اسلام میں پردے کے احکام
اور
یواین او کاسوشل انجینئرنگ پروگرامڈاکٹر اسرار احمدؒ
(۵نومبر ۲۰۰۴ء کو ایوانِ اقبال لاہور میں خطابِ عام)
خطبہ مسنونہ اورتلاوت ِآیات کے بعد:
میرے عنوان میں اگرچہ ترتیب یہ ہے: ’’اسلام میں پردے کے احکام اور یواین او کاسوشل انجینئرنگ پروگرام‘‘ لیکن بیان میں مؤخر الذکر شے پہلے لارہا ہوں تاکہ پس منظر معلوم ہوجائے کہ اس موضو ع پرہم آج کن حالات میں گفتگو کررہے ہیں ۔
یواین او کاسوشل انجینئرنگ پروگرام
گزشتہ تقریباً تین صدیوں سے یورپ میں ایک تہذیب پروان چڑھ رہی ہے لیکن اس کے بعض حصےپہلے ہی گلوبلائز ہوچکے ہیں۔ ایک آخری حصہ وہ ہے جس کو عالمی سطح پر رائج و نافذ کرنے کے لیے بہت ہی منظم کوششیں (concerted) efforts) ہو رہی ہیں۔ درحقیقت فکرانسانی کو توہمات کے چنگل اور استخراجی منطق (deductive logic) کی تنگ نائیوں میں سے باہر نکالنا اسلام اور قرآن کی تعلیمات کا نتیجہ ہے‘ البتہ اس کے نتیجے میں دو اسباب کے باعث یہ تہذیب ایک غلط رخ پر پڑ گئی۔ پہلاسبب یہ تھا کہ یورپ میں اصل حاکمیت پوپ کی تھی۔ تھیوکریسی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی۔ اس نظام میں جہاں بعض چیزیں اچھی تھیں وہاں دو بدترین باتیں بھی تھیں۔ پہلی یہ کہ سائنس اور فلسفہ کاپڑھنا حرام تھا۔ کسی کے گھر سے سائنس اور فلسفے کی کتابیں نکل آتیں تو اسے زندہ جلا دیا جاتا۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ یورپ کویہ سبق مسلمانوں نے پڑھایا ۔یہ اصل میں سپین کی یونیورسٹیوں کی وجہ سے ہوا۔ جیسے ہمارے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ اورانگلستان جاتے ہیں ایسے ہی جرمنی‘فرانس اور اٹلی کے نوجوان ہسپانیہ میں غرناطہ‘ ٹولیڈو اور قرطبہ کی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔ یہاں یہودیوں کا ایک بڑا مؤثر عنصر موجود تھاجس کاایک خاص سبب تھا۔ یہودیوں کو عیسائیوں کے ہاتھوں شدید تعذیب (persecution) کا سامنا تھا۔ عیسائی جسے خدا کابیٹاکہتے ہیں‘ یہودی اسے (معاذاللہ!)ولدالزنا(bastard) سمجھتے ہیں۔انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو جادوگر‘ مرتد‘ واجب القتل قرار دے کر(اپنے بس پڑتے) سولی پر چڑھایا۔ اس قدر فرق ہے‘ اتنا تضا د ہے۔
یہود کی عیاریاں
اس کا پس منظر یہ ہے کہ ۳۰۰ء میں جب قسطنطین(Constantine)جوقیصر روم تھا ‘اس نے عیسائیت اختیار کی تو اس کے ساتھ پوری رومن ایمپائر بھی عیسائی ہوگئی۔ اب عیسائیوں نے یہودیوں پرمظالم ڈھانے شروع کیےکہ جس کو ہم خد ا کابیٹا کہتے ہیں تم ان کے بارے میں ایسی بات کرتے ہو۔تم نے انہیں سولی پر چڑھایا۔ پورے یورپ میں یہود کی بدترین تعذیب کی گئی۔ ان کے ghettos علیحدہ ہوتے تھے ۔انہیں شہروں میں آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔کسی ضرورت کے لیے شہر میں آنے کے لیے وقت مقرر تھا کہ فلاں سے فلاں وقت تک آسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہسپانیہ کی عیسائی حکومت بہت سخت تھی۔ چنانچہ یہودیوں نے ایک بہت ہوشیار حکمت عملی اختیار کی کہ جب طارق بن زیاد ہسپانیہ پر حملہ آور ہوئے تو ان کی مدد کی گئی۔ انہیں راستے بتائے گئے۔ مسلمانوں کے لیے تو یہ ایک اَن جانی دنیا تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہسپانیہ میں جب مسلمانوں کی حکومت مستحکم ہوئی تویہودیوں کو ایک بار پھرتاریخ میں وہ مقام حاصل ہوگیاجو انہیں کبھی حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں مصر میں حاصل ہوا تھا۔ مصر میں وہ ’’پیرزادے‘‘ بن گئے تھے ‘ اس لیے کہ مصر کابادشاہ حضرت یوسف علیہ السلام کا عقیدت مند ہوگیا تھا۔ یہی حال یہاں ہوا۔ چنانچہ اسی ضمن میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان نے یہ بات لکھی ہے :
" The Golden era of our Diaspora was Muslim Spain."
کہ مسلم ہسپانیہ ہمارے دورِانتشار کاعہدِ زریں ہے۔ ان کا یہ دورِ انتشار۷۰ء میں شروع ہوا تھا جب ٹائٹس رومی نے یروشلم میں ایک دن میں ایک لاکھ ۳۳ہزاریہودیوں کو قتل کیا تھا۔ انہوں نے جو ہیکل سلیمانی دوسری مرتبہ بنایا تھا جسے سیکنڈ ٹیمپل کہتے تھے‘ اسے منہدم کیا‘ ختم کیااور یہودیوں کو فلسطین سے باہر نکال دیا کہ اب جہاں سینگ سمائیں چلے جائو ‘یہاں تمہارے رہنے کاکوئی امکان نہیں۔ چنانچہ کچھ یورپ اورکچھ افریقہ میں چلے گئے‘ کچھ ایشیا میں آگئے۔ اس کو وہ اپنا دورِانتشار (Diaspora) کہتے ہیں‘ جس کاعہدِزریں مسلم سپین ہے۔ جب ہسپانیہ میں بنواُمیہ کی حکومت تھی تووہاں کا وزیراعظم بھی یہودی تھا۔ ان کو اتنی حیثیت حاصل ہوگئی تھی ۔ جو نوجوان جرمنی‘ فرانس اور اٹلی سے آرہے تھے اسلام ان کو حریت اور آزادی کا سبق پڑھا رہا تھا۔کوئی انسان کسی دوسرے انسان کاغلا م نہ ہو۔ کوئی قوم کسی دوسری قوم کی محکوم نہ ہو۔ انسانوں کوحق حاصل ہو حکمرانوں کوچیلنج کرنے کا ‘ان سے جواب طلبی کا۔ یہ سبق خلافت راشدہ نے دنیا کو پہلی دفعہ دیا تھا۔یہودیوں نے اس میں مزید مرچ مسالا لگایا کہ یہ آزادی دراصل مادر پدر آزادی ہے۔ خدا سے آزادی‘شریعت سے آزادی‘ اخلاقی اصولوں سے آزادی!
پھر اسلام نے مساوات کا سبق دیا تھاکہ تمام انسان پیدائشی طور پربرابر ہیں۔ کسی رنگ کے ہوں‘ کسی نسل کے ہوں‘ کسی علاقے میں رہتے ہوں‘ کسی ناک نقشے کے ہوں‘ مرد ہوں یاعورت ہوں‘ پیدائشی طور پر سب برابر ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ یہ نوٹ کرلیجیے کہ اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان ایک فرق ہے۔ جب ایک مرد اور عورت شادی کے بندھن میں بندھ جائیں اور ایک خاندان کی بنیاد ڈالیں تو خاندان کے ادارے کاسربراہ مرد ہوگا۔یہ بات دو اور دوچار کی طرح واضح ہے کہ کسی ادارے کے دو سربراہ نہیں ہوسکتے۔ سربراہ ایک ہی ہوتا ہے‘ البتہ اس کے نیچے آپ نائبین اور معاونین جتنے چاہیں رکھ لیں۔کسی بھی فرم کا منیجنگ ڈائریکٹر ایک ہوگا‘ ڈائریکٹرچاہے دس رکھیں‘بیس رکھیں یاپچاس ۔ اگر دوبرابر کے سربراہ ہوں گے توفساد ہی فساد ہوگا۔ دفتر میں ایک افسر ہے اورایک چپڑاسی ‘ان میں انتظامی طور پر فرق ہے لیکن انسان ہونے کے ناطے یہ دونوں برابر ہیں۔سیاسی اعتبار سے ایک ووٹ افسر کا ہے اور ایک ہی چپڑاسی کا ہے۔ چنانچہ انتظامی طور پر مرد کو فوقیت دی گئی ہے عورت پر لیکن شرفِ انسانیت (human dignity) میں دونوں برابر ہیں‘ ان میں کوئی فرق نہیں ۔ اسلام نے تو یہ سبق پڑھایالیکن یہودیوں نے اس کو آگے بڑھایا کہ مرد اورعورت بالکل برابر ہیں۔ ایک جیسے امور سرانجام دے سکتے ہیں۔ کندھے سے کندھا ملا کرکام کرسکتے ہیں۔ دو مرد آپس میں شادیاں کرسکتے ہیں ‘ دوعورتیں آپس میں شادیاں کرسکتی ہیں ۔ یہ سارا فساد اصل میں یہودیوں نے پھیلایا۔ یوں سمجھیے کہ ہسپانیہ کی یونیورسٹیوں سے علم و حکمت کے دریا چل رہے تھے‘ خاص طور پر ان تین ممالک میں جسے سنٹرل یورپ کہتے ہیں یعنی فرانس‘ جرمنی اور اٹلی۔ایسے میں وہ جو قتیل شفائی نے کہا ہے ع ’’کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں!‘‘درحقیقت صاف اور پاک اسلامی تعلیمات میں یہودیوں نے سیاہی گھولی۔اس کے نتیجے میں جو لبرل ازم پیدا ہوا‘ اس کے ذریعے سے انہوں نے عیسائیوں سے بھرپور انتقام لیا۔
العِلمُ عِلمان
اس علم نے تین شکلیں اختیار کیں۔جب پوپ کی طرف سے آزادی ہوگئی تواب لوگوں نے سائنس اورفلسفہ پڑھنا شروع کردیا۔بڑے بڑے سائنس دان اور فلسفی پیدا ہوگئے۔ سائنس کے نتیجے میں ٹیکنالوجی آگئی ۔ اس سے یورپ کے اندر ایک پاور پوٹینشل develop ہوگیا۔البتہ یہ علم یک چشمی تھا‘جیسے ہم کہتے ہیں دجال کی ایک آنکھ ہے۔ اللہ نے علم کے ضمن میں انسان کودوآنکھیں دی تھیں۔ ایک یہ کہ اپنے حواسِ ظاہری اور عقل سے علم حاصل کرو۔ ہمارے آباء واَجداد میں سے کسی شخص نے دیکھا کہ ایک چٹان گری‘ نیچے پتھر تھا تودونوں کے ٹکرانے سے ایک شعلہ نکلا۔ یہ دیکھ کر اُس نے دو پتھر ہاتھ میں لے کر آپس میں رگڑے تواس سے بھی شعلہ پیدا ہوگیا۔ یوںآگ ایجا د ہوگئی۔ اس سے پہلے انسان صرف پھلوں اورپھولوں پرگزارا کرتا تھا یا کچا گوشت کھاتا تھا‘ آگ توتھی نہیں ۔ اب یہ بہت بڑی شے پیدا ہوگئی۔ پھر کسی نے دیکھاکہ چولھے پر ہانڈی چڑھی ہوئی ہے اوراس کا ڈھکنا ہل رہا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے نیچے جو بھاپ (steam) پیدا ہو رہی ہے اس میں یہ طاقت ہے کہ وہ ہلا رہی ہے۔ لہٰذا سٹیم سیکنڈ سورس آف انرجی ایجاد ہوگئی۔ اب سٹیم انجن بن گئے‘ ریل گاڑیاں دوڑنے لگیں۔ چنانچہ ایک علم یہ تھا کہ آنکھ سے دیکھو‘کان سے سنو اور دماغ سے اس کو پراسس کرو۔ یہ کمپیوٹر جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے ‘اس کے اندر اپنا سینس ڈیٹافیڈ کرو یعنی آنکھوں‘ کانوں ‘زبان‘ ناک اور ہاتھ وغیرہ کا ڈیٹا فیڈ کرو تویہ پراسس کرے گا۔ اس طرح علم قدم بقدم آگے بڑھتا گیا۔
علم کے دوسرے ماخذ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ وحی کے ذریعے آئے گا۔ سورۃالبقرۃ کے چوتھے رکوع کے مطابق ‘ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہاکہ اب تم زمین کاچارج سنبھالو کہ تمہیں وہاں کا خلیفہ بنایا گیا ہے‘ توساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا:
{فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳۸) وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اُولٰٓـئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(۳۹)}
’’بھر جب بھی آئے تمہارے پاس میری جانب سے کوئی ہدایت‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔ اور جو کفر کریں گےاور ہماری آیات کو جھٹلائیں گےوہ آگ والے (جہنمی) ہوں گے‘ اس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘
وحی کے ذریعے سے انبیاء ورُسلؑ کے پاس مکمل ہدایت آتی رہے گی کہ کیا اوامر ہیں اور کیا نواہی۔
چنانچہ اللہ نے یہ دوآنکھیں دی تھیں ۔ یورپ نے ایک آنکھ بند کر لی‘ یعنی آسمانی ہدایت سے منہ موڑ لیا۔ دوسری آنکھ پوری کھول دی کہ دیکھو‘ سنو اورنتیجہ نکالو۔ آگے بڑھو۔ فورسز آف نیچر کو قابو (conquer) کرو۔harness کرو‘ ایکسپلائٹ کرو‘ انہیں استعمال کرو اور آگے بڑھتے چلے جائو۔ اس کومیں کہہ رہا ہوں یک چشمی علم‘ ایک آنکھ والا‘ کانا علم۔ انہوں نے دوسرے ذریعۂ علم یعنی وحی سے آنکھ بند کر لی۔ اس علم نے دنیا کے اندر طاقت پکڑی اور پھر جو کچھ یہودیوں نےیورپ میں کیا تھا‘ وہ گلوبلائز ہو گیا۔ یہ تین چیزیں ہیں۔
یک چشمی علم کے ثمرات
ایک توسیاست‘ ریاست اور معاشرےسے خدا کا کوئی تعلق نہیں۔ انسان کی خود مختاری (human sovereignty) اور عوامی اقتدارِ اعلیٰ (popular sovereignty) کی بنیاد پر جمہوریت ہو گی۔ سیکولرازم کا نظام نافذ ہو گا۔ مذہب صرف مسجدوں‘ مندروں‘ سنیگاگز اور چرچز میں بند رہے گا۔ جہاں چاہو جائو۔کسی ملک کےسیاسی‘ معاشرتی اور اقتصادی نظام (Socio-Politico-Economic System) سے کسی مذہب کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ہم خود مختار ہیں اور جو چاہیں گے‘ قانون بنائیں گے۔ اس شے کا نام جمہوریت ہے۔ یہ اب عالمی سطح پر رائج ہو چکا ہے۔ اقبال نے اسی کے بارے میں کہا: ع’’تُوسمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری!‘‘ یہ نیلم پری یعنی جمہوریت آج سب کی محبوبہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض دانشوروں اور کالم نویسوں کی تان آخر میں جمہوریت ہی پر ٹوٹتی ہے کہ بس یہی اصل شے ہے۔ یہ دراصل خدا سے بغاوت ہے کہ وہ نہ ہماری پارلیمنٹ میں آئے ‘ نہ ہماری کورٹ میں آئے‘ نہ ہمارے بازار میں آئے ‘ نہ ہمارے بینک میں آئے اور نہ گھریلو نظام میں آئے۔ وہ بس مسجد ہی میں رہے ‘ ہم وہاں آکر رکوع وسجود کرلیں گے۔ یافلاں بت رکھا رہے کسی مندر میں‘ وہاں ڈنڈوت کرلیں گے۔ یہ خدا کے خلاف تاریخ انسانی کی سب سے بڑی بغاوت تھی ۔
دوسرا معاملہ معیشت کا تھا۔ یورپ میں چرچ کی حاکمیت کے دوران ہرطرح کاسود حرام تھا۔ کمرشل انٹرسٹ بھی حرام تھااور usury بھی جوکہ لوگ اپنے ذاتی استعمال کے لیے لے لیتے تھے۔ کیلون نامی ایک شخص نے ایک کتاب لکھی اور یہودیوں کے زیراثر انٹرسٹ کی اجازت حاصل کرلی گئی۔ چنانچہ بغاوت ہوگئی۔ ایک بغاوت تو ہوئی جبکہ چرچ آف انگلینڈ آزاد ہوگیا ۔اس نے کہاکہ ہم رومن کیتھولک چرچ کو نہیں مانتے۔ پھر اسی کے نتیجے میں بینک آف انگلینڈ قائم ہوا۔ دنیا میں سودی کاروبار کاآغاز ہوا۔ یہودیوں نے بینکنگ نظام شروع کرکے پورے یورپ کو جکڑ لیا۔ یہ سازشیں کرکے ملکوں کولڑاتے تھے۔ جنگ کے دوران انہیں پیسے کی ضرورت پڑتی تو ہتھیار خریدنے کے لیے یہود منہ مانگی شرح سود پر قرض دیتے اور خون چوستے تھے۔ چنانچہ انہوں نے یہاں تک حیثیت اختیار کرلی کہ علّامہ اقبال جب ۱۹۰۵ء میں انگلستان اور جرمنی گئے تو وہاں کے حالات دیکھ کر انہیں کہنا پڑا ع’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘ اُس وقت فرنگ کاامام برطانیہ تھا‘جس کے بارے میں کہتے تھے کہ اس کی سلطنت میں سورج کبھی غروب ہی نہیں ہوتا۔ آج اسی فرنگ کاامام امریکہ ہے اور وہ بھی اسی طرح پنجۂ یہود میں جکڑا ہوا ہے۔ سارے مالیاتی نظام ‘ سارے بینکنگ نظام پر یہود چھائے ہوئے ہیں۔ اس وقت امریکہ سب سے زیادہ مقروض یہودی بینکاروں کا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں نکیل ہے۔ جدھر چاہتے ہیں‘ موڑ دیتے ہیں۔اس سود پر مبنی سرمایہ داری (Interest-based Capitalism) میں جوا بھی جائز ہے‘ انسان کے جنسی جذبات کوبھڑکا کر کمائی کرنا بھی جائز ہے‘ شراب اورمنشیات کے ذرائع سے آمدنی بھی جائز ہے۔ آج یہ لحاف بھی پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ چین کچھ بچا ہوا تھا لیکن رفتہ رفتہ مارکیٹ اکانومی اور پرسنل پراپرٹی کے باعث وہ بھی اسی میں ضم ہو رہا ہے۔
یہود کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ انسان سے شرم وحیا‘عصمت وعفت کے سارے تصورات کوختم کر دیا جائے۔ اسے حیوان کی سطح پر لے آیا جائے۔ ایک کتے کو شہوت ہے تواسے کوئی بھی کتیا مل جائے‘ چاہے وہ اُس کی ماں ہو چاہے بیٹی ہو‘ اس سے استفادہ کرلے گا۔یہ انسانوں نے کیا قدغنیں لگا رکھی ہیں کہ وہ ماں ہے‘ وہ بیٹی ہے‘ وہ بیوی ہے۔یہ سب بنیادی طور پر عورتیں ہی ہیں۔ یوں خاندانی نظام کی جڑیں کھود ڈالی گئیں۔تالمود یہود کی فقہ کی کتاب ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اصل انسان صرف ہم یہودی ہیں ‘باقی تمام لوگ Goyimsاور Gentiles ہیں۔ یہ اصل میں انسان نما حیوان ہیں‘جبکہ حیوان کو استعمال کرنا‘ ایکسپلائٹ کرنا انسان کا حق ہے۔ گھوڑے کو تانگے میں باندھتے ہیں اور بیل کو ہل میں جوتا جاتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں کا خون چوسنا‘ ان کا استحصال کرنا‘ انہیں استعمال کرنا ہمارا حق ہے۔اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں واقعتاً حیوان بنا دیا جائے۔ انسانی اقدار ان سے چھین لی جائیں۔ حیوان بنیں گے تو پھر ہماری مرضی کے مطابق کام کریں گے ۔ جوکام وہ کریں گے اس کی پیداوار کی ملائی اور مکھن ہم سود کے ذریعے کھینچتے چلے جائیں گےجبکہ چھاچھ انہیں دے دیں گے ‘کیونکہ آخر انہیں بھی زندہ رکھنا ہے۔ وہ زندہ رہیں گے تو اگلے دن کوئی کام کریں گے۔ گھوڑے کو بھی شام کو چارہ ڈالتے ہیں‘ تبھی اگلے دن اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کا تیسرا فلسفہ تھا۔ یہود یہ انتقام یورپ‘امریکہ اور عیسائیوں سے بھرپور طریقے پر لے چکے ہیں۔ وہاں اب شرم اور حیا نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ عصمت وعفت کاکوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
صدر کلنٹن نے اپنے پہلے سٹیٹ آف دی یونین ایڈریس میں کہا تھا: ’’عنقریب ہماری اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔‘‘ یہ حرام زادے کا لفظ میں نے ترجمہ کیاہے ورنہ اُس نے کہا تھا:born without any wedlock ۔شادی کے بغیر جو اولاد ہورہی ہے تو یہ حرامی ہیں ‘ حرام زادے ہیں ۔چنانچہ اس نے کہا کہ عنقریب ہماری اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی۔Homosexuality‘ lesbians‘ gays کے حوالے سے وہ باقاعدہ ڈیکلیر کرتے ہیں ۔پادری ڈیکلیر کرتا ہے کہ میں gayہوں۔ سینیٹر ڈیکلیر کرتا ہے کہ میں gayہوں۔ انہیں اس میں کوئی شرم نہیں ہے‘ کوئی حجاب نہیں۔ اعتراف کرنے میں کہیں بھی کوئی رکاوٹ اور ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ یہ ہے جس کو کہا جائے گا : permissive hedonism۔ جنسی لذت ہرطریقے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ زنا بالرضا ہو تو کوئی جرم ہے ہی نہیں‘البتہ زنابالجبر جرم ہے۔ ساری اقدار کو انہوں نے اس طریقے سے ملیا میٹ کردیا ہے۔
ان کا یہ تیسرا معاملہ عالم ِاسلام کی حد تک پورا نہیں ہوسکا۔ ہمارے ہاں کچھ حد تک خاندانی نظام کی بنیادیں ابھی قائم ہیں۔ والدین کاادب ہے‘ ان کی عزت ہے۔ان کی خدمت کوانسان اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے۔ بیوی اور شوہر کے درمیان عمومی طور پر باہمی الفت‘ محبت اور اعتماد کی فضا ہے۔ خاندانی نظام کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ اگرچہ ہمارانظام بھی تیزی سے بگڑ رہا ہےاور ایلیٹ طبقہ مغرب کی طرز پر جاچکا ہے لیکن مڈل اور لوئرکلاسز میں ابھی کچھ اقدار برقرار ہیں۔ شرم و حیا اور عصمت و عفت کی پاس داری ہے۔ البتہ زور دار طریقے سے یہ مہم چلائی جا رہی ہےکہ مسلمان ممالک سے بھی یہ ساری اقدار ختم کردی جائیں۔ قرآن مجید نے دوجگہ پراہل مکہ کو متنبہ (warn) کیا تھا:
{اَوَلَمْ یَرَوْا اَ نَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَاط} (الرعد:۴۱)
’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو گھٹاتے چلے آرہے ہیں اس کے کناروں سے؟‘‘
کیایہ قریش دیکھ نہیں رہے کہ ہم رفتہ رفتہ ان کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ چاروں طرف سے ان کے گرد ہمارا گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔ان کے گرد جوقبائل آباد ہیں وہ مسلمانوں کے حلیف بنتے جارہے ہیں۔اسی طرح سورۃ الانبیاءمیں فرمایا:
{اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَاط} (آیت۴۴)
’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟‘‘
اسلام رفتہ رفتہ کُفّارِ مکہ کے لیے گھیرا تنگ کررہا تھا۔ آج اس کے برعکس ہے کہ یہودیوں کے زیراثرمغرب اورا مریکہ کی عظیم قوت کواستعمال کرتے ہوئے ہمارے لیے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ ہمارا معاشرتی نظام بھی تلپٹ ہوجائے‘ درہم برہم ہو جائے۔ ہماری اقدار بھی ختم ہوجائیں۔ ہمارے ہاں بھی عورت اورمردبالکل برابر ہونے کے مدعی ہوکر میدان میں آجائیں۔ عورت مرد بن جائے اور مرد عورت بن جائے۔ مردوں(gays) کی آپس میں شادیاں ہوجائیں کہ ایک مرد شوہر اور ایک مرد بیوی‘ اور یہ شادی رجسٹر ہوجائے ۔ عورتوں(lesbians) کی شادیاں ہوجائیں کہ ایک عورت شوہر اور ایک عورت بیوی ‘شادی رجسٹر ہوجائے ۔
اس پروگرام کے تحت سب سے پہلے۱۹۹۴ء میں قاہرہ میں ایک کانفرنس ہوئی جوعرب دنیا کا مرکز ہے۔ عربوں میں تعلیم اورٹیکنالوجی کے اعتبار سے سب سے آگے مصر ہی ہے۔یہ چونکہ ثقافتی اعتبار سے عربوں کاامام ہے ‘اس لیے وہاں جاکرڈیرا لگایا گیا اور ان افکار و نظریات کا پرچار کیا گیا۔ایک سال کے بعد بیجنگ میں کانفرنس کر دی تاکہ ایک اور طرف سے گھیرا ڈالا جائے اور عالم اسلام کے ایشیائی حصے پر اثرانداز ہوا جائے۔ اس کے بعدجون ۲۰۰۰ءمیں ’’بیجنگ پلس فائیو‘‘ کانفرنس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تحت ہوئی ۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا:
Women 2000: Gender Equality, Development and Peace for the 21st Century
بیجنگ پلس فائیو کانفرنس کا ایجنڈا
اس کانفرنس میں ایجنڈے کے طور پر سفارشات کاجوپرچہ تیار کیا گیا تھاوہ میں آپ کو بتا رہا ہوں۔ لندن سے ایک رسالہ Impact نکلتا ہے ‘یہ چیزیں میں نے اس سے لی ہیں۔ ہم نے ایک دفعہ انگریزی میں بڑی تعداد میں اس کو شائع کرکے تقسیم بھی کیا تھا۔ اس کانفرنس میں یہ فیصلے ہوئے تھے کہ:
(۱) ہم جنس پرستی کو ایک نارمل sexual orientation قرار دیا جائے۔ یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ مرد ‘مرد سے شہوت رانی کرے۔ عمل قومِ لوط حرام نہیں بلکہ نارمل orientationہے۔ یہ انسان کا مزاج ہے۔ ایک شخص عورت سے اپنی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے یا کسی مرد سے‘ اس معاملے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
(۲) ہم جنس پرست شادیوں کوتسلیم کیا جائے۔ اوریہ اب ہو رہا ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں رجسٹریشن شروع ہوچکی ہے۔ یورپ اورسکینڈے نیوین ممالک میں تو پہلے سے ہے۔
(۳) عورتیں گھر کاکام کاج کرنے سے انکار کردیں یا اس پر اجرت (wage) طلب کریں۔یہ چولھا جھونکنا‘ روٹی پکانا‘ برتن دھونا اس کے لیے معاوضہ طے ہونا چاہیے۔
(۴) عورتیں حمل یاوضع حمل میں جوتکلیف برداشت کریں‘ اس پر بھی شوہر سے حق محنت وصول کریں۔
(۵) اگر کسی وقت عورت کی طبیعت ہم بستری کے لیے آمادہ نہ ہو اور شوہر مجبور کرے تو اسے marital rape قرار دیا جائے۔ یہ زنابالجبر کے مترادف ہو گا۔
(۶) قحبہ گری (prostitution) کو ایک باعزّت پیشہ مانا جائے۔ اس پیشے سے منسلک خواتین کو طوائف نہیں بلکہ sex workers کہا جائے۔ جیسے مرد مختلف شعبوں میں اپنی جسمانی صلاحیتیں استعمال کر کے رزق کماتا ہےاسی طرح عورت بھی اپنے جسم کو استعمال کر کے پیسے لیتی ہے۔ یہ اس کا پیشہ ہے جسے باعزّت قرار دیا جائے۔ اس پرقطعاً کوئی قدغن نہ ہو۔
(۷) وراثت اور طلاق کے امور میں مرد اور عورت کے درمیان بالکل برابری ہو‘ کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے ۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ نکتہ اسلام ہی کو ہدف بنا کر ایجنڈے میں شامل کیاگیا۔
اس کا نام رکھا گیا: سوشل انجینئرنگ (معاشرتی تعمیر ِنو)۔ مولانا روم نے کہا تھا کہ ’’اوّل آں بنیاد را ویراں کنند!‘‘ پہلی بنیادوں کو اکھاڑ کر ہی نئی عمارت تعمیر کی جا تی ہے۔ لہٰذا موجودہ سوشل سٹرکچر ختم کرکے جو نئی سوشل انجینئرنگ کرنی ہے ‘ اس کا سب سے بڑاٹارگٹ عالم ِاسلام ہے۔ یہ تین کانفرنسیں ۱۹۹۴ء‘ ۱۹۹۵ء اور ۲۰۰۰ء میں ہوئیں۔
رینڈ کارپوریشن کی سفارشات
اب ایک نیا شوشہ آیا ہے۔ امریکہ کاایک بہت بڑا تھنک ٹینک ہے: ’’رینڈ (RAND)کارپوریشن‘‘۔ اس کی سفارشات محکمہ دفاع اورمحکمہ خارجہ کو جاتی ہیں۔ اس تھنک ٹینک کے مشوروں اور تجاویز کو حکومت غور سے دیکھتی ہے اور عمل کرتی ہے۔ اب انہوں نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ مسلمان چار قسم کے ہیں :
(۱) بنیاد پرست (Fundamentalist)‘ جو اسلام کو صرف مذہب نہیں بلکہ ایک دین سمجھتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ اسلام صرف عقیدے‘ عبادات اوررسومات کا نام نہیں بلکہ ایک politico-socio-economic system ہے‘ ایک اجتماعی نظام ہے۔ اس طبقے کے لوگ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ انہیں ہم نے ہرقیمت پرختم کرنا ہے۔
They are the biggest challenge to our civilization, our culture, our system.
(۲) روایت پسند(Traditionalist) طبقہ‘ جو علماء پر مشتمل ہے۔ یہ قال اللہ وقال الرسول میں مشغول ہیں۔ ان کااصل مشغلہ دارالعلوم ہے‘پڑھنا پڑھانا ہے۔ مساجد میں خطبہ دینا ہے‘ امامت کرانی ہے۔ اس سے بڑھ کر ان کے سامنے اسلام کا کوئی conceptنہیں ہے۔ لہٰذا یہ ہمارے لیے خطرناک نہیں ہیں ۔ They are no challenge to us ۔البتہ اگر وہ کبھی بنیاد پرستوں کے ساتھ مل گئے تو پھر بہت خطرناک ثابت ہوں گے ‘کیونکہ ان کے پاس عوام تک رسائی کابہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہرجمعہ کو ایک طرح کا جلسہ ہو رہا ہے۔ اگر چھوٹا سا اجتماع بھی کرنا ہو تو ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں ۔ اشتہار‘ پوسٹروغیرہ لگانے پڑتے ہیں ۔ یہاں تو لوگ نہادھو کر‘ اچھے کپڑے پہن کراورعطر بھی لگا کر آرہے ہیں۔ گویاکچے دھاگے میں بندھے ہوئے ہیں۔ان کے پاس تو بڑا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اولاً ان کو ایک دوسرے سے دور رکھو۔ اپنے مسلکی و فرقہ وارانہ اختلافات میں الجھائے رکھو۔ شوشے چھوڑتے رہو تاکہ وہ انہی مباحث کےاندر مناظرے بازی میں لگے رہیں۔
(۳) جدیدیت پسند (Modernist) : یہ وہ لوگ ہیں جواسلام کی جدید تعبیرکررہے ہیں اور اسے ہماری تہذیب کے ساتھ ہم آہنگ (compatible) بنا رہے ہیں ۔ ان کی مدد کرو‘ انہیں سپورٹ کرو‘ انہیں پیسہ دو۔خاص طور پر پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں ان کے لیےرسائی کا بندوبست کرو‘ اس لیے کہ ان کے پاس کوئی اورذریعہ تو ہے نہیں۔ ان میں سے کسی کو کوئی مسجد میں خطیب بنا کر تو کھڑا نہیں کرے گابلکہ شاید وہاں یہ داخل بھی نہ ہوسکیں۔ ان کے لیے ذریعہ چاہیے تاکہ عوام تک پہنچیں۔ آج کاسب سے بڑا ذریعہ ٹیلی ویژن ہے‘ انہیں اس پر لائو۔ خاص طور پرہمارا انگریزی پریس ان کاآلہ کار بنے اور میڈیا میں انہیں exposureدو۔
(۴) سیکولرسٹ:یہ پہلے ہی ہمارے ہیں‘ہماری جیب میں ہیں ۔یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ نظام زندگی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مذہب محض عقیدہ‘ عبادات اور رسومات کا نام ہے۔
گویا کہ دوجمع دو تقسیم ہو گئی۔ دوکوسپورٹ کرو‘مدد دو جبکہ دو کو suppress کرو اور ایک دوسرے سے دور رکھو۔ روایت پسندوں کو اپنے اختلافات میں الجھائے رکھو۔ یہ ہے پالیسی جس کے تحت عجیب و غریب باتیں الیکٹرانک میڈیااو رٹیلی ویژن سے سننے میں آ رہی ہیں۔ بڑے بڑے دانشور کہہ رہے ہیں کہ اسلام میں شراب حرام نہیں ہے بلکہ شراب پی کربالکل دھت ہوجانا‘ مدہوش ہوجانا حرام ہے۔ اس کے لیے مغرب میں drunkards کی اصطلاح ہے یعنی اتنا پی لینا کہ ہوش و حواس قابو میں نہ رہیں۔ انہیں وہاں بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اصلاً اسلام میں شراب حرام نہیں ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ علامہ اقبال کے فرزند نے یہ بات کہی ہے۔ پھر انہی کے ہم نام ایک جدیدیت پسند سکالر نے یہ شوشہ چھوڑاکہ قرآن میں پردہ نہیں ہے۔ پردہ توایک خاص وقت کی معاشرتی ضرورت تھی جس کے تحت کچھ احکام دیے گئے ۔ ان کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے۔ یہ ہے وہ صورت حال جس کی بنا پر میں نے اس موضوع کو اپنے لیے اختیار کیا ہے۔
اسلام میں پردے کے اَحکاماب میں آرہاہوں کہ اسلام میں پردے کے احکام کیا ہیں‘ لیکن اس کے لیے پہلے چند تمہیدی مباحث ضروری ہیں ۔
(۱) ہمارے نزدیک اسلام مذہب نہیں ‘دین ہے۔ اسلام کے لیے مذہب کا لفظ قرآن میں آیا ہی نہیں ۔جہاں تک مجھے حدیث کاعلم ہے‘ وہاں بھی نہیں آیا۔ میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ حدیث کاذخیرہ بہت بڑا ہے‘ لیکن جتنا کچھ پڑھا ہے وہاں مذہب کا لفظ نہیں دیکھا۔ ہمارے اسلاف میں مذہب کی اصطلاح حنفی‘ مالکی‘ شافعی‘ حنبلی مسالک کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ اس کے بعد ایک اور مذہب سلفی آیا‘ جو اہل حدیث حضرات ہیں۔ دراصل مذاہب یہ ہیں جبکہ اسلام دین ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ وقف}(آل عمران:۱۹) ’’یقیناً اللہ کے نزدیک دین تو بس اسلام ہی ہے۔‘‘
اسلام چھ چیزوں پرمشتمل ہے۔ اس میں ایمانیات بھی ہیں ‘ عبادات بھی ہیں ‘ رسومات بھی ہیں۔ بچہ پیدا ہوگا تو عقیقہ کریں گے۔ کوئی فوت ہو جائے گا تو نہلائیں گے‘ کفن دیں گے‘ نماز جنازہ پڑھیں گے‘پھر دفن کریں گے۔ شادی ہوگی تو ایجاب وقبول ہوگا‘ اعلانِ عام ہو گا۔ پھر اسلام میں سیاسی نظام ہے‘ معاشی نظام ہے‘ معاشرتی نظام ہے۔ اسلام کی حدود ہیں ‘ قانونِ تعزیرات ہے‘ دیوانی قانون ہے۔ اسلام کا قانونِ وراثت ہے۔ اسلام کا قانونِ شہادت ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیمات نہ دی ہوں۔ بہرحال اسلام مذہب بھی ہے لیکن یہ صرف مذہب نہیں ہے بلکہ حقیقتاً ایک دین ہےیعنی مذہب کے تینوں اجزاء اور socio-politico-economic سسٹم مل کراسلام بنتا ہے۔
(۲) اسلام صرف قرآن پر قائم نہیں ہے۔ منکرین حدیث نے اپنا نام ’’اہل قرآن‘‘ رکھ کرمسلمانوں کو بہت بڑا دھوکا دیا ہے۔ وہ منکرین حدیث اور منکرین سنت ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بس قرآن کافی ہے جبکہ حضورﷺ کی اطاعت کا بار بار جو حکم دیا گیاکہ {اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} وہ محض اُس وقت کے امام اور لیڈر ہونے کی حیثیت سے ہے ۔آپﷺ کی زندگی میں اطاعت فرض تھی ‘ یہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ ہمارا یہ موقف نہیں ہے‘ اُمّت کا نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کی دوبنیادیں ہیں : کتابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃُ رَسُولِہِ! اللہ کی کتاب اوراس کے رسول ﷺ کی سنت۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کے دستور میں شامل قراردادِ مقاصد کے اندر ان دونوں کا ذکر ہے۔ دفعہ ۲۲۷ میں کہا گیا:
No legislation will be done repugnant to the Quran and Sunnah.
یہ الگ بات ہے کہ اس میں ایسے چور د روازے موجود ہیں کہ پاکستان کادستور منافقت کاپلندہ بن چکا ہے۔ ان دفعات کے ہوتے ہوئے بھی اسلام نافذ نہیں ہورہا۔ یہ دفعات ineffective ہو چکی ہیں۔ تاہم عملاًاور نظری طور پر کم سے کم یہ ضرور ہے کہ ہمارے دستور میں کتاب وسنت دونوں کوتسلیم کیا گیا ہے۔
(۳) یہ بات بہت اہم ہے۔ قرآن پر تدبر کرنے میں دو پہلو ہمیشہ سامنے رہنے چاہئیں۔ ایک ہے اس کی تاویل خاص اور ایک ہے تاویل عام۔قرآن ایک خاص دور میں اُترا۔ یہ ۶۱۰ء سے ۶۳۲ء تک ۲۲ برس میں حجاز میں نازل ہوا۔ مکی سورتیں ہیں تو مکہ بھی حجاز میں ہے‘ مدنی سورتیں ہیں تومدینہ بھی حجاز میں ہے۔ سفر تبوک کے موقع پر آیات نازل ہوئی ہیں تو تبوک بھی حجاز کاآخری کونہ ہے۔ چنانچہ حجاز کے لوگ ہی اس کے اولین مخاطب تھے۔ قرآن مجید میں جو چیز بھی نازل ہوئی ہے ‘اس وقت کے ماحول کے ساتھ اس کی کوئی نہ کوئی نسبت تھی ۔تبھی وہ سمجھ سکتے تھے۔یہ محض ہوا میں باتیں نہیں تھیں۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن ابدالآباد تک کے لیے ہدایت ہے۔ یہ صرف اُس وقت کے لیے ہی ہدایت نہیں تھا بلکہ آج بھی یہی ہدایت ہے اور قیامت تک ہدایت رہے گا۔ علامہ اقبال جیسے مفکر‘ مدبر اور فلسفی کو بھی اگر ہدایت میں تسکین ملی ہے تو اسی کتاب سے: ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
زندگی کے آخری دور میں وہ صرف قرآن پڑھتے تھے ‘کوئی فلسفے کی کتاب نہیں۔ لہٰذا قرآن میں بیسیویں صدی کے فلسفی کے لیے بھی ہدایت ہے۔ کسی بھی زمانے کے اندر جو مسائل پیدا ہوں گے‘ ان سب کا حل موجود ہے۔
اب ان دونوں باتوں کو جوڑیے ۔ اُس وقت قرآن ایک خاص ماحول میں خاص افراد سے مخاطب ہو کر نازل ہوا تو اس کا کچھ واقعاتی پس منظر بھی تھا۔ اگر اُس پس منظر میں قرآن کی آیات پر غور کیا جائے تو یہ تاویل خاص ہے۔ یہ ضروری ہے‘کیونکہ اس سے insightحاصل ہوتی ہے۔ البتہ ایک ہے اس کی تاویل عام‘ جو ہمیشہ کے لیے ہے۔ چنانچہ اصول یہ ہے : الاعتبار لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی اصل اعتبار الفاظ کے عموم کاکیا جائے گا نہ کہ سبب ِنزول کے خصوص کا۔ اعتبار کیا جائے گاہمیشہ کے لیے‘ generalise کیا جائے گا کہ یہ احکام آئے ہیں۔ا ن کے الفاظ کو دیکھیں گے‘ ان پر نگاہیں جمائیں گے اوراس سے احکام کا استنباط کریں گے۔
یہ تین باتیں ہوگئیں۔ ایک ‘اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ دین ہے۔ دوسرے‘ اسلام صرف قرآن پر مبنی نہیں ہے۔ صرف قرآن پرتو نماز کانظام بھی نہیں بنتا۔ اگر سنت کو نکال دیں تو دو آدمی بھی نماز پرمتفق نہیں ہوسکتے۔کس دلیل سے مغرب کی تین رکعتیں ہیں؟ قرآن میں سجدےاور رکوع کا ذکر تو ہے لیکن کیا کہیں یہ ترتیب لکھی ہے کہ پہلے تکبیر تحریمہ کہو‘ پھر کھڑے رہو‘سورۃ الفاتحہ پڑھواور سورت ملا کر رکوع میں جائو‘پھر کھڑے ہو‘ پھر سجدے میں جائو؟چودہ سو برس گزرنے کے باوجود کیا انڈونیشیا کے آخری جزیرے سے موریطانیہ تک نماز کے بارے میں کوئی اختلا ف ہے ؟رکعتوں اور ان کی ترتیب کا اختلاف ہے ؟کوئی اختلاف نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ رفع الیدین کریں یا نہیں! آمین بلند آواز سے کہنی ہے یا زیر لب ۔۱۹۶۲ء میںجب میں نے پہلا حج کیا تو مجھے اس چیز کا احساس ہوا۔ وہاں یہ نقشہ نظر آیا کہ مسلمان خانہ کعبہ کے گرد کھڑے ہوئے ہیں دائروںمیں۔ ایک دائرہ‘ دوسرا‘ تیسرا‘ چوتھا۔ شیعہ بھی ہیں ‘ سنی بھی ہیں‘ بریلوی بھی ہیں ‘ دیوبندی بھی ہیں ‘ اصحابِ ظاہر بھی ہیں ‘خارجی بھی آگئے ہیں‘ سب ہیں لیکن کہیں بھی نماز کی ڈرل نہیں ٹوٹتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کاخیال ہوتاکہ رکعت میں رکوع ایک ہے توسجدہ بھی ایک ہے‘وہ ایک سجدہ کرکے کھڑا ہوجاتا اور دوسرا دوسرے سجدے میں گرا ہوا ہوتا تو نماز ٹوٹ جاتی۔ کھڑے ہونے والا کہتا کہ ع ’’یہ ناداں گرگئے سجدوں میں جب وقت ِقیام آیا!‘‘ اب توکھڑے ہونے کاوقت تھا‘ یہ دوبارہ سجدے میں گر گئے۔ لیکن کہیں ایسا نہیں ہے۔اتنے مسلک‘ اتنی قومیتیں‘اتنے علاقے ہیں لیکن نماز ایک ہی ہے۔ کہیں ڈرل نہیں ٹوٹتی‘ جمعیت ختم نہیں ہوتی۔ یہ سب سنت کی برکت سےہے۔ لہٰذا اسلام کی بنیاد قرآن وسنت پر ہے۔ قرآن پرتدبر کرنے اور استنباط کرنے کے لیے تاویل خاص پر بھی نظر ہونی چاہیے۔آپ کو وہ پس منظر جاننا چاہیے کہ جس کے اندروہ آیات نازل ہوئیں۔ لیکن ان کی عام تاویل کی جائے گی کہ ہمیشہ کے لیے اس سے کیاقانون مستنبط ہوتاہے۔
عرب معاشرے کی خصوصیات
عرب کے جاہلی تمدن کا معاشرتی نظام کیاتھا؟ کیا وہاں عورتیں برہنہ رہتی تھیں؟ کیاوہاں کوئی خاندانی نظام نہیں تھا؟یہ نہ سمجھیے کہ وہاں اس طرح کاکوئی خلاتھابلکہ اس معاشرے میں بھی خصوصیات تھیں:
(۱) ان کا قبائلی نظام بہت مضبوط تھا اورایسے حالات میں خاندانی نظام بھی بہت مستحکم ہوتا ہے۔ قبیلہ خاندانوں کے مجموعے ہی کانام ہے ۔
(۲) شرفاء کی خواتین میں عام لباس کے علاوہ دوچیزیں ان کے استعمال میں رہتی تھیں۔ ایک خمار(اوڑھنی)‘ گھروں کے اندر وہ اوڑھنی اوڑھتی تھیں۔دوسرے جلباب (لمبی چادر) کہ جب باہر نکلتی تھیں تو اس میں اپنے پورے جسم کو لپیٹ لیتیں‘ لیکن چہرہ نہیں چھپاتی تھیں۔ جلباب کا لفظ قرآن میں آیا ہے: {یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط} (الاحزاب: ۵۹)۔ خمار کاذکر بھی آیا ہے: {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ}(النور:۳۱)۔یہ الفاظ انہیں معلوم تھے ‘ ان کے زیراستعمال تھے‘ ورنہ کوئی نیالفظ کہاں سے آجاتا۔چنانچہ جلباب اور خمار ان کے لباس کاحصہ تھا۔ البتہ گھر کے اندر کسی مخلوط اجتماع کی کوئی پابندی نہ تھی۔عورتیں بھی ہیں‘ مرد بھی بیٹھے ہیں ‘ خوش گپیاں ہورہی ہیں۔ ساتھ مل کرکھانا کھا رہے ہیں ۔جیسے آج مغرب میں ہے۔ نہ ہی کوئی باہر کے مخلوط اجتماعات پر پابندی تھی۔ وہ ایک مخلوط معاشرہ تھا۔
(۳) البتہ وہاں کنیزوں کا ایک طبقہ تھا۔ کنیزیں‘باندیاں‘ عام خادمائیں۔انہیں جاریات (چھوکریاں) بھی کہہ دیتے تھے۔ ان کا معاملہ یہ تھاکہ ان کے لیے نہ کوئی خمار تھا نہ جلباب ۔ یہ ننگے سراورکھلے چہرے کے ساتھ آتی تھیں۔ ان کے لباس کوئی زیادہ ڈھکے ہوئے نہیں ہوتے تھے۔ بے پردگی‘بے حیائی‘ عریانی اور بے شرمی ان میں عام تھی۔ لوگوں کو ان سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا حق تھا۔ان کے آقا ان سے جسم فروشی بھی کرواتے تھے جس کوقرآن نے سورۃ النور میں روکا ہے۔ وہ ان کو آمدنی کا ذریعہ بناتے تھے۔جسم فروشی (prostitution)اور قحبہ گری ان میں عام تھی۔ اس طرح یہ دوطبقے ہوگئے۔ شرفاء کی خواتین اور عام کنیزیں۔
اسلام کی معاشرتی اصلاحات کے اہداف
اس پس منظر میں اسلام نے جومعاشرتی اصلاحات کی ہیں ‘ان کے اہداف یہ ہیں:
(۱) مضبوط خاندانی نظام: نظام شروع ہوتا ہے ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ازدواج سے۔ ان دونوں کے درمیان جتنی محبت ہوگی‘ جتنا قرب ہوگا‘ جتنا باہمی اعتماد ہوگا اتنا ہی خاندان مضبوط ہوگا۔ شوہر اور بیوی خاندان کیfirst dimension ہے۔ جب شوہر اور بیوی کو اللہ نے اولاد دے دی تواب second dimension کا اضافہ ہو گیا۔ خاندان کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اولاد والدین کاادب کرے۔بڑھاپے میں ان کی خدمت کرے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اولاد سے محبت کرو‘کیونکہ یہ تو دل میں ہے ہی۔ اس کے لیے تویہ کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ محبت نہ کرو‘کیونکہ ایسا کرنے سے بچے بگڑ جائیں گے۔ اولاد کی محبت کی وجہ سے حرام میں منہ مت مارو۔ قرآن کریم میں پانچ جگہ اللہ کے حق کے فوراً بعد والدین کا حق مذکور ہے۔ ارشاد ہوا:
{وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط}(بنی اسراءیل:۲۳)
’’اور فیصلہ کر دیا ہے آپؐکے رب نے کہ مت عبادت کرو کسی کی سوائے اُس کے ‘اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ط...... اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط}(لقمان:۱۴)
’’اور ہم نے وصیت کی انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں......کہ شکرکرو میرا (میں تمہارا خالق ہوں‘ تمہارا رب ہوں) اوراپنے والدین کا۔ ‘‘
وہ تمہار ے اس دنیا میں آنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ جب تم چھوٹے تھے تو انہوں نے ہی پالاپوسا ہے۔ اپناپیٹ کاٹ کرتمہیں کھلایا ہے۔ اپنی رات کی نیندیں حرام کرکے تمہیں پالا ہے۔ لہٰذا والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔ تیسری جہت (dimension) یہ ہے کہ صلہ رحمی کرو۔ یہ خاندان کے تین ابعاد یا تین جہات (dimensions) ہیں۔ ان میں سے مؤخر الذکر دو میرا اس وقت کا موضوع نہیں ہیں۔
اگر شوہر اور بیوی کے درمیان اعتماد نہ ہو‘ شوہر کویہ یقین نہ ہوکہ میں جب باہر جاتا ہوں تو میری بیوی کیا کرتی ہے اور بیوی کو یہ یقین نہ ہو کہ میرا شوہر جب باہر جاتا ہے تو کیا کرتا ہے توبداعتمادی کی فضا قائم ہو جائے گی۔ اگر شوہر کی نگا ہ میںکوئی دوسری عورت کھب گئی ہے تو اب اس کی توجہ اپنی بیوی پر سے ہٹ جائے گی۔ اسے خواب میں بھی وہی نظر آئے گی۔ یوں شوہر اور بیوی کا bond of love کمزور ہوگا۔ اگر باپ کو یہ یقین نہ ہو کہ یہ اولاد میری ہی ہے تواس خاندان کے ادارے میں دراڑیںپڑ جائیں گی۔لہٰذا اس ادارے کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے اہم کام یہ ہے کہ مرد اور عورت میں جتنی بھی جنسی کشش ہے‘وہ صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ہی مرکوز (centered)رہے۔ انتشار نہ ہو۔ نگاہ اِدھر سے اُدھر نہ جائے بلکہ ان کی پوری توجہ ایک دوسرے کی طرف ہو۔ آپس میں اعتماد ہو‘ محبت ہو۔اسی سے خاندان کی چولیں مضبوط رہیں گی۔
(۲) دوسرا ہدف یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں پر ان کی جسمانی اور نفسیاتی ساخت کے مطابق جداگانہ ذمہ داریاں ڈال دی گئیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عورت کا جسم اور ہے جبکہ مرد کا کچھ اور۔ عورت کی نفسیات کچھ اور ہے ‘مرد کی نفسیات کچھ اور۔ ان دونوں میں زمین آسمان کافرق ہے۔ عورت کاحسن اس کی نزاکت میں ہے جبکہ مرد کا حسن اس کی جسمانی وجاہت میں ہے۔ اس اعتبار سے اسلام نے بھاری کام مرد کے ذمہ لگایا۔ ایک شخص آٹھ گھنٹے کسّی چلاتا ہے اور پھر اپنے گھروالوں کے لیے کچھ لے کر آتا ہے۔ کوئی سارا دن اینٹیں ڈھوتاہے اور پھر کچھ لے کر آتا ہے ۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ان کا دفاع مردوں کے حوالے ہے۔ معاش کا معاملہ مردوں کے حوالے ہے‘ عورت کے نہیں۔ یہ عورت پر ظلم ہےکہ معاشی ذمہ داری بھی اس پر ڈال دی جائے۔ جسمانی حوالے سے اگر اس پر کوئی ذمہ داری اور مشقت ڈالی گئی ہے تو وہ حمل کو برداشت کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ....} (لقمان:۱۴)
’’اس کو اٹھائے رکھا اُس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں) کمزوری پر کمزوری جھیل کر‘ اور اُس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں....‘‘
بچے کو دودھ پلانا ماں کے ذمہ ہے۔رات کو بچہ روتا ہے توماں جاگتی ہے‘ باپ نہیں۔ ماں اپنی نیند حرام کردے گی۔ چنانچہ کسی قوم کا حال مردوں کے اور مستقبل عورتوں کے حوالے ہے۔ مستقبل ہے اگلی نسل۔ وہ عورت کے رحم میں وجود پائے گی۔ عورت کی گود میں پرورش پائے گی۔ مستقبل کا سارا بوجھ عورت پرجبکہ حال کی ساری ذمہ داریاں مرد کے اوپر ہیں۔
(۳) یہ بہت بڑاہدف ہے کہ جنسی انضباط (sex discipline) ہو‘ زنا کی روک تھام ہو۔ ازروئے الفاظ قرآنی:
{وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃًط وَسَآئَ سَبِیْلًا(۳۲) } (بنی اسرائیل)
’’اور زنا کے قریب بھی مت پھٹکو‘ یقیناً یہ بہت بے حیائی کا کام ہے‘ اور بہت ہی برا راستہ ہے۔‘‘
یہ نہیں کہاکہ ’’لَا تَزْنُوا‘‘ کہ زنا مت کرو‘ بلکہ حکم ہوا کہ اس کے قریب تک نہ پھٹکو! جیسے فیصل آباد کاگھنٹہ گھر ہے جہاں آٹھ بازار مل رہے ہیں۔ اب اگر کوئی سرکاری طور پر یہ اہتمام کرنا ہے کہ اس کلاک ٹاور تک کوئی جلوس نہ پہنچے توآٹھوں بازاروں کو بند کرنا ہو گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے دُور دُور تک وہ حدیں لگا دی ہیں کہ زنا کی ترغیب نہ ہو‘زنا کے راستے مسدود ہوجائیں۔ جدید نفسیات کا بانی فرائڈ کو مانا جاتا ہے‘ جس کے نزدیک انسان کے محرکاتِ عمل میں سب سے زیادہ طاقتور‘ سب سے زیادہ potent سیکس ہے۔ مارکس نے معاشی ضرورت کو قرار دیا‘ لیکن فرائڈ نے کہا کہ نہیں‘ اصل شے سیکس ہے ۔ وہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ باپ اگر محبت بھری نگاہ سے بیٹی کودیکھ رہا ہے تواس کا محرک بھی جنسی جذبہ ہے اور اسی طرح اگر ماں بیٹے سے محبت کر رہی ہے تو یہ بھی شہوت کی وجہ سے ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون!ان کمبختوں کا معاملہ یہ ہے کہ ایک شے پر نگاہ جم گئی تو سب کچھ اسی کے گرد گھما دیا۔ ورنہ بنیادی طور پربات کچھ اتنی غلط نہیں ہے۔اس میں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جنسی داعیہ انسان کے طاقت ور ترین داعیات میں سے ایک ہے۔اگر عورت میں مرد کے لیے کشش نہ ہو‘ اگر عورت کو مرد کی احتیاج نہ ہوتو تمدن ختم ہوجائے۔ پھر کون شادی کاکھکیڑ مول لے گا؟ایک پیٹ پالنا اورشےہے‘ جبکہ ایک خاندان کی ذِمہ داری کا بوجھ اٹھانا بالکل دوسری چیز۔یہ جس قدر شدید اندرونی کشش ہے‘ اس اعتبار سے سمجھیے کہ جتنا زور دار گھوڑا ہو اتنی ہی زوردار لگام چاہیے۔ لہٰذا اس جنسی جذبے کو ڈسپلن میں لانے کے لیے لازم ہے کہ ایک مرد اور عورت کے درمیان قانونی تعلق ہو‘ ازدواج ہو‘ شادی ہوجائے۔ یاپھر دوسرا راستہ وہ تھا جوآج کل نہیں رہا ‘یعنی کسی کی باندی ہو ‘ملک ِیمین ہو۔ ان کے مابین جنسی ملاپ(sexual intercourse) ہو اوراس سے باہر نگاہ بھی نہ جائے۔
قرآن او رصاحب ِقرآن ؐکی حقیقت پسندی
ذرا دیکھیے کہ قرآن مجیداور رسول اللہﷺ کس قدر حقیقت پسند ہیں۔سورۃ آلِ عمران میں فرمایاگیا:
{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَـرَۃِ مِـنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط } (آیت ۱۳)
’’مزین کر دی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبّت جیسے عورتیں اور بیٹے اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے اور چاندی کے اور نشان زدہ گھوڑے اور مال مویشی اور کھیتی۔‘‘
اسی طرح حضورﷺکی ایک حدیث سنن نسائی‘ مسند احمد‘ حاکم اور بیہقی میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْيَاكُمْ ثَلاَثٌ: اَلطِّيبُ وَالنِّسَاءُ، وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلاَةِ))
’’تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے تین چیزیں میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں: خوشبو اور عورتیں‘اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘
حضورﷺ فرماتے ہیں کہ تمہاری اس دنیا میں سے مجھے تین چیزیں محبوب کردی گئی ہیں ۔ یہاں دوسرے نمبر پر آپﷺ نے ’’نساء‘‘ کا ذکر فرمایا۔ ( بقولِ اقبال : ع ذکر ِ اُو فرمود با طیب و صلاۃ)یہ بیان کرنے میں کیا آپﷺ نے کسی جھجک سے کام لیا؟جو حقیقت ہے‘ اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔
اسی طرح سورۃ الاحزاب میں حضورﷺ سے خطاب میں واضح الفاظ آئے ہیں:
{ لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ......}
’’اب اس کے بعد اور عورتیں آپؐ کے لیے حلال نہیں اور نہ ہی (اس کی اجازت ہے کہ) آپؐ ان میں سے کسی کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں اگرچہ اُن کا حسن آپ کو اچھا لگے.....‘‘
اللہ تعالیٰ نے بھی یہ الفاظ ارشاد فرماتے ہوئے جھجک سے کام نہیں لیا کہ اے نبیﷺ! خواہ عورتوں کا حسن آپ کو بھلا لگے‘ لیکن اب آئندہ شادی کی اجازت نہیں۔
میں فرائڈ کی اس حد تک تائید کر رہا ہوں کہ جنسی جذبہ بہت زوردار محرک ہے ‘ البتہ اس گدھے نے جو آگے تک معاملہ پہنچا دیا ہے وہ غلط ہے۔
زنا کے مراتب و مدارج
اب زنا کے بارے میں حضورﷺ نے جو فرمایا وہ بھی سن لیجیے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَكَ ذٰلِكَ لَا مَحَالَةَ، فَزِنَا الْعَيْنَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ النُّطْقُ، وَالنَّفْسُ تَمَنّٰى وَتَشْتَهِي، وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذٰلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ)) (صحیح البخاری:۶۲۴۳، صحیح مسلم:۶۷۵۳)
’’اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کے حصے کا زنا لکھ دیا ہے‘ وہ لامحالہ اپنا حصّہ لے کر رہے گا۔ آنکھ کا زنا (نا محرم عورت کو) دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا (حرام بات) کہنا ہے۔ دل تمنا رکھتا ہے‘ خواہش کرتا ہے‘ پھر شرم گاہ اس کی تصدیق کرتی ہے (اور وہ زنا کا ارتکاب کر لیتاہے) یا تکذیب کرتی ہے (اور وہ اس کا ارتکاب نہیں کرتا)۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کے لیے زنا میں سے ایک حصّہ لکھ دیا ہے جو اس کو پہنچ کررہے گا۔ آنکھوں کا زنا نامحرم عورت کو دیکھنا ہے۔ اگر زنا کو پوری طرح روکنا ہے تو یہاں پر بھی قدغن لگے گی۔ حدیث میں ایک جگہ آیا ہے: ((النَّظَرُ سَہْمٌ)) نظر تیر ہے۔ ’’نگاہوں کے تیر‘‘ کا ذکر شاعری اور گانوں میں تو سننے میں آتا ہے۔ پھر فرمایا کہ کسی عورت سے گفتگو کرکے چٹخارے لینا زبان کا زنا ہے۔ عورت کی آواز میں بھی لوچ ہے‘ حسن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سراپا ایسا بنایا ہے کہ مرد کے لیے اس کی ہرشے کے اندر کشش ہے۔ اس کی آواز میں کشش ہے۔ آگے فرمایا کہ نفس تمنا کرتا ہے کہ اب میں اس سے آگے بڑھوں اور زنا بھی کرلوں۔ لیکن اس آخری مرحلے کی نوبت آ بھی سکتی ہے اور نہیں بھی آسکتی۔ البتہ اس سے کم تردرجے کے زنا تو وہ کرچکا۔ کان کا زنا اُس نے کرلیا‘ آنکھ کا زنا اُس نے کرلیا‘ زبان کا زنا اُس نے کرلیا۔ حضورﷺ اس سب کوزنا کی تعریف میں لائے ہیں۔صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں:
((كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُه مِنَ الزِنا مُدْرِكُ ذٰلك لا مَحَالَة: العَينَان زِناهما النَظر، والأُذنان زِناهما الاستماع، وَاللِّسان زِناه الكلام، واليَدُ زِناها البَطْش، والرِّجْلُ زِناها الخُطَا، والقلب يَهْوَى ويتمنى، ويُصَدِّقُ ذٰلك الفَرْج أو يُكذِّبُه))
’’انسان پر اُس کے زنا و بدکاری کا حصّہ ضرور لکھا جا چکا ہے جسے وہ ضرور پانے والا ہے۔ آنکھوں کا زنا( نامحرم عورت کو بری نگاہ سے) دیکھنا ہے‘ اور کانوں کا زنا (نامحرم کی شہوت انگیز باتوں کا) سننا ہے‘ اور زبان کا زنا (شہوت انگیز) باتیں کرنا‘ اور ہاتھ کا زنا اس کا پکڑ دھکڑ کرنا (یعنی نامحرم کو بری نیت سے چھونا)‘ اور پاؤں کا زنا (بدکاری اور گناہ کے کاموں کی طرف جانا اور) چلنا ہے۔ جب کہ دل اس کی خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔‘‘
گویا زبان کابھی زناہورہا ہے۔ کان کا بھی ہو رہا ہے۔ہاتھ کا بھی ہو رہا ہے۔ کہیں عورت کے جسم کو لمس کیا ہے‘ اس سے ہاتھ ملایا ہے۔ کہیں اسے دیکھنے کے لیے چل کر جا رہا ہے تویہ پائوں کازنا ہو رہاہے۔ یہ ہیں زناکی شکلیں جومحمد رسول اللہﷺ نے بیان کی ہیں ۔
زنا کی روک تھام ہمارے اہداف کے اندر بہت زیادہ اہم ہے‘ورنہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ اگر میاں بیوی میں اعتماد نہیں ہے تو ایسی فضا میں جو اولاد پلے گی اس کی منفی نفسیات ہوں گی‘ کبھی مثبت نفسیات نہیں ہوسکتیں۔ والدین میں آپس میں محبت ہو‘ ایک دوسرے پر اعتماد ہو‘ ایک دوسرے کا لحاظ ہو‘ ایک دوسرے کی دل جوئی ہو‘ ایک دوسرے کی مدد ہو۔یہ ساری چیزیں گھر کے اندر ایک نارمل اور صحت مند فضا پیدا کرتی ہیںکہ جس میں نئی نسل پروان چڑھے گی تووہ ایک مثبت(positive)نفسیات کی حامل ہوگی۔ اسی طرح حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَن كان يُؤمِنُ باللّٰهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلا يَخْلُوَنَّ بِامْرَأةٍ لَيْسَ مَعَها ذُو مَحْرَمٍ مِنها، فإنَّ ثالثَهُمَا الشَّيطانُ))(مسند احمد: ۱۴۶۵۱)
’’جوشخص بھی اللہ پر اوریوم آخرپر ایمان رکھتا ہووہ کبھی کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں ملاقات نہ کرے جس کے ساتھ اُس کا کوئی محرم نہ ہو۔ ‘‘
کوئی عورت کسی عالم سے مسئلہ پوچھنے کے لیے آتی ہے تو اُس کاباپ‘ بیٹا‘ بھائی یا شوہر ساتھ ہونا چاہیے۔ وہ اکیلی نہ آئے‘ اس لیے کہ ((فإنَّ ثالثَهُمَا الشَّيطانُ)) جہاں نامحرم عورت اورمرد ملیں گے تو تیسرا وہاں شیطان موجود ہوگا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إلَّا وَمعهَا ذُو مَحْرَمٍ ، وَلَا تُسَافِرِ المَرْأَةُ إلَّا مع ذِي مَحْرَمٍ))(صحیح البخاری: ۳۰۰۶، صحيح مسلم: ۱۳۴۱)
’’کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ ملے مگر یہ کہ اُس عورت کے ساتھ اس کامحرم موجود ہو۔ اور کوئی عورت سفر نہ کرے جب تک کہ اس کے ساتھ محرم موجود نہ ہو۔‘‘
اصلاح کے دو اصول
مختلف میدانوں میں اسلام نے جو اصلاح کی ہے اس کے دو اصول ہیں۔ ایک یہ کہ اصلاح تدریج سے ہوتی ہے‘ ایک دم نہیں۔ دوسرے اصلاح کا عمل گھر سے شروع ہونا چاہیے (charity begins at home۔میں اس کی مثال دے رہا ہوں ۔ شراب کی حرمت تین درجوں میں ہوئی ہے۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایاگیا:
{یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِط قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّـفْعِہِمَاط} (آیت ۲۱۹)
’’(اے نبیﷺ!) یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ ان کا کیا حکم ہے؟ ان سے) کہہ دیجیے کہ ان دونوں کے اندر بہت بڑے گناہ کے پہلو ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ منفعتیں بھی ہیں‘ البتہ ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑاہے۔ ‘‘
ایک اشارہ دے دیا‘ بات ختم۔ چنانچہ بہت سے صحابہؓ نے اسی آیت پر شراب نوشی ترک کردی۔ معلوم ہوگیا کہ ہوا کا رخ کیاہے ‘یہ کس طرف جارہی ہے ۔ پھر آگے سورۃ النساء میں آیت آئی:
{یٰٓاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْــتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ .....}(آیت ۴۳)
’’اے اہل ایمان! نماز کے قریب نہ جائو اس حال میں کہ تم نشے کی حالت میں ہو‘ یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو جو کچھ تم کہہ رہے ہو.....‘‘
دیکھو اگر تم شراب کے نشے کی کیفیت میں ہو تونماز کے قریب مت جائو۔ وہاں پتا نہیں تم کیا کہنا شروع کردو۔ اب ایک اور پوائنٹ مل گیا۔ نماز جو عماد الدین ہے‘ اس سے روکنے والی شے تو بہت بری ہوئی ۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بعد چھوڑ دی۔ پھر اس حوالے سے حتمی آیات آئیں:
{یٰٓاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰) اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِـعَ بَـیْـنَـکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِج فَہَلْ اَنْـتُمْ مُّـنْـتَہُوْنَ(۹۱)}(المائدۃ)
’’اے اہل ایمان! یقیناً شراب اور جوا‘ بُت اور پانسے ‘یہ سب گندے کام ہیں شیطان کے عمل میں سے‘ تو ان سے بچ کر رہو تا کہ تم فلاح پائو۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض پیدا کر دے شراب اور جوئے کے ذریعےسے ‘ اور (شیطان یہ بھی چاہتا ہے کہ) تمہیں روکے اللہ کی یاد سے اور نماز سے۔ تو اب باز آتے ہو یا نہیں؟‘‘
شیطان یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے مابین دشمنی پیدا کردے۔ شراب کے نشے میں آدمی لڑپڑتا ہے۔ اسی طرح جوئے کے اندر بھی آدمی اگر ہارتا رہے تو آخر مار پیٹ پر اتر آتا ہے۔ تواب بازآتے ہو یا نہیں؟ یہ بڑا دھمکی کا انداز ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر حرام کا لفظ تو نہیں آیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!{فَہَلْ اَنْـتُمْ مُّـنْـتَہُوْنَ} سے زیادہ روکنے کا کوئی معاملہ ہو سکتا ہے؟ حدیث کے اندر اصول آگیا: ((مَا أَسْکَرَ کَثِیرُہُ فَقَلِیلُہُ حَرام)) (رواہ أحمد وابن ماجۃ) یعنی جوشے زیادہ مقدار میں ہواور نشہ لے آئے تواس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ چنانچہ شراب کا ایک قطرہ بھی حرام ہے۔ آج بعض لوگ صرف اس لیے شراب کو حرام قرار نہیں دے رہے تاکہ مغرب انہیں ماڈریٹ تسلیم کر لے۔ لبرل اور روشن خیال مان لے۔ انہیں فنڈامنٹلسٹ نہ کہے۔
اسی طریقے سے معاشرتی معاملے میں اصلاح کاجودائرہ شروع ہوا ‘اس میں ابتدا میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن سے خطاب ہے جس سے بعض لوگوں نے یہ دلیل اخذ کی کہ یہ احکام توصرف ازواج مطہراتؓ کے لیے ہیں۔ میں نے اصول پہلے بتا دیا کہ charity begins at home۔ جیسے حضورﷺ فرماتے تھے: ((اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِین)) دیکھو‘ میں تمہیں اسلام کی دعوت دے رہا ہوں اور سب سے پہلا مسلمان مَیں خود ہوں۔ ((اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِین)) مَیں تمہیں ایمان کی دعوت دے رہا ہوں‘ اور پہلا مؤمن مَیں خود ہوں۔ جب تک انسان اپنے کردار سے بات واضح نہ کرے تو وعظ مفید اور مؤثر نہیں ہوتا۔ لہٰذا سب سے پہلے بات حضورﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ سے کی گئی۔
سترو حجاب کے احکام میں تدریج
اس ضمن میں جو اصلاحی احکام آئے ‘ ان کاتدریجی اعتبار سے آغاز سورۃ الاحزاب سے ہوا ہے‘ جو ۵ ہجری میں نازل ہوئی ۔ ان احکام کی تکمیل ہوئی ہے سورۃ النورمیں جو ۶ھ میں نازل ہوئی۔ مولاناا مین احسن اصلاحی نے مجھے بتایاکہ ان کے استاذ حمیدالدین فراہی ؒ نے ایک بہت خوب صورت بات کہی: ’’سورۃ الاحزاب میں گھر سے باہر کے پردے کا بیان ہے اور سورۃ النور میں گھر کے اندر کے پردے کا بیان ہے۔‘‘ اصلاحی صاحب کہتے تھے کہ اس جملے نے میری آنکھیں کھول دیں اور قرآن مجید میرے سامنے روشن ہو گیا۔ اگر یہ بات سامنے نہ ہو توآدمی اٹکتا ہے اور جگہ جگہ پر اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ سورۃ الاحزاب میں :
(۱) پہلے خطاب ازواجِ مطہراتؓ سے ہے‘ بعد میں اسے عام کر دیا گیا۔
(۲) بتایاگیاکہ عورت کا اصل کردار کیا ہے ‘اس کی اصل جگہ کیا ہے ‘یعنی گھر۔
(۳) استیذان کے حکم کا آغاز ہو گیاکہ گھروں میں اجازت لیے بغیر داخل نہ ہو۔ البتہ یہاں بھی صرف نبی ﷺکے گھر کی بات ہوئی ‘عام نہیں۔
(۴) محرموں کی ایک چھوٹی فہرست ہے جوسورۃ الاحزاب میں آگئی ہے۔ گھر سے باہر کے پردے کا حکم بھی آگیا ۔
اسی طرح سورۃ النور میں:
(۱) استیذان اب عام کردیا گیاکہ کسی بھی گھر میں داخل نہ ہو جب تک اذن نہ لے لو۔ یہ تدریج ہے ۔ پہلے حکم آیا کہ حضورﷺ کے گھروں میں داخل نہ ہو‘ اب کسی بھی گھر میں داخل نہیں ہوسکتےبغیر استیذان کے۔ اس حوالے سے احادیث میں بہت سختی آئی ہے۔
(۲) گھر کے اندر محرموں سے پرد ہ ہے۔ محرم وہ ہے جس سے کبھی بھی ‘کسی شکل میں‘ کسی حالت میں شادی نہ ہوسکے۔ فرض کیجیے کسی آدمی کی زوجیت میں ایک بہن ہے تو اس کی دوسری بہن سے وہ شادی نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر بیوی مرگئی تو کرسکتا ہے ۔ اس لیے سالی نامحرم ہے۔ بھائی کی بیوی بھابی ہے‘ جو نامحرم ہے۔اگر بھائی کا انتقال ہوجائے تو اس سے شادی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ جس سے شادی ہو سکتی ہے وہ محرم نہیں‘ نامحرم ہے۔ محرم صرف وہی ہے جس سے کسی حال میں شادی کا امکان نہ ہو۔ اس کی ابتدائی فہرست سورۃ الاحزاب میں ہے جبکہ تفصیلی فہرست سورۃ النور میں ہے۔
’’عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے‘‘
عورتوں کےگھر کے اندر بیٹھنے سے متعلق جو بات فرمائی گئی‘اس کے حوالے سے سنن ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نبی اکرمﷺ کا ارشاد نقل ہوا ہے:
((اَلْمَرْأَة عَوْرَةٌ، فَاِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ)) (سنن الترمذی:۱۱۷۳)
’’عورت تو چھپانے کی چیز ہے ۔جب یہ (گھر سے) باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاک میں رکھتا ہے۔‘‘
’’عورت چھپا کر رکھنے کی چیز ہے‘‘ پر ہمارے ایک نوجوان ساتھی نے بڑا پیارا مضمون تحریر کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں جو اشارات دیے گئے ہیں ان سے بھی یہی حقیقت آشکار ہوتی ہے:
{حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ(۷۲)} (الرحمٰن)
’’وہ حوریں جو قیام پزیرہیں خیموں میں۔‘‘
جنت کی حوریں خیموں کے اندر ہوں گی‘ وہیں رہیں گی۔ قصر کہتے ہیں روک دینے کو۔ وہ اپنے خیموں سے باہر نہیں نکلتیں ۔
{کَاَمْثَالِ اللُّــؤْلُـــؤِ الْمَکْنُوْنِ(۲۳)} (الواقعۃ)
’’جیسے موتی ہوں چھپا کر رکھے گئے۔‘‘
ایسے ہوں گی جیسے کہ موتی جنہیں چھپا کر رکھا جائے‘ اس لیے کہ عورت چھپا کر رکھنے کی شے ہے۔
متذکرہ بالا حدیث کی بعض روایات میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
((.....وَأَقْرَبُ مَا تَکُونُ مِن وَجْهِ رَبِّھَا وَھِيَ فِي قَعْرِ بَیْتِھا))(صحیح الترغیب:۳۴۶)
’’....اور عورت اپنے رب کی رضا سے سب سے زیادہ قریب اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر کے اندرونی حصے میں ہو۔‘‘
وہ اپنے رب کی رحمت سے قریب ترین ہوتی ہے جبکہ اپنے گھر کے بھی کسی اندرونی حصے میں ہو۔صحن میں ہوگی تو شاید اِدھر اُدھر کے بالاخانوں سے نظر پڑ جائے۔ اسی لیے فرمایا کہ مَردوں کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ۲۷ گنا افضل ہے جبکہ عورت کے لیے گھر کی نماز مسجد سے افضل ہے۔ مزید یہ کہ گھر کے صحن میں نماز مسجد سے افضل‘ دالان میں صحن سے افضل‘ کمرے میں دالان سے افضل‘ اور کمرے کی کوئی بغلی کوٹھڑی ہے تو اس میں سب سے افضل۔ امام احمد ‘ طبرانی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے کہ اُمّ حمید ساعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم ﷺ کے حضور حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میرا جی چاہتا ہے کہ آپؐ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا:
((قَدْ عَلِمْتُ، وَصَلَاتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْرٌ لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ، وَصَلَاتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ دَارِکِ، وَصَلاَتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ، وَصَلَاتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِ الْجُمُعَۃِ))
’’ مجھے معلوم ہے‘ مگر تمہارا اپنے گھر کے ایک گوشے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے حجرے میں نماز پڑھو‘ اور تمہارا اپنے حجرے میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے گھر کے دالان میں نماز پڑھو‘ اور تمہارا اپنے دالان میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھو‘ اور تمہارا اپنے محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم جامع مسجد میں نماز پڑھو۔‘‘
صحیح ابن حبان کی روایت میں الفاظ آئے ہیں: ((وَصَلاتُكِ في مَسْجِدِ قَوْمِكِ خَيْرٌ مِنْ صَلاتِكِ في مَسْجِدي)) ’’اور تمہارا اپنے محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجد میں نماز پڑھو۔‘‘ چنانچہ انہوں نے اپنے گھر کے بالکل اندر ایک تاریک ترین گوشہ نماز کے لیے مخصوص کر لیا اور مرتے دم تک وہیں نماز ادا کرتی رہیں۔ نبی اکرمﷺ کی ان احادیث سے اسلام کا مزاج معلوم ہو رہا ہے کہ کیسی معاشرت وجود میں آرہی ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ’’زوائد الزہد‘‘ میں اور ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں جناب مسروق ؒ سے روایت نقل کی ہے کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے جب اس آیت پرپہنچتی تھیں: {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ....} (الاحزاب: ۳۳) توبے اختیار رو پڑتی تھیں۔ قرآن کہتا ہےکہ گھروں میں ٹِک کر رہو لیکن سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شہادتِ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد باہر نکل کر اونٹ پر سوار ہوکر لشکر کی قیادت کی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جنگ کی۔ پھر ساری عمر افسوس رہا کہ مَیں نے غلط کام کیا۔ اس جنگ (جمل) میں ایک رات میں دس ہزار آدمی مقتول ہوئے تھے ۔ جنگ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لشکر کو شکست کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے صرف یہ کہاکہ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں تھی جو آپ نے خوا مخواہ اپنے سر لے لی۔ اس کے علاوہ کوئی ملامت نہیں کی۔ اُمّ المؤمنین کو کوفہ کی چند عورتوں کے ساتھ بڑے احترام سے مدینہ پہنچا دیاگیا۔
حافظ ابوبکر بزار حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ عورتوں نے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیاکہ ساری فضیلت تو مرد لوٹ کر لے گئے۔ وہ جہاد کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مل سکے؟ جواب میں آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ قَعَدَتْ مِنْكُنَّ في بَيْتِها فَإنَّها تَدْرُكُ عَمَلَ الْمُجَاهِدِينَ في سَبِيلِ اللّٰه))
’’تم میں سے جو اپنے گھر میں بیٹھی رہے گی وہ اللہ کے راستے میں مجاہدین کا اجر حاصل کرلے گی۔‘‘
یہ گویاہوا کارُخ بتایا جارہا ہے۔ یہ نظامِ معاشرت ہے جو اس شکل میں دیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024