خاندانی استحکام کےاصولخطبہ ٔ نکاح کی روشنی میںحافظ عاطف وحید
انچارج شعبہ تحقیق و ناظم اعلیٰ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہورخطبہ مسنونہ کے بعد!
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
{یٰٓــاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا(۱)} (النساء)
{یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)} (آل عمران)
{یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا(۷۰) یُّصْلِحْ لَـکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَـکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱)}(الاحزاب)
وقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ :
((اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ)) (سنن ابن ماجہ:۱۸۴۶)
((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ))
(صحیح البخاری:۵۰۶۳‘صحیح مسلم:۱۴۰۱)
((اَعْلِنُوْا ھٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوْا عَلَیْہِ بِالدُّفُوْفِ))
(سنن الترمذی: ۱۰۸۹‘ سنن ابن ماجہ:۱۸۹۵)
او کما قال عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام
حضرات! آپ یہاں عقد ِنکاحِ مسنونہ کی تقریب میں شرکت کے لیےتشریف لائے ہیں ۔ اس مسجد کی روایت ہے کہ ایسی تقاریب میں جانبین کے سامنے موقع کی مناسبت سے قرآن و حدیث سے ماخوذ کچھ بنیادی تعلیمات رکھی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاںاکثر وبیشتر اس تعلیم کا دستور نہیں رہا۔ عموماً کسی ایک کونے میں بیٹھ کر منتخب قرآنی آیات کی تلاوت اور احادیث مبارکہ پڑھ کر ایجاب و قبول ہو جاتا ہے۔ خوشی کے اس موقع کی مناسبت سے ہمارے دین کی کیا تعلیمات ہیں‘ کیا آدابِ معاشرت ہیں ‘ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ نکاح کا تعلق انسان کی پوری زندگی کے ساتھ ہے۔ اس کے ذریعے ایک نیا گھرانہ وجود میں آ رہا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس سلسلے میں بنیادی دینی تعلیمات کا فہم حاصل ہو۔ ویسے اگر میرے بس میں ہو تو میں یہ چاہوں گا کہ نکاح سے پہلےایک شارٹ تربیتی کورس ہونا چاہیے جس میں شادی بیاہ کے حوالے سے دینی تعلیمات‘ اس کا فلسفہ‘ حقیقت‘ احکام اور تمام اہم معاملات کا احاطہ کیا جائے۔ اس کے بعد کسی کو اجازت ہو کہ وہ نکاح کے بندھن میں بندھے۔ چونکہ ہمارے ہاں یہ معاملہ اس طریقے سے نہیں ہوتا اس لیے لوگ نکاح کرنے میں تو چست ہیں‘ لیکن ان اہم معاملات کو سمجھنے اور جاننے میں بہت سستی برتتے ہیں۔ اس سے نقصان ہوتا ہے‘ اس لیے کہ جب دین کے احکامات معلوم نہیں ہوتے تو ہر کوئی اپنی تاویل اور تعبیر کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ اکثر و بیشتر یہی ہوتا ہے کہ آپس میں تنازعات شروع ہو جاتے ہیں۔ اس پہلو سے یہ بہت ضروری ہے کہ اس ضمن میں دین کی تعلیمات کا شعور حاصل کیا جائے۔
عیسائی دنیا میں تین مواقع کے لیے خاص طور سے کتابیں اور گائیڈز لکھی گئی ہیں‘ جسے Hatch, Match and Dispatch Sacraments کا عنوان دیا گیا ہے۔ ان الفاظ کے اندر ایک صوتی آہنگ اور معنوی ربط بھی ہے۔ Hatch سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو‘ خوشی کا ماحول ہوتو اسے منایا اور celebrateکیا جائے۔ Match وہ موقع ہے کہ جس کے لیے آج ہم یہاں موجود ہیں‘ یعنی شادی کا موقع۔ یہ بھی ایک خوشی کا موقع ہے۔ اس کی بھی کچھ رسوم‘ طریقے اور آداب ہیں۔ تیسرا موقع جسے Dispatch کہا جاتا ہے وہ اس دنیا سے انسان کے رخصت ہونے کا وقت ہے۔ اگرچہ وہ ایک غمی کا موقع ہوتا ہے ‘ لیکن اس کی رسومات بھی قدرے خوش اسلوبی سے پوری کی جاتی ہیںـ۔ دنیا میں جتنی بھی ثقافتیں اور تہذیبیں ہیں‘ ان کے اندر یہ رسومات موجودہیں۔
اسلام ایک کامل دین ہے۔ رسول اللہﷺ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تعلیمات عطا فرمائیں۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کے بارے میں قرآن یا حدیث میں واضح تعلیمات نہ ہوں۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کو تو خاص طور سے اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے عہدِ خلافت میں بازاروں کا بھی چکر لگاتے تھے ‘یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا حالات ہیں‘ ماحول کیسا ہے۔ اگر کسی شخص کو دیکھا کہ وہ لین دین کے دینی اصولوں سے کچھ انحراف کر رہا ہے تو اس سے پوچھتے تھے: کیا تم نے بیع وشراء کے احکام سیکھے ہیں؟ اگر نہیں سیکھے تو یہاں سے اُٹھ جائو ۔اگر بیٹھے رہو گے توکوئی نہ کوئی گڑبڑ کرو گے‘ ماحول خراب کروگے۔ پہلے سیکھ کر آئو‘پھر بازار میں بیٹھنا اوربیع وشراء کا معاملہ کرنا۔ جب کہ نکاح کا معاہدہ تو پوری زندگی پر محیط ہے۔ یہ کوئی ایک وقتی عمل یا برتاؤ نہیں بلکہ پوری زندگی کے نباہ کا معاملہ ہے۔ کیااس کے لیے جو تعلیمات رسول اللہﷺ نے عطا فرمائی ہیں ‘ ہمارے معاشرے میں انہیں سیکھنے کا اہتمام ہوتا ہے؟ زوجین کے کیا حقوق ہیں‘ کیا فرائض ہیں؟ شادی بیاہ کو جو دینی تقدس اور مشروعیت دی گئی ہے‘ اس کا مقصد کیا ہے؟اس کا اصل فلسفہ کیا ہے؟ فلسفہ کسی شے کی حقیقت کو کہتے ہیں۔ وہ جو علامہ اقبال نے کہا ہے کہ : ؎
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے‘ وہ نظر کیا!رسول اللہﷺ سے ایک دعا منسوب ہے :((اَللّٰھُمَّ اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَا ھِیَ)) ’’اے اللہ! مجھے اشیاء کی حقیقت دکھا دے‘ جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں۔‘‘
یہ وہ حقائق ہیں کہ یہاں آنے سے پہلے آپ حضرات توقع نہیں کر رہے ہوں گے‘ کہ اس طرح کی بھی باتیں سننے کو ملیں گی۔اس لیے کہ یہ خوشی کی تقریب ہے اور خوشی کی تقریب میں پند و نصائح کا کیا کام؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر چند ایسی باتیں اختصار کے ساتھ ضرور عرض کر دینی چاہئیں جو ہمارے لیے راہنمائی کا باعث بن سکیں۔
نکاح کی مشروعیت کے اسباب اور حکمتیں
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شادی بیاہ کے بندھن کو کیوں مشروع کیا ہے۔ قرآن مجید کی آیات شاہد ہیں کہ اس کی کئی حکمتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ اللہ چاہتا ہے کہ شادی بیاہ کے بندھن ہی سے کوئی بچہ اس دنیا میں آئے ۔ اس رشتے سے باہر(out of wedlock) اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بہت سنگین معاملہ ہے۔ نکاح کا یہ بندھن مرد اور عورت کے اس تعلق کو ایک تقدس عطا کرتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ساری زندگی نباہ کرنے کا عزم و ارادہ ہو۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی بتایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا} (الروم:۲۱)
’’اوریہ اللہ کی نشانیوں میں سے (ایک نشانی) ہے کہ اس نے تمہاری اپنی نوع سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے۔‘‘
جوڑے سے مراد صنفی اختلاف ہے یعنی مذکر اور مؤنث ‘ البتہ نوع ایک ہی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام ہی سے ان کا جوڑا بنایا۔
سورۃ النحل میں ارشاد ہوا :
{وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً} (آیت۷۲)
’’ اور اللہ نے تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے۔‘‘
صرف بیٹے ہی نہیں ‘پوتے بھی پیدا کیے۔ اس لیے کہ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کا دل بہلانے کے لیے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں کھلونوں کی مانند ہوتے ہیں۔یہ سب کچھ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے مشروع کیا تاکہ آخری انسان بھی جو اس دنیا میں آئے وہ اسی جائز اور پاکیزہ رشتے کے ذریعے سے آئے!
دوسری بات یہ ہے کہ شادی بیاہ کو اس لیے مشروع قرار دیا گیا تاکہ لوگ اس سے سکون حاصل کریں: {.....لِتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا} (الروم:۲۱) ’’تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو‘‘۔ یہ معاملہ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر آیا ہے ۔سورۃ الروم کے علاوہ سورۃ الاعراف میں بھی فرمایا: {وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَاج}(آیت ۱۸۹) ’’اور اسی (نوع) میں سے اس کی بیوی بنائی تاکہ اس سے سکون حاصل کرے۔‘‘ سکون اس وقت حاصل ہو گا جب جانبین کے درمیان موافقت ہوگی‘ اور دونوں اپنے اپنے واجبات و فرائض کو ادا کرنے والے ہوں گے اور اپنے حق سے زائد کا مطالبہ نہ کرتے ہوںگے۔ جب دونوں اپنی ذمہ داریاں اور فرائض پورے کرنے والے ہوں تب سکون حاصل ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ ابھی ’’ہنی مون پیریڈ‘‘ بھی پورا نہیں ہوا ہوتا کہ کچھ باتوں کے اوپر تنازعات شروع ہو جاتے ہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ انہیں سنبھال دے اور وہ دونوں خود بھی ایسا ہی چاہیں تو الگ بات ہے‘ ورنہ وقت کے ساتھ تنازعات شدید ہوتے جاتے ہیں ۔ پھر سکون بے سکونی میں بدل جاتا ہے ۔
خاندان کے ادارے کا تصوّر اس لیے دیا گیا تاکہ انسان کوسکون ہو‘ لیکن مشاہدہ ہے کہ حالت بسا اوقات یہ ہوجاتی ہے کہ گھر میدانِ کارزار بنا ہوتا ہے ۔کبھی سوچیے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ یا تو مرد اپنے حقوق سے زائد کی توقع کرتا ہے یا عورت اپنے حقوق سے زائد کی توقع کر رہی ہوتی ہے۔ جو حقوق اور فرائض اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے متعین کیے ہیں ا ُن پر وہ اکتفاء نہیں کررہے ہوتے۔ جبکہ یہ وہ معاملات ہیں جن کے لیے دینی تعلیمات ہی کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ معاملے کی یہ اہمیت صرف نئے جوڑے کے لیے ہی نہیں بلکہ سب کے لیے ہے۔ ان کے لیے بھی جو کئی برس پہلے شادی کے اس بندھن سے بندھ چکے ہیں اور وہ بھی کہ جو ابھی پائپ لائن میں ہیں ‘ یہ بات سب کو سمجھنی چاہیے۔ اسی لیے یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اس ضمن میں ہمیں بنیادی تعلیمات حاصل ہوں ۔
عورتوں کے حقوق
رسول اللہﷺ نے جو دین ہمیں عطا کیا اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں حقوق اور فرائض کا نظام مقرر کر دیا گیا تاکہ ہر شخص اپنی حدود (limits) میں رہے۔ چنانچہ عورتوں کے حوالے سے فرمایا گیا :
{وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ} (البقرۃ:۲۲۸)
’’اور ان( عورتوں) کے بھی ایسے ہی حقوق ہیں جیسے ان کی ذمہ داریاں ہیں دستور (شریعت) کے مطابق۔‘‘
بظاہر یہ بہت سادہ سی بات ہے لیکن در حقیقت ایک بہت بڑی خبر دی گئی ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کے کوئی حقوق نہیں تھے ۔ جیسے دوسرا مال اور میراث ہوتی ہے ‘ اسے بھی ویسے ہی محض ایک مال سمجھا جاتا تھا۔ مرد کو لبھانے والی ایک ہستی سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ یہ صرف دورِ جاہلیت کی بات نہیں بلکہ عیسائیت کے اندر آج بھی عورت کا یہی تصور ہے۔ ان کے انسائیکلوپیڈیاز کے اندر بھی اس کی یہ حیثیت درج ہے۔ ان کے نزدیک عورت کوئی ایسی مخلوق نہیں جو جنت میں داخل ہو سکے۔ لفظ evilبھی Eveسے اخذ کیا گیا ہے کہ عورت تو گویا برائی کا سر چشمہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی اصل تعلیمات ایسی ہی تھیں‘ اصل میں ان کے ہاں تحریفات ہوئی ہیں۔ یہ بس دنیا کی ایک ریت چلی‘ جس کے نتیجے میں یہ تصوّرات وہاں پر بھی پیدا ہو گئے۔ جیوئش انسائیکلوپیڈیا کے اندر بھی اسی قسم کی باتیں لکھی ہیں کہ اللہ کے تقرب اور اس کی رضا کے معاملات سے عورت کا کوئی لینا دینا نہیں‘ یہ سب مَردوں کے کام ہیں۔ ایسے حالات میں قرآن حکیم نے جب یہ فرمایا کہ عورتوں کے بھی حقوق ہیں تو یہ خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ اگرچہ مرد و عورت کے حقوق کی نوعیت قدرے مختلف ہے لیکن بہرحال یہ تسلیم کیاجانا چاہیے کہ عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔ ان حقوق کو معیّن (establish) کرنے کے حوالے سے قرآن مجید میں جابجا ا س کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
مرد کی قوامیت کا صحیح مفہوم
قرآن کا اعلان ہے کہ :{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاۗءِ} (النساء:۳۴) ’’مرد قوام ہیں عورتوں پر۔‘‘ یہ اصول اُس نقطہ نظر سے یکسر مختلف ہے جو آج کے دور میں عوام میں پیدا ہوگیا ہے اور اسے زبردستی قابلِ قبول بنایا جا رہا ہے۔ ’’قوام‘‘ کا اصل مطلب سرپرست‘ منتظم اور نگران ہے۔ یعنی یہ کہ عورت کی سرپرستی‘ کفالت اور اس کی ضروریات پوری کرنا مرد کے ذمہ ہے۔ گویا یہ نہیں ہے کہ عورت اپنی کمائی خود لے کرآئے اور اپنا خرچہ خود پورا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت پر معاشی طور پر کوئی ذمہ داری رکھی ہی نہیں۔ چھوٹی بچی ہے تو باپ اس کا کفیل ہے۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہے تو چچا یا بھائی کفیل ہیں۔ جب شادی کر دی گئی تو اب اس کا کھانا‘ پینا‘ کپڑا‘ رہائش سب شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اگر شوہر نہیں رہا تو بیٹے ذمہ دار ہیں۔ عورت کو تو کبھی نہیں کہا گیا کہ تم نے کمانا ہے ۔اس قسم کے معاشی بوجھ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو آزاد کر دیا۔ چنانچہ {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاۗءِ} کامطلب صرف یہ نہیں ہے کہ مرد عورتوں پرحاکم ہیں‘بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مرد ذمہ دار ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ نے مَردوں پر ڈال دی۔ مرد کی اس ذمہ داری کو بیلنس کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خاندان کو ایک ادارہ بنا دیا جائے۔ اور یہ ایک امر ِواقعہ ہے کہ کسی بھی ادارے کے اندر برابر کے حقوق رکھنے والے دو سربراہ نہیں ہوسکتے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو سربراہ بنایا‘ اس لیے کہ وہ خِلقی اور وہبی اعتبار سے (by default) بھی اس ذمہ داری کا زیادہ اہل ہے {بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ} ’’بسبب اُس فضیلت کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہے‘‘ اور کسب و اکتساب کے حوالے سے بھی اس منصب کے قابل ہے {وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ط} ’’اور بسبب اس کے کہ جووہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں ‘‘۔مرد اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ مہر مرد دیتا ہے‘ نفقہ مرد ادا کرتا ہے۔ دنیاوی امور کے لیے بھاگ دوڑ کرنا ‘محنت کرنا‘کمانا‘ یہ ساری ذمہ داریاں مرد کی ہیں‘اس لیےمرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنا دیا تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ اہل و عیال کے ضمن میں مرد کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم و تربیت کا وہ اہتمام کرے {قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا.....} (التحریم:۶) نان نفقہ و سکنیٰ کا بند و بست کرے ((وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)) وغیرہ وغیرہ۔
بہترین لوگ کون؟
اس ضمن میں تیسری بات رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی روشنی میں سمجھ لیجیے۔ آپؐ نے فرما دیا: ((خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ))’’تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘ ان سے حسنِ سلوک کرنے والے ہیں۔ یہ نہیں کہ مرد گھر میں آئے توایسے محسوس ہو جیسے کرفیو لگ گیا ہو۔ہرطرف سناٹا چھا جائے کہ میرا بڑا رعب اور دبدبہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسا کلچر موجود ہے‘ جس کا رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ہمارےہندوانہ بیک گرائونڈ کی وجہ سے ہے۔ رسول اللہﷺ نے تو اپنے آپ کو بطور مثال پیش فرمایا : ((وَاَنَاخَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ))(سنن الترمذی:۳۸۹۵) ’’اور مَیں اپنے اہل وعیال کے حق میں تم میں سب سے بہتر ہوں۔‘‘ اگر تم چاہتے ہوکہ تمہارا گھرانہ امن و آشتی کا مرکز بنے تو ذرا میرااُسوہ اور نمونہ دیکھ لو۔ آج جب ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ اپنے آپ سے شرم آنے لگتی ہے ۔ ہمارا طریقہ کیا ہے اور رسول اللہ ﷺکا اُسوہ کیا ہے! رسول اللہﷺ کی ایک نہیں ‘دو نہیں بلکہ بیک وقت نو تک بیویاں تھیں۔ یہاں تو کسی کی دو ہوں تو اُس کے لیے زندگی اَجیرن ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ بیک وقت نو ازواج کےشوہرتھے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کا طرزِ عمل یہ تھا کہ اپنا کام خود کرتے تھےاور اپنی ازواج کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔ہم تو اُٹھ کے پانی پینے کے بھی روادار نہیں ہیں ۔ ایسے شخص کو آج زن مرید کہا جاتا ہے۔ سوچ سمجھ کے بات کہنی چاہیے کہ اس کی زد کہاں جا کر پڑتی ہے۔ کبھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ کسی زوجہ کو آپؐ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو۔ اگر کوئی ناخوشگوار معاملہ ہوا بھی ہے تو آپ ﷺ نے خود اپنے اوپرجھیل لیا‘ازواج کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یا زدوکوب کرنا آپؐ کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ ہے رسول اللہﷺ کااُسوہ۔
غلاموں اور عورتوں کے حقوق کا تاکیدی حکم
رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں ایسی باتیں فرمائی ہیں کہ جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اس خطبہ کے بعد نہ کوئی آیت نازل ہوئی ہے نہ آپﷺ کا کوئی اور فرمان ‘ لہٰذا ایک اعتبار سے یہ آپؐ کا حتمی اور فیصلہ کن بیان تھا۔ اس میں آپﷺ نے دو طبقات کاخاص طو رپر ذکر کیا ‘اس لیے کہ اُس معاشرے میں وہ پسے ہوئے طبقات تھے ۔ ایک غلاموں کا طبقہ اور ایک عورتوں کا ۔ ان دونوں سے معاملات رکھنے کے بارے میں بڑے سخت الفاظ ہیں۔غلاموں کے بارے میں فرمایا:
((اِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمُ اللّٰهُ تَحْتَ اَيْدِيكُمْ، فَمَنْ جَعَلَ اللّٰہُ اَخَاہُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَاْكُلُ وَيَلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبِسُ، وَلَا یُکَلِّفُہُ مِنَ الْعَمَلِ مَا يَغْلِبُہُ، اِنْ كَلَّفَہُ مَا یَغْلِبُہُ فَلْیُعِنْہُ عَلَیْہِ))(صحیح البخاری:۲۳۷۱)
’’یہ تمہارے بھائی ہیں ۔(ان سب کے جد امجدبھی حضرت آدم علیہ السلام ہی ہیں ۔ یہ تم سے مختلف نہیں ہیں۔ان کو پیدا کرنے والا بھی اللہ ہی ہے ۔)اللہ نے انہیں تمہارا دست نگر بنا دیاہے۔ اگر اللہ نے کسی کے بھائی کو اس کا دست نگر بنا دیا ہے (اگر کوئی بھائی اس حیثیت میں تمہارے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے) تواب تمہارا ذمہ یہ ہے کہ اسے وہی کچھ کھلاؤ جو خود کھاتے ہو ‘وہی کچھ پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔ اور اس پر کوئی ایسا بوجھ مت ڈالنا جس کےتلے وہ دب کے رہ جائے ۔ اگر کوئی کام محنت طلب ہے تو اس میں اس کی مدد کرو۔‘‘
عورتوں کے ضمن میں تو حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ہدایات دیں۔ کہیں فرمایا: ((اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَاءِ خَیْرًا))(متفق علیہ) ’’عورتوں کے ضمن میں میرا انتہائی تاکیدی حکم قبول کرو۔‘‘ کہیں فرمایا: ((اِتَّقُوا اللّٰہَ فِی النِّسَاءِ)) (صحیح مسلم:۱۲۱۸)’’عورتوں کے معاملات میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ یہ بھی فرمایا: ((فَاِنَّھُنَّ عَوَانٌ عِنْدَکُمْ)) ’’وہ تمہارے پاس ایسے ہوتی ہیں گویا قیدی ہوں‘‘۔ ایک گھر وہ تھا جہاں بچپن گزارا ہے ‘لڑکپن گزارا ہے ۔وہاں تو شہزادیاں تھیں‘ کیونکہ باپ کا گھر تھا۔اب جس گھر میں آئی ہیں تویہاں اجنبی ہیں ۔یہاں سب نئے لوگ ہیں‘ ایک نیا ماحول ہے ۔ پھر فرمایا: ((اَخَذْتُمُوْھُنَّ بِاَمَانَۃِ اللّٰہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَھُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ))’’تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امانت کے طور پر حاصل کیا ہے اور ان سے مقاربت اللہ تعالیٰ کے کلمہ (ایجاب و قبول) کے ذریعے اپنے اوپر حلال کی ہے۔‘‘ حقوق اور فرائض کے ضمن میں فرمایا: ((وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)) (صحیح مسلم:۱۲۱۸) ’’تمہارے ذمے ہے ان کا کھانا پینا اور پوشاک (کپڑا‘ نفقہ اور ان کی رہائش) معروف اور دستور کے مطابق۔‘‘
عورت کی بنیادی ذمہ داری
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاۗءِ.....} (النساء:۳۴) اسی آیت مبارکہ میں آگے نیک عورتوں کی خصوصیات کے ضمن میںفرمایا : {فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ ط} ’’پس جو نیک بیویاں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں‘ غیب میں حفاظت کرنے والیاں اللہ کی حفاظت سے‘‘۔ گویا اللہ نے یہ پیمانہ دے دیا کہ نیک عورتیں وہ ہیں جو فرماں بردار ہیں۔ صرف اللہ کی فرماں بردار نہیں بلکہ اپنےشوہر کی بھی تابع فرمان! چنانچہ خاندان کے ادارے میں آخری فیصلہ مرد ہی کا ہو گا جسے خواہی و نہ خواہی ماننا پڑے گا۔ عورت اسے چیلنج نہیں کرسکتی۔اسی طرح سے وہ مرد کے نام و ناموس‘ عزت و آبرو‘ اور اس کے مال کی حفاظت کرنے والیاں ہیں۔ یہ نہ ہو کہ رہنا تو کسی کے گھر میں ہے‘ منکوحہ کسی کی ہے لیکن تاریں کہیں اور جُڑی ہوئی ہیں اور ہدایات کہیں سے لی جا رہی ہیں۔ چونکہ آج کل ہر کسی کی جیب میں gadgets آگئے ہیں‘ لہٰذا شیطان اپناکام دکھاتا ہے ۔ شوہر تو سارا دن گھر میں نہیں ہوتا۔ اس نے کام پر چلے جانا ہوتا ہے‘ پھر عورت ہی اس گھر کی مالکہ ہے ۔لہٰذا اب اسی کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ بالا معاملات کی حفاظت کرے۔
خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((وَلَکُمْ عَلَیْھِنَّ اَلَّا یُوطِئْنَ فُرُشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَھُوْنَہُ)) ’’اور ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہاری خواب گاہوں میں( تمہارے گھروں میں) کسی ایسے شخص کو آنے کی اجازت نہ دیں جو تمہیں ناپسند ہو‘‘۔ یعنی شادی کے بعد اب کوئی بے وفائی قبول نہیں ہوگی۔ جس کی منکوحہ ہے ‘اب تمام وفاداریاں اسی کے لیے ہیں۔ اگر اس معاملے میں کوئی خطا کرے تو اسے سمجھاؤ۔ اس کی خواب گاہ علیحدہ کر دو‘ بستر علیحدہ کر دو۔ اگر وہ پھر بھی نہیں مان رہی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مرد کی اتھارٹی کو چیلنج کر رہی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں تادیباً انہیں مارنے کی بھی اجازت ہے۔ چنانچہ فرمایا: ((فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ)) (صحیح مسلم:۱۲۱۸) ’’پھر اگر وہ ایسا کریں تو انہیں ایسی مار مارو جو زیادہ تکلیف دہ نہ ہو۔‘‘ خیال رہے کہ ایسا صرف انتہائی صورت حال میں ہوگا۔ روز مرہ امور میں----- کہ یہ کیوں ہو گیا اور فلاں چیز یہاں کیوں پڑی نظر آ گئی‘ یا پھر کھانا نہیں صحیح بنا! ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ یہ معاملات عورت کی بنیادی ذمہ داری میں نہیں آتے‘ لہٰذا ان پر اس قسم کی سرزنش نہیں کی جائےگی۔ اگر اس اقدام کی اجازت ہے تو صرف بے وفائی کے معاملے میں۔ درست ہے کہ ہمارے ہاں جو عرف اور جو رسم و رواج ہیں‘ دین انہیں بھی ایک حد تک تسلیم کرتا ہے۔ عورت گھر کا کام کاج کرتی ہے تو یہ اس کی مہربانی ہے‘ اس لیے کہ مرد بھی اپنی بساط سے بڑھ کر اپنا سب کچھ اس کے لیے نچھاور کیے دیتاہے۔ لہٰذا :{ہَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ(۶۰)} (الرحمٰن) ’’ احسان اور بھلائی کا بدلہ تو احسان ہی ہے۔‘‘بہر حال اصل اور بنیادی ذمہ داری رسول اللہ ﷺ نے انتہائی جامعیت کے ساتھ خطبہ حجۃ الوداع میں بیان کردی۔
خطبہ ٔنکاح کا لب ِلباب : تقویٰ اور خداخوفی
ابھی جوخطبہ نکاح آپ نے سماعت کیا ہے ‘اس کا ترجمہ اور سادہ مفہوم بھی سن لیجیے۔ یہ مسنون خطبہ ہے۔ رسول اللہﷺ جب بھی کسی کا نکاح پڑھاتے تھے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہوتی۔ اس لیے کہ اللہ ہی نے ہمیں پیدا کیا ہے‘ وہی ہمارا رازق ہے ‘مالک ہے‘ سزاوارِ حمد و ثنا ہے۔ اس کے بعد آپﷺ کلمہ شہادت ادا فرماتے: اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ ------گویا ایمان کی تجدید ہوگئی ۔
اس کے بعد آپ کے سامنے سورۃ النساء‘ سورئہ آلِ عمران اور سورۃ الاحزاب کی چار آیات تلاوت کی گئی ہیں‘جو اس موقع کے لیے نبی اکرمﷺ کا انتخاب ہے۔ان آیات میں اصل فوکس (focus) اور زور (emphasis) تقویٰ اور خدا خوفی پر ہے۔ اس لیے کہ اس دنیا اور آخرت میں کامیابی اور فلاح کا ضامن اللہ کا خوف ہی ہے۔ جس بندھن میں آج ایک جوڑا بندھنے جارہا ہے‘ اس کی بھی کامیابی‘ بلکہ خوشی کی ضمانت تقویٰ اور خدا خوفی میں ہے ‘ کسی اور شےمیں نہیں ۔مال و دولت ثانوی چیزیں ہیں ۔ اہل و عیال کی طرف سے خوشی کا اظہار اور دھوم دھڑکّا ثانوی کیا ثالثی چیزیں ہیں۔ اصل شے خداخوفی ہے۔
سورۃ النساء کی پہلی آیت: خطبہ نکاح میں نبی اکرمﷺ سب سے پہلے سورۃالنساء کی پہلی آیت تلاوت فرماتے تھے:
{یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا}
’’ اے لوگو !اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان (یعنی حضرت آدمؑ) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔‘‘
حدیث میں اس کی وضاحت آتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام ہی سے اللہ تعالیٰ نے حضرت حواؑ کو پیدا کیا۔ سورۃ الحجرات میں بھی فرمایا: {یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی} (آیت۱۳) ’’اے لوگوا! ہم نے تمہیں ایک مذکر اور ایک مؤنث سے پیدا کیا ہے۔‘‘ یہ اللہ کی تخلیق ہے۔ تم سب ایک نوع سے ہو لیکن صنفیں مختلف ہیں ۔کوئی مذکر ہے ‘کوئی مؤنث۔ البتہ آج کل اس صنفی امتیاز کو ختم کرنے کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آزادیٔ نسواں (Women Lib) کی تحریک‘ وومن ایمپاورمنٹ کی تحریک تاکہ خواتین کو خود مختار بنایا جائے۔ اسی طریقے سے Women Emancipation کی تحریک ہے۔
اس سب کے لیے جو tool استعمال کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ مرد اور عورت میں کوئی امتیاز نہیں ہے‘ دونوں بالکل برابر ہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر تیسری جنس جسے ہم مخنث کہتے ہیں ‘ اس کے نام سے یا اس کی اوٹ میں وہ تحریک چلائی جا رہی ہے جو شیطانی اور دجالی تحریک ہے ۔ ’’ایل جی بی ٹی‘‘ کا قانون پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاس ہو رہا ہے ۔ایک عام آدمی کو اس کے نتائج کی پرواہ نہیں ہے لیکن درحقیقت پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میںآ رہا ہے ۔قانون میں اسے سب سے اونچی جگہ دی جا رہی ہے ۔اگر ایل جی بی ٹی کا قانون پاس ہو چکا ہے تو اس کے خلاف کوئی کام کرنے سے overwhelming effect اسی قانون کا ہو گا۔روایات ‘ دین اور مذہب یہ سب ثانوی چیزیں ہو گئی ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ بے حیائی اور بے غیرتی کی راہ ہموار کردی گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے تو مذکر اور مؤنث پیدا کیے‘اگرچہ بعض لوگوں میںdeformity ہوتی ہے لیکن دین میں اس کے احکام بھی دیے گئے ہیں۔ یہ باتیں کہیں مبہم نہیں چھوڑی گئیں۔ بہرحال شیطانی ایجنڈا پنی جگہ موجود ہے ۔آگے فرمایا:
{وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج}
’’ اور ان دونوں سے (یعنی آدم اور حوا سے) اللہ نے کثیر تعداد میں انسانوں کو (پیدا کرکے زمین میں) پھیلا دیا۔‘‘
تمام انسان ایک اللہ کے پیدا کردہ اور ایک جوڑے کی اولاد ہیں۔ چنانچہ ان میں نہ کوئی اونچا ہے نہ نیچا۔ کسی کو نسبی اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے اونچا اور نیچا نہیں بنایا ‘اس لیے کہ سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ ایک گھر میں تمام بھائی آپس میں برابر ہوتے ہیں۔ اسی طریقے سے ایک سطح وہ آتی ہے جہاں حضرت آدم علیہ السلام پر جا کر تمام انسان برابر ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ سب کا خالق اور مالک ایک ہی ہے ۔یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کا خالق کوئی اعلیٰ سطح کا الٰہ ہے اور کچھ کا کم سطح کا۔ جب خالق بھی ایک ہے ‘ جد امجد بھی ایک ہے توشریعت میں اونچ نیچ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ اللہ کے ہاں اگر کسی کا کوئی مقام اور مرتبہ ہے تو وہ محض تقویٰ کی بنیاد پر ہے۔ چنانچہ سورۃ الحجرات میں فرمایا: {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ ط}(آیت۱۳) یعنی تم میںجو زیادہ متقی ہے وہ اللہ کے ہاں زیادہ معتبر ہے‘ اس کا احترام زیادہ ہے۔ یہ امر بھی قابلِ توجّہ ہے کہ جب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے درمیان ایسی مہر و محبت ہونی چاہیے جیسے کہ ایک خاندان کے افراد میں ہوتی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
{وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ}
’’ اور اُس اللہ کا تقوی اختیار کرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔‘‘
کوئی مدد مانگنی ہوتی ہےتو اللہ کے نام پر‘ حق مانگنا ہوتا ہے تو بھی اللہ کے نام پر ۔ جھگڑے ہوجاتے ہیں تو بھی آخر میں کہتے ہیں کہ بھائی اللہ کا نام لو‘ خدا کے واسطے معاملے کوطول نہ دو۔ بتایا جا رہا ہے کہ جس اللہ کے نام پر یہ سب کچھ کرتے ہو ‘اگر اُس اللہ کا تقویٰ اختیار کروگے‘ اُس کے احکام پر عمل کرو گے تو مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے اور تمہاری زندگی بھی ایک خوش گوار زندگی ہوگی۔ اگر تم اُس کے احکام پر چلوگے توایسی زندگی ایک طرح سے عبادت متصور ہو گی۔
{وَالْاَرْحَامَ ط} ’’اور (دیکھو!) رحمی رشتوں کا بھی (تقویٰ اختیار کرو)۔‘‘
اگرچہ حضرت آدم علیہ السلام پر تو تمام انسان برابر ہیں لیکن اس کے نیچے’’اَلْاَقْرَبُ فَالْاقْرَبُ‘‘ کی بنیاد پر قریبی رشتے وجود میں آتے ہیں۔ کچھ لوگ ہیں کہ جو ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ‘ان کا حق دوسروں سےفائق ہے ۔ ان کے حقوق کی پاس داری ‘ان کی ذمہ داری زیادہ بڑی ہے بہ نسبت دوسروں کے‘ جوذرا زیادہ دُور کے ہیں ۔ اب اس نکاح سے بعض نئے ’’رحمی رشتے‘‘ وجود میں آرہےہیں جن کے اپنے حقوق ہیں۔ایک انسان کا اپنا خاندان ہوتا ہے اورا یک اس کی بیوی کا خاندان ‘ یعنی سسرال۔یہ سب کے سب گویا اب رحمی رشتے سے بندھ گئے ہیں ۔ چنانچہ ان کے حقوق فائق ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی وجہ سے تم اللہ کے کٹہرے میں کھڑے ہوجائو۔چنانچہ آیت کے آخر میں فرمایا:
{اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِـیْـبًا(۱)} ’’یقیناً اللہ تم پر نگران (نگہبان) ہے۔‘‘
تم اللہ سے چھپ نہیں سکتے۔تمہارے تمام شب و روز اُس کی نگاہ میں ہیں۔
سورئہ آلِ عمران‘آیت۱۰۲: خطبہ نکاح کی دوسری آیت سورئہ آل عمران کی آیت۱۰۲ ہے۔ فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ }
’’ اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ (جتنا کہ) اُس کے تقویٰ کا حق ہے۔‘‘
یہ تاکید کی انتہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ ہی ہمارا خالق ‘ مالک ‘ روزی رساں ہے۔ اس نے ہمیں وہ احکام دیے ہیں جو ہمارے ہی بھلے کے لیے ہیں۔یوں کرو گے تو تمہارا بھلا ہوگا اور یوں نہیں کرو گے تو تمہارا نقصان ہوگا۔ پھر اللہ ہی وہ ہستی ہے جس کے حضور ہمیں مرنے کے بعد پیش ہو نا ہے۔ جب آغاز بھی اللہ ‘اختتام بھی اللہ ‘درمیان میں بھی ہر معاملے میں اللہ ہی اللہ ‘تو پھر اصل سزوارِ تقویٰ بھی اللہ ہی ہے! ذرا سوچیے‘ انسان عام طور سے اسی حد تک مکلف ہوتا ہے جتنی اس کے اندر استطاعت ہوتی ہے۔ یہاں وہ اسلوب نہیں ہے بلکہ رسپانسبلٹی اس کی استطاعت سے بھی بڑھ کر مانگی جا رہی ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے ! اس کی بھی وجہ اور حکمت وہی ہے جو سطور بالا میں بیان کی گئی ۔ ہم کہتے ہیں: اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ’’یقیناً ہم اللہ ہی کے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں‘‘۔ لہٰذا ’’حَقَّ تُقٰتِہٖ‘‘ بہت سخت اسلوب ہے۔ پھر اس کی انتہا(extent) بھی بتائی جا رہی ہے ۔ فرمایا:
{وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)}
’’ اور (دیکھو) تمہیں موت نہ آنے پائے مگر فرماں برداری کی حالت میں۔‘‘
گویا انسان کو ہر آن ‘ ہرلمحے اپنے ہرہر قول ‘ ہر ہر عمل کودیکھنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے کوئی غلط عمل سرزد ہو جائے ‘ زبان سے کوئی غلط بات نکل جائے اور مَیں اللہ کی پکڑ میں آ جاؤں۔ اگر کبھی ایسا ہو جائے‘ اس لیے کہ انسان سے بھول چوک بھی ہو جاتی ہے‘جذباتیت میں غلط کام بھی ہوجاتے ہیں‘ تو فورا ًتوبہ کرو‘ استغفار کرو‘ اللہ معاف فرما دے گا۔ تقویٰ کا یہ معیار صرف جمعہ کے دن یا رمضان میں نہیں بلکہ موت تک چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری زندگی تو انسان دکھاوے کے لیے کچھ کرتا رہا لیکن عین موت کے وقت اس سے کوئی معصیت سرزد ہو جائے۔ لہٰذا محتاط طرزِ عمل کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہیے کہ آخری سانس پر ایمان کی موت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوں۔
سورۃ الاحزاب‘آیات ۷۰ و ۷۱: پھر دو آیتیں سورۃ الاحزاب کی ہیں جو رسول اللہ ﷺ اس موقع پر تلاوت کر کےتذکیر فرماتے تھے:
{یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا(۷۰)}
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو (خداخوفی اختیار کرو) اور بات کرو تو سدید بات کرو۔‘‘
زبان کا تقویٰ اور اس کے غلط استعمال کی ممانعت
جیسے رحمی رشتوں کا تقویٰ بتایا گیا تھا‘ اب ایک اور شے کے تقویٰ کا ذکرہے ۔ یہ زبان کا تقویٰ ہے ۔ زبان سے وہی بات کرو کہ جو ’’سدید‘‘ ہو‘ صحیح ہو۔حیوانِ ناطق کو انسان بنانے والی شےگویائی ہی ہے‘ البتہ یہی اس کے لیے سب سے بڑا وبال بن جاتی ہے اگر اس کا غلط استعمال ہو۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ انسان کو جہنم میں لے جانے والی سب سے بڑی شےزبان کی کھیتیاں ہیں ((حَصَائِدُ الْأَلْسِنَۃ))۔ یہی وجہ بن جائے گی کسی شخص کو جہنم میں دھکیلے جانے کی کہ اُس کی زبان قابو میں نہیں تھی‘ زبان دراز تھا۔ شادی بیاہ اور گھرگرہستی کے معاملے میں سب سے زیادہ تباہ کن شے یہی ہوتی ہے۔ ذرا ایسی بات کہہ دی جو کہنے کا حق نہیں تھا تو ایسے دل پر لگتی ہے کہ پھر اس کا زخم مندمل نہیں ہو سکتا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ تم مجھے زبان کی ضمانت دے دو‘ میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
’’قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘ بہت بامعنی اور جامع الفاظ ہیں۔یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ: قُوْلُوْا قَوْلًا صِدْقًا ’’سچی بات کرو‘‘یا پھر قُوْلُوْا قَوْلًا حَقًّا ’’حق بات کرو۔‘‘لیکن لفظ ’’سدید ‘‘ فرمایا۔ اس کی وضاحت کے لیے سورۃالحجرات کی آیت ۱۱ ملاحظہ کیجیے: {یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ....} ’’اے اہل ایمان! ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا کرو....‘‘ {وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ} ’’اور ایک دوسرے کو طعنے مت دیا کرو۔‘‘ {وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط}’’ اورایک دوسرے کے چھیڑکے نام مت رکھو۔‘‘ دوسرے کو چڑانے کے لیے چھیڑ کے نام رکھ دینا بھی قولِ سدید کے خلاف ہے ۔ آگے فرمایا: {وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط}’’اورایک دوسرے کی غیبت مت کرو۔‘‘ غیبت جھوٹ نہیں ہوتا۔ غیبت میں آپ اپنے کسی بھائی‘ دوست‘ عزیز کی کوئی برائی کسی دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں جب کہ وہ اُس وقت موجود نہیں ہے اور اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ آپ نے اگرچہ صحیح بات کی ہے لیکن وہ وہاں موجود نہیں۔ آپ نے کوئی جھوٹ نہیں کہا ‘لیکن اسے غیبت کہا گیا ہے۔ یہ اتنا قبیح عمل ہے کہ اسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ سچ بات کہنے کے لیے بھی پہلے موقع دیکھو۔ اگر جھوٹ ہوتا تو وہ بہتان ہوتا‘ وہ تو تہمت ہوتی۔ یہاں ایک سچی بات کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے بھی رک جاؤ‘ اس لیے کہ اس کا موقع نہیں۔ لہٰذا جس بات کے اندر یہ ساری آلائشیں نہ ہوں وہ ’’قولِ سدید‘‘ ہے۔
شادی بیاہ کے معاملے میں سب سے زیادہ جس چیز کی اہمیت ہے وہ زبان کی حفاظت ہے۔ سارا فتنہ وفساد یہیں سے شروع ہوتاہے۔یہ ایک چھوٹا سا ہتھیار ہے‘ جسے چلاتے ہوئے کوئی بہت زیادہ تردّد کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‘ لیکن بسا اوقات یہ جا کر اس طرح سے لگتا ہے کہ دل کے آر پار ہو جاتا ہے اور اس کا لگا ہوا زخم مندمل بھی نہیں ہوتا۔ اسی لیے اس موقع پر زبان کے تقویٰ کا حکم سنایا جا رہا ہے۔ اگر یہ کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ:
{یُّصْلِحْ لَـکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْلَـکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط}
’’اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح کردے گا اور تمہارے گناہوں کو بھی بخش دے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ تمہارے معاملات کوسنوار دے گا۔ یہ نہیں کہا گیا کہ خود بخود سنور جائیں گے‘ بلکہ اللہ سنوار دے گا۔ صرف یہی نہیں‘بلکہ مغفرت کا پروانہ بھی مل جائے گا۔
آیت کے آخر میں ایک اہم اصول بیان کر دیا گیا کہ دنیا اور آخرت میں عظیم کامیابی کے حصول کے لیے تمہیں اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنا ہو گی:
{وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱)} (الاحزاب)
’’ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کی اطاعت کرتا ہے (اس پرکاربند رہتا ہے) اس نے تو عظیم کامیابی حاصل کرلی۔‘‘
نکاح سُنّت ِنبویؐ ہے!
پھر دو حدیثیں ہیں جو اس موقع پر عام طور سے سنائی جاتی ہیں۔ پہلی حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ)) ’’نکاح میرا طریقہ ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تقرب اور اُس کی رضا حاصل کرنے کی خاطر تمہارے لیے یہ راستہ نہیں رکھا گیا کہ تم گھر گرہستی چھوڑ دو‘ آبادیاں چھوڑ دو‘کسی ویرانے میں یا کسی پہاڑ پر تپسیائیں شروع کر دو۔ نہیں! شریعت ِمحمدی ؐمیں اس کا راستہ یہ ہے کہ تم گھر کی ذمہ داریاں ادا کرو‘ حقوق اور واجبات ادا کرو۔ اگر تم یہ سب اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کر رہے ہو تویہ تمہارا ایک دینی عمل ہے‘ یہ تمہاری عبادت ہے۔ اسی لیے آپ ﷺنے اس کو تقدس (sanctity) عطا فرمایا کہ ((اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ)) ’’نکاح میری سُنّت میں سے ہے۔‘‘ویسے تو نکاح انسان کی طبعی ضرورت بھی ہے ‘ نفسیاتی ضرورت بھی ہے لیکن جب فرمایا کہ ((اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ)) تو ایک اور جہت کا اضافہ ہو گیا کہ اب یہ ایک دینی ضرورت بھی ہے۔
دوسری حدیث جو کہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے‘ وہ گویا خطرے کی گھنٹی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ))(متفق علیہ) ’’جسے میری سُنّت پسند نہیں ہے‘ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ اس سے ملتے جلتے الفاظ سنن ابن ماجہ کی (مندرجہ بالا)روایت میں بھی ہیں۔ ((اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ)) کے بعدفرمایا: ((فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ))(ابن ماجہ:۱۲۱۸) ’’ جس نے میری سُنّت پر عمل نہیں کیا‘ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے۔‘‘ یہ بڑی سخت وعید ہے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے امتی کی حیثیت سے ہم یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ میدانِ حشر میں آپؐ کی شفاعت ہمارے کام آئے گی‘ لیکن رسول اللہﷺ نے پہلے سے نوٹ آف وارننگ دےدیا ہے کہ تم آئے تو شفاعت کا سوچ کر ہو لیکن کیا تمہارا منہ ہے کہ تمہاری شفاعت کی جائے!ساری زندگی تم نے میری سنتوں کو اپنے پیروںتلے پامال کیا۔ صرف نکاح کی سُنّت پر عمل کرنے سے اس حدیث کا تقاضا پورا نہیں ہوتا ۔ سنتوں کو من جملہ آپ ﷺ نے یہ مقام دیا ہےکہ میرے اُمتی ہونے کا تقاضا کیا تھا‘ میرا مشن کیا تھا‘ میری بودوباش کیسی تھی ‘میری وضع قطع کیسی تھی ‘جبکہ تمہارا طرزِ عمل یہ تھاکہ:؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود!مسلمانوں نےآج اپناحال یہ بنا رکھا ہے۔ یہ ایک خطرے کی بات بھی ہے لیکن جو لوگ رسول اللہ ﷺ کا اتباع کرنے اور آپؐ کی سنتوں پر عمل کرنے کا ارادہ کر لیں ‘عزم کر لیں ان کے لیے خوش خبری ہے ۔ یہ صرف نکاح کی سُنّت کے بارے میں نہیں فرمایا‘بلکہ یہ پوری زندگی میں رسول اللہﷺ کو اپنا مقتدا اور پیشوا ماننے کی بات ہو رہی ہے۔ آپ ﷺ کی بود و باش کیسی تھی‘ آپ ﷺکی وضع قطع کیسی تھی‘ آپ ﷺکی زندگی کا مشن کیا تھا۔ یہ ساری چیزیں مل کر ’’اُسوۂ حسنہ‘‘ بنتی ہیں: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱)
اعلانِ نکاح ضروری ہے!
پھرایک اور حدیث مَیں نے سنائی تھی۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ((اَعْلِنُوا ھٰذَا النِّکَاحَ)) ’’نکاح کا اعلانِ عام کیا کرو۔‘‘ یہ نہیں کہ گھر کے اندر بیٹھ کر دو افراد میاں بیوی بن جائیں‘ بلکہ یہ سب کو پتا ہونا چاہیے کہ فلاں ابن فلاں اور فلاں بنت فلاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو رہے ہیں ۔ اگر خاندان نہیں ہے‘ انسان کہیں دور دراز ہے‘ تب بھی کم سے کم دو گواہ ضرور موجود ہوں۔ اس کے بغیر نکاح کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ ((وَاجْعَلُوْہُ فِی الْمَسَاجِدِ)) ’’اور اسے مساجد میں منعقد کیا کرو۔‘‘ یعنی نکاح کی محفل مسجد میں منعقد ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج آپ اس فرمان پر عمل بھی کررہے ہیں ۔ اگرچہ اس حصہ حدیث کی سند بہت قوی نہیں ہے لیکن تمام مفسرین و محدثین کے نزدیک مسجد میں نکاح کرنے ہی میں خیر ہے ‘ اسی میں برکت ہے۔ اس لیے کہ آپ دعا کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں‘ مبارکباد دے رہے ہیں‘ اور اس کے لیے اس سے زیادہ بہتر ماحول ہو نہیں سکتا۔ نماز سے فارغ ہوئے ہیں‘ باوضو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو امید ہے کہ جو خیر و برکت کی دعا کریں گے وہ اللہ کے ہاں قبول ہوگی ۔ ویسے تو نکاح کہیں پر بھی ہوجائے گا‘ لیکن خیر و برکت کی دعا کے لیے مسجد سے بہتر جگہ کوئی نہیں۔
خوشی ضرور منائیں مگر......
حدیث کےآخر میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((وَاضْرِبُوْا عَلَیْہِ بِالدُّفُوفِ)) (ترمذی:۱۰۸۹‘ ابن ماجہ:۱۸۹۵) ’’اور اس پردف بھی بجا لیا کرو۔‘‘ دف بجنے سے اعلان بھی ہو جائے گا اور خوشی منانے کا جو صحیح طریقہ ہے وہ بھی رسول اللہ ﷺ نے بتا دیا۔خوشی کا یہ مطلب نہیں کہ آپے سے باہر ہو جاؤ۔ جیسا کہ بدقسمتی سے شادی بیاہ کے موقع پر ہو رہا ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں چلے جاتے ہیں بڑے بزرگ جو کہ سمجھ بھی رکھتے ہیں‘ وہ بھی ایک طرح سےعضو معطل ہو جاتے ہیں ۔ناچ گانا ہو رہا ہے ‘باجے بجائے جارہے ہیں ۔ الغرض اللہ کی معصیت والے تمام کام اسی موقع پر ہورہے ہیں ۔ حالانکہ ایک نئے گھر کی بنا پڑ رہی ہے اور اس کے لیے تو خیر و برکت کی دعا ہونی چاہیے ‘لہٰذا اس کا بھی ادب اور سلیقہ ہے کہ اسے کیسے celebrateکرنا ہے۔ ہمارے دین نے اسے بالکل خشک بھی نہیں بنا دیا۔رسول اللہﷺ نےدف بجانے کی اجازت دی ہے ۔ اس موقع پر بچیاں اگر دف بجا لیں‘ خوشی کے گیت گا لیںتویہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر آلاتِ موسیقی‘ بے پردگی اور بے حیائی یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن کی وجہ سے ہمارے اس نیک کام میں بھی بے برکتی پیدا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ان باتوں میں سے جو حق بات ہے اس پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے اور اگر کوئی بات مجھ سے غلط صادر ہوئی ہے تو اللہ مجھے معاف فرما دے اور اسے ہمارے ذہنوں سے محو کردے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین
tanzeemdigitallibrary.com © 2024