ(۶)} ’’اے انسان!تُو مشقّت پر مشقّت برداشت کرتے جا رہا ہے اپنے رب کی طرف‘ پھر تُو اس سے ملنے والا ہے‘‘۔انسانی زندگی کے بارے میں یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اس دنیا میں کوئی انسان جیسا ہے‘جہاں ہے‘ غریب ہے‘ امیر ہے ‘صاحب ِ اقتدار ہے‘ فقیر ہے‘ کلفت‘ مشقّت‘ کوفت‘ پریشانی اس کا مقدر ہے۔ کوئی انسان جسمانی محنت کے ہاتھوں بے حال ہے تو کوئی ذہنی مشقّت کی وجہ سے پریشان ۔ کوئی جذباتی اذیت سے دوچار ہے تو کوئی نفسیاتی خلفشار کا شکار ہے۔ کوئی کوڑی کوڑی کا محتاج ہے توکسی کے لیے دولت کے انبار وبالِ جان ہیں‘ کسی کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تو کوئی مخملی گدیلوں پر لیٹا نیند کو ترستا ہے ۔ غرض مختلف انسانوں کی مشقّت کی کیفیت ‘نوعیت اور شدّت تو مختلف ہو سکتی ہے مگر مشقّت اور پریشانی سے چھٹکارا جیتے جی کسی کو بھی نہیں ہے۔ بقول غالب ؎
قید ِحیات و بند ِغم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں!بظاہر تو یہ صورتِ حال بھی بہت گمبھیر محسوس ہوتی ہے ‘لیکن انسان کی اصل مشکل اس سے کہیں بڑی ہے اور وہ مشکل یہ ہے کہ اسے دُنیوی زندگی میں پیش آنے والی یہ تمام پریشانیاں اور سختیاں بھی سہنی ہیں اور اس کے بعد اپنے ربّ کے حضور پیش ہو کر اپنے ایک ایک عمل کا حساب بھی دینا ہے۔ سورۃ الانشقاق کی مذکورہ آیت میں اسی ’’ملاقات‘‘ کا ذکر ہے۔ظاہر ہے انسان کی قسمت کا حتمی فیصلہ تو اسی ملاقات میں ہونا ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں انسان کی اصل مشقّت‘ اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی کا اندازہ لگانا ہو تو ایک ایسے انسان کا تصوّر کریں جو زندگی بھر ’’دنیا‘‘ حاصل کرنے کے جنون میں کولہو کا بیل بن کر محنت و مشقّت کی چکی میں پستا اور طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی اذیتوں کی آگ میں جلتا رہا۔ پھر مشقتوں پر مشقتیں برداشت کرتا اور تکلیفوں پر تکلیفیں جھیلتا یہ انسان جب اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوا تو اس کا دامن مطلوبہ معیار ومقدار کی نیکیوں سے خالی تھا۔چنانچہ اس عدالت سے اسے دائمی سزا کا حکم ہوا: {وَیَصْلٰی سَعِیْرًا(۱۲)} (الانشقاق) اور اس کے بعداسے جہنّم میں جھونک دیا گیا---- ہمیشہ ہمیش کے لیے! یہ ہے انسان کی اصل مشکل اور اصل ٹریجڈی جس کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ چنانچہ ہر انسان کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ :
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟آیت ۵{اَیَحْسَبُ اَنْ لَّـنْ یَّـقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ(۵)}’’کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اوپر کوئی قابو نہیں پاسکے گا؟‘‘
مشقّت میں پڑے ہوئے انسان کا حال دیکھو۔ اس حالت میں بھی وہ غرور کرتا ہے ۔ ابوجہل کو دیکھو کیسے اکڑا ہوا ہے --- مقامِ غور ہے!چاروں طرف سے مصائب و مشکلات میں گھرے ہوئے انسان کا اپنے خالق اور مالک کے سامنے یہ حال ہے تو اگر اس کے لیے دنیا میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتیں تو پھر یہ اللہ تعالیٰ سے کیسی کیسی بغاوتیں کرتا اور مخلوقِ خدا پر کیا کیا ستم ڈھاتا !
آیت۶{یَـقُوْلُ اَہْلَکْتُ مَالًا لُّـبَدًا(۶)}’’کہتا ہے مَیں نے تو ڈھیروں مال خرچ کرڈالا۔‘‘
اس فقرے میں سردارانِ قریش کی ذہنیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ لوگ بھلائی اور نیکی کے کام اکثر و بیشتر جذبۂ مسابقت کے تحت کرتے تھے اور پھر اپنی نیکیوں کا خوب چرچا کرتے اور شیخیاں بگھارتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے اکثر لوگوں کے ایمان نہ لانے کا سبب بھی یہی جذبۂ مسابقت تھا۔ ظاہر ہے وہ لوگ حضورﷺ کو اپنے خاندان کے مدّ ِمقابل خاندان کا ایک فرد سمجھتے تھے اور اس حیثیت سے آپؐ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا انہیں کسی قیمت پر گوارا نہیں تھا۔ اس حوالے سے ابوجہل کا اقراری بیان توتاریخ کے ریکارڈ پر موجودہے۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تمہارے خیال میں محمد (ﷺ) جھوٹے ہیں ؟تو اُس نے جواب دیا کہ نہیں‘ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس پرپوچھنے والے نے سوال کیا کہ پھر تم اُنؐ پر ایمان کیوں نہیں لے آتے؟ اس پر اُس نے جو جواب دیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے خاندان کا بنوہاشم کے ساتھ پشتوں سے مقابلہ چلا آ رہا ہے ۔ انہوں نے غرباء کو کھانے کھلائے تو ہم نے ان سے بڑھ کر کھانے کھلائے۔ اگر وہ حجاج کی خدمت کرنے میں پیش پیش رہے تو اس میدان میں بھی ہم نے انہیں آگے نہیں نکلنے دیا۔ یوں اب تک ہم ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے چلے آ رہے ہیں۔ اب اگر ہم ان کی نبوت کو تسلیم کر لیں تو ہم ہمیشہ کے لیے ان کے غلام بن جائیں گے اور یہ صورتِ حال کم از کم مجھے کسی قیمت پر قابلِ قبول نہیں۔
آیت زیر مطالعہ میں سردارانِ قریش کے اسی طرزِعمل کی تصویر دکھائی گئی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی شخص کبھی بھلائی کا کوئی کام سرانجام دے لیتا ہے تو جگہ جگہ اس کا تذکرہ کرتا اور شیخیاں بگھارتا پھرتا ہے کہ فلاں کام میں مَیںنے ڈھیروں مال کھپا ڈالا ہے۔
آیت ۷{اَیَحْسَبُ اَنْ لَّـمْ یَرَہٗٓ اَحَدٌ(۷)} ’’کیا اس کا گمان ہے کہ اُسے کسی نے دیکھا نہیں ؟‘‘
کیا وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر شخص کے ایک ایک عمل سے واقف ہے اس کی اس نیکی سے وہ بے خبر ہے۔ یعنی اگر تو اس نے وہ نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی تھی تو پھر وہ اس کا ڈھنڈھورا کیوں پیٹ رہا ہے؟
آیت۸{اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ(۸)}’’کیا ہم نے ا س کو دو آنکھیں نہیں دیں؟‘‘
آیت۹{وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ(۹)} ’’اور ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے)؟‘‘
آیت۱۰{وَہَدَیْنٰـہُ النَّجْدَیْنِ(۱۰)}’’اور ہم نے اس کو راہ دکھلا دی دو گھاٹیوں کی۔‘‘
عام مفسرین کے نزدیک دو گھاٹیوں سے مراد نیکی اور بدی کے دو راستے ہیں۔ البتہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے ماں کی دو چھاتیاں مراد ہیں۔ نجد کے لغوی معنی اُبھری ہوئی چیز کے ہیں۔ بلند سطح پر جو راستہ ہو اس کو بھی نجد کہتے ہیں۔ چنانچہ ’’النَّجْدین‘‘ کے معنی ’’دو بلند (واضح) راستے‘‘ بھی ہو سکتے ہیں اور ’’دواُبھار‘‘بھی۔ اور مجھے مؤخر الذکر رائے زیادہ پسند ہے۔ انسان کی زبان‘ اس کے دو ہونٹوں اور پھر ماں کی چھاتیوں کے ذکر کے حوالے سے دراصل یہاں انسان کی اس جبلی اور پیدائشی ہدایت کا ذکر مقصود ہے جس کے بارے میں ہم سورۃ الاعلیٰ کی آیت {وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی(۳)} میں پڑھ آئے ہیں۔ ظاہر ہے ایک بچہ اپنی پیدائش کے فوراً بعد نہ صرف ماں کے دودھ کی تلاش شروع کر دیتا ہے بلکہ جونہی اس کی رسائی ماں کی چھاتیوں تک ہوتی ہے تو وہ دودھ چوسنے بھی لگتا ہے۔ اس نومولود کو آخر اپنی غذا کی تلاش کا یہ شعور کس نے دیا ہے؟ اور اس مرحلے پر زبان اور ہونٹوں کے اس خاص استعمال کا طریقہ اسے کس نے سکھایا ہے؟ ظاہر ہے یہ شعور‘ یہ آگہی اور یہ ہدایت اس کی اس فطرت اور جبلت کا حصّہ ہے جو اسے اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے اور اس اعتبار سے بچے کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
آیت۱ ۱{فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ(۱۱)} ’’لیکن وہ گھاٹی کو عبور نہ کر سکا۔‘‘
آیت۱۲{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْعَقَبَۃُ (۱۲)}’’اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کون سی ہے؟‘‘
آیت ۱۳{فَکُّ رَقَـبَۃٍ(۱۳)} ’’کسی گردن کا چھڑا دینا۔‘‘
یعنی مال خرچ کر کے کسی غلام کو آزاد کرا دینا ‘یا کسی مقروض کا قرض ادا کر دینا۔
آیت۱۴{اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ(۱۴)}’’یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن میں۔‘‘
یعنی کسی شخص کا قحط سالی کے دوران بھوکوں کو کھانا کھلانا ۔ خصوصی طور پر ایسی صورتِ حال میں جب اُسے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت کا خیال بھی پریشان کیے دے رہا ہو۔
آیت ۱۵{یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ (۱۵)} ’’اُس یتیم کو جو قرابت دار بھی ہے۔‘‘
آیت۱۶{اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ (۱۶)}’’یا اُس محتاج کو جو مٹّی میں رُل رہا ہے۔‘‘
یہ وہ فلسفہ ہے جس پر سورۃ الحدید کے مطالعہ کے دوران تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے۔ یہ مشکل گھاٹی دراصل حب ِمال کی وہ چٹان ہے جو متعلقہ انسان کے لیے بھلائی کے راستے کو مسدود کیے کھڑی ہے۔ سورۃ الحدید کی آیت ۱۸ کی وضاحت کرتے ہوئے مَیں نے اسے گاڑی کی بریک سے تشبیہہ دی تھی۔ چنانچہ مذکورہ گھاٹی کو عبور کرنے یا گاڑی کی بریک کو کھولنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے مال کو اللہ ربّ العزت کی رضا کے لیے محتاجوں اور ناداروں کی مدد کرنے اور بھلائی کے دوسروں کاموں پر دل کھول کر خرچ کرے۔ یعنی مال کی محبّت کی آلودگی کو دل سے صاف کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اپنے پیارے مال کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر قربان کر دیا جائے۔ یاد رکھیں! حب ِمال کی گندگی کو دل سے نکالے بغیر انسان کو ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوسکتی۔ (اس مضمون کی مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الحدید‘ آیات ۱۷ تا ۲۰ کی تشریح۔)
آیت ۱۷{ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا} ’’پھر وہ شامل ہو اُن لوگوں میں جو ایمان لائے‘‘
یہاں پر لفظ ثُمَّ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ یعنی پہلے انسان اس مشکل گھاٹی کو عبور کرے‘ اپنے دل کی زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چلائے‘ اس کے ذریعے سے دل کی زمین سے حب مال کا جھاڑ جھنکاڑ صاف کرے‘ اور پھر (ثُمَّ) اس میں ایمان کا بیج ڈالے۔ اگر وہ اس ترتیب اور اس انداز سے محنت کرے گا تو تبھی ایمان کا پودا اُس کے دل کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلائے گا اور برگ و بار لائے گا۔
{وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ(۱۷)} ’’اور جنہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی اور باہم ایک دوسرے کو ہمدردی کی نصیحت کی۔‘‘
یہ مضمون سورۃ العصر میں بایں الفاظ آیا ہے : {اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۳)} ’’سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے ‘ اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی‘‘۔الفاظ اور مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں آیات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔البتہ دونوں جگہ مذکور اصطلاحات کی ترتیب مختلف ہے۔ سورۃ العصر کی اس آیت میں ایمان کے بعد عمل صالح کا بیان ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں عمل صالح (غرباء و مساکین اور یتیموں کے حقوق کی ادائیگی)کے بعد ایمان کا ذکر ہے۔ سورۃ العصر میں تواصی بالحق کے بعد تواصی بالصبر کاتذکرہ ہے‘ جبکہ یہاں پر پہلے تواصی بالصبر اور بعد میں تواصی بالمرحمۃ کا ذکر آیا ہے۔اس پہلو سے دونوں آیات کے تقابلی مطالعہ سے بہت سے حقائق و رموز کی نشاندہی ہوتی ہے۔
آیت۱۸{اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ(۱۸)}’’یہ ہوں گے داہنے والے۔‘‘
یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے اعمال نامے اُن کے دائیں ہاتھوں میں دیے جائیں گے۔ لفظ یمن کے معنی برکت اورخوش بختی کے بھی ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مفہوم یوں ہو گا کہ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو رشد و ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے فوز و فلاح کی منازل تک پہنچ گئے۔
آیت ۱۹{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا} ’’اور جنہوں نے انکار کیا ہماری آیات کا‘‘
{ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ(۱۹)} ’’وہ ہوں گے بائیں والے۔‘‘
یعنی اُن کے اعمال نامے اُن کے بائیں ہاتھوں میں پکڑائے جائیں گے۔ لغوی اعتبار سے جس طرح یمن کے معنی خوش بختی کے ہیں اسی طرح الْمَشْئَمَۃ کے مادے (شءم )میں بدبختی اور نحوست کے معنی پائے جاتے ہیں (شومئی قسمت کی ترکیب اردو میں بھی مستعمل ہے)۔ لہٰذا اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’یہ بدبختی والے لوگ ہوں گے‘‘۔ قرآن مجید میں آخرت کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے دائیں والے (اصحاب المیمنۃ یا اصحاب الیمین) اور بائیں والے (اصحاب المشئمۃ یا اصحاب الشمال) کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔البتہ سورۃ الواقعہ کی اس آیت میں نسل ِانسانی کے تین گروہوں کا تذکرہ بھی ہوا ہے : {وَکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً(۷)}کہ اس دن تم لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو جائو گے۔ ان میں سے دو گروہ تو یہی (دائیں او ر بائیں والے) بتائے گئے ہیں‘ جبکہ تیسرے گروہ کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : {وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ(۱۰) اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ(۱۱)} (الواقعۃ) ’’اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔ وہی توبہت مقرب ہوں گے‘‘۔گویا یہ تیسرا گروہ اہلِ جنّت میں سے بہت ہی خاص لوگوں یعنی مقربین ِبارگاہ پر مشتمل ہو گا۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں ان بدقسمت لوگوں کا ذکر ہوا ہے جنہیں بائیں ہاتھ میں اعمال نامے پکڑا کر جہنّم میں جھونک دیا جائے گا۔
آیت۲۰{عَلَیْہِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَۃٌ(۲۰)}’’ان پر آگ بند کر دی جائے گی۔‘‘
تاکہ پریشر ککر کی طرح آگ کی ساری تپش اندر ہی رہے اور انہیں شدید ترین عذاب ملے۔ اللہ کی پناہ! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے عذاب سے محفوظ رکھے اور اپنی رحمت اور شانِ غفاری کے طفیل اصحابِ جنّت میں شامل فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024