قیامِ پاکستان کی بنیاد اور ہماری ذِمہ داریاںممتاز ہاشمی
آج جب افراد ‘ حکومت اور تنظیمیں بڑے جوش و خروش اور تیاری کے ساتھ پاکستان کی آزادی کی سالگرہ منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو یہ موقع اس بات کا متقاضی ہے کہ قیامِ پاکستان کے تصوّر اور اس کے پس منظر کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ ان تمام حالات و واقعات کا تجزیہ کیا جائے جو پاکستان کے قیام کا باعث بنے۔اس بات کا ادراک ہو کہ آج ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور مستقبل کے لیے کون سا لائحۂ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی تخلیق ایک معجزہ ہے اور بقول ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ قرآن میں اس کی تمثیل ان آیات میں ملتی ہے:
{ وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (۲۶)} (الانفال)
’’اور اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم زمین میں قلیل تھے کمزور شمار کیے جاتے تھے ‘ اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ تم کو لوگ نوچ کھسوٹ نہ لیں‘سو اللہ نے تم کو رہنے کی جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی اور تم کوبہترین پاکیزہ رزق عطا فرمایا تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
پاکستان کا قیام کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے ممکن بنایا۔ دراصل اس کے ذریعے ہمارے بزرگوں کے وعدے‘عزم اور عمل کو جانچنا مقصود تھا ۔
قیامِ پاکستان کی فکری بنیاد قرآن کے عظیم سکالر علامہ اقبال نے رکھی۔ ان کے دور میں پوری ملّت ِاسلامیہ غلامی میں جکڑی ہوئی تھی ۔دنیاکے کسی بھی علاقے میں اسلام کانظام نافذ نہ تھا۔ دین اسلام کا کامل تصوّر ختم ہو گیا تھا اور مسلمانوں میں ذہنی غلامی اور پس ماندگی مکمل طور پر سرایت کر چکی تھی۔ دین ِاسلام مکمل طور پر مغلوب ہو چکا تھا اور مسلمانوں میں اسلام صرف مذہبی عبادات اور رسومات تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ ان حالات میں علامہ اقبال کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطا کی کہ وہ مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد دلا کر ان میں اسلام کے غلبے اور عظمت کو بحال کرنے کا عزم پیدا کریں۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو نہ صرف ان کے زوال کی وجوہات سے آگاہ کیا بلکہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ بھی دکھایا۔انہوں نے اپنا پیغام اردو اور فارسی میں شاعری اور نثر کی صورت میں پیش کیا اور دین اسلام کے احیاء و نفاذ کے لیے عملی لائحہ عمل فراہم کیا۔
بطور صدر مسلم لیگ‘ انہوں نے احیاء اسلام کے لیے پاکستان کا تصوّر دیا۔ اس کے مطابق ایک نئی مسلم مملکت ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی والے صوبوں پر مشتمل ہو گی۔ اس میں دین اسلام کے مکمل نفاذ کا موقع ملے گا اوریہ ریاست خلافت راشدہ کا ماڈل ہو گی۔ تمام دُنیا عدل پر مبنی اس نظام کے ثمرات دیکھے گی اور اس طرح اسلام کی طرف مائل ہو جائے گی۔پھر آہستہ آہستہ دین اسلام دنیابھر میں نافذ ہونے لگے گا۔ اس کام کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیےعلامہ اقبال نے قائداعظم کو قائل کیا۔یہ وہ وقت تھا جب قائداعظم مسلم لیگ کے رہنماؤں کے رویوں سے مایوس ہو کر لندن منتقل ہو چکے تھے۔پھرانہوں نے ہندوستان واپس آ کر اس عظیم مشن کی تکمیل کے لیے جدّوجُہد شروع کی۔ اقبال کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کی تخلیق کے لیے دن رات انتہائی محنت کی اور اس کے قیام کو صرف اور صرف دین اسلام کےمکمل نفاذ سے منسلک کر دیا۔ یوں یہ تحریک جلدہی عوامی مقبولیت حاصل کر گئی اور اس نے عوام میں جذبہ حریت پیدا کر دیا۔ مسلمانوں میں دین اسلام کے نفاذ کا احساس نمایاں ہونے لگاا اورنعرہ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ! ‘‘ہر جگہ چھا گیا۔
اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ تصور پاکستان کو ملّت ِاسلامیہ سے کیوں منسلک کیا گیا تھا!دراصل کسی ملک کی تخلیق جن جغرافیائی بنیادوں پر ہوتی ہے ان میں سے کسی اعتبار سے بھی اسلامیانِ پاکستان ایک قوم کی تعریف پر پورے نہیں اُترتے تھے۔ کہیں بھی زبان‘ ثقافت‘رسم و رواج کی مماثلت نہیں تھی۔ اتحاد کی اگر کوئی بنیاد تھی تو وہ صرف اور صرف دین ِاسلام تھا ۔
اللہ تعالیٰ نے اس جدّوجُہد کو کامیابی سے ہم کنار کیا اورآخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کے نقشے پر مملکت پاکستان کا ظہور ہوا ۔اس جدّوجُہد میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان‘ عزت اور جائیداد کی قربانی دی۔اس موقع پر جو ہجرت ہوئی وہ تاریخ ِانسانی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ اسے ’’ہجرتِ مدینہ الثانیہ‘‘ کا نام بھی دیا گیا کیونکہ یہ پاکستان میں دین ِاسلام کے قیام کے لیے ہوئی تھی۔اس حوالے سے ہزاروں واقعات ہماری قومی تاریخ کا ناقابلِ فراموش حصہ ہیں۔
آج کی نسل شایدعلامہ محمد اسد کے نام سے بھی واقف نہیں ہے ‘ جن کوبانیٔ قوم نے پاکستان بننے کے بعد پاکستانی شہریت دی۔ قائد نے انہیں پاکستان کا سیاسی ‘ معاشرتی ‘ معاشی اور تعلیمی نظام تیار کرنے کا کام سونپا تھا ۔انہیں اس مقصد کے لیے قائم کردہ’’محکمہ اسلامی تعمیر ِنو‘‘ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ پیدائشی طور پروہ یہودی تھے‘لیکن بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ۱۹۳۲ء میں ہندوستان کے دورے کے دوران علامہ اقبال سے ان کی ملاقات ہوئی ‘ جنہوں نے ان کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ مشرق کی طرف اپنا سفر ملتوی کر دیں اور علامہ اقبال کے ساتھ فکر اسلامی کی تعمیر ِنو کا کام کریں۔ بعد ازاں انہوں نے فیصلہ کیا کہ نئی وجود میں آنے والی اسلامی ریاست پاکستان کو اپنا مسکن بنا کر اپنی صلاحیتوں سےاس ریاست کے فکری احاطے اور نظام کو واضح کرنے میں مدد کریں۔
قیام پاکستان کے بعد علامہ اسد نے انتہائی محنت اور لگن سے اس کام کو تکمیل تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا۔انہوں نے اپنا کام عقیدت کے ساتھ کیا اور بہت سارے معاملات حکومت کی منظوری اور عمل درآمد کے لیے تیار تھے۔ ریڈیو پاکستان سے نشر شدہ ان کی روزانہ تقاریر اب بھی آرکائیوز میں دستیاب ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ قائداعظم وفات پا گئے اور علامہ اسد کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ سول/ملٹری بیوروکریسی کی اکثریت اپنے برطانوی آقائوں کے ساتھ وفادار تھی اور انہوں نے پہلے دن ہی سے راہ راست میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ آخر کار’’محکمہ اسلامی تعمیر نو‘‘ کو ختم کر دیا گیا۔یوں علامہ محمداسد کی ساری محنت فائلوں میں بند ہو کر رہ گئی۔ اس صورتِ حال سے مایوس ہو کر وہ سعودی عرب چلے گئے اور اہم کتابیں لکھیں جن میں ’’The Road to Makkah‘‘اور ’’The Message of the Quran‘‘ شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کی بقا بھی ایک اہم مسئلہ تھا جس کے لیے بڑی جدّوجُہد کی گئی۔ تقسیم کے وقت زیادہ تر وسائل ہندوستان نے روک رکھے تھے۔ قائداعظم قیامِ پاکستان کے صرف ایک سال بعد فوت ہو گئے۔ پاکستان کے حصے میں جو بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی آئی‘پاکستان یا اسلام سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ ان کا واحد مقصد ریاست کے کمزور نظام کو اپنے قابو میں لانا اور حکومت پر اپنا اقتدار قائم کرنا تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد کے واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کس طرح اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے اور آخر کار ۱۹۵۸ء میں فوجی اداروں کے ذریعہ مطلق اختیارات حاصل کر لیے۔ المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اکابرین کو کنارے لگا دیا گیا۔یوں آہستہ آہستہ تمام ریاستی امور پر لالچی اور مفاد پرست عناصر کا مکمل غلبہ ہو گیا۔
یہ تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ ہم سب اللہ کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کو مکمل طور پر بھول گئے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ اللہ کی نافرمانی بڑھتی گئی اور ہم بحیثیت قوم شرک ‘ سود ‘ انسانی استحصال پر مبنی نظام کو مضبوط بنانے میں لگ گئے ۔ قیام پاکستان کے بنیادی مقصد یعنی دین اسلام کے نفاذ کو مکمل طور پر بھلادیا گیا۔ اس طرح ہم اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پائے۔
اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ہمیں زبان ‘ فرقے ‘ سماجی اور علاقائی حدود کی بنیاد پر تقسیم کر دیا‘ جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔تاآنکہ۱۹۷۱ءمیں ایک بڑی شکست دے کر اور اس ملک کو دو حصوں میں توڑ کر متنبہ کیا گیاکہ ہم اللہ کے عذاب سے بچنے کی ترکیب کریں اور اس سے کیے گئے وعدے کو مکمل کریں۔بد قسمتی سے ہم نے آج تک۱۹۷۱ءکی شکست سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اللہ کی نافرمانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آج صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا غلامی کی سی زندگی گزار رہی ہے۔ وہ اسلام کے دشمنوں کی محض کٹھ پتلی بن گئی ہے۔ باوجود اس امر کے کہ اللہ نے مسلمانوں کو نہایت قیمتی وسائل اور دولت سے نوازا ہے‘ دنیا ان کو کسی معاملے میں اہمیت نہیں دیتی۔ مسلمانوں پر کفار کا ظلم و ستم عروج پر ہے مگر کوئی قابل ذکر ردعمل ظاہر نہیں ہوتا۔ہر آنے والا دن دنیا کے معاملات میں مسلمانوں کی ناکامیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اس دنیا میں ہماری بقا اور کامیابی کا واحد راستہ اب یہی رہ گیا ہے کہ اللہ سے خلوص دل کے ساتھ معافی مانگیں‘اپنی تخلیق کے اصل مقصد کی طرف لوٹیں اور پاکستان میں دین ِ اسلام کے نفاذ کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے عالمی سطح پر اسلام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات اور جدوجہد کی بشارت دی تھی۔ یہ سارا لائحۂ عمل سُنّت ِ رسول ﷺکی شکل میں ہمیشہ کے لیے ہماری رہنمائی کا ذریعہ ہے ۔اس عمل کے بنیادی اجزاء یہ ہیں :
(i دعوت ِاسلام بذریعہ قرآن
(ii حزبُ اللہ (اللہ کی جماعت) کی تلاش اور اس کا حصہ بننا
(iii نظامِ باطل کے خلاف اقامت ِدین کی جدّوجُہد
اللہ کے دین کے نفاذ کی جدوجہد کر کے ہم اپنی ہی عاقبت کو سنواریں گے‘ کسی پر احسان نہیں کریں گے۔ قیامت کے روز ہر مسلمان کو اس کے حالات‘معاملات اور وسائل و صلاحیتوں کے پیمانے پر پرکھا جائے گا ‘جو کہ عین عدل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کے نفاذ کی جدّوجُہد میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق‘ طاقت اور ہمت عطا فرمائے ۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024