ختم ِنبوت کا منطقی اور لازمی نتیجہحافظ عاکف سعید
یہ موضوع ہمارے ہاںتفصیل سے بیان نہیں ہوتا‘ بس تذکرہ ہوجاتا ہے کہ ختم نبوت پر ایمان ضروری ہے‘ اس کی بڑی اہمیت ہے‘ جو اس کا منکر ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے وغیرہ۔ختم نبوت کا تصوّر کیا ہے؟ اس سے مراد کیا ہے ؟ اس حوالے سے حقیقی آگاہی نہیں دی جاتی۔ حالیہ دنوں میں حکومتی سطح پر اسلام دشمن قوتوں کو راضی کرنے کی ایک کوشش کی گئی جس میں ایک آئینی شق میں تبدیلی کرکے اُس حلف نامہ کو نکالا گیا جو قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کرتا ہے۔ اس عمل کی ہر سطح پر مذمت کی گئی‘ جس کے بعد اس ترمیم کو واپس لے لیا گیا ۔البتہ عقیدۂ ختم نبوت کو ہمیں اپنی جگہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہے کیا! اس حوالے سے قادیانی عام لوگوں کو دھوکا دے دیتے ہیں کہ دیکھیے ہم بھی تو حضور ﷺ کو رسول مانتے ہیں ‘ ہم قرآن مجید کو اللہ کی کتاب سمجھتے ہیں ‘ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور مسجدیں بھی بناتے ہیں۔ چنانچہ عام آدمی یہ سمجھ کر ان کے جال میں پھنس جاتا ہے کہ یہ تو ہمارے بہت قریب ہیں ‘شاید ایک غلطی ان سے ہو گئی کہ انہوں نے غلام احمد قادیانی کو نبی مان لیا لیکن باقی ہر اعتبار سے یہ مسلمان ہیں۔ یعنی کوئی بڑا فرق محسوس نہیں ہوتا۔ حقیقت میں یہ بہت بڑا جال ہے۔ لہٰذا اس کو زیادہ توجہ کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ عقیدہ کیا ہے اور اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے!
ختم نبوت کاعام مطلب یہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر نبوت ورسالت کا خاتمہ ہوگیا۔
{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط} (الاحزاب:۴۰)
’’(دیکھو!) محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیںبلکہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں اور سب نبیوں پر مہر ہیں۔ ‘ ‘
ہمارے ہاں شرف کے حوالے سے یہ چیز بڑی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے کہ کسی کے بیٹے کتنے ہیں۔ گویاجس کے جتنے بیٹے ہوں گے وہ اتنا ہی مقام و مرتبے والا ہوگا۔ عربوں میں بھی یہ تصور عام تھا اور وہ اس حوالے سے آپﷺ پر نکتہ چینی کرتے تھے۔ لہٰذا یہاں ایک تویہ صاف صاف بتا دیا گیا کہ یہ اللہ کافیصلہ ہے کہ آپ ﷺ کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے۔ ان آیات کے نازل ہونے سے پہلے بھی مکہ میں جو آپ ﷺ کی نرینہ اولاد تھی جن میں ایک سے زیادہ بیٹے تھے‘ وہ بچپن ہی میں اللہ تعالیٰ نے اُٹھا لیے۔ اس کے بعد مدنی دور میں بھی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے جو بیٹا تولد ہوا تھا‘ آپ ؐ نے اس کا نام ابراہیم رکھا تھا‘ اس کا بھی انتقال ہوگیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو بات قرآن مجید میں طے کر دی ‘عملاً بھی اس کا ظہور سامنے آگیا۔
دوسری چیز جو یہاں بتائی گئی وہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے وہ ان سب چیزوں سے ماوراء ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے نمائندے اوررسول بن کر آئے ہیں اور نہ صرف اللہ کے رسول ہیں بلکہ خاتم النّبیین بھی ہیں۔ چنانچہ یہ دوٹوک بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ آخری نبی اور آخری رسول ہیں اور آپ ؐ کے بعد کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں آئے گا۔ اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اب جو بھی بعد میں کسی نبی کو مانے گاوہ گویا آنحضور ﷺ کی رسالت کا انکار کر رہا ہے۔ اصل میں عام طور پر لوگوں کے سامنے یہ چیزنہیں ہوتی کہ نبوت ورسالت کا صر ف خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اس کی تکمیل ہوئی ہے۔ اس لیے اب جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہے ‘ دجال ہے‘ کذاب ہے‘ جبکہ جو ایسے جھوٹے نبی کی تصدیق کرے گاوہ محمدرسول اللہ ﷺ کا دشمن ہے‘ اسلام کا باغی ہے۔ اس سلسلے میں متعد د احادیث بیان ہوئی ہیں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ:
((وَإنَّهُ سَيَكُونُ في أُمَّتِي ثلاثُونَ كذَّابُونَ ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّہُ نَبَيٌّ ، وَأنا خاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي)) (سنن الترمذی)
’’میری اُمّت میں تیس افراد ایسے اُٹھیں گے جو کذاب (انتہائی جھوٹے) ہوں گے ‘ ان میں سے ہر شخص اپنے بارے میں یہ گمان کرتا ہوگا کہ وہ نبی ہے ‘ حالانکہ میں خاتم النّبیین ہوں ‘ اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ ‘ ‘
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ كَذَّابُوْنَ قَرِيْبًا مِنْ ثَلَاثِيْنَ ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهٗ رَسُوْلُ اللّٰهِ)) (متفق علیہ)
’’اورقیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب ایسے افراد نہ اٹھا دیے جائیں جو دجال ہوں گے ‘ کذاب ہوں گے ‘ ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ ‘‘
حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہی میں یمامہ میں’’مسیلمہ‘‘ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا‘ جسے آپﷺ نے ’’کذاب‘‘ قرار دیا۔ آپﷺ کے وصال کے فوراً بعد اور بھی مدّعیانِ نبوت سامنے آگئے تھے‘ جیسے صنعاء میں اسود عنسی۔ اس کے علاوہ ایک خاتون بھی نبوت کی دعویدار بن کرکھڑی ہوگئی تھی۔ بعد میں اس خاتون کا جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب سے نکاح بھی ہوگیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ میرے بعد ایسا ہوگاکہ تیس تک ایسے کذاب آئیں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے۔ مرزا غلام احمد قادیانی بھی انہی میں سے ایک ہے۔
دجل کہتے ہیں فریب اور جھوٹ کو‘ جبکہ دجال کا مطلب ہے جھوٹا‘ مکار اور فریبی۔ یہ احادیث واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ اب جوبھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ اسلام سے باہر ہے اور جو اس جھوٹے نبی کی نبوت کو تسلیم کرے گا وہ بھی اسلام سے خارج ہے۔ وہ آنحضور ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کا منکر ہے اور جو مقام اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو دیا ہے وہ اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ اُس مقام کو کسی اور کے لیے مخصوص کرنا چاہتا ہے۔ یہ اتنا بڑا فتنہ ہے کہ آنحضور ﷺ کے وصال کے بعدپہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے زیادہ توجہ اسی فتنہ کی سرکوبی پر مرکوز رکھی۔ آنحضور ﷺ کی زندگی ہی میں اگرچہ جزیرہ نمائے عرب پر اللہ کا دین غالب وقائم ہوگیا تھا‘ لیکن بہت سارے لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام کو غالب ہوتے دیکھ کر مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو گئے‘ جبکہ مخالفین میں سے بہت سے وہ تھے جو اسلام کا غلبہ اور قوت دیکھ کر دبک گئے تھے۔ جب آنحضور ﷺ کا وصال ہوا تو یہ دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان میں سے کچھ جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ مل گئے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا اُمّت میں سب سے اونچا مقام ہے ‘انہوں نے سب سے پہلے اس ایشو کو ایڈریس کیاکہ مدعیانِ نبوت کے خلاف جہاد کا باقاعدہ اعلان کیا ۔اس حوالے سے ایک دو نہیں بلکہ کتنے ہی معرکے ہوئے‘ یہاں تک کہ ان میں ۱۲۰۰ صحابہؓ شہید ہوئے‘ حالانکہ حضور ﷺ کی زندگی میں جتنے بھی معرکے ہوئے ان تمام غزوات میں صرف۲۵۹ صحابہؓ شہید ہوئے۔ ا س سے اندازہ کر لیجیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کتنی اہم ذمہ داری تھی۔ انہوں نے ان فتنوں کے خاتمے کو ہی ترجیح اوّل بنایا اور اپنے پورے اڑھائی سالہ دورخلافت میں انہی کے خلاف مسلسل جہاد کیا تب جا کر اللہ کا دین مستحکم ہو سکا‘ ورنہ وہ اسی وقت بکھر جاتا۔ ختم نبوت کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے‘ اس لیے کہ جھوٹے مدّعیانِ نبوت کی آڑ میں ساری اسلام مخالف قوتیں دین حق کو مٹانے کے لیے دوبارہ صف آرا ہو گئی تھیں۔ لہٰذا نبی اکرم ﷺ کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کو مستحکم کرنے میں سب سے اہم کردار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔
چنانچہ ختم نبوت کا ایک پہلو یہ ہے کہ آنحضور ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپؐ کے بعدقیامت تک کوئی نبی نہیں ہے۔ اللہ کا یہ فیصلہ قرآن میں بھی ہے ‘ احادیث میں بھی بیان ہوا اور صحابہ ؓنے اس کو جس مضبوطی سے سمجھا اور اس کے حوالے سے جو استقامت دکھائی تھی جس کے نتیجے میں اسلام مستحکم ہوا ‘وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
ختم نبوت کا ایک اور مفہوم بھی ہے‘ اور وہ اسی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا آغاز ہوا‘ پھر نبی اور رسول آتے گئے ‘ ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب نبی آئے اور تین سو تیرہ کے قریب رسول مبعوث ہوئے اور آنحضو رﷺ پر آکر یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ اس سے ایک تاثر یہ ملتا ہے کہ شاید ایک چشمۂ فیض جاری تھا ‘ ایک خیر کا معاملہ چل رہا تھا اور اللہ نے اسے روک دیا۔ ایسا نہیں ہے‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ختم نبوت کا اعلان اس وقت کیا کہ جب نبوت ورسالت اپنے نقطۂ کمال کو پہنچ چکی تھی اور اس سے آگے کوئی مقام تھا ہی نہیں۔ آپﷺ سیّد الاولین والآخرین ہیں ‘ سیّد المرسلین ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور حضور ﷺ کا مقام نہ صرف انسانوں بلکہ تمام مخلوقات میں سب سے اونچا ہے۔
انسان کے فہم وشعور اور تہذیب وتمدن کا بھی ارتقا ہوتا رہا اوراس کے ساتھ نبوت ورسالت نے بھی ارتقائی سفر طے کیا۔ یعنی ہر دور میں انسان کو ضروری ہدایا ت ملتی گئیں ‘ یہاں تک کہ بڑی بڑی سٹیٹس وجود میں آگئیں ‘ بڑی بڑی عالمی قوتیں ظہور میں آ ئیں‘ جیسے رومن ایمپائر‘ پرشین ایمپائر۔ چنانچہ انسان تمدن کے ارتقا کے حوالے سے جس highest levelتک پہنچ سکتا تھا وہ پہنچ گیا۔ تب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامل ہدایت بھی دے دی گئی۔ چنانچہ اس ضمن میں قرآن مجید کی یہ آیت بڑی اہم ہے کہ:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْـنًاط}(المائدۃ: ۳)
’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیاہے اور تم پر اپنی نعمت کااِتمام فرمادیا ہے اور تمہارے لیے میں نے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا ہے۔ ‘ ‘
ختم نبوت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ نبوت ورسالت کے اپنے نقطۂ کمال کو پہنچنے پر اس کا دروازہ بند کردیا گیا۔ تبھی قرآن کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے لے لیا۔ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ ہی نے اپنے رسولوں پر کتابیں نازل کی تھیں لیکن کسی کی حفاظت کا ذمہ نہیں لیاتھا۔ اس لیے کہ وہ کتابیں معیّن وقت اور معیّن قوم کے لیے تھیں جبکہ اب اسلام کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے دین مقرر کر دیا۔
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ قف} (آل عمران:۱۹)
’’یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔ ‘ ‘
اب کوئی اور دین( نظام )اللہ کو قابل قبول نہیں ہے۔ جب یہ آیت(المائدۃ:۳) نازل ہوئی تھی تو یہود نے حسرت سے کہا تھا کہ: کاش ! ایسی آیت ہمیں عطا ہوتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو اپنا قومی جشن قرار دیتے‘ کیونکہ یہ آخری اور مکمل ہدایت جو اللہ نے عطا کردی‘ وہ قیامت تک کے لیے ہے۔
نبی اور رسول ہمیشہ دو چیزیں لے کر آتے تھے ۔ ازروئے الفاظِ قرآنی:
{لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج} (الحدید:۲۵)
’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان اُتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ ‘ ‘
یہ دوچیزیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آتی تھیں۔ ان میں سے کتاب کا اصل ہدف یہ ہے کہ انسان کودنیا کی آزمائش میں ایک گائیڈ لائن مہیّا ہو‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا ہے:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:۲)
’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ ‘ ‘
اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جو ہمیشہ کے لیے ہے۔ لہٰذا دنیا کی اس آزمائش کے نتیجے میں ابدالآباد تک کے لیے یا تو جنت ہے یا جہنم ۔ اس لحاظ سے دنیا کا یہ امتحان اتناکڑا اور سنگین ہے کہ اس سے بڑا امتحان کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ اس میں ناکامی سے بچنے کے لیے ہمیں راہنمائی کی اشد ضرورت ہے ‘جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی تاکہ ہم اس سے راہنمائی حاصل کرکے دنیا میں ایسی زندگی گزاریں کہ آخرت میں جہنم سے بچ کر جنت تک پہنچ سکیں۔ یہ ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چنانچہ انسانیت کے لیے نبوت سے بڑی رحمت اور نعمت کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ اس سے انسان کو راستہ اور راہنمائی ملتی ہے۔
دوسری چیز جو اللہ نے اپنے رسولوں کو دی وہ ہے میزان ‘یعنی نظام۔ دنیا کی آزمائش میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ نو ع انسانی کو ایک ایسا نظام دیا جائے کہ جس میں عدل وانصاف ہو ‘ لوگوں کو ان کے حقوق ملیں اور ایک ایسا سازگار ماحول ہو جس میں وہ خیریت سے اپنا امتحان پاس کر کے آخرت میں کامیاب ہوسکیں۔ ورنہ اگربے انصافی ہوگی تو بے چارے اپنے چکر وں ہی میں پڑے رہیں گے۔ ایک بہت بڑی تعدادکو دووقت کی روٹی بھی نہیں ملے گی‘ جیسے آج بہت بڑی تعداد بنیادی ضروریات سے محروم اور جانوروں کی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آج کا سارا نظام مکمل طور پر استحصالی ہے۔ دنیا سرمایہ داروںکی جنت بن گئی ہے کیونکہ یہ سودی نظام سرمایہ دار کو سپورٹ کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کبھی کبھی وال سٹریٹ جیسی تحریکیں بھی اٹھتی ہیں جن کو کچل دیا جاتا ہے۔ یہ ظلم ‘ جبر اور استحصال اسی وجہ سے ہے کہ یہ انسان کا اپنا بنایا ہو ا نظام ہے‘ اور جو بھی انسان کوئی نظام بنائے گا تو وہ اپنے مفادات کو ترجیح دے گا۔ بادشاہ اگر نظام بنائے گا تو وہ اپنی بادشاہت کو تقویت دے گا۔ سرمایہ دار اگر نظام بنائے گا تو وہ سرمائے کو تحفظ دے گا‘ اسے مزدو رکی کوئی پروا نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر مرد نظام بنائے گا تو وہ عورت کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔ عورت اگر نظام بنائے گی تو وہ مرد کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گی۔ اقبال کا بڑا پیارا شعر ہے کہ ؎
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزییعنی اگر مزدور کے ہاتھ میں نظام دے دیا جائے تو کیا وہ دوسروں سے انصاف کرے گا؟ ہر گز نہیں‘ بلکہ وہ دوسرے طبقوں کو ذلیل کرے گا۔ انصاف صرف وہ دے سکتا ہے جو سب کا مالک ہے۔ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو انسان کی نفسیات کو اس سے بڑھ کر سمجھتا ہے‘ وہی انسانوں کے لیے سب سے زیادہ اعتدال والااور عدل وانصاف والا نظام دے سکتاہے۔ اسی میں انسان کی انسانیت بروئے کار آئے گی ۔حیوانیت اور بہیمیت کو دبانے کے لیے یہی نظام مؤثر ہوگاتاکہ لوگوں کو اصل امتحان میں کامیابی کے لیے دنیا میں بھی سازگار فضامل سکے۔ ایسا نظام ہمیشہ اللہ کی طرف سے میزان کی شکل میں یا دین حق کی شکل میں آتا ہے جو اپنی آخری اور تکمیل شدہ شکل میں حضور ﷺ کو دے دیا گیا۔ اس میں بتا دیا گیا کہ معاشی و معاشرتی وسیاسی نظام کیا ہوگا‘ اوامراور نواہی کیا ہیں ‘ کیا صحیح ہے کیا غلط ‘ معاشرے میں کن چیزوںکی اجازت ہے کن کی نہیں ۔ یہ اسی نظام کی ایک شکل تھی جو بعد میں دور خلافت راشدہ میں سامنے آئی۔ معلو م ہوا کہ اس سے بہتر نظام کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
چنانچہ ختم نبوت ا س وقت ہوا جب ہر اعتبار سے ہدایت کی تکمیل ہوگئی‘ دُنیوی اعتبار سے بھی اور اُخروی اعتبار سے بھی۔ اب اس سے آگے کوئی مقام تھا ہی نہیں جو آپ ﷺ کو مل گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اختیار اللہ کا تھا‘کسی کو پسند ہویا نہ ہو۔ سب سے زیادہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کامستحق تھا ‘ اللہ نے اسی کو یہ شرف دے دیا۔ لہٰذا اب نئی نبوت کا مطلب اس سارے تصوّرِ دین کی مکمل نفی کرنا ہے ‘جس کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جس طرح مدّعیانِ نبوت کے تدارک کے لیے اپنی جانیں دی ہیں اور اس کو اہم ترین معاملہ سمجھ کر tackleکیا ہے اس سے ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے۔
پہلے انبیاء و رسل علیہم السلام آکر لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا کرتے تھے ‘ گلی گلی دعوت لے کر جایا کرتے تھے۔ اب چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اب انسانوں کو ہدایت کی ضرورت نہیں رہی؟ درحقیقت اب تو انسانوں کو پہلے سے کہیں زیادہ ہدایت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ختم نبوت کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب پیغام رسالت کو پوری دنیا تک پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی نسبت سے مسلمانوں کو ’’خیر الامت‘‘ کہا گیا :
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ………} (آل عمران:۱۱۰)
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘ تم حکم کرتے ہو نیکی کا اور تم روکتے ہو بدی سے…‘‘
ہمیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ ہم بہترین اُمّت ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہم پر کتنی بڑی ذمہ داری بھی عائد ہو تی ہے۔ اگر ہم یہ کام نہیں کرتے تو ہمارے لیے دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت میں بھی عذاب ہے۔ آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو عذاب مسلط ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم اس اہم ذمہ داری کو بھول چکے ہیں۔ سورۃ الحج کے آخری رکوع کے آغاز میں بتایا گیا کہ رسالت کی اہمیت ونوعیت کیا ہوتی ہے:
{اَللہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ط} (آیت۷۵)
’’اللہ چُن لیتا ہے اپنے پیغام بر فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی۔‘‘
فرشتوں میں سے جبرائیل علیہ السلام ہمیشہ وحی لاتے رہے اور انسانوں میں حضرت آدم علیہ السلام سے وحی شروع ہوئی اور آنحضور ﷺ پر وحی کا اختتام ہوا۔ یہ سلسلۂ رسالت اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لیے قائم کیا تھا۔ اسی رکوع میں آگے فرمایا:
{وَجَاہِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ط ہُوَ اجْتَبٰىکُمْ} (آیت۷۸)
’’اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ اُس کے لیے جہاد کا حق ہے۔ اُس نے تمہیں چُن لیا ہے‘ ‘
یعنی اب کمر کس لو ‘ محنت کرنی پڑے گی ‘ قربانیاں دینی پڑیں گی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اب اس منصب کے لیے تمہیں چُن لیا ہے۔ پوری اُمّت کی ذمہ داری ہے کہ جو کا م پہلے رسول کرتے تھے اب وہی کام یہ اُمّت کر ے گی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جب اس مشن پر نکلے تھے تو دیکھتے ہی دیکھتے بہت بڑے رقبے پر اللہ کا دین قائم اور غالب ہوگیا ۔اس نظام کی برکات کو دیکھ کر کروڑوں لوگ چند سالوں میں مسلمان ہوگئے۔ ختم نبوت کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اب ہمیں وہی کام سنبھالنا ہوگا‘ جیسے اقبال نے کہا تھا کہ ؎
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!بدقسمتی سے آج ہم اس سبق کو بالکل ہی بھولے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم عطا فرمائے ‘ دین کا صحیح تصور ہمارے ذہنوں میں جاگزیں فرمائے اور ہمیں ہماری دینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
[مسجدجامع القرآن‘ قرآن اکیڈمی ‘لاہورمیں ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۷ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص]
tanzeemdigitallibrary.com © 2025