(توضیح و تنقیح) مدیر’’مفاہیم‘‘کی چند فکری غلط فہمیاں - مولانا خان بہادر

7 /

مدیر ’’مفاہیم‘‘ کی چند فکری غلط فہمیاںمولانا خان بہادر
معاون مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت‘ تنظیم اسلامی

مدیر ماہنامہ ’’مفاہیم‘‘کراچی نے اکتوبر۲۰۲۳ء کے شمارے کے اداریہ بعنوان ’’عسکریت پسندی اور بعض فکری مسائل‘‘ میں چند اہم سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے مسائل کی وجوہات اور اسباب کو بیان کرتے ہوئے ایک سبب یہ بھی بتایا ہے کہ ’’اس مسئلے میں ہماری تعبیرات کی کوتاہیوں کو بھی دخل ہے۔‘‘
مدیر ِمحترم نے اس مضمون میں کسی شخصیت یا جماعت کا نام تو نہیں لیا لیکن جو اعتراضات وارد کیے ہیں وہ تنظیم اسلامی اور اس کے بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی فکر کے حوالے ہی سےہیں۔موصوف نے تجاہل ِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے جو اندازِ تنقید اختیار کیا ہے ‘اُن سے اس کی توقع نہیں تھی‘اِس لیے کہ موصوف ایک عرصہ ٔدراز تنظیم میں رہ کر گئے ہیں اور ہماری فکر سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے اِس ناقدانہ تحریرکے ذریعے قارئین کو یہ تاثردینے کی کوشش کی ہےکہ ہمارے دینی تصوّرات اسلاف کے دینی تصوّرات سے مختلف ہیں۔ اِس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ ان کی فکری غلط فہمیوں کو احسن اور علمی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی جائے ۔السعي منا والاتمام من اللّٰه۔
دراصل محدثین کرام اور فقہاء رحمہم اللہ محدثانہ اور فلسفیانہ انداز میں جو اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ان کا ایک خاص پس منظر ہوتا ہے۔ ہمارے فقہاءِ کرام رحمہم اللہ خاص طور پر قانونی انداز میں بات کرتے ہیں جبکہ ایک داعی یا واعظ کا انداز قانونی نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگوں کو نصیحت کرتا ہے‘ عمل کرنے پر ابھارتا ہے ‘آخرت میں عذاب سے خبردار کرتا ہے۔ خاص طور پر ایک داعی ٔقرآن تو قرآن کے ذریعے ہی لوگوں کی تربیت کرتا ہے۔ مثلا ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ ایک عظیم عبقری شخصیت‘ صاحبِ بصیرت اور داعی ٔ قرآن تھے۔‘ساری عمر لوگوں کو قرآن کی طرف آنے کی دعوت دیتے رہے۔انہوں نے جہاد‘ اقامت ِدین اور عبادتِ رب جیسی اصطلاحات کو داعیانہ انداز میں بیان کیا ہے نہ کہ قانونی انداز میں۔یہ انداز صرف ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے ہی اختیارنہیں کیا بلکہ ہمارے اسلاف بھی یہی انداز اختیار کرتے رہے ہیں۔
مدیر ِمحترم کو جو چند فکری غلط فہمیاں لاحق ہیں ‘وہ یہ ہیں :
غلط فہمی(۱)
فقیہانہ اور داعیانہ انداز میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہی مدیر ِمحترم کو خلط ِ مبحث ہوا ۔
پہلی مثال کے طور پر ہم علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کو لیتے ہیں۔ انہوں نے ’’زادُ المعاد‘‘ میں جہاد فی سبیلِ اللہ کے حوالے سے بحث کی ہے اور جہاد کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ وہ اس فصل کا عنوان ہی یہ قائم کرتے ہیں کہ اسلام کے آغاز میں جہاد کا تصوّر کیا تھا ۔
اسلاف کی نظر میں جہاد
علامہ ابن قيم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جہاد كى چار اقسام اور مراتب و درجات ہيں: جہاد بالنفس‘ شيطان كے خلاف جہاد‘ كفار كے خلاف جہاد‘ اور منافقين كے خلاف جہاد۔
جہاد بالنفس كے چار درجات اور مراتب ہيں:
پہلا مرتبہ: ہدايت و راہنمائى كى تعليم اور دين حق كے حصول كے ليے نفس كے خلاف جہاد كيا جائے۔ اس كے بغير نہ تو دنيا ميں سعادت حاصل ہوتى ہے اور نہ ہى آخرت ميں كاميابى و فلاح سے ہم كنار ہوا جا سكتا ہے۔ جب اس پر عمل نہ كيا جائے تو دونوں جہانوں ميں شقاوت و بدبختى حاصل ہوتى ہے۔
دوسرا مرتبہ: علم كے حصول كے بعد وہ اس پر عمل كرنے كے ليے جہاد اور كوشش كرے‘ كيونكہ عمل كے بغير صرف علم اگر اسے نقصان نہ دے تو اسے كوئى فائدہ بھى نہيں دے سكتا۔
تیسرا مرتبہ: وہ اس علم كو آگے پھيلانے اور جنہيں اس كا علم نہيں ‘انہيں تعليم دينے ميں جہاد اور كوشش كرے۔ اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو وہ ان لوگوں ميں شامل ہوگا جو اللہ تعالىٰ كى نازل كردہ ہدايت و راہنمائى اور واضح دلائل كو چھپاتے ہيں۔ يہ علم اسے نہ تو اللہ كے عذاب سے نجات دےگا اور نہ ہى اسے كوئى نفع دے سكتا ہے۔
چوتھا مرتبہ: اللہ تعالىٰ كے دين كى دعوت دينے ميں جو تكاليف اور مشكلات پيش آئيں‘ اور لوگوں كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت پر صبر كرنے كا جہاد‘ان سب كو وہ اللہ كے ليے برداشت كرے۔
جب وہ يہ چار مرتبے مكمل كر لےگا تو ربانيين ميں شامل ہو جائے گا۔ سلف رحمہم اللہ كا اس پر اتفاق ہے كہ عالم اس وقت تك ربانى كے نام سے موسوم ہونے كا مستحق نہيں جب تك وہ حق كى پہچان كر كے اس پر عمل كرنے كے بعد لوگوں كو اس کی تعليم نہ دے۔ جو شخص علم حاصل كرے اور اس پر عمل كر كے لوگوں كو اس كى تعليم بھى دے تو يہى شخص ہے جو آسمان ميں عظيم شان ركھتا ہے۔
شيطان كے خلاف جہاد كے دو مرتبے ہیں:
پہلا مرتبہ: شيطان كى جانب سے بندے كو ايمان ميں پيدا ہونے والے شكوك و شبہات دور كرنے كے ليے جہاد كرنا۔
دوسرا مرتبہ: شيطان كى جانب سے فاسد قسم كے ارادے اور شہوات دور كرنے كى كوشش اور جہاد كرنا۔پہلے جہاد كے بعد يقين اور دوسرے كے بعد صبر حاصل ہوگا ۔اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے:
{وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْاط وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ(۲۴) }(السجدۃ)
’’اور جب ان لوگوں نے صبر كيا تو ہم نے ان ميں سے ايسے پيشوا اور امام بنا ديے جو ہمارے حكم سے لوگوں كو ہدايت كرتے تھے‘ اور وہ ہمارى آيتوں پر يقين ركھتے تھے۔ ‘‘
یعنی اللہ سبحانہ وتعالىٰ نے خبر دى ہے كہ امامت ِدين صبر اور يقين كے ساتھ حاصل ہوتى ہے۔ چنانچہ صبر شہوات اور فاسد قسم كے ارادوں كو دور اور ختم كرتا ہے‘ اور يقين شكوك و شبہات كو ختم كرتا ہے۔
كُفّار اور منافقين كے خلاف جہاد كے چار مراتب ہیں:
دل‘ زبان ‘ مال اور نفس كے ساتھ۔ ہاتھ كے ساتھ جہاد كرنا كفار كے خلاف خاص ہے۔ منافقين كے خلاف زبان كے ساتھ جہاد كرنا خاص ہے۔
ظلم و ستم اور بدعات و منكرات كے خلاف جہاد كے تين مراتب ہیں:
اگر قدرت و استطاعت ہو تو ہاتھ كے ساتھ‘ اور اگر استطاعت نہ ہو تو يہ منتقل ہو كر زبان كے ساتھ‘ اور اگر اس كى بھى استطاعت اور قدرت نہ ہو تو پھر دل كے ساتھ جہاد كرنے ميں منتقل ہو جاتا ہے۔ تو جہاد كے يہ تین مراتب ہيں۔
حدیث: ’’ جو شخص بغير جہاد كيے مر گيا اور نہ ہى اس كے نفس ميں جہاد كرنے كى خواہش پيدا ہوئى تو وہ نفاق كى ايك علامت پر مرا ۔‘‘ ( صحيح مسلم )
نوٹ: علامہ ابن ِقیم رحمہ اللہ نے اس موضوع پر طویل بحث کی ہے ‘ہم نے یہاں مختصراًاس کا ذکر کیا ہے ۔
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں سورۃ الفرقان کی آیت ۵۲ کے ضمن میں فرماتے ہیں :’’جہاد بالقرآن یعنی قرآن کی دعوت کو پھیلانا جہاد کبیر ہے۔ {وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا} یہ آیت مکی ہے جبکہ کفار سے قتال و جنگ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے اس لیے یہاں جہاد کو بِهٖ کے ساتھ مقید کیا گیا ہے۔ بِهٖ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ قرآن کے ذریعے مخالفین ِاسلام سے جہاد کرو بڑا جہاد۔ قرآن کے ذریعے اس جہاد کا حاصل اس کے احکام کی تبلیغ اور خلق خدا کو اس کی طرف توجہ دینے کی ہر کوشش ہے خواہ زبان سے ہو یا قلم سے یا دوسرے طریقوں سے ۔اس سب کو یہاں جہادِ کبیر فرمایا گیا ہے۔‘‘
مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سورۃ العنکبوت کی آخری آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’جہاد کے اصلی معنی دین میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے ہیں۔ اس میں وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو کفار و فجار کی طرف سے پیش آتی ہیں۔ کفار سے جنگ و مقاتلہ اس کی اعلیٰ فرد ہے اور وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے پیش آتی ہیں۔ جہاد کی ان دونوں قسموں پر اس آیت میں یہ وعدہ ہے کہ ہم جہاد کرنے والوں کو اپنے راستوں کی ہدایت کر دیتے ہیں‘ یعنی جن مواقع میں خیر و شر یاحق وباطل یانفع و ضرر میں التباس ہوتا ہے ‘عقل مند انسان سوچتا ہے کہ کس راہ کو اختیار کروں۔ ایسے مواقع میں اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو صحیح ‘سیدھی‘ بےخطر راہ بتادیتے ہیں۔ یعنی ان کے قلوب کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس میں ان کے لیے خیر و برکت ہو۔‘‘
مولانا صوفی عبدالحمید سواتی صاحب رحمه الله اپنی تفسیر ’’معالم العرفان‘‘ میں سورۃ الفرقان کی آیت ۵۲ کےحوالے سے فرماتے ہیں:’’جہاد اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اس سے مراد محض جنگ نہیں بلکہ جنگ بھی جہاد کا ایک حصہ ہے۔ جہاد سے مراد اپنی تمام ظاہری اور باطنی قوتوں کو دشمن کے مقابلے میں صرف کرنا ہے … مطلب یہ کہ جہاد صرف قتال کا نام نہیں بلکہ زبان کے ذریعے فریضہ ٔ تبلیغ ادا کرنا‘ دین کے احکام لوگوں تک پہنچانا‘ لوگوں کے شکوک و شبہات دور کرنا ‘بوقت ضرورت بحث مباحثہ کرنا‘ تصنیف و تالیف کے ذریعے لوگوں تک علم پہنچانا‘ مال خرچ کرنا سب جہاد میں آتا ہے مگر قرآن کی تبلیغ کو اللہ نے جہاد کبیر سے موسوم کیا ہے۔‘‘پھر شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ’’ دشمن کے مقابلے میں ظاہری ‘باطنی‘ مالی اور جانی قُویٰ کو صرف کرنا جہاد کا ایک حصہ ہے …‘‘آگے لکھتے ہیں :’’دین کے چار مسلمہ دشمن ہیں جن کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن نے تعلیم دی ہے ۔سب سے پہلا دشمن دین خود نفسِ انسانی ہے۔ دوسرا دشمن شیطان ہے۔ تیسرا دشمن کافر ہے۔چوتھا دشمن منافق ہے ۔ بہرحال ان چاروں دشمنانِ دین کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔دشمن کے خلاف جہاد تو وقتی طور پر ہوتا ہے جوبالآخر ختم ہو جاتا ہے مگر قرآن کے ذریعے جس جہاد کا حکم دیا گیا وہ مسلسل اور دائمی ہے۔ جب تک پوری دنیا کفر ‘شرک ‘بدعت اور معاصی سے پاک نہ ہو جائے‘ جب تک لوگوں کی فکر پاک نہ ہو جائے‘ جب تک ظلم ونا انصافی کا خاتمہ نہ ہو جائے یہ جہاد جاری رہے گا۔‘‘
نوٹ: اس طرح کےبہت سےحوالہ جات دیے جا سکتے ہیں لیکن طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
غلط فہمی (۲)
مدیر ِمحترم کو جو دوسری بات بہت گراں گزری ہے وہ یہ کہ’’ ہماری اصطلاحات کے مفاہیم محدود بھی ہو گئے اور مسخ بھی۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے جہاد کی اصطلاح کو جس طرح استعمال کیا وہ وسیع تر مفہوم آج محدود بھی ہو گیا ہے اور مسخ بھی۔اسی کا شاخسانہ ہے کہ مدیر ِمحترم جہاد کو صرف قتال تک محدود سمجھ رہے ہیں اور جہاد کا مطلب صرف لڑائی ہی سمجھ رہے ہیں۔ اللہ کے دین کے غلبے کے لیے پچھلی ساری جدّوجُہد کو جہاد سے باہر قراردے رہے ہیں‘جبکہ ہمارے اسلاف نے جہاد کی اصطلاح کو جس طرح استعمال کیا ان کی عبارات ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ۔
غلط فہمی(۳)
موصوف لکھتے ہیں : ’’جہاد کا غالب استعمال کُفّار کے خلاف ہے نہ کہ مسلمانوں کے خلاف ۔‘‘
موصوف نے کشاف اصطلاحات الفنون کے حوالے سے جو جہاد کی تعریف کی ہے(کہ جہاد کا غالب استعمال کفار کے خلاف ہے )اس سے غلط مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر اس میں ہی موصوف ذرا دقّت ِ نظر سے دیکھ لیتے تو بات بالکل واضح تھی کہ شریعت میں جہاد کا ’’غالب‘‘استعمال توکفار ہی کے خلاف ہے ‘لیکن اس میں مسلمانوں کے خلاف جہاد کی نفی کیسے ثابت ہو گئی ؟ ایک مسلمان معاشرے میں جہاں اللہ کا دین غالب نہ ہو‘ اس میں دین کے غلبے کے لیے جو جدّوجُہد کی جائےگی کیا اس پر جہاد فی سبیل اللہ کا اطلاق نہیں ہوتا ؟اگر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اسلام کے صرف سیاسی نظام میں بگاڑ کے خلاف تلوار اٹھائیں اور وہ جہاد فی سبیل اللہ کہلائے اور ایک ایسا معاشرہ جس میں نہ سیاسی نظام اسلامی ہو‘ نہ معاشرتی ‘نہ معاشی ‘ بلکہ پورے کا پورا نظام ہی طاغوتی ہو‘ وہاں اگر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پُرامن منظم احتجاجی تحریک کے ذریعے اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کی جائےتو آخر وہ کیوں نہ جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گی؟
غلط فہمی (۴)
موصوف لکھتے ہیں : ’’ہماری روایت میں مسلمانوں کے خلاف جہاد کا کوئی تصور پایا جاتا ہے اور نہ جواز۔‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہماری روایت سے ہٹ کر تھے‘ معاذ اللہ ؟ بلکہ وہاں ہی سے تو ہماری روایت شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح ابن اشعث رحمہ اللہ کا حجاج کے خلاف خروج جس میں ان کے ساتھ تابعین ؒ‘علماء اور قراء کی ایک بہت بڑی جماعت شامل تھی۔اسی طرح نفس زکیہ محمد بن عبداللہؒ اور ابراہیم بن عبداللہؒ کا ابوجعفر منصور کے خلاف خروج وغیرہ اور دو جلیل القدر شخصیات امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒکا ان دونوں کا ساتھ دینا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام حضرات کےخروج کو جہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا؟ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ خروج بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی ہوتا ہے‘البتہ کُفّار کے خلاف جہاد اور مسلمانوں کے خلاف جہاد میں فرق کرنے کے لیے اس کو خروج کا نام دیا جاتا ہے۔پس یہ کہنا کہ ’’ہماری روایت میں مسلمانوں کے خلاف جہاد کا کوئی تصوّر پایا جاتا ہے نہ جواز‘‘ حقیقت سے بالکل بہت دور کی بات ہے۔ اگر ان کی اس بات کومِن وعن مان لیا جائے تو پھر اس سے یہ ماننا بھی لازم آئے گا کہ ہمارے اصل ہیرو تو حجاج بن یوسف‘ یزید اور ابو جعفر منصور وغیرہ ہیں‘جبکہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ‘ ابن اشعث رحمہ اللہ ‘نفس زکیہ رحمہ اللہ اور ابراہیم رحمہ اللہ تو‘معاذ اللہ‘باغی اور واجب القتل ٹھہرے‘ کیونکہ ان کے بقول انہوں نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج کیا۔
غلط فہمی(۵)
موصوف نے یہ بھی لکھا کہ’’ مسلمانوں کے مابین کام کرنے والوں کے لیے دعوت و تزکیہ ‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ کی اصطلاحات موجود تھیں لیکن انہی کاموں کے لیے اب جہاد کی اصطلاح اس کی فرضیت کے اعلان کے ساتھ استعمال ہونے لگی۔‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام صرف آج کے داعیانِ قرآن ہی نے کیا ہے یا ہمارے باقی اسلاف کا بھی یہی انداز تھا؟ ہم جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے اوپر اپنے اسلاف کے اقوال ذکر کر چکے ہیں اور یہ بات موصوف بھی بخوبی جانتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ایک جامع اصطلاح ہے اور اس اصطلاح کے اندر ہی دعوت اور تزکیہ کا مفہوم بھی ہے ‘امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مفہوم بھی ہے۔خود موصوف نےجہاد کی جس تعریف کا ذکر اپنے اداریہ میں کیا‘اس کے اندر بھی اگر دیکھیں تو کفار کے ساتھ قتال سے پہلے دعوت ِدین کا ذکر ہے اور اسی بات کو موجودہ دور کے داعیانِ قرآن اورماضی کے ہمارے اسلاف نے مختلف انداز میں سمجھانے کےلیےجہاد کے ذیل میں بیان کیا ہے۔باقی رہا جہاد کی فرضیت کا سوال تو اس کا الزام بھی اسلاف کو دیجیے جنہوں نے اس کی فرضیت کو یوں لکھا:
آٹھویں صدی ہجری کے محدث اور فقیہ امام ابن ِقیم رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تصنیف ’’زاد المعاد‘‘ میں فرماتے ہیں :
وَالتَّحْقِيۡقُ أَنَّ جِنْسَ الْجِهَادِ فَرْضُ عَيْنٍ إِمَّا بِالْقَلْبِ، وَإِمَّا بِاللِّسَانِ، وَإِمَّا بِالْمَالِ، وَإِمَّا بِالْيَدِ‘ فَعَلٰى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ يُّجَاهِدَ بِنَوْعٍ مِّنْ هٰذِهِ الْأَنْوَاعِ.أَمَّا الْجِهَادُ بِالنَّفْسِ فَفَرْضُ كِفَايَةٍ، وَأَمَّا الْجِهَادُ بِالْمَالِ فَفِي وُجُوۡبِهٖ قَوْلَانِ: وَالصَّحِيۡحُ وُجُوبُهٗ، لِأَنَّ الْأَمْرَ بِالْجِهَادِ بِهٖ وَبِالنَّفْسِ فِي الْقُرْآنِ سَوَاءٌ، وَعَلَّقَ النَّجَاةَ مِنَ النَّارِ بِهٖ وَمَغْفِرَةَ الذَّنْبِ وَدُخُوۡلَ الْجَنَّةِ
ََ’’ لیکن تحقیق یہ ہے کہ جنسِ جہاد فرضِ عین ہے‘خواہ دل سے ہو یا زبان سے یا ہاتھ سے یا مال سے ‘ اس لیے تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان میں سے کسی بھی قسم کا جہاد کریں۔لیکن جہاد بالنفس فرضِ کفایہ ہے ‘اور جہاد بالمال کے بارے میں دوقول ہیں ‘ جن میں سے صحیح وجوب والا قول ہے ‘ کیونکہ قرآن میں جہادبالمال اور جہاد بالنفس کا حکم یکساں طور پر دیا گیا ہے اور جہنم سے نجات و مغفرت اور جنت میں داخلہ کو اس پر موقوف قرار دیا گیا ہے ۔‘‘
غلط فہمی(۶)
موصوف لکھتے ہیں : ’’قتال کو کافروں کے بجائے باطل قوتوں اور اقامت ِ دین کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مراعات یافتہ طبقے کے خلاف ’’تصادم‘‘کے آخری مرحلے کے طور پر بیان کیا گیا تو اب اس میں مسلم و غیر مسلم کی تمیز بھی جاتی رہی۔‘‘
گویا مدیرمحترم بالفاظِ دیگریہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر دین کی راہ میں رکاوٹ بننے والے کافر نہ ہوں‘ بلکہ مسلمان ہوں تو پھر مسلمانوں کے خلاف کوشش نہیں کی جا سکتی‘حالانکہ قتال کی علت کافروں کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ کے دین کا غلبہ اورظلم و فتنے کا خاتمہ ہے۔آخر یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ اگر کافر دین کے راستے میں رکاوٹ بنیں تو ان کے ساتھ تو قتال کیا جائے اور مسلمان اگر اس راستے میں رکاوٹ بنیں تو ان کے ساتھ قتال جائز نہیں ہے؟ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نےجو تلوار اٹھائی اس کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ اسی طرح پچھلی صدی کے آخر میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کی طرف سے احمد شاہ مسعود اور دیگر باغیوں کے خلاف کیے جانے والے جہاد کے بارے میں ان کا کیا خیال ہےجس کی ہر مکتب ِ فکر کے علماء نے تا ئید کی ؟ظاہر ہے وہ بھی تو مسلمانوں ہی کے خلاف تھا۔
غلط فہمی(۷)
موصوف لکھتے ہیں : ’’قوت کے ساتھ نہی عن المنکر کی ایک اجتہادی صورت جلسے جلوس و احتجاج کو یک طرفہ قتال کا نام دیا گیا۔‘‘
اس صورت کو یک طرفہ قتال کا نام دینے میں آخر کو ن سے شرعی حکم کی خلاف ورزی ہو گئی ؟ یہ تو صرف بات سمجھانے کے لیے کہا گیا۔یا موصوف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاد صرف اسی وقت ہوگا جب قتل و قتال ہی ہو‘ جب لازماً کسی کی جان ہی لی جائے؟حالانکہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جب ہم پاکستان کے تناظر میں قتال کی بات کرتے ہیں تو یہاں ہم لڑائی کے طور پر یہ لفظ استعمال نہیں کر رہے ہوتے بلکہ یہاں ہم جہاد کے آخری مرحلے کے طور پر اس کو بیان کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی عملی صورت یہ ہوگی کہ یک طرفہ طور پر ہم اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے پیش کریں گے جبکہ کسی دوسرے مسلمان کی جان ہم نہیں لیں گے۔
غلط فہمی(۸)
ایک اورپھبتی مدیر محترم ان الفاظ میں کستے ہیں :’’اس سرخ خاکے میں مزید رنگ کا اضافہ تب ہوا جب خروج کو بھی داخل بحث کیا گیا۔‘‘
مزید لکھتے ہیں کہ:’’ جمہور علماء ِ اسلام کے ہاں خروج کے عدمِ جواز کے باوجود فقہ حنفی کا خروج کے جواز کا قول اس وضاحت کے ساتھ عام کیا جاتا رہا کہ یہ جواز شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔‘‘
مدیر ِمحترم کا مطلقا ًیہ کہنا کہ جمہور علماءِ اسلام کے ہاں خروج جائز نہیں ‘ حقیقت کے خلاف ہے‘ اس لیے کہ فقہاءؒ نے ظالم و فاسق اور کفر صریح اور ترکِ نماز کے مرتکب مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے حکم کو الگ الگ بیان کیا ہے۔اگرچہ ظالم و فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے حوالے سے جمہور فقہاء عدمِ جواز کے قائل ہیں لیکن کچھ فقہاءجیسے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ اس کے جواز کے بھی قائل ہیں‘جیسا کہ احکام القران میں امام جصاص رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔ البتہ کفر صریح اور بعض کے نزدیک ترکِ نماز کے مرتکب مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے جواز پر تمام فقہاءکا اتفاق ہے لیکن یہ جواز شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ وہ شرائط ہم آگے ذکر کریں گے۔ وہ اگر پائی جائیں تو یہ خروج سب کے نزدیک جائز ہے‘البتہ کفر صریح کے ثبوت کے حوالے سے بھی مختلف شرائط ہیں۔ ان شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہے جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔فقہاءِ کرامؒ کفر صریح اور ترکِ نماز کے مرتکب مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے جواز کے لیے جن احادیث کا حوالہ دیتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
دعانا رسولُ اللّٰهﷺ فبايعناه، فكان فيما اخذ علينا أن بايعنا على السمع والطاعه في منشطنا ومكرهنا وعسرنا ويسرنا، واثرة علينا، وان لا ننازع الامر اهله، قال:((الا ان تروا كفرا بواحا عندكم من اللّٰه فيه برهان)) (صحيح مسلم، كتاب الامارة)
’’ہمیں اللہ کے رسول ﷺ نے پکارا پس ہم نے آپ ﷺسے بیعت کی۔ پس جن معاملات میں آپ ﷺنے ہم سے وعدہ لیا اور ہم نے آپﷺ سے بیعت کی وہ یہ تھے کہ ہم ہر حال میں سمع وطاعت کریں گے چاہے ہمارے دل آمادہ ہوں یا نہ ہوں‘ چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں‘اور چاہے ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے‘اور ہم نے اس معاملے میں آپ ﷺسے بیعت کی کہ ہم اپنے اُمراء سے ان کی امارت میں جھگڑا نہیں کریں گے ۔آپﷺ نے فرمایا: ہاں سوائے اس کے کہ تم کفر صریح دیکھو کہ جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ کے ہاں کوئی روشن دلیل ہو ۔ ‘‘
((انه يستعمل عليكم امراء فتعرفون وتنكرون، فمن كره فقد بریٔ، ومن انكر فقد سلم، ولكن من رضي وتابع)) قالوا: يا رسول اللّٰه الا نقاتلهم؟ قال: ((لَا، مَا صَلُّوا))( صحيح مسلم كتاب الامارة)
’’عنقریب تم پر کچھ حکمران ایسے مسلط کیے جائیں گے جن کی بعض باتوں کو تم پسند کرو گے اور ان کی بعض باتوں کا انکار کرو گے پس جس نے ان حکمرانوں کے منکرات کو دل سے ناپسند کیا تو وہ بری الذمہ ہے اور جس نے نہی عن المنکر باللسان کیا تو وہ بھی بچا رہا لیکن جو ان حکمرانوں کے منکرات پر راضی ہو گیا اور اس نے ان کی پیروی کی( تو ایسا شخص قابلِ وبال ہے)۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا :اللہ کے رسولﷺ کیا ہم ایسے حکمرانوں سے قتال نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا :نہیں ‘جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔‘‘
((خيار ائمتكم تحبونهم ويحبونكم، ويصلون عليكم وتصلون عليهم، وشرار ائمتكم الذين تبغضونهم ويبغضو نكم، وتلعنونهم ويلعنونكم)) قيل يا رسول اللّٰه، افلا ننابذهم بالسيف؟ فقال: ((لا، ما اقاموا فيكم الصلاۃ)) (صحيح مسلم، كتاب الامارة)
’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں‘ وہ تمہارے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور تم ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہو۔ اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ جن سے تم نفرت کرتے ہو اور وہ تم سے نفرت کرتے ہوں‘ تم ان پر لعنت بھیجتے اور وہ تم پر لعن طعن کرتے ہوں۔‘‘ کہا گیا: اللہ کے رسولﷺ!کیا ہم ان کو تلوار سے ہٹا نہ دیں؟ آپﷺ نے فرمایا:’’ نہیں‘ جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ ‘‘
ہمارےدیگر بہت سے اسلاف نےبھی اپنی کتابوں کے اندر اس بحث کو بہت تفصیل کے ساتھ لکھاہے ۔مثلاً علامہ ابن عابدین شامی(متوفی ۱۲۵۲ھ)لکھتے ہیں:
واذا قلد عدلا ثم جار وفسق لا ینعزل، ولکن یستحب العزل ان لم یستلزم فتنة۔
’’پس اگر تو حالت ِعدل میں اس کو امامت دی گئی اور پھر وہ ظالم و فاسق بن گیا تو خود بخود معزول نہیں ہو گا‘لیکن اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو (یعنی اگر پُر امن طریقے سے معزولی ممکن ہو) تو اس کو معزول کرنا مستحب ہے۔‘‘
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اذا وقع من السلطان الكفر الصريح فلا تجوز طاعته في ذلك، بل تجب مجاهدته لمن قدر عليها.( فتح الباری، کتاب الفتن)
’’جب حاکم ِ وقت کفر ِصریح کا ارتکاب کرے تو اس میں اس کی اطاعت جائز نہیں‘ بلکہ ہر اس آدمی کے لیے اس سے مقابلہ کرنا واجب ہے جو اس پر قدرت رکھتا ہو۔‘‘
ونقل ابن التين عن الداودي قال: الذي عليه العلماء في امراء الجور انه ان قدر على خلعه بغير فتنۃ ولا ظلم وجب، والا فالواجب الصبر، وعن بعضهم لا يجوز عقد الولايۃ لفاسق ابتداء، فان احدث جورا بعد ان كان عدلا فاختلفوا في جواز الخروج عليه، والصحيح المنع الا ان يكفر فيجب الخروج عليه. (فتح الباري، كتاب الفتن، امام ابن حجر عسقلانى رحمه اللّٰه)
’’امام ابن ِحجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابن ِتین نے داؤدی (رحمہما اللہ)سےنقل کیا ہے کہ:ظالم اُمراء کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اگر بغیر فتنہ اور ظلم کے انہیں ہٹانا ممکن ہو تو ضروری اور واجب ہے،ورنہ صبر واجب ہے۔ بعض نے کہا کہ فاسق کو حکومتی عہدہ دینا ہی جائز نہیں۔ اگر عہدہ حاصل کرنے کے بعد ظلم کیا تو اس کے ہٹانے میں اختلاف ہے ‘صحیح بات یہ ہے کہ بغاوت منع ہے جب تک کہ اس سے واضح کفر صادر نہ ہو۔‘‘
آج کے دور کے علماء بھی اس مسئلے کواسی طرح بیان کرتے اور لکھتے ہیں۔مثلاً مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ نے اپنی کتاب’’ اسلام اور سیاسی نظریات’’ میں ’’حکومت کی معزولی‘‘ کے عنوان سے اس مسئلے کو بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ اس موضوع پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے’’ جزل الکلام فی عزل الامام‘‘ اور اس کا خلاصہ میں نے’’ تکملہ فتح الملہم‘‘میں بھی لکھ دیا ہے۔مزید آگے چل کر لکھتے ہیں کہ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک اور صورت ایسی ہے کہ جس میں امیر کا فسق دوسروں تک متعدی ہورہا ہو یعنی امیر لوگوں کا دین خراب کر رہا ہو‘ مثلاً لوگوں کو معصیت پر مجبور کر رہا ہو‘ تو اگر یہ عمل کسی ایک یا دو افراد کے ساتھ ہو تو اس کا حکم اکراہ کا ہوگا اور اکرا ہ کے احکام جاری ہوں گے۔ لیکن اگر امیر نے اسے ایک مستقل پالیسی بنا لیا کہ وہ مستقل طور سے لوگوں کو معصیتوں پر مجبور کرنے لگا ہے اور اس میں غیر اسلامی قوانین کا مسلسل جاری رکھنا بھی داخل ہے‘تو اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ان غیر اسلامی قوانین کو شریعت کے مقابلے میں زیادہ بہتر سمجھتا ہے تو یہ کفر صریح ہے‘ اور اگر فوقیت نہیں دیتا لیکن تعبیراً (شریعت کی غلط تشریح کر کے )یا تکاسلاً( سستی کی بنا پر )اس کو چھوڑا ہوا ہے تو بھی اگرچہ یہ کفر صریح نہ ہو لیکن کفر کے حکم سے ملحق ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے شریعت کا استخفاف لازم آتا ہے۔ اس صورت میں بھی خروج جائز ہے۔ لیکن یہاں دو اہم باتیں یاد رکھنی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ خاص طور پر اس آخری صورت میں آراءکا اختلاف ہو سکتا ہے کہ آیا امیر کے مسلسل خلافِ شریعت عمل کو کفربواح کے ساتھ ملحق کیا جا سکتا ہے یا نہیں! چنانچہ یہ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ اس کے خلاف خروج کرنا چاہیے اور بعض کہیں کہ خروج نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا اختلافِ آراء اجتہادی اختلاف ہوگا اور اس میں کوئی جانب قابلِ ملامت نہیں۔دوسری بات یہ کہ اِس پر تمام حضراتِ فقہاءمتفق ہیں کہ خروج جہاں کہیں بھی جائز ہوتا ہے اس کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ طاقت کے ذریعے حکومت کو ہٹا دینے کی قدرت اور دوسری یہ کہ اس کو ہٹانے میں اور کوئی اس سے بڑا مفسدہ پیش آنے کا اندیشہ نہ ہو۔
اب مدیر ِ محترم سے سوال ہے کہ کیا ان سب اسلاف پر بھی یہی الزام ہوگا کہ انہوں نے خروج کا راستہ کھولا ہے؟
خروج کی بات ڈاکٹراسراراحمد صاحبؒ نے غیر مسلح پُرامن منظم احتجاجی سیاست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے اور مسلح کارروائیوں کے خلاف دلائل دیتے ہوئے ا صولی طور پر کہی ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے چندشرائط کے ساتھ خروج کوجائزقراردینے کی بات ڈاکٹر صاحب نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ امام جصاص رحمہ اللہ نے’’احکام القرآن‘‘ میں لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھی ہے ۔البتہ یہ بات یاد رہےکہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اور جن حالات میں اس وقت ہم موجود ہیں‘وہاں خروج کا کوئی امکان نہیں۔ پھر اپنی مسلمان افواج کے خلاف یہ اندازاختیار کرنا بالکل درست نہیں ہے۔لیکن موصوف کی اپنی اصطلاح کے مطابق ’’زیاستی‘‘کی انتہا یہ ہے کہ اس بات کو کچھ سے کچھ بنا کر الٹا داعیانِ قرآن پر ہی دہشت گردی کوہوادینےکا الزام لگایا جا رہا ہے۔
غلط فہمی(۹)
موصوف لکھتے ہیں :’’ہم لوگوں کوسنتے رہتےہیں کہ سورۃ المائدہ کی آیت’’{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ }(کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی ظالم ہیں)میں وارد لفظ ظالم کی تفسیر اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ سے کرتے ہوئے ‘حکم بغیر ما انزل اللّٰہ کے مرتکبین کو ’’صاف مشرک‘‘ قرار دیاجاتاہے۔‘‘
مؤدبانہ گزارش ہے کہ تنظیم ِاسلامی نے کبھی بھی مفتیانہ انداز میں فتوے کی زبان میں کسی کو ’’صاف‘‘مشرک نہیں کہا اور نہ ہی فتوے کے انداز میں بات کی ہے ۔ قرآن حکیم کے ایسے مقامات پر ایک ترہیب کا انداز اختیار کیا جاتاہے اور یہاں ہم مسلمانوں کو کبھی بھی اس طرح مشرک قرار نہیں دیتے جس طرح کا کوئی ایک’’ صاف‘‘ مشرک ہوتا ہے ۔ ہمارا اس بارے جو موقف ہے‘موصوف اس سے اچھی طرح واقف بھی ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جس طرح ظلم سے کم ظلم اور کفر سے کم کفر فقہاءاورہمارے اسلاف نے بیان کیا‘ اسی انداز میں ہم کہتے ہیں کہ مسلمان تو ہیں لیکن مسلمان جس فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں یہ شرک ہی ہے ۔ تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارے اسلاف نے اللہ کی توحید کی جو اقسام بیان کی ہیں‘ خاص طور پر توحید ِ الوہیت اور توحید ِعبادت اوران کے ضمن میں توحید ِحاکمیت کو بھی بیان کیا ہے‘ تو کیا اللہ کے نازل کردہ قانون سے ہٹ کر فیصلے کرنا اور طاغوتی نظام کو نافذ کرنا اللہ کی حاکمیت میں شرک نہیں ہے ؟ کیا اللہ کی حاکمیت کو چیلنج نہیں کیا گیا ؟کیا اس کو ہمارے اسلاف نے شرک قرارنہیں دیا؟
مثلاً علامہ شنقیطی رحمہ اللہ سورۃالکہف: آیت ۲۶ {لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖ اَحَدًا} (اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
أَنَّ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الْقَوَانِينَ الْوَضْعِيَّةَ الَّتِي شَرَعَهَا الشَّيْطَانُ عَلٰى أَلْسِنَةِ أَوْلِيَائِهِ مُخَالَفَةً لِّمَا شَرَعَهُ اللّٰهُ جَلَّ وَعَلَا علٰى أَلْسِنَةِ رُسُلِهٖ صَلَّی اللّٰہُ علیھم وَ سَلَّم، أَنَّهُ لَا يَشُكُّ فِيۡ كُفْرِهِمْ وَشِرْكِهِمْ إِلَّا مَنْ طَمَسَ اللّٰهُ بَصِيۡرَتَهُ، وَأَعْمَاهُ عَنْ نُورِ الْوَحْيِ مِثْلَهُمْ.
’’جو لوگ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی اتباع کرتے ہیں‘ جو دراصل شیطانی قوانین ہیں جو اس نے اپنے متبعین کے ذریعہ بنوائے ہیں یہ سراسر اللہ کی شریعت کے مخالف ہیںجو اُس نے اپنے رسولوں علیہم السلام کے ذریعے جاری فرمائی ہے۔بلاشبہ ان کی تابع داری کرنے والوںکے کفرو شرک میں کوئی شک نہیں۔ اللہ نے ان کی بصارت و بصیرت چھین لی ہے۔ یہ لوگ وحی الٰہی کے نور سے مکمل طور پر محروم ہیں۔‘‘ (اضواء البیان)
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب رحمہ اللہ نے بھی ’’بیان القرآن‘‘ میں سورۃ المائدہ کی تفسیر کرتے ہوئے یہی اندازاختیار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:’’ اگر آپ نے اللہ کے قانون کے ساتھ ساتھ کسی اور قانون کو بھی مان لیا یا اللہ کے قانون کے مقابلے میں کسی اور قانون کو ترجیح دی تو یہ شرک ہے‘‘۔یہاں شرک کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جسے موصوف’’ صاف مشرک‘‘پڑھ رہے ہیں۔ مدیرمحترم شرک اور مشرک کے درمیان فرق نہیں کر رہے ۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے سورۃ المائدہ کی آیت ۴۷ کے آخر میں آیت ۴۴‘۴۵ اور۴۷ کے آخری حصے بیان کرنے کے بعد پھر فرمایا ہے کہ ’’ان آیاتِ قرآنیہ کو سامنے رکھیے اور ملت ِاسلامیہ کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیجیے کہ دنیا میں کتنے ممالک ہیں جہاں اللہ کا قانون نافذ ہے؟ آج روئے زمین پر کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شریعت ِاسلامی پورے طور پر نافذ ہو اور اسلام کا مکمل نظام قائم ہو ۔اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلمان ہیں لیکن ہمارےنظام کافرانہ ہیں ‘‘۔یہاں بھی مدیر ِمحترم فردِ کافر اور کافرانہ نظام میں فرق نہیں کرسکے‘جبکہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ تو واضح انداز میں فرما رہے ہیں کہ ’’اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلمان ہیں‘‘ جبکہ مدیر ِمحترم اس مسلمان کے لفظ کو بھی کھینچ تان کر کافر بنانے پر بضد ہیں ۔
خلاصۂ کلام
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی حاکمیت کو جس واضح انداز میں ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے‘ بقول مولانا محمد اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ :’’ایک ڈاکٹر نے ہمیں بھولا ہوا سبق یاد دلایا‘‘ تو بجائے اس کے کہ اس کی قدر کی جاتی ‘دین کو قائم کرنے کی جدّوجُہد کی جاتی اور اپنے ملک کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہاں ایک پُرامن منظم احتجاجی تحریک چلائی جاتی‘ اس کے برعکس اس فکر ہی کو مجروح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔یہ صرف ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کا کہنا ہی نہیں ہے بلکہ۲۰۱۰ ءمیں علمائے دیوبند نے جامعہ اشرفیہ میں جو قرارداد پاس کی تھی اس میں بھی یہی طے کیا تھا کہ ہمارے تمام مسائل کا حل شریعت کے نفاذ میں ہے اور اس کے لیے پُرامن منظم احتجاجی تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔ اسی بات کو مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ جوتے کی مثال کے ذریعے بھی بیان کر چکے ہیں ۔لہٰذا دہشت گردی کو اس فکر کے ساتھ جوڑنے کی بجائے چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے یہاں پُرامن منظم احتجاجی تحریک چلائی جاتی لیکن اس تحریک کی حمایت کے بجائے الٹا اس تحریک کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فکر کی کجی تو یہ ہے کہ جہاد کو صرف قتال تک محدود رکھ کر نہ صرف یہ کہ اسلاف کی مخالفت کی جاتی ہے بلکہ اس سے ان لوگوں کو بھی یہ غلط فہمی ہوتی ہے جو اقامت ِدین کی جدوجہد کا جذبہ رکھتے ہیں کہ جب جہاد صرف قتال ہی ہے تو پھر ہم تو اللہ کے دین کے غلبے کے لیے صرف قتال ہی کریں گے اور پھر اس کو انہوں نے وہ شکل دی ہے جو آج ہمارے ملک میں جاری ہے۔ اصل میں تو فکر کی کجی اس وجہ سے ہے کہ جہاد کو قتال تک محدود کر دیا گیا‘ ورنہ جس طرح ہمیشہ اسلاف جہاد کا تصوّر بیان کرتے رہے اور خود علمائے دیوبند نے اس کو ۲۰۱۰ءمیں ایک اعلامیہ کی صورت میں بیان کیا ‘اس فکرکو عملاً آگے بڑھایا جاتاتواس دہشت گردی کا جواز ہی ختم ہو جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا نفاذشریعت کے لیے پُرامن منظم احتجاجی تحریک چلانے کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا وہ جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کچھ اور ہوگا؟ کیا اس پر جہاد فی سبیل اللہ کا اطلاق نہیں ہوگا؟ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ یہ فکر عام کی جاتی اور جو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ جہاد تو صرف قتال ہی ہے اور اسی ذریعے سے ہی اس ملک میں دین کو غالب کیا جا سکتا ہے ‘ان کو راہ راست پہ لانے اور ان کی اصلاح کی کوشش کی جاتی۔ یہی کوشش ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کرتے رہے اور آج ہم بھی ڈنکے کی چوٹ پر اسی موقف کو بیان کرتے ہیں ‘باوجود اس کے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قتال جو لڑائی کی صورت میں ہےوہ فی نفسہٖ اپنی شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔
ظاہر ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے جو قتال کیا اس کی شکل تو جنگ ہی کی تھی ‘لیکن پاکستان کے معروضی حالات میں اپنی مسلمان افواج کے خلاف جنگ کی صورت اختیار کرنا یا چھاپہ مار کارر وائیاں کرنا یا بم دھماکے کرنا یا بے گناہ لوگوں پر حملے کرنا‘ یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اقامت ِ ِدین کا راستہ روکنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا’’مفاہیم‘‘ کے مدیرِ محترم سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اپنی غلط فہمیوں کو دور کریں‘ فکر کی کجی کو ختم کرنے کی کوشش کریں اورخود بھی غلبہ ٔدین کی جدّوجُہدمیں حصّہ لیں ‘نہ یہ کہ جو لوگ خلوص و اخلاص کے ساتھ یہ جدوجہد کر رہے ہیں‘ ان کے راستے میں روڑے اٹکانے کی کوشش میں لگے رہیں یا ان کی تحریک کے بارے میں تیکھےاوراستہزائیہ اندازمیں بلکہ کسی قدرحقارت کے ساتھ معاشرے میں شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں پھیلاتے رہیں۔یہ اس مؤقرجریدےکےنام اورمقام کے شایانِ شان نہیں۔ بقول غالب : ؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ ہمیں بھی اور آپ کو بھی ہدایت عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!