(اقوام عالم) عربوں کی طبقاتی تقسیم - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

9 /

عربوں کی طبقاتی تقسیمپروفیسر حافظ محمد قاسم رضوان

ملک عرب میں زمانۂ قدیم سے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی اولاد آباد رہی ہے ۔ زمانہ کے لحاظ سے باشندگانِ عرب کومؤرخین نے عموماً عرب بائدہ‘ عرب عاربہ اور عرب مستعربہ کے تین طبقات میں تقسیم کیا ہے ۔بعض نے عاربہ اور مستعربہ کو ایک ہی قسم قرار دے کر عرب بائدہ و عرب باقیہ دو ہی قسمیں قرار دی ہیں۔ عرب بائدہ سے وہ قومیں مراد ہیں جو سب سے قدیم زمانے میں ملک عرب کے اندر آباد تھیں اور وہ سب کی سب ہلاک ہو گئیں۔ان کی نسل اور کوئی نشان دنیا میں باقی نہیں رہا۔ عرب باقیہ سے مراد وہ قومیں ہیں جو ملک عرب میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے بھی دو طبقات ہیں جو عاربہ و مستعربہ کے نام سے موسوم کیے گئے ہیں۔اسی طرح علامہ محمود آلوسی نے ابن خلدون کی کتاب ’العبر‘ کے حوالے سے عربوں کو عرب عاربہ‘ عرب مستعربہ‘ العرب التابعۃ للعرب اور عرب مستعجمہ کے چار طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ بہرحال زیادہ تر مؤرخین اوّل الذکر تین طبقات ہی میں تقسیم کرتے ہیں۔
(۱) عرب بائدہ
یہ قدیم ترین باشندوں کے مختلف قبائل تھے جو تاریخی دور سے ہزاروں سال پہلے ختم ہوگئے ۔ان میں قابلِ ذکر عاد‘ ثمود‘ عمالقہ‘ طسم‘ جدیس‘ جرہم اور حضرموت وغیرہ ہیں جو کہ سام بن نوح کے چاروں بیٹوں کی نسل سے تھے‘ جن کے نام ارم‘ لآذ‘ خلیم اور ارفخشد ہیں ۔ ان قبائل میں سے کچھ کا ذکر سورئہ ق میں یوں آیا ہے :
{کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ (۱۲) وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ(۱۳) وَّاَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ط }
’’جھٹلایا تھا ان سے پہلے بھی نوحؑ کی قوم نے ‘کنویں والوں نے اور قومِ ثمود نے۔ اور قومِ عاد ‘ فرعون اور لوط ؑکے بھائیوں نے۔اور بن والوں اور قومِ تبع نے۔ ‘‘
بعض قبائل یا اقوام کی طرف نبی بھی مبعوث ہوئے جیسے قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام اور قومِ عاد کی طرف حضرت ہود علیہ السلام ۔ جب انہوں نے اپنے نبیوں کی دعوتِ توحید کو قبول نہ کیاتو ہلاک کر دیے گئے۔ یہ تمام قبائل مرورِ زمانہ سے نیست و نابود ہو گئے اور اب ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں بچا۔ ان لوگوں میں سے کئی ایک نے سلطنتیں بھی قائم کیں اور بعضوں نے مصر کو بھی فتح کر لیا تھا۔ اب اس دور کی یاد میں کچھ اساطیر‘ جاہلی عرب شعراء کے اشعار اور صحف آسمانی میں مندرجہ کچھ واقعات ہی باقی ہیں۔ اس کے علاوہ نجد‘ احقاف‘ حضر موت اور یمن وغیرہ میں بائدہ کے دور کی بعض عمارات کے کھنڈرات‘ پتھروں کے ستون‘ سنگ تراشیاں‘ مختلف کتبے اور دوسرے آثارِ قدیمہ ملتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قبائل خوش حال‘ متمدن اور طاقتور تھے۔ ان میں سے عاد و ثمود نے کافی شہرت حاصل کی ہے۔ قوم عاد ارضِ احقاف میں رہتی تھی جس کا شجرئہ نسب عاد بن عوص بن ارم بن سام بنتا ہے۔عموماً عاد کو عرب کا سب سے پہلا بادشاہ کہا جاتا ہے مگر علامہ مسعودی نے لکھا ہے کہ عاد سے پیشتر اس کا باپ عو ص بھی بادشاہ تھا۔قرآن پاک میں ارم کاذکر بھی آیا ہے مگر اس سے مراد قوم عاد ہی ہے۔ اُسی خاندان کے ایک بادشاہ جیرون بن سعد بن عاد بن عوص نے دمشق کو تاخت و تاراج کیا اور سنگ ِمرمر نیز دوسرے قیمتی پتھروں سے ایک عالی شان محل بنوایا تھا جس کا نام اس نے ارم رکھا تھا۔ابن عساکر نے بھی تاریخ دِمشق میں جیرون کا ذکر کیا ہے۔ یہ لوگ اونچی اونچی عمارتیں بنانے کے شائق تھے‘ جیسا کہ سورۃ الفجر میں بیان ہوا ہے :
{اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ (۶) اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (۷) الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ(۸)}
’’کیاآپ نے دیکھا نہیں کیا کیا تھا آپ کے رب نے عاد کے ساتھ؟وہ ارم جو ستونوں والے تھے ۔جن کے مانند نہیں پیدا کیے گئے (دنیا کے) ملکوں میں۔‘‘
اس قوم کی طرف حضرت ہود علیہ السلام بھیجے گئے‘ مگر ان کی مسلسل تبلیغ کے باوجود عاد نے نافرمانی کی راہ اختیار کی اور بادِ صرصر کے عذاب سے ہلاک ہو گئی جو کہ برابر سات راتیں اور آٹھ دن چلی۔اس کا ذکرسورۃ الحاقۃ میں ملتا ہے۔ اب ان کےصرف کھنڈرات ہی باقی ملتے ہیں۔ بقول سید سلیمان ندوی‘ اس کا زمانہ ۲۲۰۰ ق م سے ۱۷۰۰ ق م تک ہو سکتا ہے۔ قومِ عاد کے وطن احقاف کاعلاقہ ملک یمن میں پایا جاتا ہے۔
اسی طرح قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے اور ان کی خاطر معجزانہ طور سے پہاڑ کے پتھر سے ایک اونٹنی نکالی گئی‘ مگر ان سرکشوں نے نبی کی دعوت کا انکار کیا اور اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں‘ جس پر عذابِ الٰہی نے انہیں آ پکڑا اور وہ ایک زبردست چیخ یا گونج کے زیراثر ہلاک ہوگئے۔ یہ لوگ مقام حجر پر رہتے تھے جسے آج کل مدائن صالح کہا جاتا ہے۔ یہ بھی بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بنانے میں ماہر تھے اور خصوصاً پہاڑوں کو تراش کر مکان بنانا ان کا خصوصی فن تھا۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ ثمود کے ذکر میں فرماتے ہیں:
{وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَـآئَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَـتَّخِذُوْنَ مِنْ سُہُوْلِہَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاج } (آیت ۷۴)
’’اور یاد کرو جب اُس نے تمہیں جانشین بنایا قومِ عاد(کی تباہی) کے بعد اور تمہیں جگہ دی زمین میں ‘ تم اس کے نرم میدانوں میں محل تعمیر کرتے ہو اور پہاڑوں کوتراش کر (بھی اپنے لیے) گھر بنالیتے ہو ۔‘‘
قوم ثمود کے عذاب کے ذریعے ہلاک کیے جانے کا ذکر سورۃالقمر میں ہے۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے ان کا زمانہ ۱۸۰۰ ق م سے ۱۶۰۰ ق م تک لکھا ہے۔
قبیلہ طسم وجدیس کا مقام یمامہ کا علاقہ ہے۔ یہ دونوں قبائل اکٹھے رہتے تھے جبکہ بادشاہت طسم قبیلے میں تھی۔ ایک دفعہ طسم کے ظالم اور عیاش بادشاہ نے حکم دیا کہ جدیس کی کنواری لڑکیاں بیاہ سے پہلے اس کے محل میں لائی جائیں۔ اس پر جدیس کی ایک خاتون عروس نے اپنے قبیلے کو غیرت دلائی اور انہوں نے دھوکے سے طسمی بادشاہ اور امراء کو دعوت میں بلا کر ہلاک کر دیا۔ ان میں سے جو بچ گئے وہ بھاگ کر یمن کے بادشاہ کے ہاں پہنچے اور امداد کے طالب ہوئے۔ پھر وہاں سے امداد لے کر جدیس پر حملہ آور ہوئے اور تمام کو ہلاک کر دیا۔ غرضیکہ دونوں قبائل اپنی شرارت سے نیست و نابود ہو گئے۔
قبیلہ جرہم کو دو حصوں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔جرہم اولیٰ عاد کاہم عصر اور امم سامیہ اولیٰ سے تھا۔ جرہم اولیٰ ہی کا عرب بائدہ میں شمار ہے۔ جرہم ثانی قحطان کا بیٹا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا پڑوسی اور رشتہ دار تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسی خاندان میں شادی کی اور اس سے جو اولاد ہوئی وہ عرب مستعربہ کہلاتی ہے۔
عمالقہ نے عرب کی اُمم سامیہ اولیٰ میں سے تین ہزار قبل مسیح کے دوران عروج حاصل کیا۔ آیاتِ قرآنی‘ روایاتِ حدیث اور اشعارِ عرب میں کہیں اس کا ذکر نہیں‘ البتہ یہود کے ادب میں کثرت سے اس کا ذکر آتا ہے۔
عرب بائدہ کے دیگر قبائل کے متعلق کوئی خاص معلومات حاصل نہیں ہو سکیں۔ علامہ محمود آلوسی نے عاربہ کا شمار بھی بائدہ کے ساتھ کیا ہے اور دونوں کو عادیہ کا نام دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ:’’اس (ابن خلدون) نے اس نسل کا نام عرب عادیہ اس لیے رکھا کہ یہ لوگ عروبیت میں راسخ تھے یا اس معنی میں کہ یہ عروبیت کے بنانے والے اور اس کے موجد تھے‘ کیونکہ یہ سب سے پہلی نسل کے لوگ تھے۔ انہیں بائدہ یعنی نابود بھی کہا جاتا ہے‘ اس لیے کہ اس نسل کا کوئی فرد روئے زمین پر باقی نہیں رہا۔‘‘
(۲) عرب عاربہ
اس طبقے کو قحطان کی اولاد سمجھا جاتا ہے۔ قحطان سے قبل حضرت نوح علیہ السلام تک کسی کی زبان عربی نہ تھی۔ قحطان کی اولاد نے ہی عربی استعمال کی اور اسے عرب بائدہ سے حاصل کیا۔ قحطانی قبائل یمنیہ اور سبائیہ کے دو حصوں میں منقسم ہیں۔ قحطان کے نسب میں علماءنے بہت اختلاف کیا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ عابد بن شاغ بن ارفخشد بن سام بن نوح کا بیٹا اورفانع ویقطن کا بھائی تھا لیکن تورات میں اس کا تذکرہ موجود نہیں۔ ہاں فانع اور یقطن کا ذکر تورات میں ہے۔
قحطان یمنی قبائل کا جد اعلیٰ تھا۔ تورات میں بجائے قحطان‘ یقطان (یا یقطن) مذکور ہے۔ یہ دونوں نام ایک ہی ہیں۔ تورات میں ہےکہ قحطان کے تیرہ بیٹے تھے۔ مؤرخین عرب صرف تین بیٹوں یارح‘ حضار موت اور شبا کے سوا اور کسی سے واقف نہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہو گی کہ یہی تین بیٹے زیادہ مشہور تھے۔ یارح یا یعرب‘ یہ دونوں ایک ہی نام ہیں۔یارح عبرانی تلفظ ہے جبکہ یعرب عربی۔ یہ یمن کا سب سے پہلا بادشاہ تھا۔ چنانچہ قحطان‘ یقطان اور یقطن ایک ہی شخص کے نام ہیں اور قحطانی بنی اسماعیل نہیں ہیں۔
یعرب بن قحطان کو یمن بھی کہتے تھے اور اسی کے نام سے یمن کا ملک موسوم ہوا۔کئی ایک مؤرخین کا خیال ہے کہ یمن بن قید اربن اسماعیل ؑ کا بیٹا قحطان تھا۔ اگر قحطان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہے تو گویا تمام اہل عرب بنو اسماعیل ثابت ہوتے ہیں‘ کیونکہ عدنان اور قحطان دو ہی شخص تمام قبائل عرب کے مورث اعلیٰ ہیں۔ مگر جدید تحقیقات کی رو سے یہ نظریہ غلط ثابت ہو چکا ہے کہ قحطانی بنو اسماعیل سے ہیں۔
قحطانی قبائل کا اصل وطن سرزمین یمن سمجھی جاتی ہے۔ ان میں حمیری اور ازدی قبائل بہت مشہور اور نامور ہوئے ہیں۔ قبائل ازدی میں یمن اور جنوبی عرب کی حکومتیں رہیں۔حکومت سبا کو ان کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور ان کا لقب بھی سبا ہی تھا۔ یہ اُمم قحطانیہ کی سب سے مشہور شاخ ہے۔ انہوں نے یمن کی آبادی اور سرسبزی میں خاص طو ر سے بہت کوشش کی اور اسے اپنے دور کے تہذیب و تمدن کا گہوارا بنا دیا۔ انہی میں ملکہ ٔ بلقیس تھی جو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی معاصر تھی اور جن کا واقعہ سورۃ النمل میں آیا ہے ۔ سبا کی شہرت و رفعت کی داستانیں قرآن پاک‘ روایاتِ عرب‘ پہلی آسمانی کتابوں‘ مختلف آثار قدیمہ اور حکایاتِ یونان میں بکھری پڑی ہیں۔ یہاں کا نظامِ آب پاشی سد ِما ٔرب کی وجہ سے بہت ترقی یافتہ تھا اور اسی کی بدولت اس ریگ زار ملک میں سینکڑوں کوس تک بہشت زار تیار ہو گئی تھی۔ اس کا ذکر سورئہ سبا میں یوں آیا ہے :
{لَقَدْ کَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ اٰیَۃٌج جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ ط کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوْا لَہٗ ط بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵)}
’’(اسی طرح) قومِ سبا کے لیے بھی ان کے مسکن میں ایک نشانی موجود تھی۔ دو باغات (کے سلسلے) تھے دائیں اور بائیں طرف۔ کھائو اپنے رب کے رزق میں سے اور اُس کا شکر اداکرو ۔ (تمہارا) شہر بہت پاکیزہ ہے اور (تمہارا) رب بہت بخشنے والاہے!‘‘
سید سلیمان ندوی نے ’’ارض القرآن‘‘ میں سبا کے حالات سے تفصیلی بحث کی ہے۔ اراٹوس تہینس(Eratos Thenes) جو ۱۹۴ ق م میں سبا کا معاصر تھا‘ کا قول ہے کہ ’’.....سبا کے لوگ جن کا دار الحکومت شہر ما ٔرب ہے ........ یہ قطعہ ملک مصر زیریں سے بڑا ہے۔ گرمیوں میں بارش ہوتی ہے اور دریا جاری ہوتے ہیں جو میدانوں اور تالابوں میں خشک ہو جاتے ہیں۔ اسی سبب سے زمین اس قدر سرسبز و شاداب ہے کہ تخم ریزی وہاں سال میں دوبار ہوتی ہے .... سبا کا ملک خوش و خرم ہے‘‘۔ اس اقتباس سے سبا کی سرسبز و شادابی اور زرعی حالت کا خوب اندازہ ہوسکتا ہے۔ سبائی سلطنت ایک متمدن اور متمول حکومت تھی۔ ان کے بادشاہوں کو بڑی بڑی شاندار عمارتیں بنوانے کا خاصا شوق تھا جن کے بعض حصے عہد ِاسلام تک باقی تھے۔ کچھ آثارِ قدیمہ کی کھدائی سے اب دستیاب ہوئے ہیں۔ جب اہل ِسبا نے حکم خداوندی کی نافرمانی کی تو اللہ ربّ العزت نے ان پر سیلاب کی شکل میں عذاب نازل کیا اور وہ اکثر تباہ و برباد ہو گئے۔ یہ سیلاب سد ِما ٔرب کے ٹوٹنے کی وجہ سے آیا جسے عربی میں’ ’سیل العرم‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا ذکر سورئہ سبا میں ہے۔
تورات میں شبا ایک جدّقبیلہ کا نام ہے ۔ عرب روایات کے مطابق اس جدّقبیلہ کا نام عمر یا عبد شمس اور لقب سبا تھا۔ محققین جدید بھی زیادہ تر اس کو لقب خیال کرتے ہیں۔ان کا زمانہ ۱۱۰۰ ق م سے کم نہیں اور ازروئے کتبات ان کی آخری تاریخ ۱۱۵ق م ہے۔قرآن پاک کی رو سے ان کا مذہب آفتاب پرستی تھا۔ سبا کے کھنڈرات پر ہی ملوک حیرہ نے اپنی عمارت کھڑی کی اور اپنی سلطنت کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ مؤرخین عرب کے نزدیک سبا کے دو بیٹے تھے: حمیر اور کہلان۔حمیر تمام یمن کا مالک تھا جبکہ کہلان کو اطراف و حدود کی پاسبانی سپردتھی۔ بنوکہلان کے سردار قبیلہ نے خواب دیکھا یا کسی کاہن سے سنا کہ سد ما ٔرب ٹوٹے گا اور سلطنت ِسبا برباد ہوجائے گی۔ اس بنا پر وہ یمن چھوڑ کر حجاز‘ نجد‘ بحرین‘ عمان‘ یمامہ‘ مدینہ‘ عراق اور شام چلے گئے۔
درحقیقت حمیر‘ سبا سے الگ کوئی شے نہیں۔ صرف خاندان اور موقع حکومت کا فرق ہے۔ زبان‘ مذہب اور تہذیب و تمدن ایک ہی ہیں۔خود زمانۂ حال میں دریافت شدہ حمیری دور کے کتبوں میں حمیر کی بجائے سبا مذکور ہے۔ البتہ مؤرخین یونان نے ۲۰ ق م میں اور اہل حبشہ نے چوتھی صدی عیسوی میں ان کو اپنے کتبوں میں حمیر یا ارض حمیر کہا ہے۔حمیر عربی اور حبشی میں حمر سے مشتق ہوگا‘ جس کے معنی سرخ کے ہیں اور محاورے میں گورے رنگ کو احمر کہتے ہیں۔ اس کا مقابل اسود ہے۔ عرب سیاہ و سپید کی جگہ الاسود وا لاحمر بولتے ہیں۔ عرب اہل حبش کو اسود اور اسودان کہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اہل حبش عربوں کو حمیر یعنی گورے رنگ کے آدمی کہتے ہوں گے۔ حمیر کی تاریخ پہلی صدی ق م اوسط سے شروع ہو کر ۵۲۵ء پر ختم ہوتی ہے اور کل زمانہ ۵۵۰ برس ہے ۔
سلاطین حمیر کے دور میں تہذیب و تمدن اپنے پورے کمال پر تھا۔ بنوکہلان میں سے ثعلبہ بن عمرو حجازکی جانب نکل گئے اور مدینہ میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ خزاعہ نے مکہ کی طرف توجہ کی اور وہاں پر آباد قبیلہ جرہم کو شکست دے کر قابض ہو گئے۔ نصر بن ازد‘ تہامہ کے علاقہ میں آباد ہوا۔ خزاعہ کا ایک بیٹا عمان کی طرف جا کر آباد ہوا اور اس کی اولاد ازد عمان کے نام سے منسوب ہوئی۔ دوسرا غسان شام کی سرحد پر جا کر ٹھہرا اور سرحدی قبائل کو محکوم بنا کر اپنی حکومت قائم کرلی۔لخم کی اولاد میں سےمنذر اور اس کے بیٹے حیرہ کے علاقے میں جا کر قابض ہو گئے۔ انہی میں سے ملوک غسان اور حیرہ کی سلطنتیں مشہور و معروف ہوئیں۔ غسانی سلطنت روم کے باج گزار تھے اور حیرہ والے ملک فارس کے تابع تھے۔ اسلامی دور میں دیگر حکومتوں کے ساتھ یہ بھی ختم ہو گئیں اور ساتھ ہی یمن کی ولایت بھی اپنے انجام کو پہنچی۔ ظہورِ اسلام کے وقت تمام قحطانی قبائل خوب طاقتور اور سارے ملک عرب پر چھائے ہوئے تھے۔
مؤرخین کی عام تقسیم سے عاد و ثمود کی قومیں عرب بائدہ میں داخل ہیں‘لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک روایت کے مطابق عرب عاربہ کی تاریخ ارم کے زمانے سے شروع ہوتی ہے اور وہ دس جماعتیں تھیں: عاد‘ ثمود‘ طسم‘ جدیس‘ عمالیق‘ عبیل‘ امیم‘ دبار‘ جاسم اور قحطان۔ اس روایت کی بنا پر عر ب بائدہ میں وہ قومیں ہوں گی جن کا زمانہ عادِ ارم سے بھی پہلے تھا۔ عادِ اولیٰ کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔ اس صورت میں تسلیم کرنا ہوگا کہ عادِ اولیٰ پہلے لوگ تھے اور عادِ ارم دوسرے۔ حضرت ہود علیہ السلام عادِ ارم کی طرف مبعوث ہوئے اور ان کا زمانہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کے بعد تھا‘ لیکن عادِ اولیٰ کا زمانہ اس سے پہلے کاہو گا۔ یہ روایت شاذ کے درجہ میں ہے۔ عام فیصلہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہے۔ یمن کی تبابعہ کی حکومتیں بھی بنوقحطان سے تھیں۔ قحطان کے دوسرے بیٹے حضار موت نے عرب کے جس حصے کو اپنا مسکن بنایا وہ حضرموت کے نام سے آج تک مشہور ہے اور عرب کے جنوب میں بحیرہ عرب پر واقع ہے۔
علامہ محمود آلوسی نے اس دوسرے طبقے کو عرب مستعربہ شمار کیا ہے جو کہ حمیر بن سبا کی اولاد سے تھے۔ انہیں عرب مستعربہ اس لیے کہا گیا کہ جب عربیت کی علامات اور امتیازی نشان پہلے لوگوں سے منتقل ہو کر ان میں آئے تو یہاں ان چیزوں نے ’’صیرورت‘‘ کا خاصہ اختیار کر لیا۔ یعنی ان لوگوں نے وہ صورت اختیار کر لی جو ان سے پہلے کے ہم نسب لوگوں میں نہ تھی کہ انہوں نے عربی زبان بولنی شروع کر دی۔لہٰذا مستعربہ کا لفظ باب استفعال میں بمعنی صیرورت (ایک حالت سے منتقل ہو کر دوسری حالت میں چلے جانا) ہے۔ چنانچہ عربوں کا محاورہ ہے کہ اِسْتَنْوَقَ الْجَمَلُ اور اِسْتَحْجَرَ الطِّیْنُ وغیرہ۔ چونکہ پہلے طبقے کے لوگ نسلی اعتبار سے تمام قوموں سے قدیم تر تھے لہٰذا عربی زبان اصالتاً انہی کی زبان تھی اور انہی کوعاربہ کہا گیا تھا۔گویا دوسرے طبقے کو عربی زبان بولنے کی وجہ سے مستعربہ کی بجائے عاربہ ہی کہنا چاہیے۔
(۳) عرب مستعربہ
اس طبقہ سے مراد بنوعدنان یا اولاد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں۔ یہ لوگ ملک عرب میں باہر سے آ کر آباد ہوئے‘ اس لیے ان کو عرب مستعربہ یا مخلوط عرب کا نام دیا گیا۔ عرب کا بڑا حصہ اسی خاندان سے ہے اور اسی سلسلہ سے اسلام کی تمام تر تاریخ وابستہ ہے‘ کیونکہ قریش کا قبیلہ اور حضورﷺ کی پیدائش اسی طبقہ میں ہے۔ یعرب بن قحطان کو یمن کا ملک ملا تھااور اس کے دوسرے بھائی جرہم ثانی بن قحطان کے حصے میں ملک حجاز آیا تھا۔ اس لیے بنوجرہم وادی مکہ میں آ کر آباد ہو گئے۔ تقریباً ۲۲۰۰ق م میں جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بی بی ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو کعبہ کے مقام پر لا کر بسایا تو یہ قبیلہ حوالی مکہ میں آباد تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے انہی میں شادی کی اور وہاں سے جو اولاد چلی وہ عرب مستعربہ کہلائی۔
حضر ت اسماعیل علیہ السلام کی عمر پندرہ سال تھی کہ ان کی والدہ حضرت ہاجرہ ؑکا انتقال ہو گیا۔ والدہ کے فوت ہونے کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ارادہ کیا کہ مکہ سے شام کی طرف کسی مقام پرچلے جائیں۔ قبیلہ جرہم نے آپس میں مشورہ کر کے ان کو اس ارادہ سے باز رکھا اور ان کا نکاح عمارہ بنت سعید بن اسامہ بن اکیل سے خاندان عمالقہ میں کر دیا۔ چند روز کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اس طرف تشریف لائے اور ان کے اشارہ کے موافق حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس بی بی کو طلاق دے کر قبیلہ جرہم میں سیدہ بنت مضاض بن عمرو سے نکاح کر لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عجمی یا فارسی تھی مگر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بنوجرہم میں شادی ہوئی تو آئندہ سے آل اسماعیلؑ کی زبان عربی قرار پائی‘کیونکہ خود بنوجرہم کی زبان یہی تھی۔
مستعربہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں‘ جو تقریباً انیسویں صدی قبل مسیح میںحجاز آ کر ٹھہرے اور شاہانِ جرہم سے دامادی کا رشتہ جوڑ کر وہاں مستقل اقامت اختیار کر لی۔ یہاںان کی نسل بکثرت پھیلی جسے زمانے کے تاریک گوشوں نے اپنے اندر اس طرح چھپا لیا کہ اب تاریخ بھی یقینی شکل میں عدنان سے اوپر کوئی صحیح نسب نامہ نہیں بتاتی۔ چنانچہ عربی نسل کا صحیح سلسلہ نسب عدنان پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کئی ایک اولادوں میں سے قیدار بھی تھے جن سے عرب مستعربہ کا سلسلہ چلتا ہے۔ یہی عدنانی بھی کہلاتے ہیں‘جو قیدار بن اسماعیلؑ کی چالیسویں پشت میں تھے اور ان کا زمانہ چھٹی صدی قبل از مسیح تھا۔اس کے بعد ارشادِ الٰہی کے مطابق حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کاکام شروع کیا اور اس کے مکمل ہونے پر حضرت جبریل علیہ السلام کی ہدایت کے مطابق حجر اسود کو اپنے مقام پر نصب کیا گیا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر سورۃ البقرۃ میں یوں آیا ہے:
{وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط رَبَّـنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷)}
’’اور یاد کرو جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ ہمارے گھر کی بنیادوں کو اُٹھا رہے تھے۔ اے ہمارے ربّ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے‘ یقیناً تُو سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کا کام سرانجام دیا اسے ’’مقامِ ابراہیم‘‘ کہتے ہیں اور یہ آج بھی مسجد حرام میں موجودہے۔ تعمیر کے کام کے دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے دعا بھی کرتے تھے جس کا اثر آج بھی عرب میں ظاہر ہے اور ان کی ترقی و خوش حالی اسی کی رہین منت ہے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد خداوند تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو اس کی طرف حج کے لیے بلائیں۔ ان کی برکت سے اس زمانے سے آج تک حج کا سلسلہ جاری ہے ‘اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ لوگوں کو حج کروانے کے بعد حضرت ابراہیمؑ ملک شام کی طرف چلے گئے اور اپنی وفات تک ہر سال خانہ کعبہ کی زیارت اور حج کو آتے رہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وفات بروایت تورات ایک سو سینتیس سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ کے بارہ بیٹوں کی نسل نے اس قدر ترقی کی کہ مکہ میں نہ سما سکے اور تمام ملک حجاز میں پھیل گئے۔ کعبہ کی تولیت اور مکہ معظمہ کی سیادت مسلسل بنی اسماعیل سے متعلق رہی۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بیٹے قیدار کی اولاد میں ایک شخص عدنان ہوئے۔ عدنان کی اولاد بنی اسمٰعیل کے تمام مشہور قبائل پر مشتمل ہے اور اسی لیے عرب مستعربہ بنی اسماعیل کو عدنانی یا آلِ عدنان کہا جاتا ہے۔ عدنان کے بیٹے کا نام معد اور پوتے کا نام نزار تھا۔ اسی لیے عدنانی قبائل کو معدی اور نزاری بھی کہتے ہیں۔ نزار کے چار بیٹے تھے جن سے تمام عدنانی قبائل متفرع ہوئے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی وفات کے بعد کعبہ کی تولیت ان کے بڑے لڑکے ناہت کو ملی۔ ان کے انتقال پر یہ منصب ان کے نانا حلیل کے ہاتھ میں آیا۔ گویا کعبہ کی تولیت بنو اسمٰعیل سے نکل کر بنوجرہم کے ہاتھ میں آگئی۔ جب قبیلہ خزاعہ وہاں پہنچا تو اس نے اس منصب پر قبضہ جما لیا۔آخر کار قصی بن کلاب قریشی نے اپنا یہ حق بنوخزاعہ سے واپس حاصل کیا۔
رہی یہ بحث کہ لفظ ’’عرب‘‘ کا تورات اور قرآن پاک وغیرہ میں ذکر نہیں ہے‘ بلکہ تورات میں اوّلاً مدبار اور قرآن میں’’ وادی غیر ذی زرع‘‘ کا ذکر آیا ہے‘ تودرحقیقت عرب‘ حجاز‘ مکہ‘ کعبہ جیسے تمام الفاظ بعد میں بنے ہیں۔ اسی لیے تورات نے مدبار یعنی بامیہ اور قرآن نے وادی غیر ذی زرع (بے آب وگیاہ سرزمین) کا لفظ استعمال کیا ہے‘ کیونکہ اس کے سوا اس وقت کوئی دوسرا نام نہ تھا ۔ اب لفظ عرب کے لغوی معنیٰ بھی بادیہ اور صحرا کے ہیں۔ گویا مدبار‘ وادی غیر ذی زرع اور عرب ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔
عدنان کے پوتے نزار سےچار مشہور قبیلے ایاد‘ انماد‘ ربیعہ اور مضر ہیں۔ ربیعہ اور مضر زیادہ نامور اور ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ ربیعہ کی شاخیں عبدالقیس اور وائل ہیں۔ وائل کی دو شاخیں بکر و تغلب ہیں۔ بکر کی تین شاخیں عجل‘ حنیفہ اور شیبان ہیں۔ آخر الذکر کی ایک شاخ سدوس ہے۔ مضر کی اولاً دو شاخیں ہیں: بنوقیس عیلان اور بنویاس جنہیں بنوحندف بھی کہتے ہیں۔ بنوقیس کی شاخیں عدوان‘ غطفان‘ سلیم اور ہوازن وغیرہ ہیں۔ غطفان کی دو شاخیں ذبیان و عبس ہیں۔ بنویاس کے مشہور قبائل ہذیل‘ کنانہ‘ اسد‘ ضبہ‘ مزینہ اور تمیم وغیرہ ہیں۔ کنانہ کی اولاد سے قریش ہیں۔ قریش کا لقب سب سے پہلے بعض کے نزدیک نصر بن کنانہ اور دوسروں کے نزدیک فہر کو ملا۔ حافظ عراقی کا مشہور شعر ہے ؎
اما قریش فالاصح فھر

جماعھا والاکثرون النضر

قریش کی اولاد سے کئی قبائل ہوئے جن میں مشہور بنی جمح ‘ بنی سہم‘ بنی مخزوم‘ بنی تیم‘ بنی عدی‘ بنی زہرہ‘ بنی عبدالدار اور بنی عبد مناف ہیں۔ عبدمناف کے چار بیٹے عبد شمس‘ نوفل‘ مطلب اور ہاشم تھے۔عبدشمس کے بیٹے امیہ تھے جن کی اولاد بنو اُمیہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ ہاشم کے بیٹے عبدالمطلب (شیبہ) تھے جن کے دس بیٹوں میں سے عبداللہ (آنحضرتﷺ کے والد ماجد) تھے۔ دوسرے بیٹے حضرت عباس رضـی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے خلفائے بنوعباسیہ ہوئے۔ تیسرے بیٹے ابوطالب تھے جو حضرت علی رضـی اللہ تعالیٰ عنہ کے پدربزرگوار تھے۔ ان کی اولاد آگے علوی کہلائی۔
بنوقحطان کی ایک شاخ خزاعہ نے عدنانیوں کو مکہ سے نکال دیا تھا۔ یہ عدنانی قبائل مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ بنی بکر بحرین پہنچے۔ بنی حنیفہ یمامہ جابسے۔ بنی تغلب نے فرات کے کنارے ڈیرا ڈالا۔بنی تمیم دجلہ اور فرات کےدہانہ پر آباد ہوئے۔بنی سلیم نے مدینہ کے قرب و جوار میں سکونت اختیار کی اور بنوثقیف نے طائف کی راہ پکڑی۔ بنی اسد کوفہ کے مغرب میں بود و باش کرنے لگے۔مکہ معظمہ کے گرد صرف قبائل قریش رہ گئے جو بڑی حد تک پراگندہ تھے۔ قصی بن کلاب نے سب کو متحد و متفق کیا۔ ان کے زمانے تک بنی خزاعہ حرم مکہ کے متولی تھے مگر ان کی شادی حلیل خزاعی کی دختر سے ہوئی۔ حلیل کے مرنے پر اس کی وصیت کے مطابق مکہ کی تولیت قصی کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس طرح دوبارہ قحطانیوں کی بجائے عدنانیوں کا حرم میں عمل دخل ہو گیا۔ قصی نے ایک انجمن مشاورت کی بنیاد ڈالی جس کا نام ’’دار الندوہ‘‘ رکھا اور اپنے مکان کا ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص کیا۔ یہاں بیٹھ کر قصی کاروبار حکومت چلاتے اور قریش کے تمام امور یہیں سرانجام پاتے۔ قصی کی امداد کے لیے بزرگانِ قریش کی ایک مجلس مشاورت موجود تھی۔ ہر قسم کی تقریبات بھی یہیں منعقد ہوتیں۔ قصی نے ہی سقایہ اور رفادہ کے مناصب قائم کیے۔ حاجیوں کو پانی پلانے کے لیے بڑے بڑے حوض بنوائے۔ قریش کو مجبور کیا کہ وہ حج کے موقع پر تین دن تک حاجیوں کو کھانا کھلائیں اور اس کے اخراجات کے لیے تمام لوگ باہمی چندہ کریں۔غرضیکہ قصی کا مکہ اور حجاز میں دینی اور دنیوی دونوں قسم کا اقتدار قائم ہو گیا۔
قصی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا عبدالدار مکہ کا حاکم تسلیم کیا گیا۔ عبدالدار کی وفات کے بعد اس کے پوتوں اور اس کے بھائی عبدمناف کے بیٹوں میں حکومت کے لیے جھگڑا پیدا ہو گیا۔ قریب تھا کہ جنگ چھڑ جائے لیکن مکہ کے بااثر لوگوں نے بیچ میں پڑ کر فیصلہ کیا کہ خدماتِ حرم کے مناصب کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے۔ یوں تولیت کعبہ‘ لواء اور دار الندوہ بنی عبدالدار کے حصہ میں آئے جبکہ سقایہ و رفادہ ہاشم کو ملے۔ عبدمناف کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے چاہِ زمزم کو جو کہ ریت کے ایک تودے میں چھپ گیا تھا‘ دوبارہ کھوج کر کھدوایا اور اس کی مرمت کروائی۔ ہاشم نے بھی اپنے فرائض نہایت عمدگی سے انجام دیے۔ آہستہ آہستہ انہیں حکومت کے کچھ اور حقوق بھی حاصل ہو گئے۔ اپنی دولت اور سخاوت کی وجہ سے آپ مکہ میں ہر دلعزیز تھے۔ قریش میں تجارت عام کرنے اور اس کے تمام ممکنہ ذرائع پیدا کرنے سے انہیں بہت فائدہ پہنچایا۔قیصر روم سے یہ رعایت حاصل کی کہ قریش کے قافلہ سے ٹیکس حاصل نہیں کیا جائے گا۔ آگے آپ کے بھائی عبدشمس اور بیٹے عبد المطلب کی اولاد ہی مشہور و معروف ہوئی۔
علامہ آلوسی نے اس تیسرے طبقے کو’ ’العرب التابعۃ للعرب‘‘ کے نام سے ذکر کیا ہے۔ اس میں انہوں نے ملوکِ حیرہ‘ ملوکِ کندہ اور عربوں کی اس بدوی حکومت کا ذکر کیا ہے جو شام کے علاقے بلقاء میں بنی جفنہ کے ہاں قائم تھی۔ پھر مدینہ میں اوس و خزرج کی سیادت کا ذکر ہے۔ اس کے بعد عدنان‘ ان کے انساب اور مکہ میں عمل پیرا قریش کی حکومت کی تفصیل ہے۔ آخر کار اس عظیم نبوتِ محمدی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہے جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان عربوں اور تمام امت محمدی کو شرف بخشا۔ گویا اس طبقے کو العرب التابعۃ للعرب کہنے کی وجہ ظاہر ہے۔
عربوں کے ایک چوتھے طبقے ’’عرب مستعجمہ‘‘ کی مشرق و مغرب میں بدوی حکومت تھی۔ ان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ جس مضری زبان میں قرآن مجید نازل ہوا تھا اور جو ان کے اسلاف کی زبان تھی‘ یہ اس سے ہٹ گئے تھے اور ان کی زبان میں عجمیت آ گئی تھی۔
مصادر و مراجع
(۱) تاریخ اسلام‘ از مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی
(۲) بلوغ الارب فی احوال العرب‘ از علامہ محمود آلوسی ‘ مترجم پیر محمد حسن
(۳) ارض القرآن‘ از سید سلیمان ندوی
(۴) ادب العرب‘ از زبید احمد
(۵) اصح السیر‘ از مولانا عبدالرئوف دانا پوری
(۶) تاریخ ادب العربی‘ از احمدحسن زیات‘ مترجم عبدالرحمٰن طاہر سورتی