(سالِ نو مبارک) محرّم الحرام:نئے ہجری سال کا آغاز - ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی

12 /

محرّم الحرام : نئے ہجری سال کا آغازڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی 

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے‘ یعنی اس سے ایک نئے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے۔ محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اس نسبت سے محرم کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ محرم الحرام کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا‘ ایک صحابیؓ نے آکر پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
((اِنْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَھْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہٗ شَھْرُ اللّٰہِ، فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ))(سنن الترمذی۱/۱۵۷)
’’ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو‘ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی‘ اور آئندہ دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔‘‘
جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ بنی اسرائیل ہے ۔ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ عاشورہ (۱۰ محرم الحرام) کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔
یومِ عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے‘ تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں نبی کریمﷺ سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں۔ چنانچہ:
(۱) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یَتَحَرّٰی صِیَامَ یَوْمٍ فَضَّلَہُ عَلٰی غَیْرِہِ اِلَّا ھٰذَا الْیَوْمَ یَوْمَ عَاشُوراءَ وَھٰذا الشَّھْرَ یَعْنِیْ شَھْرَ رَمَضَانَ (صحیح البخاری ۱/۲۶۸، صحیح مسلم ۱/۳۶۰،۳۶۱)
’’مَیں نے نبی کریم ﷺ کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا‘ سوائے اِس دن یعنی یومِ عاشوراء کے‘ اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔‘‘
گویا حضرت ابن عباسؓ نے آپﷺ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپؐیومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے‘ اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
(۲) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنِّی أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتي قَبْلَہُ))(صحیح مسلم۱/۱۵۷ ، سنن ابن ماجہ: ۱۲۵)
’’مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفّارہ ہوجائے گا۔‘‘
(ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السَّنَةَ الَّتِی بَعْدَھَا“ کے الفاظ ہیں۔ کذا فی الترغیب ۲/۱۱۵)
صومِ عاشوراء کے ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم ﷺ نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یومِ عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا‘ دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا‘ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یومِ عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو۔ بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو‘ اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو‘ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے۔
مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے ظاہر ہے کہ یومِ عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے‘ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی سال کی ابتدا محرم الحرام سے ہی کیوں کی گئی جبکہ مدینہ منورہ کی طرف نبی اکرم ﷺ کی ہجرت ربیع الاول میں ہوئی تھی۔اس حوالے سے چند ایسے امور ملاحظہ فرمائیں جن کے متعلق تقریباً تمام مؤرخین متفق ہیں:
۱) ہجری سال کا استعمال نبی اکرم ﷺ کے عہد میں نہیں تھا‘ بلکہ یہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورے کے بعد ۱۷ ہجری میں شروع ہوا۔
۲) ہجری سال کے کیلنڈر کا افتتاح اگرچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا تھا‘ مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرمﷺ کے زمانے‘ بلکہ عرصۂ دراز سے چلی آرہی تھی۔ ان میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذو القعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم الحرام اور رجب المرجب) کی تحدید بھی زمانۂ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشادفرماتا ہے:
{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط} (التوبۃ:۳۶)
’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے‘ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ ‘‘
۳) اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے اجراء سے قبل عربوں میں مختلف واقعات سے سال کو موسوم کیا جاتا تھا‘جس کی وجہ سے عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے‘ البتہ ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام ہی سے ہوتی تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں جب ایک نیا اسلامی کیلنڈر شروع کرنے کی بات آئی توصحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے نبی اکرم ﷺکی ولادت‘ یا آغازِ نبوت‘ یا ہجرت ِمدینہ سے شروع کرنے کے مشورے دیے۔ آخر میں صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مشورہ سے ہجرت ِمدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بناکر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔ رہی مہینوں کی ترتیب تو چونکہ عربوں میں محرم الحرام قدیم زمانے سے سال کا پہلا ہی مہینہ رہتا تھا‘ لہٰذا اسلامی سال کو شروع کرتے وقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
شمسی نظام کے تحت عیسوی کیلنڈر میں ۳۶۵یا ۳۶۶ دن ہوتے ہیں‘ جبکہ قمری نظام کے تحت ہجری کیلنڈر میں ۳۵۴ دن ہوتے ہیں۔ہر کیلنڈر میں ۱۲ ہی مہینے ہوتے ہیں۔ ہجری کیلنڈر میں مہینہ ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے جبکہ عیسوی کیلنڈر میں سات مہینے ۳۱ دن کے‘ چار ماہ ۳۰ دن اورایک ماہ ۲۸ یا ۲۹ دن کا ہوتا ہے۔ سورج اور چاند دونوں کا نظام اللہ ہی نے بنایا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں متعدد عبادتیں رویت ِہلال سے مربوط ہیں۔ دونوں کیلنڈر میں سالانہ ۱۰ یا ۱۱ روز کا فرق ہونے کی وجہ سے ان عبادتوں کا وقت ایک موسم سے دوسرے موسم میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ موسموں کی تبدیلی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
{ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّــیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ(۱۹۰) الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًاج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱)} (آل عمران)
’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں اُن عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں‘ جو اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں‘ اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں‘ (اور انہیں دیکھ کر بول اُٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے)پاک ہیں‘ پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالیجیے۔‘‘
آئیے نئے ہجری سال کی آمد پر ہم عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی ہیں‘ان میں ان شاء اللہ اپنے مولا کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بقید ِحیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لیے کب آجائے‘ معلوم نہیں۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے:
((اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاَءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَراغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ))(أخرجه الحاكم في المستدرك، وصححه الألباني في صحيح الجامع)
’’پانچ امور سے قبل پانچ اُمور سے فائدہ اٹھایا جائے: بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے‘ مرنے سے قبل زندگی سے‘ مصروفیت سے قبل فراغت سے‘ غربت آنے سے قبل مال سے‘ بیماری سے قبل صحت سے۔‘‘
اسی طرح حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰى يُسْأَلَ عَنْ خَمْس: عَنْ عُمُرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ ، وَعَنْ شَبَابَهِ فِيْمَا أَبْلاهُ ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيْمَا أَنْفَقَهُ ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيْمَا عَلِمَ؟)) (رواه الترمذي)
’’قیامت کے دن کسی انسان کے قدم (اللہ تعالیٰ کے سامنے سے) ہٹ نہیں سکتے یہاں تک کہ وہ ان سوالات کا جواب نہ دے دے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایااورکہاں خرچ کیا؟ جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟ ‘‘
ہمیں اپنی زندگی کا حساب اپنے خالق ومالک کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے‘ جو پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہےاور پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلا رہا ہے۔
عموماًہمیں گزشتہ برس کے چند اچھے دن اور کچھ تکلیف دہ لمحات یاد رہ جاتے ہیں جبکہ باقی دن اس طرح بھلادیے جاتےہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہجری سال کے اختتام پر ہمیں یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہمارے نامہ ٔ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامہ ٔ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لیے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی! ہماری نمازیں‘ روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں ؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا یا صبح سے شام تک صرف بھوکا رہنا پڑا؟ یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق نبی اکرمﷺ کے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟ اپنے بچوں کی اُخروی کامیابی کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور سہولیات فراہم کرنےہی کی فکر کرتے رہے؟ انسانوں کو ایذائیں پہنچائی یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کیے؟ قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا کیے یا نہیں؟ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ والدین‘ پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کیے یا نہیں؟