اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہودمحمود الحسن عالمی
’’ناطوری کارتا‘‘(Neturei Karta)یہودیوں کا وہ مذہبی مکتب ِفکر ہے جو قیامِ اسرائیل ۱۹۴۸ء سے آج تک نہ صرف ریاست و حکومت اسرائیل کا سخت مخالف ہے‘بلکہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے تقریباً عین وہی موقف رکھتا ہے جو پوری اُمّت ِمسلمہ کا ہے۔یعنی مسلمانوں کا نہ صرف یروشلم‘مسجد اقصیٰ و گنبد صخرہ پر حق ہے بلکہ تمام فلسطینی مسلمان اُس ساری سرزمین پر بھی حق ملکیت رکھتے ہیں کہ جو تقسیم فلسطین سے پہلے اپنی وسیع سرحدی حدبندیوں کے ساتھ قائم ودائم تھی۔
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ناطوری یہود کایہ موقف اپنے فکری پس منظر میں دو بنیادی عقائد رکھتا ہے۔اول یہ کہ اِس فرقے کے مذہبی عقیدے کے مطابق یہودی مذہبی کتب کی مستند آیات و اقوال سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہودی مسیحا کے آنے سے پہلے کسی بھی سطح پر یہودیوں کا ایک نظم قائم کرتے ہوئے یہودی ریاست بنانا حرام ہے کیونکہ خدا نے قرب قیامت میں مسیحا کی آمد سے پہلے تک یہودیوں کے مقدر میں بطورِ سزا در بدر کی خاک نشینی لکھ دی ہوئی ہے۔لہٰذا اِسی مقدمے کی بنیاد پر صہیونیت نواز مملکت ِیہود ’’اسرائیل‘‘ کا قیام خداوند یکتا کے خلاف اعلانِ جنگ‘ نافرمانی اور صریح بغاوت ہے۔
دوم یہ کہ یہ یہودی فرقہ اسرائیلی حکومت و اقتدار کی حامل قومی تحریک ’’صہیونیت‘‘ (Zionism)کا بھی سخت نظریاتی مخالف اور عملی دشمن ہے۔ یہودی مذہبی کتب کی تعلیمات کی روشنی میں صہیونیت کو سرے سے مذہب ِیہودیت سے خارج و مرتد سمجھتا ہے۔ صہیونی اسرائیل کی طرف سے کیے جانے والے مظالم اور پورے صہیونی مکتب کی سخت ترین مذمت کرتا ہے۔ مختلف ذرائع جیسے اسرائیل مخالف اسلامی ممالک خصوصاً ایران و عرب کے مسلم رہنماؤں سے ملاقاتوں‘ پریس کانفرنسز ‘ لیکچرز ‘ انٹرویوز ‘ کتب و مضامین ‘ مغربی ممالک میں پُرزور احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کے ذریعے پُرزور عملی مزاحمت بھی کرتا ہے۔ان میں خصوصاً ’’ بین الاقوامی کانفرنس برائے تجزیہ ہولوکاسٹ : عالمی نقطہ نظر ۲۰۰۶ء ‘‘اور ۲۰۲۳ء میں فلسطینی اسلامی جہاد (پی آئی جے) کے ممتاز عہدیداروں اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے اہل خانہ سے ملاقاتیں قابلِ ذکر ہیں۔ ان تمام تر ملاقاتوں اور کانفرنسز کے ردّ ِعمل کے طور پر اسرائیلی حکومت نے ناطوری یہود کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کی ہیں۔ مغربی ممالک میں احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے اسرائیلی ایامِ مظالم سے اسرائیل کے یوم آزادی تک صہیونیت مخالف نعرے ‘ تقریریں اور اسرائیلی و صہیونی نمائندہ پرچموں کو جلانا خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔سوشل میڈیا کے حوالے سے یوٹیوب ‘ فیس بُک ‘ انسٹا گرام اور ٹویٹر وغیرہ پر ’’ناطوری کارتا‘‘ نامی پلیٹ فارمز خصوصاً گوگل آفیشل ویب سائٹسhttps://www.nkusa.org/ قابلِ توجّہ ہے۔
’’ناطوری کارتا‘‘کی بطورِ ایک باقاعدہ عالمی تحریک کے بنیاد یہودی ربی ’’عمرام بلاؤ‘‘ اور ’’ہارون کٹزینی لبوگن‘‘ نے۱۹۳۸ء میں رکھی تھی۔تب سے آج تک یہ اپنے اسرائیل و صہیونیت مخالف ایجنڈے اور سرگرمیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں مصروفِ عمل ہے۔ ناطوری یہود کے ارکان پوری دنیا بالخصوص اسرائیل ‘ امریکہ ‘ برطانیہ اور اہم یورپی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔اِن کی درست تعداد کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مختلف ممالک میں منتشر ہونے کے باعث کبھی اِن کی باقاعدہ مردم شُماری ہی نہیں ہو پائی۔ البتہ ناطوری کارتا اپنے ارکان کی تعداد اچھی خاصی بتاتے ہیں اور یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیلی اور مغربی ذرائع ابلاغ ان کے نقطہ نظر کو دبانے کے لیےجان بوجھ کر اِن کی تعداد کو کم دکھاتے ہیں۔
’’ناطوری کارتا یہود‘‘ نے اپنی ویب سائٹ پر سوال و جواب پر مبنی انٹرویوز کو مضامین کی شکل میں شائع کیا ہوا ہے۔ان میں چند بنیادی اور اہم معلومات کا اُردو ترجمہ پیش ہے:
٭ آپ کون لوگ ہیں ؟
ہم وہ بنیاد پسند یہودی ہیں جو اصل یہودی قدیم عقائد اور تورات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
٭ آپ کا مقصد کیا ہے؟
ہمارا مقصد دنیا کو اُس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے جو ہر کوئی نہیں جانتا۔ یہ حقیقت کہ اصل یہودیت صہیونیت کے تصور اور صہیونی ریاست دونوں سے ہرگز متفق نہیں ہے۔یہودیت اور صہیونیت ایک دوسرے سے ایسے ہی متضاد ہیں جیسے دن اور رات۔
٭ کیا یہ سچ ہے کہ سر زمین مقدس ( یعنی فلسطین ) کے حوالے سے ناطوری کارتا نامی عالمی تنظیم فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتی ہے؟
بالکل! ہمارا جواب واضح طور پر ’’ہاں‘‘ ہے‘البتہ اس جواب کے سلسلے میں کچھ پیشگی وضاحت درکار ہے۔ ہم بنیادی طور پر ایک صہیونیت مخالف بنیاد پسند تنظیم ہیں‘ لہٰذاہمارا صہیونیت کے ساتھ تنازعہ بھی کئی سطحوں پر ہے:
(i) صہیونیت اصل یہودی مذہب و روحانیت سے یہودی وطن پرستی اور مادیت پرستی کی طرف نظریے کی منتقلی کا نام ہے۔
(ii) صہیونیت نے فلسطینی عوام کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک برتتے ہوئے سنگین اخلاقی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
(iii) خداوند یکتا نے ہمیں یہودی مسیحا کے آنے تک جلا وطنی کا حکم دیتے ہوئے یہ پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اب دوبارہ کوئی یہودی ریاست بنانا ہم پر عین حرام ہے۔
(iv) ’’نظریۂ صہیونیت خدائی آزمائش و سزا سے بغاوت کرتے ہوئے سرزمین فلسطین پر یہودی ریاست کا قیام عمل میں لاتا ہے۔اِسی بات سے یہ اندازہ لگائیے کہ خدائی نافرمانی و بغاوت کے مرتکب اِس صہیونی گروہ کی اخلاقی اقدار کیا ہوں گی کہ انہوں نے یہودیوں کی جلاوطنی کے الہامی حکم کو محض چند دنیاوی مفادات کی خاطر کچل ڈالا۔
(v) صہیونیت نے اصل یہودی روایتی عقائد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔
٭ آپ کس چیز کی وکالت کرتے ہیں؟
ہم بغیر کسی سمجھوتے و مصالحت پسندی کے’’اسرائیل‘‘ کی ریاست کا پُرامن خاتمہ چاہتے ہیں کہ جب ایک بار ایسا ہو جائے تو پھر یہ فیصلہ ہم مکمل طور پر فلسطینی رہنمائوں اور عوام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ یہاں کتنے یہودیوں کو رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔
٭ کیا آپ اس امر سے خوف زدہ نہیں کہ اِس تجویز سے سرزمین مقدس پر رہنے والے یہودیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ہمیں اس کا اندازہ ہے ‘ لیکن موجودہ مایوس کن صورت حال کا کوئی اور حل ممکن نہیں۔ ہماری اپنی ہی آستینوں کے سانپ اِن صہیونی یہودیوں نے تقریباً سات دہائیوں میں متعدد جنگوں اور نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کے ذریعے بے گناہ شہریوں کو مارنے کے باوجود مسئلہ فلسطین کو نہیں سلجھایا ۔ دائیں اور بائیں دونوں اطراف کے سیاست دان اس صورت حال کو سنبھالنے میں انتہائی برے طریقے سے ناکام رہے ۔لہٰذا ہم اِن کی اِسی ناکامی کے پیشِ نظر یہ متبادل حل پیش کر رہے ہیں ‘جو بے شک اسرائیل کے عام یہودیوں کے لیے عارضی طور پر ایک الم ناک تجربہ ہوسکتا ہے۔
٭ کیا یہودی ایک الگ وطن کے مستحق نہیں ہیں ؟
ہرگز نہیں! تقریباً ایک ہزار نو سو سال تک یہودی مذہب کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ ہمیں کسی بھی قسم کی عسکری قوت کے ذریعے کسی بھی خطہ ٔ زمین پر ملکیت کا دعویٰ ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ یہودیوں کا یہ ایمان تھا کہ قرب قیامت میں جب خالق کائنات تمام نوعِ انسانی کی نجات کا ارادہ فرمائے گا تو سب انسان اِس کی عبادت میں شریک ہوجائیں گے۔لہٰذا اِس عبادت کے اہتمام میں ہمیں کسی بھی قسم کے لوگوں کو بے دخل کرنے یا محکوم بنانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔یہی وہ وقت ہوگا کہ جب سرزمین مقدس’’فلسطین ‘‘میں عالمی بھائی چارے کا ایک روحانی مرکز قائم ہوگا۔ اُس وقت سے پہلے یہودیوں کو اپنی جلا وطنی کے عرصے میں خاص اعمال سونپے گئے ہیں۔
٭ وہ خاص اعمال کیا ہیں ؟
یہی کہ یہودی اپنے پورے ایمان و خلوص کے ساتھ اپنی جلاوطنی کا اقرار کرے اور اپنے قول و فعل سے خاموشی و انکساری کی روش اپنائے۔اخلاقی اور روحانی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے اور اکثر تورات کی تلاوت کرتے ہوئے خداوند یکتا کے حضور بندگی بجا لائے۔ نمازیں پڑھے اور دیگر نیک اعمال انجام دے۔
٭ آپ نے اس مقصد کے لیے کیا کیا کوششیں کی ہیں؟
خداوند قادر مطلق کی مدد و نصرت سے ہم نے فلسطینی دعوئوں کی حمایت اور اُن کے دکھ درد میں اظہارِ ہمدردی کے لیے کئی بیانات شائع کیے ہیں۔ہم اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج میں ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ شریک ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں خصوصی طور پر یہودی اور اسلامی دنیا میں عوامی رابطے برقرار رکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں‘تاکہ خداوند قادر مطلق کی مدد سے عملی طور پر یہودیوں کی مقدس روایات اور صہیونیت مخالف تورات کو فراموش نہ کیا جاسکے۔ہم خداوند یکتا سے اُمید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں تورات کی صحیح تعلیمات پر مبنی راستے کا دوبارہ احیاء ہوجائے گا۔
٭ امن و امان کے قیام کے لیےاوسلو معاہدے‘سڑکوں کے نقشے اور انیپولس معاہدے کو آپ کس زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟
مصیبت زدہ فلسطینیوں کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی مدد اُس اخلاص کا ثبوت ہے کہ جس کا حامل ہر یہودی کو ہونا چاہیے۔ تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام تر منصوبے نیک نیتی پر مبنی ہونے کے باوجود عملی طور پر مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کرتے۔ یہودیوں کو سرزمین مقدس پر سیاسی حاکمیت کے حوالے سے زور آزمائی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔تمام انسانوں کے ساتھ امن و امان قائم رکھنے اور کسی بھی انسان پر ظلم کرنے سے منع کیا گیا تھا۔لہٰذا اِن احکام کی روشنی میں تمام یہودیوں پر لازم ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل بحالی کرتے ہوئے سارے فلسطین کو آزاد کر دیں ۔یہی آزادی صہیونی تحریک کی بد نامی اور عملی ناکامی کا مقدر بنے گی۔
٭ اسلامی دنیا کے لیے یہودی نقطہ نظر کیا ہونا چاہیے؟
یہودیوں کو تمام انسانوں کے ساتھ اخلاق اور ایمان داری کے ساتھ نمٹنے کے لیے کہا گیا ہے۔ صہیونیت نے بہت سے یہودیوں کو فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت پر مبنی کارروائیوں کے حوالے سے گمراہ کیا ہے۔ لہٰذا تمام یہودیوں کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ اس صورت حال کی اصلاح کے پیش نظر تمام اسلامی دنیا بالخصوص فلسطینی عوام سے امن ‘ مفاہمت اور مذاکرات کے لیے رابطے قائم کریں۔ یہ امر یہودیوں کے لیے ایک عظیم روحانی آزمائش کا درجہ رکھتا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کتنے اچھے تعلقات قائم کر کے دکھاتے ہیں۔
٭ حقیقت پسندی کے تناظر میں یہ بتائیے کہ کیا آپ کے اِس سارے پروگرام پر عمل درآمد کا کوئی امکان بھی ہے؟
اوّل تو یہ کہ بےشک خالق کائنات ہی اِس دنیا کو چلاتا ہے‘ پس اُسی کی حمایت و نصرت کے ساتھ سب کچھ ممکن ہے کہ آخر کار حق و انصاف غالب آ جائے۔ دوم یہ کہ دنیا بھر کے یہودیوں میں اسرائیلی ریاست اور صہیونیت دونوں کے لیے بالعموم بے زاری اور تھکن کے شدید احساسات و جذبات پائے جاتے ہیں۔بہت سے یہودی سمجھتے ہیں کہ روحانی و اخلاقی سطح پر صہیونیت کی پیروی کے اصول انہیں ایک کڑی اذیت میں مبتلا کر رہے ہیں‘لہٰذا وہ کسی دوسرے برحق راستے کے لیے در بدر بھٹک رہے ہیں۔ درحقیقت یہ وہی راستہ ہے کہ جو ہمارا لائحۂ عمل ہے۔ہمارا راستہ تیزی سے ایک معقول دلیل کے طور پر اُبھر کر سامنے آرہا ہے۔ وہ دن اب زیادہ دور نہیں‘ اور خالق کائنات سے ہم یہ دعا اور اُمید رکھتے ہیں کہ جب نہ کسی یہودی کا خون بہایا جائے گا اور نہ ہی کسی عرب کا۔ہم اُس دن کے انتظار میں تڑپ رہے ہیںجب یہودیوں کو یہ احساس ہوگا کہ ان کے لیے امن و امان کا واحدراستہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے تفویض کردہ اخلاقی و روحانی اعمال کی طرف لوٹنا ہی ہے۔اخلاقیات‘سلامتی و ایمان داری کے حصول کے لیے انہیں خالق کائنات کی شرک سے بالکل پاک عبادت اور عقیدت اختیار کرنا ہو گی۔ بالآخر ہم یہی چاہتے ہیں اور اُس دن کے لیے دعاگو بھی ہیں کہ جب سارے عالم میں ہمیں وحدت کا منظر دکھائی دے اور تمام اقوام عالم پورے خلوصِ دل کے ساتھ ایک ہوجائیں۔زبور مقدس میں فرمایا گیا ہے:’’تمام قومیں اور حکومتیں مل کر حق تعالیٰ کی عبادت کے لیے جمع ہوں گی۔‘‘ (۲۳:۱۰۲)۔خدا ہم سب کو یہ دن جلد دکھائے۔آمین!
٭ صہیون کیا ہے اور صہیونیت سے کیا مراد ہے؟
صہیون (Zion)تورات میں یروشلم کے لیے استعمال ہوا ہےجبکہ صہیونیت (Zionism) وہ اصطلاح ہے جسے۱۸۹۰ء کی دہائی میں قائم ہونے والی غیر مذہبی یہودیوں کی ایک تحریک نے اپنایا۔اِس تحریک کا مقصد یہودیت کے معنی کو بدلنا اور یہودی تاریخ کے دھارے میں انقلاب لانا تھا۔ یہودیت کو روحانیت‘ مذہب اور تقدس سے دور کر کے مادیت پسندی اور قوم پرستی کی طرف لے جانااور خداوند مطلق کو اپنی عملی زندگی سے مکمل طور پر نکالنا تھا۔ انہوں نے یہودیوں کی جلا وطنی کے مسئلے کے لیے بدعت پر مبنی ایک عسکری اور سیاسی حل پیش کیا اور پھر فلسطین کی مسلم آبادیوں کے حقوق کی پرواہ کیے بغیر بڑے پیمانے پر یہودیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کردیا۔فلسطینی مسلم آبادیوں کی بیح کنی کے لیے فوجی حکمت عملی سے کام لیا گیا۔حتیٰ کہ یہ جھوٹا دعویٰ تک کر ڈالا کہ صرف اُن کی تحریک یعنی صہیونیت پر قائم رہنا ہی یہودی ہونے کا معیار ہے۔اگر کوئی اس تحریک سے بغاوت کرے گا تو وہ یہودی قوم اور یہودیت دونوں سے بغاوت کا مرتکب ہوگا ۔یعنی اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی شخص خداوند یکتا اور اس کی تورات پر ایمان رکھتا ہے کہ نہیں ! فرق بس اِس سے پڑتا ہے کہ وہ صہیونیت سے وفادار ہے کہ نہیں!
۱۹۴۸ءمیں صہیونیوں نے اپنا مقصد حاصل کرتے ہوئے فلسطین میں ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور تقریباً ۰۰۰ ۷۵۰, فلسطینیوں کو یوں اکھاڑ پھینکا گیا کہ ان کی زمینیں تک ضبط کرلی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت صہیونیوں کے ہاتھوں ۱۲۰۰۰ کے قریب عرب ہلاک ہوئے‘ کئی فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ظلم و بربریت کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ اُس وقت کے ایک فوجی کمانڈر موشے دایان نے عرب فلسطینیوں کو اُن کے گاؤں سے نکالنے کے لیے گھروں کو بلڈوز کرنے‘ پانی کے کنوؤں کو ٹائفس اور پیچش جیسے مہلک امراض کے جراثیموں کے ساتھ ناقابلِ استعمال بنانے کا حکم دے دیا۔
دوسرے ممالک سے آئے یہودیوں کو صہیونی نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے برین واشنگ کی گئی۔ یہودیوں کو اِس بات پر قائل کیا گیا کہ ان کی جلاوطنی کو فوجی طاقت سے ختم کیا جاسکتا ہے۔انہیں خوف زدہ کیا گیا کہ نازیوں کی طرح عرب بھی یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں سمندر میں غرق کردیں گے۔ یوں دوسرے ہولوکاسٹ کا فوبیا پھیلایا گیا۔
خداوند یکتا کا شکر ہے کہ یہودیوں کا ایک اہم طبقہ صہیونیت کا شکار نہیں ہوا ۔ وہ تورات کے قوانین کو برقرار رکھتے ہوئے صہیونیت اور ریاست ’’اسرائیل‘‘ کی مکمل مخالفت میں ثابت قدم ہے۔آج تک فلسطین پر صہیونیوں کا قبضہ جاری ہے۔ ان کی پالیسیوں نے اسرائیل کو پوری دنیا میں تنہا کر دیا ہے۔ صہیونیت آج عالمی سطح پر سامیت دشمنی(یہود دشمنی) کو بڑھانے کا سب سے بڑا محرک ہے۔
٭ اگر واقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک زوردار تحریک چلنی چاہیے تھی۔ اس کے بجائے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے یہودی اور بالخصوص ربی (علمائے یہود) بھی صہیونیت کی حمایت کرتے ہیں؟
درحقیقت دوسری جنگ عظیم(۱۹۳۹ء) سے قبل صہیونیت کے خلاف مذہبی یہودیوں نے ایک تحریک برپا کی تھی۔ تقریباً تمام ربی اور ان کے پیروکار صہیونیت کی مخالفت میں نہایت سرگرم تھے۔بدقسمتی سے اِن میں سے اکثر یہودی سانحۂ ہولوکاسٹ میں مارے گئے۔ زندہ بچ جانے والے یہودی تنہا ‘ یتیم اور بے سہارا ہو کر صہیونیت کے سراب میں اُلجھنے لگے۔نیز یہ کہ ایک طویل جنگ نے صہیونیت کے بعض مخالفین کوبھی اِس خوف میں مبتلا کر دیا تھا کہ یہودیوں کی جان بچانے کے لیے شاید فلسطینیوں کے خلاف جنگ و جدل کی حمایت کرنا ضروری ہے۔
٭ جنگ عظیم دوم کے سانحۂ ہولوکاسٹ سے پہلے مذہبی یہودیوں کا صہیونیت پر کیاردّ ِعمل تھا؟
شروعات ہی سے تقریباً تمام بنیاد پسند علمائے یہود اور اُن کے پیروکاروں نے صہیونی تحریک کی شدید مذمت کی ہے‘کیونکہ یہ تحریک ہر اُس چیز کو اکھاڑ پھینکنے آئی تھی جس کی جڑیں یہودیت سے وابستہ ہیں۔صہیونیوں نے یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ سرزمین مقدس پر یہودیوں کی بہتر زندگی کے لیے کوشاں ہیں‘ لیکن ہمارے ربیوں نے اِس فریب ِنظر سے بچتے ہوئے صہیونیت کو ایک ایسی مسیحی اور تورات مخالف تحریک کے طور پر فوراً پہچان لیا جو عالمی سطح پر یہودیوں کے بین الاقوامی تعلقات کو خطرے میں ڈالے گی۔ایک ایسی بنیاد پسند یہودی برادری صدیوں سے فلسطین میں موجود تھی کہ جس کے ربی خاص طور پر صہیونیت کی شدید مذمت کرتے تھے۔ اِس برادری کے یہودیوں نے فلسطینی عربوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ صہیونیت آخر کاراس دوستی کو ختم کر دے گی۔ وہ مقدس سرزمین کی اس بے حرمتی پر بھی خوف زدہ تھے جو غیر مذہبی صہیونیوں کی بڑی تعداد میں آباد کاری کا نتیجہ تھی۔
اِس ساری صورتِ حال کے پیش نظر مختلف ممالک کے یہودی علماء نے باہمی ملاقاتیں کیں کہ اب کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ صہیونیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے روس ‘ پولینڈ اور جرمنی میں’’اگوداتھ اسرائیل‘‘ نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ آسٹریا اور ہنگری کے بنیاد پسند ربیوں نے اپنے پیروکاروں کو صہیونی تحریک میں شامل ہونے سے منع کیا۔فلسطین میں یروشلم کیEdah Hachareidis صہیونی قومی کونسل کے متبادل کے طور پر قائم کی گئی اور ایک آزاد کابینہ کی بنیاد رکھی گئی۔
تاہم دوسری جنگ عظیم(ہولوکاسٹ) میں یورپی یہودیوں کی تباہی کے بعد صہیونیوں نے مذہبی یہودیوں کو اپنی تحریک میں پھنسانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔جو بنیاد پسند علمائے یہود اور فرقے بچ گئے تھے ‘اُن کا صفایا کر دیا گیا۔ زندہ بچ جانے والے خود کو بے دفاع اور کمزور محسوس کرنے لگ گئے۔یوں’’یہودی لوگوں کا دفاع‘‘ نعرے سے ایک صہیونی ریاست کے قیام کی طرف پیش قدمی ہوئی۔ مزید برآں صہیونیوں نے یہودی عوام کے اندر اپنی مخالفت کو کچلنے کے لیے وحشیانہ طریقے استعمال کیے۔۱۹۲۴ء میں انہوں نے ڈاکٹریاکوف یسروئیل ڈیہان کو قتل کر دیا‘ جو کہ یروشلم کی صہیون مخالف تنظیم کےسپیکر اور سفارت کار تھے۔ یہودیوں کے پُرامن مظاہروں کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا‘ اور ایک جلسے کے دوران ربی پنچاس سیگیلوف کوسرعام قتل کر دیاگیا۔۱۹۴۸ء میں‘ انہوں نے یروشلم میں کئی دہائیوں سے آباد ربیوں پر گولیاں چلائیں جو اردنی فوجیوں کے ساتھ صلح کرنے کے لیے نکلے تھے۔ ربی عمرام بلاؤ (۱۸۹۴ء۔۱۹۷۴ء) یروشلم میں ایک ممتاز صہیونی مخالف رہنما تھے جنہیں اپنی جدّوجُہد کے دوران کئی بار قاتلانہ حملوں کا سامنا ہوا ۔آخرکار انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
اِن سب مظالم کو سہنے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں بہت سے ایسے یہودی مذہبی فرقے‘ تنظیمیں اور تورات کے مدارس باقی ہیں جن میں اصل یہودی عقیدے کی تعلیم دی جاتی ہے اور صہیونیت کی مذمت کی جاتی ہے۔ صہیونیت مخالف یہودیوں نے امریکہ‘ فلسطین اور دیگر ممالک میں صہیونی حکومت اور اس کے فیصلوں کے خلاف بے شمار مظاہرے کیے ہیں۔ ان کے بہادر رہنما صہیونیوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور مظلوموں کی آواز کو آج تک خاموش نہیں ہونے دے رہے۔اسرائیلی ریاست اور دیگر جگہوں پر یہودیوں کے ایسے بڑے گروہ وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ جو صہیونی یوم آزادی نہیں مناتے‘ صہیونی پرچم نہیں لہراتے اور صہیونی فوج میں خدمات انجام نہیں دیتے۔
٭ آپ کے علم میں ہے کہ ہولوکاسٹ ہوا تھا۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہودیوں کو اپنی حفاظت کے لیے کسی قسم کی قوت کی ضرورت ہے ؟
اوّل‘ کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ صہیونی اُن جرمن نازیوں سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ جن کو شکست دینے کے لیےپانچ بڑی عالمی قوتوں یعنی امریکہ ‘ برطانیہ ‘ فرانس ‘ روس اور چین کو چھ سال لگ گئے تھے ؟
دوم‘ اصل سوال یہ ہے کہ کیا صہیونی ہولوکاسٹ کے دوران واقعی یہودیوں کی حفاظت کرنا چاہتے تھے‘ جب کہ وہ یہودیوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی سکت بھی رکھتے تھے؟مثال کے طور پر وہ اتحادیوں پر کچھ اِس طرح کا دبائو ڈال سکتے تھے کہ ان کی افواج یہودی قتل گاہوں پر بمباری کریں۔لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ یہودیوں کو نازیوں کے ظلم سے بچانے کے لیے مالی مدد فراہم کرنے سے بھی مکمل طور پر انکار کر دیا۔ کچھ واقعات میں تو صہیونیوں کے نازیوں کے ساتھ تعاون کے بھی واضح ثبوت ملتے ہیں۔یہ ثبوت دستاویزات‘ پمفلٹس اور کتب کی شکل میں ناطوری یہود کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
سوم‘ ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی حماس‘ حزب اللہ اور اِس جیسی دیگر کمزور تنظیموں سے بھی اپنا دفاع نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر وہ جرمنی جیسے طاقتور ملک کے خلاف یہودیوں کی حفاظت کیسے کرسکتے تھے ؟
چوتھی بات یہ کہ اگر دنیا میں کہیں یہود دشمنی پھیلتی ہے تو صہیونی اِس جگہ ان کی مدد کو نہیں پہنچتے۔ وہ اِس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اوراپنی مظلومیت کا رونا روتےہوئے خوب پروپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ غیر اسرائیلی یہودیوں کو اسرائیلی ریاست میں پناہ ملنے کی ترغیب مل سکے۔
پانچویں بات یہ کہ سیاسی صہیونیت کے بانی(تھیوڈور ہرزل) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’نئی یہودی ریاست کے قیام کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہود دشمنی کی آگ کے الاؤ کو روشن کیا جائے اور اسے یہودیوں کے پاؤں تلے رکھ دیا جائے‘ تاکہ وہ اُس سرزمین کی طرف بھاگیں جو صہیونیوں کو ملے گی۔‘‘یہ بالکل وہی حربہ ہے‘ جس کے ذریعے ہولوکاسٹ عمل میں لایا گیا‘ لیکن آج وہ اسے اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہودی صہیونیوں کے تحفظ کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔ صہیونیوں کے حصولِ اقتدار سے پہلے یہودی دنیا میں عام طور پر امن سے رہ رہے تھے‘ جبکہ آج ان کی ریاست دنیا کی اُن چند جگہوں میں شمار کی جاتی ہے جہاں مسلسل تشدد ہو رہا ہے۔ صہیونی اپنی ریاست کے علاوہ بھی باقی دنیا میں بھرپور شر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعے پر چیخ چیخ کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہودیوں کو تحفظ کے لیے اُن کی نام نہاد پناہ میں آ جانا چاہیے۔
٭ کیا آپ اِس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ دنیا میں یہود دشمنی ہے‘ مثال کے طور پر ایران میں؟
’’ ایران میں یہود دشمنی ہے‘‘ بھی خالصتاً صہیونی پروپیگنڈاہے۔ ایران میں یہودیوں کو خاص مراعات حاصل ہیں‘ حتیٰ کہ مذہب کے معاملے میں بھی۔ مثال کے طور پر‘ یہودیوں کو کدوش(مذہبی عبادت) کے لیے شراب بنانے کی اجازت ہے‘ حالانکہ شراب مسلمانوں میں مطلقاً حرام ہے۔ پس اگر کہیں بھی یہود دشمنی ہوتی ہے تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ صہیونی اسے اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے اُبھارتے ہیں۔
٭ اگر یہودی تنظیم اور خود کا دفاع غلط ہے‘ تو دنیا میں کہیں واقعی یہودیوں پر کوئی آفت آجانے پر آپ کیا کریں گے؟
آپ نے عمدہ سوال کیا۔جواب گہرا ہے:
(i) ایک یہودی کے لیے ایمان اور تورات سب سے اوّلین ترجیح ہیں۔پھر اس کی زندگی ہے۔ ہم پورے جی جان سے اپنے عقائد کے وفادار ہیں اور محض جان بچانے کے عوض اپنے عقائد کا سودا ہرگز نہیں کریں گے۔مشکل وقت میں صرف اُسی قدر دفاع کریں گے کہ جس قدر دفاع کرنے کی اجازت ہمیں تورات دیتی ہے ‘یعنی اپنے دفاع کے لیے اطاعت و فرماں برداری کا طریقہ اختیار کرنے کی۔
(ii) ہمارا کامل یقین ہے کہ خداوند یکتا خیر و شر کا مالک ہے۔انسان اُس کے محض اِک پیروکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ہم اپنے آپ کو اُس کے احکامات سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرسکتے ۔
(iii) ہم سمجھتے ہیں کہ خداوند یکتا اسرائیل(یعنی آل یعقوب) کا محافظ ہے۔ تاریخ نے کئی عظیم حکمران طاقتوں کا عروج و زوال دیکھا ہے لیکن یہودی اب بھی موجود ہیں‘ اور رہیں گے۔ تنظیم اور سیلف ڈیفنس کا عمل ہماری مدد نہیں کرے گا‘ جیسا کہ اُس نے اُن عظیم حکمرانوں کی مدد نہیں کی۔ صرف خداوند یکتا ہی ہماری حفاظت اور مدد کر سکتا ہے۔
(iv) خداوند یکتا جو سزائیں ہم پر لاتا ہے وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بنتے ہوئے ہمارے فائدے ہی کےلیے ہیں۔ وہ ہمیں توبہ و استغفار کے لیے بیدار کرتی ہیں۔توبہ‘ دعا اور صدقہ جیسے اعمال خداوند یکتا کی طرف سے جاری کردہ سزاؤں کی شدت کم کرنے یا کسی حکم کو منسوخ کرنے کے حوالے سے اپنا اثر رکھتے ہیں۔
(v) کتاب مقدّس تورات کی تعلیمات کی روشنی میں خود ساختہ تنظیم یا صہیونیت سنگین ترین گناہوں میں سے ایک ہے اور اس کی سخت ترین سزا ہے۔ جلاوطنی سے سرکشی اختیار کرنا یہودیوں کے لیے باعث نجات ہرگز نہیں ۔ یہ ماسوائے بدقسمتی کچھ نہیں ہے۔
(vi) اصل مسئلہ یہود مخالفت نہیں بلکہ یہ ہے کہ خداوند کی پکڑ میں لاٹھی ہے۔پس ہمیں لاٹھی سے نہیں بلکہ لاٹھی پکڑنے والے سے مخاطب ہونا چاہیے ‘یعنی خداوند یکتا سے۔ ہمیں دعا کے ذریعے اُسی سے مخاطب ہوتے ہوئے توبہ واستغفار طلب کرنی چاہیے۔
ناطوری یہود درج ذیل بالا موقف کی حمایت و تائید میں تورات و تلمود اور دیگر کئی اہم یہودی مذہبی کتب سے دلائل کا ایک ضخیم دفتر رکھتے ہیں جو کہ ان کی آفیشل ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں صرف اُن چند اہم ترین آیات و اقوال کو پیش کیا جارہاہے جو اختصار کے ساتھ جامعیت کا حق بھی ادا کرتی ہیں۔
’’کتاب تلمود‘‘ میں صہیونیت کے خلاف دلائل میں سب سے اہم تین قسموں پر مبنی وہ تلمودی تصور ہے کہ ’’تلمود ‘کسوبوس۱۱۱۔اے‘‘ میں خداوند قادر مطلق نے یہودی قوم پر اِن تین وعدوں/ قسموں کی پاس داری و پابندی قیامت تک کے لیے عائد کر دی ہے:
(i) یہودی ارضِ مقدسہ(فلسطین ) کی جانب اب کبھی بھی کسی بھی قسم کی اجتماعی نظم و قوت کے زیر اہتمام واپسی نہیں کریں گے۔
(ii) یہودی دیگر اقوام کے خلاف ہرگز بغاوت نہیں کریں گے کہ جو انہیں پناہ دیں گی۔
(iii) دیگر اقوام یہود کا جبر و استحصال نہیں کریں گی۔
صہیونیت نے خدا سے کیے گئے اِن وعدوں / قسموں کی کس طرح خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ بغاوت کا پرچم تھامے ‘ خدا کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے‘یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ماضی کی تاریخ اور موجودہ صورت حال اس کی عینی شاہد ہے۔
صہیونیت کے خلاف بنیادی طور پر اہم ترین دلائل کتابِ مقدس ’’ تورات‘‘ میں درج احکاماتِ عشرہ (Ten Commandments) سے متعلق ہیں۔اِن میں سے خصوصاً دو خدائی احکام صہیونی اسرائیل کی قتل و غارت گری اور خطۂ فلسطین پر قبضے اور وسائل چوری کی انتہائی مذمت کرتے ہیں۔یہ دو بنیادی احکام تورات میں دو مختلف جگہوں پر لیکن ایک ہی معنی و مفہوم کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ تورات کی کتاب خروج (۱۳:۲۰) میں ساتویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستثناء(۱۷:۵) میں چھٹے بنیادی حکم کے طور پر خداوند تعالیٰ بالخصوص یہودی قوم کو اور بالعموم اقوام عالم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’تم خون نہ بہانا ........!‘‘
پھر کتاب خروج (۱۵:۲۰) میں نویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستثناء(۱۹:۵)میں آٹھویں بنیادی حکم کے طور پر ارشاد فرماتا ہے:’’تم چوری نہ کرنا........!‘‘
یہودیوں کی جلاوطنی سے متعلقہ آیات:
٭ ’’تم اُس اچھی زمین سے ہٹا دیے جاؤ گے جس کے تم وارث ہونے کے لیے آئے ہو‘ اور خداوند تمہیں زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں منتشر کردے گا۔‘‘ (تورات‘ استثناء:۶۳:۲۸)
٭ ’’اور اگر تم میری نہیں سنو گے اور میرے احکامات کی پیروی نہ بجا لائوگے تو میں تمہیں تمام اقوام میں منتشر کر دوں گا۔‘‘ ( تورات ‘احبار:۳۳:۲۶)
یہودیوں کی جلاوطنی آمد مسیح کے ساتھ ختم ہوگئی ‘اِس موضوع سے متعلقہ آیات:
٭ ’’اور مسیح کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک شاخ پھوٹے گی۔ (۱) اور خداوند کی روح‘ حکمت اور فہم کی روح‘ مصلحت اور قدرت کی روح‘ معرفت اور خداوند کے خوف کی روح اُس میں قیام کرے گی......اور اس دن مسیحا کی حکومت قائم ہوگی جو لوگوں کے لیے ایک نشانی ہوگی۔ قومیں اس کی تلاش کریں گی اور اس کا قیام جلالی ہوگا۔(۱۰)......اور اسی دن خداوند دوسری بار اپنے ہاتھ کو بڑھائے گا کہ اپنی قوم کے بقیہ (لوگوں)کو واپس لائے......(۱۱) اور وہ قوموں کے لیے ایک نشانی کھڑی کرے گا اور آل یعقوب کے جلاوطنوں کو واپس جمع کرے گا اور یہودا(یہودی قوم) کے متفرق لوگوں کو زمین کی چاروں سمتوں سے اکٹھا کرے گا۔‘‘(۱۲) [کتاب یسعیاہ:۱۱(۱۔۲)]
چند اعلیٰ اخلاقی تعلیمات سے متعلقہ آیات:
٭ ’’جو آپ اپنے ساتھ نہیں کرنا چاہتے وہ دوسروں کے ساتھ بھی نہ کریں۔ یہ پوری تورات ہے۔ باقی تفسیر ہے۔ جاؤ اور مطالعہ کرو۔‘‘ (تلمود‘ شببوس ۳۱ ۔اے)
٭ ’’خدا کی طرح بنیں کہ جس طرح وہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے‘ اُسی طرح آپ کو بھی مہربان اور رحم دل ہونا چاہیے۔‘‘ (تلمود‘شبوس ۱۳۳۔بی)
٭ ’’جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری دنیا بچائی۔‘‘
(کتابِ تلمود۔ مشناہ۔ سناہدرین:۵:۴)
٭ ’’اے انسان!وہ تجھ سے کیا چاہتا ہے‘ سوائے اِس کے کہ تو انصاف کرے‘ رحم دلی سے پیش آئے‘ اور اپنے رب کے حضور عاجزی سے رہے۔‘‘ (کتاب تنک۔ نبییم۔ میکاہ:۸:۶)
’’ناطوری یہود‘‘ کا صہیونیت کے حوالے سے موقف ممکنہ دیانت داری سے پیش کرنے کی طالب علمانہ سعی کے بعد میں یہ وضاحت قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ناطوری یہود لاکھ بار ’’صہیونیت‘‘ کو اپنے دائرہ مذہبِ(یعنی یہودیت) سے خارج کر لے لیکن درج ذیل حقائق تو اپنے طور پر عین موجود ہی رہیں گے:
اولاً یہ مانا کہ صہیونی یہود/ صہیونیت دائرہ یہودیت سے خارج ہیں لیکن ہم چاہ کر بھی اُن کو یہودی نسل سے خارج نہیں کرسکتے۔یہودی النسل ہونے کی بنا پرآخر کار اُن کی شناخت و تشخیص تو یہودیت ہی سے وابستہ رہے گی۔
دوم یہ کہ یہ حقیقت تو سبھی ناطوری یہود بھی مانتے ہیں کہ اگرچہ صہیونیت اپنی اصل میں ایک سیکولر تنظیم / تحریک تھی لیکن اب بدقسمتی سے اپنی لاعلمی/ مصالحت پسندی کی وجہ سے بہت سے مذہبی یہود بھی اِس کے ساتھ وابستہ ہوچکے ہیں۔لہٰذا اِس بنیاد پر بھی ہم یہودی تشخص سے صرفِ نظر نہیں برت سکتے۔
اِن سارے عقائد و نظریات کے تعارف کا حاصل یہ ہے کہ اصل تعریف وہ ہے جو مخالف کرے۔یعنی اگرچہ مذہبی بنیادوں پر تو ناطوری یہود بھی اسلام کو اپنا مخالف ہی سمجھتے ہیں لیکن اِس کے باوجود دیگر تمام غیر یہودی مذاہب میں سے سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا تاریخی و قلبی اعتبار سے خیر خواہ پاتے ہیں۔ وہ اِس بات کو عین جانتے اور مانتے ہیں کہ جب جب غیریہودی اقوام نے ان پر ظلم کے شکنجے کستے ہوئے انہیں اپنی ہی زمینوں سے بے دخل کیا تو مسلمان ہی وہ واحد قوم تھے کہ جنہوں نے اپنی زمینوںمیں نہ صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت دی بلکہ مذہبی آزادی اور آزادیٔ اظہار رائے و عمل کے ساتھ مکمل امن و امان کی پناہ بھی بخشی۔ کسی تفریق و امتیاز کے بغیر اپنی علم گاہوں‘ دکانوں اور کاروبار میں بھی شراکت داری کے برابر مواقع فراہم کیے ۔یہ سلسلہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتح کردہ ریاست فلسطین (۶۳۷ء) میں داخلے کی مکمل مذہبی آزادی سے شروع ہو کر اسلامی اندلس (۷۱۱ء تا ۱۴۹۲ء)کی سائنسی تجربہ گاہوں اور یونیورسٹیوں میں شراکت سے ہوتا ہوا‘سلطنت عثمانیہ (۱۵۱۷ء تا ۱۹۲۴ء) کی کاروباری دکانوں تک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔یہی اُن تمام تاریخی حقائق کا مختصر خاکہ ہے کہ جن کی تسلیمات کی بنیاد پر آج ناطوری یہود خود کو فکری ‘قلبی اور تاریخی اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں دونوں کے قریب تر پاتے ہیں ۔مسلمانوں کے مختلف ادوارِ حکومت کو اپنے سنہری ادوار میں شمار کرنے کے حق میں ہیں۔لہٰذا میں بطورِ ملت ِاسلامیہ کے ایک رکن ‘اِس بات کو ناطوری یہود کی نمک حلالی ‘ خدا خوفی اور انسان دوستی کی نیک نیتی پر ہی قیاس کرتا ہوں کہ آج جب خصوصاً فلسطین اور عموماً پوری دنیا میں مسلمان ناحق مارے جارہے ہیں تو یہ ِان کے ساتھ عین اُسی طرح کھڑے ہیں جیسے قیامِ اسرائیل سے پہلے کئی صدیوں تک لاکھوں یہودی ناحق مارے جارہے تھے تو صرف مسلمان ہی ان کے ساتھ کھڑے تھے!
میرے اِس سارےمضمون کے پس منظر میں حاصل یہ تین افکار ہیں:
٭ فلسطین کی تولیت و حاکمیت کے حوالے سے مسلم قوم کے موقف کی تائید یہودی قوم و مذہب ہی کی بنیادی کتب سے ہوسکے گی تاکہ حق مزید نکھر کر واضح ہوجائے ۔
٭ شاید اسی طرح کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اندرون اور بیرون اسرائیل یہودی عوام الناس و علماء کی ایک اچھی خاصی تعداد صہیونی اسرائیلی مظالم کے شدید مخالف ہے۔ ہر رقیق القلب اور عقل سلیم کا حامل یہودی صہیونی اسرائیلی مظالم سے اعلان براءت کرنا پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ناطوری کارتا سمیت ۱۶ یہودی فعال تنظیمیں صہیونیت مخالف شمار کی جاتی ہیں۔
٭ اِس وقت پوری انسانیت کو بلالحاظ مذہب و وطنیت اسرائیلی مظالم کے مخالف ڈٹ جانا چاہیے۔
آخری حاصل فکر یہ ہے کہ موجودہ تنازعۂ فلسطین و اسرائیل سے قبل مسیح کی تاریخ تک سرزمین مقدس کی تولیت و حاکمیت کے حوالے سے جتنے بھی چھوٹے بڑے تنازعات اور جنگیں ہوئی ہیں یا آئندہ ہوں گی‘ اُن میں دو بڑے ’’بلاکس ‘‘ بنتے رہے ہیں۔ پہلے اِن دھڑوں کی بنیاد پر سیاسی مقاصد و مفادات سے زیادہ مذہبی زاویہ نگاہ کی فضا غالب تھی۔ اِس کی مثال حصولِ فلسطین کے حوالے سے جنگ طالوت و جالوت(تقریباً ایک ہزارقبل مسیح) سے مسلم و صلیبی جنگوں(۱۰۹۵ء تا ۱۲۹۱ء) تک ہے۔ جنگ عظیم اوّل (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کے بعد سے تادمِ تحریر جو بڑے دھڑے قائم ہیں ان میں ہمیں مذہبی تشخص و تعصب سے زیادہ سیاسی و معاشی مفادات کار فرما نظر آتے ہیں۔اعلان بالفور ۱۹۱۷ء تا تنازعہ اکتوبر۲۰۲۳ء سبھی معاہدات و تنازعات کی گہرائی میں اصل بنیاد سیاسی و معاشی مفاد کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اعلانِ بالفورسلطنت برطانیہ کا جنگ عظیم اول کے وقت اپنے اتحادی یہودیوں سے کیے گئے ایک سیاسی معاہدے کانتیجہ تھا جبکہ حالیہ صہیونی اسرائیل کے سابقہ ۷۶ سالہ مظالم بھی ایک سیاسی منصوبے ’’دی گریٹر اسرائیل‘‘کی خواہش کا نتیجہ ہیں۔
تمام مسلم ممالک کے سیاسی و معاشی مفادات اسرائیلی پشت پناہ ریاستوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مسلم قوم علم و اخلاق ‘ سیاسی وحدت اور اپنے فکری نظام میں یکسوئی کے اعتبار سے یورپی قوتوں کے سامنے زوال پزیر ہوچکی ہے۔لہٰذا تمام ۵۷ مسلم ممالک کو اپنی ایک سیاسی وحدت قائم کرتے ہوئے فلسطینی قاتل قوتوں کے مخالف عملی تدابیر اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے۔صرف اسی طرح ہم عالمی اشرافیہ کی فکری و معاشی غلامی سے نکل کر حقیقی معنوں میں مکمل آزادی و خود مختاری حاصل کرتے ہوئے مظلوم انسانیت کی مسیحائی کا دم بھر سکتے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025