(بیان القرآن) سُورۃُ الشَّمْس+ سُورۃُ اللَّیْل - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

سُوْرَۃُ الشَّمْسِتمہیدی کلماتسورۃ الشمس اور اس کے بعد کی تین سورتوں (سورۃ اللیل‘ سورۃ الضحیٰ اور سورۃ الانشراح ) کے لیے مَیں نے ’’چہار سورئہ نور و ظلمت‘‘ کا مشترک عنوان تجویز کر رکھا ہے ۔ ان میں سے پہلی تین سورتوں کا آغاز قسموں سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے سورۃ الشمس اور سورۃ اللیل (ان دونوں سورتوں کا باہم جوڑے کا تعلق بھی ہے) کا انداز سورۃ التکویر اور سورۃ الانفطار سے ملتا جلتا ہے۔ یاد رہے کہ سورۃ التکویر کے آغاز میں قسموں والا حصّہ زیادہ آیات (۱۳آیات) پر مشتمل ہے اور جوابِ قسم کے طور پر صرف ایک آیت (آیت۱۴) آئی ہے‘جبکہ اس کی جڑواں سورت یعنی سورۃ الانفطار میں قسموں والا حصّہ نسبتاًکم ہے اور بعد کی آیات میں ان دونوں سورتوں کا مرکزی مضمون زیادہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ بالکل اسی انداز میں زیرمطالعہ جوڑے کی پہلی سورت یعنی سورۃ الشمس میں قسموں والا حصّہ زیادہ (آٹھ آیات پر مشتمل) ہے اور اس کے بعد جواب القسم کے ضمن میں صرف دو آیات آئی ہیں۔ اس کے مقابلے میں سورۃ اللیل میں قسموں کا حصّہ نسبتاً کم ہے ‘جبکہ سورۃ الشمس سے شروع ہونے والا مضمون یہاں آ کر مزید واضح ہو گیا ہے۔ اس طرح یہ مضمون تدریجاً آگے بڑھتا ہوا سورۃ الضحیٰ میں جا کر نقطہ ٔعروج کو پہنچے گا۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَالشَّمْسِ وَضُحٰىھَا (۱) وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىھَا (۲) وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰىھَا (۳) وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىھَا (۴) وَالسَّمَاۗءِ وَمَا بَنٰىھَا (۵) وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىھَا (۶) وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىھَا (۷) فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰىھَا (۸) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىھَا (۹) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىھَا (۱۰) کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىھَآ (۱۱) اِذِانْۢبَعَثَ اَشْقٰىھَا (۱۲) فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللہِ نَاقَۃَ اللہِ وَسُقْیٰىھَا (۱۳) فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْھَا ۥ ۽ فَدَمْدَمَ عَلَیْھِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْۢبِھِمْ فَسَوّٰىھَا (۱۴) وَلَا یَخَافُ عُقْبٰىھَا (۱۵)
آیت ۱{وَالشَّمْسِ وَضُحٰىہَا(۱)} ’’قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔‘‘
آیت۲{وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا(۲)}’’اور قسم ہے چاند کی جبکہ وہ اس کے پیچھے آتا ہے۔‘‘
تَلَا یَتْلُو کے معنی ہیں کسی کے پیچھے آنا۔تلاوت کا لفظ بھی اسی مادہ سے مشتق ہے۔ لغوی معنی کے اعتبار سے لفظ ’’تلاوت‘‘ کے مفہوم میں قرآن مجید کے متن کا پڑھنا (زبان اور نظر سے عبارت کی پیروی کرنا)‘ اس کے احکام پر عمل کرنا اور اس کا اتباع کرناشامل ہے۔
آیت ۳{وَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا(۳)} ’’اور قسم ہے دن کی جب وہ اس (سورج) کو روشن کر دیتا ہے۔‘‘
اگرچہ بظاہر صورتِ حال تو یہ ہوتی ہے کہ سورج سے دن روشن ہوتا ہے‘لیکن یہاں اسی بات کے اندر یہ لطیف نکتہ پیدا کیا گیا ہے کہ دن ہوتا ہے تو سورج نظر آتا ہے۔ گویا دن سورج کو روشن کرتا ہے۔ آیت کے اس اسلوب کا تعلق دراصل اگلی آیت کے اسلوب سے ہے۔ اگلی آیت میں رات کا ذکر بالکل اسی انداز میں ہوا ہے :
آیت۴{وَالَّـیْلِ اِذَا یَغْشٰىہَا(۴)}’’اور قسم ہے رات کی جب وہ اس (سورج) کو ڈھانپ لیتی ہے۔‘‘
ان دونوں آیات کا مفہوم یوں ہو گا کہ دن سورج کو نمایاں کر دیتا ہے جبکہ رات اسے ڈھانپ لیتی ہے۔
آیت ۵{وَالسَّمَآئِ وَمَا بَنٰـىہَا(۵)} ’’اور قسم ہے آسمان کی اور جیسا کہ اسے بنایا۔‘‘
آیت۶{وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىہَا(۶)}’’اور قسم ہے زمین کی اور جیسا کہ اسے بچھا دیا۔‘‘
نوٹ کیجیے !یہ تمام قسمیں جوڑوں کی صورت میں آئی ہیں۔ پہلے سورج اور چاند کا ‘ پھر دن اور رات کا اور اب آسمان اور زمین کاذکر ہوا۔ ان ظاہری تضادات کی مثالوں سے دراصل نفسِ انسانی کے روشن اور تاریک پہلوئوں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ جس طرح کائنات میں ہر جگہ تم لوگوں کو تضادات نظر آتے ہیں‘ سورج ہے تو اس کے ساتھ چاند ہے ‘اندھیرا ہے تو اس کے ساتھ اُجالا ہے‘ بلندی ہے تو اس کے ساتھ پستی ہے‘ اسی طرح انسان کی ذات یا شخصیت کے بھی دو رُخ ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں تو تمام انسان ایک جیسے نظر آتے ہیں‘ لیکن حقیقت میں یہ ایک جیسے نہیں ہیں۔ ان میں سے کوئی حیوانی اور نفسانی خواہشات کے راستے پر چل رہا ہے تو کسی نے اپنے نفس کا تزکیہ کر کے فلاح کی منزل حاصل کرلی ہے۔
آیت ۷{وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا(۷)} ’’اور قسم ہے نفسِ انسانی کی اور جیسا کہ اُس کو سنوارا۔‘‘
آیت۸{فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا(۸)}’’پس اُس کے اندر نیکی اور بدی کا علم الہام کر دیا۔‘‘
اب اگلی دو آیات میں ان قسموں کے جواب مذکور ہے۔
آیت۹{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا(۹)} ’’یقیناً کامیاب ہو گیا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا۔‘‘
آیت۱۰{وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا(۱۰)}’’اور ناکام ہو گیا جس نے اسے مٹّی میں دفن کردیا۔‘‘
یہ اس سورت کا مرکزی مضمون ہے ۔ان دو آیات میں انتہائی اختصار کے ساتھ انسان کی حقیقی کامیابی اور ناکامی کا معیار بیان کردیا گیا ہے۔دَسَّ یَدُسُّ کے معنی کسی چیز کو مٹّی میں دفن کردینے کے ہیں۔ سورۃ النحل (آیت ۵۹) میں ہم پڑھ چکے ہیں: {اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ } اس آیت میں قبل از اسلام زمانے کے عربوں کی ایک خاص ذہنیت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے جس شخص کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے وہ یا تواسے ذِلّت آمیز طریقے سے زندہ رکھتا ہے یا زندہ دفن کر دیتا ہے۔ یہاں ’’دَسّٰی‘‘ دراصل دَسَّسَ (باب تفعیل) ہے‘ اس کے آخری سین کو یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تو جس انسان نے اپنے نفس کو مٹّی میں دفن کر دیا (اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس نے اپنی روح کو اپنے خاکی وجود کے اندر دبا دیا ۔یعنی جس کی حیوانی خواہشات و شہوات اس کی روح پر غالب آگئیں) تو وہ ناکام رہا۔ البتہ جیسا کہ سورۃ الاعلیٰ کے مطالعہ کے دوران بھی نشان دہی کی گئی ہے ‘زیر مطالعہ سورتوں کے مضامین میں سے اکثر کا تعلق سورۃ الاعلیٰ کے مضامین کے ساتھ ہے۔ چنانچہ سورۃ الاعلیٰ میں {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی(۱۴)} کے الفاظ میں جو مضمون انتہائی مختصر انداز میں آیا تھا‘ یوں سمجھیں کہ اب آیات زیر مطالعہ میں اس مضمون کی مزید تفصیل بیان ہوئی ہے۔ اس مضمون پر قسموں کی صورت میں یہاں مزید گواہیاں بھی لائی گئی ہیں اور زیر مطالعہ آیت کے الفاظ {وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا(۱۰)} میں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھایا گیا ہے۔
دراصل انسان کا نفس اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اس امانت کو پاک صاف رکھنا اس کی ذِمّہ داری ہے ۔ نفس کو پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ‘یعنی اپنی شخصیت کو تمام رذائل اور باطنی بیماریوں سے پاک کر کے بہترین انسانی خوبیوں کا مرقع بنائے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں عام طور پر تزکیۂ نفس ‘ تعمیر ِسیرت‘ تعمیر خودی وغیرہ اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔بہرحال اللہ تعالیٰ کی نظر میں کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے نفس کو پاک کرنے اور پاک رکھنے میں کامیاب ہو گیا‘ خواہ دنیا والوں کی نظروں میں وہ حقیر ‘فقیر اور بے نام ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو رذائل و خبائث سے آلودہ کر لیا‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ناکام ہے‘ دنیا میں خواہ وہ غیر معمولی عزّت‘ شہرت اور دولت کا مالک ہی کیوں نہ ہو ۔ اس لیے کہ اصل اور حقیقی کامیابی اور ناکامی کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں بلکہ اُس کی ’’ذات‘‘ سے ہے۔
انسان کی ’’ذات‘‘ سے کیا مراد ہے؟فرائڈ نے اسے انسان کی self(اَنا) کا نام دیا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنی selfکوidاورlibidoکے تسلط سے آزاد کرا کے اسے مثبت انداز میں ترقّی دے۔ علّامہ اقبال نے اسے خودی کا نام دیا ہے اور انسان کی ’’کامیابی‘‘ کو اس کی خودی کی تعمیر و ترقی سے مشروط کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے سمجھنے کا اصل نکتہ یہ ہے کہ انسان محض ایک جسم یا ہاتھ پائوں‘ سر‘ دھڑ وغیرہ کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔ انسان کہتا ہے میرا ہاتھ‘ میرا پائوں‘ میرا سر وغیرہ۔ یہ تمام اعضاء بے شک اُس کے ہیں‘ لیکن وہ انسان جو اِن اعضاء کو اپنا بتا رہا ہے وہ خود کیا ہے؟ اور کہاں ہے؟ ظاہر ہے اصل انسان اُس جسم یا وجود کے اندر ہے۔ اس کو ایسے سمجھیں کہ جس طرح آم کی گٹھلی کے اندر آم کا پورا درخت موجود ہے‘ اسی طرح انسانی جسم کے اندر اصل انسان ایک لطیف شخصیت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ لطیف شخصیت عبارت ہے اس روح سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے حیوانی یا خاکی وجود کے اندر پھونکی ہے : {وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ} (الحجر:۲۹)۔ روح یا انسان کی انا کا ذکر اپنشد کے اس فقرے میں بھی ہے ‘جس کا حوالہ مَیں پہلے بھی دے چکا ہوں:
Man in his ignorance identifies himself with the material sheeths that encompass his real self.

گویا انسان کی selfیا انا یا خودی یا روح اُس کے حیوانی وجود کی مٹّی کے اندر دفن ایک خزانہ ہے۔ اب جو انسان اس خزانے کو مٹّی سے نکال کر کام میں لے آئے گا‘ یعنی اپنی روح کو صیقل کرلے گا‘ اُس کا نفس پاک ہو جائے گا (روح کی پاکیزگی نفس کی پاکیزگی کا باعث بنتی ہے۔ دونوں کا تعلق انسان کے باطن سے ہے) اور وہ کامیابی یا فلاح کے راستے پر گامزن ہوجائےگا۔ (فلاح کا لفظ قرآن مجید میں ایک جامع اصطلاح کے طورپر استعمال ہوا ہے۔ اس اصطلاح کے مفہوم کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ المو ٔمنون کی پہلی آیت کی تشریح۔)
زیر ِمطالعہ آیات کے حوالے سے یہ نکتہ خصوصی طور پر پیش نظر رہنا چاہیے کہ انسان کی روح اور اس کا نفس دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان آیات میں انسانی روح کانہیں بلکہ انسانی نفس کا ذکر ہوا ہے۔روحِ انسانی دراصل عالم امر کی چیز ہے اور یہ معرفت ِخداوندی اور محبّت ِخداوندی کی امین ہے‘جبکہ نفسِ انسانی کا تعلق عالم ِخلق سے ہے ۔ اسی لیے اس کے ذکر سے پہلے جن چیزوں کی یہاں قسمیں کھائی گئی ہیں ان سب (سورج‘ چاند‘ دن‘ رات‘ آسمان‘ زمین) کا تعلق بھی عالم ِخلق سے ہے ۔ روح تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو عطا ہوئی ہے‘ جبکہ نفس گدھے‘ گھوڑے اور چمپنیزی وغیرہ سب جانوروں میں ہوتا ہے۔ البتہ انسان کی خصوصیت اس حوالے سے یہ ہے کہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں نفسِ انسانی کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی ارتقائی درجات سے نوازا ہے اور اس کے اندر اخلاقی حس اور نیکی و بدی کی وہ تمیز الہام کر دی ہے جو دوسرے جانوروں کے نفس میں نہیں پائی جاتی۔اسی حس اور تمیز کی وجہ سے انسانی فطرت آفاقی سطح پر نیکی کو اچھا اور بدی کو برا سمجھتی ہے۔ دنیا میں کسی معاشرے‘ کسی مذہب اور کسی نسل کا انسان ہو وہ سچ بولنے کو اچھا اور جھوٹ بولنے کو برا سمجھتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن میں معروف اور منکر کی اصطلاحات کثرت سے استعمال ہوتی ہیں۔ معروف وہ چیزیں یا افعال یا اعمال ہیں جو نفس انسانی کے لیے مانوس ہیں۔ انہیں دیکھ کر یا اپنا کر نفسِ انسانی کو راحت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں منکرات وہ چیزیں یا اعمال یا افعال ہیں جنہیں نفسِ انسانی بُرا سمجھتا ہے اور جن کی صحبت و معیت میں وہ اجنبیت اورکوفت محسوس کرتا ہے‘ بلکہ وہ انسان کو ایسے اعمال و افعال سے ٹوکتا ہے۔
اسی لیے انسان غلطی کرنے کے بعد اکثر یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ ’’میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے‘‘ (my conscience is pinching me)۔ نفسِ انسانی کی اسی خصوصیت کی وجہ سے سورۃ القیامہ کی آیت۲ میں اسے نفسِ لوامہ (ملامت کرنے والا نفس) کا نام دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے آیات زیر مطالعہ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ نفسِ انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اور بدی کی تمیز کا بنیادی بیج ڈال دیا گیا ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اس بیج کی حفاظت کرے‘ اسے سازگار ماحول فراہم کرے اور عمل ِصالح کے پانی سے اس کی آبیاری کرے۔ سورئہ فاطر ( آیت ۱۰) میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ طکہ کسی بھی اچھی بات یا اچھے کلام میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن عمل صالح اُس کی اس صلاحیت کو اور بڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ انسان جب تزکیۂ نفس اور اعمالِ صالحہ کے حوالے سے محنت کرے گا تو اُسے ایمان کی حلاوت بھی نصیب ہو گی‘ وہ ایمان کے ان ثمرات سے بھی بہرہ مند ہو گا جن کا ذکر ہم سورۃ التغابن میں پڑھ آئے ہیں اور اسے کامیابی کی ضمانت بھی ملے گی۔ اس کے برعکس جس انسان نے اپنے نفس کو حیوانی وجود کے تابع کیے رکھا اور وہ اس کی آواز کو دبا کر زندگی بھر جسمانی تقاضے پورے کرنے میںلگا رہا وہ گویاخائب و خاسر ہو کر رہ گیا۔
اب اگلی آیات میں ایک قوم یا ایک معاشرے کے اجتماعی ضمیر کے حوالے سے ایک مثال دی گئی ہے۔ ظاہر ہے جس طرح ایک انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز ہوتی ہے اسی طرح ہر معاشرے میں اجتماعی طور پر بھی اخلاقی حس پائی جاتی ہے ‘اور جس طرح ایک انسان میں اچھے برے داعیات ہوتے ہیں اسی طرح ہر معاشرے کے اندر بھی نیکی کے علمبردار اور شر پھیلانے والے عناصر موجود ہوتے ہیں۔غرض جس طرح ایک فرد کا ضمیر ہوتا ہے اسی طرح معاشروں اور قوموں کا اجتماعی ضمیر بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر زندہ ہو‘ اس کی صفوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ احسن طریقہ سے اد ا کیا جا رہا ہو تو اس قوم کے مجموعی حالات بہتر طور پر چلتے رہتے ہیں ۔لیکن اگر کسی قوم کا اجتماعی ضمیر مردہ ہو جائے اور اس کی اخلاقی حس بحیثیت مجموعی اس قدر کمزور ہو جائے کہ اس کے ماحول میں برائی کو برائی کہنے والا بھی کوئی نہ رہے تو ایسی قوم اپنے زندہ رہنے کا جواز کھو دیتی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں اسی اجتماعی بے حسی کی تصویر پیش کی ہے : ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا!
اس حوالے سے اب ملاحظہ ہو قومِ ثمود کی مثال:
آیت۱ ۱{کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىہَآ(۱۱)} ’’قومِ ثمود نے بھی جھٹلایا تھا اپنی سرکشی کے باعث۔‘‘
یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو جھٹلا دیا جو اُن کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔
آیت۱۲{اِذِ انْبَعَثَ اَشْقٰىہَا(۱۲)}’’جب اُٹھ کھڑا ہوا ان کا سب سے شقی انسان۔‘‘
وہ شخص اپنی قوم کے لوگوں کے کہنے پر اس اونٹنی کو ہلاک کرنے پر کمربستہ ہوگیا جسے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کے مطالبے پر بطور معجزہ پیدا کیا تھا۔
آیت ۱۳{فَقَالَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللہِ نَاقَۃَ اللہِ وَسُقْیٰـہَا(۱۳)} ’’تو اللہ کے رسول ؑنے اُن سے کہا کہ (خبردار!) یہ اللہ کی اونٹنی ہے اور یہ اس کے پانی پینے کا دن ہے۔‘‘
آیت۱۴{فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْہَاص}’’تو انہوں نے اُس کو جھٹلا دیا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔‘‘
{فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰىہَا(۱۴)}’’تو اُلٹ دیا اُن پر عذاب اُن کے ربّ نے اُن کے گناہ کی پاداش میں اور سب کو برابر کر دیا۔‘‘
ان کے جرمِ عظیم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذابِ استیصال نازل فرمایا اور پوری قوم کو ایک ساتھ پیوند ِخاک کر دیا۔
آیت ۱۵{وَلَا یَخَافُ عُقْبٰىہَا(۱۵)} ’’اور وہ اس کے انجام سے نہیں ڈرتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو اپنے اس فعل کے کسی برے نتیجے کا کوئی خوف نہیں ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ وہ پوری کائنات کا مالک اور خالق ہے‘ وہ جو چاہے کرے۔ اُس نے اس پوری قوم کو ختم کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوم کو لے آیا۔ اس سورت میں پہلے انسانی نفس اور ضمیر کے حوالے سے انسان کی انفرادی کامیابی اور ناکامی کا ذکر ہوا اور پھر قومِ ثمود کی مثال دے کر قوموں کی اجتماعی کامیابی اور ناکامی کے معیار کے بارے میں بھی بتا دیا گیا ۔اس سورت کے مضمون کا تسلسل اگلی سورت میں بھی نظر آئے گا۔

سُوْرَۃُ الَّیْلِبسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی (۱) وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی (۲) وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی (۳) اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی (۴) فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی(۵) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی (۶) فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی (۷) وَاَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی (۸) وَکَذَّبَ بَالْحُسْنٰی (۹) فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی (۱۰) وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَا لُہٗٓ اِذَا تَرَدّٰی(۱۱) اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی (۱۲) وَاِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی (۱۳) فَاَ نْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی (۱۴) لَا یَصْلٰىہَآ اِلَّا الْاَشْقَی (۱۵) الَّذِیْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی (۱۶) وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَی (۱۷) الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَا لَہٗ یَتَزَکّٰی (۱۸) وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی (۱۹) اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی (۲۰) وَلَسَوْفَ یَرْضٰی (۲۱)
آیت ۱{وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی(۱)} ’’قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لیتی ہے۔‘‘
یعنی تمام چیزوں پر تاریکی کا پردہ ڈال دیتی ہے۔
آیت۲{وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی(۲)}’’اورقسم ہے دن کی جب وہ روشن ہو جاتا ہے۔‘‘
رات اور دن اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے ہیں ‘جبکہ اگلی قسم کا تعلق انسان کی ذات (اللہ تعالیٰ کی انفسی نشانیوں) سے ہے۔
آیت ۳{وَمَاخَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی(۳)} ’’اور(قسم ہے) اُس کی جو اُس نے پیدا کیے نر اور مادہ۔‘‘
ان قسموں سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے اندر نظر آنے والے تضادات دراصل نظامِ کائنات کا حصّہ ہیں ‘بلکہ کائنات کا نظام انہی تضادات کی وجہ سے چل رہا ہے اور ایک جنس سے تعلق رکھنے والی دو متضاد چیزیں باہم مل کر فطرت کے تقاضوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ دنیا کا سارا نظام دن اور رات کے ادلنے بدلنے کی وجہ سے قائم ہے ۔زمین پر حیوانی اور نباتاتی زندگی کا وجود اسی گردشِ لیل و نہار کا مرہونِ منت ہے۔ خود نسل ِانسانی کا تسلسل بھی مرد اور عورت کے جنسی اختلاف و تضاد کی وجہ سے چل رہا ہے۔ چنانچہ کائنات کی مختلف تخلیقات میں بظاہر نظر آنے والے ان تضادات کے اندر بھی ایک طرح کا توافق اور تطابق پایاجاتا ہے۔
آیت۴{اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی(۴)}’’بے شک تمہاری کوشش الگ الگ ہے۔‘‘
یعنی جس طرح کائنات کی باقی چیزوں میں اختلاف و تضاد پایا جاتا ہے اسی طرح تمہارے مختلف افراد کی کوششوں اور محنتوں کی نوعیت بھی مختلف ہے۔
ظاہر ہے زندگی کے شب و روز میں محنت‘ مشقّت اور بھاگ دوڑ کرنا تو انسان کا مقدر ہے: {لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ(۴)} (البلد)’’بے شک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقّت میں کیا ہے‘‘۔ہرانسان اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لیے بھی مشقّت کرتا ہے۔پھراگر وہ کسی نظریے کا پیروکار ہے تو اس نظریے کی اشاعت اور سربلندی کے لیے بھی تگ و دو کرتا ہے اور اس نظریے کے تحت ایک نظام کے قیام کے لیے بھی جدّوجُہد کرتا ہے۔ غرض اپنے اپنے ماحول اور حالات کے مطابق محنت اور مشقّت تو سب انسان ہی کرتے ہیں لیکن ان کی مشقتوں کے نتائج مختلف ہوتے ہیں۔ ایک شخص اپنی محنت کے نتیجے میںجنّت خرید لیتا ہے اور دوسرا اپنی محنت و مشقّت کی پاداش میں خود کو دوزخ کا مستحق بنالیتا ہے۔ انسانی محنت میں اس فرق کی وضاحت حضورﷺکی اس حدیث میں ملتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ((کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَائِعٌ نَفْسَہٗ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا))(صحیح مسلم‘ کتاب الطھارۃ‘ باب فضل الوضوء) ’’ہر شخص روزانہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اپنی جان کا سودا کرتا ہے‘ پھر یا تو وہ اسے آزاد کرا لیتا ہے یا اسے تباہ کر بیٹھتا ہے‘‘۔کوئی اپنی جسمانی قوت کا سودا کرتا ہے‘ کوئی ذہنی صلاحیت بیچتا ہے‘ کوئی اپنی مہارت نیلام کرتا ہے ‘کوئی اپنا وقت فروخت کرتا ہے۔غرض اپنے اپنے طریقے اور اپنے اپنے انداز میں ہر شخص دن بھر خود کو بیچتا ہے۔ اب ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے خود کو بیچتے ہوئے حلال کو مدّ ِنظر رکھا‘اُس نے جھوٹ نہیں بولا‘ کسی کو دھوکہ نہیں دیا ‘ کم معاوضہ قبول کر لیا لیکن حرام سے اجتناب کیا۔ ایسا شخص شام کو لوٹے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے شامل ِحال ہو گی۔اس کے مقابلے میں ایک دوسرے شخص نے بھی دن بھر مشقّت کی‘ مگر حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز ہو کر‘ معاوضہ اُس نے بھی لیامگر غلط بیانی کرکے اور دوسروں کو فریب دے کر‘ ناپ تول میں کمی کر کے اور گھٹیا چیز کو بڑھیا چیز کے دام پر بیچ کر۔اب یہ شخص جب شام کو گھر آئے گا تو جہنّم کے انگاروں کی گٹھڑی اُٹھائے ہوئے آئے گا۔
اب آئندہ آیات میں انسانی زندگی کے دو راستوں میں سے ہر راستے کے تین اوصاف یا تین سنگ ہائے میل کی نشاندہی کر دی گئی ہے‘ تاکہ ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ اس نے کون سا راستہ اختیار کیا ہے‘ اس راستے پر اب وہ کس مقام پر ہے او ر اگر وہ مزید آگے بڑھے گا تو آگے کون سی منزل اس کی منتظر ہوگی۔ اس مضمون کے اعتبار سے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ قرآن مجید کی اہم ترین سورت ہے۔اب ملاحظہ ہوں ان میں سے پہلے راستے کے تین اوصاف :
آیت۵{فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی(۵)} ’’تو جس نے عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا۔‘‘
ظاہر ہے یہ خیر کا راستہ ہے اور اس راستے کا پہلا وصف یا پہلا سنگ میل ’’اِعطاء‘‘ یا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ سورۃ البلد میں اس عمل کو انسان کے لیے ایک بہت مشکل گھاٹی قرار دے کر اس کی وضاحت یوں فرمائی گئی : {فَکُّ رَقَـبَۃٍ(۱۳) اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَـبَۃٍ(۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ(۱۵) اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ (۱۶) ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا…}’’کسی گردن کا چھڑا دینا۔یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن‘اُس یتیم کو کہ جو قرابت دار بھی ہے‘یا اُس محتاج کو جو مٹّی میں رُل رہا ہے۔پھر وہ شامل ہوا ان لوگوں میں جو ایمان لائے…‘‘
یعنی جو انسان اس ’’مشکل گھاٹی‘‘ کوعبور کرنے کے بعد اہل ِایمان کی صف میں شامل ہو گا وہ ان شاء اللہ ابوبکر صدیق ‘عمر فاروق‘ عثمان غنی اور علی مرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا پیروکار بنے گا ۔لیکن جس نے یہ امتحان پاس کیے بغیر ہی کلمہ پڑھ لیا تو اس کے بارے میں خدشہ ہے کہ توحید و رسالت کی گواہی دینے کے بعد بھی اس کے ایمان کی بُوباس عبداللہ بن اُبی کے ایمان کی سی ہو گی۔ ظاہر ہے جو کلمہ حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے پڑھا تھا وہی کلمہ عبداللہ بن اُبی نے بھی پڑھا تھا۔ یعنی ایمان کا بیج تو دونوں طرف ایک سا تھا ‘مگر یہ زمین اور تھی‘ وہ زمین اور تھی۔ اس زمین میں انفا ق فی سبیل اللہ کا ہل چل چکا تھا اور اُس زمین میں حب ِدنیا اور شکوک و تردّد کے جھاڑ جھنکاڑ نے قبضہ جما رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عبداللہ بن اُبی کے دل کی زمین میں ایمان کے بیج کا جمائو ممکن ہی نہ ہوا۔اس حوالے سے اگر سورئہ آل عمران کی آیت ۹۲ کے اس جملے کو مدّ ِنظر رکھا جائے تو انفاق و اِعطاء کے اس فلسفے کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے: {لَــنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط} یعنی جب تک تم لوگ اپنی عزیز ترین چیز کو اللہ کی راہ میں نہ دے ڈالو تم نیکی کی گردکو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہیے تو مال کی قربانی دو اور قربانی بھی بہترین چیز کی۔ یہ نہیں کہ چھانٹ کر بے کار چیزیں کسی کو دے کر سمجھو کہ تم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔
اس راستے کا دوسر اوصف یا سنگ ِمیل تقویٰ ( وَاتَّقٰی)ہے ۔ یعنی انسان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرتے رہنا۔ ہر لمحہ برائی کی خاردار جھاڑیوں سے اپنا دامن بچانے کی فکر میں رہنا اور مسلسل کوشش کرتے رہناکہ مَیں کسی کا دل نہ دکھائوں اور کسی کا حق نہ ماروں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ وہ اخلاقی حس زندہ و بیدار ہو جس کا ذکر سورۃ الشمس کی آیت {فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا(۸)} میں آیا ہے۔ اگر اس کی اخلاقی حس کی شمع ہوا و ہوس کے طوفان کی نذر ہو چکی ہو تو پھر ظاہر ہے کہاں کا تقویٰ اور کس کا ڈر!
آیت۶{وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی(۶)}’’اور اُس نے تصدیق کی اچھی بات کی۔‘‘
یہ خیر کے راستے کی تیسری شرط یا اس کا تیسرا وصف ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھلائی اور حق کی کوئی بات انسان کے سامنے آئے اور اس کا دل گواہی دے دے کہ ہاں یہ بات حق ہے تو وہ بلاتردّد اس کی تصدیق کردے۔ یعنی وہ بھلائی‘ سچائی اور حق کی تصدیق کرنے کے لیے عواقب و نتائج کی پروا نہ کرے۔ حق کو حق جان کر اس کی تصدیق و توثیق کے لیے سود و زیاں کا ترازو نصب کر کے نہ بیٹھ جائے اور نہ ہی اس حوالے سے اپنی انا کو آڑے آنے دے۔ جیسے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں اکثر ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کی بحث کے دوران ایک آدمی پر واضح ہو جاتا ہے کہ دوسرے کی بات درست ہے مگر وہ صرف اپنی انا کی وجہ سے اس کے موقف کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
آیت ۷{فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی(۷)}’’تو اُس کو ہم رفتہ رفتہ آسان منزل(جنّت) تک پہنچادیں گے۔‘‘
اس حوالے سے سورۃ الاعلیٰ کی یہ آیت بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے:{وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی(۸)} ’’اور ہم رفتہ رفتہ پہنچائیں گے آپ کو آسان منزل تک‘‘۔ لیکن سورۃ الاعلیٰ کی نسبت یہاں یہ مضمون زیادہ واضح انداز میں آیا ہے۔ اب اس کے مقابلے میں اگلی آیات میں دوسرے راستے اور اس کے تین سنگ ہائے میل کا ذکر آ رہا ہے:
آیت۸{وَاَمَّا مَنْ م بَخِلَ}’’اور جس نے بخل کیا‘‘
پہلی تین خصوصیات کی ترتیب ذہن میں رکھیے اور نوٹ کیجیے کہ ’’اِعطاء‘‘ کے مقابلے میں یہاں بخل آ گیا ہے۔
{وَاسْتَغْنٰی(۸)}’’اور بے پروائی اختیار کی۔‘‘
بھلائی اور خیر کے راستے کی تین خصوصیات میں اِعطاء کے بعد تقویٰ یعنی پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور ذِمّہ داری کے احساس کا بیان تھا۔ اس کے مقابلے یہاں لااُبالی پن‘ لاپرواہی اور بے نیازی (استغناء) کا تذکرہ ہے۔ گویا ایک شخص حلال و حرام کی تمیز سے ناآشنا اور نیکی و بدی کے تصوّر سے بیگانہ اپنی دُھن میں مست چلا جا رہا ہے۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی بلا سے ‘ کسی کی عزّت پر حرف آتا ہے تو آتا رہے‘ کسی کے جان و مال کی حرمت پامال ہوتی ہے تو بھی پروا نہیں! غرض اپنی سوچ ہے‘ اپنی مرضی ہے اور اپنے کام سے کام ہے: ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے!
آیت۹{وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی(۹)} ’’اور جھٹلا دیا اچھی بات کو۔‘‘
یعنی اُس کے دل نے گواہی دے دی کہ یہ سچ اور حق بات ہے لیکن اس کے باوجود اس نے تعصب یا تکبّر یا ہٹ دھرمی یا مفاد یا کسی خوف کی وجہ سے اسے جھٹلا دیا۔واضح رہے اس آیت کا تقابل آیت ۶ (وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی(۶)) کے ساتھ ہے۔
آیت۱۰{فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی(۱۰)}’’تو اُس کو ہم رفتہ رفتہ مشکل منزل (جہنّم) تک پہنچا دیں گے۔‘‘
یہ ہیں انسانی کوشش اور مشقّت کے دو رخ۔ گویا پہلی تین شرائط کو اپنانے کا راستہ صدیقین اور شہداء کاراستہ ہے۔ اگر کسی نے کوشش کی لیکن وہ مذکورہ تینوں شرائط کو کماحقہ پورا نہ کر سکا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوشش اور اخلاص کے مطابق ہو گا۔ لیکن جس بدقسمت شخص کی کوشش اور محنت میں ان تینوں اوصاف کا فقدان ہوا اور وہ ان کے مقابلے میں عمر بھر دوسرے راستے (بخل ‘ استغناء اور تکذیب) پر گامزن رہا‘ ظاہر ہے اس کا شمار ان بدترین لوگوں کے گروہ میں ہو گا جس کے سرغنہ ابولہب اور ابوجہل ہیں۔
یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ ابوجہل کے مقابلے میں ابولہب کا کردار کہیں زیادہ گھٹیا اور مذموم تھا‘ بلکہ قرآن مجید نے جس انداز میں اس کی مذمت کی ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کا بدترین فردتھا۔ بزدلی‘ بخیلی اور حد سے بڑھی ہوئی خود غرضی اس کے کردار کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ اُس کے بخل اور مال کو سینت سینت کر رکھنے کا ذکر سورۃ اللہب میں بھی آیاہے۔ اس کی بزدلی اور خودغرضی کا پول اُس وقت کھلا جب اس کے سامنے اپنے ’’دین‘‘ کے لیے جنگ کرنے کا مرحلہ آیا‘ اُس وقت اس نے اپنی جگہ کرائے کے دو سپاہیوں کو لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے مقابلے میں ابوجہل صاف گو ‘بہادر اور اپنے نظریے پر مرمٹنے والا شخص تھا۔ چنانچہ اُس نے اپنے باطل دین کی خاطر بڑے فخر سے گردن کٹوائی۔ انگریزی کی مثل ہے : "give the devil his due" یعنی شیطان کے کردار میں بھی اگر کوئی مثبت خصوصیت ہو تو اس کے اعتراف میں کوئی حرج نہیں۔ ظاہر ہے اس کی شخصیت میں آخر کوئی تو خوبی تھی جس کی بنا پر حضورﷺ نے اپنی خصوصی دعا میں اُسے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک ہی پلڑے میں رکھا تھا۔ حضورﷺ نے تو ان دونوں شخصیات کے لیے برابر کی دعا کی تھی کہ اے اللہ !عمر بن الخطاب اور عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو میری جھولی میں ڈال دے! حضورﷺ کی اس دعا کی روشنی میں تویہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ابوجہل ایمان لے آتا تو وہ حضرت عمرؓ کے پائے کا مسلمان ہوتا‘نہ کہ عبداللہ بن اُبی کے کردار والا مسلمان۔
بہرحال ان آیات میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کے معیار اور اوصاف کی واضح طور پر نشاندہی کر دی گئی ہے۔ جو انسان اپنی سیرت و شخصیت کی بنیاد پہلے تین اوصاف (بحوالہ آیت ۵ اور ۶) پر رکھے گا وہ‘ان شاء اللہ ‘کامیابی سے ہمکنار ہو گا اور جو آخری تین اوصاف (بحوالہ آیت ۸ اور ۹)کا انتخاب کرے گا وہ بدترین خلائق قرارپائے گا۔
آیت۱ ۱{وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَالُـہٗٓ اِذَا تَرَدّٰی(۱۱)} ’’اور اس کا مال اس کے کچھ کام نہیں آئے گا جب وہ (جہنّم کے) گڑھے میں گرے گا۔‘‘
آیت۱۲{اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی(۱۲)}’’(دیکھو انسانو!) یقیناً ہمارے ذِمّے ہے ہدایت پہنچا دینا۔‘‘
اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ بہت اہم آیت ہے۔ اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ انسان کو سیدھا راستہ دکھانا اور ’’ہدایت‘‘ اس تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کے ذِمّہ ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جبلی ہدایت بھی عطا کی ہے‘ اُس کے نفس کے اندراخلاقی حس بھی الہام کر دی ہے۔ اس کے اندر اپنی روح بھی پھونکی ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبّت کی امین ہے اور پھر اس ہدایت و معرفت کی تکمیل کے لیے اس نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے کئی ذرائع سے انسان کو راہِ ہدایت دکھانے کا اہتمام فرما دیا ہے۔
آیت ۱۳{وَاِنَّ لَـنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی(۱۳)}’’اور ہمارے ہی لیے ہے اختیار آخرت کا بھی اور دنیا کا بھی۔‘‘
ظاہر ہے آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون انسان کامیاب ہوا ہے اور کون ناکام رہا ہے۔اور دنیا میں بھی وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی قوم اب اُس کی زمین پر بوجھ بننے جا رہی ہے اور اس طرح کے کس بوجھ سے کس وقت اس نے زمین کو آزاد کرنا ہے۔ گزشتہ سورت (سورۃ الشمس) میں قومِ ثمود کے بارے میں اللہ کے ایسے ہی ایک فیصلے کا ذکر ہم بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں: {فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰىہَا(۱۴)}’’تو الٹ دیا اُن پر عذاب اُن کے ربّ نے اُن کے گناہ کی پاداش میں اور سب کو برابر کر دیا‘‘۔ یعنی جب اُس قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول ؑواضح نشانیوں کے ساتھ آ گیا‘ پھر اللہ کے رسول ؑ نے اللہ کا پیغام پہنچا کر اور اپنے کردار و عمل کا نمونہ پیش کر کے اس قوم پر اتمامِ حُجّت کر دیا۔ اس کے بعد بھی جب وہ قوم کفر اور سرکشی پر اَڑی رہی توانہیں ایسے ملیامیٹ کر دیا گیا جیسے کسی باغ کی صفائی کے لیے اس کا ساراکوڑا کرکٹ جمع کر کے اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔
آیت۱۴{فَاَنْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی(۱۴)}’’دیکھو! مَیں نے تمہیں خبردار کر دیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے۔‘‘
جہنّم تو بھوکے شیر کی طرح اپنے شکار کی تاک میں ہے:{نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی(۱۶) تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی(۱۷)} (المعارج) ’’وہ کلیجوں کو کھینچ لے گی ۔ وہ پکارے گی ہر اُس شخص کو جس نے پیٹھ موڑ لی تھی اور رخ پھیر لیا تھا۔‘‘
آیت ۱۵{لَا یَصْلٰـىہَآ اِلَّا الْاَشْقَی(۱۵)} ’’نہیں پڑے گا اس میں مگر وہ جو انتہائی بدبخت ہے۔‘‘
ظاہر ہے جس انسان کو آخری رسول(ﷺ) کے آجانے کے بعد بھی حقیقت نظر نہ آئی اس سے بڑا بدبخت اور کون ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ جہنّم کے گڑھے میں گرنے کا مستحق کون ہوسکتا ہے؟کیونکہ اگر کوئی شخص اندھیرے میں یا کم روشنی میں ٹھوکر کھا جائے تو اس کی ٹھوکر کا پھر بھی کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دن کی روشنی میں اس وقت راستہ پہچاننے سے انکار کردے جب سورج نصف النہار پر چمک رہا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے وہ خود ہی قصور وار ہو گا۔
آیت۱۶{ الَّذِیْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی(۱۶)}’’جس نے جھٹلایا اور منہ پھیر لیا۔‘‘
آیت ۱۷{وَسَیُجَنَّـبُـہَا الْاَتْقَی(۱۷)} ’’اور بچا لیا جائے گا اس سے جو انتہائی متقی ہے۔‘‘
اس آیت کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس کے مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں آیت ۵ اور ۶ میں جن تین اوصاف کا ذکر ہوا ہے وہ اس اُمّت کی جس شخصیت میں بتمام و کمال نظر آتے ہیں وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت ہے۔
’’تصدیق بالحسنی‘‘ کے حوالے سے آپؓ کے بارے میں خود حضورﷺ کا فرمان ہے کہ مَیں نے جس کسی کو بھی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا ‘سوائے ابوبکرؓ کے۔ انؓ کے سامنے جونہی میں نے اپنی نبوت کا ذکر کیا وہ فوراً مجھ پر ایمان لے آئے۔ آپؓ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ زمانہ جاہلیت میں بھی آپؓ توحید پر کاربند اور بُت پرستی سے دور رہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے میں بھی آپؓ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپؓ نے کئی نادار خاندانوں کی کفالت مستقل طور پر اپنے ذِمّہ لے رکھی تھی۔ مکّہ کے بہت سے غلاموں اور لونڈیوں کو آپؓنے منہ مانگی قیمت میں خرید کر آزاد کرایا تھا اور غزوئہ تبوک کے موقع پر تو آپؓ نے اپنا پورا اثاثہ لاکر حضورﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیاتھا۔غرض مذکورہ تینوں اوصاف بدرجہ اَتم اُمّت کے مَردوں میں آپؓ کی شخصیت میں ‘جبکہ خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شخصیت میں پائے جاتے ہیں۔
آیت۱۸{الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَـہٗ یَتَزَکّٰی(۱۸)}’’جو اپنا مال دیتا ہے اپنے (نفس) کو پاک کرنے کے لیے۔‘‘
یعنی مال خرچ کرتے ہوئے دنیاداری کا کوئی مفاد اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آزاد کرانے کے لیے اُمیہ بن خلف کو جب منہ مانگی قیمت ادا کی تو اس پر اُمیہ خود بھی حیران رہ گیا۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت ابوقحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (آپؓ فتح مکّہ کے بعد ایمان لائے تھے)نے بھی آپؓ سے گلہ کیا کہ اتنی بڑی رقم تم نے کسی طاقتور غلام پر کیوں نہ خرچ کی جو تمہارے کام بھی آتا! ( اُس زمانے میں اگر کوئی شخص کسی غلام کو آزاد کراتا تھاتو وہ غلام زندگی بھر اسی شخصیت کے حوالے سے پہچاناجاتا تھااور اخلاقی لحاظ سے بھی وہ اس کے تابع رہتا تھا۔عرب رواج کے مطابق ایسے آزاد کردہ غلام کو متعلقہ شخصیت کا مولیٰ کہا جاتا تھا ‘جیسے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کے مولیٰ تھے۔) بہرحال مال خرچ کرنے کا یہ فلسفہ ان لوگوں کی سمجھ سے بالا ہے جن کی نظر ہر وقت دنیاکے مفادات پر رہتی ہے۔
آیت ۱۹{وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی(۱۹)} ’’اور اس کے ذِمّے کسی کا احسان نہیں جس کا وہ بدلہ چکا رہا ہو۔‘‘
آیت۲۰{اِلَّا ابْتِغَـآئَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی(۲۰)}’’بلکہ (وہ تو خرچ کر رہا ہے) صرف اپنے بلند و برتر پروردگار کی رضاجوئی کے لیے۔‘‘
آیت ۲۱{وَلَسَوْفَ یَرْضٰی(۲۱)} ’’اور وہ عنقریب راضی ہو جائے گا۔‘‘
یہاں پر یَرْضٰی کی ضمیر کا اشارہ بیک وقت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور اُس شخصیت کی طرف بھی جس کی صفات کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائے گا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی راضی ہوجائیں گے۔ گویا یہ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ جیسی بشارت ہے کہ اگر اللہ کا یہ بندہ اپنا مال صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے لٹارہا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے راضی ہوجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اتنا کچھ عطا کرے گا کہ وہ بھی خوش ہو جائے گا۔ یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ معنوی اعتبار سے اس آیت کا اگلی سورت (سورۃ الضحیٰ) کی آیت ۵ کے ساتھ خصوصی ربط و تعلق ہے جس کی وضاحت سورۃ الضحیٰ کے مطالعہ کے دوران کی جائے گی۔
یہاں پر زیر مطالعہ سورتوں (سورۃ الشمس‘ سورۃ اللیل‘ سورۃ الضحیٰ اور سورۃ الانشراح) کے مرکزی مضمون کے اہم نکات ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ سورۃ الشمس کی ابتدائی آٹھ آیات قسموں پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد مقسم علیہ کے طور پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نفسِ انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کر دیا گیا ہے ‘اور پھر اس کے بعد دو آیات میں اس حوالے سے کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی بتا دیا گیا ہے: {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا(۹) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا(۱۰)} کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ٹھہرا اور جس نے اسے مٹّی میں دفن کر دیا وہ ناکام ہو گیا۔ اگلی سورت یعنی سورۃ اللیل میں نفس کو سنوارنے اور بگاڑنے کے طریقوں یا راستوں کے بارے میں مزید وضاحت کر دی گئی ہے کہ جو انسان اِعطائے مال‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ کے اوصاف اپنائے گا وہ صدیقیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس بخل‘ استغناء (حلال و حرام اور جائز و ناجائز سے متعلق لاپرواہی) اور حق کی تکذیب کی راہ پر چلنے والا انسان بالآخر خود کو جہنّم کے گڑھے میں گرائے گا۔ پھر کامیابی کے راستے کی مثال کے طور پر اُمّت کی ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا جسے پہلے تین اوصاف کو اپنانے کے باعث اعلیٰ مدارج و مراتب سے نوازا گیا۔ لیکن ظاہر ہے اس منزل کا بلند ترین مقام تو محمد رسول اللہﷺ کے لیے مختص ہے جو معراجِ انسانیت ہیں۔
چنانچہ اس مضمون کے حوالے سے اب اگلی دو سورتوں کا تعلق خصوصی طور پر حضورﷺ کی ذاتِ اَقدس سے ہے۔ اسی نسبت سے ان سورتوں کا مطالعہ سیرت النبی ﷺکے بعض پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے بھی مفید ہے۔ متقدمین میں سے تصوّف کا ذوق رکھنے والے اکثر مفسرین نے ان سورتوں میں بعض باطنی حقائق کی نشاندہی بھی کی ہے۔( متعلقہ آیات کے مطالعہ کے دوران جہاں جس حد تک ممکن ہوا ایسے کچھ نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔) ظاہر ہے موجودہ دور کے ’’عقلیت پسند‘‘ مفسرین نہ تو تصوّف کا ذوق رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے موضوعات سے دلچسپی ہے۔ (الا ماشاء اللہ!)