(منبرو محراب) اخلاصِ نیت کی اہمیت: قرآن واحادیث کی روشنی میں - خورشید انجم

7 /

اخلاصِ نیت کی اہمیت
قرآن و احادیث کی روشنی میں
خورشید انجم
قرآن اکیڈمی ‘ لاہور میں ۲۱جون ۲۰۲۴ءکاخطابِ جمعہ

خطبہ مسنونہ اور تلاوتِ آیات کے بعد:
قرآن مجید کی یہ آیت اکثر عید الاضحی اور قربانی کے دنوں میں خطبات میں بیان کی جاتی ہے : 
{لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط}(الحج:۳۷)
’’اللہ تک نہ تو ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون ‘لیکن اُس تک پہنچتا ہے تمہاری طرف سے تقویٰ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانوروں کا خون نہیں پہنچتا بلکہ جس تقویٰ اور اخلاصِ نیت کے ساتھ تم اللہ کی راہ میں قربانی کرتے ہو وہ اللہ کو مقصود ہے ۔ اگریہ اخلاصِ نیت نہیں ہے تو پھر کسی عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ اقبال نے کہا: ؎

رہ گئی رسم اذاں‘ روح بلالی نہ رہی

 

فلسفہ رہ گیا‘ تلقین غزالی نہ رہی

اور: ؎
نماز و روزہ و قربانی و حج

یہ سب باقی ہے‘ تُو باقی نہیں ہے!نمازیں بھی پڑھی جا رہی ہیں‘ روزے بھی رکھے جا رہے ہیں‘ قربانیاں بھی بڑھ چڑھ کر ہورہی ہیں ‘ حج میں بھی ماشاء اللہ مسلمانوں کی اس قدر بڑی تعداد شرکت کررہی ہے کہ سعودی حکومت کے لیے سنبھالنا مشکل ہو جاتاہے ۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے مگر اس کے باوجود اُمّت ِمسلمہ کی حالت دن بدن خراب ہو تی جارہی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ان سب اعمال کی جو روح تھی وہ اب باقی نہیں رہی‘ اوروہ روح اخلاصِ نیت ہے ۔ ہم جو کام بھی کررہے ہیں وہ کس نیت اور ارادہ کے ساتھ کر رہے ہیں‘ یہ دیکھنے کی اصل بات ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{لَـیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّـوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰــکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج} (البقرۃ:۱۷۷)
’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو‘بلکہ نیکی تو اُس کی ہےجو ایمان لائے اللہ پر‘ یومِ آخرت پر‘ فرشتوں پر‘ کتاب پر اور نبیوں پر۔‘‘
ہر عمل کے دو پہلو ہیں: ایک اس کا ظاہرہے اور ایک باطن ۔ ایک اس کا ڈھانچا ہے‘ ہیئت ہے جبکہ ایک اس کی باطنی کیفیت ہے۔ جیسا کہ نماز کا ظاہر اس کا قیام ‘ رکوع اور سجود ہیں‘ یہ سارا اس کا ڈھانچا ہے‘ جبکہ اس کی باطنی کیفیت خشوع و خضوع ہے‘ انابت الی اللہ ہے اور رجوع الی اللہ کی کیفیت ہے ۔اگر یہ کیفیت نہیں ہے تو پھر سب کچھ بے سود ہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہےکہ ایک زمانہ آئے گا کہ پوری جماعت کے اندر ایک شخص بھی خضوع و خشوع والا نہیں ہوگا ‘ سب خشوع سے خالی ہوں گے۔اسی طرح ہر عمل کا ایک ظاہر ہے اور ایک اس کا باطن ہے ۔ اسی موضوع کو آیت البر میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اعمال نیکی ہیں لیکن آیت البر میں یہ بتایا جارہا ہے کہ اصل میں تو نیکی ایمان ہے ۔ ایمان ہی درحقیقت کسی عمل کے محرک کو معین کرتا ہے ۔ نیکی کس لیے کی جانی چاہیے ‘اس کا مقصد یہاں بیان کر دیا گیا ۔ اگر اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہےاور اللہ کو راضی کرنے کے لیے کوئی کام کیا جارہا ہے تو وہ نیکی ہے ‘ اگر یہ مقصود نہیں ہے تو پھروہ عمل نیکی نہیں ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے خود نبی اکرم ﷺ سے سنا‘ آپ ﷺ نے فرمایا :
((إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوٰى))
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی تھی ۔ ‘‘
یہ دیکھا جائے گا کہ کس نیت کے ساتھ کوئی عمل کیا جا رہاہے۔ بعض اوقات ہمیں محسوس ہوجاتا ہے کہ نیت وہ نہیں ہے جو دکھائی دے رہی ہے ۔ جیسا کہ الیکشن کے دنوں میں سیاست دان گلی محلوں میں جاتے ہیں ‘ میلے کچیلے بچوں کو بھی اُٹھا کر پیار کر رہے ہوتے ہیں ‘ لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہیں ‘ گلے ملتے ہیں ‘ شادی غمی میں جا رہےہوتے ہیں لیکن ہر شخص زیر ِلب مسکرا رہا ہوتا ہے کہ اس کا مقصد ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد الیکشن جیتنا ہے۔ جیسے ہی یہ جیت گیا تو اُس کے بعد اس کا سایہ بھی نظر نہیں آئے گا ۔ البتہ بعض اوقات انسان کی نیت معلوم نہیں ہوسکتی کہ وہ کس مقصد کے تحت کوئی عمل کر رہا ہے ۔ مثال کے طور پر کسی نے کوئی فاؤنڈیشن بنائی اور لوگوں کی مدد کررہا ہے ‘ خدمت خلق کے کام ہورہے ہیں ‘ کوئی ڈسپنسری کھول دی ہے ‘ ہسپتال بنا دیا ہے ‘ اسی طرح کا کوئی اور کام کردیا ہے ۔ وہ بظاہر اچھا کام ہے‘ لوگ اس کی تعریف بھی کرتےہیں لیکن اس کا اصل مقصد اور نیت معلوم نہیں ہوتی کہ وہ یہ سب کیوں  کررہا ہے!یہ تو وہی جانتا ہے یا اس کا رب جانتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کوئی انکم ٹیکس سے بچنے کے لیے کر رہا ہو یا کوئی اور ایسا مقصد ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کر رہا ہو۔ اس حدیث میں یہ بتا دیا گیا کہ جس کی جو نیت ہوگی اسی کے مطابق اسے صلہ ملے گا ۔ اللہ تو دلوں کے حال جانتاہے ۔ فرمایا :
{وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (۱۶)} (قٓ)
’’اور ہم تو اُس سے اُس کی رَگِ جاںسے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
اور:
{ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ  بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۱۹)} (آل عمران)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ جو کچھ سینوں کے اندر مضمر ہے اس سے بھی واقف ہے۔‘‘
حدیث میں آگے فرمایا : 
’’پس جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی جانب ہے‘ اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا کسی عورت کے لیے ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت اُسی کی جانب ہے جس کی خاطر اُس نے ہجرت کی۔‘‘
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلےدو مرتبہ ہجرتِ حبشہ ہوئی ہےلیکن وہ رضاکارانہ تھی ۔ جو لوگ قریش کے ظلم و ستم اور تشدد کو برداشت نہیں کر سکتے تھےتو اللہ کے نبی ﷺ نے ان کو اجازت دی تھی کہ وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں‘لیکن یہ ہجرت سب پر فرض نہیں تھی ۔ البتہ مدینہ کی طرف ہجرت سب مسلمانوں پر فرض تھی کیونکہ اب مدینہ کو بیس کیمپ بنایا جارہا تھا۔ زیر ِمطالعہ حدیث میں ہجرتِ مدینہ ہی مراد ہے کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیےہے اور جس نےدنیا کےلیے ہجرت کی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے ہے ۔ اب ایک شخص کا کاروبار مسلمانوں کے ساتھ تھا ‘ مسلمان مدینہ چلے گئے تو اس کا کاروبار بند ہوگیا جس کی وجہ سے وہ بھی مدینہ ہجرت کرگیا تو اس کی یہ ہجرت دنیا کے لیے ہوگی ۔ اسی طرح ایک شخص مہاجر اُمِّ قیس کے نام سے مشہور ہوگیا کیونکہ اُمِّ قیس ایک مسلمان خاتون تھیں جو مہاجر ہو کر مدینہ چلی گئیں۔ یہ صاحب بھی ان سے نکاح کی غرض سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے ۔ اس لیے حدیث میں فرمایا گیا کہ جس کی ہجرت کسی خاتون سے نکاح کی غرض سے تھی تو اس کی ہجرت اسی جانب ہے۔ یعنی اس کے لیےآخرت میں کوئی اجر نہیں ہے ۔
یہی بات ایک دوسری حدیث میں واضح کی گئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جب قیامت کا دن ہوگا اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرمانے کے لیے ان کی طرف (زمین پر) نزول فرمائے گا۔ اُس وقت ہر جماعت گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی ہوگی۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ جن اشخاص کو بلائے گا ان میں ایک آدمی وہ ہو گا جس نے قرآن پاک زبانی یاد کیا ہوگا‘ اور ایک آدمی وہ ہوگا جو اللہ کی راہ میں شہید کیا گیاہو گا اور ایک بہت مال دار آدمی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کے قاری سے کہیں گے : کیا مَیں نے تجھے وہ کتاب نہیں سکھائی جو مَیں نے اپنے رسولﷺ پر نازل کی تھی؟ وہ کہے گا : ہاں  میرے ربّ! ایسا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: پھر تُو نے جو علم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟وہ جواب دے گا: مَیں رات دن اس (کی تلاوت اور درس و تدریس) میں مشغول رہتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: تُو نے جھوٹ کہا۔ اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے: تُو نے جھوٹ کہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تم تو یہ چاہتے تھے کہ کہا جائے: فلاں آدمی بڑا قاری ہے‘ سو وہ (دنیا میں) کہا جا چکا۔
پھر مال دار شخص کو حاضر کیا جائے گاتو اللہ تعالیٰ اُس سے پوچھے گا: کیا مَیں نے تجھ پر مالی آسودگی نہیں فرمائی یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رہنے دیا؟ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! ایسا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر تُو نے میرے دیے ہوئے مال کا کیا کیا؟وہ کہے گا : مَیں اس کے ذریعے رشتہ داروں پر خرچ کرتا تھا اور (ضرورت مندوں پر) صدقہ کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تُو نے جھوٹ کہا۔ اور فرشتے بھی کہیں گے : تُو نے جھوٹ کہا۔ اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا : بلکہ تیری خواہش تو یہ تھی کہ کہا جائے فلاں بڑا سخی ہے‘ سو وہ (دنیا میں) کہا جا چکا۔
اسی طرح اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے کو حاضر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اُس سے پوچھے گا: تجھے کس لیے قتل کیا گیا؟ وہ کہے گا : مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم ملا‘ چنانچہ مَیں جنگ کرتا رہا حتیٰ کہ مجھے قتل کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ اُس سے فرمائے گا: تُو جھوٹ کہتا ہے۔ اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے: تُو جھوٹ کہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تُو صرف یہ چاہتا تھا کہ کہا جائے : فلاں شخص بہت بہادر ہے‘ سو وہ (ـدنیا میں) کہا جا چکا۔‘‘
(پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے :) اس کے بعد رسول اللہﷺ نے میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمایا:’’اے ابوہریرہ! قیامت کے رو ز اللہ کی مخلوق میں یہ سب سے پہلے تین اشخاص ہوں گے جن (کے جہنم میں جھونکے جانے) سے جہنم بھڑک اُٹھے گی۔‘‘
(سنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘ ح:۲۳۸۲)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیت اور اخلاصِ نیت کی کتنی اہمیت ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَلَّى يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ صَامَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ)) (رواہ احمد)
’’ جو شخص دکھلاوے کی خاطر نماز پڑھتا ہے تو اس نے شرک کیا ‘ جو شخص دکھلاوے کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس نے شرک کیا ‘ اور جو شخص دکھلاوے کی خاطر صدقہ کرتا ہے تو اس نے شرک کیا ۔‘‘
شرک دو قسم کا ہے۔ ایک شرک جلی ہے اور دوسرا شرک خفی ۔ شرک جلی وہ ہے جیسے کسی بت کو سجدہ کرلیا ‘ کسی قبر پر ماتھا ٹیک دیا یا کسی دیوی کی پوجا کرلی‘ جبکہ شرک خفی ریاکاری ہے۔ جیسے بندہ نماز پڑھ رہا ہے اور اسے احساس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو اس نے سجدہ تھوڑا طویل کر لیا۔ وہ شرک کرچکا ۔یہ شرک خفی غیر محسوس انداز میں عمل پزیر ہوتاہے کہ انسان کو پتا بھی نہیں چلتا ‘ جیسے حدیث میں کہا گیا کہ ریا اور دکھاوا ایسا شرک ہے جو چیونٹی کے انداز و رفتار سے انسان کے عمل میں داخل ہو جاتاہے ۔اس سے بچنے کے لیے اخلاص ضروری ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ایمان کیا ہے؟ فرمایا:(( الاخلاص))۔ یعنی ایمان اور اخلاص ایک ہی ہیں۔ایمان میں اگر اخلاص نہیں ہو گا تو ایسا ایمان قابلِ قبول نہیں ہو گا ۔ آپ ﷺنے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس اُمت کی اُس کے ضعیفوں کی دعاؤں سے‘ ان کی نمازوں سے اور اخلاص کی برکت سے مدد کرتاہے۔ ‘‘اللہ کی مدد خالص نیت کے ساتھ عمل کرنےسے آتی ہے۔ فرمایا:
{فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ (۲)} (الزمر)
’’پس بندگی کرو اللہ کی اپنی اطاعت کو اُس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔‘‘
یعنی بندگی ٔرب میں کسی اور کوشریک نہ کرو‘سجدہ کرو تو صرف اللہ کے لیے کرو۔ نماز ہے تو صرف اللہ کے لیے ہے۔ روزہ ‘ حج ‘ قربانی اور ہر عمل صرف اللہ کے لیے ہو ۔ اللہ کے دین کی دعوت کا کام کررہے ہیں تو صرف اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید ہو ۔ غلبہ و اقامت ِدین کی کوشش‘ محنت اور جدّوجُہد ہو رہی ہے تو وہ بھی صرف اللہ کی رضا اورآخرت کی فلاح کے لیے ہو ۔ اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہیے‘ ورنہ بظاہربڑی بھاگ دوڑ بھی ہو رہی ہوگی‘ بہت کچھ ہو رہا ہوگا لیکن آخرت میں انجام خدانخواستہ اس شہید ‘ عالم اور سخی جیسا نہ ہو جائے جس کا ذکر پہلے آچکا ۔ اس حوالے سے بہت زیادہ فکرمندی اور خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دعا بھی صرف اللہ ہی سے مانگنی چاہیے ۔ فرمایا:
{فَادْعُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ } (المومن:۱۴)
’’پس تم پکارو اللہ کو اُسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے‘‘
اس اخلاص سے دعا مانگنے پر اللہ تعالیٰ مصیبتوں سے نجات دے دیتے ہیں۔ جب دعا واقعتاً دل سے نکلتی ہے تو وہ اثر رکھتی ہے ۔ بقول اقبال:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پَر نہیں‘ طاقت پرواز مگر رکھتی ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی: اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر جا کر اپنے مویشی چَراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی لیتے تو پھر بیوی بچوں اور گھر والوں کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات مجھے دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں۔ بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے‘ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھاتو ہمارے لیے تو اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ بنا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں۔ آپﷺ نے فرمایا: چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ دوسرے شخص نے دعا کی: اے اللہ ! تُو خوب جانتا ہے کہ مجھے اپنے چچا کی ایک لڑکی سے اتنی زیادہ محبت تھی جتنی ایک مرد کو کسی عورت سے ہو سکتی ہے۔ (ایک مرتبہ انتہائی مجبوری میں) اس لڑکی نے کہا: تم مجھ سے اپنی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کر سکتے جب تک مجھے سو اشرفی نہ دے دو۔ میں نے ان کے حاصل کرنے کی کوشش کی اور آخر اتنی اشرفیاں جمع کر لیں۔ پھر جب میں اس سے اپنی حاجت پوری کرنے بیٹھا‘ تو وہ بولی: اللہ سے ڈر اور مہر کو ناجائز طریقے پر نہ توڑ۔ اس پر مَیں کھڑا ہو گیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اب اگر تیرے نزدیک میں نے یہ عمل تیری ہی رضا کے لیے کیا تھا تُو ہمارے لیے نکلنے کا راستہ بنا دے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: چنانچہ وہ پتھر دو تہائی ہٹ گیا۔ تیسرے شخص نے دعا کی: اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور ایک ’فرق‘ جوار کے عوض کام پر لگایا۔ جب میں اسے دینے لگا تو اس نے لینے سے انکار کردیا ۔میں نے اس جوار کو لے کر بو دیا۔ اس میں اتنی برکت ہوئی کہ میں نے اس سے ایک بیل اور چرواہا خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے آکر مزدوری مانگی کہ :اے اللہ کے بندے! مجھے میرا حق دے دے۔ میں نے کہا: اس بیل اور چرواہے کے پاس جاؤ‘ وہ سب تمہارا ہی ہے۔ اس نے کہا: مجھ سے مذاق کرتے ہو! میں نے کہا: میں مذاق نہیں کرتا‘ واقعی یہ تمہارے ہی ہیں۔ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک یہ کام میں نے تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر راستہ بنا دے! چنانچہ وہ پتھر ان سے ہٹ گیا۔ ( متفق علیہ)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ خالصتاً اللہ کے لیے کیا گیا عمل اللہ کی مدد کا سبب بنتا ہے ۔ اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہر عمل اللہ تعالیٰ قبول فرماتاہے ۔ اسی لیے فرمایا :
((إِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لَا يَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَا كَانَ لَهُ خَالِصًا وَابْتُغِيَ بِهٖ وَجْهُهُ)) (سنن النسائی:۳۱۴)
’’بے شک اللہ عزوجل صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو اُسی کے لیے خالص ہو اور اُس کی رضا کے لیے کیا گیا ہو۔‘‘
نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا :اگرکوئی شخص اخلاصِ نیت کے ساتھ عمل کر رہا ہو اور اس کا دکھاوے کا کوئی ارادہ نہ ہو ‘ اس کے باوجود اگر کسی کو اطلاع ہو جائے تو کیا یہ بھی ریا میں آئے گا؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’نہیں‘ بلکہ اس کےلیے تو دہرا اجر ہے۔ایک اس کے اخلاصِ نیت کا اجر اور دوسرا اس کا راز کھل جانے پر بھی اللہ اس کو اجر عطافرمائیں گے ۔ ‘‘
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو کام بھی کیا جائے ‘ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے ‘ اُخروی فلاح کو مدّ ِنظر رکھ کر کیا جائے ‘ ورنہ خود کو تھکا دینے والی بات ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم‘نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے!اس لیے ہر عمل میں اخلاص نیت کی کوشش کرنی چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لَا يَنْظُرُ إلٰى صُوَرِكُمْ وَلَا اَمْوَالِكُمْ، وَلٰكِنْ يَنْظُرُ إِلٰى قُلُوْبِكُمْ وَاَعْمَالِكُمْ)) (صحیح مسلم:۵۳۱۴)
’’اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال و دولت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں کو اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
وہ دیکھتا ہےکہ کس نیت سے عمل کیا جا رہاہے ‘ کس جذبے کے تحت کیا جارہا ہے ۔ انسان کے اندر اگر یہ احساس بیدار ہو جائے تو اس کی شخصیت و کردار میں بھی نکھار آئے گا اور اگر کسی قوم ‘ کسی جماعت کے اندر یہ صفات پیدا ہو جائیں تو وہ جماعت بھی ترقی کرے گی ۔اللہ تعالیٰ اس کو اس دنیا میں بھی سرخروئی عطا فرمائے گا۔جیسے کہ حدیث ہے :
((اِنَّ اللّٰهَ يَرفَعُ بِھٰذَا الْكِتابِ أقْوَامًاً وَيَضَعُ بِهٖ آخَرِينَ)) (صحیح مسلم:۱۴۱۲)
’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سے سی قوموں کو بلند کرے گا اور اسی کتاب کے ذریعے بہت سی اقوام کو پست و ذلیل کرے گا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جو جماعت تھی وہ ریا‘ نفاق ‘شرک اور ہر قسم کی ایسی برائیوں سے پاک تھی اوران کے مدّ ِنظر اعلیٰ ترین مقاصد تھے ۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی فلاح کے لیے اپنی جانیں دیں اور اموال خرچ کیے ۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیےانہوں نے اپنی (قبائلی) زندگیوں کو وقف کردیا تھا۔
ایک صاحب نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا: ایک شخص(قبائلی) حمیت کی خاطر جنگ کرتا ہے ‘ ایک شخص بہادری دکھانے کے لیے جنگ کرتا ہے‘ اور ایک شخص ریاکاری کے لیے جنگ کرتا ہے‘ تو ان میں سے کون ہے جو اللہ کی راہ میں جنگ کرتا ہے؟اس پر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ)) (متفق علیہ)
’’جو اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے لڑے‘ وہی اللہ کی راہ میں (لڑتا) ہے۔‘‘
یہی جماعت ِصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پیش نظر تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو قبول فرمایا۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اخلاص نیت عطا فرمائے‘ اخلاص نیت والے اعمال نصیب فرمائے اور انہیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔ آمین !