(ظروف و احوال) سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ تحفظات‘ ابہامات‘ انحرافات اور ان کے ازالے کی حکمت عملی - ادارہ

7 /

سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ
تحفظات‘ ابہامات‘ انحرافات اور ان کے ازالے کی حکمت عملی

پس منظر: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ نے مبارک ثانی پٹیشن نمبر 1054-L of 2023کا فیصلہ ۶ فروری ۲۰۲۴ء کو جاری کیا۔ اس پر پاکستان بھر کے دینی حلقوں میں شدید اضطراب پیدا ہوا۔ اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ میں نظر ثانی فوجداری پٹیشن نمبر2 of 2024دائر ہوئی اور اس میں معزز عدالت نے دیگر کے علاوہ مندرجہ ذیل پانچ اداروں سے بھی رائے مانگی۔ وہ ادارے یہ ہیں:
(۱) جامعہ دارالعلوم کراچی (۲) دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کراچی
(۳) جامعہ سلفیہ فیصل آباد (۴) قرآن اکیڈمی لاہور
(۵) جامعہ امدادیہ فیصل آباد
ان اداروں نے مشترکہ موقف تحریری صورت میں اپنی اپنی مہر اور دستخطوں کے ساتھ پیش کیا اور اُسے نظر ثانی کے موقع پر علامہ سید حبیب الحق شاہ کاظمی نے عدالت میں پڑھ کر سنایا اور تمام مکاتبِ فکر نے اس کی تائید کی۔ پھر فیصلے کو محفوظ کر لیا گیا تھا تاآنکہ ۲۴ جولائی ۲۰۲۴ء کو طویل انتظار کے بعد اس نظر ثانی پٹیشن کا فیصلہ اُسی سہ رکنی بنچ نے سنایا۔ اس میں اگرچہ بعض امور کو تسلیم کر لیا گیا‘ لیکن فیصلے میں ذومعنی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے مزید ابہامات پیدا ہوئے ہیںاور ان الفاظ کو کسی بھی طرف پھیرا جا سکتا ہے۔ ہماری رائے میں اس فیصلے میں قادیانیوں کے لیے تبلیغ کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ الغرض دینی حلقوں کا اضطراب بدستور قائم ہے اور اگر اس کا ازالہ نہ کیا گیا تو ملک وملت کے لیے خطرناک ہوگا۔
بعد کو سپریم کورٹ نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا۔ اس میں فیصلے سے اختلاف کو ’’فساد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نہایت احترام کے ساتھ گزارش ہے : یہ فساد نہیں ‘ بلکہ ’’ردّ الفساد‘‘ ہے۔ تین ججوں کی رائے کروڑوں مسلمانوں کی اجماعی رائے کو فاسد اور باطل قرار نہیں دے سکتی۔ اس طرف جذباتیت نہیں ‘ بلکہ اہل علم کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس میں علماء کے علاوہ آئینی وقانونی ماہرین بھی شامل ہیں۔ عدالت نے نظر ثانی فیصلہ اردو میں لکھا ہے‘ ہم اس کی تحسین کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں: قومی زبان کو عدالت کی کارروائی میں رائج کیا جائے‘ یہ آئین کا بھی تقاضا ہے اور اس کے بارے میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
ہم نے فیصلے کو جذبات سے ماوراء ہوکر ٹھنڈے دل سے پڑھا ہے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ عجلت سے کام نہیں لیا‘ کیونکہ یہ انتہائی ذمہ دارانہ کام ہے اور اس کا تعلق جملہ اہلِ ایمان کے عقیدے اور ایمان کے ساتھ ہے۔ اس کو عوام میں پزیرائی (rating) کے لیے استعمال کرنا دیانت وامانت اور ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے۔ پس گزارش ہے کہ ہمارے موقف کو خالی ٔالذہن ہو کر پڑھا اور سمجھا جائے۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ :’’مبارک ثانی کیس میں نظر ثانی پٹیشن کا مرحلہ بھی ختم ہو گیا ہے‘ لہٰذا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اب اس میں ردّوبدل نہیں ہو سکتا‘‘ ‘ اس کی بابت ہماری گزارش ہے: ’’دستورِ پاکستان کا آرٹیکل ۱۸۸ سپریم کورٹ کو اپنے کسی فیصلے یاحکم نامے پر نظر ثانی کا اختیار دیتا ہے۔ چنانچہ دستورِپاکستان کے آرٹیکل ۱۸۸میں ہے:
" The Supreme Court shall have power, subject to the provisions of any Act of Majlis-e-Shoora (Parliament) and of any rules made by the Supreme Court, to review any judgement pronounced or any order made by it."

’’سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے منظورکردہ کسی ایکٹ اور خود عدالت ِعظمیٰ کے وضع کردہ کسی قاعدے کے تحت اپنے اعلان کردہ کسی فیصلے یا حکم نامے پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔‘‘
اس اصول کی روشنی میں سپریم کورٹ پر لازم ہے:
’’ اپنے نظرثانی شدہ فیصلے میں ازخود ترمیم کر کے مسلمانوں کے حقیقی خدشات کا ازالہ کرے یا مقدمے کے سارے فریقوں کو دعوت دے کہ ان کے نزدیک فیصلے میں کوئی سقم ہے یا صرفِ نظر یا غلطی ہوئی ہے‘ تواُس کی نشان دہی کریں‘ اگر وہ حقائق وشواہد کی روشنی میں درست ہوئے‘ تو ان کا ازالہ کر دیا جائے گا۔‘‘
اس کے علاوہ یہ فیصلہ قومی اسمبلی میں بھی زیر بحث آ گیا ہے اور سپیکر نے اسے کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔ لہٰذا اس فیصلے کے پیراگراف۴۲ کو پارلیمنٹ کے ذریعے ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ۲۹۸ سی کے شروع میں ترمیمی بل کے ذریعے ان الفاظ کا اضافہ کر دیا جائے:
’’Notwithstanding any judgement of any court‘‘

’’کسی بھی عدالت کا کوئی بھی فیصلہ اس دفعہ پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔‘‘
نیز ۲۹۸سی میں by visible representations کے بعد اور or in any mannerسے پہلے whether publicly or privatelyکا اضافہ کر دیا جائے۔ اس صورت میں فیصلے کاسب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ خودبخو د بے اثر ہو جائے گا۔
مسلمہـ اصول ہے:
’’کسی بھی ملک کا شہری‘ اُس ملک کے آئین وقانون کا پابند ہے اور اُسے آئین وقانون سے انحراف کا حق حاصل نہیں ہے‘ خواہ وہ پیدائشی شہری ہو یا اُس نے بعد کو اپنے اختیار سے اُس ملک کی شہریت اختیار کی ہو‘ جسے انگریزی میںنیچرل Citizenship کہا جاتا ہے۔ا سی اصول کے تحت قادیانی اس امر کے پابند ہیں کہ آئین پاکستان کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں‘ اپنے آپ کو غیر مسلم قرار دیں اور کسی بھی تاویل وتوجیہ کے تحت اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ نہ کریں۔‘‘
نہایت احترام کے ساتھ گزارش ہے: معزز عدالت نے قادیانیوں کو نہ اس امر کا پابند بنایا اور نہ اُن کو یہ تنبیہ کی کہ اُن کا اپنے آپ کو مسلمان قرار دینے کا اِدّعا (claim) آئین سے انحراف اور بغاوت ہے اور اس کی سزا خود آئین میں موجود ہے۔ اگر عدالت اپنا یہ آئینی‘ قانونی اور دینی فریضہ انجام دیتی تو قادیانیوں کے لیے دَجل و فریب کے سارے راستے اور امکانات مسدود ہو جاتے۔اس کے بغیر عدالت کے نظر ثانی فیصلے کا پیراگراف ۲۷ بے معنی ہو جاتا ہے۔ عدالت نے ’’ملت ِاسلامیہ کا دوسو صفحات پر مشتمل موقف برائے مطالعہ خصوصی کمیٹی‘‘ کا حوالہ دیا اور قرارداد کا مندرجہ ذیل اقتباس نقل کیا ہے:
’’اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہیے کہ مرزا غلام احمد کے پیروکار‘ انہیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے‘ مسلمان نہیں اور یہ کہ قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تاکہ اس اعلان کو مؤثر بنانے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ’’ان کے جائز حقوق ومفادات‘‘ کے تحفظ کے لیے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب اور ضروری ترمیمات کی جائیں۔‘‘
پس گزارش ہے: ’’ان کے جائز حقوق ومفادات‘‘کا تعین یا اُس کی بابت قانون سازی تو تب ہو سکتی ہے جب وہ اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں‘ اپنے آپ کو غیر مسلم کی حیثیت سے رجسٹر کرائیں۔ پھر تو وہ قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے لیے مختص اقلیتی نشست کے حق دار بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن آج تک قادیانیوں نے اپنی اس آئینی حیثیت کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ پس جو شہری کسی ملک کے آئین کو ہی تسلیم نہ کریں‘ تو وہ اُس ملک میں ’’جائز حقوق ومفادات‘‘ کے حق دار نہیں بنتے۔ پاکستان میں رہنے والے ہندو‘ سکھ‘ مسیحی‘ پارسی وغیرہ سمیت غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق تین شرائط کے ساتھ متعین ہیں:(۱)قانون کی پابندی‘ (۲) امن عامہ (۳) تابعِ اخلاق۔ اپنے معترضہ فیصلے میں عدالت نے قادیانیوں کے بارے میں بنیادی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کی آئینی دفعات کا حوالہ دیا تھا‘ لیکن آئین سازوں نے اپنی اجتماعی دانش کے مطابق ان پر ’’قانون کی پابندی‘ امنِ عامہ اور تابعِ اخلاق‘‘ ہونے کی جو بندش عائد کی تھی‘ اُسے عدالت نے حذف کر دیا تھا‘ مگر نظر ثانی فیصلے میں اُسے تسلیم کر لیا ہے‘ ہم اس کی تحسین کرتے ہیں۔ سابق عدالتی فیصلے ہمارے اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے انہی عدالتی فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’مذکورہ بالا اعلیٰ عدالتوں نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ آئین کی دفعہ ۲۰ اور ۲۲ میں غیر مسلموں کو جو مذہبی آزادی دی گئی ہے‘ وہ اُس صورت میں انہیں حاصل ہو گی جب وہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت مان کر اپنے مذہب پر عمل کریں‘ جیسے ہندو‘ سکھ اور مسیحی وغیرہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس قادیانیوں کا معاملہ الگ ہے‘ کیونکہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم ظاہر نہیں کرتے‘ اس لیے وہ اس آزادی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ چنانچہ فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے:
"But this can be allowed if the non-Muslims preach as non-Muslims and not by passing off as Muslims." (PLD, 1985, FSC:117)

عدالت خود تسلیم کر چکی ہےکہ فاضل وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا اتباع سپریم کورٹ پر لازم ہے‘ اس لیے کوئی جواز نہیں تھا کہ نظر ثانی میں کوئی بات کہتے وقت اس کو پیشِ نظر نہ رکھا جاتا۔ لہٰذا نظر ثانی فیصلے کے پیراگراف ۴۲ میں سرسری طور پر یہ بات کہی گئی ہے:
’’آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اوراُس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پرمسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے‘ نہ عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے۔ تاہم اپنے گھروں‘ عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر انہیں قانون کے تحت مقرر کردہ ’’معقول قیود‘‘ کے اندر ’’گھر کی خلوت‘‘ کا حق حاصل ہے۔‘‘
مندرجہ بالا پیراگراف کے خط کشیدہ الفاظ دفعہ ۲۹۸۔سی کے ان الفاظ سے کُلّی طور پر متصادم ہیں‘ جن میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے:
"Any person of the Qadiyani group or the Lahori group, who directly or indirectly preaches or propagates his faith as Islam, or invites others to accept his faith."

عدالت نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے:
’’قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی شخص جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے مذہب کی تبلیغ یا پرچار کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے۔‘‘
اس دفعہ میں تبلیغ کی دو صورتیں’’preaches or propagates‘‘ (یعنی دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے) الگ الگ ذکر کر کے دونوں کو قابلِ سزا قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون میں کوئی لفظ بے مقصد (redundant) نہیں ہوتا‘ اس لیے یہ دونوں قسمیں الگ الگ بیان کی گئی ہیں۔ اسی طرح ’’نجی مخصوص اداروں‘‘ کا جو لفظ نظر ثانی فیصلے میں ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: ’’اُن میں انہیں ’’گھر کی خلوت‘‘کا حق حاصل ہے‘ یہ بھی مذکورہ دفعہ کے خلاف ہے‘ اس لیے کہ ادارہ کوئی نجی گھر نہیں ہوتا۔ ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ مقدمے میں جسٹس سلیم اختر کے اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے:
"The above restrictions clearly mean such activities which might have been performed in the public or in public view and not those to be performed in the private."

اس میں واضح کر دیا گیا ہے: ’’جو کام ’’پبلک ویو‘‘ میں کیا جائے‘ وہ پرائیویٹ نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ کوئی ادارہ ایسا نہیں ہوتا جس کو ’’پبلک ویو‘‘ میں نہ کہا جا سکے‘ اِلّا یہ کہ کسی خفیہ سرنگ میں واقع ہو۔ اس کے علاوہ قرآنِ کریم کی تحریف یا قادیانیوں کا اپنے آپ کو بطورمسلمان ظاہر کرتے ہوئے اپنے مذہب کا پرچار قانوناً جرم ہے اور ہر وہ کام جو آئین وقانون کی رُو سے ممنوع ہے‘ مثلاً منشیات بیچنا یا ذخیرہ کرنا‘ ملک کے خلاف سازش کرنا‘ کسی کے قتل‘ اِغوا برائے تاوان یا ڈکیتی کی منصوبہ بندی کرنا یا دہشت گردی کا منصوبہ بنانا‘ یہ سب کام نجی ادارے اور گھر کی خلوت میں بھی منع ہیں۔ تو قادیانیت کی تبلیغ جو عام جگہ میں یا عوام کے سامنے قانوناً ممنوع ہے‘ اس کے لیے عوام کو کسی چہار دیواری یا نجی گھر میں جمع کر نا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ الغرض نظر ثانی فیصلے کے پیراگراف ۴۲ کا مذکورہ بالا خط کشیدہ حصہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۸سی سے صراحتاً متصادم ہے اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے بعنوان ’’مجیب الرحمٰن‘‘ کے بھی خلاف ہے‘ جبکہ سپریم کورٹ نے خود تسلیم کیا ہے کہ اس کی پابندی سپریم کورٹ پر لازم ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں قدرے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور قرآن وسنّت سے شواہد بھی پیش کیے ہیں‘ یہ بھی قابلِ تحسین ہے‘ لیکن اگر یہ نہ بھی ہوتا تو یہ عقیدہ اُمّت ِمسلمہ میں حتمی‘ قطعی اور مسلَّمات میں سے ہے۔ البتہ صرف نظریاتی طور پر (theoretically) ذکر کرنے سے اس کا تقاضا ہرگز پورا نہیں ہوتا جب تک اس کی آئینی‘ قانونی‘ عدالتی اور انتظامی امور میں باقاعدہ تطبیق (application) نہ کی جائے۔ سو اس نظرثانی فیصلے میں اصل سقم یہی ہے‘ ورنہ اپنی فاسد اور باطل تاویلات کے ساتھ محض لفظی اعتبار سے تو مرزا غلام قادیانی بھی کہتا ہے: ’’میں آپﷺ کو خاتم النبیین مانتا ہوں۔‘‘
عدالت نے معترضہ فیصلے کے بارے میں جن حلقوں سے آراء طلب کی تھیں‘ ان کا حق تھا کہ نظرثانی فیصلے میں اُن کے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیا جاتا‘ کیونکہ فیصلے کے مدلَّل ہونے کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔ لیکن اس بارے میں فیصلے میں تشنگی ہے‘ بلکہ ان نکات سے تعرض نہ کرنے کے سبب اس فیصلے میں مندرجہ ذیل امور سخت قابلِ اعتراض ہیں:
(۱)معترضہ فیصلے میں اس بات پر سب کا اتفاق تھا: جو آیاتِ کریمہ اس فیصلے میں درج کی گئی تھیں‘ وہ زیر نظر مقدمے سے قطعی طور پر غیر متعلق ہیں‘ بلکہ جس سیاق وسباق میں پیش کی گئی تھیں‘ اُن سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی۔ نظر ثانی فیصلے میں اس بات کا کوئی جواب نہیں دیاگیا‘ بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں یہ تبصرہ فرمایا: ’’دین کے معاملے میں جبر کی ممانعت کو تو تسلیم کیا‘ مگر نہایت احترام سے گزارش ہے کہ اسے اس حد تک محدود کر دیا کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ فاضل جج کی نظر میں آیتِ کریمہ کا حکم صرف اس حد تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ اس کے مفہوم میں کچھ اور باتیں بھی شامل ہیں‘ لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ وہ اور باتیں کون سی ہیں جو اس آیتِ کریمہ کے تحت جبر و اکراہ میں داخل ہیں۔ اور اگر داخل ہیں تو کس دلیل سے‘ جبکہ آیت اور اس کا سیاق (context) بتارہا ہے کہ اس سے مراد یہی ہے کہ کسی پر اسلام قبول کرنے کے لیے زبردستی نہ کی جائے۔مکمل آیت یہ ہے:
{لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْ تَّــبَـیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّـکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ج لَا انْفِصَامَ لَـہَاط وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۲۵۶)} (البقرۃ)’’دین قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں ہے‘ بے شک ہدایت گمراہی سے خوب واضح ہو چکی ہے‘سو جو شخص طاغوت کا انکار کر ے اور اللہ پر ایمان لے آئے‘ اس نے ایسا مضبوط دستہ پکڑ لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اور اللہ خوب سننے والا‘ بہت جاننے والا ہے۔‘‘
یہ آیت اپنے مفہوم پر اتنی واضح ہے کہ اس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے عدالت کے نوٹس کے جواب میں یہ بھی عرض کیا تھا: ’’جبر کے اس مفہوم کو سورۂ یونس میں مزید واضح فرما دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا:
{ اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(۹۹)} (یونس)

’’تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ ایمان لے آئیں۔‘‘
ہم سے عدالت نے اس مقدمے پر نظر ثانی کے حوالے سے اعانت طلب کی تھی۔ اس کے جواب میں ہم نے نو صفحات پر مشتمل ایک یادداشت مرتّب کر کے بھیجی تھی‘ لیکن اس میں جو نکات اٹھائے گئے تھے‘ ان کے بارے میں نظر ثانی فیصلے میں مندرجہ ذیل کلمات کے سوا کوئی تبصرہ موجود نہیں ہے:
’’پانچ اداروں کا مشترکہ موقف جناب مفتی سید حبیب الحق شاہ صاحب نے پڑھا‘ مگر اس میں بھی زور اس پہلو پر دیا گیا کہ عدالت نے معترضہ حکم نامے میں قرآن مجید کی آیات سے غلط استدلال کیا ہے۔‘‘ (پیراگراف: ۱۸)
فاضل جج صاحب کے نزدیک اس تحریر میں زور دیا گیا تھاکہ اس پہلو کی کوئی وضاحت یا اس اعتراض کو تسلیم کرنے کی بابت اس فیصلے میں کوئی بات نہیں ہے۔ حالانکہ اصل زور اس پر نہیں‘ بلکہ مقدمے میں قانون کے اطلاق پر تھا۔ صرف کونسل کے جواب میں یہ کہا گیا ہے: ’’سیاق و سباق کے ساتھ اس کا تعلق سمجھنے کے بجائے کونسل نے اپنی رپورٹ میں ان آیات کا حوالہ دینے کو بے محل قرار دیتے ہوئے کہا‘‘ (پیراگراف: ۱۷)۔
سوال یہ ہے: اگر عدالت کی رائے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے تمام ارکان اور وہ پانچ ادارے جن سے عدالت نے اعانت طلب کی تھی‘ ان آیات کے ساتھ مقدمے کے تعلق یعنی سیاق وسباق کو نہیں سمجھ سکے تھے‘ تو عدالت خود بتلا دیتی کہ ان آیات کا حوالہ اس مقدمے کے سیاق وسباق کے کس طرح مطابق تھا؟ لیکن یہ زحمت بھی گوارا نہیں فرمائی گئی اور اس مقدمے میں ان آیات کے بے محل حوالے سے شرعی احکام اور آئین کے خلاف جو غلط تاثر پیدا ہو رہا ہے‘ وہ جوں کا توں برقرار ہے۔
پیراگراف ۲۱ میں کہا گیا ہے: ’’پانچ اداروں کے مشترکہ موقف میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ جس تقریب میں ’’مسئول عنہ ‘‘ پر کتب کی تقسیم کا الزام تھا‘ وہ مدرسۃ الحفظ‘عائشہ اکیڈمی و مدرسۃ البنات کی تقریب تھی اور ان ناموں سے عام مسلمان دھوکے میں پڑ سکتے ہیں۔ کیا احمدیوں کے ادارے کے لیے ایسا نام رکھنے پر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۸سی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ سوال عدالت کے سامنے نہیں ہے‘ نہ ایف آئی آر میں مسئول عنہ پر یہ الزام ہے کہ یہ نام اس نے رکھے تھے۔‘‘
نوٹ: عدالت نے فیصلے میں ’’مسئول علیہ‘‘ لکھا ہے‘ صحیح لفظ ’’مسئول عنہ‘‘ ہے۔
نام رکھنے کا ذکر ہم نے دوسری باتوں سے ہٹ کر تنہا نہیں کیا تھا‘ بلکہ وہ افعال کے ایک مجموعے کا حصہ تھا۔ ہم نے لکھا تھا:
’’تفسیر کے نام سے جن تین کتابوں کا ذکر ہے‘ وہ متفقہ طور پر قادیانیوں کی ہیں۔ ان میں قرآن کریم کے اصل متن کے ساتھ خود ساختہ ترجمہ اور تفسیر کر کے معنوی تحریف کی گئی ہے۔ مثلاً: آخرت کے معنی مسلمانوں کے مسلّمہ عقیدہ کے مطابق اتنے واضح ہیں کہ اس کے ترجمے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی‘ لیکن نام نہاد ’’تفسیر صغیر‘‘ میں اس کی تشریح ’’آئندہ ہونے والی موعود باتوں (مسیح موعود)‘‘ سے کی گئی ہے۔ اس سے انہوں نے اپنے عقیدے کو قرآنِ کریم پر تھوپنے کی کوشش کی ہے کہ العیاذ باللہ! مرزا غلام قادیانی مسیحِ موعود تھا۔‘‘
نوٹ: اگر سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان اور ان کے معاون عملے کے پاس وقت نہیں ہے‘ تو ہم’’ تفسیر صغیر‘‘ میں مزید معنوی تحریفات کی نشان دہی کر سکتے ہیں۔
یہاں اصل مسئلہ یہ تھا: ان تحریف شدہ نام نہاد تفسیروں اور ترجموں کو پڑھانا دفعہ ۲۹۸ سی میں بیان کردہ جرائم خاص طور پرخط کشیدہ جملوںکے تحت داخل ہے یا نہیں؟ شکایت کنندہ کے نزدیک یہ اعمال دفعہ ۲۹۸سی کے تحت آتے ہیں‘ کیونکہ قرآنِ کریم کے عربی متن کے ساتھ تحریف شدہ ترجمہ اور من مانی تفسیر دوسروں کو پڑھانا اور اس کے لیے مدرسۃ الحفظ کے نام سے مدرسہ قائم کرنا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اور قادیانی عقائد کی تبلیغ وتشہیر میں داخل ہے‘ جبکہ مدرسہ مسلمانوں کی اصطلاح ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ زیر نظر مقدمے میں اس پہلو پر بحث کی جاتی‘ لیکن تفصیلی بحث کے بغیر معزز عدالت نے حتمی رائے قائم کر لی۔ یہ عدل کے فطری اصولوں کے خلاف ہے‘ کیونکہ ٹرائل کورٹ میں ابھی شہادتیں پیش کی جا رہی ہیں۔ ملزم کا نہ بیان ریکارڈ ہوا ہے اور نہ اس پر جرح ہوئی ہے اور یہ بحث بھی باقی ہے کہ شہادتوں کی روشنی میں ۲۹۸ سی کا جرم ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ٹرائل کورٹ سے پہلے سپریم کورٹ کو خود ہی کوئی فیصلہ کرنا تھا تو اس پہلو پر سپریم کورٹ میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے تھی۔ انصاف کے اس واضح تقاضے کے باوجود سرسری طور پر یہ کہہ کر اس دفعہ کو حذف کرنے کا حکم دے دیا گیا کہ اگر قرآنی احکام اور آئین کو مدّ ِنظر رکھا جاتا تو مقدمہ درج ہونا ہی نہیں چاہیے تھا‘ نیز ایف آئی آر‘ چالان اور فردِ جرم میں ایسے کسی فعل کا ذکر نہیں جو اس دفعہ کے تحت جرم ہوتا ہے‘ حالانکہ تینوں جگہ ایسے افعال کا ذکر ہے جو واضح طور پر دفعہ ۲۹۸ سی کے تحت آتے ہیں۔
نیز دفعہ ۲۹۵ بی کے بارے میں ہم نے لکھا تھا: ’’اس دفعہ کو حذف کرنے کے لیے بھی اس بات پر بحث کرنے کی ضرورت تھی کہ معنوی تحریفات پر مشتمل ایک کتاب کو قرآنِ مجید کہہ کر پڑھانا اور اس کے ٹائٹل پر ایک غیر مسلم کو بطور مترجم ’’خلیفۃ المسیح رضی اللّٰہ عنہ‘‘ کہنا اس دفعہ کے اطلاق کے لیے کافی ہے‘ کیونکہ ’’خلیفۃ المسیح‘‘ اور ’’رضی اللّٰہ عنہ‘‘ اسلامی اصطلاحات ہیں۔ پس سوال تو پیدا ہوتا ہے: اس دفعہ کے تحت قرآنِ کریم کی تحریف یا بے حرمتی یااُسے غیر قانونی مقصد کے لیے استعمال کرنا کہلائے گا یا نہیں؟‘‘ اس کی تشریح کی بابت فیصلہ خاموش ہے۔ الغرض تمام خدشات سے مکمل صَرفِ نظر کر کے صرف ایک مدرسے کے نام کی بابت جواب دے دینا کہ یہ مسئلہ ہمارے سامنے نہیں ہے‘ انصاف کے تقاضوں کو کس طرح پورا کر سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے: ہم نے ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ کے فیصلے سے نہ انحراف کیا ہے‘ نہ کر سکتے تھے ۔جہاں تک اس جملے کا تعلق ہے : ’’ہم نے انحراف نہیں کیا‘‘‘ یہ ایک واقعے کا بھی سوال ہے‘ جس سے کوئی بھی شخص یہاں تک کہ ماتحت عدالتیں بھی اختلاف کر سکتی ہیں۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے: اس فیصلے کا پیراگراف ۴۲ قانون‘ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے اور ’’ظہیر الدین بنام ریاست‘‘ تینوں سے متصادم ہے۔ البتہ اس فقرے کا دوسرا حصہ: ’’ہم انحراف نہیں کر سکتے تھے‘‘ ایک قانون کا سوال ہے اور یہ بات درست ہے۔ لہٰذا جیسے اوپر عرض کیا گیا ہے‘ واقعے کے سوال کے بارے میں قانون اور مذکورہ بالا دو فیصلوں ہی کو برتری حاصل ہے۔
نظر ثانی فیصلے کے پیراگراف۶ میں ایک بار پھر یہ بحث چھیڑی گئی ہے‘ جس کا جواب ہم عدالتی اعانت کے لیے اپنے سابق موقف میں دے چکے تھے‘ وہ یہ کہ آئین کا آرٹیکل ۱۲ (۱) کہتا ہے: ’’قانون کسی ایسے شخص کو سزا دینے کا اختیار نہیں دے گا:
(ا) کسی ایسے فعل کے ارتکاب یا ترک پر جو اس فعل کے ارتکاب یا ترک کے وقت قابلِ سزا جرم نہیں تھا۔
(ب) کسی جرم کے ارتکاب یا ترک پر ایسی سزا دینا جو ارتکابِ جرم کے وقت نافذ العمل سزا سے زیادہ ہو۔‘‘
یعنی کوئی قانون مؤثر بہ ماضی (retrospective) نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواب ہم معترضہ فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے دے چکے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ اسے پڑھے اور سمجھے بغیر نظر ثانی فیصلے میں دوسری بار اسی غلطی کا اعادہ کر دیا گیا ہےکہ ۲۰۱۹ء کے قانون میں قابلِ اعتراض کتاب کے طابع‘ ناشر یا ریکارڈ رکھنے والے اور مرتب کو مجرم قرار دیا گیا تھا‘ جبکہ بعد کو۲۰۲۱ءکے قانون میں تقسیم کنندہ (disseminator) کو بھی مجرم قرار دے دیا گیا تھا‘ تو عدالت کی نظر میں مبارک ثانی پر۲۰۲۱ء کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کی بابت ہم نے لکھا تھا:
’’اگر جرم وقتی نوعیت کا تھا‘ جس کا ارتکاب کیا گیا اور قصہ ختم ہوگیا تو یقیناً مابعد قانون کا اس پر اطلاق نہیں ہو گا۔ لیکن جرم اگر ایسا ہے کہ نئے قانون کی آمد کے وقت بھی جاری ہے تو یقیناً مابعد قانون کا بھی اس پر اطلاق ہوگا۔ کیا عدالت نے اس بات کی تحقیق کر لی تھی کہ نئے قانون کی آمد کے وقت وہ شخص جرم سے دست بردار ہو چکا تھا یا اس کتاب کی تقسیم روک دی گئی؟ یہ کام اپیلٹ کورٹ کا نہیں بلکہ ٹرائل کورٹ کا ہے۔ اور ٹرائل کورٹ میں تو ابھی مجرم کا بیان ریکارڈ ہوا تھا اور نہ اس پر جرح ہوئی تھی‘ تو سپریم کورٹ نے یہ رائے کیسے قائم کرلی؟
اس پیرا گراف میں النساء:۲۳ سے بھی غلط استدلال کیا گیاہے۔ وہاں محرماتِ نکاح کا بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’ماضی (زمانۂ جاہلیت) میں جو ہو چکا‘سو ہو چکا‘ اُن سے ہونے والی اولاد صحیح النسب قرار پائے گی‘ لیکن حرمت ِنکاح کی آیت نازل ہوتے وقت اگر کسی کے نکاح میں بدستورصُلبی بیٹے کی مطلقہ بیوی یا بیک وقت دو بہنیں نکاح میں ہیں‘ توصُلبی بیٹے کی مطلقہ بیوی اور اس شخص میں فوراً تفریق کر دی جائے گی اور دو بہنوں میں سے ایک کو چھوڑنا ہو گا۔‘‘ الغرض اگر محرمات سے سابق نکاح بدستور قائم ہے تو حرمت نکاح کے اس قرآنی حکم کا لازماً اس پر بھی اطلاق ہو گا۔
نوٹ: ہم بصد ادب علمائے کرام اور خطبائے عظام سے گزارش کرتے ہیں کہ ختم نبوت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے‘ اس پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا عدالتی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں متانت‘ وقار اور اسلامی اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے۔تہذیب سے گری ہوئی گفتگو اور گالی گلوچ سے حاملین دین کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور یہ ہمارے عظیم ترین مقصد کے لیے نقصان دہ ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی
صدر
جامعہ دارالعلوم کراچی

مفتی منیب الرحمٰن
رئیس دار الافتاء و مہتمم
دار العلوم جامعہ نعیمیہ کراچی
تصدیقات و توثیقات
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
مہتم و شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس ملتان

مولانا یٰسین ظفر
ناظم اعلیٰ‘ جامعہ سلفیہ فیصل آباد
مولانا عبدالمالک
صدر رابطۃ المدارس الاسلامیہ


علامہ مفتی محمد الیاس رضوی اشرفی
علامہ سید مظفر شاہ قادری

علامہ رضوان احمد نقشبندی
صاحب زادہ ریحان امجد نعمانی

علامہ مفتی عابد مبارک مدنی
علامہ احمد علی سعیدی

علامہ لیاقت حسین اظہری
علامہ مفتی ندیم اقبال سعیدی

علامہ حافظ عبداللہ ضیائی
علامہ صابر حسین نورانی

علامہ مفتی محمد عبداللہ نورانی
علامہ قاری عبدالقیوم محمود

علامہ حافظ محمد اویس نقشبندی
علامہ محمداشرف گورمانی

علامہ مولانا رفیع الرحمٰن نورانی
علامہ حافظ عبداللہ نورانی

علامہ احمد ربانی افغانی
علامہ سید ریاض حسین اشرفی

علامہ بلال سلیم قادری