(اعتصامش کُن ....!) ذلت و رسوائی کا سبب: ترکِ قرآن - حافظ محمد اسد

9 /

ذِلت و رسوائی کا سبب: ترکِ قرآنحافظ محمد اسد
استاذ قرآن اکیڈمی یٰسین آباد‘ کراچی

جب قومیں پستی میں گرتی ہیں تو ان کی کیفیت پہاڑ کی بلندی سے لڑھکنے والی اشیاء سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ گرتی چلی جاتی ہیں۔ زمین و آسمان انہیں اُلٹ پلٹ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کی حرکت قابو میں نہیں رہتی اِلّا یہ کہ کسی مضبوط سہارے ( عُروة الوثقٰی) ہی کوتھام کر خود کو بچائیں۔ مسلم قوم کی موجودہ کیفیت اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اُمّت ِمسلمہ پستی اور ذلت کے عمیق کنویں میں گرتی چلی جارہی ہے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس تنزلی اور خواری کی وجہ کیا ہے! اس اندھیرے کنویں سے نجات کیسے ملے گی؟ وقتاً فوقتاً کچھ درد مندانِ قوم اُٹھتے ہیں اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق علاج تجویز کرتے ہیں‘ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ع :مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!
آج سے تقریباً ایک صدی پہلےمسلم قوم کی اس پستی اور ذلت کاسبب شاعر مشرق علامہ اقبال نے کچھ یوں بتایا تھا: ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!
اگرہم غورکریں کہ آج ہم ثریا سے تحت الثریٰ میں کیوں پہنچ گئے تواس کا جواب ہمیں اس حدیث مبارکہ میں ملتا ہے۔حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
((یُوْشِکُ الاُمَمُ اَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الاَکَلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھَا)) فَقَالَ قَائِلٌ: مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:((بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْـرٌ وَلٰـکِنَّـکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ، وَلَـیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ، وَلَـیَقْذِفَنَّ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ)) قِیْلَ: وَمَا الْـوَھْنُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ))[سنن ابی داوٗد‘ بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ح:۵۳۶۹]
’’قریب ہے کہ اقوامِ عالم ایک دوسرے کو تم پر ٹوٹ پڑنے کی دعوت دیں گی جیسا کہ کھانا کھانے والے ایک دوسرے کو اپنے دستر خوان کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ اس پر کسی نے کہا:’’کیا اُس روزہم تعداد میں کم ہوں گے؟‘‘ آپ ؐ نے فرمایا: ’’تعداد میں تو اُس روز تم بہت زیادہ ہو گے‘ لیکن تمہاری حیثیت جھاگ سے زیادہ نہ ہو گی‘ جیسا کہ سیلاب کا جھاگ ہوتا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال باہر کرے گا اور خود تمہارے دلوں میں وہن (کی بیماری) ڈال دے گا۔‘‘ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول(ﷺ)! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت!‘‘
آج ہمارے قلوب دنیا کی محبت‘ اس کی رنگینیوں سے الفت‘اس کے اسبابِ تعیش کے خوگر‘ موت سے متوحش‘ خوفِ الٰہی سے خالی اور ایمانی حرارت‘ اسلامی جرأت وبے باکی سے محروم ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اتنی بڑی تعداد بھی سمندر کے جھاگ کی مانندہوگئی۔ اس صورتِ حال میں کیا اس مرض کا کوئی علاج ممکن ہے؟ کیا اُمید کی کوئی کرن نظر آتی ہے؟
مرض کا علاج
علامہ اقبال نے اس کا علاج بھی کچھ اس انداز میں مسلم قوم کو بتایا ہے کہ: ؎
وہی دیرینہ بیماری‘ وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی!
یعنی آج سے تقریباً ساڑھے چودہ صدیاں قبل (اسلام کی آمد سے قبل) ایک بیماری نے انسانوں کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا تھا۔ اصل توحید کا نظریہ بالکل ماند پڑ چکا تھا۔ ایمان بالآخرت سے لوگ بے بہرہ ہو چکے تھے۔ مالی منفعت‘ لوٹ کھسوٹ‘ اقتدار کی ہوس اور دوسری اقوام کو زیر کرنے کا جذبہ کفر کی اجتماعی سوچ کا محور تھا۔ آج پھر تقریباً وہی صورت حال لوٹ کر آئی ہے۔ مسلمانوں کی حیثیت بھی تقریباً یہی ہے۔ عقیدئہ آخرت زبان پر تو ہے لیکن دل اس سے تقریباً بے بہرہ ہیں۔ اگر اللہ کے سامنے اعمال کی جواب دہی کا تصور ذہن میں مستحضر ہو تو ساری برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اس لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ذہنوں پر اسی بیماری (شرک‘ بدعملی اور دیگر تاریکیوں) کے غلبے نے دلوں کو سیاہ کر رکھا ہے۔ ان ساری بداعمالیوں کا علاج اسی’’آبِ نشاط انگیز‘‘ سے ممکن ہے اور وہ ہے ’’قرآن کریم‘‘ ۔ قرآن کریم نے انسانوں کو جو ضابطہ حیات (الدین) عطا کیا ہے اُس کو’’اسلام‘‘ کہہ کر پکارا ہے۔ مسلم قوم کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ’’اسلام‘‘ کی پیروکار ہے۔ کیا اس کا یہ دعویٰ واقعی درست ہے؟ اُن کے ’’اعمال و عقائد‘‘ اس دین کے تقاضوں کے برخلاف تو نہیں ہیں!
تاريخ اسلام یا تار یخ مسلم؟
اسلام کی تاریخ رقم کرتے ہوئے مؤرخین نے ایک غلطی یہ کی ہے کہ انہوں نے اسلام کی تاریخ اور مسلم قوم کی تاریخ کو ایک ہی شے سمجھ لیا۔ اس غلطی کی وجہ سے مسلم قوم کے عروج وزوال کو اصطلاحی طور پر’’اسلام کا عروج و زوال‘‘ سمجھا اور سمجھایا گیا‘ جس نے بہت سی دیگر غلط فہمیوں کو بھی جنم دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو تو زوال ہو ہی نہیں سکتا‘ کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا عطا کردہ نا قابلِ تبدیل نظامِ حیات ہے۔ جب سے کرۂ ارض پر بنی نوعِ آدم نے شعور سنبھالا ہے ‘اسی نظریۂ حیات کو اپنانے والوں نے دُنیا میں سر فرازیاں اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس نظریۂ حیات میں ترقی بھی ہے۔ اس کے سوا کوئی اورفلسفہ ٔزندگی انسان کو وہ روشنی عطا کر ہی نہیں سکتا جس میں وہ اپنے سامنے کا راستہ روشن دیکھ سکے اور بے خوف و خطر آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے۔ افسوس کہ’’مسلم قوم‘‘ کا نام مؤرخین نے اس قوم کودے دیا جنہوں نے ایسے خاص معاشرے میں جنم لیا ‘جہاں چند مخصوص’’عقائد و رسومات‘‘ کو تقدس کا جامہ پہناکر اُن پر عمل کرنے والوں کو عزت و احترام کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال دُنیا کے دیگر مذاہب میں بھی پائی جاتی ہے۔ اِس طرح اسلام بھی محض ایک مذہب بن کر رہ گیا ہے اور اُس کی انفرادیت و خصوصیت کو توہمات میں گم کر دیا گیا ہے۔ ایک مدّت سے مسلم قوم نے ان اُصولوں اور نظریات کو ترک کر رکھا ہے جواسلام نے پیش کیے تھے۔ چنانچہ اگر ایک خاص دور میں مسلم قوم نےاسلام کو اپنا لائحہ عمل بنایا تھا تو عروج بھی اس کا مقدر بنا۔ جب اُنہوں نے اس کو چھوڑ کر دوسرے نظریات اپنا لیے تو قوانین ِالٰہی کی رُو سے اُن کا زوال لازمی تھا۔ جس طرح زمین اناج اُگلتے وقت کسان کے خاندان‘ اُس کے مذہب‘ اُس کی نسل کے بارے میں سوال نہیں کرتی بلکہ فطری قوانین کی بنیاد پر اناج اُگاتی ہے‘ اسی طرح قوانین الٰہی کی رُو سے جو قوم بھی اسلام کے اُصولوں پر عمل پیرا ہوتی ہے اُسے کامیابی‘ کامرانی اور دوسری قوموں پر بالادستی عطا کی جاتی ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر زوال ہی اس قوم کامقدر بن جاتا ہے۔
آج عمومی صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت بنیادی عبادات کو بھی انجام دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔۹۵ فیصد افراد تو پنج گانہ نماز سے بھی غافل ہیں اورصرف جمعۃ المبارک کے دن دو رکعت نماز ادا کرنے پر مطمئن ہیں۔ جو ۵ فیصد افراد مسجدوں میں نظر آتے ہیں وہ بھی معاملات کے اندر’’دین ِاسلام‘‘ کونافذ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ہر سال حج و عمرہ کرتے نظر آنے والے افراد بھی سود خوری‘ رشوت‘ ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ غریبوں اور لاچار افراد کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بہنوں کو جائیداد سے محروم کرتے ہیں۔ اپنے ملازموں کو مزدوری کے اصل حق سے کم دیتے ہیں۔ ستم در ستم یہ کہ اب یہ سب کچھ ہمارے مزاج کاحصّہ بن چکا ہے۔ سارے معاملات غیر شرعی اور غیر اخلاقی ہیں جبکہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔جہاں حالات تنگ ہوئے وہاں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اجتماعی توبہ کرنے کے بجائے الٹا تقدیر کا شکوہ کر دیا۔ اللہ کے دشمن غالب جبکہ مسلمان مغلوب کیوں ہیں اور آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اُترتے‘ یہ شکوہ محض خود فریبی ہے۔ اس صورتِ حال میں کرنے کا اصل کام ’’رجوع الی اللہ‘‘ ہے اور اس کاذریعہ قرآن کریم سے تعلق کو مضبوط کرنا ہے ‘جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًاج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِفَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَاط کَذٰلِکَ یُـبَـیِّنُ اللہُ لَـکُمْ اٰیٰتِہٖ لَـعَلَّـکُمْ تَہْتَدُوْنَ(۱۰۳)} (آل عمران)
’’ ا ور تم سب مل کراللہ کی رسّی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو‘ اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا ‘پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اُس نے تمہیں اس سے بچالیا۔ اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ’’حبل اللہ ‘‘ سے مراد قرآن حکیم ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ هٰذَا الْقُرْآن هُوَ حَبْلُ اللّٰهِ تَعَالٰى، هُوَ النُّورُ الْمُبِينُ وَالشِّفاءُ النَّافِعُ، عِصْمَةٌ لِمَنْ تَمَسَّكَ بِهِ وَنَجَاةٌ لِمَنْ تَبِعَهُ )) (رواہ الدارمی والطبرانی)
’’بے شک یہ’’قرآن کریم‘‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مضبوط رسّی ہے‘ یہ واضح نور اور سراسر شفا دینے والا‘ نفع بخش ہے۔ اس پر عمل کرنے والے کے لیے یہ بچاؤ ہے ‘اور اس کی تابع داری کرنے والے کے لیے یہ نجات ہے۔ ‘‘
یہ مضمون متعدد دیگر احادیث میں بھی وارد ہوا ہے۔داعی رجوع الی القرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ’’تعارفِ قرآن‘‘ میں بیان فرمایا ہے:
’’اہلِ ایمان کو جوڑنے والی اور بنیانِ مرصوص بنانے والی رسی یہی قرآن حکیم ہے۔اس لیے کہ انسانی اتحاد وہی مستحکم اور پائیدار ہو گا جو فکر و نظر کی ہم آہنگی کے ساتھ ہو۔ بہت سے اتحاد و قتی طور پر وجود میں آجاتے ہیں‘ جیسے کچھ سیاسی مصلحتیں ہیں تو اتحاد قائم کر لیا‘ کوئی دنیاوی مفادات ہیں تو ان کی بنا پر اتحاد قائم کر لیا۔ یہ اتحاد حقیقی نہیں ہوتے اور نہ ہی پائیدار اور مستحکم ہوتے ہیں۔ انسان حیوانِ عاقل ہے۔ یہ سوچتا ہے‘ غور کرتا ہے‘ اس کے نظریات ہیں‘ اس کے کچھ اہداف و مقاصد ہیں‘ کوئی نصب العین ہے۔ نظریات‘ مقاصد اور نصب العین کا بڑا گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ تو جب تک ان میں ہم آہنگی نہ ہو کوئی اتحاد پائیدار اور مستحکم نہیں ہو گا۔ اس اعتبار سے اللہ کی اس رسّی کو مضبوطی سے تھامو گے تو گویا دو رشتے قائم ہو گئے۔ ایک رشتہ اہل ایمان کا اللہ کے ساتھ اور ایک رشتہ اہل ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ۔ جیسےکل شریعت کو تعبیر کیا جاتا ہے کہ شریعت نام ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا۔ اللہ کے ساتھ جوڑنے والی سب سے بڑی عبادت نماز ہے اور بندوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے والی شے زکوٰۃ ہے۔ اسی طرح حبل اللہ ایک طرف اہل ِایمان کو اللہ سے جوڑ رہی ہے اور دوسری طرف اہل ِایمان کو آپس میں جوڑ رہی ہے۔یہ انہیں بنیانِ مرصوص اور ’’کَجَسَدٍ وَاحِدٍ‘‘ بنا دینے والی شے ہے۔یہی وہ بات ہے جسے علامہ اقبال نے انتہائی خوبصورتی سے کہا ہے : ؎

از یک آئینی مسلماں زندہ است

پیکرِ ملت ز قرآں زندہ است
ما ہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست

 

اعتصامش کُن کہ حبل اللہ اوست!

(وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اور ملّت ِاسلامی کے جسد ِظاہری میں روحِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے۔ ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں‘ ہمارا قلبِ زندہ اور ہماری روحِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے۔ لہٰذا اے مسلمان! تو قرآن کو مضبوطی سے تھام لے کہ ’حبل اللہ‘ یہی ہے۔)
تمسک بالقرآن کی صورت
قرآن کریم سے اپنے آپ کو جوڑنے کا سب سےمؤثر ذریعہ یہ ہے کہ دروسِ قرآن کی محافل میں شرکت کی جائے۔ اسی طرح اپنے گھروں میں قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیاجائے ۔ قرآن کریم میں انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات اور نافرمانی کرنے والی قوموں کا انجام اپنے بچوں کو سنائیں تاکہ ان کے اندر خوفِ خدا پیدا ہو۔ اپنی زندگی میں قرآن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت و رسالت کی حقانیت کی زندہ نشانی جانیں۔ دین اسلام کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل مانیں۔ اس کتاب کو اللہ ربّ العز ّت کی توحید اور وحدانیت کی سب سے بڑی حُجّت تسلیم کریں۔ آپ ﷺ کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ تصور کریں۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قول’’کَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ‘‘ کے مطابق ہم بھی اپنے قول و فعل اور خلق و اخلاق کو قرآن کے مطابق ڈھالیں۔ہمارے دنیاوی معمولات میں بھی قرآنی احکامات پر عمل آئے اور اس کا نورِ ہدایت ہماری زندگیوں کی ظلمت ختم کرے۔ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی یہ پہچان ہوکہ جب کوئی ہمیں دیکھے تو تصور کرے کہ محمد عربیﷺ کا غلام اور اُمتی جا رہا ہے۔ اگر آج بھی مسلم قوم صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا وہ جذبۂ ایمانی لے کر اُ ٹھ کھڑی ہو‘ جس کے تحت انہوں نے قرآن حکیم کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا تھا تو کوئی سبب نہیں کہ ان کو کامیابی اور کامرانی نہ ملے اور اس طرح اُخروی نجات کاحصول آسان ہو جائے۔ ہر شخص کو’’کتاب اللہ ‘‘ کے حقوق ادا کرنے کی امکانی حد تک بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں بحیثیت اُمّت قرآن کریم سے وہ تعلق عطا فرمائے کہ اس کے بارے میں ہماری سستی اور کاہلی دور ہو ۔ہم بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں جو روز قیامت عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے۔ آمین یا ربّ العالمین!