(ارضِ فلسطین) نوجواں مسلم اور مسئلہ فلسطین - ریان بن نعمان

12 /

نوجواں مسلم اور مسئلہ فلسطینریان بن نعمان اختر
متعلم‘ قرآن اکیڈمی‘ کراچی

کسی قوم کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔قومی سلامتی و ترقی نوجوانوں کے تعاون کے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔ قوموں کے عروج و زوال ‘ترقی و تنزلی اور استحکام و انتشار میں نوجوانوں کا رویہ اظہر من الشمس ہے۔ کسی بھی علاقے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ یہ نوجوان طبقہ ہی ہے جس نے معماری کے فرائض سر انجام دیے اور اپنی قوم کی اُٹھان میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نوجوان اپنے اندر گرم خون رکھتا ہے‘ کسی نظریے پر ایک بار دل ٹُھک جائے تو اپنا سب کچھ اس پر لگا دینے حتیٰ کہ جان تک نچھاور کر دینے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ مصلحتیں‘ تعصبات اور مفادات اس کے جذبوں ‘امنگوں اور حوصلوں کی گرمائش کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر اسے ابتدا ہی سے نیک صحبت ‘ قرآن و صاحب ِقرآن ﷺ سے تعلق ‘ دین کی صحیح سمجھ اور فکر ‘حق و باطل میں تمیز کرنے والا علم ِنافع‘ حق پر چلانے والے شفیق ہاتھ اور قلوب کو اُمت کے در دسے بھر دینے والے صالح مربیّین میسر آ جائیں تو اُمّت ِپریشاں کو ایک مضبوط کندھا فراہم ہو جاتا ہے ۔
خالق ِ کائنات نے اپنے کلامِ لاریب میں نوجوانی کے دور کو زیب و زینت سے تعبیر کیا ہے ( الحدید: ۲۰ ) ۔ مراد یہ ہے کہ دیگر ادوارِ زندگی کی بنسبت اس عمر میں انسان کا فطری و طبعی میلان زیب و زینت اورآرائش و زیبائش کی طرف بہت زیادہ ہوتا ہے ۔اگر اس رجحان میں زیادتی حدود کو تجاوز کر جائے تو پھر انسان دینی‘ قومی اور اخلاقی تقاضوں سے غفلت برتتے ہوئے ع ’’اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں‘‘کے مصداق اپنے مال و جان اور صلاحیتوں کا بہترو بیشتر حصہ دُنیوی چمک دمک کے حصول اور تعیشات کی فراہمی میں ضائع کر دیتا ہے۔ اسے ہر دم اپنے ظاہری حلیے کی تو فکر دامن گیر رہتی ہے مگر باطنی احوال کی اصلاح اور روحانی عیوب کے تدارک کا کوئی ہوش نہیں رہتا ۔ وہ مخلوق کے درمیان اپنی عزت و تکریم کا تو خواہش مند رہتا ہے مگر خالق کی نگاہ میں اس کا کیا مقام ہے ‘ اس سےکوئی غرض نہیں ہوتی۔ظاہری چال ڈھال‘ طرز ِلباس اور نشست و برخاست کے طریقوں میں تو عرف (ٹرینڈ/ فیشن ) کا خوب خیال رکھتا ہے مگر اپنے اخلاق کی تصحیح ‘ فکر کی تطہیر اور اعمال کی تعمیر کی طرف کوئی توجہ نہیںرکھتا ۔کسی قوم کے نوجوانوں کی اکثریت کا حال جب یہ ہو جائے کہ توجہات کا ارتکاز روح کے بجائے جسم پر اور حیاتِ اُخروی کے بجائے حیاتِ دنیوی پر ہو جائے تو مسّبب الاسباب کے سوا کوئی سبب اس قوم کو تنزلی سے نہیں بچا سکتا۔
جنگ اُحد کے بعد مسلمان اپنے شہدا ء کی تدفین میں مصروف ہیں۔ ایک نوجوان کا لاشہ آقائے دوجہاں ﷺ کی خدمت ِاقدس میں لایا جاتا ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ جسمِ اطہر پر فقط ایک چادر ہے اور وہ بھی اتنی چھوٹی کی پاؤں ڈھانکیں تو سر کھل جائے اور سر ڈھانپیں تو پاؤں کھل جائیں ۔حضور ِاقدس ﷺ کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں اور آپ ﷺ رندھی ہوئی آواز میں فرماتے ہیں کہ اس کا سر ڈھانپ دو جبکہ پاؤں پر گھاس پھوس ڈال دو ۔یہ عظیم نوجوان کون ہے؟ راہ ِ بہشت کا یہ مسافر کون ہے کہ جس نے مختصر سی عمر میں اپنی منزل ِمقصود پا لی؟ یہ کون مجذوب ہےکہ جس نے اپنی نوجوانی‘ اپنا گھر بار‘ تعیشات و تن آسانیاں‘ دنیو ی رونقیں غرض اپنا سب کچھ راہِ عشق میں لگادیا؟ارے یہ تو وہی ہے کہ جس کے کپڑے شام اور یمن سے سِل کر آتے تھے۔ یہ تو وہی ہے جو ایک جوڑا دوسری بار نہیں پہنتا تھا۔ ہاں ہاں یہ وہی ہے جو خوشبو ایسی لگا تا تھا کہ جس گلی سے گزر جاتا‘لوگ سمجھ جاتے کہ کون گزر رہا ہے۔ لازوال حسن کا مالک‘ دل نشین آواز کا حامل ‘ مضبوط اعصاب رکھنے والا۔ نبی اکرم ﷺ سے انتہائی مشابہ با وقار چہرہ ! یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو قبل ازقبولِ اسلام دنیا پرست نوجوانوں کے آئیڈیل تھے مگر بعد از قبولِ اسلام خدا پرست نوجوانوں کے لیے روشن نمونہ ٹھہرے ۔ان کی دعوتِ قرآن مجید نے یثرب کو مدینۃ النبیؐ بننے کا شرف بخشا۔ یہ تو ایک مثال ہے‘ ورنہ صحابہ کرامؓ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے نوجوان بھی ہیں جو فقہاءِ صحابہؓمیں شمار ہوتے ہیں۔سلمان فارسی ؓ ‘ خالد بن ولیدؓ (سَیفٌ مِن سُیوفِ اللّٰہ )‘ زید بن حارثہؓ ‘ جعفر ِطیارؓ سمیت سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں جنہوں نے نوجوانی کاحق ادا کیا اور اسلام کی بھرپور خدمت کی۔
تاریخ اسلامی کا ایک ادنیٰ سا طالب ِعلم بھی یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ نبی مکرم ﷺپر ابتداء ً ایمان لانے والوں میں دو طبقے بہت نمایاں تھے:غلام اور نوجوان ۔ دورِ صحابہؓ کے بعد اُمت بانجھ نہیں ہوگئی بلکہ مسلم فاتحین کی فہرست پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو محمد بن قاسمؒ سے صلاح الدین ایوبی ؒ تک اور طارق بن زیاد ؒسے سلطان محمد فاتح ؒتک نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی۔ ان کے ناموں سے کفر کے ایوانوں میں لرزہ طاری رہتا تھا۔ بلند مقاصد ‘پختہ عزائم‘ عبقری ذہانت‘ عقابی نگاہ‘ پاکیزہ اخلاق‘ خوفِ خدا‘ حب ِرسولﷺ اور فکر آخرت رکھنے والے یہ نوجوان اقبال کے شاہین کی تمام صفات سے متصف اور ان اشعار کا مصداق تھے :؎
نگہ بلند‘ سخن دل نواز‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے
اور:؎
محبّت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ان کے دن گھوڑوں کی پیٹھوں پر دشمنانِ اسلام کے تعاقب میں گزرتےاور راتیں اپنے پروردگار کےحضور گریہ و زاری میں صَرف ہوتیں۔ ہاتھ حالات کی نبض پر ہوتے اور پاؤں اعدائے خالق و مخلوق کی گردنوں پر ۔ مفتوحین ان کےآنے پر دروازے کھول کر استقبال کرتے اور جانے پر دھاڑیں مار مار کر رویا کرتے تھے۔ان کے نفوس ہر قسم کی آلائشوں سے پاک صاف اور نورِ ایمان سے منور تھے ۔ ارواح ان کے اجسام پر غالب ہوتیں۔ شاید انہی کے لیے جگر مراد آبادی نے کہا تھاکہ: ؎
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
آہ!! آج کہاں ڈھونڈیں ایسےبُت شکنوں کو ۔ ع ’’ اب انہیں ڈھونڈچراغِ رُخِ زیبا لے کر!‘‘ آج مسلمانوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ابلیس سے منسوب اس بیان کے مطابق کہ؎
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک ِسحر گاہی سے جو ظالم وضو
جواں مرد بہت کم ہیں۔ وہ اعلیٰ مقاصد ‘ بلند حوصلے اور پختہ سیرت جن کے حامل ہمارے اسلاف تھے ‘ آج ہم میں مفقود ہیں‘ الا ماشاءاللہ ! اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج سسکتی اُمّت ِمسلمہ کا کوئی پُرسانِ حال اور پستی میں گرتے مسلمانوں کو کوئی مضبوط سہارا میسر نہیں ہے ۔بقولِ اقبال ؎
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل‘ وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہے‘ تُو باقی نہیں ہے
صلاح الدین ایوبی ؒ اورمحمد بن قاسمؒ کی تعریفیں کرنا‘ ان کی بہادری کے گُن گانا اور ان کے مثل بہادروں کی پیدائش کی دعا کرنا بہت آسان ہے مگر خود ان عظیم ہستیوں کے اوصاف اپنانا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ درحقیقت یہی وقت کی اصل ضرورت ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تُو نے
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا!
آج بیشتر نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ آوارہ گردی کرنا رہ گیا ہے۔ دنیوی آسائشات کے حصول میں’’ Never Settle For Less‘‘کے نعرے ہیں مگر نیکی کے میدان میں کم سے کم پر مکتفی ہیں۔ وہ علم جو انسان کو ترفع بخشتا ہے ‘بصیرت عطا کرتا ہے‘ حق و باطل کی تمیز سکھاتا ہے‘‘تزکیہ و تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح کا کام کرتا ہے‘ غرض انسان کی صحیح رخ پر تربیت کر کے ایک متوازن شخصیت تشکیل دیتا ہے‘ اب ہمارے تعلیمی اداروں سے اٹھ چکا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کا نوحہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ :؎
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ!
اور بقول اکبر الٰہ آبادی؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی!
فی زمانہ ایسی نوجوان نسل تیار ہو رہی ہے جو نہ اپنے مذہب اسلام سے مخلص ہے اور نہ اپنے وطن پاکستان سے ۔ اسلام کے نام سے اسے ایک طرح کی ناگواری محسوس ہوتی ہے۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘کے بجائے وہ ’’پاکستان سے زندہ بھاگ‘ ‘کی قائل ہے ۔ان کے معمولات ‘ طرزِ تکلم ‘ بودوباش‘ طرزِ فکر مغربی تہذیب سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ انہیں نہ تو اُمّت ِ مسلمہ کی حالت سے کوئی سروکار ہے‘ نہ مملکت ِ خداداد پاکستان کے مسائل سے کسی قسم کی دلچسپی۔ بس وہ اپنی ذات میں مگن ہیں۔ علامہ اقبال نے شاید اسی کیفیت کی غمازی کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ؎
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
رواں سال کو اُمّت ِمسلمہ کے لیے ’’ عام الحزن ‘‘ کی مانند قرار دیا جا سکتا ہے۔ایک قیامت ہے کہ جو فلسطینی بھائیوں ‘بہنوں اور بچوں پر بیت رہی ہے۔درندے ہمارے جسد ملی کے ایک حصے کوبھنبھوڑ رہے ہیں اور مسلمانوں کے مقتدر طبقات بے غیرتی و بے حسی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے کفِ دست پر ٹھوڑی رکھے تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ عوام الناس کی اکثریت میں بھی اسرائیل نواز کمپنیوں کے بائیکاٹ کا جذبہ ماندپڑتا جا رہا ہے۔اگر کسی کی ٹانگ میں جنگلی جانور نے اپنے دانت گاڑے ہوئے ہوں تو کیا متاثرہ شخص کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی جا سکتی ہے ؟ ہرگز نہیں! اس کا چہرہ درد و غم کا ترجمان جبکہ اعضاء اس اذیت سے نجات پانے میں مصروفِ عمل ہوں گے ۔تو کیا کسی باغیرت نوجوان نے اس عید پر دلی مسرت محسوس کی ہو گی؟ ناممکن !اس کو تو یہ غم کھاتا رہا ہو گا کہ اہل غزہ پر کیا قیامت خیز لمحات بیت رہے ہیں! جب وہ عید کے موقع پرپُرتکلف کھانوں اورمشروبات سے لطف اندوز ہو رہا تھا تو فلسطینی بچے کس بھوک و افلاس سے گزر رہے تھے ! ان کے لیے کیا عید کی خوشی اور کیسی عید کی رونقیں!
دوسری جانب حماس کے مجاہدین ہیں کہ جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ایمان و یقین ‘ عزیمت و استقامت ‘ اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِرُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ کی عملی تصویر‘ اسلام واہلِ اسلام کے حقیقی محافظ ۔یہ دورِ حاضر میں صلاح الدین ایوبی کی معنوی اولاد‘ میراثِ ابنِ قاسم کے اصل وارث اور طارق ابن ِ زیاد کے حقیقی جانشین گردانے جانے کے لائق ہیں ۔ عموما ً دنیا پرست جماعتوں کی قیادت اپنے مفادات کے حصول کے لیے دوسروں کو استعمال کرتی ہے۔ جان و ما ل کی قربانیاں تو کوئی اور دے رہا ہوتا ہے مگراوپر والے ٹھنڈ میں رہتے ہوئے بھی ساری ملائی خود سمیٹ لے جاتے ہیں ‘ مگر حماس کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو جتنا زیادہ ذمہ دار ہے وہ اتنی ہی زیادہ قربانیاں دے رہا ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے بشمول اپنے تین کڑیل جوان بیٹوں کے‘ اپنے خاندان کے دس افراد اس طوفان الاقصیٰ آپریشن میں کھوئے‘ مگر خود عزم و ہمت کا پہاڑثابت ہوئےکہ اپنے بچوں کی شہادت کی اطلاع پاکر کلمۂ حمد ادا کیا اور شہداء کا باپ ہونے پر اظہارِ فخر کیا ۔ان کے یہ تین بیٹے مجاہدینِ حماس کے شانہ بشانہ اپنی جان ہتھیلی پرلیے میدانِ جہاد میں سرگرمِ عمل تھے۔ سلام ہو ایسی نوجوانیوں پر! ہماری ہزاروں جوانیاں ان کے ایک ایک نوجوان پر قربان کہ جن کی جوانی دورِ حاضر میں نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ہماری عید تو تب ہوگی جب ہم مسجد ِاقصیٰ میں آزادانہ نماز پڑھ سکیں ۔ہماری عید تو تب ہوگی جب ہم اسرائیل کے نا جائز و ناپاک وجود کو اس دھرتی سے پاک کرسکیں ۔ہماری عید تو تب ہوگی جب ہم دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کر سکیں۔ ہماری عید تو تب ہوگی جب ہم اسلامی ریاست کی ٹھنڈی چھاؤں میں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کی بہاریں دیکھتے ہوئےعید کی حقیقی مسرتیں سمیٹ سکیں۔ فی الحال عید اپنے ساتھ وقتی مسرت تو لاتی ہے ‘ دائمی خوشی نہیں ۔عارضی فرحت تو بخشتی ہے ‘ پائیدار اطمینان نہیں ۔جب کام باقی ہو تو آرام کا جواز نہیںرہتا۔ جب مقصد نا مکمل ہو تو خوشیاں بھی ادھوری رہتی ہیں۔بقول جگر مراد آبادی ؎
جھوٹی ہے ہر ایک مسرت

روح اگر تسکین نہ پائےکاش کہ ہمارے نوجوان اس دور کی نزاکتوں کا ادراک کر کے لہو و لعب ترک کریں اور سنجیدہ پن کا مظاہرہ کریں ۔اپنے فکر کی تطہیراور اعمال کی تعمیر پر توجہ دیں ۔قرآن‘ صاحب ِ قرآن ﷺ و اہل ِ قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ پھر کوئی عجب نہیں کہ اس اُمّت کو وہ مضبوط سہارے فراہم ہوں کہ جو اس کو پستیوں سے نکال کر اوجِ ثریا تک پہنچا ئیں ۔جیسے اُمّت ِ ِمسلمہ کے عروجِ اوّل میں نوجوانوں نے قیادت کی ‘ اسی طرح عروجِ ثانی میں بھی نوجوان ہراول دستے کا کردار ادا کریں گے‘ ان شاءاللہ!علامہ اقبال نے ایسے ہی حالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھاکہ؎
وقت ِفرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!
پلٹنا اللہ کو محبوب ہے مگر نوجوانی میں توبہ کا تو معاملہ ہی جدا ہے ۔بقولِ شاعرع ’’در جوانی توبہ کردن شیوہ ٔپیغمبری‘‘(نوجوانی میں اللہ کی طرف پلٹنا حضراتِ انبیاء ؑ کا طریقہ ہے۔)
حدیث ِمبارکہ کے مطابق روزِ قیامت ابنِ آدم کے قد م ہِل نہ سکیں گے جب تک کہ وہ پانچ سوالات کے جوابات نہ دے دے۔ان میں سے دو سوالات زندگی سے متعلق ہیں ۔ایک یہ کہ زندگی کہاں لگائی ؟ تمہارا رخِ حیات کیا تھا ؟تمہاری شب و روز کی جدّوجُہد کے پیچھے کیا افکار‘ عوامل اور مقاصد کار فرما تھے؟ دوسرا سوال دنیوی زندگی کے سب سے اہم دور نوجوانی سے متعلق کہ جس میں انسان ہر وہ کام کر سکتا ہے جو وہ چاہے‘ اچھے سے اچھا بھی اور برے سے برا بھی۔ جب ذہن میں پنپنے والے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جسمانی قوتیں اس کی معاون ہوتی ہیں۔وہ دورِ جوانی کہاں لگایا ؟
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اور ہمارے نوجوانوںکو ان سوالات کے جواب تیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ قلب میں اُمّت کا درد عطا فرمائے اور حالات کی تاریکیوں سے مایوس ہونے کے بجائے اُمّت کی رہبری کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا ربّ العالمین!
بانی ٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ رفقاء ِتنظیم کے جذبوں کو مہمیز دیتے ہوئے اکثر رئیس امروہوی کے یہ اشعار پڑھا کرتے تھے؎
وہ وقت آیا کہ ہم کو قدرت ہماری سعی و عمل کا پھل دے
بتا رہی ہے یہ ظلمتِ شب کہ صبح نزدیک آ رہی ہے
ابھی ہیں کچھ امتحان باقی‘ فلاکتوں کے نشان باقی
قدم نہ پیچھے ہٹیں کہ قسمت ابھی ہمیں آزما رہی ہے
سیاہیوں سے حزیں نہ ہونا ‘غموں سے اندوہ گیں نہ ہونا
انہی کے پردے میں زندگی کی نئی سحر جگمگا رہی ہے
رئیسؔ اہل نظر سے کہہ دو کہ آزمائش سے جی نہ ہاریں
جسے سمجھتے تھے آزمائش وہی تو بگڑی بنا رہی ہے!