(حسن معاشرت) حیا بمقابلہ بے حیائی - ریان بن نعمان

9 /

حیا بمقابلہ بے حیائیریان بن نعمان
قرآن اکیڈمی ‘کورنگی‘کراچی
یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغرب میں معاشرتی نظام تباہی و بربادی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ بے حیا مغربی تہذیب کے اس بپھرے ہوئے سیلاب نے اب اپنا رخ اسلامی ممالک کی طرف کر لیا ہے ۔مغرب سوشل انجینئرنگ پروگرام اور دوسرے خوش نما ناموں کے ذریعے ہمارے خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے کے در پے ہےاور بے حیا معاشرے کی تشکیل کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بحیثیت اُمّت ِمسلمہ‘ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہمارا دینی فریضہ ہے ۔ بفحوائے الفاظِ قرآنی :
{وَلْـتَـکُنْ مِّنکُمْ اُمَّـۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴)} (آل عمران)
’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے‘ نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
و الفاظِ حدیث ِرسولﷺ:
((مَنْ رَآى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهٖ، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ، وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الْاِيْمَانِ)) (صحیح مسلم)
’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اپنے زورِ بازو سے اسے روک دے۔ پھر اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے روکے۔ پھر اگر اس کی استطاعت بھی نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا جانے اور روکنے کی خواہش کرے)‘ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
اس ذمہ داری کے تحت بے حیائی کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی اشد ضرورت ہے ۔
کسی کام کی اہمیت اور اس کے فضائل کا علم اس کام کو روبعمل لانے میں انشراحِ صدر کا موجب بنتا ہے۔ چنانچہ اوّلاً ہم اسلام میں حیا کی اہمیت و فضیلت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
حیا کا مقام و مرتبہ(۱) حیا : اسلام کا بنیادی وصف
حضرت یزید بن طلحہ بن رکانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :
((اِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ خُلُقًا، وَخُلُقُ الْاِیْمَانِ الْحَیَاءُ)) (ابن ماجہ:۴۱۸۱)
’’ بیشک ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خلق (امتیازی وصف) ہوتا ہے اور ایمان کا خلق حیا ہے۔ ‘‘
(۲)حیا : ایمان کی ایک شاخ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ اَوْ بِضْعٌ وَسِتُّوْنَ شُعْبَۃً، فَاَفْضَلُھَا قَوْلُ: لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَاَدْنَاھَا اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ، وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَانِ)) (رواہ البخاری و مسلم (ح۱۵۳) واللفظ لہ)
’’ایمان کی ستر سے زیادہ‘یا فرمایا کہ ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں‘ جن میں سے سب سے افضل لا اِلٰہ اِلا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے‘ اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
(۳)حیا :اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وصف
حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک شخص کو بغیر تہ بند کے (میدان میں) نہاتے دیکھا تو آپﷺ منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا کی‘ پھر فرمایا:
((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ، فَاِذَا اغْتَسَلَ اَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ)) (سن ابی داوٗد‘ح۴۰۱۲)
’’اللہ عزوجل حیا دار ہے ‘پردہ پوشی کرنے والا ہے ‘ حیا اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے۔‘‘
(۴)حیا :نبی اکرمﷺ کی صفت ِحمیدہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں :
كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ اَشَدَّ حياءً مِنَ العَذْرَاءِ فيْ خِدْرِهَا، فَاِذَا رَأى شَيْئًا يَكْرَهُهُ عَرَفْنَاهُ فِيْ وَجْهِهٖ (متفق علیہ)
’’ رسول اللہ ﷺ باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ ﷺ کو کوئی بات ناپسند گزرتی‘ تو ہم اس ناپسندیدگی کے آثار آپ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر پہچان جاتے تھے۔‘‘
(۵)حیا: انبیاء علیہم السلام کی سُنّت
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((اَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ: الْحَيَاءُ، وَالتَّعَطُّرُ، وَالسِّوَاكُ، وَالنِّكَاحُ))(سنن الترمذی، ح۱۰۸۰)
’’چار باتیں انبیاء و رسل علیہم السلام کی سُنّت میں سے ہیں: حیا کرنا‘ عطر لگانا‘ مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔‘‘
اسلام میں بےحیائی کی حرمت و شناعت(۱) ہرقسم کی بےحیائی حرام
{قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ } (الاعراف:۳۳)
’’ آپ(ﷺ) فرما دیجیے: بےشک میرے ربّ نے توبےحیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہر ہوں یا چھپی ہوئی۔‘‘
(۲) نفرتِ خداوندی کا موجب
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((مَا مِنْ شَیْیءٍ اَثْقَلُ فِیْ مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ، وَاِنَّ اللّٰهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِیْءَ)) (سنن الترمذی، ح۲۰۰۲)
’’قیامت کے دن مومن کے میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی‘ اس لیے کہ بےحیا اور فحش گو شخص سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے۔‘‘
(۳)قہر الٰہی و کبیرہ گناہوں کا سبب
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ اِذَا اَرَادَ اَنْ يُهْلِكَ عَبْدًا نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ، فَإِذَا نَزَعَ مِنْهُ الْحَيَاءَ لَمْ تَلْقَهُ اِلَّا مَقِيتًا مُمَقَّتًا، فَاِذَا لَمْ تَلْقَهُ اِلَّا مَقِيتًا مُمَقَّتًا نُزِعَتْ مِنْهُ الْاَمَانَةُ، فَاِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الْاَمَانَةُ لَمْ تَلْقَهُ اِلَّا خَائِنًا مُخَوَّنًا، فَاِذَا لَمْ تَلْقَهُ اِلَّا خَائِنًا مُخَوَّنًا نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ، فَاِذَا نُزِعَتْ مِنْهُ الرَّحْمَةُ لَمْ تَلْقَهُ اِلَّا رَجِيمًا مُلَعَّنًا، فَاِذَا لَمْ تَلْقَهُ اِلَّا رَجِيمًا مُلَعَّنًا نُزِعَتْ مِنْهُ رِبْقَةُ الْاِسْلَامِ)) (سنن ابن ماجہ، ح۴۰۵۴)
’’اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے شرم و حیا کو نکال لیتا ہے‘ پھرجب حیا اُٹھ جاتی ہے تو وہ اللہ کے قہر میں گرفتار ہو جاتا ہے‘ اور اس حالت میں اس سے امانت بھی چھین لی جاتی ہے‘ اور جب اس سے امانت چھین لی جاتی ہے تو وہ چوری اور خیانت شروع کر دیتا ہے‘ اور جب چوری اور خیانت شروع کر دیتا ہے تو اس سے رحمت چھین لی جاتی ہے‘ اور جب اس سے رحمت چھین لی جاتی ہے تو تم اسے ملعون و مردودپاؤ گے‘ اور جب تم اُسے ملعون و مردود دیکھو تو سمجھ لو کہ اسلام کا قلادہ اس کی گردن سے نکل چکا ہے۔‘‘
(۴)جنسِ مخالف کی مشابہت : لعنت ِرسولﷺ کی وجہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں :
لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ (صحیح البخاری، ح۵۸۸۵)
’’رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اُن عورتوں پر جومردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔‘‘
حیا کا جامع تصورحیا اپنے معنی اور تعریف کے لحاظ سے فقط اس مفہوم تک محدود نہیں جو ہماری اکثریت کے ذہن میں موجودہےکہ صرف عریانی و برہنگی ہی سے بچنے کا نام حیا ہے ‘بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق ہے۔ حیا تو بندہ مؤمن کی پوری زندگی سے عبارت ہے۔ چنانچہ نبی مکرمﷺ نے مندرجہ ذیل روایت میں حیا کے جامع تصور کو واضح فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک روز اپنے اصحابؓ سے ارشاد فرمایا:
((اسْتَحْيُوا مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ حَقَّ الْحَيَاءِ)) قَالَ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰہِ اِنَّا نَسْتَحِي مِنَ اللّٰہِ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، قَالَ: ((لَيْسَ ذٰلِكَ‘ وَلٰكِنَّ مَنِ اسْتَحْیَ مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَيَاءِ فَلْيَحْفَظِ الرَّاْسَ وَمَا وَعَى، وَلْيَحْفَظِ الْبَطْنَ وَمَا حَوَی، وَلْيَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبِلٰى، وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَی مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ حَقَّ الْحَيَاءِ))(مسند احمد، ح۱۷۴۹)
’’اللہ سے اس طرح حیا کرو جیسے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! (ﷺ) الحمدللہ‘ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ فرمایا: ’’یہ مطلب نہیں‘ بلکہ جو شخص اللہ سے اس طرح حیا کرتا ہے جیسے حیا کرنے کا حق ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے سر اور اس میں آنے والے خیالات‘ اپنے پیٹ اور اس میں بھرنے والی چیزوں کا خیال رکھے۔ موت کو اور بوسیدگی کو یاد رکھے۔ جو شخص آخرت کا طلب گار ہوتا ہے وہ دنیا کی زیب وزینت چھوڑ دیتا ہے‘ اور جو شخص یہ کام کرلے‘ درحقیقت اس نے صحیح معنی میں اللہ عزّوجل سے حیا کرنے کا حق ادا کردیا۔‘‘
ے حیا میں مُلَبَّس شخصیات کا نقشہ
حضرت اُمِّ خلاّد رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے :
جَاءَتِ امْرَأَةٌ اِلَی النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ، وَهِيَ مُنْتَقِبَةٌ، تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِکِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ! فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ:((ابْنُکِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ)) قَالَتْ: وَلِمَ ذَاکَ يَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ:((لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْکِتَابِ))(سننِ ابی داوٗد، ح۲۴۸۸)
’’رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی۔ اس کا نام اُمّ خلاد تھا اور اس کے چہرے پر نقاب پڑا ہوا تھا۔ یہ عورت اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جو جنگ میں شہید ہوگیا تھا۔ اصحابِ رسول ﷺ میں سے کسی نے اس سے کہا کہ تم اپنے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہو اور اس حال میں سر اور چہرہ ڈھکا ہوا ہے! (یعنی پوری طرح اپنے حو اس میں ہو اور احکامِ شریعت کی پابندی برقرار ہے) ۔وہ بولی :اگر میرا بیٹا بھی جاتا رہا تب بھی اپنی حیا نہیں جانے دوں گی۔ آپ ﷺ نے اس عورت سے فرمایا: ’’تیرے بیٹوں کو دو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ وہ کیوں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا :کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیاہے۔‘‘
حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہما
أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺَ مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِي کَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ أَوْ سَاقَيْهِ، فَاسْتَأْذَنَ أَبُوبَکْرٍ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ، فَأَذِنَ لَهُ وَهُوَ کَذَلِکَ فَتَحَدَّثَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ وَسَوَّی ثِيَابَهُ، [قَالَ مُحَمَّدٌ: وَلَا أَقُولُ ذَالِکَ فِي يَوْمٍ وَاحِدٍ]فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ، فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ: دَخَلَ أَبُو بَکْرٍ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَلَمْ تُبَالِهِ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَسَوَّيْتَ ثِيَابَکَ، فَقَالَ:((أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ!)) (صحیح مسلم، ح۱۷۰۸)
’’سیدہ عائشہ صدیقہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے‘ اس حال میں کہ آپ کی رانیں یا پنڈلیاں مبارک کھلی ہوئی تھیں۔ (اسی دوران) حضرت ابوبکر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے اجازت مانگی تو آپﷺ نے ان کو اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں لیٹے باتیں کرتے رہے ۔ پھر حضرت عمر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے اجازت مانگی تو آپ ﷺنے ان کو بھی اجازت عطا فرما دی اور آپ اسی حالت میں باتیں کرتے رہے۔ پھر حضرت عثمان ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے اجازت مانگی تو رسول اللہ (ﷺ) بیٹھ گئے اور اپنے کپڑوں کو سیدھا کرلیا۔ [راوی محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ یہ ایک ہی دن کی بات ہے۔] پھر حضرت عثمان ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اندر داخل ہوئے اور باتیں کرتے رہے ‘تو جب وہ نکل گئے تو حضرت عائشہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے فرمایا: حضرت ابوبکر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) آئے تو آپﷺ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ کوئی پروا کی‘ پھر حضرت عمر ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) تشریف لائے تو بھی آپﷺ نے کچھ خیال نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پروا کی‘ پھر حضرت عثمان ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) آئے تو آپﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے اپنے کپڑ وں کو درست کیا!تو آپﷺ نے فرمایا: (اے عائشہ ! ) کیا میں اس آدمی سے حیا نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں!‘‘
حیا کی اقسام
حیا انسانوں سے بھی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ سے بھی ۔ اسی لیے جب کوئی شخص بُرائی کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چھپ کر کرتا ہے ‘ کیونکہ اسے انسانوں سے حیا آتی ہے کہ اگر وہ دیکھ لیں گے توکیا ہوگا ۔ خدا تعالیٰ اگرچہ نظر نہیں آتا ‘ مگر جب یہ یقین ہو جائے کہ اس کی نظر سے کوئی فعل پوشیدہ نہیں ہے تو پھر ذرہ بھر بھی خوفِ خدا رکھنے والا شخص فعلِ قبیح کے ارتکاب کے وقت اللہ تعالیٰ سے حیا کرے گا ‘ اگرچہ کوئی دوسرا انسان اس کو نہ دیکھ رہا ہو ۔
حیا کی ایک قسم حیاء ِعبودیت ہے ۔ ایک عابد و زاہد اپنی تمام قوتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف کرنے کے باوجود یہی سمجھتا ہے کہ وہ اس کی عبادت کا حق ادا نہیں کر سکا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر جس قدر انعامات کیے ہیں ‘ اگر وہ ساری عمر بھی عبادت میں لگا دے ‘ یعنی پیدائش کے وقت ہی اللہ تعالیٰ اس کو فہم عطا کرے اور سجدے میں گر جائے اور ساری عمر اسی ایک سجدہ میں گزار دے اور وہیں اس کی موت آجائے تو وہ بار گاہ ربّ العزت میں عرض کرے گا کہ :مولیٰ کریم ! میں تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکا ۔ حیائِ عبودیت اسی چیز کانام ہے۔خود رسولِ اکرمﷺ کی دعائوں میں یہ الفاظ ملتے ہیں: ((سُبْحَانَکَ رَبِّیْ، مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ)) (متفق علیہ) ’’تیری ذات پاک ہے اے میرے ربّ! ہم تیری اس طرح عبادت نہ کر سکے جیسا کہ تیری عبادت کاحق ہے۔‘‘
حیا خود اپنے نفس سے بھی ہوتی ہے ۔ جب اسے کوئی شخص دیکھنے والا نہ ہو تو بعض اوقات انسان خود اپنے جی میں شرم محسوس کرنے لگتا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کسے دھوکا دے رہا ہوں۔ یہ نفس کی حیا ہے ۔
حیا کی ایک قسم حیاء ِ اکرام ہے ۔ خود حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ ہے کہ آپﷺ نے بعض صحابہؓ کو کھانے پر بلایا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد وہ لوگ وہیں بیٹھ کر بات چیت کرنے لگے۔ یہ چیز حضور ﷺ کو ناگوار گزری ‘ مگر آپ ؐنے حیاء ِاکرام کی وجہ سے انہیں زبانِ مبارک سے کچھ نہ کہا بلکہ اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ تاہم وہ بیٹھے رہے اور باتیں کرتے رہے ‘ حتیٰ کہ حضورﷺپھر تشریف لے آئے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں:
{ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَـکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰـىہُ لا وَلٰکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ ط اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ ز وَاللہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ط } (الاحزاب:۵۳)
’’اے اہلِ ایمان! مت داخل ہوجایا کرو نبی(ﷺ) کے گھروں میں مگر یہ کہ تمہیں کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے‘ نہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کا‘ ہاں جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہوا کرو ‘پھرجب کھانا کھا چکو تو منتشر ہوجایا کرو اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہا کرو۔ تمہاری یہ باتیں نبی(ﷺ) کے لیے تکلیف کا باعث تھیں مگر وہ (نبی ﷺ) آپ لوگوں سے جھجک محسوس کرتے ہیں‘ اوراللہ حق (بیان کرنے) سے نہیں جھجکتا ۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں صوفی عبدالمجید سواتی لکھتے ہیں:
’’ جب نبی ﷺکے گھر پر کھانا کھانے کے لیے جاتے ہو تو وہاں بیٹھ کر بات چیت میں وقت نہ گزارو ۔ اللہ تعالیٰ کا نبی تو حیاءِا کرام کی وجہ سے تمہیں نہیں کہتا ‘ مگر تم خود ہی احساس کرو اور کھانا کھا کر واپس چلے جایا کرو ۔ بے شک اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔‘‘( تفسیر معالم العرفان فی دروس القرآن )
عربی زبان کا ایک مقولہ ہے: تُعْرَفُ الْأَشْيَاءُ بِأَضْدَادِهَا (چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں)۔دنیا میں بہت سی متضاد چیزیں ہیں جن سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔ یہ متضاد چیزیں تاثیر و نتائج کے اعتبار سے جدا جدا ہوتی ہیں‘ جیسے دن اور رات‘ سچ اورجھوٹ ‘حزب اللہ اور حزب الشیطان ‘ رحمان اور شیطان ‘ روح اور بدن ۔رحمان اپنے ماننے والوں کے اندر کچھ اوصاف دیکھنا چاہتا ہے ‘اسی طرح شیطان بھی اپنے پیروکاروں میں کچھ خصلتیں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ انہی متضاد اشیاء میں حیا اور بے حیائی بھی ہے۔
حیا و بےحیا ئی کی تعریف
حیا کے لغوی معنی وقار‘ سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ اس سے مراد وہ پاکیزہ جذبہ ہے جو انسان کو برائیوں سے عار دلائے۔ چنانچہ حیا کی اصطلاحی تعریف یوں کی جاتی ہے: اَلْحَیَاءُ اِنْقِبَاضُ النَّفْسِ عَنِ الْقَبَائِحِ وَتَرْکُہ (امام راغب اصفہانی فی مفردات القراٰن) یعنی ’’حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
بے حیائی کی لغوی تعریف یہ ہے: ’’ہر وہ چیز جو حد سے باہر نکل جائے‘ فحش ہے۔‘‘ اصطلاحاً: ما عَظُمَ قُبْحُه من الأفعالِ والأقوالِ(امام راغب اصفہانی فی مفردات القراٰن) یعنی ’’وہ اقوال اور افعال جو قباحت میں حد سے بڑھے ہوئے ہوں۔‘‘
حیاکی جزا اور بے حیائی کی سزاحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((الْحَيَاءُ مِنَ الْإِيمَانِ وَالْإِيمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْبَذَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءُ فِي النَّارِ)) (سنن الترمذی، ح ۲۰۹۷)
’’حیا ایمان کا جز/ پھل ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے‘اور بے حیائی بدکاری میں سے ہے اور بدی جہنم میں لے جانے والی ہے۔‘‘
خیر و شر کا دروازہ
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((الْحَيَاءُ لَا یَأتِیْ اِلَّا بِخَيْرٍ )) (متفق علیہ)
’’ حیاصرف خیر ہی لاتی ہے ۔‘‘
مراد یہ ہے کہ حیا شخصیت میں نیکی ہی لاتی ہے جبکہ بے حیائی ہر شر کا دروازہ کھولتی ہے‘ گفتارو کردار میں پستی لاتی ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا :
((اِنَّ مِمَّا اَدْرَكَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِ النُّبُوَّةِ الْأُولَى اِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ)) (صحیح البخاری )
’’اگلے پیغمبروں کا کلام جو لوگوں کو ملا اس میں یہ بھی ہے کہ جب تم میں شرم ہی نہ رہی تو پھر جو جی چاہے وہ کرے۔‘‘
اسی پیغمبرانہ حکمت پر مبنی فارسی کی مشہور کہاوت ہے: ’’بے حیا باش وہرچہ خواہی کن!‘‘ (ایک مرتبہ بے حیا بن جاؤ ‘پھر جو چاہے کرتے پھرو !)
حیا اور بے حیائی کے اثرات
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((مَا کَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ اِلَّا شَانَهُ وَمَا کَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ اِلَّا زَانَهُ)) (سنن الترمذی، ح ۲۰۶۰ )
’’ بےحیائی جس چیز میں آتی ہے اسے عیب دار بنادیتی ہے‘ اور حیا جس چیز میں آتی ہے اسے مزین کردیتی ہے۔‘‘
رحمان کی دعوت بمقابلہ شیطان کی دعوت
بے حیائی سے بچنا رحمان کی دعوت ہے جس کا ذکر سورۃ النحل میں کچھ اس طرح آتا ہے:
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(۹۰)}
’’بےشک اللہ حکم فرماتا ہے عدل کا اور احسان کا اور رشتہ داروں کو (حقوق) دینے کا‘ اور وہ منع فرماتا ہے بےحیائی سے ‘ بُرائی اور ظلم (وسرکشی) سے۔وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ ‘‘
بے حیائی شیطان کی دعوت اور حکم ہے جو سورۃالبقرہ میں یوں بیان ہوا:
{اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (۱۶۹)}
’’بےشک وہ (شیطان)تو تمہیں صرف بُرائی اور بےحیائی کا ہی حکم دیتا ہے اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کروجو تم نہیں جانتے۔ ‘‘
رحمان کے بندے بمقابلہ شیطان کے بندے
رحمان کے بندوں کااجتناب ِفواحش و کبائر کا وصف سورۃ الشوریٰ میں یوں بیان ہوا:
{وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰۗىِٕرَ الْاِثْمِ وَالْـفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ(۳۷)}
’’ اور وہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب اُنہیں غصّہ آتا ہے (تو) معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
بندہ مؤمن کے بنیادی وصف کے طور پر سورۃ المؤمنون میں یوں نمایاں کیا گیا:
{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ(۵) اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ(۶)}
’’ اور وہ لوگ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں‘ سوائے اپنی بیویوں یا کنیزوں کے جن کے وہ مالک ہیں تو ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ‘‘
بندہ مؤمن کے تکمیلی اوصاف میں بھی یوں مذکور ہے:
{وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ   ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا (۶۸)}
’’اور وہ جو اللہ کےساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ (ہی) وہ زنا کرتے ہیں۔ اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔ ‘‘
سہواًارتکابِ فواحش کے فوراً بعد توبہ اور اس گناہ پر عدمِ اصرار کا ذکر سورئہ آل عمران میں یوں آیاہے:
{وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ ۠ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللهُ      ڞ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ(۱۳۵)}
’’ اور وہ لوگ جب کوئی بے حیائی کا کام کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو (فوراً ) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔ اور کون ہے جو اللہ کے سوا گناہوں کو بخشے! اور جواُن سے سرزد ہوا وہ اُس پر جانتے بُوجھتےاَڑے نہیں رہتے۔ ‘‘
جبکہ اس کے برعکس شیطان کے بندوں کا اشاعت ِفواحش کا وصف سورۃ النور میں یوں وارد ہوا:
{اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ   ۭ وَاللهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (۱۹)}
’’بےشک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بےحیائی پھیلے اُن کے لیے دُنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔اور اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے۔ ‘‘
با حیا اسلامی معاشرہ بمقابلہ بے حیا مغربی معاشرہاسلام نے حیا کے نفوذ کے لیے ہمہ جہتی اقدامات کیے ہیں۔ ربّ کائنات نے لباس جیسی انمول نعمت عطا فرمائی جو ساتر بھی ہے اور موجب ِ زینت بھی۔ بے حیائی کی ابتدا ہی سے بیخ کنی کے لیے عورت و مرد کا علیحدہ دائرہ کار مقرر کیا۔ مرد کو اس کی جسمانی ساخت کے پیشِ نظر معاش کی ذمہ داری دی کہ وہ حال کی فکر کرے۔اسی طرح اس کو گھر کا کفیل بنایا ۔ معاشی جدّوجُہد اور مضبوط جسمانی ساخت کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اس کوقوام اور سربراہِ خاندان بنایا۔ عورت کو تربیت ِاولاد کی ذمہ داری دے کرمعاشرے کا مستقبل سنوارنے کا فریضہ سونپا گیا۔مزید برآں‘ محرم ونامحرم کی تقسیم کی گئی ۔ حیا کا معاملہ چونکہ عورت سے زیادہ متعلق ہے‘ لہٰذا محرم مَردوں کے سامنے عورت کے گھر کے پردے یعنی ستر کے احکامات سورۃ النور میں بیان ہوئے جبکہ نا محرم مَردوں کے سامنے گھر سےباہر کے پردے یعنی حجاب کے احکامات سورۃ الاحزاب میں وارد ہوئے۔ زنا کی طرف لے جانے والے دروازوں اور محرکات کا سدباب کیا گیا‘مثلاً شراب ‘ موسیقی‘ مخلوط کلچر کو ممنوع قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی آنکھ ‘کان‘ زبان ‘ ہاتھ اور پاؤں کے نامحرم کی طرف التفات کو ان اعضاء کا زنا قرار دیا گیا (مفہومِ حدیث)۔چار گواہوں کی عدم موجودگی میں زنا کی تہمت لگانے پر حد ِ قذف کا اجراء کر کر اشاعت ِفاحشہ کی روک تھام کی گئی(سورۃالنور)۔گویا ابتداء ہی سے ذہنی تربیت اور مختلف النوع بندشوں کے ذریعے بے حیائی کی بیخ کنی کی گئی۔ سماجی و معاشرتی سطح پر امن و سکون اور عفت و پاک دامنی کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود اگر کوئی بدبخت اسلامی معاشرے میں زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس پر سخت ترین سزا مقرر کی گئی ہے (غیر شادی شدہ زانی / زانیہ کے لیے سو کوڑے اور شادی شدہ زانی /زانیہ کو رجم کی سزا) تاکہ ایک کو سزا ہو اور سو کو عبرت حاصل ہو۔
اس کے برعکس اگر ہم مغربی معاشرے کا جائزہ لیں تو کہ وہاں خاندانی نظام تہ و بالا نظر آتا ہے۔ آزادی کے دلفریب نعرے درحقیقت شرم و حیا سے آزادی کے نعرے ہیں۔ لباس کے ’’تکلّف ‘‘سے آزادی کے نعرے ہیں۔ بے راہ روی و نفس پرستی کے نعرے ہیں۔عورت کو کم سے کم لباس پر لا کر‘اشتہاروں اور مارکیٹ کی زینت بنا کر‘ چراغِ خانہ کو شمعِ محفل بنا کر‘ آزادی کے نام پر عورت کی عفت و عصمت و عظمت کو تار تار کیا گیا۔ آزادئ نسواں کے یہ نعرے کھوکھلے اور مغرب کے دوغلےپن کا مظہر ہیں ۔ وہاں کسی خاتون کو حجاب لینے کی (قانوناً/اخلاقاً) آزادی کیوں نہیں ؟کسی باحیا مرد کا رہنا وہاں اجیرن کیوں ہے؟ ایک باحیا فرد اُن کی بے حیائی پر مبنی اقدارو اطوار اور انڈسٹریزکو عملاً ٹھوکر مارتا ہے ۔ فحاشی کی قانونی و اخلاقی سرپرستی کر کے مغرب ایک حیوانی اور حیا باختہ معاشرے کا نقشہ پیش کررہاہے ۔یہ حیوانیت و عریانی وہاں اس درجے کو پہنچ چکی ہے اور اس کے انتہائی مضر‘گھناؤنے اور دُور رَس نتائج اس قدر مبرہن ہورہے ہیں کہ اب ان کے بڑوں کے بھی چودہ طبق روشن ہورہے ہیں ۔سابق صدر امریکہ بِل کلنٹن کے الفاظ ہیں کہ عنقریب امریکی آبادی کی اکثریت ناجائز بچوں پر مشتمل ہوگی۔ فروری ۲۰۱۳ء میں اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس کے موقع پر سابق صدر امریکہ بارک اوباما کہتا ہے : ’’گھر بنا لو‘ ایک مضبوط گھر ایک مضبوط معاشرے کی ضرورت ہے۔ ‘‘سابق صدر امریکہ جارج بُش کے الفاظ ہیں :’’ خدا کے واسطے شادیاں کر لو‘‘۔ سابق صدر یو ایس ایس آر‘ گورباچوف کہتا ہے : ’’اب ہمیں عورتوں کو گھروں میں لانے کے لیے تحریک چلانی چاہیے۔‘‘اِنہی حالات کی پیشین گوئی کرتے ہوئے ملّت ِاسلامیہ کے حُدی خواںنے اہلِ مغرب کو یوں مخاطب کیا تھا: ؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو‘ وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
دردِ دل
اسلام میں حیا کا مقام و مرتبہ بھی ہمارے سامنے آگیا اور بے حیائی کی شناعت و خباثت بھی واضح ہو گئی ۔ حیا و بے حیائی کا ہمہ جہتی تقابل بھی سامنے آیا اور ان دونوں کی بنیاد پر اُٹھنے والے معاشروں کا نقشہ بھی ہمارے سامنے واضح ہوا۔اب دینی حمیت و غیرت اور عقل و فہم کا تقاضا تو یہ تھا کہ جہاں ہم خود کو انفرادی و اجتماعی سطح پر حیا میں مُلبَّس کر لیں‘ وہیں بے حیائی کی کسی بھی صورت کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہ دیں ۔مگر افسوس صد افسوس ! ایسا نہ ہو سکا۔مغرب کی چکاچوند اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی سائنسی و فکری ترقی کے سامنے تمام تہذیبیں و روایتی اقدار گھٹنے ٹیکتی چلی گئیں۔ بقول علامہ اقبالؒ : ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
یہاں تک کہ اسلامی تہذیب کےعلم بردار بھی بالکلیہ اس دجالی و بےخدا تہذیب کے مضر اثرات سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکے‘ الا ماشاء اللہ!واقعہ یہ ہے کہ ایک محکوم و غلام ذہن اپنے طرزِ فکر و عمل میں اسی انداز کواپناتا ہے جو حاکم قوم کا ہوتا ہے۔اسی حقیقت کو بانی ٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب ؒ اپنی معرکۃ الآراءتصنیف ’’اسلام کی نشا ۃ ِ ثانیہ: –کرنے کا اصل کام‘‘ میں
’’فکر ِمغرب کا ہمہ گیر استیلاء‘‘ کے عنوان کے تحت یوں بیان کرتے ہیں :
’’موجودہ دور بجا طور پر مغربی فلسفہ و فکر اور علوم و فنون کی بالادستی کا دور ہے اور آج پورے کرۂ ارضی پر مغربی افکار و نظریات اور انسان اور کائنات کے بارے میں وہ تصورات پوری طرح چھائے ہوئے ہیں جن کی ابتدا آج سے تقریباً دوسوسال قبل یورپ میں ہوئی تھی اور جواس کے بعد مسلسل مستحکم ہوتے اور پروان چڑھتے چلے گئے۔ آج کی دنیا سیاسی اعتبار سے خواہ کتنے ہی حصوں میں منقسم ہو ‘تقریباً ایک ہی طرزِ فکر اور نقطۂ نظر پوری دنیا پر حکمران ہے اور بعض سطحی اور غیر اہم اختلافات سے قطع نظر ایک ہی تہذیب اور ایک ہی تمدن کا سکہ پوری دنیا میں رواں ہے۔ کہیں کہیں منتشر طور پر کوئی دوسرا نقطۂ نظر اور طرزِ فکر اگر پایا بھی جاتا ہے تو اس کی حیثیت زندگی کی اصل شاہراہ سے ہٹی ہوئی پگڈنڈی سے زیادہ نہیں ہے‘ ورنہ مشرق ہویا مغرب ہر جگہ جو طبقے قیادت و سیادت کے مالک ہیں اور جن کے ہاتھوں میں اجتماعی زندگی اور اس کے جملہ متضمّنات کی اصل زمامِ کار ہے وہ سب کے سب بلا استثناء ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدن اور فلسفہ و فکر کا یہ تسلط اس قدر شدید اور ہمہ گیر ہے کہ بعض اُن قوتوں کے نقطۂ نظر کا جائزہ بھی اگر دقت ِنظر سے لیا جائے ‘جومختلف ممالک میں مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف صف آرا ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی مغرب کے اثرات سے بالکلیہ محفوظ نہیں ہیں اور خود ان کا طرزِ فکر بہت حد تک مغربی ہے۔‘‘
شیطان نے اپنا پہلا وار انسانوں کے والدین حضرتِ آدم و حوا (علیہما السلام)پر کیا ‘ جس کے نتیجے میں انہوں نے سہواً جنت کے شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا اور ان کے ستر اُن پر عیاں ہوگئے۔چنانچہ فطرتِ انسانی میں ودیعت شدہ شرم و حیا کامادہ غالب آیا اورانہوں نے جنت کے پتوں سےستر پوشی کی۔ قرآنِ حکیم میں سات مرتبہ دہرائے جانے والے اس قصہ آدم و ابلیس سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ شرم و حیا کا مادہ انسانی فطرت میں مضمر ہے اوریہ کہ شیطان کا اوّلین و مؤثر ترین وار اسی حیا کو زائل کرنا ہے۔
شیطان اپنا یہ وار کامیابی سے کھیلتے ہوئے مغرب میں ایک بے حیا معاشرہ تشکیل دے چکا ہے ‘مگر تشویش ناک صورتِ حال یہ ہے کہ وہی بے راہ روی مسلمانوں کے معاشرے میں بھی عام ہوتی جارہی ہےکہ جس کا تصوّر کچھ عرصہ قبل تک محال تھا ۔بالخصوص نوجوان نسل پر اس شیطانی حملے کا وار سب سے شدید ہے۔ خوش نما ناموں کے ذریعے بے حیائی کو بطور ِ فن متعارف کروایا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کا تو کیا ہی پوچھنا کہ وہاں مغربی افکار و اطوار کی ہو بہو نقل کی جاتی ہےاور جو اشاعت ِفواحش کا گڑھ بن کر گویا بے خداو بے حیا مغربی تہذیب کی توسیع کے متولی ہونے کا کردار ادا کررہے ہیں ۔ ان کا ماحول (مغربی یونیورسٹیوں اور معاشروں کا حق الیقین کی سطح پر مشاہدہ کرنے والے) علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کا کامل نمونہ پیش کرتا ہے: ؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو یہ نقشہ بالعموم ہمارے پورے معاشرے کا ہی ہوتا جارہا ہے مگر بالخصوص اس شیطانی تہذیب کا مبدأ و مرکز ہمارے تعلیمی ادارےبن رہے ہیں ۔ستم بالائے ستم ‘ بنی نوعِ آدم کو حیا کے زیور سے عاری کرنے میں سوشل میڈیا اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے۔ دنیا بھر کا گند موبائل نامی چھوٹی سی ڈبیا میں جمع کرکے اور گویا ’’دریا کوزے میں بند کر کے ‘‘ بے حیائی کے تمام مواقع ‘زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کےدستیاب کردیےگئے ہیں ۔علاوہ ازیں ‘کالی سکرینوں نے بے حیائی کی انتہائی صورت کو بھی entertainment کےنام پراورکثرتِ ورود کے ذریعہ یوں نارملائز (normalize) کردیا ہے کہ اب وہ بے حیائی بے حیائی لگتی ہی نہیں‘ اب وہ بد نظری بدنظری رہی ہی نہیں‘ بد سمعی گناہ محسوس ہی نہیں ہوتی۔کالی سکرینوں کا کالا جادو یہ بھی ہے کہ پہلے خلوتیں آلودہ ہوئیں ‘اب جلوتیں بھی داغدار ہورہی ہیں۔یوں تو اس کا اوّلین شکار نوجوان نسل ہے مگر اس کے’’ متاثرین‘‘ کی فہرست میں شمولیت کے لیے جنس و عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ ہر عمر ‘ ہر شعبے سے متعلق افراد‘ مختلف مذاق و مزاج رکھنے والے لوگوں کے لیے ان کی پسند کا سامانِ لہو و لعب ہمہ وقت موجود ہے ۔ عوام کا تو حال چھوڑیے‘ اچھے بھلے دین دار لوگ بھی اس اُفتاد سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔کاش کہ کوئی انہیں بتائے کہ جس طرح نامحرم کو حقیقت میں دیکھنا اور بلا ضرورت سننامنع ہے‘ بالکل اسی طرح سکرین پر بھی دیکھنے/سننے کی ممانعت ہے۔ ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
عشق یا محبت ایک مقدس /پاکیزہ جذبہ ہے بشرطیکہ وہ حقیقی ہو ۔ مخلوق کا مخلوق سے تعلقِ عشق چاہے کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو ‘بہرحال مجازی ہے۔چونکہ مخلوق کا مربی ومحسن و منعمِ حقیقی فقط اُن کا خالق ذوالجلال ہے لہٰذا عشقِ حقیقی بھی بجز اُس ذات کے کسی سے ممکن نہیں اور ’’معشوقِ حقیقی‘‘ اگر کوئی ہوسکتا ہے تووہ اللہ عزّ و جل ہے۔اس حصولِ عشقِ حقیقی کا تقاضا اللہ کا اپنے ہر بندئہ مؤمن سے ہےاور یہی صفت اہلِ ایمان کی قرآن مجید میں بھی بیان ہوئی :
{ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلهِ ط} (البقرۃ:۱۶۵)
’’اور جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
اور
{يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ .....} (المائدۃ:۵۴)
’’اے ایمان والو ! جوشخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ (کو کوئی پروا نہیں‘ وہ) عنقریب (تمہیں ہٹا کر) ایک ایسی قوم کو لے آئے گا کہ اللہ اُن سےمحبت کرےگا اوروہ اُس سےمحبت کریں گے .....‘‘
مغرب کی اندھی تقلید میں پاکستان کےمسلمان معاشرے میں بعض عناصر خالق و مخلوق کے باہمی تعلق محبت کے اس پاکیزہ جذبے کو’’ ویلنٹائن ڈے( ۱۴فروری) ‘‘ کے نام پر ہائی جیک کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ۔ مزید برآں’’عورت مارچ ‘‘کے نام پر ہرسال وہی حقوق و آزادئ نسواں کے کھوکھلے مغربی نعروں کی قولاً و عملاً تجدید کی جاتی ہے۔اسی معاشرے سے نکلنے والی ہماری ہی مائیں بہنیں انتہائی فحش سلوگنز (جن کو اس وقت ہم نوکِ قلم پر بھی نہیں لاسکتے) پر مبنی پلے کارڈز تھامے مارچ کرکے حیا کا جنازہ نکال رہی ہوتی ہیں ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون! اسی طرح اسلام آباد کےنور مقدم کیس پر بھی ذرا نظر ڈال لیں ۔ یہ کیس اسی مغربی کلچر ’’We are living together but we are not married‘‘ہی کا ایک نقشہ تھا جو مملکت ِخداداد پاکستان کی سرزمین پر رونما ہوا۔ فیشن شوز‘ کیٹ واکس ‘ بوتیک‘ ڈانس پارٹیز ‘ میوزیکل کنسرٹس وغیرہ کی sugar coated terms بھی اسی بے حیائی کے شجرئہ خبیثہ کی وہ مکروہ شاخیں ہیں جو نہایت تیزی کے سا تھ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان (so called) میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہیں۔ ماضی قریب میں اس کی تازہ ترین مثال ہے ٹرانس جینڈر ایکٹ کا پاس ہوجانا۔
یہ سب اقدامات ہیں اس مغربی و شیطانی ایجنڈے کے ضمن میں کہ جس کا مقصد حیا کےزیور کو ہمارے اندر سے کھرچ کر پھینکنا ہے‘ اور اس ایجنڈے کی تکمیل میں انجانے یا جانتے بوجھتے اولین ممد و معاون بن رہے ہیں مغرب سے انتہائی مرعوب ہمارے وہ مقتدر طبقات و کاروباری افراد و دانشور حضرات کہ جن کے ہاتھوں میں سیاسی و معاشی و سماجی سطح پر معاشرے کی اصل زمامِ کار ہے ۔عام عوام کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ‘ ذرا کسی کے پاس چار پیسے جمع ہوجاتے ہیں اور وہ کسی غریب علاقے سے پوش علاقے منتقل ہوجاتا ہے تو وہ پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اپنے گھر سے پردہ کو نکال کر پھینکتا ہے کہ جناب اب تو ہم ’’ماڈرن‘‘ ہوگئے ہیں اور یہ کہ پردہ تو غریبوں اور دقیانوس قسم کے لوگوں کا کام ہے ‘اب کیا چودہ سو سال پرانے اصول ہمارے ہاں نافذ ہوں گے؟العیاذ باللہ!ہمارا بے پردہ ہونا بھارت اوردیگر انتہا پسند مغربی ممالک کی بہادر باپردہ مسلم خواتین کو منہ چڑھانے کے مترادف ہے کہ ہم تو تمہارا نقاب اُتارنے والوں کے کیمپ میں ہیں۔ الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر بیٹھے چند نام نہاد دانشور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جناب اصل پردہ تو دل کا پردہ ہوتا ہے ‘ اصل حیا تو دل کی حیا ہوتی ہے‘ اگر دیدہ و دل میں حیا نہ ہو تو چاہے آپ کسی کو کمبل بھی پہنادیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ان ظالموں کو کوئی یہ تو بتائے کہ کہنے سے پہلے اتنا تو سوچ لیا کرو کہ تمہارے الفاظ کی زد کہاں تک جائے گی ۔نعوذ باللہ ‘ ثم نعوذ باللہ!!کیا اُمہات المؤمنین کی آنکھوں میں حیا نہ تھی ؟کیا بناتِ رسولﷺ کے قلوب باحیا نہ تھے؟ انہوں نے تو پردہ کیا ‘ بلکہ ان نفوسِ مقدسہ سے بھی پردہ کیا جو نبی اکرمﷺ کے صحبت و تربیت یافتہ تھے۔درحقیقت یہ سارے ہتھکنڈے ہماری روایات ‘ تمدن و ثقافت سے حیا کے عنصر کو خارج کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سازشوں سے ہماری ‘ ہمارے گھرانوں اور تمام ہی مسلم معاشروں کی حفاظت فرمائےاور ہمیں حیا کے زیور سے خود کو آراستہ و پیراستہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ کیونکہ وہی مرد معاشرے میں سر اٹھا کر چلتے ہیں جن کی مائیں بہنیں نظریں جھکا کرچلتی ہیں۔اللہ ہمیں عقل وشعور عطا فرمائے۔ ع دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!