(تذکرہ و تبصرہ) موت: ایک اٹل حقیقت! - اعجاز لطیف

9 /

موت: ایک اٹل حقیقت!تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع ۲۰۲۴ء کے موقع پر
نائب امیر جناب اعجاز لطیف کا خطابِ جمعہ

آج کی جمعہ کی تذکیر موت کے حوالے سے ہے ۔ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی کافر سے کافر اور دہریے سے دہریہ شخص بھی انکار نہیں کر سکتا۔ سورۃ الملک میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط } (آیت۲)
’’اس نے موت اور حیات کا یہ سلسلہ اس لیے تخلیق فرمایا تاکہ تم سب کو( جانچے‘ پرکھے) آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے۔ ‘‘
غور فرمائیے کہ یہاںموت کا ذکر زندگی سے پہلے کیا گیا ہے۔ البتہ عمومی رویہ یہی ہے کہ کوئی بھی مرنا نہیں چاہتا۔ پندرہویں صدی عیسوی میںفرانس کا ایک بادشاہ لوئی یازدہم (Louis XI)ہوا ہے۔اس نے طویل عرصہ بادشاہ کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا ‘ چنانچہ آخری عمر میں ایک بند قلعے میں رہنے لگا تاکہ ملک الموت اس تک نہ پہنچ سکے۔ وہاں بہت کم لوگوں کو داخلے کی اجازت تھی۔ قلعے کے چاروں طرف خندق کھود دی گئی تھی تاکہ کوئی اس کے قریب نہ پہنچ سکے ۔قلعے کی دیواروں پر ہر وقت تیر انداز بیٹھے رہتے تھے۔ ان کے علاوہ چالیس گھڑ سوار دن رات اس کے چاروں طرف گشت کرتے رہتے تھے۔ بادشاہ کا حکم تھا کہ جو بھی بلااجازت قلعہ کے اندر آنے کی کوشش کرے‘ اس کو پکڑ کر اسی وقت قتل کر دیا جائے۔ قلعہ کے اندر بادشاہ کے لیے عیش و عشرت کا ہرسامان مہیا کیا گیا تھا تاکہ اسے کبھی ڈپریشن نہ ہو۔ اس کو زندہ رہنے کا اتنا شوق تھا کہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ اس کے سامنے موت کا لفظ ہرگز نہ بولا جائے۔ لیکن موت سے کس کو مفر ہے! یہ وہ حقیقت ہے جو قرآن حکیم بیان کرتا ہے۔ ارشاد ہوتاہے :
{قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ } (الجمعۃ:۱۱)
’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ملاقات کرکے رہے گی ...‘‘
موت کے لفظ سےجو فرار اختیار کیا جاتا ہے‘اس کی یہ ایک زندہ مثال تھی۔ ایک ماہر ڈاکٹر ہر وقت اس کی خدمت میں رہتا تھا ‘جسے اس زمانے کے دس ہزار سنہری سکے دیے جاتے تھے۔ تاہم ان میں سے کوئی چیز بھی بادشاہ کو بڑھاپے اور کمزوری سے نہ بچا سکی۔ ۶۰ سال کی عمر میں وہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ مشکل سے کھانے کی کوئی چیز اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس کے جینے کی خواہش وہم کی حد تک پہنچ چکی تھی ۔اس کو کسی نے بتایا کہ کچھوے ۵۰۰ سال تک زندہ رہتے ہیں تو اس نے بحری جہاز بھیج کر جرمنی اور اٹلی کے سمندروں سے کچھوے منگوائے ‘ جواس کے قریب ایک بڑے حوض میں رکھے گئے تاکہ اس کی زندگی کو بھی کچھ دوام حاصل ہوسکے۔ تاہم یہ چیزیں اسے بچا نہ سکیں۔ آخر کار اسے فالج کا حملہ ہوااور اگست ۱۴۸۳ء میں موت نے اس پر قابو پالیا۔مرنے سے پہلے اس کی زبان سے جو آخری الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ : ’’میں اتنا بیمار تو نہیں ہوں جتنا آپ لوگ خیال کرتے ہیں۔‘‘ تاہم اس کی تمام کوششیں بیکار ہوئیں اور آخر بادشاہ کو معلوم ہو گیا کہ موت جیسی اٹل حقیقت سے فرار ممکن نہیں۔
موت سے فرار اختیار کرنے کی مثالیں آج بھی ہمیں نظر آتی ہیں۔ کسی کی بھی میت ہو جائے تووہاں پر بجائے اپنی موت کو یاد کرنے کے یا آخرت کے تذکرے کے باتیں پلاٹوں‘ دکانوں‘ سٹاک ایکسچینج‘ سیاست کی ہو رہی ہوتی ہیں۔ میت پاس پڑی ہوئی ہے لیکن کسی کو یہ یاد نہیں کہ میرا بھی یہ انجام ہونا ہے بلکہ وہ دنیوی گفتگو میں لگے ہوئے ہیں۔فرمایا :
{ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَــبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸) }
’’پھر تم لوٹائے جائوگے اس ہستی کی طرف جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے‘ پھر وہ تمہیں جتلا دے گاجو کچھ تم کرتے رہے تھے۔‘‘
یہ زندگی جوں جوں گزرتی جاتی ہے‘ امیدیں جوان ہوتی جاتی ہیں اورانسان اپنی خواہشات کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے۔ایسے میں زندگی بڑی حسین و جمیل لگنے لگتی ہے۔ مسلسل اٹھارہ ‘ بیس گھنٹےکام کرنے میں لگا رہتا ہے ‘ حتیٰ کہ بالوں میں سفیدی آنے لگتی ہے۔ وقت کا دریا کامیابیوں ‘ناکامیوں‘ خواہشات ‘خوشیوں اور غمیوں کے نشیب و فراز کے ساتھ مسلسل بہتا رہتا ہے۔انسان آہستہ آہستہ تھکن محسوس کرنے لگتا ہے ۔بڑھاپا موت کے دروازے پر دستک دینے لگتا ہے لیکن غافل انسان پھر بھی ویسے ہی رواں دواں رہتا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ ابھی بڑا وقت پڑا ہے۔ طویل خواہشات ‘طویل امیدوںاور طویل منصوبوں کے حصول کا سفر جاری رہتا ہے۔ ڈالر ‘ریال ‘یورو ‘ روپے ‘پلاٹ ‘فلائٹ‘ فیکٹریوں‘ کوٹھیوں‘ گاڑیوں کے چکر سے انسان نکل نہیں پاتا۔ بلند تر معیارِ ہستی کے حصول کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے ۔ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے عزیز و اقارب کی اموات ہوتی رہتی ہیں لیکن انسان رسم تعزیت ادا کر کے پھر اپنی انہی دلچسپیوں کے اندر گم ہو جاتا ہے۔ اسے سامنے کا نوشتہ دیوار نظر نہیں آتا کہ اب ہماری بھی باری آنے والی ہے۔
قرآن حکیم میں موت کا تذکرہ
موت کے حوالے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں قرآن مجید میں بھی کئی پہلوؤں سے یاددہانی کرائی ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ کی احادیث مبارکہ میں سے بھی چند ایک کا تذکرہ آپ کے سامنے کر رہا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ موت خود بخود نہیں آ جاتی ‘نہ کسی کے کہنے سے آتی ہے ۔ یہ کس کے حکم سے آتی ہے ‘اس حوالے سے سورئہ آل عمران میں فرمایا گیا:
{وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ کِتٰــبًا مُّؤَجَّلًاط }
’’اور کسی جان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مر سکے مگر اللہ کے حکم سے۔‘‘
نہ ایک گھڑی پہلے نہ ایک گھڑی بعد میں ۔ایک وقت معیّن ہے ‘ جو اللہ کی طرف سے طے شدہ ہے۔ البتہ یہ جو زندگی کی مہلت ہے اس میں:
{وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُــؤْتِہٖ مِنْہَاج وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُــؤْتِہٖ مِنْہَاط}(آیت۱۴۵)
’’ جو کوئی صرف دنیا کی زندگی کا بدلہ چاہتا ہے تو ہم اس میں سے اسے دے دیتے ہیں‘ اور جو واقعتاً آخرت کا اجر چاہتا ہے ہم اُسے اس میں سے دیں گے۔‘‘
یہ بات سورۃ البقرۃ میں بھی آئی:
{فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ(۱۹۹) وَمِنْہُمْ مّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (۲۰۰) اُولٰۗئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ۭ وَاللہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (۲۰۱)}
’’لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو یہی کہتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا ہی میں دے دے‘ اور ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور اُن میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں پروردگار! ہمیں اس دنیا میں بھی خیر عطا فرما اور آخرت میں بھی خیر عطا فرما اور ہمیں بچا لے آگ کے عذاب سے۔ان ہی لوگوں کے لیے حصہ ہوگا اُس میں سے جو انہوں نے کمایا۔اور اللہ جلد حساب چکانے والا ہے۔‘‘
لیکن یہ سب نری دعائوں سے نہیں ملے گا۔ اُن کے لیے بھی حصہ ہے اس میں سے جو کچھ انہوں نے کمایا۔ جو کوشش کی‘ محنت کی۔ لفظ ’’کسب‘‘ کا ذکر آگے بھی آئے گا۔
مَیں موت سے متعلق اپنے موضوع تک بات کو محدود رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہوں۔
جیسا کہ بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ہمیں پڑھایا کہ اہم مضامین قرآن مجید میں کم از کم دویا دو سے زیادہ مرتبہ دہرا کر آتے ہیں۔ یہ بات کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘ قرآن مجید میں تین مرتبہ آئی ہے۔ سب سے پہلے سورئہ آل عمران کی آیت ۱۸۵ میں:
{کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط }
’’ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘ اور تم کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ تو قیامت ہی کے دن دیا جائے گا۔‘‘
یہ دنیا دار الجزا نہیں ‘دار الامتحان ہے‘ بدلہ آخرت میں ملےگا۔ اس بدلے کے نتیجے میں :
{فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَط}
’’پس جو کوئی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا۔‘‘
ہم پتا نہیں کون سی کامیابیوں اور ناکامیوں کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اصل فیصلہ تو جو ہار اور جیت کے فیصلے کا دن ہے {ذٰلِکَ یَوْمُ التَّـغَابُنِ} اس دن طے ہوگا ۔ اس دن جسے اللہ نے کامیاب قرار دیا اوراپنے فضل سے ‘اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دیا وہی کامیاب ہے۔ اب اگر اس ٹارگٹ سے کم تر زندگی گزاری جا رہی ہے تو:
{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَـآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(۱۸۵)}
’’اور یہ دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے سامان کے کچھ نہیں۔‘‘
ہاں اگر اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر زندگی گزاری جا رہی ہے تو ((الدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃِ)) یہی دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو یہاں بوئیں گے ‘وہاں کاٹیں گے۔
یہی تذکرہ سورۃ الانبیاء کی آیت ۳۵ میں آیا:
{کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃًط}
’’ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں آزماتے رہتے ہیں‘ (تمہارا امتحان لیتے رہتے ہیں) شر سے بھی اور خیر سے بھی۔‘‘
نہ کوئی دنیا کی خیر خیر ہے اور نہ کوئی دنیا کا شر شر ہے۔ دونوں دراصل امتحان ہیں۔ امتحان لینے والا کہہ رہا ہے کہ اس کی مرضی ہے ‘کبھی وہ دے کر آزماتا ہے ‘کبھی لے کر آزماتا ہے۔
{وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(۳۵) }
’’اور تم سب کو ہماری ہی بارگاہ میں لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
شاعر نے کہا کہ: ؎
موت سے کس کو رستگاری ہے!
آج وہ‘ کل ہماری باری ہے!
لیکن ہم یہ سبق یاد کرنے کے لیے بہت کم تیار ہوتے ہیں‘اِلّا ماشاءاللہ۔پھر سو باتوں کی ایک بات سورۃ القصص میں بھی فرما دی اور سورۃ الرحمٰن میں بھی۔ سورۃ القصص کی آخری آیت میںفرمایا:
{ کُلُّ شَیْ ئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ط لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ(۸۸) }
’’ہر شے ہلاک ہو جانے والی ہے سوائے اُس کے چہرئہ انور کے ۔ اختیار و اقتدار اُسی کا ہے اور اُسی کی بارگاہ میں تم سب کے سب لوٹائے جائو گے۔‘‘
یہی بات سورۃ الرحمٰن کے آخر میں فرمائی گئی:
{کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ(۲۶) وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ (۲۷) }
’’جو کوئی بھی اس زمین پر ہے سب فنا ہوجانے والا ہے‘ اور باقی رہنے والا تیرے ربّ ذوالجلال والاکرام کا چہرئہ انور ہے۔‘‘
گویا کہ اس میں کسی کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں چاہے کوئی نبی ہو‘ ولی ہو۔ جو آیا ہے‘ جانے کے لیے آیا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا کہ : ؎
ہر نفس طوفان ہے‘ ہر سانس ہے اِک زلزلہ
موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلہ
ہر سانس ہمیں موت کے قریب کر رہا ہے: ؎
مضطرب ہر چیز ہے‘ جنبش میں ہے ارض و سما
ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیا
احادیث ِمبارکہ میں موت کا تذکرہ
موت کو رسول اللہ ﷺ نےسب سے پہلے متعارف کروایا تو وہ اس طرح کہ:((تُحْفَۃُ الْمُؤْمِنِ المَوْتُ))(المستدرک للحاکم:۷۹۰۰)’’موت مؤمن کے لیے تحفہ ہے۔‘‘ جسے ہم بڑی ناگوار چیز سمجھ رہے ہیں ‘اللہ کے رسول ﷺ اسے مؤمن کے لیے تحفہ قرار دے رہے ہیں۔ اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں اور اس کو امام بیہقی نے نقل کیا ہے۔ موت طبعی طور پر کسی کے لیے بھی خوش گوار نہیں ہوتی‘ لیکن اللہ کے جن بندوں کو ایمان و یقین کی دولت نصیب ہے وہ موت کے بعد اللہ تعالیٰ کے انعامات‘ اس کے قربِ خصوصی اور اس کی لذتِ دیدار پر نظر رکھتے ہوئے منطقی طور پر موت کے مشتاق ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے آنکھ میں سرجری کوئی نہیں کروانا چاہتا لیکن اگر یہ بتایا جائے کہ اس کے نتیجے میں بینائی بہتر ہوجائے گی تو لاکھوں روپے دے کر بھی سرجری کروائی جاتی ہے‘ حالانکہ یہ یقینی بات نہیں ہے کہ بینائی بہتر ہوگی۔ وہ مکمل طور پر جا بھی سکتی ہے۔ البتہ جنہیں اس امر پر اطمینان حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات‘ اس کا قرب اور اس کی لذتِ دیدار بالکل یقینی ہے تو اس لحاظ سے ان کے لیے موت ایک محبوب ترین تحفہ ہے۔
سیّدناشداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((اَلکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہُ ھَوَاھَا، ثُمَّ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ)) (سنن الترمذی:۲۴۵۹)
’’ہوشیار اور دانا وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کے لیے (یعنی آخرت کی نجات اور کامیابی کے لیے) عمل کرے‘ جبکہ نادان اور ناتواں وہ ہے جو (احکامِ خداوندی کے بجائے )اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے‘ پھر اللہ سے امیدیں بھی باندھے (کہ وہ بڑا بخشنے والا ہے)۔‘‘
دنیا میں چالاک ‘ ہوشیار اور کامیاب وہ سمجھا جاتا ہے جو دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا ہو‘ جو کرنا چاہے کر سکتا ہو‘ جبکہ بے وقوف و ناتواں وہ سمجھا جاتا ہے جو دنیا کمانے میں تیز اور چالاک نہ ہو ۔ اہل دنیا اس فانی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں‘ ان کو ایسا سمجھنا بھی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بتایا کہ چونکہ اصل زندگی یہ چند روزہ نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے تو اسی کے لیے جو تیاری میں لگا ہے وہ ہوشیار ہے ۔
اگلی حدیث امام بخاری ؒنے نقل کی اور اس میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے میرے دونوں مونڈھے پکڑ کر مجھ سے ارشاد فرمایا: ((کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ))(صحیح البخاری:۶۴۱۶) ’’دُنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی یا راستہ چلتا مسافر۔‘‘
کوئی مسافر پردیس کو اور راہ گزر کو اپنا اصلی وطن نہیں سمجھتا۔ ہمارے جو بھائی بیرون ملک جاتے ہیں وہ بڑی مشقت کے ساتھ کمائی کرتے ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ روکھی سوکھی کھا کر اور مشکل حالات میں جی کر یہ تھوڑی سی تنگی کاٹ لیں‘ پھر اپنے وطن میں جائیں گے تو ٹھاٹ سے رہیں گے۔ چنانچہ یہ دنیا بھی ہمارے لیے کچھ ایسی ہی ہے۔ اصل وطن یہ نہیں بلکہ آخرت ہے۔ اس اعتبار سے مؤمن کو چاہیے کہ یہاں ایسی فکر نہ کرے کہ جیسے اس نے ہمیشہ رہنا ہے بلکہ اس کو ایک پردیس اور راہ گزر سمجھ کر زندگی گزارے۔
سیّدنا محمود بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((اِثْنَتَانِ یَکْرَھُھُمَا ابْنُ آدَمَ: یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَیْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَۃِ، وَیَکْرَہُ قِلَّۃَ الْمَالِ وَقِلَّۃُ الْمَالِ اَقَلُّ لِلْحِسَابِ))(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :۱۰۴۹)
’’آدم کا بیٹا دو چیزوں کو ناپسند کرتا ہے:(۱) موت کو ناپسند کرتا ہے‘ حالانکہ موت مومن کے لیے فتنے سے بہتر ہے‘ اور(۲) قلت مال کو ناپسند کرتا ہے‘ حالانکہ مال کی کمی (قیامت والے دن) حساب کے ہلکا ہو جانے کا باعث ہے۔‘‘
یعنی دو چیزیں ایسی ہیں جن کو آدمی ناپسند کرتا ہے حالانکہ ان میں اس کے لیے بہتری ہے ۔ایک تو وہ موت کو پسند نہیں کرتا حالانکہ موت اس کے لیے فتنہ سے بہتر ہے۔ پہلے ذکر ہوا کہ {وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً} ’’ ہم تمہیں جانچتے رہتے ہیں ‘آزماتے رہتے ہیں شر سے بھی خیر سے بھی بطور آزمائش‘‘ ۔ زندگی تو ہے ہی آزمائش کا نام۔ ؎
قلزم ہستی سے تُو اُبھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!
نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ دوسرے وہ مال کی کمی اور ناداری کو پسند نہیں کرتا حالانکہ یہ امر آخرت کے حساب کو بہت مختصر اور ہلکا کر دینے والا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر آدمی موت سے اورافلاس سے گھبراتا ہے ‘ان سے بچنا چاہتا ہے ۔ موت اس لحاظ سے بہت بڑی نعمت ہے کہ مرنے کے بعد آدمی دنیا کے دین سوز فتنوں سے ‘ جھمیلوں سے مامون اور محفوظ ہو جاتا ہے۔ مال و دولت کی کمی اس لحاظ سے بڑی نعمت ہے کہ ناداروں اور مفلسوں کو آخرت میں بہت مختصر حساب دینا پڑے گا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے اس پر صرف وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا۔ آپﷺ کے پاس مال ایک رات کے لیے بھی نہیں ٹھہرتا تھا ‘مستحقین تک پہنچ جاتا تھا۔آپﷺ دعا کیا کرتے تھے: ((اَللّٰھُمَّ أحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا))’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘ ((وَاَمْتِنِیْ مِسْکِیْنًا)) ’’اور مجھے مسکینی کی حالت میں موت عطا فرمانا۔‘‘((وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))(سنن الترمذی:۲۳۵۲)’’اور قیامت کے روز میرا حشر مسکینوں کے ساتھ کرنا۔‘‘اس لیے کہ ان کا حساب بڑا جلدی ہو جانے والا ہے۔ اگر انسان ان چیزوں کو شعوری طور پر اختیار بھی کرے اور اللہ سے مانگے بھی تو پھر اللہ تعالیٰ عطا بھی فرماتا ہے۔
اگلی حدیث بھی امام ترمذیؒ نے نقل کی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کرتےہوئے ارشاد فرمایا :
((اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ، وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ)) (رواہ الحاکم والبیھقی)
’’پانچ حالتوں کو دوسری پانچ حالتوں کے آنے سے پہلے غنیمت سمجھو۔ جوانی کو بڑھاپے کے آنے سے پہلے ‘ تندرستی کو بیمار ہونے سے پہلے ‘ خوش حالی اور فراخ دستی کو ناداری اور تنگ دستی سے پہلے‘جبکہ فرصت اور فراغت کو مشغولیت کے آنے سے پہلے غنیمت جانو ‘ اور زندگی کو موت کے آنے سے پہلے غنیمت جانو۔‘‘
اس آخری بات کے لیے یہ حدیث سنائی گئی ہے کہ زندگی کو موت کی تیاری اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے استعمال کرو۔
امام ترمذی ؒہی سے منقول یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک روز اپنے اصحابؓ سے فرمایا: ((اِسْتَحْیُوْا مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ حَقَّ الْحَیَاءِ)) ’’ اللہ تعالیٰ سے ایسی حیا کیا کرو جیسے اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا:الحمد للہ‘ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا :’’( حیا کا مفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو بلکہ ) اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور اس میں جو افکار و خیالات ہیں ان سب کی نگہداشت کرو ‘اور پیٹ کی اور جو کچھ اس میں بھرا ہے اس کی نگرانی کرو (یعنی برے خیالات سے دماغ کی جبکہ حرام اور ناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو)۔ پھر موت اور اس کے بعد قبر میں جو حالت ہونی ہے اس کو یاد کرو ۔ جو شخص آخرت کو اپنا مقصد بنائے گا وہ دنیا کی آسائشوں اور عیش و عشرت سے دست بردار ہو جائے گا (اور اس چند روزہ زندگی کے عیش کے مقابلے میں آگے آنے والی زندگی کی کامیابی کو اپنے لیے پسند اور اختیار کرے گا)۔ پس جس نے یہ سب کچھ کیا ‘سمجھو کہ اُس نے اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کیا ہے۔‘‘
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے حیا کرنے کا حق وہی بندے ادا کرسکتے ہیں جن کی نظر میں اس دنیا اور اس کے عیش و عشرت کی کوئی قیمت نہ ہو۔ دنیا کو ٹھکرا کر آخرت کو سنوارنا ان کا اصل مطمح نظر ہو۔ موت اور اس کے بعد کی منزلیں انہیں ہر وقت یاد رہتی ہوں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو! نہیں ہے کوئی ایسی چیز جو جنت سے تم کوقریب اور دوزخ سے تم کو بعید کرے مگر اس کا حکم میں تم کو دے چکا ہوں‘ اور (اسی طرح) نہیں ہے کوئی ایسی چیز جو دوزخ سے تم کو قریب اور جنت سے بعید کرے مگر میں تم کو اس سے منع کر چکا ہوں (یعنی نیکی اور ثواب کی کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کی تعلیم میں نے تم کو نہ دی ہو جبکہ بدی اور گناہ کی کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے میں نے تم کو منع نہ کر دیا ہو۔ اللہ کے تمام مثبت اور منفی احکام جو مجھے ملے تھے وہ تم کو پہنچا چکا ہوں ۔ )روح الامین نے (جبکہ ایک روایت میں روح القدس نے -----اور دونوں سے مراد جبریل امین علیہ السلام ہیں) ابھی میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے :
((اَنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَھَا، اَلَا فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَجْمِلُوْا فِی الطَّلَبِ، وَلَا یَحْمِلَنَّکُمُ اسْتِبْطَاءِ الرِّزْقِ اَنْ تَطْلُبُوْہُ بِمَعَاصِی اللّٰہِ، فَاِنَّہُ لَا یُدْرَکُ مَا عِنْدَ اللّٰہِ اِلَّا بِطَاعَتِہٖ))( رواہ البیہقی فی شعب الایمان )
’’یہ کہ کوئی جان اس وقت تک مر نہیں سکتی جب تک کہ اپنے حصے کا رزق مکمل نہ کر لے (موت نہیں آئے گی اس سے پہلے کہ جب تک وہ رزق مکمل نہ ہو جو اللہ نے طے کر دیا ہے۔ جس کے لیے ہم نے صبح و شام ایک کیے ہوئے ہیں‘ یہ سب تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے طے کر دیا ہے۔یہ بات آپ ﷺ کے دل میں روح الامین نے اللہ کے حکم سے ڈالی۔ گویا اللہ کی بات آپﷺ conveyکررہے ہیں) ۔لہٰذا اے لوگو! اللہ سے ڈرو اور تلاشِ رزق کے سلسلے میں نیکی اور پرہیزگاری کا رویہ اختیار کرو۔روزی میں کچھ تاخیر ہو جانا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے تم اللہ کی نافرمانیوں (اور غیر شرعی طریقوں) سے اسے حاصل کرنے کی فکر اور کوشش کرنے لگو ‘کیونکہ جو کچھ اللہ کے قبضے میں ہےوہ اس کی فرماں برداری اور اطاعت گزاری کے ذریعے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
یہ حدیث اکثر جمعہ کے خطبوں میں بھی سنائی جاتی ہے ۔اگر صرف اس ایک بات کا یقین ہی حاصل ہو جائے تو جتنی پریشانیاں ہم نے اپنے لیے پال رکھی ہیں ان سب سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔
ایک اور حدیث جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں‘اسے امام ترمذیؒ ‘ نسائیؒ اور ابن ماجہؒ نے نقل کیا ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((اَكْثِرُوْا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ: الْمَوْتُ))
’’لذات کو ختم کرنے والی یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو!‘‘
لوگو! موت کو کثرت سے یاد کرو اور یاد رکھو یہ دنیا کی لذتوں کو ختم کر دینے والی ہے۔ اگر انسان واقعی دنیا اور اس کی رنگینیوں میں کھونا نہیں چاہتا تو اسے موت کو کثرت سے یاد رکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے یہ حکایت کے درجے کی بات ہے کہ کسی شخص کی حضرت عزرائیل علیہ السلام جو ملک الموت ہیں ‘ان سے دوستی ہو گئی ۔ اس نے حضرت عزرائیلؑ سے کہا : آپ نے جب میرے پاس آنا ہو تو سال بھر پہلے مجھے بتا دیجیے گا تاکہ میں موت کی کچھ تیاری کر لوں۔ حضرت عزرائیل نے وعدہ فرما لیا لیکن پھر ایک روز اچانک فرمانِ شاہی لے کر پہنچ گئے۔ وہ آدمی ملک الموت کوایک دم سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا ۔عرض کی :آپ نے تو مجھ سے سال بھر پہلے بتانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب آپ اچانک تشریف لے آئے ؟عزرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اس سال کے دوران مَیں تمہارے فلاں فلاں عزیز ‘فلاں فلاں رشتہ دار ‘فلاں فلاں دوست کے پاس آیا اور یہی بتانے کے لیے آتا رہا کہ تیاری کر لو‘ تمہارے پاس بھی آنے والا ہوں۔ میرا خیال تھا کہ تم کافی عقل مند اور سمجھ دار ہو لیکن تم اتنے ہی احمق اور بے وقوف نکلے کہ سمجھ نہ سکے تو اس میں میرا کیا قصور! یہ جو کسی کے انتقال پر ہم اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہیں تو مرنے والے کو ثواب نہیں پہنچا رہے ہوتے بلکہ اس میں یہی یاد دہانی ہوتی ہے کہ وہ تو چلا گیا ‘ہم بھی اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والےہیں۔
ایک حدیث بخاری اورمسلم دونوں میں آئی ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی کسی دکھ اور تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنّا اور دعا نہ کرے ‘اگر وہ بالکل لاچار ہو جائے تو یوں دعا کرے :((اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مَاکَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِیْ)) ’’اے اللہ! مجھے زندگی عطا کیے رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہے اور مجھے وفات دے دیجیو جبکہ فوت ہونا میرے لیے بہتر ہے۔‘‘ یہاں پر بھی اللہ کی مشیت اور اسی کی مرضی کا ذکر ہے۔ اللہ کے علم میں ہے کہ کب تک زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہے اور کب میرے لیے فوت ہونا بہتر ہے۔
موت کیا ہے ؟میری موت پر سب سے پہلے مجھ سے جو چھین لیا جائے گا وہ میرا نام ہوگا۔ جب میں مر جاؤں گا تو لوگ کہیں گے کہ میت کہاں ہے! پھر نام نہیں‘ ڈیڈ باڈی ہوتی ہے۔ مجھے میرے نام سے نہیں پکاریں گے ۔جب نماز جنازہ پڑھانی ہو تو کہیں گے جنازہ لے آؤ‘ میرا نام نہیں لیں گے۔ جب میرے دفنانے کا وقت آجائے گا تو کہیں گے میت کو قریب کر دو ‘تب بھی کوئی میرا نام نہیں لے گا۔ اس وقت میرا نسب نہ میرا قبیلہ میرے کام آئے گا اور نہ ہی میرا منصب اور میری شہرت‘ چاہے دنیا میں مَیں کتنا بھی تیس مارخاں تھا ۔کتنی فانی اور دھوکے کی ہے یہ دنیا جس کی طرف ہم لپکتے ہیں! اے انسان! خوب جان لے کہ تجھ پر غم و افسوس تین طرح کا ہوتا ہے ۔ایک وہ لوگ جو تجھے سرسری طور پر جانتے ہیں ‘وہ مسکین کہہ کر غم کا اظہار کرتے ہیں۔ دوسرے تیرے دوست چند گھنٹے یا چند روز تیرا غم کریں گے ‘ پھر اپنی باتوں اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جائیں گے۔ زیادہ گہرا زخم تیرے گھر والوں کو‘تیرے اہل وعیال کو ہوگا جو ہفتہ ‘دو ہفتے‘ مہینہ ‘دو مہینے یازیادہ سے زیادہ ایک سال تک ہوگا۔ اس کے بعد وہ بھی تجھے یادوں سے بالکل محو کر دیں گے۔ لوگوں کے درمیان تیرا قصہ ختم ہو جائے گا ‘ جبکہ مرنے کے ساتھ ہی آخرت میں تیرا حقیقی قصہ شروع ہو جائے گا ۔وہاں جا کر انسان حسرت سے کہے گا :{یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ(۲۴)} (الفجر)’’اے کاش کہ میں نے اپنی اصل زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا!‘‘ تجھ سے چھن گیا تیرا جمال ‘مال ‘صحت ‘اولاد ۔جدا ہو گئے تجھ سے مکان ‘ محلات ‘بیوی غر ض ساری دنیا ۔ کچھ باقی نہیں رہا تیرے ساتھ سوائے تیرے اعمال کے ۔ اب کوئی چیز تیرے کام آنے والی نہیں ہے۔ حقیقی زندگی کا آغاز اب ہوگا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تو نے اپنی قبر اور آخرت کے لیے کہاں تک تیاری کی؟ یہی حقیقت ہے جس کےلیے توجہ کرنی چاہیے۔اس کے لیے چاہیے کہ اپنے فرائض ادا کیے جائیں۔ ایک فرائض وہ ہیں جو ہم نماز ‘روزے کی حد تک سمجھتے ہیں۔فرائض دینی کا حقیقی تصوّر یہ ہے کہ خود بھی اللہ کا بندہ بننا ہے اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینی ہے ۔ اللہ کی بندگی والا نظام قائم کرنے کے لیے محنت اور جدّوجُہد کرنی ہے۔انسان پوشیدہ اورعلانیہ صدقہ جاریہ کرے‘ نیک کاموں کی کثرت کرے ۔ اس یاد دہانی کا اثر قیامت کے دن ترازو میں نظر آئے گا ۔ اس لحاظ سے انسان کو موت سے ڈرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے! ڈرنے سے موت لیٹ تو نہیں ہوتی۔ موت کا علاج موت کی تیاری ہے ۔موت کے بعد کے مراحل کو ذہن میں رکھیے ۔دنیاوی مراحل تو لوگ پورے کرا دیتے ہیں ۔ ایک مسلمان کو موت کے بعد نہانے‘ کفن پہننے اور دفن ہونے کے لیے کوئی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔ لوگ سب کچھ کر دیں گے۔ قبرستان تک صرف چھوڑ کر ہی نہیں آئیں گے بلکہ جو جتنا پیار کرنے والا ہوگا اتنا ہی زیادہ قبر پر مٹّی بھی ڈالے گا۔ مٹّی ڈال کر قبر کو پکا کر کے دبائیں گے۔ کاش کہ جب زمین پر تھا تو سمجھ لیتا کہ دنیا والوں کے پاس تیرے لیے مٹّی ہی تھی‘ اور کچھ نہیں ۔ساری زندگی تیری آنکھوں میں دھول جھونکی اور پھر مٹھی بھر مٹّی تیری قبر پر ڈال کر گویا فرض ادا کر دیا۔ بقول ثاقب لکھنوی ؎
مٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے
اور بقول قمر جلالوی؎
دبا کے قبر میں سب چل دیے ‘دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو!
یہ فرق جو ہے یہ بھی پیش نظر رہے ۔؎
آدمی کا جسم کیا ہے جس پہ شیدا ہے جہاں
ایک مٹّی کی عمارت‘ ایک مٹّی کا مکاں
خون کا گارا بنا ہے اینٹ جس میں ہڈیاں
چند سانسوں پہ کھڑا ہے یہ خیالی آسماں
موت کی پُرزور آندھی اس سے جب ٹکرائے گی
یہ عمارت ٹوٹ کر پھر خاک میں مل جائے گی
اور بقول بیدم؎
یہ جو کچھ دیکھتے ہیں ہم فریب خوابِ ہستی ہے
تخیل کے کرشمے ہیں‘ بلندی ہے نہ پستی ہے
عجب دنیائے حیرت عالم گورِ غریباں ہے
کہ ویرانے کا ویرانہ ہے اور بستی کی بستی ہے
وہی ہم تھے کبھی جو رات دن پھولوں میں تلتے تھے
وہی ہم ہیں کہ تربت چار پھولوں کو ترستی ہے
موت کی ایک ریہرسل روزانہ ہمیں اللہ تعالیٰ کراتا ہے جس کا تذکرہ سورۃ الزمر کی آیت۴۲ میں فرمایا گیا:
{اَللہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ج }
’’اللہ ہی جو کسی جان کو وفات دیتا ہے اس کی موت کے وقت‘ اور جو جان ابھی مرتی نہیں ہے اس کو وفات دیتا ہے اس کی نیند کی حالت میں ۔‘‘
{فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ط}
’’ پس جس کی موت کا وہ فیصلہ فرما دیتا ہے ‘ اس کی جان روک لیتا ہے اور دوسری کو واپس بھیج دیتا ہے ایک وقت معین تک کے لیے ۔‘‘
رات ٹھیک ٹھاک سوئے تھے‘ صبح دروازے پیٹتے رہے تو پتا چلا کہ جناب تو کتنا عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ سونے والا جب نیند سے بیدار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے گویا نئی زندگی نصیب کرتا ہے۔ اس کا فہم و شعور اور اختیار و ارادہ واپس آ جاتا ہے اور ایک وقت معین یعنی اس کی موت تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۴۲)}
’’بے شک اس میں نشانیاں ہیں غور و فکر کرنے والوں کے لیے۔‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں ان باتوں کی یقین دہانی کتنے خوبصورت انداز میں سکھائی۔ سوتے وقت کی دعا : ((اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ اَمُوْتُ وَ اَحْیَا))(صحیح البخاری:۶۳۲۵) ’’اے اللہ !میں تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہونا نصیب ہوگا تو وہ بھی تیرے نام کے ساتھ ۔‘‘ہر رات انسان کو شعوری طور پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اور جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا مبارک عمل تھا ‘باوضو ہو کر سونا چاہیے۔ اس حوالے سے امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے ‘وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے مجھ سے فرمایا:((یَا بُنَیَّ اِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَکُوْنَ اَبَدًا عَلٰی وُضُوْءٍ فَافْعَلْ))’’ اے میرے بچے! اگر تمہارے اندر یہ استطاعت ہو کہ تم ہمیشہ باوضو رہو تو ایسا کرو۔‘‘یہ ہدایت کیا صرف حضرت انسؓ کے لیے ہے؟ کیا ہم آپﷺ کے روحانی بیٹے نہیں ہیں؟کیا آپ ﷺ کا یہ خطاب مجھ سے اور آپ سے نہیں ہے؟آگے فرمایا: ((فَاِنَّ مَلَکَ الْمَوْتِ اِذَا قَبَضَ رُوْحَ الْعَبْدِ وَھُوَ عَلیٰ وُضُوءٍ کُتِبَ لَہُ شَھَادَۃً)) ’’بے شک جب ملک الموت کسی شخص کی روح قبض کرتا ہے اور وہ حالت وضو میں ہو تواُس کے لیے شہادت لکھ دی جاتی ہے ۔‘‘ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں :اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً تو شہادت کے حصول کے لیے جہاں اور کوششیں کرنی ہیں وہاں اللہ کے رسول ﷺ کا بتایا ہوا یہ نسخہ بھی اپنا معمول بنائیں۔ اپنے دل میں ارادہ کریں۔
آج کی اس تذکیر کا کم از کم حاصل یہ ہے کہ رات کو سوتے وقت اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر‘ جتنا حصہ قرآن کا یاد ہے اس میں سے کچھ پڑھ کر اور نبی اکرمﷺ کے مبارک عمل یعنی آخری تین سورتیں پڑھ کر ہاتھوں پر پھونک مار کر جسم کے اوپر دم کرنا ہے کہ پتا نہیں صبح اٹھنا نصیب ہوگا کہ نہیں۔ سونے کے بعد وضو خطا ہونا ہی ہے لیکن موت آنے کی صورت میں وہ شخص وضو کی حالت میں ہی شمار ہوگا۔ اس لیے دن میں بھی اور رات میں بھی جہاں تک ممکن ہو ‘یہ کریں۔ صبح جب اللہ اپنے فضل سے اٹھنا نصیب کرتا ہے تو یہ ترانہ زبان پر آتا ہے: ((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ))(صحیح البخاری)’’ساری تعریف اور سارا شکر اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں زندگی عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم پر موت طاری فرما چکا تھا اور اُسی کی بارگاہ میں لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ شعوری طور پر اگر آپ ان دعاؤں کا ترجمہ ذہن میں رکھ کر روزانہ رات کو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر سوئیں اور صبح اٹھنے پر اللہ کا شکر ادا کریں تو موت کو کثرت سے یاد رکھنے کا ایک عمل جس کے لیے کوئی تردد نہیں کرنا ہے ‘ اللہ کے رسول ﷺ نے ہم میں سے ہر ایک کو عطا فرما دیا۔
آخرمیں ایک دوباتیں مزید عرض کر کے بات ختم کرتا ہوں۔ جابر بن حیان جو کہ فادر آف کیمسٹری ہے ‘اس نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے پوچھا: ’’اےاستاد‘ اے فرزند رسول! یہ تو بتائیے کہ موت کیا ہے؟‘‘ امام نے فرمایا :’’کیاجابر سمجھ سکتا ہے؟‘‘ جابر نے کہا :’’جی مولا‘ اگر آپ اہل سمجھیں تو سمجھائیں۔‘‘ امام نے فرمایا: ’’جابر! غور سے سن اور سمجھ ۔جب تو ماں کے پیٹ میں تھا تو تاریک پردوں میں رہتا تھا ۔(فِی ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ تین تین پردوں کے اندر‘ قرآن میں ذکر ہےاس کا۔ )وہ بہت چھوٹا سا جہاں تھا ۔ اِس جہاں کی وسعت اور روشنی تُو نےنہیں دیکھی تھی لیکن اُس تاریک جہاں میں بہت خوش تھا ۔تب تو اس جہاں سے کسی اور جگہ جانا نہیں چاہتا تھا کیونکہ تُو نے اس سے بڑا جہان دیکھا ہی نہیں تھا ۔یہی سبب ہے کہ اِس جہاں میں آتے ہی تُو نے رونا شروع کر دیا۔ تُو سمجھ رہا تھا کہ میں مر رہا ہوں لیکن یہاں والے خوش ہو رہے تھے کہ تُو اس جہاں میں پیدا ہو رہا ہے۔ جب تو یہ جہاں چھوڑ کر اگلے جہاں جائے گا تو وہاں والے خوش ہورہے ہوں گے کہ جابر پیدا ہو رہا ہے جبکہ یہاں والے رو رہے ہوں گے کہ جابر مر رہا ہے۔جابر! جسے دنیا پیدائش کہتی ہے وہ اصل میں موت ہے اور جسے دنیا موت کہتی ہے وہ اصل میں پیدائش ہے۔ جتنا فرق شکم مادر اوراس جہاں میں ہے اتنا ہی فرق اِس جہاں اور اس کے اگلے جہاں میں ہے۔ جیسے تُو اس جہاں میں آ کر واپس نہیں پلٹنا چاہتا ایسے ہی اگلے جہاں کی وسعت کو دیکھ کر پچھلے جہاں میں واپس جانا نہیں چاہے گا۔ جیسے آج کوئی ماں کے پیٹ میں جانا پسند نہیں کرتا ہے ایسے ہی وہاں جا کر یہاں آنا پسند نہیں کرے گا ۔یادرکھ! جتنا فرق ماں کے پیٹ اوراِس جہاں میں ہے اتنا ہی فرق اِس جہاں میں اور اگلے جہاں میں ہے اور اتنا ہی فرق اس سے آگے جہاں جنت ہے وہاں پر ہے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ ہم سب کویہ یقین اور اس کے تحت زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے!
آخر میں ایک بہت جامع دعا پیش ہے:
((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنَا قَبْلَ الْمَوْتِ))
’’اےاللہ! ہم سب کی مغفرت فرما دے موت سے پہلے۔‘‘
((وَارْحَمْنَا عِنْدَ الْمَوْتِ))
’’اور ہم پر رحم فرما موت کے وقت۔‘‘
((وَلَا تُعَذِّبْنَا بَعْدَ الْمَوْتِ))
’’اورہمیں موت کے بعد عذاب سے دوچار نہ کیجیو۔ ‘‘
((وَلَا تُحَاسِبْنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))
’’اور اے اللہ! قیامت کے دن ہمارا حساب نہ لینا۔‘‘
((اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ))
’’بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین

موت کی تذکیر و موعظت کے حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفۂ مجاز خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی طویل نظم ’’مراقبہ ٔ موت‘‘میں سے منتخب اشعار اگلے دوصفحات پر ہدیۂ قارئین کیے جارہے ہیں!