(تذکرہ و تبصرہ) اسلام میں پردے کے احکام اور یو این او کا سوشل انجینئرنگ پروگرام(۲) - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

اسلام میں پردے کے احکام
اور
یواین او کاسوشل انجینئرنگ پروگرام(۲)
ڈاکٹر اسرار احمدؒ

سورۃ الاحزاب: حکمت ِدین کی چند باتیں
مَیں نے آغاز میں سورۃ الاحزاب کی یہ آیت پڑھی تھی:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(۲۱) }
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے‘ (یہ اُسوہ ہے) ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی اُمید رکھتا ہو اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘
اس ضمن میں ایک بات غور طلب ہے کہ رسول اللہﷺ مَردوں کے لیے اُسوئہ کامل ہیں۔ مرد اگر سپہ سالار ہے تو آپﷺ کا اُسوہ موجود ہے۔ مرد اگر صدرِ ریاست یاخلیفہ ہے تو رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ موجود ہے۔ وہ قاضی القضاۃ ہے تو رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ موجود ہے۔ کوئی کسی مسجد میں خطیب وامام ہے تو آپ ﷺ کا اُسوہ موجود ہے۔ باپ کی حیثیت سے اُسوہ موجود ہے۔ شوہر کی حیثیت سے اُسوہ موجود ہے۔ مَردوں کی کوئی حیثیت ایسی نہیں جس کے لیے اُسوہ حضورﷺ کی زندگی میں نہ ہو‘لیکن ایک خلا ہے کہ نسوانی زندگی کے لیے حضورﷺ کی زندگی میں کوئی اُسوہ نہیں ہوسکتا۔ یہ ہے فلسفہ‘ یہ ہے حکمت دین کہ اب اس خلا کوکیسے پُر کیا جائے۔ اس کے لیے حضورﷺ کی ازواج کو خواتین کے لیے اُسوہ بنایا گیا۔ تعددِ ازدواج میں اور بھی بہت سی حکمتیں ہوں گی لیکن ایک حکمت یہ بھی ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اتنی کم عمرمیں شادی میں بھی یہی حکمت ہے کہ وہ دورِ نبوت کے بعد بھی کافی عرصے تک اُمّت کی راہنمائی کرتی رہیں۔ شوہر اور بیوی کے درمیان خالص نجی معاملات میں ہدایت دیتی رہیں۔ آخر یہ سب بھی انسان کی ضرورت ہے۔ ایک مرتبہ بعض صحابہؓ نے آکرکہا: حضورﷺ! یہ یہودی ہم پر طنز کرتے ہیں کہ تمہارے نبی تمہیں نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کا حکم بھی دیتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ان سے کہو کہ ہاں!ہمارے نبی نے توہمیں استنجا کرنا بھی سکھایا ہے۔کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کے بجائے اعتماد سےبات کرو۔ انسانی زندگی میں کیااستنجا ضروری شے نہیں ہے؟ گندگی سے نجات پانا اورطہارت صحت کے لیے ضروری نہیں ؟ چنانچہ تعلق زَن وشو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انسان روزے میں کس حد تک جاسکتا ہے۔ یہ سب ازواج مطہرات نے بتایا۔انہیں اُسوہ بنانے کے لیے یہ آیات آئی ہیں ۔ یوں سمجھیے کہ اس مسئلے میں یہ تین آیات نچوڑ ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے :
{ یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(۳۲) }
’’اے نبیؐ کی بیویو! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو‘ اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو گفتگو میں نرمی پیدا نہ کرو کہ کسی لالچ میں پڑ جائے وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے ‘ اور بات کرو معروف انداز میں۔‘‘
ایسا نہ ہو کہ جس شخص کے دل میں کوئی روگ یا گندگی ہے وہ تمہارے اندازِ گفتگو سےکوئی آس لگا بیٹھے۔کرخت آوازمیں بات کرو اور صرف معروف بات کہو۔ اس سے آگے بڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
{ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَـبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی}
’’اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور مت نکلو بن سنور کر پہلے دورِ جاہلیت کی طرح ‘‘
اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو۔ تمہاری اصل جگہ گھر ہے۔ باہر نکلنا تمہارا کام نہیں ہے۔ ہاں ضرورت کے وقت نکلا جا سکتا ہے‘ جس کا ذکر بعد میں آجائے گا۔ فلسفہ یہ ہے کہ عورت کی اصل جگہ اس کا گھر ہے۔ اللہ کی طرف سےفرائض کی تقسیم کردی گئی ہے۔ میں حدیث سنا چکا ہوں کہ جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے اور پھر اس سے جوفتنے پیدا ہوتے ہیں وہ سب شیطان ہی کے ذریعے سے ہوتے ہیں۔ مزید فرمایا کہ اسلام کے آنے سے پہلے کا جودور تھااس میں عورتیں جس طرح بن سنور کر اور لوگوں کی نگاہوںمیں آنے کے لیے نکلتی تھیں‘اب وہ طریقہ اختیار نہ کرو۔ یہ بھی ایک بڑا نفسیاتی نکتہ ہے۔ مرد کے اندر قوت ہے اور وہ اس کا ظہور چاہتا ہے۔ کبھی جی چاہتا ہے دیوار کو کندھا دے ماروں۔ کبھی راستہ چلتے کسی کو کندھا لگا دیا۔ یعنی قوت اپنا ظہور چاہتی ہے۔ عورت کے پاس سب سے بڑا سرمایہ اس کانسوانی حسن ہے۔ اس کے اندر ایک urgeہے کہ اپنے آپ کو ظاہر کرے۔ اس کا نام ہے تبرج۔بروج کہتے تھے ان برجیوں کو جو فصیلوں کے اوپر ہوتی تھیں۔ دور سے اگر کوئی مسافر آ رہا ہے تو پہلے اسے برجی ہی نظر آتی تھی۔چنانچہ نگاہوں میں آنا‘نگاہوں میں کھبنا‘ تبرج ہے۔ فرمایا کہ تم جس طرح پہلے بناؤ سنگھار کر کے نکلا کرتی تھیں (تبرج الجاہلیہ)‘ اب وہ چھوڑ دو۔
{وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ط }
’’اور نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربندرہو۔‘‘
اس کے بعد جو الفاظ آئے ہیں وہ اہم ترین ہیں:
{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا(۳۳)}
’’ اللہ تو بس یہی چاہتا ہے اے نبیؐ کے گھر والو! کہ وہ دور کر دے تم سے ناپاکی اور تمہیں خوب اچھی طرح پاک کر دے۔‘‘

اے نبی کی گھر والیو! اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی برائی اورناپاکی کو دور کر دے۔ تمہیں خوب خوب پاک کر دے۔اس لیے کہ تمہیں نمونہ بننا ہے‘ اُسوہ بننا ہے۔ قرآن مجید میں یہ الفاظ اصل میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بارے میں آئے ہیں۔ سارا جملہ چل رہا ہے’’ یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ‘‘ کے خطاب سے۔ ہمارے کچھ دوستوں نے کہا ہے کہ ’’اہلِ بیت‘‘ سے مراد حضرت علی‘ حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔ یقیناً وہ بھی ہیں۔ ایک ٹی وی مذاکرے کے اندر بھی جب یہ حضرات کہہ رہے تھے کہ اہلِ بیت تو اصل میں وہ ہیں‘ تو مَیں نے کہا: نہیں‘ اصل میں قرآن کی رُو سے تو بیویاں ہیں‘ البتہ وہ بھی اہل بیت ہیں۔ اس کی بنیاد امام احمدؒ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے ان چاروں کو ایک چادر میں لے کر کہا: ((اَللّٰھُمَّ ھٰؤُلاَءِ اَھْلُ بَیْتِیْ....)) ’’یاللہ! یہ بھی میرے اہلِ بیت ہیں۔‘‘ گویا یہ آپﷺ نے اپنے اہل بیت کے دائرے کو وسعت دیتے ہوئے فرمایا۔ اسی طرح آپﷺ نے فرمایا: ((سَلْمَانُ مِنَّا أَهْلَ الْبَيْتِ(( (أخرجه الطبراني والحاكم) ’’سلمان بھی ہمارے اہلِ بیت میں سے ہیں۔‘‘ البتہ قرآن میں یہ لفظ آتا ہے صرف بیویوں کے لیے‘ ازواج کے لیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کی خبر دینے کے لیے فرشتے آئے تھے ‘ تو حضرت سارہ ؑ یہ سن کر پیشانی پر دوہتڑ مارتے ہوئے کہنے لگیں : {یٰوَیْلَتٰٓی ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوْزٌ وَّہٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًاط } (ھود: ۷۲) ’’ہائے میری شامت ! کیا اب مَیں بچّہ جنوں گی جبکہ مَیں نہایت بوڑھی ہو چکی ہوں اور یہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں!‘‘تب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر سو برس کی تھی‘ اور حضرت سارہؑ بھی نوے پچانوے برس کی تو ہوں گی! اس پر فرشتوں نے کہا تھا : {اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللہِ}’’کیا آپ تعجب کرتی ہیں اللہ کے فیصلے پر؟ ‘‘ {رَحْمَتُ اللہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ ط} (ھود:۷۳)’’ اللہ کی رحمتیں اور اُس کی برکتیں ہوں تم پر اے نبیؑ کے گھر والو!‘‘ اہلِ بیت کالفظ قرآن حکیم میں دو جگہ آیا ہے۔ یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت سارہؑ کے لیے‘یا محمد رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات کے لیے ’’یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ‘‘ کے صیغہ خطاب سے۔ یعنی اے نبی ﷺ کی بیویو! تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے پوری طرح پاک کرنا ہے تاکہ تم اُمّت کی خواتین کے لیے اُسوہ بن جاؤ۔ اُسوۂ محمدیﷺ میں جو خلا ہے‘ وہ تمہارے ذریعے پورا کرنا ہے۔ ظاہر ہے charity begins at home کہ جو بھی اصلاح کا عمل ہو وہ گھر سے ہونا چاہیے اور نمبر دو یہ کہ ازواج مطہرات کو ہمیشہ کے لیے اُمّت کی تمام خواتین کا اُسوہ بنانا ہے۔
اسی طریقے سے استیذان کا معاملہ بھی ہے۔ اس کا حکم پہلے صرف نبیﷺ کے گھروں کے لیے تھا۔ ارشاد ہوا:
{ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَـکُمْ اِلٰی طَعَامٍ ....} (الاحزاب:۵۳)
’’اے اہلِ ایمان! مت داخل ہوجایا کرو نبیؐ کے گھروں میں مگر یہ کہ تمہیں کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے.....‘‘
یہ گھر کی پرائیویسی ہے۔ اس کی تفصیل سورۃالنور میں آئی ہے۔ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پردے کے احکام بتدریج نازل ہوئے جیسا کہ شراب کی حرمت کے احکام بتدریج آئے۔ ستر وحجاب کے احکام کا آغاز سورۃا لبقرہ سے ہوا‘پھر سورۃ النساء‘ سورۃ المائدہ اور سورۃ الاحزاب میں مزید احکام آئے‘اور ان کا اختتام سورۃ النور میں ہوا ہے۔
سورۃ الاحزاب میں نبی اکرمﷺ کے گھروں میں داخلے کے لیے استیذان کے حکم کے بعد فرمایا:
{وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ط}
’’اور جب تمہیں ان (نبیﷺ کی بیویوں) سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔ ‘‘
یہاں پر ’’حجاب‘‘ کا لفظ آیا ہے‘ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قرآن میں حجاب کا کوئی حکم ہے ہی نہیں! وہاں کے گھر کھلے ہوتے تھے‘ ان کے اوپر کوئی پردہ وغیرہ نہیں ہوتا تھا۔ گھر کوئی کنالوںیا ایکڑوں کے تو نہیں ہوتے تھے‘ چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔ البتہ جب یہ آیت اتری تو اس کے بعد سے گھروں کے اوپرپردے ڈال دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ ’’مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ‘‘ سے چہرے کا پردہ ہی مراد ہے۔ اسی کو اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ’’آیۃ الحجاب‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ ط}
’’یہ طرزِ عمل زیادہ پاکیزہ ہے تمہارے دلوں کے لیے بھی اور اُنؓ کے دلوں کے لیے بھی۔‘‘
یہاں اس حقیقت پسندی (realism) کا اظہار کیا گیا ہے جس پر قبل ازیں بات ہو چکی ہے۔ اگر نبیﷺ کی بیوی تمہارے سامنے بے حجاب آجائے گی تو وہ اس حیثیت سے تمہاری ماں تو ہے لیکن خلقی اعتبار سے ایک عورت بھی تو ہے۔ اسی طرح تم چاہے صحابی ہو لیکن ایک مرد بھی تو ہو! یہاں مرد اور عورت کے درمیان کشش کی طرف صاف اشارہ کیاگیا‘ اور نبیﷺ کی بیویوں کو بھی یہ نہیں کہاگیا کہ وہ اس سے ماوراء ہیں۔ نبی کے علاوہ کوئی معصوم نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ ہم تمہیں پوری طرح پاک کر دینا چاہتے ہیں تاکہ تم امت کی تمام خواتین کے لیے اُسوہ بن جائو۔ فرمایاکہ پردے کی اوٹ سے کوئی شے لینا دینا تمہارے دلوں کے لیے بھی زیادہ پاکیزہ بات ہے اور ان کے دلوں کے لیے بھی۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم سورۃ الاحزاب کے اندر۔
اس کے بعد اسی سورۃ میں جو لوگ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں‘ جو گھروں میں اجازت لیے بغیر بھی داخل ہو سکتے ہیں‘ جن کے سامنے ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن اپنے کھلے چہرے کے ساتھ آسکتی تھیں‘ ان کی ایک فہرست دے دی گئی۔ فرمایا:
{لَا جُنَاحَ عَلَیْہِنَّ فِیْٓ اٰبَآئِہِنَّ وَلَآ اَبْنَآئِہِنَّ وَلَآ اِخْوٰنِہِنَّ وَلَآ اَبْنَآئِ اِخْوٰنِہِنَّ وَلَآ اَبْنَآئِ اَخَوٰتِہِنَّ وَلَا نِسَآئِہِنَّ وَلَا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ ج وَاتَّقِیْنَ اللہَ ط اِنَّ اللہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَہِیْدًا(۵۵)}
’’کوئی حرج نہیں اُن (ازواجِ نبیؐؐ) پر اُن کے باپوں کے معاملے میں‘ اور نہ (کوئی حرج ہے) اُن کے بیٹوں کے بارے میں‘ اور نہ اُن کے بھائیوں کے بارے میں‘ اور نہ اُن کے بھائیوں کے بیٹوں کے بارے میں‘ اور نہ اُن کی بہنوں کے بیٹوں کے بارے میں‘ اور نہ اُن کی جان پہچان کی عورتوں کے بارے میں اور نہ ہی اُن کی مِلک ِیمین کے بارے میں۔ اور (اے نبیﷺ کی بیویو!) تم اللہ سے ڈرتی رہو۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘
سورۃ النور: گھر کے اندر کا پردہ
سورۃ النور کا آغاز ہواہے کہ زنا کی حد کیا ہے‘سزا کیا ہے۔ غیرشادی شدہ زانی یازانیہ‘ اس کی سزا سوکوڑے۔ اگر کوئی الزام لگائے اور ثبوت پیش نہ کر سکے‘چار گواہ نہ لاسکے توقذف کی حد اسی کوڑے ہے۔ اس کے بعد زنا کاسدباب کرنے کے احکام آئے ہیں ۔ اس میں سب سے پہلے استیذان کا حکم بہت تفصیل سے آیا۔ فرمایا:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَہْلِہَاط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(۲۷)}
’’ اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو ا کرو ‘حتیٰ کہ اُن کی رضا معلوم کر لو اور گھر والوں کو سلام کر لو! یہ تمہارے لیے بہتر ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘
جولوگ اس قرآنی حکم پر عمل نہیں کرتے ان کے بارے میں حضورﷺ بہت سخت احکام فرما رہے ہیں۔کسی کے گھر میں بلااجازت داخل ہونا تو ایک طرف رہا‘گھر میں تانک جھانک کرنے پر بھی شدید ناراضی کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَوْ انَّ رَجُلًا اطَّلَعَ عَلَيْكَ بغيرِ اذْنٍ، فَخَذَفْتَهُ بحَصاةٍ، فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ ما كانَ عَلَيْكَ مِن جُناحٍ))(صحیح البخاری: ۶۹۰۲، صحيح مسلم: ۲۱۵۸)
’’اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں بغیر اجازت کے جھانکنے لگے اور تم (اس کی سزا کے طور پر) کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ ڈالو تو تم پرکوئی گناہ نہیں ہے۔ ‘‘
((مَنِ اطَّلَعَ فِي بيتِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إذْنٍ ، فَفَقَؤُوا عَيْنَهُ ، فَلَا دِيَةَ لَهُ ولَا قِصاصَ)) (صحيح الجامع: ۶۰۴۶)
’’جوشخص بغیر اذن لیے کسی کے گھر میں جھانکنے لگا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو اس کے لیے نہ کوئی دیت ہے اور نہ قصاص۔‘‘
کسی کے گھر میں تانک جھانک کرنے والے شخص کی آنکھ پھوڑ دینے پر گھر والوں پر کوئی ہرجانہ نہیں۔ وہ اس عمل کے لیے حق بجانب ہیں۔
اجازت لینے کے لیے حضورﷺ نے طریقہ بتایا۔ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کردی اور فرمایاکہ اگر تیسری مرتبہ پکارنے پر جواب نہ آئے تو واپس ہوجائو۔ قرآن مجید میں بھی ارشاد ہے :
{وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ہُوَ اَزْکٰی لَکُمْ ط } (النور:۲۸)
’’اور اگر تم سے کہا جائے کہ لوٹ جائو تو تم لوٹ جایا کرو‘ یہ طریقہ تمہارے لیے بہت پاکیزہ ہے۔‘‘
اگرتو آپ وقت لے کر کسی کے ہاں آئے ہیں تو بات دوسری ہے‘ لیکن اگر ایسے ہی پہنچ گئے ہیں اور معلوم نہیں وہ اپنی کس مصروفیت میں ہے‘ تو آپ کا حق نہیں ہے کہ وہ آپ کو ریسیوکرے اور آپ سے بات کرے۔ اس پر برا نہ مانو کہ میں آیا تھااور مجھ سے ملاقات نہیں کی۔
اس حوالے سے ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہاں گئے اور’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی‘ مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپﷺ واپس ہوگئے۔ اب حضرت سعدؓ اندر سے دوڑ کر آئے اور آپ ﷺ سے لپٹ گئے۔ عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مَیں آپؐ کی آواز سن رہا تھااور آہستہ آواز میں سلام کا جواب بھی دے رہا تھا مگر میرا جی چاہتا تھاکہ آپؐ کی زبان مبارک سے ہمارے لیے بار بار سلامتی و رحمت کی دعا نکل جائے۔ یہ ہے استیذان کا معاملہ۔ اب آرہا ہے اصل حکم:
{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰)}
’’(اے نبیﷺ!) مؤمنین سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یقیناً اللہ باخبر ہے اُس سے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔‘‘
{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّص وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَآئِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآئِ ص وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ط وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)}

’’اور مؤمن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ‘ اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں‘ سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہو جائے‘ اور چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکّل مار لیا کریں‘ اور وہ ظاہر نہ کریں اپنی زینت کو (کسی پر) سوائے اپنے شوہروں کے‘ یا اپنے باپوں کے‘ یا اپنے شوہروں کے باپوں کے‘ یا اپنے بیٹوں کے‘ یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے‘ یا اپنے بھائیوں کے‘ یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں) کے‘ یا اپنی بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں) کے‘ یا اپنی (جان پہچان کی) عورتوں کے‘ یا اُن کے جن کے مالک ہیں ان کے داہنے ہاتھ‘ یا ایسے زیردست مَردوں کے جو اس طرح کی غرض نہیں رکھتے‘ یا اُن لڑکوںکے جو عورتوں کے مخفی معاملات سے ابھی ناواقف ہیں۔ اور وہ اپنے پائوں زمین پر مار کر نہ چلیںکہ ان کی اس زینت میں سے کچھ ظاہر ہوجائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔ اور اے اہلِ ایمان! تم سب کے سب مل کر اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ یہ گھر کے اندر کا پردہ ہے۔ گھر کے اندر مرد بھی نگاہیں نیچی رکھیں اور عورتیں بھی۔ یہ کیوں کہا گیا؟ آج مغرب کے اندر محرمات کے ساتھ بدکاری (incest) نہایت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ باپ کا اپنی بیٹی کے ساتھ ملوث ہو جانا‘ ماں کا اپنے بیٹے کے ساتھ ملوث ہو جانا‘ بہن بھائیوں کا آپس میں زنا کاری کرنا‘ یہ بہت عام ہو رہا ہے۔ اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ پریکٹس Psychiatrists کی ہے۔
ان کی بڑی فیسیں ہیں۔ دوائیاں بڑی مہنگی ہیں ۔ فارما سوٹیکل انڈسٹری میں بھی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی دوائیں ذہنی امراض کی ہیں۔ وہاں پر مجھ سے کئی Psychiatrists نے کہاکہ ذہنی امراض کا سب سے بڑا سبب زنائے محرم ہے۔ باپ نے بیٹی سے زنا کیا تو بیٹی کے دل پر جو داغ لگ گیا ‘اب اس کادماغی توازن ٹھیک نہیں رہتا۔ یہ نہ سمجھیے کہ آپ کے ہاں نہیں ہو رہا‘ یہ وبا یہاں بھی آچکی ہے۔ اخبارات میں ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ بیٹی نے تھانے میں جا کر کہاکہ میرے باپ نے میرے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔ یہ ساری چیزیں آج ہمارے ہاں بھی ہو رہی ہیں۔ اس لیے کہ اگر زنا کے داعیات اور ترغیبات پھیلی ہوئی ہوں گی‘ عام ہوں گی تو پھر وہ راستے نکالے گا۔ گھروں میں بھی مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں کا مطلب یہ ہے کہ باپ بھی اپنی بیٹی کوگھور کر نہ دیکھے۔ بیٹی بھی ایک لڑکی ہے۔ جوان بھائی بھی اپنی بہن کو گھور کر نہ دیکھے‘ نگاہیں نیچی رکھے۔ یہ نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم بازار کے لیےنہیں ہے۔وہ تو خود کشی ہو جائے گی‘ کوئی گاڑی روند دے گی۔ یہ حکم گھر کے اندر کا ہے‘ اوراس لیے ہےکہ بہرحال باپ ایک مرد ہے جبکہ بیٹی ایک عورت ہے۔ میں نے فرائڈ کی بات بتا دی ہے۔ وہ تو یہاں تک کہتاہے کہ باپ اگر بیٹی پر محبت بھری نگاہ ڈال رہا ہے تو اس میں جنسی جذبہ کار فرما ہے۔ اگر ماں اپنے بیٹے پر محبت بھری نگاہ ڈال رہی ہے تو یہ بھی شہوت کی وجہ سے ہے۔ اس کا Oedipus Complex نظریہ مشہور ہے۔ اپنی جگہ پر یہ حقیقت ہے کہ باپ مرد ہے اور بیٹی عورت ہے۔ بھائی مرد ہے بہن عورت ہے۔ لہٰذا گھروں کے اندر بھی اپنی نگاہوں کو نیچارکھو۔بہرحال آیت کا سیاق وسباق گھر میں داخلے کے بعد کا ہے‘ یعنی گھر میں داخلہ اجازت سے ہے اور داخلہ ہوگا صرف محرموں کا۔ گھر کے اندر کوئی نامحرم نہیں آئے گا۔
آیت کے اس ٹکڑے پر قیل وقال کیا گیا ہے: {وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا} ’’وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جوخود ظاہر ہو جائے۔‘‘ جدیدیت پسند مفکرین اور دانشور کہتے ہیں اس میں چہرہ بھی شامل ہے‘ اور جب چہرہ شامل ہے تواس کا مطلب ہے چہرہ کا پردہ نہیں ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ! انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیزکے ایک ریسرچ سکالر نے لکھ دیا کہ ’’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘‘ میں چہرہ شامل ہے‘ لہٰذا چہرے کا پردہ نہیں ہے اور ارشاد حمد حقانی صاحب نے اس پر زور دار تائید لکھ دی کہ اب تو مسئلہ ہی طے ہو گیا ۔ ایک ریسرچ سکالر کہہ رہا ہے تو یہ مولوی ملاٹے جوکہتے ہیں کہ عورت کے چہرہ کا پردہ ہے‘ یہ توبات ختم ہوگئی۔ میں نے صرف ایک جواب دیا کہ اس شخص نے (جو بڑا ریسرچ سکالر تھا)پہلے یہ لکھا ہے کہ سورۃ النور کی ان آیات میں ستر کے احکام آرہے ہیں‘ تو پھر یہاں چہرے کے پردہ کا معاملہ کیاہوا ‘کیونکہ ستر میں تو چہرہ شامل ہی نہیں ہے؟ محرموں سے جوپردہ ہے اس کا نام ستر ہے۔ عورت کا پورا جسم ستر ہے سوائے چہرے کی ٹکیا‘ ہاتھ اور پائوں کے۔یعنی بھائی بھی بہن کے جسم کاکوئی اور حصہ نہیں دیکھ سکتا۔ باپ بھی بیٹی کے جسم کا کوئی اور حصہ نہیں دیکھ سکتا۔ اس سے آگے صرف شوہر ہے یا حسب ِضرورت طبیب‘ سرجن۔ بس یہ محرموں کا پردہ ہے۔ گھر میں عورت رہے گی تو ستر کے ساتھ رہے گی۔چچا اس کا محرم ہے‘ آئے گا ‘لیکن چونکہ وہ بھی مرد ہے اس لیے چہرہ تو نہیں ڈھانپے گی لیکن باقی جسم ستر ہے۔ سر پر سکارف ہو‘ جس کووہ حجاب کہتے ہیں‘ حالانکہ وہ حجاب پورا تو نہ ہوا‘ صرف ایک حصہ ہے ‘لیکن ستر کے اعتبار سے یہ ایک حصہ صحیح ہے۔سر کےبال چھپے ہونے چاہئیں‘ یہ ستر میں شامل ہیں۔ چہرے کی ٹکیا ستر سے باہر ہے۔ نیز ہاتھ ہیں آستینوں سے باہر اورپیر ہیں ٹخنوں سے نیچے‘ بس۔
{وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا} میں کیا کیا چیزیں آ سکتی ہیں؟ اگر عورت پوری کی پوری برقعے کے اندر ملبوس ہے‘ چہرے پر بھی نقاب ہے‘ آنکھوں کے آگے بھی جالی ہے یا چشمہ ہے تو پھر بھی اس کے حسن کا ایک حصہ ظاہر ہے۔ قد و قامت حسن کا حصہ ہے کہ نہیں؟ وہ کہاں چھپائےگی؟ غالب نے جوشعر کہا ہے:
ترے سروِ قامت سے اِک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں!
اسی طرح جسم سڈول ہےیا اکہرا ہے تو یہ نہیں چھپے گا۔ عورت موٹی ہے یا متناسب اعضاء ہیں‘ یہ تو نہیں چھپے گا۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو ستروحجاب کے سلسلے میں {مَا ظَہَرَ مِنْہَا} کے تحت آتی ہیں۔
{وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ص} ’’اور چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں‘‘ یہ بھی گھر کے اندر کی بات ہو رہی ہے۔ اُس معاشرے میں جلباب ہوتا تھا۔ جب عورت گھر سے باہر نکلتی تھی تو وہ اپنے گرد چادر لپیٹتی تھی ‘چہرہ نہیں ڈھانپتی تھی۔ سورۃ الاحزاب میں حکم دیا گیا کہ اس جلباب کو نیچے سرکاکر چہرہ چھپائیں۔ خمار ایک طرح کی اوڑھنی ہوتی تھی جو عورتیں گھر میں اوڑھتی تھیں۔ گھر میں جلباب تو نہیں لیا جا سکتا‘ آخرکام کاج کرنا ہے۔چنانچہ فرمایا کہ انہیں چاہیے کہ اپنی اوڑھنیوں کے بکل اپنے گریبانوں کے اوپر بھی مار لیا کریں‘ تاکہ سینے کے اُ بھار کو ایک ایڈیشنل کور مل جائے۔
ستر کے تقاضے کیا ہیں‘ گن لیجیے۔ لباس دبیز ہونا چاہیے‘ باریک نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایاکہ ایسی عورتیں جو لباس پہن کے بھی ننگی ہوتی ہیں (کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ) جہنم کا ایندھن بنیں گی۔ (صحیح مسلم) لباس باریک اور چست ہونے کے بجائے ڈھیلا ڈھالا ہونا چاہیے ۔لباس کے یہ دو حصے لا زم ہیں۔ اگرڈھیلا ڈھالا کرتا پہنا ہوا ہے پھر بھی سینے کے ابھار ظاہر ہو جائیں گے۔ اس لیے ان پر ایک اضافی اوڑھنی سر پر سے لے کر اپنے گریبان کے اوپر بُکّل مار لینا تاکہ نسوانی حسن کے دوسرے مظہر کو چھپایا جائے ۔ پہلا مظہر چہرہ ہے‘ جو سب سے بڑا مظہر ہے۔ اب جو لوگ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے‘ تو خدا کے بندو پھر پردے کی ضرورت کیا ہے؟ نسوانی حسن میں کشش (attraction) سب سے بڑھ کر کہاں ہوتی ہے؟ مظہر اوّل کون سا ہے نسوانی حسن کا؟ چہرہ ہی تو ہے۔ اب میں ذرا جھجکتے ہوئے شاعری کے کچھ الفاظ آپ کو سنا رہا ہوں۔ یہ لب ِلعلین اور عارضِ گل گوں کہاں ہوتے ہیں؟ چہرے پر ہی ہوتے ہیں نا؟ یہ چاہِ ذقن کہاں ہوتا ہے؟یعنی ٹھوڑی میں اگر گڑھا سا پڑا ہوا ہو ۔یہ مژگاں کے تیراور نرگسی آنکھیں کہاں ہوتی ہیں؟ ستواں ناک کہاں ہوتی ہے ؟ سب سے بڑی attraction چہر ہ ہی تو ہے۔ اسی کو نہ چھپایا توپھر اور کیا چھپایا! دوسری چیز چھاتی کے ابھار ہیں‘ جو انسان کے لیے بہت کشش رکھتے ہیں۔ اس کے لیے یہ ہدایت دی گئی کہ {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ص} کرتا دبیز کپڑے کا ہو‘ ڈھیلا ڈھالا ہو۔ شلوار دبیز تر کپڑے کی ہو‘ ڈھیلی ڈھالی ہو۔ اوڑھنی کی بُکّل اپنے سینے پر مار لی جائے۔
اس کے بعد فرمایا:{ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ} ’’اور وہ ظاہر نہ کریں اپنی زینت کو (کسی پر) سوائے اپنے شوہروں کے‘‘ .....یہاں زینت کا لفظ چہرے کے لیے آرہا ہے۔ چہرے ہی میں کچھ سنگھار بھی ہوتا ہے۔ کوئی سرمہ لگایا ہوا ہے۔ کسی اور طرح کا کوئی زیور گلے میـں پہنا ہوا ہے ‘کانوں میں بُندے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چہر ہ اوراس کے ساتھ کوئی بنائو سنگھار کا معاملہ ‘جس کی رسول اللہﷺ نے تلقین بھی فرمائی کہ عورت کو گھر میں بن سنور کر رہنا چاہیے۔ یعنی شوہر کے لیےباعث کشش ہو۔ خاص طور پر شوہر جب کام سے واپس گھر آنے والا ہو تو اس وقت عورت بن سنور کر رہے ۔ اصل مقصد یہ ہے کہ جتنی بھی انسان میں sexual energy ہے وہ شوہر اور بیوی کے درمیان ہی مرکوز رہے۔ یہ فلسفہ ہے۔ نگاہ اِدھر اُدھر جائے ہی نہ۔ میاں بیوی کے درمیان Bond of love جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی خاندان کاادارہ مضبوط اور صحت مند ہوگا ۔ اولادکی تربیت کے لیے مثبت ماحول میسر آئے گا۔ عورتوں کے لیے کہا گیا کہ چہرے کی زینت اور اس کے اوپر اگر کوئی بنائو سنگھار ہے تواس زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے محرم افراد کے۔
پھر یہاں محرم افراد کی تفصیل آئی ہے۔ محرم صرف وہی ہیں جن سے کبھی کسی حال میں بھی شادی نہیں ہوسکتی۔ بھائی سے کسی حال میں شادی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح باپ‘دادا‘چچاسے کسی حال میں شادی نہیں ہو سکتی۔ ماموں سے بھی کسی حال میں شادی نہیں ہوسکتی۔ چچا کے بیٹے سے ہو سکتی ہے‘ وہ نامحرم ہے۔ ماموں اور خالہ کے بیٹے سے ہوسکتی ہے‘ وہ نامحرم ہے۔ عورت اپنی زینت سب سے بڑھ کر تو شوہر کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے۔ لہٰذا فرمایا:{اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ}’’سوائے اپنے شوہروں کے۔‘‘’’یا اپنے باپوں کے ۔‘‘ باپ حقیقی ہو‘ اخیافی ہو‘ علاتی ہو یا رضاعی ہو‘ یہ چاروں قسم کے باپ اس میں شامل ہیں۔ جس عورت نے دودھ پلایا تھا اس کا شوہر بھی باپ بن گیا۔ {اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ} ’’یا اپنے شوہروں کے باپوں کے‘‘ {اَوْ اَبْنَآئِہِنَّ} ’’یا اپنے بیٹوں کے۔‘‘ بیٹوں میں  بھی چاروں آئیں گے: علاتی‘اخیافی‘ عینی اور رضاعی۔ {اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ} ’’یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے ۔‘‘ ہوسکتا ہے شوہروں کی اور بیویاں بھی ہوں توان کے بیٹے جو سوتیلے ہیں‘وہ بھی محرم ہیں۔ ان سے کسی صورت میں کبھی شادی نہیں ہوسکتی۔ {اَوْ اِخْوَانِہِنَّ} ’’یا اپنے بھائیوں کے۔‘‘ {اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِہِنَّ} ’’یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں) کے۔‘‘ شوہر کا بھتیجا نہیں بلکہ اپنا بھتیجا محرم ہے۔ {اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ} ’’یا اپنی بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں) کے۔‘‘ اپنا بھانجا محرم ہے‘ شوہر کا بھانجا محرم نہیں۔ {اَوْ نِسَآئِہِنَّ} ’’یا اپنی (جان پہچان کی) عورتوں کے۔‘‘
جان لیجیے کہ ہرعورت بھی محرم نہیں ہے۔ عورتیں بڑی بڑی کپٹائیں ہوتی ہیں‘ بڑے فتنے اٹھاتی ہیں۔ گھروں کے اندر آتی ہیں اور پھر پیغام رسانی کا ذریعہ بن کر خرابی پیدا کرتی ہیں۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے مجھے سرسید احمد خان کے بارے میں واقعہ سنایا۔ ابھی ملکہ وکٹوریہ کی حکومت شروع ہوئی تھی‘ اس وقت انگریز کاکتنا رعب ہوگا! یوپی کا لیفٹیننٹ گورنر سرسید سے کہتا ہے کہ میری بیگم آپ کی اہلیہ سے ملنا چاہتی ہے۔ سرسید نے جواب دیا: ہماری عورتوں کا اجنبی عورتوں سے پردہ ہے‘ ہماری عورتیں آپ کی بیگم سے نہیں مل سکتیں۔ اس پر میرا سر جھکتا ہے۔ دینی اور مذہبی اعتبار سے وہ بہت سخت آدمی تھے۔ ان کی داڑھی کو دیکھیے اور سوچیے۔ نماز کے پکے پابند‘ اور پکے اہل حدیث‘ کٹر رفع الیدین کرنے والے۔ سید نذیر حسین دہلوی اہل حدیث حضرات کے شیخ الکل کہلاتے ہیں لیکن وہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے کہ فتنہ کا وقت ہے‘ لوگ ہم سے دور ہو جائیں گے۔ ہم سے ملیں گے ہی نہیں توپھر تبلیغ کیسے ہوگی۔ سرسید نے ان سے مباحثہ کیا کہ آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں! چنانچہ انہوں نے مجبور ہوکر رفع الیدین شروع کردیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ سرسید نے تفسیر قرآن لکھ کر خوامخواہ ایک بہت بڑا فتنہ شروع کیاجو ابھی تک انڈے بچے دے رہا ہے۔ وہ میرا اس وقت کا موضوع نہیں ہے۔
{اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ} ’’یا جو اُن کے داہنے ہاتھوں کی ملکیت ہو‘‘یعنی باندیاں اور غلام۔ اس میں کافی اختلافات ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد صرف باندیاں ہیں‘  غلام مرد نہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مرد بھی شامل ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ مرد جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو۔یہاں میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا‘ پھر یہ فقہ کی بحث ہو جائے گی۔{اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ} ’’یا ایسے زیردست مَردوں کے جو اس طرح کی غرض نہیں رکھتے۔‘‘ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ کسی کے گھر میں کوئی اندھا آدمی رہ رہا ہے یاکسی مریض کو پناہ دے رکھی ہے‘ انہیں عورتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ {اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآئِ ص} ’’یا اُن لڑکوں کے جو عورتوں کے مخفی معاملات سے ابھی ناواقف ہیں۔‘‘ ایسے بچے جن پر ابھی عورتوں کے پوشیدہ حالات واضح ہی نہیں ہیں۔ ابھی انہیں جنس کا کوئی احساس ہی نہیں ہے۔
یہ وہ فہرست ہے جن کے سامنے عورت کھلے چہرے کے ساتھ اور اپنی اضافی زینت‘ زیور یا سرمہ یامعمولی سی سرخی لگائی ہے تو اس کے ساتھ آسکتی ہے۔ یہ وہ رشتے ہیں کہ جن سے کسی حالت میں بھی نکاح نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا ذہن ادھر جاتا ہی نہیں ہے۔ نارمل آدمی کا ذہن ادھر جائے گا ہی نہیں لیکن ہم ایک ابنارمل فضا کے اندر رہ رہے ہیں‘ جس میں inscest کے واقعات اب بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ مغرب میں تویہ سب سے بڑا مرض بن گیا ہے اور دماغی امراض کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے۔
آگے فرمایا: {وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ط } ’’اور وہ اپنے پائوں زمین پر مار کر نہ چلیںکہ ان کی اس زینت میں سے کچھ ظاہر ہوجائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔‘‘ چلتے ہوئے اپنے پائوں زور سے نہ ماریں کہ ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے۔ اگر کوئی پازیب پہنی ہوئی ہے‘ کوئی جھانجر وغیرہ ہیں تو زمین پر پائوں مار کر چلنے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کا ذہن اس طرف جائے گا کہ کوئی خاتون جا رہی ہے اور وہ پلٹ کر دیکھیں گے۔
اس کے علاوہ فرمایا کہ کوئی عورت عطر لگا کر گھر سے نہ نکلے کہ اس کی خوشبو پھیلے۔ سنن ابی دائود کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((إذَا اسْتَعَطَّرَتِ المَرْأَةُ فَمَرَّتْ على الْقَوْمِ لِيَجِدُوا رِيحَها فَهِيَ كذا وكذا، قال قَوْلًا شَدِيدًا))
’’جب کوئی عورت خوشبو لگا کر نکلتی ہے کہ لوگ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی ہے‘ ایسی ہے۔ حضورﷺ نے بہت سخت الفاظ استعمال کیے۔‘‘
مسند احمد اور بعض دیگر کتب حدیث میں یہ الفاظ واضح طور پر نقل ہوئے ہیں: ((فَهِيَ زَانِيَةٌ)) یعنی ایسی عورت زانیہ ہے۔
پھر عورت کی آواز کا بھی پردہ ہے۔ اُس وقت نماز میں عورتیں بھی شریک ہوتی تھیں۔ اگر چہ حضورﷺ نے فرمایا:
((خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجالِ أوَّلُها وشرُّها آخرُها، وخَيْرُ صُفُوفِ النِّساء آخِرُها وشَرُّها أوَّلُها)) (رواه مسلم)
’’مَردوں کی بہترین صف اُن کی پہلی صف ہے اور بدترین صف اُن کی آخری صف ہے‘ جب کہ خواتین کی بہترین صف اُن کی آخری صف ہے اور بدترین صف اُن کی پہلی صف ہے۔‘‘
اسی طریقے سے اگر امام نے غلطی کی ہے تو مرد کہے گا’’سبحان اللہ‘‘ جبکہ عورت اپنے ایک ہاتھ کی پشت پر اپنا دوسرا ہاتھ مارے گی۔ یعنی اپنی آواز نہیں نکالنی۔ آواز کا پردہ ہے۔ چھونے کا پردہ یہاں تک ہے کہ حضورﷺ نے کبھی کسی عورت سے ہاتھ نہیں ملایا ۔ جب بیعت بھی لی تو بس زبانی الفاظ کہلوائے یا ایک کپڑا لے کر اس کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں پکڑا‘ دوسرا اُس خاتون کے ہاتھ میں دیا۔ یا ایک تشت کے اندر پانی بھرا‘ اس میں ایک طرف حضورﷺ نے اور دوسری طرف اُس عورت نے انگلیاں ڈال لیں۔ کبھی مصافحہ نہیں کیا۔ ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ جب خواتین نے بیعت کرتے ہوئےمصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایاتو حضورﷺ نے فرمایا: ((اِنِّی لَا اُصَافِحُ النِّسَاء)) (رواہ مالک وغیرہ) ’’مَیں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘
پردے کے تین حصار
در اصل اسلام میں تین پردے ہوئے۔ پہلا پردہ چار دیواری‘ کہ گھروں میں رہو۔ یہ فرسٹ ڈیفنس لائن ہے۔اس میں صرف محرم آئے گا۔ اسی پر ہماری تہذیب استوار ہوئی۔ اسی پر ہمارا architecture بنا۔ گھر ایسے بنے کہ مردانہ حصہ علیحدہ‘ زنانہ علیحدہ۔ چھوٹا گھر ہے تب بھی بیٹھک علیحدہ۔ بیٹھک باہر کھلے گی اور ڈیوڑھی سے ہوکر پھر گھر کے اندر جائیں گے۔ مرد آئیں گے تو یہاں بیٹھیں گے ‘اندر نہیں جائیں گے۔ اندر صرف وہی جائیں گے جو ابدی محرم ہیں۔
دوسرا پردہ: ستر۔ گھر کے اندر جومحرم آگئے ہیں ان کے سامنے چہرہ تو کھلے گا‘ باقی جسم کا کوئی حصّہ بھائی بہن کا نہیں دیکھ سکتا‘ باپ بیٹی کا نہیں دیکھ سکتا‘ بیٹا ماں کا نہیں دیکھ سکتا۔ یہ ستر ہے۔ عورت پوری کی پوری ’’عورۃ‘‘ ہے‘یعنی چھپانے کی چیز۔ سورۃ النور کی متذکرہ بالا آیت میں ’’عَوْرَاتِ النِّسَاءِ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں‘ یعنی عورتوں کی چھپی ہوئی چیزیں۔
تیسرا پرد ہ ہے :چہرے کا پردہ۔ یہ غیرمحرموں سے ہے اور جبکہ گھر سے باہر نکلنا ہو۔ اس کے لیے میں نے کہا تھا کہ سورۃ الاحزاب میں گھر سے باہر کا پردہ ہے۔ چہرے کاپردہ غیرمحرموں سے ہے۔ عورت جب گھر سے باہر نکلے گی تو غیرمحرم سامنے آئیں گے۔ لہٰذا ارشاد ہوتا ہے :
{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ط وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹)}
(الاحزاب)
’’اے نبی (ﷺ)! اپنی بیویوں‘ اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں۔ یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچا ئی جائے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
سورۃ الاحزاب ہی میں تدریج ملاحظہ ہو۔ شروع میں ’’یٰنِسَاءَ النَّبِیِّ‘‘ سے بات چلی۔ پھر استیذان کا حکم بھی اوّلاً صرف نبیﷺ کے گھر میں داخل ہونے کے لیے آیا۔ آگے چل کر اسی سورت میں اسے عام کر دیا گیا۔ چہرے کے پردہ کا حکم بھی اوّلاً صرف ازواجِ مطہرات کے لیے نازل ہوا‘ پھر اس آیت میں سب اہلِ ایمان کی عورتوں کے لیے بھی عام ہوگیا کہ وہ (گھر سے باہر) اپنے چہروں کے اوپر اپنی جلباب کو لٹکا لیا کریں‘ یعنی چہرہ چھپ جائے۔ اس کی تفسیر مختلف مفسرین نے کی ہے۔ حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس آیت کی جووضاحت فرمائی ہے اسے حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں ا س طرح نقل کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھر وں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلّو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں۔‘‘ یعنی دونوں آنکھیں کھلی رکھنا بھی غلط ہے۔ ہمارے ہاں برقع اس لیے بنا تھا کہ عورت جب چادر میں لپٹی ہوتی ہے تو اس کا ایک ہاتھ اس چادر کو سنبھالنے میں مصروف ہوجاتا ہے۔ کسی نے بچے کو ڈاکٹر کے ہاں لے کر جانا ہے‘ گود میں ایک ہاتھ سے  بچے کو سنبھالنا ہے‘ دوسرے ہاتھ میں کوئی دوائی کی بوتل لینی ہے تو اپنی چادر کیسے سنبھالے گی؟ چنانچہ برقع ضرورت کے تحت ایجاد ہوا۔ ابتدائی برقعوں میں جالیاں لگی ہوتی تھیں کہ نگاہوں سے بھی براہ راست سامنا نہ ہو۔ اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ بس ایک آنکھ کھلی رہے۔ مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ انقلابِ ایران کے بعد جو لوگ ایران سے حج کرنے آئے‘تو ان کی عورتیں چادروں میں اس قدر ملبوس ہوتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ کھلی ہے ‘دوسری نہیں۔
ابن جریرؒ کی روایت ہے کہ امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے حضرت عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ سے ان الفاظ کی تفسیر پوچھی تو انہو ں نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے اپنی چادر کو اپنے اوپر اس طرح اوڑھا کہ اپنا سر‘ پیشانی اور پورا منہ ڈھانپ لیا اور صرف بائیں آنکھ کھلی رکھی۔ واضح رہے کہ ہمارے نزدیک اسلام دین ہے‘ صرف مذہب نہیں ۔ اسلام قرآن اور سُنّت دونوں پر مبنی ہے‘ صرف قرآن پر نہیں۔ قرآن میں تاویل خاص کے بعد تاویل عام ہے۔ الاعتبار لعموم اللفظ لا لخصوص السبب!اسی طرح ابوبکربن عبداللہ ابن عربیؒ نے {یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ} کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے: تغطی بہ وجھھا حتیٰ لا یظھر منھا الا عینھا الیسریٰ یعنی عورت اپنی چادر سے پورے وجود کو ڈھانپ لےاور چہرے کو بھی اس طرح ڈھانپے کہ صرف بائیں آنکھ کھلی رہے۔
علامہ حمید الدین فراہی ؒ کو نظم قرآن کے فہم میں خصوصی مقام حاصل تھا۔ انہوں نے حجاب کے بارے میں اپنے ایک مکتوب میں ہاتھ اور چہرہ کھلا رکھنے کے موقف کو جائز قرار دینے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میری رائے میں نظم قرآن پر توجّہ نہ کرنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔ ایسی قدیم غلطیوں کا کیا علاج کیا جائے۔ کون سنتا ہے کہانی میری‘ اور پھر وہ بھی زبانی میری! فقہاء اور مفسرین کا گروہ ہم زبان ہے‘مگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ زیادہ واقف تھے۔ انہوں نے ٹھیک سمجھا ہے مگر متأخرین حضرات نے ان کا کلام بھی نہیں سمجھا۔ بہرحال الحقّ أحقّ أن يُتّبع۔ میں اس مسئلے پر مطمئن ہوں اور میرے نزدیک اجنبی سے پورا پردہ کرنا واجب ہے ‘ اور قرآن نے یہی حجاب واجب کیا ہے جو شرفاء میں مروّج ہے‘ بلکہ اس سے قدرے زائد۔‘‘
مولانا فراہی ؒکا یہ مکتوب ماہنامہ ’’حیاتِ نو ‘‘(انڈیا)کی اشاعت بابت اکتوبر ۱۹۹۲ءمیں شائع ہوا۔ یہ ہے علماء کی رائے اور صحابہؓ وتابعینؒ کا تعامل۔
مزید یہ کہ حضورﷺ نے کئی حضرات سے پوچھا‘ جب وہ کہیں رشتہ کر رہے تھے کہ: آپ نے ایک نظر دیکھ لیا ہے؟ اس ایک نظر دیکھنے کی اگر اتنی اہمیت ہے تواس کا مطلب تو یہی ہے کہ اُس دور میں عورتیں اپنے چہرے چھپا کر رکھتی تھیں۔ اگر تو صورت حال یہ ہوتی کہ ہر وقت چہرہ کھلا ہے‘ تو پھر ایک نظر دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو دکھا دکھایا ہے۔ بقول شاعر:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کاعام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا!
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((إِذَا أَلْقَى اللّٰهُ فِي قَلْبِ امْرِئٍ خِطْبَةَ امْرَأَةٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْهَا)) (ابن ماجہ:۱۸۶۴)
’’جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے دل میں کسی عورت کو پیغامِ نکاح دینے کا ارادہ ڈال دے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ اسے دیکھ لے۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے : مَیں ایک موقع پر نبی مکرم ﷺ کی مجلس میں تھا۔ ایک شخص آیا اور آپﷺ کو بتایا کہ اُس نے ایک انصاری عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ آپﷺ نے دریافت کیا : ’’کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا : نہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا :
((فَاذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا ، فَإِنَّ فِي أَعْيُنِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا)) (مسلم :۱۴۴۰)
’’جاکر دیکھ لو‘ اس لیے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ (نقص) ہوتا ہے۔‘‘
یہ ایک نظر دیکھنے کی اجازت ہونا بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ عام حالات میں عورت دکھائی نہیں دیتی تھی بلکہ پردے میں رہتی تھی۔
نام نہاددانشوروں کی منافقت
جدید تعلیم یافتہ مسلم دانشوروں کی منافقت ملاحظہ ہو۔ وہ کہتے ہیں یہ پردہ وردہ سب مولویوں کی ایجاد ہے۔ کبھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ توہندوستان میں راجپوتوں کا پردہ ہوتا تھا‘ وہیں سے مسلمانوں نے اسے اختیار کرلیا۔مَیں نے عرب کی بدو خواتین کو دیکھا ہے جو مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ ایک خاتون اونٹوں کی پوری قطار لے کر جارہی ہے‘ ہاتھ میں لاٹھی ہے اور اس کا چہرہ مکمل چھپا ہوا ہے۔ آنکھوں کے اوپر بھی حجاب سا بنایا ہوتا ہے اور ہاتھوں میں دستانے‘ پائوں میں جرابیں ہیں۔ عرب کے ریگستانوں میں یہ کون سے راجپوتوں کا پردہ پہنچ گیا؟ بدو حج و عمرہ کے لیے بھی اپنی عورتوںکو اسی حال میں لے کر آتے ہیں اور وہ احرام کی حالت میں بھی آگے چھجا بنا کر اس پر چادر لٹکا لیتی ہیں تاکہ چہرے سے مس نہ کرے۔ جب اپنی خواتین کو طواف کراتے ہیں تومرد ہاتھ سے ہاتھ پکڑ کر ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں تاکہ کسی اور کے ساتھ ان کا نہ کندھا لگے اور نہ جسم کا کوئی اورحصہ مس ہو۔ وہاں یہ پردہ کہاں سے آگیا؟
میں منافقت اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک طرف ہمارا جدید دانشور طبقہ علماء کرام کو دقیانوسی مولوی ملاٹے قرار دیتا ہے اور اس طبقہ کے نزدیک اصل اسلام تو سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کا ہے۔ دوسری طرف سرسید اور اقبال کے ہاں پردے کا جو معیار ہے وہ اس کا ذکر تک نہیں کرتے۔ سرسید کا واقعہ میں سنا چکا ہوں۔ علامہ اقبال کاحال بھی سن لیجیے۔ انگریز سرکار لارڈ ولنگٹن کے زمانے میں علامہ اقبال کو اپنا گورنر بنا کر جنوبی افریقہ بھیجنا چاہتی تھی۔ من جملہ دیگر شرائط ایک شرط یہ بھی تھی کہ تمام سرکاری تقریبات میں بیگم اقبال ان کے ہمراہ ہوں گی۔ علامہ اقبال نے اس پیشکش کویہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ بے شک میں گناہ گار مسلمان ہوںاور اعمال کے اعتبار سے مجھ سے بہت سے کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں تاہم میں اتنا بے غیرت نہیں ہوں کہ محض ایک سرکاری عہدے کی خاطر اپنی بیوی کو بے پردہ کردوں۔ (یہ اقتباس مولانا مودودی ؒ کے مضمون سے ہے جو ماہنامہ ’’بتول‘‘ اپریل ۱۹۷۲ء میں چھپا تھا۔) ایک مرتبہ علامہ مرحوم کسی مغربی ملک میں بصورت وفد گئے۔ وفد کے تمام ارکان اپنی بیویوں کے ساتھ جار ہے تھے‘ علامہ اقبال نے اس سے انکار کیا اور کہاکہ ان کی بیگم پردے کی پابند ہے اور ایسے دوروںمیں پردے کاذکر تک نہیں ہوتا۔ پیرزادہ بہاء الحق قاسمی ؒ امرتسری نے اپنی کتاب ’’پردۂ نسواں‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ایک مرتبہ سرمحمدشفیع کے ہاں علامہ مرحوم مع فیملی مدعو تھے لیکن علامہ اقبال تنہا گئے۔ سرشفیع نے پوچھا :بیگم صاحبہ کو کیوں نہیں لائے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ پردے کی پابند ہیں۔ سر شفیع نے کہا کہ یہاں زنانے میں قیام کرسکتی ہیں۔ علامہ صاحب نے جواب دیا کہ بے پردہ گھرانوں کے زنانے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ۔ ایک طرف علامہ اقبال کو مفکر پاکستان اور بے شمار خطابات دیے جاتے ہیں‘ داڑھی نہ رکھنے میں اُسوہ اقبال کا پسند کیا جاتا ہے لیکن پردے کے ضمن میں ان کا اُسوہ قبول نہیں ہے۔ یہ ہے منافقت!
عارضی محرم کی حیثیت
ایک اور فتنہ ایک خاص طبقہ سے اٹھا ہے۔ میں ان کی زیادہ مذمّت نہیں کرنا چاہتا‘ اس لیے کہ بحیثیت مجموعی وہ کام اچھا کر رہے ہیں‘ لیکن انہوں نے عارضی محرم اور ابدی محرم میں فرق کردیا ہے۔ ان کے نزدیک سالی اور بہنوئی عارضی محرم ہوگئے‘ اس لیے کہ جب تک اس کی بہن زندہ ہے جو آپ کے نکاح میں ہے ‘آپ کی شادی سالی سے نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جس سے شادی نہیں ہوسکتی وہ محرم ہوگیا‘ لیکن یہ عارضی محرم ہے۔ اگر آپ کی زوجہ فوت ہو جائے توپھر اس کی بہن سے نکاح ہو سکتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک فتنہ ہے جواس دور میں اٹھا ہے۔ جان لیجیے کہ محرم کوئی عارضی نہیں ہوتا۔ محرم وہی ہے جو ابدی محرم ہے۔ ایک شادی شدہ عورت اپنے شوہر کے بھائی سے پردہ کرے گی یا نہیں ؟ اس سے شادی تو نہیں ہوسکتی۔ البتہ شوہر کے فوت ہوجانے کے بعد دیور سے شادی ہو سکتی ہے۔ بھائی اگر فوت ہوجائے تو بھابی سے شادی ہوسکتی ہے۔ عارضی محرم کا یہ تصور بالکل غلط ہے اور بہت بڑا فتنہ ہے۔ محرم وہی ہے کہ جو ابدی محرم ہے‘ جس کے ساتھ نکاح ہرحالت میں حرام ہے۔ سالی‘ دیور وغیرہ کے رشتے بہت نازک اور خطرناک ہیں۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّساءِ)) فقال رجلٌ من الأنصار: يا رسولَ اللّٰه، أرأيتَ الحَمْوَ؟ قال: ((الحَمْوُ الْمَوْتُ)) (متفق علیہ)
’’(نامحرم) عورتوں سے ملاقات سے بچو!‘‘ایک انصاری شخص نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! دیور کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’دیور تو موت ہے۔‘‘
یعنی دیور تو ہلاکت کا باعث بن سکتا ہے۔ (واضح رہے کہ’’الحَمْوُ‘‘ میں شوہر کے بھائی اور تمام قریبی رشتہ دار‘ جیسے بھانجے بھتیجے شامل ہیں۔) اب آپ سوچیے کہ ہمارے ہاں  دیوروں اور نندوئیوں سے کوئی پردہ ہے؟ دیور ہندی کا لفظ ہے۔ ہندوؤں میں دیور کے بارے میں تصوّر یہ تھا کہ یہ تو دوسرا شوہر (دے وَر) ہے‘ لیکن حضورﷺ نے فرمایاکہ دیور تو موت کے درجے میں ہے۔
ایک اور بات نوٹ کیجیے۔ افسوس کہ اس معاملے میں بعض لوگ جوپردے کے بڑے شدید حامی ہیں وہ بھی نرمی دکھا جاتے ہیں‘ بلکہ ایسے حضرات جنہوں نے پردے پر بڑی معرکۃ الآراء کتب تحریر فرمائی ہیں اس معاملے میں مغالطے کا شکار ہوئے ہیں۔ ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ جو قریبی رشتہ دار ہیں‘ جن کا گھروں میں آنا جانا زیادہ ہے‘ان کے معاملے میں زیادہ سختی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا فلسفہ سمجھ لیجیے۔ قریبی رشتہ دار کزنز وغیرہ ہوتے ہیں ۔ عیسائیوں کے ہاں تو کزنز سے شادی نہیں ہوسکتی‘ جیسے سگے بھائی سے شادی نہیں ہوسکتی۔ ان کا تو معاملہ اور ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں تو چچا زاد ‘ ماموں زاد‘ پھوپھی زاد‘ خالہ زاد سے شادی ہوسکتی ہے۔ اس اعتبار سے جن سے جتنا زیادہ ربط کا معاملہ ہے اتنا ہی اندیشہ بھی زیادہ ہے۔ فرض کیجیے‘ ایک عورت نے راستہ چلتے ہوئے کسی اجنبی مرد کو دیکھا اور وہ اس کی نگاہ میں کھب گیا۔ اُس کی مردانہ وجاہت اسے اچھی لگی۔ پھر دوبارہ تو اس سے ملنا ہی نہیں‘ وہ تو بس راستے کا معاملہ تھا۔ اس کے برعکس جو لوگ گھر میں  آجا رہے ہوںان سے تو پردے کی زیادہ ضرورت ہے‘ اس لیے کہ رابطے کے مواقع زیادہ ہیں ۔ بات شروع ہوگی تو بڑھتی چلی جائے گی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہے تو پھر مَردوں کا بھی پردہ ہونا چاہیے۔ نہیں! عورت کا مرد کو دیکھنا کچھ اور ہے جب کہ مرد کا عورت کو دیکھنا کچھ اور ۔ مرد کی فطرت میں اِقدام ہے‘ یعنی آگے بڑھ کرکوئی شے حاصل کرنا‘ جبکہ عورت کی فطرت میں گریز ہے یعنی پیچھے ہٹنا۔ اس کا حسن اسی گریز میں ہے۔ لہٰذا پردہ عورت کے لیے ہے‘ مرد کے لیے نہیں  ہے۔
البتہ اگر کسی مرد سے رابطے کا معاملہ زیادہ ہونے کاامکان ہوتو نابینا سے بھی پردہ ہے۔ اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھی تھیں۔ اتنے میں حضرت عبد اللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگئے۔ نبی اکرمﷺ نے ہم سے فرمایا: ((احْتَجِبَا مِنْهُ)) ’’ اس سے پردہ کرو!‘‘ ہم نے عرض کیا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَلَيْسَ أَعْمٰى لَا يُبْصِرُنَا وَلَا يَعْرِفُنَا؟ ’’یارسول اللہ ﷺ! ’’کیا یہ نابینا نہیں ہیں ‘ یہ نہ ہمیں دیکھ رہے ہیں اور نہ ہمیں پہچانتے ہیں!‘‘ فرمایا: ((أَفَعَمْيَا وَانِ أَنْتُمَا! ألَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ؟))’’کیا تم دونوں بھی اندھی ہو! کیاتم اسے نہیں دیکھ رہی ہو؟‘‘ حضرت اُمّ سلمہ تصریح کرتی ہیں : وَذٰلِكَ بَعْدَ أَنْ أَمَرَنَا بِالْحِجَابِ ’’یہ اس کے بعد کا واقعہ ہے جب ہمارے لیے حجاب کا حکم آگیا تھا۔‘‘ (رواہ احمد و ابوداود والترمذی) اس کی تائید موطا امام مالک کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک نابینا آیا تو انہوں نے اس سے پردہ کیا۔ کہا گیا کہ آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں ‘ یہ تو آپ کو نہیں دیکھ سکتا! جواب میں اُمّ المومنین نے فرمایا: لکنی انظر الیہ ’’لیکن میں تو اسے دیکھتی ہوں نا!‘‘
عام حالات میں عورت کو باہر نکلنا پڑے ‘ وہ بازار میں جارہی ہے تو اگر وہ مَردوں کو دیکھتی ہے تواس میں درحقیقت وہ فتنہ نہیں ہے کہ جوگھر میں آنے جانے والے لوگوں کا ہے۔ جوکزنز ہیں‘ جو قریبی رشتہ دار ہیں ‘ جن کا آنا جانا زیادہ ہے ان سے زیادہ سخت پردہ ہونا چاہیے بنسبت اجنبی لوگوں کے کہ ان سے آج اگر کوئی نگاہیں چار ہوئی ہیں تو اس کے بعد پتا نہیں کبھی نظر بھی آئے گا یا نہیں! بہرحال عورتوں کے مَردوں کو دیکھنے کے معاملے میں اتنی سختی نہیں ہے جتنی مَردوں کے عورتوں کو دیکھنے کے معاملے میں ہے۔
اختصاصِ نبوت پر مبنی استثناء
اب ایک آخری مسئلہ ہے۔ دو حدیثیں ایسی ہیں جو اگرچہ میری گفتگو کے خلاف جاتی ہیں لیکن مَیں دیانت کا تقاضا سمجھتا ہوں کہ وہ بھی آپ کے سامنے بیان کردوں۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ دو خواتین جو ویسے تونامحرم تھیں‘ آپؐ کے سامنے آتی تھیں اور آپﷺ ان سے ملتے رہے۔ ایک آپ کی سالی حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن) اور ایک آپﷺ کی چچا زاد بہن حضرت اُمّ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا ( حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی ہمشیرہ)۔ بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کے سامنے آتی تھیں اور اَخیر وقت تک آپﷺ اور ان کے درمیان چہرے اور ہاتھوں کی حد تک پردہ نہ تھا۔ حجۃ الوداع‘ نبی اکرم ﷺ کی وفات سے چند مہینے پہلے کا واقعہ ہے اور اس وقت بھی یہی حالت قائم رہی۔ (سنن ابی دائود‘ کتاب الحج) اسی طرح حضرت اُمّ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابی طالب‘ حضورﷺ کی چچازاد بہن‘ آخری وقت تک رسول اللہﷺ کے سامنے آتی رہیں اور کم ازکم چہرے کاپردہ آپﷺ سے کبھی نہیں کیا۔ فتح مکہ کا ایک واقعہ وہ خود بیان کرتی ہیں جس سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ (ابودائود)
یہ روایتیں ہیں‘ مَیں انہیں تسلیم کرتا ہوں‘ اور میں نے اب تک جوبیان کیا ہے یہ اس سے بالکل برعکس بات ہے۔ غور طلب بات ہے کہ کیا ہم ان دو احادیث کو اصل مان کرباقی ساری احادیث کو ردّ کر سکتے ہیں‘ یا ان کی کوئی تاویل کریں گے؟ میں آپ کو سنا نہیں سکا‘ ورنہ میرے پاس چہرے کے پردے کے حوالے سے احادیث کا بہت زیادہ مواد موجود تھا۔ صحاحِ ستہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک خاتون جن کا نام اُمّ خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا‘ نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے بیٹے کا‘ جو ایک غزوہ میں شہید ہو گیا تھا‘ انجام دریافت کرنے آئیں اور وہ نقاب پہنے ہوئے تھیں (وَھِیَ مُتْنَقِبَةٌ)۔ آپﷺ کے پاس موجود صحابہ کرامؓ میں سے ایک صاحبؓ نے (ان کی اس استقامت پر تعجب کرتے ہوئے) کہا: جِئْتِ تَسْأَلِینَ عَنِ ابْنِکِ وَاَنْتِ مُتْنَقِبَةٌ! ’’آپ اپنے (مقتول) بیٹے کا حال دریافت کرنے آئی ہیں اور اس (غم کی شدید) کیفیت میں بھی نقاب پہنے ہوئے ہیں!‘‘ اس خاتون نے جواب دیا: اِنْ اُرْزَأَ ابْنِی فَلَنْ اُرْزَأَ حَیائی ’’اگر میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے تو اپنی حیا تو نہیں کھو دی!‘‘ پس دیکھ لیجئے‘ نقاب کا لفظ بھی حدیث میں موجودہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نقاب تو بعدکی پیداوار ہے۔ حجاب‘ جلباب اور خمار کے الفاظ تو قرآن میں ہیں لیکن ’’نقاب‘‘ کوئی لفظ ہے ہی نہیں! حدیث کے الفاظ ہیں: وَھِیَ مُتْنَقِبَةٌ ’’اور اُس نے نقاب ڈالا ہوا تھا۔‘‘ اس پر لوگوں نے کہاکہ یہ عجیب عورت ہے‘ اس کابچہ شہید ہو گیا ہے‘ شدید غم کی کیفیت میں ہے اور اس وقت بھی اس نے نقاب ڈالا ہوا ہے۔ اس پر اس خاتون کا جواب ملاحظہ ہو کہ مَیں نے اپنا بیٹا کھویا ہے ‘اپنی حیا نہیں کھوئی ہے۔
یہ ہے ہماری تہذیب اور تمدن! اسی کے تحت ہمارے گھر بنتے تھے۔ یہ تو مغربی تہذیب نے آکر ہمارے گھروں کے نقشے تبدیل کیے کہ آگے سے بھی کھلا‘ پیچھے سے بھی کھلا۔ ہمارے گھروں میں چار دیواری ہوتی تھی‘ آج چار دیواری کہاں ہے ! چاروں طرف عمارت ہوتی تھی‘ درمیان میں صحن۔ دور سے کہیں نگاہ پڑ سکتی تھی ورنہ آس پاس سے نہیں پڑسکتی تھی۔ پھر ڈیوڑھی کے بعد مردانہ علیحدہ‘ زنانہ علیحدہ۔ کم سے کم بیٹھک تو علیحدہ ہو‘ ساتھ باتھ روم ہو۔ سپین کاMoorish Architecture پوری دنیا میں مشہور تھا اور اس طرزِ تعمیر پر گھر بنتے تھے۔
بہرحال آخری بات یہی ہے کہ یا تو ان دو احادیث کی بنا پر قرآن مجید‘ اس کی حکمت اوربے شمار احادیث کوہم ردّ کردیں یا ان کی تاویل کریں‘ یا پھر ان دو کی تاویل کریں۔ وہ تاویل میرے نزدیک یہ ہے کہ ان دو حدیثوں میں بیان کردہ استثناء نبی اکرمﷺ کے اختصاصات میں سے ہے۔ حضورﷺ کے کچھ خواص ایسے تھے کہ لوگوں کے لیے ان کا اتباع صحیح نہیں تھا۔ مثلاً صومِ وصال‘ کہ آپ ﷺ نے روزہ رکھا‘ شام کو افطار نہیں کیا‘ ساری رات بھی روزے سے رہے‘ اگلے دن بھی آپﷺ نے نہ سحری کھائی اور نہ ہی شام کو افطار کیا۔ یعنی دو دنوں کو جوڑ دیا۔ یہ دودنوں کا صوم وصال ہوا۔ اس سے حضورﷺ نے صحابہؓ کو سختی سے منع فرمایا۔ لوگوں نے کہا: حضور ! آپ ہمیں روکتے ہیں جب کہ خود رکھتے ہیں! آپﷺ نے فرمایا: ((وَأَيُّكُمْ مِثْلِی! إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِی رَبِّی وَيَسْقِينِ)) (متفق علیہ) ’’تم میں سے کون ہے مجھ جیسا؟ مَیں تو اس حال میں رات بسر کرتا ہوں کہ میرا ربّ مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔‘‘ اب بتائیے کون شخص اپنے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ وہ اس بنا پرصومِ وصال رکھنے کا حق رکھتا ہے کہ حضورﷺ رکھتے تھے! یہ اختصاصی معاملات خصائص نبوت میں سے ہیں۔ پھر یہ کہ نبی اکرمﷺ ہر طرح کے وسوسے سے بھی پاک تھے‘ سو یہ ان کا غیرمعمولی طرزِ عمل ہو سکتا ہے۔ اس کی بنا پراس سارے موضوع پر جھاڑو نہیں پھیری جاسکتی۔
اقول قولی ھٰذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات