بسم اللہ الرحمن الرحیم
ماحولیاتی تباہی یا عالمی سازش؟
جغرافیائی اورسیا سی اعتبار سے مملکت ِخداداد پاکستان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بڑی طاقتوں کو اس کا وجود کھٹکتا ہے۔دوسری طرف اس کی جغرافیائی صورتِ حال کچھ ایسی بن چکی ہے کہ پاکستان کی خوبیاں اس کی کمزوریاں بنا دی گئی ہیں۔ سال کے بارہ مہینوں میں سے چھ مہینے عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں آبی وسائل کم ہو رہے ہیں اور چھ مہینے یہ بتایا جاتا ہے کہ غیرمتوقع بارشوں اور دریاؤں میں سیلاب آجانے سے پاکستان کا بیشتر حصہ ڈوب گیا ہے اور عوام سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے دل کھول کر عطیات جمع کرائیں۔ پاکستانی عوام تو ایک طرف‘ عالمی ادارے بھی ان مواقع پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ عوام تو اگلے جہاں کے لیے سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ اس دنیا میں خرچ کیا ہوا ایک روپیہ اُنہیں اگلے جہاں میں ستر یا سات سو روپے کے برابر ثواب دے گا جبکہ عالمی ادارے تو اسی دنیا میں حساب برابر کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے آنے والے کئی اداروں کے بارے میں ایسی خبریں منظر عام پر آچکی ہیں کہ وہ ملکی معاملات میں مداخلت کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں جب بھی کہیں کوئی ناگہانی آفت آتی ہے تو بڑی طاقتیں عموماً امدادی ٹیموں کے لبادے میں اپنی جاسوسی اور اپنے ملک کے لیے سافٹ امیج بنانے والی ٹیمیں بھیج دیتی ہیں۔تاہم غیور قومیں ایسے کڑے امتحانات کے وقت بھی کسی غیر کی مدد شکریہ کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
چند سال پہلے تک تو پاکستان میں صرف دو ہی (خشک سالی اور سیلاب )شیڈولڈ آفات تھیں مگراب ایک اور شیڈولڈ آفت سموگ کے نام سے آچکی ہے۔ اس کی وجہ سے سرکاری دفاتر جہاں پہلے ہی کام نہیں ہوتا ،سرکاری تعلیمی ادارے جہاں تعلیم اور تربیت کے مواقع پہلے ہی محدود ہوتے ہیں وہاں مزید چھٹیاں کر دی جاتی ہیں۔گزشتہ برس سموگ کے علاج کے لیے چھٹیوں کے علاوہ مصنوعی بارشوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے ادارے اور ممالک ماحول کو بہتر بنانے کے لیے باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر نتیجہ پہلے سے زیادہ آلودگی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
حقیقت یہ ہے کہ گرین ہائوس گیسز کو کم کرنا اُن بڑے ممالک اور اداروں کا کام ہے جن کی وجہ سے یہ نقصان دہ ماحول پیدا ہوتا ہے ۔ہماری کسی صنعت کا شمار ان میں نہیں ہوتا مگر پاکستان اور دیگر چھوٹے ممالک کو گرین ہائوس گیسز سے ہونے والے نقصانات سے محفوظ رہنے کے لیے تیاری کا پابند بنایا گیا ہے۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم بڑے اور صنعتی ممالک کے رعب میں آچکے ہیں اور ان کے حکم پر دولت اور خون پسینہ بہانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ صرف غزہ اور روس کے خلاف جنگ کے حوالے سے اسرائیل اور یوکرین کو۹۰ ارب ڈالر کااسلحہ اور گولہ بارود دے چکا ہے ۔اس مناسبت سے امریکہ کو گرین ہائوس گیسز کو کم کرنے کے لیے بھی خرچ کرنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔
گزشتہ سال سموگ کے علاج کے لیے بیش قیمت مصنوعی بارش پر جس قدر رقم پاکستان میں خرچ کی گئی‘ اس سے کئی گنا کم خرچ پر سموگ سے بچاؤ کے لیے اقدامات کیے جاسکتے تھے۔ چونکہ یہ اقدامات کرنے سے بہت سی بڑی دکانداریاں بند ہو جاتیں اس لیے انہی دکانوں سے سموگ کے علاج کی دوائی خرید کر بتایا گیا کہ ہم بہت ماڈرن اور ترقی یافتہ ہیں۔ ترقی یافتہ کیا خاک ہیں کہ ہمیں اپنے نفع اور نقصان کا بھی علم نہیں۔ علماء‘ دانشور‘ صحافی‘ سب کہتے رہے کہ عوام اور حکمران مل کر اللہ کے سامنے گڑگڑا کر معافی مانگیں اور بارانِ رحمت کے لیے دعا کریں مگر تان مصنوعی بارش ہی پر آکر ٹوٹی ۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ جب حکومتیں بدلتی ہیں تو عوام کے لیے بنائے گئے منصوبے بھی تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ ’’گرین اینڈ کلین پاکستان‘‘ کا منصوبہ بھی عوام کے لیے تھا تاکہ ہم صاف فضا اور بہتر ہوا میں سانس لے سکیں‘ مگر متعلقہ حکومت کے ساتھ ہی وہ منصوبہ بھی ختم ہوگیا۔
ہمارے ملک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے کل اخراج میں گھریلو حصّہ بمشکل بیس فیصد ہے جبکہ سب سے بڑا حصّہ توانائی کے شعبہ سے منسلک ہے ۔بجلی بنانے کے لیے کوئلے کو جلایا جاتا ہے۔ساری دنیا میں کوئلے سے بجلی بنانےکے عمل کو جب ختم کیا جارہا تھا تو پاکستان میں کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹ نہ صرف لگائے جارہے تھے بلکہ عوام کو بے وقوف سمجھ کر اس کے فوائد گنوائے جارہے تھے۔
الغرض اِس وقت حالات کچھ ایسے ہیں کہ ایک خرابی کو دور کرنے کے لیے ایک اور خرابی پیدا کی جارہی ہے۔گویا انسان مسلسل خسارے کی طرف جارہا ہے ۔بے شک یہ وہی خسارہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر کیا ہے۔ اس خسارے سے بچنے کے لیے نت نئی ٹیکنالوجی یا سائنس کی مدد ضرور لیں لیکن اصل حل کی طرف بھی توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ حکمرانوں‘ مقتدر حلقوں اور عوام سب کو ہر معاملہ میں دین سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025