بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شام : ماضی‘ حال اور مستقبلشام میں۵۴ سال سے جاری کاٹ کھانے والی آمریت کا بالآخر خاتمہ ہوا اور ہیئت تحریر الشام نامی جماعت نے شام کا کنٹرول عارضی طور پر سنبھال لیا ہے ۔ابتدائی تعارف کے طور پر عرض ہے کہ ہیئت تحریر الشام مختلف عسکری ‘ سیاسی و مذہبی تحریکوں کا مجموعہ ہے جو اپنی آزادی اور حقوق کی جدوجہد میں طویل عرصہ سےغاصب نصیری حکومت کے خلاف برسرپیکارتھا ۔ روس کی وزارتِ خارجہ کے مطابق شامی صدر بشار الاسد پُرامن انتقالِ اقتدار کے احکامات جاری کرنے کے بعد اپنے عہدے سے دست بردار ہوئےاور ملک چھوڑ دیا ۔ شام میں اقتدار کی اس اچانک اور حیران کن منتقلی کے بعد جہاں دنیا بھر کے میڈیا میں مختلف النوع تبصرے اور تجزیے ہورہے ہیں وہاں ہمارے ملک کے دانشور اور تجزیہ نگار بھی قیاس آرائیوں میں مصروف ہیں ۔ایک بڑی اکثریت کا غالب گمان یہی ہے کہ اس رجیم چینج کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ ہو سکتاہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھی انہی دو قوتوں کو ہوگا ۔ ۷/اکتوبر۲۰۲۳ء کو جب حماس نے طوفان الاقصیٰ کا آغاز کیا تھا تو اس وقت بھی اکثریت کا تجزیہ یہی تھا کہ اس کے پیچھے اسرائیلی سازش ہو سکتی ہے‘جو ا س کا خوب فائدہ اُٹھاتے ہوئے پورے فلسطین پر قبضہ کرکے فلسطینیوں کا خاتمہ کر دے گا ‘وغیرہ۔ لیکن ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اسرائیل ابھی تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کوذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں حماس اور فلسطینیوں کی حمایت میں پوری دنیانے آواز بلند کی ہے ۔ طوفان الاقصیٰ نے مسئلہ فلسطین کو دنیا میں گویادوبارہ زندہ کردیا ہے۔ جو ممالک فلسطین کو تسلیم نہیں کررہے تھے‘اب انہوں نے بھی اسے تسلیم کرلیا ۔
شام میں اقتدار کی منتقلی کے پس پردہ ارادۂ خداوندی کیا ہے ‘ یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرےگا۔ تاہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر شام پر باغیوں کے قبضہ سے امریکہ اور اسرائیل فائدہ اُٹھائیں گے تو بشار حکومت نے یہ موقع انہیں طشتری میں رکھ کر کیوں پیش کر دیا ؟ ۲۰۱۱ء اور۲۰۱۶ء کی خانہ جنگی کے پس پردہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کردار نمایاں تھا ۔اس وقت بشار حکومت نے بغاوت کو کچلنے میں پوری قوت صرف کی اور روس‘ایران سے بھی مدد لی‘لیکن اس مرتبہ روس ‘ ایران اور خودبشار انتظامیہ نے کوئی مزاحمت کیوں نہ کی؟ امریکہ اور اسرائیل کو محفوظ راستہ کیوں دے دیا؟
سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور افغان مجاہدین مل کر لڑے ۔ پھرنائن الیون کے بعد افغان طالبان امریکہ کے خلاف ۲۰سال تک لڑے اور افغانستان میں اپنی حکومت بنائی ۔کیا بعید ہے کہ شام میں اپنی آزادی اور حقوق کے لیے لڑنے والے مختلف مسلم دھڑے مل کر ایک مشترکہ حکومت بنا لیں ؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اگر باغیوں کی پشت پناہی امریکہ یا ترکی کر رہا ہے تو کیا بشار حکومت کی پشت پناہی فرانس‘ روس ‘ ایران اور خدانخواستہ اسرائیل اور امریکہ درپردہ یا بالواسطہ نہیں کر رہے تھے ؟ کیا وجہ تھی کہ جنوری ۲۰۱۰ء میں جیفری فیلٹ مین (Jeffery Feltman) نے ‘جو کہ امریکی وزارتِ خارجہ کا ڈپٹی سیکریٹری آف سٹیٹ تھا‘واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ میں برملا کہا تھا کہ اسرائیل کسی طورپربھی بشارالاسد حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتا‘اس لیے کہ اسرائیل ہی تووہ ملک ہے جس نے بشارالاسد کوعالمی تنہائی سے نکالنے کے لیے دروازے کھلوائے۔آخر کیا وجہ تھی کہ اسرائیل بشار حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا اور شدید خانہ جنگی کے باوجود بشار حکومت ختم نہ ہو سکی تھی‘مگر اب اچانک راتوں رات اقتدار کی منتقلی کیسے ہوگئی؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بشار حکومت کے خاتمہ سے امریکہ اور اسرائیل فائدہ اُٹھائیں گے تو کیابشار حکومت کے دوران انہوں نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا ؟جیفری فیلٹ مین نے کہا کہ بشارالاسد اسرائیل کواس لیے عزیز ہے کیونکہ اسد خاندان نے ۱۹۷۴ء سے اب تک اسرائیل کوہمیشہ سکون کا سانس لینے دیا ہے۔اس دوران اسرائیل نے نہ صرف گولان کی پہاڑیوں پراپنا قبضہ مضبوط کیا‘ بلکہ اسے اسرائیل میں شامل بھی کرلیا۔ نیز یہ کہ حافظ الاسد نے اسرائیل کویقین دلایا کہ حزب اللہ اوراسرائیل کی جنگ کووہ عرب اسرائیل جنگ میں بدلنے نہیں دے گا۔ اورپھرایسا ہی ہوا۔
گویا نصیری حکومت نے اسرائیل کے لیے سہولت کاری کی‘ اپنے دورِ اقتدار میں صرف مسلمانوں کو کمزور کیا اور جب اسرائیلی جارحیت کے خلاف ڈٹ کر لڑنے کا وقت آیا تو اس کے لیے میدان خالی چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ پھر یہ کہ نصیریوں کے قبضہ کے بعد شامی مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کیا فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کے بعد وہاں کےمسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم سے کم ہیں ؟ کیا نصیری افواج نے شام میں مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام نہیں کیا؟ کیا ٹارچر سیلوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہوئیں؟ کیا مسلمانوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا؟ یاد رہے اگست ۲۰۱۳ء میں دمشق کے قریب شامی حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے ’’غوطہ‘‘ میں کیے گئے ایک کیمیائی حملے میں (جس میں نرو ایجنٹ سارین شامل تھی)۱۴۰۰ سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے۔ یہ معاملہ میڈیا کی زینت بنا ‘ پوری دنیا نے بشارالاسد پرتنقید کی اور بین الاقوامی دباؤ اور دھمکیوں کے تحت بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو ختم کرنے پر رضامند ہوئے ۔OPCWکے کیمیائی ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بعد شام میں ۱۳۰۰ ٹن کیمیکل کو تباہ کیا گیا۔ تاہم عالمی اداروں کے مطابق ملک میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے جاری رہے۔رپورٹس کے مطابق ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۸ءکے دوران صرف چار سال کے عرصہ میں شام میں مسلمانوں کے خلاف ۱۰۶ مہلک کیمیائی حملے کیے گئے ۔ علاوہ ازین بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کی داستانیں بھی اب یہ ثابت کررہی ہیں کہ شام پر نصیری قبضہ کسی طرح بھی اُمّت ِمسلمہ کے لیے فلسطین پر اسرائیلی قبضہ سے کم نقصان دہ نہ تھا۔ جب حقائق یہ ہیں تو پھر ہمیں دیانتدارانہ طور پر سوچنا چاہیے کہ شام ‘ شامی عوام اور اسلام کے حق میں دونوں میں سے بہتر کون ہے ؟ نصیری اقتدار یا پھر شامی عوام کی حکومت ؟ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ شام کی بربادی کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ شام ایک مسلمان ملک ہےجس کی ۹۰ فیصد آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے‘لیکن ۵۴سال سے اس پر اسلام دشمن نصیریہ گروہ سے تعلق رکھنے والا خاندان جبراً بلکہ اسلام دشمن قوتوں کی مدد سے مسلط تھا جو اہل تشیع اور اہل سُنّت دونوں کے نزدیک مسلمان ہی نہیں ہے۔ نصیریوں کی ابتدا ایک گمراہ شخص محمد بن نصیر سے ہوئی جو کہ فارسی ٔالنسل عراقی تھا۔ اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اوردسویں صدی عیسوی میں اس دین کی ترویج عراق میں شروع کی ۔ اکثر مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ نصیریہ فرقہ اصل میں گمراہ عیسائیوں کا ہی ایک گروہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آج تک عقیدۂ تثلیث کو بھی مانتے ہیں اور دیگر عیسائی رسومات کے ساتھ کرسمس اور ایسٹر کے تہوار بھی مناتے ہیں ۔ ۱۴ویں صدی عیسوی میں مجدد وقت امام ابن تیمیہ ؒ نے ان کے کافر ہونے اور ان کے جان و مال کے مباح ہونے کا فتویٰ صادر کیا ۔ ایسے فتاویٰ صرف ان کے کفریہ عقائد و نظریات کی وجہ سے نہ تھے بلکہ مسلمانوں سے ان کا بغض و عناد آخری حد تک پہنچا ہوا تھا۔۱۹ویں صدی میں ان کے درمیان وقت گزارنے والے ایک عیسائی پادری ریونڈ سیمویل لائڈ کے مطابق یہ اہل سُنّت کے سخت دشمن اور جنگلی صفت لوگ ہیں۔ قتل و غارت ‘ دھوکا‘ لوٹ مار ان کی سرشت میں شامل ہے۔ان کی یہی خصلت شام میں ان کے اقتدار کے دوران بھی سامنے آئی۔ شام کی اکثریت سول و سرکاری اداروں ‘حکومت اور معیشت میں اپنا حق چاہتی تھی‘لیکن یہ چند فیصد آبادی والا اقلیتی گروہ ۹۰فیصد آبادی کو ان کے جائز حقوق دینے کے لیے تیار نہیں تھااور یہی شام میں خانہ جنگی کی بنیادی وجہ تھی ۔
ایک اقلیتی گروہ جو مسلمان بھی نہیں تھا‘ ایک مسلم اکثریت والے ملک پر جبراً کیسے قابض ہو گیا؟ تاریخ سے ہم اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ شام کا یہ نصیری علوی گروہ اپنی ابتدا سے ہی یہود ونصاریٰ کے مقاصد پورے کرتاچلا آ رہا ہے۔پہلی صلیبی جنگ (۱۰۹۹ء ) میں علویوں نے شام کی ساحلی پٹی پر صلیبیوں کو قدم جمانے میں مدد دی‘جس کے نتیجے میں انہوں نے بیت المقدس مسلمانوں سے چھین کر اس پر قبضہ کر لیا۔انعام کے طور پر صلیبی فوج نے نصیری علویوں کو شام کے وہ قلعے واپس کردیے جو اسماعیلیوں نے ان سے چھینے تھے۔ یہ ان کا شام پر قبضے کا پہلا قدم تھا۔ اس کے بعد اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر ان کا ہر قدم شام پرقبضہ کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔ ۱۲۵۸ء میں جب ہلاکو خان شام پر حملے کی تیاری کر رہا تھا تو یہی نصیری تھے جنہوں نے اس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے شام پر اُس کا قبضہ مستحکم کرایا ۔اس جرم پر سلطان بیبرس نے نہ صرف انہیں سزا دی بلکہ ان کے علاقوں میں مساجد اور مدرسے بنوائے تاکہ نصیری اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہو کر اسلام میں داخل ہو جائیں‘لیکن مشہور مؤرخ ابن بطوطہ ۱۳۲۶ءمیں جب ان کے علاقے سے گزرے تو انہوں نے لکھا کہ نصیریوں نے ان مساجد و مدارس کو باقاعدہ اصطبل میں بدل کر گھوڑے باندھے اوراسلام کی بے حرمتی کی ۔
مسلمان مؤرخین امام ابن کثیر و ابن بطوطہ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اسی قبیلے کے ایک شخص نے ۱۳۱۷ء کے لگ بھگ مہدی ہونے کا اعلان کیااور شام میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام کیا ‘ مسلم خواتین کی عزتیں پامال کیں ‘جس پر مصر کے سلطان الملک الناصر نے نصیریوں کے قتل عام کا حکم دیا۔ اس کے نتیجہ میں وقتی طور پر یہ فتنہ دب گیا لیکن پس پردہ خلافت کے نظام کے خلاف دشمنوں کا مستقل آلۂ کار بنا رہا ۔ خلافت عباسیہ کی طرح خلافت ِعثمانیہ کو بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لہٰذا ۱۵۱۴ء میں جنگ چلدرن میں انہوں نے عثمانیوں کے مقابلے میں صفویوں کا ساتھ دیا اوران کے لیے جاسوسی کے فرائض سرانجام دیے ۔یہاں تک کہ کئی نصیری بھیس بدل کر عثمانی اداروں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچے اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ مل کر خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی راہ ہموار کی ۔ انہی میں سے ایک امین وحید آفندی تھاجو۱۸۰۶ء میں فرانس میں عثمانیوں کا سفیر بنا اور پھر فرانس کو شام پر قبضے کی رغبت دلائی ۔دوسری طرف خلافت ِعثمانیہ کے خلاف اُٹھنے والی ہر بغاوت میں یہ پیش پیش رہے ۔ اسی کے نتیجے میں ۱۸۱۷ء میں بھی تریپولی (لبنان) کے عثمانی گورنر بربر کے ہاتھوں انہیں عبرت ناک سزا ملی۔ اس کے باوجود ۱۸۲۹ء میں انہوں نے قبرص پر قبضہ کے لیے یونانیوں کا ساتھ دیا۔ انہی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ قبیلہ اور اس کا علاقہ صلیبیوں اور صہیونیوں کے لیے پُرکشش آماج گاہ بن گیا ۔ یہاں تک کہ امریکی عیسائی مشنریوں نے سرعام وہاں اپنے ادارے قائم کرلیے ۔ ان عیسائی مشنریوں کے عزائم بھانپتے ہوئے سلطان عبدالحمیددوم(۱۸۴۲ء- ۱۹۱۸ء)نے ان پر پابندی عائد کر دی اورنصیریوں کو ایک بار پھر قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ان کے علاقوں میں مساجداور مدارس بنوائے ۔ ان مساجد اور مدارس کا انجام بھی وہی ہوا جو اس سے پہلے سلطان بیبرس کی کوششوں کا ہوچکا تھا کہ ان میں گھوڑے اور جانور باندھے گئے اور بے حرمتی کی گئی ۔
ایک طرف تو خلافت ِعثمانیہ کے خاتمے اوراُمّت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بدترین غداروں کو مسلط کرنا اسلام دشمن قوتوں کادیرینہ منصوبہ تھا‘دوسری طرف نصیریوں کا بھی شام میں اپنی ریاست قائم کرنے کا دیرینہ خواب تھا جو اب پورا ہونے والا تھا ۔لہٰذا انہوں نے خلافت ِعثمانیہ کے خاتمہ کے لیے دشمنوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا ۔ یہاں تک کہ انہی نصیریوں کی مدد سے ۱۹۱۸ء میں فرانس کی فوجیں شام میں داخل ہو گئیں اور ان کی مدد سے ہی شام کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔انہی خدمات کے بل بوتے پر ۱۹۱۹ء میں۷۳نصیری سرداروں نے فرانسیسی حکومت کو ایک ٹیلی گرام میں فرانس سے وفاداری کی یقین دہانی کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ چونکہ ہم مسلمانوں سے الگ قوم ہیں لہٰذا ہمیں الگ ریاست عطا کی جائے۔ چنانچہ جنگ عظیم اول کے خاتمہ پر فرانس و برطانیہ کے مابین بدنام زمانہ’’ سائکس پیکو ‘‘معاہدے کے تحت شام کو فرانس کے قبضے میں دے کر اس کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور ایک ٹکڑے کا نام ’’ الاذقیہ‘‘ رکھ کر اسے نصیری ریاست قرار دے دیا گیا۔
اس ٹیلی گرام پر دستخط کرنے والےنصیری سرداروں میں بشار الاسد کا دادا سلیمان الاسدبھی شامل تھا۔بعدازاں فرانس نے شامی علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ’’ سیرین سپیشل آرمی ‘‘ کے نام سے ایک فوج تشکیل دی جس میں خاص طور پرنصیری علویوں کو بھرتی کیا گیا۔بعدازاں اسی فوج کی مدد سے حافظ الاسد شام کے اقتدار پر قابض ہوگیا ‘اور مسلمانوں کو کچلنے اور کمزور کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی ۔ حقیقت میں کفار کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ شام جس کی احادیث میں فضیلت بیان ہوئی اور اہل ایمان کا گھر قرار دیا گیا ‘ جہاں امام مہدیؒ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آکر دجال کے خلاف لڑیں گے اس کوتقسیم کرکے ایک حصہ پر خود صہیونیوں کو مسلط کر دیا جائے اور باقی حصوں پراُمّت کے دیرینہ دشمنوں اور قادیانیوں کی طرح باطل دین بنانے والوں کو مسلط کر دیا جائے تاکہ یہ علاقہ اہلِ ایمان کا گھر نہ بن سکے ۔ مگر ایک منصوبہ کُفّار بناتے ہیں اور ایک منصوبہ اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ لہٰذا جو منصوبہ اللہ تعالیٰ کا ہے وہی آخر پورا اور کامیاب ہوتاہے ۔
شام کو اہلِ ایمان اور جہاد کا مرکز بن کر رہنا ہے‘کیونکہ وہیں پر دجّال اور اس کےحمایتی لشکروں کو شکست فاش ہوگی اور وہ دائمی جہنم کا ایندھن بنیں گے‘ان شاء اللہ ۔ان حالات میں پاکستان کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کےقیام کے لیے جدّوجُہد کریں تاکہ جب احادیث کے مطابق امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں تو ہم بھی ان کے اسلامی لشکر میں شامل ہو سکیں ۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب یہاں اسلام کا غلبہ ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دجّال کے مقابلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی کے لشکر میں شمولیت کا اہل بنائے۔ آمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025