(دعوت و عزیمت) منظم مسلح جدّوجُہد - حذیفہ محمود

9 /

منظّم مسلّح جدّوجُہد:
تاریخ اسلامی کا اِک درخشاں باب
حذیفہ محمود۱۷ رمضان کی تیز دھوپ والی دوپہر ہے۔ پہاڑوں اور مٹی کے ٹیلوں کے درمیان واقع بدر کا میدان آج کارزار کا منظر پیش کر رہا ہے۔ دونوں جانب جوش و جذبہ اپنے عروج پر ہے۔ ایک طرف مکہ کے سردار گھوڑوں پر سوار کیل کانٹے سے لیس ہو کر اللہ کے چراغ کو بجھانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ وہ گویا مدینہ اور اہل مدینہ کو نیست و نابود ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ دوسری جانب بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے کہ بیشتر نوجوان تلواروں اور سواریوں سے ہی محروم ہیں۔ مدّ مقابل مکہ کے سورماان سے تعداد میں تین گنا ہیں۔ ۳۱۳کا لشکر ایک ہزار مسلّح باطل پرستوں سے نبرد آزما ہے۔ پورے لشکر کے پاس دو یا تین گھوڑے اور۷۰ اونٹ ہی میسر ہیں۔ دوسری طرف نہ صرف مرد جنگجو تھے بلکہ ان کی خواتین بھی رجزیہ اشعار پڑھ کر آگ کے ایندھن کا کام کر رہی تھیں۔ شراب و کباب کے جام و دستر تیار کیے جا رہے تھے۔اِس جانب رسول اللہ ﷺ سربسجود ہیں اور مسلمانوں کے لیے ربّ ذوالجلال کی نصرت طلب کر رہے ہیں۔ بالآخر سفید پوشوں کے قدسی قافلے کا نزول ہوا اور کفار کی صفوں کی صفیں الٹتی گئیں ۔مکہ کے ۷۰سردار مسلمانوں کی تلواروں کی زد میں آ کر جہنم میں تہ بہ تہ ڈھیر ہوئے پڑے تھے۔ معرکہ ٔ حق و باطل میں حق کی تلوار فاتح قرار پائی تھی‘ جس کا منہ بولتا ثبوت بدر میں پڑی کفار کی دم بریدہ لاشیں تھیں!
منظر تبدیل ہوتا ہے۔رسول اللہ ﷺکا وصال ہو جاتا ہے۔ مسلمانانِ ملّت ِ مکّہ و مدینہ کی مقدّس سرزمین کو چھوڑ کر نورِ توحید کے اتمام کے لیے تیر و تلوار لے کردشوار گزار وادیوں اور سنگلاخ پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ خلافت ِفاروق ؓکی ایک چڑھتی ہوئی دوپہر تھی۔ شام کا علاقہ ’’یرموک‘‘ حق و باطل کا میدان بنا ہوا تھا۔میدان میں موجود رومیوں کے افراد ۶۰ ہزار تھے۔ ان کے دیوقامت گھوڑے اور ہاتھی میدان میں بلا کا منظر پیش کر رہے تھے۔ ان کے عقب میں دونوں جانب نہر ِیرموک بہتی تھی اور درمیان میں ان کی فوج درموج موجود تھی۔ مسلمان مجاہدین بھی جذبۂ ایمانی سے سرشار تھے۔ اگرچہ ان کی تعداد مخالفین سے کئی گنا کم تھی مگر جذبہ ایسا کہ پہاڑوں کے جگر چیر دے۔ امیر لشکر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی فوج کو ترتیب ہی دے رہے تھے کہ اللہ کی تلوار حرکت میں آئی اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ پکار لگاتے ہوئے صفوں سے آگے آئے کہ’’اے مسلمانو! ٹھہر جاؤ! آج میں اس رومی لشکر کو خاک آلودہ کر دوں گا۔ مجھے بس تیس افراد دے دیے جائیں۔‘‘ تصور کریں! تیس افراد کو ساتھ لے کر وہ ساٹھ ہزار کے لشکر جرار کو تہ تیغ کرنے کا عزم کر رہے ہیں! حضرت ابو عبیدہ ؓ نے بہت ٹالنے کی کوشش کی مگر ان کے بے حد اصرار پر ۶۰ افراد دے کر مقابلے کے لیے روانہ کر دیا۔ یوں چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب ۶۰ افراد کا قلیل لشکر خود سے ایک ہزار گنا بھاری بھرکم لشکر سے جاٹکرایا۔ رومیوں نے پہلے تواس چھوٹے سے لشکر کو’’صلح کا دستہ‘‘سمجھ کر خوب جشن منایا‘ مگر اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ ۶۰ لوگ ہم سے موت کا کھیل کھیلنے آرہے ہیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے لشکر کو چھ چھ افراد کی ۱۰ ٹولیوں میں تقسیم کرکے رومی لشکر پر مسلسل حملے کرنے لگے تھے۔ کل بیس حملے کیے گئے اور بالآخر یہ ساٹھ افراد کفار کی صفوں کو چیرتے ہوئے لشکر کے دامن میں جا کر اپنی تلواروں سے کفار کے سروں کا مینار کھڑا کرنے لگے۔ طلوعِ آفتاب سے زوال ہوا‘ زوال سے سفر غروب کی جانب بڑھ رہا تھا مگر یہ گھمسان کی جنگ بدستور جاری تھی۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ بقیہ اسلامی لشکر کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اب اپنے بھائیوں کے فراق کا غم منانے لگے تھے اور ذہنی طور پر خود کو اس کے لیے تیار کرنے لگے تھے۔ بالآخر امیر ِلشکر نے بقیہ لشکر کو حملہ کرنے کا حکم دیا ہی تھا کہ کیا دیکھتے ہیں‘ پورا کفر کا لشکر اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا ہے۔ نہ جائے ماندن ‘ نہ پائے رفتن! پورا رومی لشکر دریا میں چھلانگ لگا کر جان بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ ان لوگوں کو جو پہلے اسلامی لشکر کی قلیل تعداد کا مذاق اڑا رہے تھے‘ ۶۰ مسلمانوں نے ہی انہیں ناک چنے چبوا دیے تھے ۔چنانچہ اب وہ اپنا رخ مغرب کی جانب کیے دوڑ لگا رہے تھے جبکہ اللہ کی فوج کے چند افراد قہر ِالٰہی بن کر ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ ذرا تصوّر تو کریں‘ چشم فلک نے کیسا منظر دیکھا ہوگا کہ ۶۰ ہزار افراد کا لشکر بھاگ کر جان بچانے کی تگ ودو کررہا ہے جبکہ صرف ۶۰ افراد ان کا پیچھا کیے ہوئے ہیں۔جنگ یرموک میں مسلمانوں کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔ اس معرکے میں۱۰مسلمان شہید ہوئے ‘ جبکہ رومیوں کے پانچ ہزار افراد قتل ہوئے۔
یہ تھی محمد رسول اللہ ﷺکی تیار کردہ وہ فوج جس نے آپ ﷺکے جانے کے بعد بھی کبھی اسلام سے منہ نہیں موڑا بلکہ دین کی دعوت لے کر تمام اقوامِ عالم سے جا بھڑی۔ خدائی فوج کے یہ نوجوان دشت و صحرا میں سے کچھ نہ چھوڑتے۔ سمندر بھی ان کی راہ میں حائل نہ ہوپاتا۔یہ اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیا کرتے تھے۔؎
دشت تو دشت ہیں‘ دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے!
عرب سے جاری ہونے والا یہ سیلِ رواں اب ہندوستان‘ افریقہ کے علاوہ یورپ کے قلب میں واقع ہسپانیہ تک پھیل چکا تھا۔ مسلم قوم کے نوجوان اپنی صلاحیتیں اسی میدان میں صرف کر رہے تھے۔ ان کا مال اور ان کی اولاد اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے وقف تھیں۔ وہ سال کے تمام موسموں میں تلوار اٹھائے ہوئے کفار سے جان لڑاتے تھے۔ قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج اب ان کے زیرنگیں ہو چکے تھے۔
پھر گزرتے وقت کے ساتھ پیچھے کی طرف جانے کا سفر کچھ اس تیزی سے طے ہوا کہ اب ہمیں ان باتوں پر ’’کچھ کچھ ہی یقین سا‘‘ ہوتا ہے۔ اسلحے کی گفتار اور گھوڑے کی رفتار اب ہم بھول گئے ہیں۔ اغیار نے ہمارے بچوں اور بڑوں میں اسلحے کا ایسا خوف بٹھا دیا ہے کہ اب ہمیں چھری دیکھ کر بھی نیند نہیں آتی! بقولِ اقبال ؎
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گر دوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں ميں تاجِ سر دارا
دوسری طرف آج مغربی اقوام کا حال یہ ہے کہ ان کے ہاں اسلحہ رکھنا اہم ضروریات زندگی میں شامل ہے۔ وہ اپنے بچوں کو نہ صرف اس کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ اسلحہ کی باقاعدہ عملی مشق ان کے سکولوں میں داخلِ نصاب ہے۔ وہاں اس سے امن کو کوئی خطرہ نہیں ہے‘ بلکہ ان کے بقول یہ تو امن کے لیے ناگزیر ہے۔ البتہ کسی اسلامی ملک میں اسلحے کا وجود امنِ عالم کے لیے خطرہ ہے! لائسنس کی موجودگی میں بھی اسلحہ یہاں غیر محفوظ گردانا جاتا ہے۔ مغرب کی اپنی حالت بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا کی وجہ سے کچھ یوں ہے کہ آئے روز کوئی سرپھرا کھڑا ہوتا ہے اور بے ضرر مسلم باشندوں کو اپنی اسلام دشمنی کا نشانہ بناتا ہے ۔چنانچہ کبھی تو وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے اور کبھی کسی سکولوں میں داخل ہو کر مسلمان بچوں کو جان سے مار ڈالتا ہے۔ پھر انسانی حقوق کی یہی نام نہاد علمبردار مغربی ریاستیں اگلے روز اسے نفسیاتی اور پاگل قرار دلواتی ہیں اور یہ جا‘ وہ جا۔ بات آئی گئی ہوجاتی ہے اور معاملہ رفع دفع!
اسلحہ ان کے محفوظ نہیں‘ جان ہماری غیر محفوظ ہے! یہ کفار خود تو اسلحہ استعمال بھی کرتے ہیں اور فروخت بھی ‘لیکن اگر کوئی اسلامی ملک آگے بڑھ کر اسلحہ بنانے کا اعلان کرے تو وہ ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور امنِ عالم کے لیے اسے خطرے کی علامت ٹھہرایا جاتا ہے۔ چنانچہ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ نہایت متمول و دولت مند مسلم ممالک بھی نہتے اور غیر مسلّح ہیں۔ ان کے تیل کی دھار سے تو ساری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے مگر خون کی دھار ان کے بس میں کہاں! لہٰذا نہ تو ان کی بات میں وزن ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے موقف کی شنوائی۔ چنانچہ وہ اب اپنے فلسطینی بھائیوں سے نظریں چرا رہے ہیں ‘عالمی طاقتوں کے سامنے کیا بات رکھیں گے؟ یہ خالی خولی دھمکیاں ہی ہوں گی‘ ان کے پیچھے کیل کانٹے جو نہیں! مغرب کو معلوم ہے کہ یہ اسلحہ بھی تو ہم ہی سے خریدتے ہیں۔ سو ان کو عیاشیوں میں لگائے رکھو۔ اگر ان کو لڑنا بھی ہے تو آپس ہی میں لڑیں۔ چنانچہ یہ دونوں جانب کے مسلم ممالک کو بھاری رقوم میں اسلحہ فراہم کرتے ہیں اور پھر یہی دونوں مسلم ممالک ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں!
قرآن حکیم اور سیرتِ نبویہ سے ہمیں دشمن کے مقابلے میں مکمل عسکری تیاری اور بھرپور مسلّح ہونے کی تعلیمات ملتی ہیں۔حضور ﷺنے کبھی زکوٰۃ ادا نہیں کی کیونکہ کبھی اتنا مال ہی جمع نہیں ہوا کہ اس کی نوبت آئے! حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارا چولہا دو دو ماہ تک خشک رہتا تھا حتیٰ کہ وہاں گھاس اگ آتی تھی۔ دوسری طرف جب حضور ﷺکا وصال ہوا تو آپﷺ کی ملکیت میں نو(۹) تلواریں‘ دو (۲)خنجر‘ چھ (۶)کمانیں اور سات(۷) زرہیں موجود تھیں‘ جن میں سے ایک زرہ کسی یہودی کے پاس گروی رکھواکر چند صاع گندم ادھار لی گئی تھی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قوم کی پہلی ترجیح اپنے دفاع و اقدام کے لیے بھرپور مسلّح ہونا ہے‘ چاہے اس کے لیے آسائش ِزندگی بلکہ ضروریاتِ زندگی سے ہی کیوں نہ سمجھوتا کرنا پڑے! اُمّت ِمسلمہ کی موجودہ حالت ِزار کی ایک بڑی وجہ جنگی میدانوں سے پیچھے ہٹنا اور اسلحہ سازی سے فراربھی ہے! اس وقت ۵۷ اسلامی ممالک میں سے صرف ایک ہی ملک ایٹمی طاقت سے لیس ہے مگر اس کی معاشی کمزوری اس کی جرأت و عزیمت کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ریاستی سطح پر پھر اسلحہ سے شناسائی پیدا کرنی ہوگی ‘کیونکہ پُرامن منظّم مسلّح اقوام ہی اپنے دفاع کا حق اور بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں تیر اندازی‘ گھڑ سواری اور جدید اسلحہ کی باقاعدہ مشق بھی حکومتی اور ریاستی سطح پر منعقد کی جانی چاہیے ‘کیونکہ یہ رحمۃ للعالمین ﷺکا ہمیں حکم بھی ہے اور موجودہ دور کا اولین تقاضا بھی! تبھی تو دنیا ایک بار پھر وہ وقت دیکھے گی جب ہمارےساٹھ بھی ان کے ساٹھ ہزارپر بھاری ہوں گے‘ ان شاء اللہ تعالیٰ!