(عرض احوال) یومِ آزادی-----یومِ احتساب - خورشید انجم

7 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یومِ آزادی -----یومِ احتساب

اگست کا مہینہ اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں ہمیں آزادی جیسی دولت نصیب ہوئی ۔ یہ محض ایک قوم کی آزادی نہیں تھی بلکہ ایک نظریہ یعنی نظریہ اسلام کی بنیاد پر ایک مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ یوں ریاست ِمدینہ کے بعد پاکستان دوسری ریاست ہے جو اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ اگرچہ اسرائیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی مذہب کے نام پر وجود میں آیا لیکن حقیقتاً یہودیت ایک نسلی مذہب ہے اس لیے اسرائیل ایک نسلی ریاست ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں اور تاریخی‘ جغرافیائی‘ نسلی‘ لسانی عصبیت کی نفی کرتے ہوئے نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا جب کہ اسرائیل مغربی استعمار کی دھونس‘ دھاندلی اور سازش کے نتیجے میں قدیم فلسطینی باشندوں کو بے دخل کر کے وجود میں آیا۔ اس مہینے کی مناسبت سے اور خاص طورپر۱۴ اگست کو قوم کے رہنماؤں کی جانب سے سائیکلوسٹائل قسم کے بے روح اورپھس پھسے بیانات جاری کیے جاتے ہیںجن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ صرف روایتی خانہ پری کے طور پر جاری کیے جاتے ہیں اورحقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ یہ مہینہ اور خاص کر۱۴ اگست کا دن ہمارے لیے خود احتسابی کا دن ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ پاکستان ہم نے کس مقصد کے لیے حاصل کیا تھا اور اس مقصد کو کس حد تک پورا کیاگیا!
اس آئینے میں اگر ہم اپنی صورت دیکھیں تو ہمیں انتہائی مایوسی ہوتی ہے کہ درحقیقت ہم نے سمت ِمعکوس میں سفر کیا ہے۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریہ کی بنیاد پر عمل میں آیا۔یہ نظریہ اسی وقت وجود میں آگیا تھا جب محمدبن قاسم ؒنے اس سرزمین پر قدم رکھا۔ اسی بات کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بڑے سادہ مگر محکم انداز میں علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ:’’پاکستان کی بنیاد اس دن پڑ گئی تھی جس دن برعظیم کی سرزمین پر پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔‘‘ قائد اعظم کی اس بات کو مغل حکمران نور الدین جہانگیر اور مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کے درمیان کشمکش کے تناظر میں دیکھیے کہ مسلمان اُس دور میں اگرچہ سیاسی اور معاشی دونوں اعتبارات سے غالب تھے لیکن مجدد الف ثانیؒ کے نزدیک اصل چیز مسلمانوں کا جداگانہ تشخص تھاجسے جلال الدین اکبر کی پالیسیوں کی وجہ سے زک پہنچ رہی تھی۔
آئیے! تاریخ کے دریچوں سے دیکھتے ہیں کہ ہم نے یہ ملک کیوں حاصل کیا تھا۔ پون صدی قبل ہم نے بڑی دعاؤں‘ تمناؤں‘ آرزؤوں اور وعدوں کے ساتھ یہ ملک حاصل کیا تھا کہ اے باری تعالیٰ!ہم ایک علیحدہ خطہ ٔ ارضی اس لیےحاصل کرنا چاہتے ہیں کہ تیرے دین کا بول بالا کریں‘تیرے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت نافذ کریں ۔ پاکستان کے قیام کا مقصد فقط زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ اس کی بنیادوں میں احیائے اسلام کا وہ جذبہ تھا جسے علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے تحریک پاکستان میں شامل کیا۔ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے وطنی قومیت کی نفی انتہائی زور دار انداز میں کی؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
پھر۱۹۳۰ء کے خطبہ الٰہ آباد میں کہا کہ ’’اسلام کے پیش نظر ایک ایسا عالمگیر نظام سیاست ہے جس کی اساس وحی اور تنزیل پر ہے۔‘‘مزید کہا کہ’’اسلام کا مذہبی نصب العین اس اجتماعی نظام سے نامیاتی تعلق رکھتا ہے جو وہ قائم کرتا ہے۔ ایک کے مسترد کرنے سے دوسرا لامحالہ مسترد ہو جائے گا۔‘‘ اس لیے کسی پالیسی کی قومی سطح پر اس طرح تشکیل کہ اس سے اسلام کے یکجہتی کے اصول اپنی جگہ نہ رہیں‘ کسی مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برعظیم میں اسلام کی بقا اور فروغ کے لیے ان کی نگاہ میں ایک آزاد مملکت کا قیام ناگزیر ہے۔ لہٰذا ان کا مطالبہ تھا کہ’’اس لیے میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘ قائد اعظم نے اسلامی ریاست کے اصول بیان کرتے ہوئے کہا :’’اسلام اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمان کی‘ نہ کسی شخص یا ادارے کی‘بلکہ قرآن حکیم کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں ۔ اسلامی حکومت قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے ‘جس کے لیے بہرحال آپ کو علاقے اور سلطنت کی ضرورت ہے۔‘‘
اسلامیہ کالج پشاور میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’لیگ ہندوستان میں ایسی آزاد ریاستوں کے قیام کی علم بردار ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے تاکہ مسلمان وہاں اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں۔‘‘ ان الزامات پر کہ پاکستان میں قانون سازی شریعت اور قرآنی احکام کے مطابق نہیں ہو گی‘ آپ نے تردید کرتے ہوئے فرمایا :’’یہ بات قطعی غلط ہے۔‘‘ ۲۱ نومبر۱۹۴۵ء کو مسلم لیگ کانفرنس میں فرمایا: ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات‘ اپنے تہذیبی ارتقا‘ اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکومت کر سکیں۔‘‘ مبشر پاکستان اور معمارِ پاکستان کی نگاہ میں یہ مقصد تھا ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا جس کے لیے تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ لاکھوں افرادنے جانوں کی قربانیاں دیں اور ہزاروں مسلمان عورتوں کی عزتیں وعصمتیں پامال ہوئیں۔
یہ وہ فلسفہ تھا جس نے ’’پاکستان کا مطلب کیا ؟لا الٰہ الا اللہ!‘‘ کی شکل اختیار کی۔چترال تا کراچی اور خیبر تا راس کماری مختلف رنگ‘ نسل اور زبان کے حامل لوگوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے منظم کر دیا۔پاکستان بننے کے بعد بدقسمتی سےبحیثیت مجموعی پوری قوم بالخصوص حکمران طبقے نے اس نظریہ سے انحراف کیا جس کی بنیاد پرپاکستان حاصل کیا گیا تھا۔اب کرپشن‘ جھوٹ‘ خیانت‘ فریب ہماری پہچان بن چکے ہیں۔ اب تو ڈنکے کی چوٹ پر سب کچھ کیا جا رہا ہے۔گویا: ع ’’کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!‘‘ ہماری آزادی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھی جا چکی ہے ۔
اہل سیاست ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے نہایت مکروہ اور بھونڈے سیاسی ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہے ہیں ۔ہر ادارہ شکست وریخت کا شکار ہے۔ جن اداروں کو پاکستان کی وحدت کی علامت سمجھا جاتا تھا آج ان پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔۱۹۴۷ء میں جوقوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوارتھی اب تقسیم در تقسیم ہو کر مختلف قومیتوں میں بٹ چکی ہے ۔ اب تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک بے سمت ہجوم بن چکا ہے۔ ع ’’آہ وہ تیرنیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف!‘‘ یوں لگتا ہے کہ اب ہمارے دن گنے جا چکے ہیں۔ گویا؎
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا!
ایسے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا‘ اگر کوئی سہارا ہے تو صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے۔؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو ِبندہ نواز میں!
ملک و قوم کی سلامتی اور اصلاحِ احوال کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اللہ کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیا جائے اور خود کو اس کی رحمت اور اس کی نصرت کا مستحق ثابت کیا جائے۔ قرآن مجید نے دوٹوک انداز میں بیان کر دیا ہے:{اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(۷)} (محمد)’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔‘‘
اللہ کے دین کی مددونصرت‘ اُس کے دین کے غلبہ واقامت کے لیے جدّوجُہد کرنے سے عبارت ہے۔ اس کے عطا کردہ سیاسی‘ معاشی‘ سماجی نظام کے قیام کی جدّوجُہد سے اللہ کی نصرت وحمایت حاصل ہو گی۔جب تک ہم اسلام کے نظام عدل وقسط کو قائم نہیں کرتے ہماری حالت کے سدھرنے کا بظاہر احوال کوئی امکان نہیں ۔ لہٰذا اگر ہم اب بھی تحریک پاکستان کے دوران کیے گئے وعدوں کی تکمیل کردیں اور ملک میں اسلام کے نظامِ عدل و قسط کو قائم کردیں تو مملکت خداداد پاکستان دورِ حاضر کی ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بن جائے گی۔؎
چمن کے مالی اگر بنا لیں موافق اپنا شعار اب بھی
چمن میں آسکتی ہے پلٹ کر چمن سے روٹھی بہار اب بھی!