سُوْرَۃُ الْعَصْرِتمہیدی کلمات
سورۃ العصر قرآن مجید کی مختصر ترین اور جامع ترین سورتوں میں سے ہے۔ اس کی جامعیت کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے درج ذیل دو اقوال بہت اہم ہیں:
(۱) لَوْ لَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَکَفَتِ النَّاسَ’’اگر قرآن مجید میں سوائے اِس (سورۃ العصر) کے کچھ اور نازل نہ بھی ہوتا تو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے یہی کافی ہوتی۔‘‘
(۲) لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃ لَوَسِعَتْھُمْ ’’اگر لوگ تنہا اسی ایک سورت پر غور کریں تو یہ ان کے لیے کافی ہو جائے۔‘‘
یہ سورت ’’مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب‘‘ کا نقطہ آغاز بھی ہے۔ یعنی ہمارے منتخب نصاب کا پہلا درس سورۃ العصر کے بارے میں ہے۔ اس سورت پر میری ایک کتاب اور ایک مختصر کتابچہ بھی موجود ہے۔ تفصیلی معلومات کے لیے ان سے استفادہ کرنا مفید رہے گا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَالْعَصْرِ (۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (۲) اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۳)
آیت ۱{وَالْعَصْرِ (۱)} ’’زمانے کی قسم ہے۔‘‘
یعنی اس حقیقت پر زمانہ گواہ ہے یا پوری تاریخ انسانی شاہد ہے کہ:
آیت۲{اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(۲)}’’یقیناً انسان خسارے میں ہے۔‘‘
اگلی آیت میں اس نقصان اور خسارے سے بچائو کے لیے چارشرائط بتائی گئی ہیں‘لیکن ان میں سے کوئی ایک یا دو یا تین شرائط پوری کر دینے سے مذکورہ خسارے سے بچنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ کامیابی کے لیے بہرحال چاروں شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔
آیت ۳{اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۳)} ’’سوائے اُن کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
ان شرائط میں پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان ایمان لائے۔ اس میں ایمان باللہ ‘ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت سمیت تمام ایمانیات شامل ہیں۔ یعنی انسان اس کائنات کے مخفی اور غیبی حقائق کو سمجھے‘ اُن کا شعور حاصل کرے اور اُن کی تصدیق کرے۔ایمان لانے کے بعد دوسری شرط اس ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا کرنے سے متعلق ہے۔ یعنی اگر انسان اللہ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے عمل اور کردار سے ثابت ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بندہ ہے اور اُس کی نافرمانی سے ڈرتا ہے۔ غرض وہ ہر اس عمل کو اپنے شب و روز کے معمول کا حصّہ بنانے پر کمربستہ ہوجائے جس کا اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے اور ہر اُس فعل سے اجتناب کرنے کی فکرمیں رہے جس سے اللہ اور اُس کے رسول ﷺنے منع کیا ہے۔
تیسری شرط ’’تواصی بالحق‘‘ کی ہے ۔یعنی جس حق کو انسان نے خود قبول کیا ہے اور اپنی عملی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالا ہے اس حق کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار بن جائے۔ اس کے بعد چوتھی اور آخری شرط ’’تواصی بالصبر‘‘ کی ہے اور یہ ’’تواصی بالحق‘‘ کا لازمی اور منطقی نتیجہ بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جو بندہ ’’تواصی بالحق‘‘ کا علم اٹھائے گا اُسے شیطانی قوتوں کی مخالفت مول لے کر آزمائش و ابتلا کی مشکل گھاٹیوں سے بھی گزرنا ہوگا اور اس راستے پر چلتے ہوئے نہ صرف اُسے خود صبر و استقامت کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا ہو گابلکہ اسے اپنے ہمراہیوں اور ساتھیوں کو بھی اس کی تلقین و نصیحت کرنا ہوگی۔ اسی لیے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جب امر بالمعروف کی نصیحت کی تو ساتھ ہی صبر کی تلقین بھی کی تھی: {یٰـبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَـآ اَصَابَکَ ط} (لقمٰن:۱۷) ’’اے میرے بچے! نماز قائم کرواور نیکی کا حکم دو اور بُرائی سے روکواور جو بھی تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو!‘‘
بہرحال راہِ حق کے مسافروں کو پہلے سے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ راستہ آزمائش و ابتلا کے خارزاروں سے ہو کر گزرتا ہے: {وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۵)}(البقرۃ)’’اورہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ اور (اے نبیﷺ!) بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوںکو۔‘‘
یہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! اَللّٰھُمَّ رَبَّـنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! آمین!
سُوْرَۃُ الْھُمَزَۃِتمہیدی کلمات
سورۃ العصر میں نسل انسانی کو ایک بہت بڑے ممکنہ خسارے کی وعید سنائی گئی ہے اور ساتھ ہی اس خسارے سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا گیاہے۔ اب سورۃ الہمزہ میں تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر ان لوگوں کے کردار کی جھلک دکھائی جا رہی ہے جو آخرت کے بارے میں کسی تنبیہہ یا وعید کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے اور اندھا دھند اسی راستے پر بھاگے چلے جا رہے ہیں جو حقیقت میں خسارے اور بربادی کا راستہ ہے۔ دراصل جب انسان کے سامنے کوئی اعلیٰ نصب العین یا آدرش(ideal)نہیں ہوتا تو اس کی شخصیت پستی کی طرف مائل ہو تی چلی جاتی ہے۔ اس روش پر چلتے چلتے وہ پستی کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے جہاں اُس کے اخلاق و کردار میں خیر اور بھلائی کی کوئی رمق بھی باقی نہیں رہتی۔ایسا انسان معاشرے میں رہتے ہوئے کسی کی غیبت کرتا ہے تو کسی پر طعنہ زنی کرتا ہے‘کسی کی عزّت پر حملہ کرتا ہے تو کسی کا مال ہڑپ کرتا ہے ۔حتیٰ کہ اگر کسی وقت وہ کوئی نیک کام بھی کرتا دکھائی دیتا ہے تو اس کے پیچھے بھی اس کا کوئی ذاتی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ غرض اُس کی ہر حرکت اُس کی پست سوچ کی مظہر اور اس کا ہر فعل اس کے گھٹیا کردار کا عکّاس ہوتا ہے۔ پھر جب کسی معاشرے کے انسانوں کی غالب اکثریت پستی اور گھٹیا پن کا یہ رنگ اپنا لیتی ہے تو وہ معاشرہ مجموعی طور پر ہر قسم کے خیر سے محروم ہو کر گندگی اور غلاظت کے متعفن ڈھیر کا روپ دھار لیتا ہے۔
ایسے معاشرے کو دیکھ کر ایک حسّاس انسان بجاطور پر مایوسی کی اَتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے ۔ دوسری طرف اس معاشرے کے فلسفی اور حکماء انسان کے بارے میں ایسے فتوے جاری کرنے میں خود کو حق بجانب سمجھنے لگتے ہیں کہ انسان تخلیقی اعتبار سے محض حیوانی داعیات و شہوات کا پتلا اور گندگی کی ایک پوٹ ہے اور یہ کہ اس میں خیر اور بھلائی کا کوئی عنصر سرے سے موجود ہی نہیں۔ ایسے ہی منفی نظریات و خیالات کے جواب کے طور پر سورۃ التین میں نسل ِانسانی کی چار عظیم شخصیات (حضرت نوح ‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمدﷺ)کے اخلاق و کردار کو بطور نمونہ پیش کر کے ثابت کیا گیا ہے کہ انسان بنیادی طور پر احسنِ تقویم کی سطح پر پیدا ہوا ہے۔ البتہ جب یہ اپنے فطری شرف سے غافل ہو جاتا ہے اور اپنی اصل عظمت کو فراموش کر دیتا ہے تب یہ پستی میں گرتے گرتے اَسفل ِسافلین کے زمرے میں شمار ہوجاتا ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان جب شرفِ انسانیت کی خلعت ِ فاخرہ کو اُتار پھینکتا ہے اور اپنے حیوانی داعیات کی تسکین و تشفی کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتا ہے تو پھر یہ خنزیر سے بڑھ کر شہوت پرست‘ اونٹ سے بڑھ کر کینہ پرور اور بھیڑیے سے بڑھ کرسفاک بن جاتا ہے۔یعنی یہ اشرف المخلوقات جب حیوان بنتا ہے تو بے حیائی‘ خود غرضی اور خون خواری کی دوڑ میں تمام حیوانوںکو پیچھے چھوڑ دیتاہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۨ (۱) الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ(۲) یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ (۳) کَلَّا لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ (۴) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْحُطَمَۃُ (۵) نَارُ اللہِ الْمُوْقَدَۃُ (۶) الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ (۷) اِنَّھَاعَلَیْھِمْ مُّؤْصَدَۃٌ (۸) فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ(۹)
آیت ۱{وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ نِ(۱)} ’’بڑی خرابی ہے ہر اُس شخص کے لیے جو لوگوں کے عیب چنتا رہتا ہے اور طعنے دیتا رہتا ہے۔‘‘
ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ دونوں الفاظ معنی کے اعتبار سے باہم بہت قریب ہیں ۔ بعض ا ہل ِ لغت کے نزدیک روبرو طعنہ زنی کرنے والے کو ہُمَزَۃ اور پس ِ پشت عیب جوئی کرنے والے کو لُمَزَۃ کہتے ہیں‘ جبکہ بعض اہل ِلغت نے ان کا معنی برعکس بیان کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے کہ ہر چغلی کھانے والے‘ دوستوں میں جدائی اور تفرقہ ڈالنے والے‘ بے قصور اور بے عیب انسانوں میں نقص نکالنے والے کو ہُمَزَۃ اور لُمَزَۃ کہتے ہیں۔
آیت۲{ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ(۲)}’’جو مال جمع کرتا رہا اور اس کو گنتا رہا۔‘‘
جس نے اپنی زندگی اور زندگی کی ساری جدّوجُہد مال کمانے اور اس کا حساب رکھنے میں برباد کر دی۔ وہ یہی سوچ سوچ کر خوش ہوتا رہا کہ اس ماہ میرے اکائونٹس میں اتنے فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال میرے اثاثہ جات اس قدر بڑھ گئے ہیں۔
آیت ۳{یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗ(۳)} ’’وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا۔‘‘
گویا اُس کے مال نے اسے زندئہ جاوید کر دیا ہے۔ ایک دولت مند آدمی اپنی دولت کے ذریعے دنیا میں ایسے آثار و نقوش چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جن کی وجہ سے اس کا نام دنیا میں ہمیشہ رہے۔ انسان کی اسی خواہش نے اسے اہرام مصر جیسے عجائبات کی تخلیق پر مجبور کیا۔ مشہور انگریزی نظم"The Pyramids"ـ کے ان الفاظ میں انسان کی اسی نفسیات کی عکاسی کی گئی ہے :
Calm and self possessed
Still and resolute
Pyramids echo into eternity
They define the cry of man's will
To survive and conquer the storms of time
آیت۴{کَلَّا لَـیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ(۴)}’’ہرگز نہیں ‘وہ تو یقیناً جھونک دیا جائے گا حُطمہ میں۔‘‘
حُطَمَۃ : حَطَمَسے ہے‘ یعنی توڑ ڈالنے والی‘ پیس ڈالنے والی‘ چُور چُور اور ریزہ ریزہ کردینے والی۔ یہ دوزخ کے ایک خاص طبقے کا نام ہے جس کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ اس میں جو شے بھی ڈالی جائے گی اس کو آنِ واحد میں پیس کر رکھ دے گی۔
آیت ۵{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْحُطَمَۃُ(۵)} ’’اور کیا تم جانتے ہو وہ حُطمہ کیا ہے؟‘‘
آیت۶{نَارُاللہِ الْمُوْقَدَۃُ (۶)}’’وہ آگ ہے اللہ کی بھڑکائی ہوئی۔‘‘
آیت ۷{الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ(۷)} ’’جو دلوں کے اوپر جا چڑھے گی۔‘‘
یعنی اس آگ کی حدّت اور تپش انسان کی جلد سے زیادہ اس کے دل پر اثر انداز ہو گی۔ بہرحال آج جب انسان خود Infra red Rays اور Ultra violet Rays سمیت آگ اور حرارت کی رنگا رنگ اقسام ایجاد کر چکا ہے اس کے لیے ’’حُطَمَہ‘‘ کی مذکورہ خصوصیت کو سمجھنا بہت آسان ہو گیاہے۔ایک صاحب نے خیال پیش کیا ہے کہ حُطَمَۃ ایٹمی حرارت کی کوئی شکل ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایٹم سے جو حرارت پھیلتی ہے وہ براہِ راست آگ نہیں ہوتی لیکن انسان کے وجود کو چیرتی چلی جاتی ہے۔
آیت۸{اِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُّؤْصَدَۃٌ(۸)}’’بے شک وہ (آگ) ان پر بند کر دی جائے گی۔‘‘
تاکہ اس کی تمام تر حرارت ان پر اثر انداز ہو اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچے۔
آیت۹{فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ (۹)} ’’بڑے اونچے اونچے لمبے ستونوں میں۔‘‘
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ! یَامُجِیْرُ یَامُجِیْرُ یَا مُجِیْرُ!!
سُوْرَۃُ الْفِیْلِتمہیدی کلمات
سورۃ الفیل اور اس کے بعد کی سورتوں میں سے اکثر کا تعلق حضورﷺ کی سیرت یا آپﷺ کے زمانے کے عرب معاشرے کے ماحول اور حالات سے ہے۔ جیسے سورۃ الفیل میں جس واقعہ کا ذکر ہے یہ واقعہ اُسی سال پیش آیا جس سال حضورﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ آپؐ کی ولادت عین اس واقعہ کے دن ہوئی تھی۔ البتہ کچھ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اس واقعہ کے پچاس دن بعد پیدا ہوئے تھے۔
اس واقعہ کا پس منظر یوں ہے کہ یمن کے عیسائی بادشاہ اَبرہہ نے خانہ کعبہ کے مقابلے میں ایک عالیشان کلیسا اس غرض سے تعمیر کرایا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ کا حج کرنے کے بجائے اس کلیسا میں حاضری دیا کریں۔لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ لوگوں کی توجّہ اس طرف مبذول کرانے میں ناکام رہا۔ اسی دوران کسی عرب نے شرارتاً اس کلیسا میں رفع حاجت کر کے غلاظت بکھیر دی۔ ابرہہ تو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا تھا‘ اس واقعہ کو بہانہ بنا کر اُ س نے کعبہ کومسمار کرنے کے ارادے سے مکّہ مکرمہ پر باقاعدہ چڑھائی کر دی۔ مکّہ پر حملہ آورہونے والے ابرہہ کے لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار تھی اور ان کے ساتھ بہت سے ہاتھی بھی تھے۔ اسی لیے عربوں نے اس لشکر کو ’’اصحابُ الفیل‘‘ کا نام دیا اور جس سال یہ لشکر حملہ آور ہوا تھا وہ سال ان کے ہاں ’’عامُ الفیل‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور ابرہہ کے لشکر کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نیست و نابود کر دیا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ (۱) اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ (۲) وَّاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ (۳) تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ (۴) فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ (۵)
آیت ۱{اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ(۱)}’’کیا تم نے دیکھا نہیں کیا حشر کیا تمہارے رب نے اُن ہاتھی والوں کا ؟‘‘
آیت۲{اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ(۲)}’’کیا اُس نے اُن کی تمام تدبیروں کو بے کار اور غیر مؤثر نہیں کر دیا؟‘‘
اَبرہہ کی اس لشکر کشی کا مقصد انہدامِ کعبہ کے علاوہ عرب میں عیسائیت پھیلانا اور اُس تجارت پرقبضہ کرنا بھی تھا جو بلادِ مشرق اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعے ہوتی تھی۔
آیت ۳{وَّاَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ(۳)} ’’اور اُن پر بھیج دیے جھنڈ کےجھنڈ اُڑتے ہوئے پرندوں کے۔‘‘
آیت۴{تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ(۴)}’’جو اُن پر مارتے تھے کنکرکی پتھریاں۔‘‘
رَمٰی یَرْمِی رَمْیًا کا معنی ہے پھینکنا‘ مارنا۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل کو بھی ’’رمیٔ جمرات‘‘ کہا جاتا ہے۔ لفظ سِجِّیْل دراصل فارسی ترکیب ’’ سنگ گل‘‘ سے معرب ہے (فارسی کی ’’گ‘‘ عربی میں آکر ’’ج‘‘ سے بدل گئی ہے)۔فارسی میں سنگ بمعنی پتھر اور گل بمعنی مٹّی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ سنگ گل کے لغوی معنی ہیں مٹّی کا پتھر۔ اس سے مراد وہ کنکریاں ہیں جو ریتلی زمین پر ہلکی بارش برسنے اور بعد میں مسلسل تیز دھوپ چمکنے کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ یعنی بارش کے ایک ایک قطرے کے ساتھ جو ریت ملی مٹّی گیلی ہو جاتی ہے وہ بعد میں مسلسل تیز دھوپ کی حرارت سے پک کر سخت کنکری بن جاتی ہے۔
ابرہہ کے لشکرجرار کو تباہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی غیر معمولی طاقت کے استعمال کی ضرورت نہ پڑی‘ بلکہ اُس نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے جھنڈ بھیج دیے جو ساحل ِسمندر کی طرف سے اُمڈ پڑے اور چند لمحوں کی سنگ باری سے اس لشکر کا بھرکس نکال دیا۔ ان میں سے ہر پرندہ تین چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھائے ہوئے تھا‘ ایک اپنی چونچ میں اور دو اپنے پنجوں میں ۔
آیت ۵{فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ(۵)}’’پھر اُس نے کر دیا ان کو کھائے ہوئے بھس کی طرح۔‘‘
یعنی اس پورے لشکر کی حالت اُس چارے یابھس کی طرح ہو گئی جسے جانوروں نے کھا کر چھوڑ دیا ہو۔
سُوْرَۃُ قُرَیْش
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ (۱) اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّیْفِ (۲) فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ (۳) الَّذِیْ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ (۴)
آیت ۱{لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ(۱)} ’’قریش کے مانوس رکھنے کی وجہ سے ۔‘‘
آیت۲{اٖلٰفِہِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ(۲)}’’(یعنی) سردیوں اور گرمیوں کے سفر سے ان کو مانوس رکھنے کی وجہ سے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے قریش کے دلوں میں سردی اور گرمی کے تجارتی سفروں کی اُلفت و محبّت پیدا کر دی۔
اِیْلاف: اَلِفَ یَأْلَفُ اَلْفًا سے باب افعال کا مصدر ہے‘ یعنی مانوس کرنا اور خوگر بنانا۔ اردو میں اُلفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔
سورئہ قریش کی پہلی دو آیات میں قریش کی اس اجارہ داری کی طرف اشارہ ہے جو حضورﷺ کی پیدائش سے قبل زمانے میں انہیں مشرق اور مغرب کی تجارت پر حاصل تھی۔ اس زمانے میں مشرقِ بعید کے ممالک (ہندوستان‘ جاوا‘ ملایا‘ سماٹرا‘ چین وغیرہ) سے بحرہند کے راستے جو سامانِ تجارت آتا تھا وہ یمن کے ساحل پر اترتا تھا۔ دوسری طرف یورپ سے آنے والے جہاز شام اور فلسطین کے ساحل پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ اس کے بعد یمن سے سامانِ تجارت کو شام پہنچانے اور ادھر کا سامان یمن پہنچانے کے لیے خشکی کا راستہ استعمال ہوتا تھا۔ چنانچہ یمن اور شام کے درمیان اس راستے کی حیثیت اُس زمانے میں گویا بین الاقوامی تجارتی شاہراہ کی سی تھی۔ ظاہر ہے یورپ کو انڈیا سے ملانے والا سمندری راستہ(around the cape of good hope) تو واسکوڈے گاما نے صدیوں بعد ۱۴۹۸ء میں دریافت کیا تھا‘ جبکہ بحیرئہ احمر کو بحر روم سے ملانے والی نہر سویز ۱۸۶۹ء میں بنی تھی۔
حضورﷺ کی ولادت سے تقریباً ڈیڑھ دو سو سال پہلے تک اس تجارتی شاہراہ پر قومِ سبا کی اجارہ داری تھی۔ لیکن جب ’’سد ِمآرب‘‘ ٹوٹنے کی وجہ سے اس علاقے میں سیلاب آیا اور اس سیلاب کی وجہ سے اس قوم کا شیرازہ بکھر گیا تو یہ شاہراہ کلی طور پر قریش ِمکّہ کے قبضے میں چلی گئی ۔ قریش ِمکّہ چونکہ کعبہ کے متولّی تھے اس لیے پورے عرب میں انہیں عزّت و عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں جہاں کوئی بھی تجارتی قافلہ لٹیروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھا وہاں قریش کے قافلوں کو پور ے عرب میں کوئی میلی نظر سے بھی نہیں دیکھتا تھا ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عرب کے تمام قبائل نے اپنے اپنے بُت خانہ کعبہ میں نصب کر رکھے تھے ۔ گویا ہر قبیلے کا ’’خدا‘‘ قریش کی مہربانی سے ہی خانہ کعبہ میں قیام پذیر تھا‘بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ قریش کے پاس یرغمال تھا ۔اس لیے عرب کا کوئی قبیلہ بھی ان کے قافلوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ قریش کے قافلے سارا سال بلاخوف و خطر یمن سے شام اور شام سے یمن کے راستے پر رواں دواں رہتے تھے ۔ گرمیوں کے موسم میں وہ لوگ شام و فلسطین کے سرد علاقوں جبکہ سردیوں میں یمن کے گرم علاقے کا سفر اختیار کرتے تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں ان کے اسی تجارتی سفر کا ذکر ہے۔ ظاہرہے بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر مکمل اجارہ داری‘ تجارتی قافلوں کے ہمہ وقت تحفظ کی یقینی ضمانت اور موسموں کی موافقت اور مطابقت سے سرد و گرم علاقوں کے سفر کی سہولت ‘یہ ان لوگوں کے لیے ایسی نعمتیں تھیں جس پر وہ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کرتے کم تھا۔ اس لیے ان نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
آیت ۳{فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَیْتِ(۳)} ’’پس انہیں بندگی کرنی چاہیے اس گھر کے ربّ کی۔‘‘
ظاہر ہے ان کے جدّ ِا مجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کا یہ گھر(ع ’’دنیا کے بُت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا‘‘) توحید کے مرکز کی حیثیت سے تعمیر کیا تھا ۔حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کو اس گھر کے پہلو میں بساتے وقت توحید کے اعتبار سے ان کی ذِمّہ داری کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا: {لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ }تاکہ وہ اللہ کی بندگی کے طور پر نماز قائم کریں۔ چنانچہ چاہیے تو یہ تھا کہ جس کعبہ کی تولیت کی وجہ سے انہیں خوشحالی اور عزّت ملی تھی وہ اس گھر کے مالک کو پہچانتے اور اس کا حق ادا کرتے ۔لیکن اس کے برعکس انہوں نے اللہ کے اس گھر میں ۳۶۰بُت نصب کرکے اسے دنیا کے سب سے بڑے بُت کدے میں تبدیل کر دیا اور اس کے اصل مالک کو بالکل ہی فراموش کر دیا۔
آیت۴{الَّذِیْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ لا۵}’’جس نے انہیں بھوک میں کھانے کو دیا‘‘
انہیں رزق عطا فرماکر فاقہ کشی سے محفوظ رکھا۔ جب عرب کے عام لوگ غربت اور تنگ دستی کا شکار تھے اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے قریش ِ مکّہ کو کامیاب تجارت اور کعبہ کی تولیت کی وجہ سے معاشی خوشحالی سے نواز رکھا تھا۔
{وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍ(۴)}’’اور انہیں خوف سے امن عطا کیا۔‘‘
ان کے قافلے سارا سال یمن اور فلسطین کے درمیان بلاخوف و خطر محو ِسفر رہتے تھے۔ خداداد تحفظ کی یہ ضمانت انہیں اس سرزمین میں میسّرتھی جہاں ہر طرف جنگل کے قانون کا راج تھا۔
سُوْرَۃُ الْمَاعُوْنِ
تمہیدی کلمات
سورۃ الماعون میں اس معاشرے کے اخلاقی انحطاط کی جھلک دکھائی گئی ہے جس میںحضورﷺ کی بعثت ہوئی۔ وہ لوگ بظاہر تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار تھے ‘لیکن عملی طور پر صورتحال یہ تھی کہ ان کے عقائد و نظریات مسخ ہو چکے تھے اور معاشرتی و اخلاقی اقدار بھی ان کے ہاں اب محض روایتوں اور رسموں کی حد تک زندہ رہ گئی تھیں۔ بدقسمتی سے آج اُمّت ِمسلمہ بھی ایسے ہی نظریاتی و اخلاقی انحطاط کا نقشہ پیش کر رہی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُکَّذِبُ بِالدِّیْنِ (۱) فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ (۲) وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (۳) فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (۴) الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاھُوْنَ (۵) الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَاۗءُوْنَ (۶) وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (۷)
آیت ۱{اَرَئَ یْتَ الَّذِیْ یُـکَذِّبُ بِالدِّیْنِ(۱)}’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جوجزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟‘‘
جو نہ تو بعث بعد الموت کا قائل ہے اور نہ ہی آخرت کی جزا و سزا کو مانتا ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس زندگی کے سوا ان کی کوئی اور زندگی نہیں ہے:{وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُـنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُج} (الجاثیۃ:۲۴)’’وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے (کوئی اور زندگی )سوائے ہماری دنیا کی زندگی کے‘ ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیںاور ہمیں نہیں ہلاک کرتا مگر زمانہ۔‘‘
آخرت کے احتساب کا انکار کر کے انسان دراصل جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتا ہے اور اس کا کردار ع ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کے فلسفے کا چلتا پھرتا اشتہار بن کررہ جاتا ہے۔
آیت۲{فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ (۲)}’’یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔‘‘
ظاہر ہے جو انسان اچھے بُرے اعمال کی جزا و سزا کو نہیں مانتا وہ معاشرے کے ایسے افراد کے لیے اپنا مال بھلا کیوں ضائع کرے گاجن سے اسے کسی فائدے کی توقع نہیں؟
آیت ۳{وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ(۳)}’’اورنہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین کرتا ہے۔‘‘
اس میں انسان کی اس اخلاقی کمزوری کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جس نیک کام پر وہ خود کاربند نہیں ہے اس کے بارے میں دوسروں کو کس منہ سے نصیحت کرے۔
آیت۴‘۵{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(۴) الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ(۵)}’’تو بربادی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے ‘جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ کی بعثت کے زمانے تک مشرکین عرب کے ہاں نماز کا تصوّر موجود تھا لیکن اس کی عملی شکل بالکل مسخ ہو چکی تھی ۔جیسا کہ سورۃ الانفال کی اس آیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے :{وَمَا کَانَ صَلَاتُہُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّتَصْدِیَۃًط} (آیت۳۵) ’’اور نہیں ہے ان کی نماز بیت اللہ کے پاس سوائے سیٹیاں بجانا اور تالیاں پیٹنا‘‘۔ ظاہر ہے جو لوگ برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور اس طواف کو سب سے اعلیٰ طواف سمجھتے تھے‘ ان کے لیے تو نماز میں سیٹیاں بجانااور تالیاں پیٹنا بھی ایک مقدّس عمل اور حصولِ ثواب کا بہت بڑا ذریعہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم مسلمانوں کے ہاں نماز کی ظاہری شکل آج تک اپنی اصلی حالت میں جوں کی توں قائم ہے ۔ حضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا اور پھر حکم دیا : ((صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))(صحیح البخاری‘ کتاب الاذان‘ باب الاذان للمسافر …‘ح:۶۳۱) کہ تم لوگ نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ حضورﷺ کی نماز کا وہ طریقہ اور عملی نمونہ جو صحابہؓ کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے‘ آج ہم اس پر تو کاربند ہیں لیکن بدقسمتی سے نماز کی اصل روح سے ہم بالکل غافل ہو چکے ہیں ۔ نماز کی اصل روح تو نمازی کا خضوع و خشوع اور یہ احساس ہے کہ وہ کس کے سامنے کھڑا ہے اور کس کے حضور کھڑے ہو کر اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ جیسا عہد و پیمان باندھ رہا ہے ۔ بہرحال آج ہماری نمازیں اس روح سے خالی ہو کر محض ایک ’’رسم‘‘ کی ادائیگی کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں (اِلاماشاء اللہ)۔ اقبال نے اپنے خصوصی انداز میں مسلمانوں کی اس زبوں حالی کی تصویر انہیں بار بار دکھائی ہے : ؎
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی!اور ؎
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تُو باقی نہیں ہے!آیت۶{الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُ وْنَ (۶)}’’یہ وہ لوگ ہیں جو دکھاوا کرتے ہیں۔‘‘
وہ نماز کی ادائیگی سمیت ہر نیک کام لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی نیکی کا چرچاہو۔
آیت ۷{وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ(۷)} ’’اور عام استعمال کی چیز بھی (مانگنے پر)نہیں دیتے۔‘‘
مَاعُوْن کے معنی روز مرہ استعمال کی چیزیں ہیں‘ جو ہر پڑوسی بوقت ضرورت اپنے پڑوسی سے عاریتاً لے لیتا ہے اور اپنی ضرورت پوری کر کے واپس لوٹا دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے کردار کی پستی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پاس سے آگ کی چنگاری (ماچس وغیرہ) اور نمک جیسی معمولی اشیاء تک بھی کسی کو دینا پسند نہیں کرتے۔
سُوْرَۃُ الْکَوْثَرِ
تمہیدی کلمات
سورۃ الکوثر اور اس سے پہلے کی تین سورتوں کے مضمون میں باہم گہرا ربط اور تعلق پایا جاتا ہے۔ اس ربط کو یوں سمجھئے کہ پہلی تین سورتوں (سورۃ الفیل‘ سورئہ قریش اور سورۃ الماعون) میں حضورﷺ کی بعثت سے قبل کے ماحول کا تاریخی ‘اقتصادی اور اخلاقی پس منظر دکھایا گیا ہے‘ جبکہ سورۃ الکوثر میں آپﷺ کی بعثت کا ذکر ہے۔گویا مذکورہ تینوں سورتوں کی حیثیت سورۃ الکوثر کی تمہید کی سی ہے۔ سورۃ الفیل میں اُس دور کے ایک بہت اہم تاریخی واقعہ کا ذکر ہے ۔ سورئہ قریش میں قریش ِمکّہ کی اقتصادیات کا حوالہ ہے کہ انہیں جو خوشحالی اور امن و امان حاصل ہے وہ صرف اور صرف بیت اللہ کی وجہ سے ہے‘ جبکہ سورۃ الماعون میں اس معاشرے کی اخلاقی پستی کی نشاندہی کی گئی ہے‘ اورا ب سورۃ الکوثر میں حضور اکرمﷺ کی بعثت کا ذکر ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (۱) فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (۲) اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ(۳)
آیت ۱ {اِنَّآاَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (۱)} ’’(اے نبیﷺ!) ہم نے آپ کو خیر ِکثیر عطا کیا۔‘‘
الکوثر : کثرت سے ماخوذ ہے‘ اس کا وزن فَوْعَلْ ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے کسی چیز کا اتنا کثیر ہونا کہ اس کا اندازہ نہ لگایا جا سکے۔ چنانچہ اس کا ترجمہ ’’خیر کثیر‘‘ کیا گیا ہے۔
’’الکوثر‘‘ کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس سے حوضِ کوثر مراد ہے ‘جو میدانِ حشر میں ہوگا اور اس سے حضورﷺ اپنی اُمّت کے پیاسوں کو سیراب فرمائیں گے۔ لیکن درحقیقت وہ بھی ’’خیر ِکثیر‘‘ ہی میں شامل ہے۔ ’’خیر کثیر‘‘ کی وضاحت سے متعلق بھی تفاسیر میں لگ بھگ پچیس تیس اقوال ملتے ہیں۔ حضورﷺ کو عطا ہونے والے خیرکثیر کی سب سے بڑی مثال خود قرآن مجید ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مثال حکمت بھی ہے۔ ظاہر ہے آپﷺ کو اعلیٰ ترین درجے میں حکمت بھی عطا ہوئی تھی ‘جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط} (البقرۃ:۲۶۹) ’’وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے‘اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر ِکثیر عطا ہو گیا‘‘۔ مزید برآں جنّت کی نہر کوثر‘ نبوت کے فیوض و برکات‘ دین ِاسلام‘ صحابہ کرامj کی کثرت‘ رفع ذکر اور مقامِ محمود کو ’’کوثر‘‘ کا مصداق سمجھاگیا ہے۔ چنانچہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے نبی (ﷺ)ہم نے آپ کو وہ سب کچھ عطا کر دیا اور کثرت کے ساتھ عطا کر دیا جس کی انسانیت کو ضرورت ہے اور جو نوعِ انسانی کے لیے طرئہ امتیاز بن سکتا ہے۔
آیت۲ {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(۲)}’’پس آپؐ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کیجیے اور قربانی کیاکیجیے۔‘‘
نحرکے لغوی معنی اونٹ ذبح کرنے کے ہیں۔ اس آیت میں جن دو احکام کا ذکر ہے ان دونوں پر عیدالاضحی کے دن عمل ہوتا ہے۔ یعنی عید الاضحی کے دن پہلے مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور پھر جانور قربان کرتے ہیں۔
آیت ۳{اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَالْاَبْـتَرُ(۳)} ’’یقیناً آپ(ﷺ) کا دشمن ہی جڑ کٹا ہوگا۔‘‘
شَانِیٔ بغض و عداوت رکھنے والے دشمن کو کہتے ہیں۔ اَبْـتَر: بترسے ہے‘ یعنی کسی چیز کو کاٹ دینا‘ منقطع کر دینا۔ اہل عرب دُم کٹے جانور کو اَبْتَر کہتے ہیں۔ عرفِ عام میں اس سے ایسا آدمی مراد لیا جاتا ہے جس کی نرینہ اولاد نہ ہو اور جس کی نسل آگے چلنے کا کوئی امکان نہ ہو۔ یہ لفظ مشرکین ِمکّہ نے (معاذ اللہ) حضورﷺ کے لیے استعمال کیا تھا ‘جس کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے حضورﷺ کی یہ اولادپیدا ہوئی : قاسم‘ پھر زینب‘ پھر عبداللہ‘ پھر رقیہ ‘پھر اُمّ کلثوم‘ پھر فاطمہ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔پہلے قاسم کا انتقال ہوا۔ پھر عبداللہ (جن کا لقب طیب و طاہر ہے) داغِ مفارقت دے گئے۔اس پر مشرکین نے خوشیاں منائیں کہ آپ ؐکے دونوں فرزند فوت ہو گئے ہیں اور باقی اولاد میں آپؐ کی بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں۔ لہٰذا آپؐ جو کچھ بھی ہیں بس اپنی زندگی تک ہی ہیں‘ آپؐ کے بعد نہ تو آپؐ کی نسل آگے چلے گی اور نہ ہی کوئی آپؐ کا نام لیوا ہو گا۔ اس پس منظر میں یہاں ان لوگوں کو سنانے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبیﷺ!آپ کا نام اور ذکر تو ہم بلند کریں گے‘ جس کی وجہ سے آپ کے نام لیوا تو اربوں کی تعداد میں ہوں گے ۔البتہ آپ کے یہ دشمن واقعی اَبْتَر ہوں گے جن کا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025