(درسِ قرآن ) سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ (۲) - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ(۲)مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒبسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آیت ۱: الۗمّۗ (۱) ’’الف‘ لام‘ میم‘‘
سورۃ البقرۃ کےآغاز میں سب سے پہلے حروفِ مقطعات آ رہے ہیں : الٓمّٓ ۔ انہیں مقطعات کیوں کہا جاتا ہے؟ قَطَعَ یَقْطَعُ قَطْعًا کا معنی ہے کاٹ دینا‘ جدا کرنا‘ جب کہ باب تفعیل میں قَطَّعَ یُقَطِّعُ کا معنی ہو گا ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ۔ ان کو حروفِ مقطعات اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان حروف کو علیحدہ علیحدہ پڑھا جاتا ہے۔ لکھنے میں ’’الٓمّٓ‘‘ جڑے ہوئے ہیں لیکن اس کو ’’اَلَمْ‘‘ نہیں‘بلکہ الف‘لام ‘میم پڑھا جائے گا۔ حٰـم (حا اور میم) دو حروف قرآن میں جڑے ہوئے ملیں گے لیکن حا‘ میم کو علیحدہ پڑھا جائے گا۔اسی طرح یٰسٓ (یا‘سین) ‘ طٰہٰ (طا‘ہا) ‘ الٓــر (الف‘لام ‘را)‘ کٓھٰیٰعٓصٓ (کاف‘ہا‘یا‘عین‘صاد)۔ چونکہ انہیں علیحدہ علیحدہ pronounceکیا جاتا ہے اس لیے ان کو حروفِ مقطعات کہا جاتا ہے۔
حروفِ مقطعات:چند اصولی باتیں
حروفِ مقطعات کے بارے میں چند باتیں بالکل قطعی اور متفق علیہ ہیں۔ ان میں سے اوّلین یہ ہے کہ ان کا حتمی اور یقینی مفہوم و معنی اللہ اور اُس کے رسولﷺ کےسوا کسی کو معلوم نہیں۔ ان کے بارے میں اقوال بہت سے ہیں۔ لوگوں نے بہت سی آراء دی ہیں۔ اپنے اپنے ذوق اور اپنے اپنے مزاج کے مناسبت سے باتیں کہی ہیں۔ البتہ اس پر تقریباً اتفاق ہے کہ ان الفاظ کا یقینی اور حتمی مفہوم کسی کو معلوم نہیں۔ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مابین ایک راز ہے۔
اسی اعتبار سے بعض حضرات نے کہا کہ یہ ایک طرح سے code words ہیں۔ جیسے کسی اہم پیغام کو آگے بھیجنے (communicate) سے پہلے خفیہ رموزدیے جاتے ہیں‘تو شاید یہ الفاظ رسول اللہﷺ کو پہلے سے بتلا دیے گئے ہوں اور ان کے حوالے سے کوئی سورت نازل ہوئی ہو تو وہ حروف اس کے ساتھ سند کے درجے میں آئے ہوں۔ واللہ اعلم! بہرحال اس کی حیثیت ایک قیاس (conjecture) کے سوا کچھ نہیں۔
حروفِ مقطعات کے بارےمیں دوسری یقینی بات یہ ہے کہ حضورﷺ سے اس کے معنیٰ و مفہوم کے بارے میں مرفوعاً کوئی بات بیان نہیں ہوئی‘یعنی حضورﷺ نے خود ان کے معنی نہیں بتائے۔ اگریہ آپﷺ کی طرف سے منقول ہوتے تو ہم اس پر سر ِتسلیم خم کر تے۔ دراصل عربوں کا ایک خاص مزاج تھا جو ہم یہاں سے اخذ (infer) کر سکتے ہیں۔ اُن کا عمل کی طرف زیادہ دھیان تھا ‘زیادہ توجّہ تھی۔یعنی ان کا مزاج action oriented تھا۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضورﷺ سے اُن چیزوں کے بارے میں جن کا تعلق انسان کے عمل سے نہیں ہے‘ بہت کم سوالات کیے ہیں۔اس کی نمایاں مثال اس حدیث میں سامنے آتی ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: ((اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ)) ’’عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ رونما ہو گا۔‘‘ اب حضورﷺ نے یہ خبر دے دی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوال کیا: مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ؟(۶) ’’اےاللہ کے رسولﷺ! اس سے نکلنے کا راستہ کون سا ہو گا؟‘‘ یہیں سے فرق نمایاں ہو جاتا ہے کہ اگر ہم ہوتے تو پوچھتے وہ فتنہ کب ہو گا! کیوں ہو گا؟ کدھر سے آئے گا؟ کیسے آئے گا؟ کس صورت میں آئے گا؟ یہ سارے سوالات علمی ومعلوماتی نوعیت کے ہیں۔ حضرت علیؓ نے’’ کب‘ کیوں‘ کیسے‘ کدھر سے‘‘نہیں پوچھا‘ بلکہ وہ سوال کیا جس کا تعلق عمل سے ہے کہ اُس فتنہ سے نجات کی راہ کون سی ہو گی! اس سے نکلنے کا راستہ کیا ہو گا! اس کے جواب میں حضورﷺ نے جو ارشادات فرمائے وہ قرآن مجید کی مدح و تعریف اور عظمت کے اعتبار سے فصاحت و بلاغت کا ‘حکمت کا ‘علم و معرفت کا بہت بڑا خزانہ ہیں۔
حروفِ مقطعات کے بارے میں تیسری بات یہ ہے کہ صحابہؓ نے پوچھا نہیں کہ یہ الفاظ کیاہیں‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یقیناً یہ کوئی معروف اسلوب تھا‘ ورنہ کوئی نہ کوئی تو سوال کرتا۔ صحابہ کرامؓ آپﷺ کے احترام اور تعظیم میں سوال نہ بھی کرتے ‘کیونکہ یہ عمل سے متعلق نہیں تھا‘ لیکن معترضین تواعتراض کرتے کہ یہ کیا ! الٓمّٓ، حٰـمٓ، کٓھٰیٰعصٓ ان کے کیا معنی ہیں؟ ان کا کوئی مفہوم سمجھ نہیں آیا‘ جبکہ قرآن تو کتابِ مبین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کہ میں بالکل روشن اور واضح کتاب ہوں‘ میرے مضامین بالکل واضح ہیں۔ یہ بات ثابت ہے کہ کسی نے اعتراض یا سوال نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے ہاںیہ اسلوب معروف تھا۔شاید ان کے ہاں خطیب خطبہ دینے سے پہلے کوئی معروف حروف بول کر خطبہ شروع کرتا ہو۔ کوئی مناسبت بھی ہو سکتی ہے۔ لوگوں نے اپنے ذہن کی رسائی اور فکر کی جولانی کے اعتبار سے مناسبتیں قائم کی ہیں تو ہو سکتا ہے اس زمانے میں یہ ایک معروف اسلوب ہوتا ہو اور اسی وجہ سے کُفّار و مشرکین نے‘معاندین اور دشمنوں نے کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا۔ حالانکہ کافروں نے قرآن پر بعض اعتراضات کیے تھے۔ مثلاً یہ کیا کہ قرآن مجید میں مچھر جیسی حقیر شے کی تشبیہ دی جا رہی ہے۔کہیں مکڑی کی تشبیہ دی جارہی ہے! اس کا جواب دیا گیا کہ تشبیہ کا حسن تو اس میں ہوتاہے کہ جس چیز کے لیے تشبیہ دی جا رہی ہے اس کے ساتھ کمال مناسبت ہو۔ کسی حقیر شے کی تشبیہ دینی ہو تو وہ حقیر شے سے ہی دی جائے گی تاکہ اس کا حقیر ہونا پوری طرح سے مبرہن ہو جائے۔ بہرحال حروفِ مقطعات کے استعمال پر اور ان کے قرآن مجید میں بطور وحی شامل ہونے پر کوئی اعتراض منقول نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تینوں چیزیں تو متفق علیہ ہیں۔ باقی اس کے مفاہیم کے بارے میں جو آراء ظاہر کی گئی ہیں ان کے بیان سے پہلے ان کے بارے میں کچھ اعداد و شمار (statistics) ہیں جو کہ دلچسپی کے حامل ہیں۔ اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان اعداد و شمار کے حوالے سے ان کے معانی و مفاہیم پر کوئی روشنی پڑتی ہے‘ لیکن یہ اگر سامنے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ حروفِ مقطعات بھی ان چیزوں میں سےہوں جن کے حقائق شایدآئندہ چل کرروشن ہوجائیں۔ جیساکہ اس آیت مبارکہ(حٰم السجدۃ:۵۳) میں ارشاد ہوا :
{سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ط }
’’عنقریب ہم انہیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور ان کے اپنے نفس میں بھی‘ یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔‘‘
تو ہو سکتا ہے ان حروفِ مقطعات کے حوالے سے بھی کوئی حقیقت بعد میں ایسی سامنے آجائے جس سے قرآن مجید کی حقانیت مزید واضح اور مبرہن ہو جائے ۔ اس کاامکان موجود ہے ۔تاہم یہ امکان اسی شکل میں ہے کہ اس کے اعداد و شمار کا dataسامنے رہے تاکہ غور کرنے والے غور کرتے رہیں۔
یہ حروفِ مقطعات حروفِ ہجاء (alphabets )سے مرکب ہیں یعنی الف، با، تا، ثا..... یاء تک ۔ عربی زبان کےحروفِ ہجاء کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا ان کی تعداد ۲۸ ہے یا ۲۹ ۔یہ دونوں عدد مانے جاتے ہیں۔ (۷)
۲۸ کے اعتبار سے حروفِ ہجاء کی پوری تختی کو تین حصوںمیں تقسیم کر لیں تو درمیان میں۶ جوڑے ہیں‘جن میں سے ہر جوڑے میں ایک حرف نقطے والا اور ایک بغیر نقطے کے ہے: د ذ ، ر ز ، س ش ، ص ض ، ط ظ ، ع غ ۔ ان میں د ذ کو علیحدہ کردیں تو ’’ ر‘‘ سے ’’ غ ‘‘ تک یہ ۵ جوڑوں پر مشتمل ۱۰ حروف کی درمیانی تختی ہے۔ ان میں سے نقطے والا حرف حروفِ مقطعات میں نہیں لیا گیا‘بغیر نقطے کا لیا گیاہے۔ یعنی ’’ر‘‘ ہے ’’ز‘‘ نہیں ہے۔ اسی طرح ’’س‘‘ ہے ’’ش ‘‘نہیں ہے۔ ’’ص‘‘ ہے ’’ض‘‘ نہیں ہے۔ ’’ط‘‘ ہے ’’ظ‘‘ نہیں ہے اور’’ع‘‘ ہے ’’غ‘‘ نہیں ہے ۔یوں پانچ جوڑوں میں سے جو حروف نقطوں کے بغیر ہیں وہ حروفِ مقطعات میں شامل ہیں اورجونقطے والے ہیں وہ حروف ِمقطعات میں شامل نہیں ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ ہمیں نہیں معلوم۔ بس ایک مشاہدے (observation) کی حد تک بات بیان کر دی گئی ہے۔ اس کے حوالے سے غور کیاجائے توشاید کوئی حقیقت کھل جائے گی ۔ واللہ اعلم !
ابتداکے ۹ حروف (ا،ب،ت،ث،ج،ح،خ،د،ذ) میںسے صرف دوحرف لیے گئے ہیں : الف اورح جبکہ باقی سات حروفِ مقطعات میں شامل نہیں ہیں ۔ آخری۹ حروف (ف،ق،ک،ل،م ،ن،و،ھ،ی)میں سے سات حروفِ مقطعات میں شامل ہیں‘ دو نہیں  ہیں۔ یعنی ق، ک،ل،م،ن ، ھ، ی شامل ہیں جب کہ ’’ف‘‘ اور’’و‘‘ شامل نہیں ہیں۔ گویا حروف تہجی کے پہلے۹ میں سے ۲‘ آخری۹ میں سے ۷ اور درمیان سے ۵(جونقطے کے بغیر ہیں) حروفِ مقطعات میں شامل ہیں۔ اس طرح حروفِ تہجی کے ۲۸ حروف میں سے نصف یعنی ۱۴ حروف مقطعات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔
ایک اور مشاہدہ جس کو اتفاق (co-incidence) تو نہیں کہہ سکتے چونکہ قرآن مجید کا معاملہ ہے‘ یقیناً کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہو گی جو آنے والے وقتوں میں اللہ تعالیٰ اس کے قاریوں پر منکشف کر دیں گے کہ۱۱۴ سورتوں میں سے ۲۹ کے آغاز میں حروفِ مقطعات آئے ہیں۔
ان۱۴ حروف میں سے ۳ سورتوں میں ایک ایک حرف آیا: نٓ، قٓ اور صٓ ۔
۹سورتوں میں دو دو حروف آئے ہیں۔ ان میں سے ۶ میں  حٰمٓ ،جبکہ تین میں طٰہٰ، طٰسٓ، یٰسٓ ۔
۱۳ سورتیں وہ ہیں جن میں تین تین حروف آئے ہیں۔ الٓمّٓ:۶میں‘ الٓـرٰ:۵میں‘ طٰسٓمّٓ:۲میں۔
۲ سورتیں وہ ہیں جن میں چار چار حروف آئے ہیں: الٓمّٓصٓ،الٓمّٓرٰ ۔
۲ سورتیں وہ ہیں جن میں پانچ پانچ حروف آئے ہیں: کٓھٰیٰعٓصٓ اور حٰمٓ عٓسٓقٓ(۸) ۔
حٰمٓ دو حروف ہیں لیکن آیت شمار ہوتے ہیں‘ الٓــــــرٰ تین حروف ہیں لیکن آیت شمار نہیں ہوتے۔ یہ تمام امور توقیفی ہیں جو حضورﷺ نے بتائے ہیں۔ سورۃ الشوریٰ قرآن کریم کی واحد سورت ہے جس کی دو آیات حروفِ مقطعات پر مشتمل ہیں: حٰمٓ ایک آیت‘ عٓسٓقٓ دوسری آیت۔
حروفِ مقطعات:چندآراء
(۱) حروفِ مقطعات کےبارے میں بعض حضرات کی یہ رائے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں‘ جزوی طور پرصحیح ہے۔ سورۃ القلم کو ہم سورئہ نون بھی کہتے ہیں۔اس کا آغا ز ہوتا ہے: {نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ(۱)}’’ن‘ قسم ہے قلم کی اور جو کچھ یہ لکھتے ہیں۔‘‘
حرفِ ’’ق‘‘ سے شروع ہونےوالی سورت کو سورئہ قٓ کہتے ہیں‘ اس کا کوئی دوسرا نام نہیں ہے۔ اسی طرح یٰسٓ، طٰـہٰ اور صٓ سے شروع ہونے والی سورتوں کے نام یہی ہیں‘ ان کے کوئی دوسرے نام نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے یہ رائے کہ حروفِ مقطعات سورتوں کے نام ہیں‘ جزوی طور پر تو صحیح ہے‘ کلی طور پر صحیح نہیں۔ اس لیے کہ تمام سورتوں میں تو حروفِ مقطعات نہیں آئے۔ دوسرے یہ کہ الٓمّٓ چھ سورتوں کے شروع میں آ رہا ہے‘ توچھ سورتوں کا ایک ہی نام الٓمٓ تو نہیں ہو سکتا۔سورۃ السجدۃ کو الٓـم السجدۃ بھی کہہ دیتے ہیں حٰم السجدہ سے علیحدہ کرنے کے لیے ۔مولانا اصلاحی صاحب کو اس پر بہت اصرار ہے کہ یہ نام ہی ہیں۔انہوں نے ’’الٓمّٓ‘‘ کو مستقل جملہ قرار دیا ہے اور اس کاترجمہ یوں کیا ہے : ’’یہ الف‘ لام ‘ میم ہے‘‘۔ گویا ’’الٓمّٓ‘‘ سے پہلے مبتدأ (ھٰذا) کو محذوف مانا ہے: ھٰذَا الٓمٓ ۔یہ بات جزوی طو رپر تو صحیح ہے لیکن اس کو بطور قاعدہ کلیہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
(۲) ایک رائے مولانااصلاحی صاحب کے استاد مولانا حمید الدین فراہیؒ کی ہے جو کہ بڑی دلچسپ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ عربی زبان کے حروف عبرانی سے لیے گئے ہیں اور عبرانی کے یہ حروف اُن حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔یہ حروف چینی زبان کے حروف کی طرح معانی اور اشیاء پر بھی دلیل ہوتے تھے اور عموماً انہی کی صورت و ہیئت پر لکھے بھی جاتے تھے۔ مولانا فراہیؒ کی تحقیق کے مطابق بعض حروف کے معنیٰ اب بھی معلوم ہیں اور ان کے لکھنے کے ڈھنگ میں بھی ان کی قدیم شکل کی کچھ نہ کچھ جھلک پائی جاتی ہے۔ مثلاً ’’الف‘‘ گائے کے معنی بتاتا تھا اور گائے کے سرکی صورت ہی پر لکھا جاتا تھا۔ ’’ب‘‘ کو عبرانی میں بیت کہتے ہیں اور اس کے معنی بھی ’’بیت‘‘ (گھر) کے ہیں۔ آپ تصورکیجیے گھرکاکیانقشہ ہوتا تھا ۔جب تک انسان کو چھت ڈالنی نہیں آتی تھی تو گھر صرف چار دیواری کی شکل میں ہوتا تھا۔’’ب‘‘ دراصل representکرتا ہے بیت یعنی گھر کو۔ اسی طرح ’’ج‘‘ ایسے لکھتے تھے جیسے اونٹ کا سر اور گردن کا خم ہوتا ہے۔ عبرانی میں ’’ج‘‘ کا تلفظ جیمل ہے جبکہ عربی میں جمل اونٹ کو کہتے ہیں۔
اسی طریقے سے ’’ن‘‘ کا حرف مچھلی کے مانند لکھا جاتا تھا۔ مصور علامتی طور پر مچھلی کی تصویر کشی ایسے کرتے ہیں کہ ایک قوس نما (curved) خط ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ایک نقطہ اگر اوپر کرکے درمیان میں ڈال دیاتویہ چاندتارے کوظاہر کرے گا اور ایک طرف نقطہ ڈالا ہے تووہ نقطہ آنکھ کوظاہر کرے گا اوریہ مچھلی کی صورت بن جائے گی ۔’’نون‘‘ کا لفظ مچھلی کے معنی میں قرآن میں بھی آیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :{وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا} (الانبیاء:۸۷)’’اور مچھلی والا جب وہ حالت غصہ میں چل دیا۔‘‘مراد ہیں حضرت یونس علیہ السلام جن کو اللہ کے حکم سے مچھلی نے نگل لیاتھااور وہ مچھلی کے پیٹ میں رہے ہیں ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کے قیدی۔ پھر اللہ کے حکم سے مچھلی نے انہیں اُگلا ہے ۔ قرآن میں انہیں  صَاحِبِ الْحُوْتِ (مچھلی والے) بھی کہا گیا ہے ۔ سورۃ ’’ن‘‘ کے آخر میں فرمایا:
{فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَ لَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ  اِذْ نَادٰی وَ ہُوَ مَکْظُوْمٌ(۴۸)} (القلم)
تو (اے نبیﷺ!) آپ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا اور دیکھیے‘ آپ اُس مچھلی والے کی طرح نہ ہو جایئے گا‘ جب اُس نے پکارا (اپنے ربّ کو) اور وہ اپنے غم کو اندر ہی اندرپی رہا تھا۔‘‘
جبکہ سورت شروع ہو رہی ہے {نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ(۱)} کے الفاظ سے۔ گویا کہ مناسبت قائم ہے۔ اخیر میں  ’’ذُو النُّونِ‘‘ کا ذکر ہو رہا ہے اور حرف’’ ن‘‘ سے ہی سورت شروع ہوئی ہے ۔
اسی طرح عبرانی زبان میں حرفِ ’’ط‘‘کے معنی سانپ کے تھے اور اس کے لکھنے کی ہیئت بھی سانپ کی ہیئت سے ملتی جلتی تھی۔ حرف ’’ط‘‘ اب بھی سانپ کی مانند لکھا جاتا ہے‘ جیسے کوبرا نے پھن اٹھایا ہوا ہو تواس کے دھڑ کاحصہ اٹھا ہوا ہے‘ اُوپرپھن ہے اورنیچے کنڈلی ہے ۔تو ط ایک طریقے سے سانپ کوrepresent کرتاہے ۔اس اعتبار سے دیکھا جائے توجن سورتوں میں خاص طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات زیر ِبحث آئے ہیں ان کے شروع میں جو حروف مقطعات آئے ہیں وہ ط کے ساتھ آئے ہیں۔ سورۃ طٰہٰ کے تقریبا پانچ رکوع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات پر ہیں۔ آپؑ کا سب سے بڑا معجزہ یہی تھا کہ آپؑ کا عصا سانپ کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔اسی طرح طٰسٓ‘ طٰسٓمّٓ سے شروع ہونے والی سورتوں میں بھی اسی معجزہ کا تذکرہ ہے‘ چنانچہ اس کے اندر بھی ایک مناسبت نظر آ رہی ہے۔ وہ کہتےہیں کہ میم پانی کی لہر کوظاہر کرتی ہے۔ عام طورپرعربی زبان کی بڑی میم ایسے لکھتے ہیں کہ ایک طرف کنڈی سی ہے اوردوسری طرف اس کا بازو تقریباً افقی (horizontal)ہو جاتاہے ۔ یہ سمندر کی لہر کی مانند ہے ۔ چنانچہ وہ سورتیں کہ جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے سمندر کے پھٹ جانے کا تذکرہ پایا جاتا ہے اُن سورتوں کے شروع میں حرف میم آیا ہے : الٓمّٓ،طسٓمّٓ۔یہ بھی ایک درجے میں دلچسپی کی بات ہے۔ بعض حروفِ مقطعات میںسورت کے مضمون کے ساتھ ایک مناسبت کسی درجے میں یقیناً نظر آرہی ہے‘البتہ اس کی حیثیت ایک نظریہ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بنیاد پر مضامین قرآن کی وضاحت نہیں کی جا سکتی اور ا س سے کوئی قاعدہ کلیہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
(۳) اس ضمن میں ایک بات مزید عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حال ہی میں ۱۹ کے عدد کے حوالے سے ایک شخص ڈاکٹر رشاد خلیفہ کے نظریہ کو بہت شہرت ملی ہے۔ یہ شخص امریکہ میں ہوتاتھا‘اورمرتد ہوکرفوت ہواہے ۔ اس کی زندگی میں لوگوں کو دھوکا ہوا اور اسے مسلمان سمجھتے رہے جب کہ وہ شخص بہائی تھا۔ اس نے ۱۹کے ہندسے کو قرآن کے سائنسی ثبوت کے طور پر پیش کیا کہ قرآن مجیدکا ایک ریاضیاتی (Mathematical) نظام ہے اور کمپیوٹر نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اس طرح کی چیزیں عام مسلمانوں کی دلچسپی کی ہوتی ہیں‘ لہٰذا اس کی بات جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی۔ نیک دل لوگوںنے اس کی یہ ’’تحقیق‘‘ چھپوا چھپوا کر تقسیم کی۔ حالانکہ قرآن مجید کی حقانیت کے لیے اس طرح کے ثبوت کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں۔ چونکہ رشاد خلیفہ کی بات ایک اعتبار سے جزوی طور پر صحیح ہے‘ لہٰذا اس کا تذکرہ کررہا ہوں ۔
اس کا کہنا ہے کہ جو حروفِ مقطعات کسی سورت کے شروع میں آئے ہیں وہ حروف اس سورت میں ۱۹ کےحاصل ضرب ( multiple)کی شکل میں آئے ہیں۔ یہ قرآن کا ایک ریاضیاتی سسٹم ہے۔ اس کی بدبختی یہ ہوئی کہ اس نے اس اصول کو ایسا قطعی قرار دے دیا کہ جہاں یہ منطبق نہیں ہوا ‘اس نے کہا کہ درحقیقت قرآن کی یہ سورت ہی غلط ہے‘ اس میں ان دو آیتوں کا اضافہ بعد میں کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی غیر محفوظیت کی بات کر نے کے بعد اس نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا‘ پھر کسی شخص نے اس کو قتل کر دیا۔یہ رشاد خلیفہ کاحشر ہوچکا ہے ۔ اُس نے’’ریاضیاتی سسٹم‘‘ کی آڑ میں قرآن مجید پر شدید حملہ کیاتھا۔ پہلے ۱۹کے عدد کے حوالے سے سستی شہرت حاصل کی‘ پھر اپنی نبوت کی دکان چمکائی اور قرآن مجید کے غیر محفوظ ہونے کا دعویٰ لے کر کھڑا ہو گیا۔ بہرحال وہ تو دنیاوی لحاظ سے کیفرکردار تک پہنچ چکا ہے۔آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ جو بھی معاملہ کرے‘تاہم علمی طور پر اس کی بات جزوی طورپر صحیح ہے ۔خاص طور پر سورئہ  قٓکے حوالےسے ‘ جوشروع ہوتی ہے: {قٓ قف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ (۱)} سے۔اس سورت میں حرف ق ۵۷ مرتبہ آیا ہے۔ بہت سے حضرات نے تحقیق کر کے ثابت کیا ہے کہ اس نے جھوٹ بھی بولاہے ‘ غلط اعداد وشمار بھی دیے ہیں ۔تاہم سورئہ ق کے معاملے میں مجھے اس کی بات کافی وزنی نظرا ٓئی کہ اس سورت میں لفظ ق ۵۷مرتبہ آیاہے اور ایک جگہ پر ’’قوم لوط‘‘ کی بجائے ’’اِخْوَانُ لُوْطٍ‘‘ کا لفظ آیاہے جبکہ پورے قرآن میں جہاں بھی حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر آیا کہیں بھی ’’اخوان لوط‘‘نہیں آیا ‘قوم لوط ہی آیاہے۔ سورۃ قٓ میں اگر ’’اخوان لوط‘‘ کی جگہ ’’قوم لوط‘‘ آ جاتا تو حرف ق ۵۸ مرتبہ ہو جاتا اوریہ ۱۹ کا حاصل ضرب نہ رہتا۔ اس اعتبار سے یہ بات بعض مقامات پر جزوی حقیقت ہو سکتی ہے۔
اس نے بعض جگہوں پر قرآن مجید سے استشہاد بھی کیا تھا۔۱۹ کے عدد کے حوالے سے اُس نے سورۃ المدثر کی اس آیت کو بنیاد بنایاتھا: {عَلَیْہَا تِسْعَۃَ عَشَرَ(۳۰) } یعنی جہنم پر جو نگران فرشتے ہیں‘پہرے دار ہیں وہ ۱۹ کی تعداد میں ہیں۔ اس نے کہا کہ ۱۹ کا ہندسہ قرآن مجید کے الفاظ کی بھی حفاظت کررہا ہے۔اس اعتبار سے اس نے آیت بسم اللہ سے بات شروع کی کہ اس کے ۱۹ حروف ہیں۔حالانکہ اس کی یہ پہلی بات ہی غلط ہے۔ آیت بسم اللہ کے حروف ۱۹ نہیں بنتے‘ لہٰذا میں نے اس کی بات کوزیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ آج کی دنیا کی ایک بہت معروف شخصیت شیخ احمد دیدات (۱۹۱۸ء ۔۲۰۰۵ء)ہیں جو عیسائیت کی تردید میں کامیاب مناظرے کر چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابیاں دی ہیں اور وہ دُنیا بالخصوص عالم اسلام میں بہت مشہور ہوئے ہیں ۔ وہ بھی رشاد خلیفہ سے بہت زیادہ متاثر ہو گئے تھےاور انہوں نے اُس کے اس خیال کو بہت پھیلایا ہے۔بعد میں شیخ احمد دیدات نے رجوع کیا ‘ توبہ کی اور اس شخص سے اعلانِ لاتعلقی کیا۔ میں نے بہرحال یہ تو سمجھا تھا کہ یہ بھی کوئی جزوی حقیقت ہے جس کے کہیں چل کر ڈانڈے مل جائیں گے‘ باقی اس سے زیادہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔
(۴) حروفِ مقطعات کے بارے میں آخری بات مَیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کے حوالے سے کہنا چاہ رہا ہوں‘ اگرچہ اُسے بھی اُمّت میں قبول حاصل نہیں ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں حِبرالامۃحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کاعلم تفسیرمیں بڑا اونچا مقام ہے۔ حضورِ اقدسﷺ نے ان کے لیے خاص دعا فرمائی تھی: ((اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمہُ التَّأْوِیْلِ))(۹)’’اے اللہ! اس (نوجوان) کو دین کا فہم عطا فرما اور قرآن کی تاویل کا علم عطا فرما۔‘‘ اکثر تفسیری روایات حضرت ابن عباسؓ ہی سے چلتی ہیں۔ ان کے اہم اور مشہور شاگردوں میں عکرمہ‘ مجاہد‘ قتادہ‘ عطاء بن ابی رباح‘ سعید بن جبیر اور حسن بصری (رحمہم اللہ ) شامل ہیں۔ ابن عباسؓ سے ایک رائے منقول ہے کہ حروفِ مقطعات جملوں کی مخفف صورت ہیں۔ مثلاً الٓــــمّٓ سے مراد ہے ’’اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ‘‘(میں اللہ ہی سب کچھ جاننے والا ہوں)۔گویا پہلے لفظ ’’اَنَا‘‘ کا پہلا حرف الف (حالانکہ یہاں ہمزہ ہے ‘ الف نہیں)‘ دوسرے لفظ ’’اللہ‘‘ کا درمیانی حرف لام‘ اورتیسرے لفظ ’’اَعْلَمُ‘‘ کا آخری حرف میم مل کر ’’الٓمّٓ‘‘ بنتے ہیں۔ اسی طرح الٓـــرٰ سے مراد ہے ’’ اَنَا اللّٰہ اَرٰی‘‘ ۔یہ ان کا اپنا ایک خیال ہے جس کو ہمارے مفسرین نے قبول نہیں کیا۔ اگر تو یہ حضورﷺ سے منقول ہوتا تو سر ِتسلیم خم تھالیکن یہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا ذاتی خیال ہے‘ لہٰذا مفسرین نے علمی دلچسپی کے انداز میں اس کا صرف ذکر کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُمّت کے اندر یہ ایک اچھا رجحان ہے کہ جہاں تک حضورﷺ کا فرمان ہے اس پر چون و چرا نہ ہو‘جب ثابت ہوجائے کہ حضورﷺ نے فرمایا۔ باقی جس کا بھی قول ہو اُسے دلیل سے قبول کریں یا دلیل نہ ہونے کی صورت میں ردّ کر دیں۔
آیت ۲: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ        ٻ فِيْهِ    ڔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (۲) 

سورۃ البقرۃ کی دوسری آیت میں ’’معانقہ‘‘ ہے۔ قرآن مجید کے بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں کسی ایک لفظ یا ایک ترکیب یا ایک ٹکڑے سے پہلے تین نقطے (    ڔ ) بنے ہوتے ہیں اور اس کے بعد بھی تین نقطے (    ڔ ) ہوتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس حصے کو دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے۔ آیت کے سابق حصے سے ملا کر پڑھیے تب بھی صحیح ہے‘ اور جو اُس کے بعد میں آنے والا حصہ ہے اس کے ساتھ ملا کر پڑھیے تب بھی صحیح ہے۔ چنانچہ اس آیت کو دو طرح سے پڑھ سکتے ہیں:
(۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔‘‘
یعنی خدا ترس لوگوں کے لیے‘ ان لوگوں کے لیے جو نافرمانی سے بچنا چاہیں۔
(۲) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
’’یہ وہ کتاب ہے ۔ بلاشک و شبہ اس میں ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔‘‘
فِیْہِ سےقبل بھی اور فِیْہِ کے بعد بھی یہ جو نقطےلگے ہوئے ہیں یہ معانقہ کی علامت ہیں۔
اس آیہ مبارکہ میں کچھ نحوی اشکالات ہیں‘ اگرچہ ترجمہ اور معانی و مفہوم کے ضمن میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ معانقہ کی وجہ سے وقف کے اعتبار سے جو دو امکانات پیدا ہوئے‘ ترجمے میں اس سے یہ فرق واقع ہو جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس آیت مبارکہ میں قرآن حکیم کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اہل ِنحو کے نزدیک ’’ھٰذَا‘‘ اشارئہ قریب کے لیے آتا ہے اور ’’ذٰلِکَ‘‘ اشارئہ بعید کے لیے۔قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو مصحف ہمارے سامنے ہوتا ہے اور ذٰلِکَ کہا جاتا ہے۔سامنے رکھی ہوئی کتاب کوپڑھتے ہوئے جب ہم ’’ذٰلِکَ‘‘ (اشارئہ بعید) کا لفظ پڑھتے ہیں تو ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کو سمجھ لیں کہ اشارئہ بعید اور قریب کے استعمالات اور اس سے معنی اور بیان کے فرق کے بارے میں جو مختلف آراء وجود میں آتی ہیں اُن میں یہ بھی ہے کہ اگر کسی شے کا تذکرہ دورانِ گفتگو پہلے کیا جا چکا ہو یا کوئی شے ایسی ہو کہ جس کا ذہن میں تصور موجود ہو تو اس کی طرف اشارہ ’’ذٰلِکَ‘‘ سے کریں گے۔ دوسرے یہ کہ بسا اوقات کسی چیز کی تعظیم کے لیے بھی اشارہ قریب کو مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ’’یہ‘‘ میں تعظیم کا پہلو نہیں جبکہ ’’وہ‘‘ میں تعظیم کا پہلو ہے۔ یہ دونوں مفہوم سامنے رہیں تو یہاں ذٰلِکَ کا استعمال بہت مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اسم اشارہ’’وہ‘‘ تعظیم کے مفہوم میں ہمارے ہاں بھی استعمال ہوتا ہے۔’’ایں‘‘ کے مقابلے میں ’’آں‘‘ اشارئہ بعید ہے۔ ایں: یہ ‘ ھٰذَا‘ اشارہ قریب ہے۔ آں: وہ‘ ذٰلِک‘ اشارہ بعید ہے۔ ہماری قدیم ادبی (literary) زبان میں جب خطوط لکھے جاتے تھے تو مخاطب کو ’’آں محترم‘‘ لکھتے تھے۔ یوں نہیں لکھتے تھے کہ ’’میں آپ سے یہ گزارش کرتا ہوں‘‘ بلکہ ’’آں محترم سے‘ آنجناب سے یہ گزارش ہے۔‘‘تو یہ الفاظ بھی درحقیقت اُسی تعظیم کے مفہوم میں آتے ہیں جس مفہوم میں یہاں ذٰلِکَ کا لفظ آیا ہے۔
فرمایا: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ ’’ یہ وہ کتاب ہے۔‘‘یہاں اَلْکِتٰبُ پر الف لام لگا ہوا ہے‘ اس سے یہ معرفہ بن گیا۔ ’’ال‘‘ کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ یا تو وہ لامِ استغراق ہوتا ہے یعنی تمام چیزوں کا احاطہ کرنے والا ‘ یا لامِ جنس۔ لیکن یہ وہ نہیں ہے۔ یہ لامِ عہد ہے۔ گویا کسی کتاب کا تصور ذہن میں موجود ہے۔ اس اعتبار سے بجاطور پر یہ ترجمہ کیا جاتا ہے کہ ’’یہ وہ کتاب ہے‘‘ یا ’’یہ کتابِ موعود ہے۔‘‘ (موعود:وعدہ کیا گیا‘ وہ شے جس کا اقرار کیا گیا ہے۔) ’’یہ وہ کتاب ہے۔‘‘ اس میں اشارہ ہو جائےگا کہ جس کی تم نے درخواست کی ‘ تم نے جو سوال کیا یہ اُس سوال کا جواب ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کا ذکر پہلی آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ تورات کی ’’کتاب استثناء‘‘ میں اس کے بارے میں پیشین گوئی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’میں اُن (یعنی بنی اسرائیل)کے لیے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا۔‘‘
بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسماعیل ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے یہ قریش کی نسل ہے‘جن میں حضورﷺ کی بعثت ہوئی‘ جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے (حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے) حضرت یعقوب علیہ السلام سے آپ کی نسل کی جو دوسری شاخ چلی وہ بنی اسرائیل کہلاتے ہیں۔
مذکورہ بالا پیشین گوئی درحقیقت قرآن مجید کے بارے میں ہے۔ تو گویا یہاں اشارہ ہو رہا ہے: ذٰلِکَ الْکِتٰبُ ’’ یہ وہ کتاب ہے۔‘‘ یہ کتابِ موعود ہے ‘یا یہ وہ کتابِ ہدایت ہے جس کی تم نے درخواست کی : اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ تو ’’ال ‘‘کے اضافے سے یہ اضافی معنی پیدا ہو گئے۔
{لَا رَیْبَ فِیْہِ}’’اس میں کوئی شک نہیں‘‘۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ کے دو مفہوم لیے گئے ہیں۔ ایک تو اس کتاب میں کوئی شک نہیں ‘یعنی اس قرآن میں کوئی بات ایسی نہیں کہ جو شک و شبہ کے قابل ہو۔ یہ کتاب کُل کی کُل یقینی ہے ‘یقینی امور پر مشتمل ہے۔ یہ دعویٰ بہت بڑا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی کتاب ایسی ہو جس کا آغاز اس دعوے کے ساتھ ہو رہا ہو۔ یہ تو دنیا نے مانا ہے اور اس پہلو سے کوئی شک نہیں کیا جا سکتا کہ یہ وہی کتاب ہے کہ جو محمد ِ عربیﷺ نے اپنی اُمّت کو عطا کی۔ جو لوگ قرآن کریم کو اللہ کا کلام نہیں مانتے وہ بھی یہ مانتے ہیںکہ اس کا متن(text) بالکل خالص (pure)ہے‘اس میں کہیں تحریف نہیں ہوئی‘ کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بعینہٖ اور بجنسہٖ یہ وہی کتاب ہے جومحمد رسول اللہﷺ نے اپنی اُمّت کو عطا کی تھی۔ جو لوگ نبی اکرمﷺ کی نبوت کو نہیں مانتے وہ بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ کتاب محفوظ ہے۔ اس اعتبار سے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہی کتاب ہے جو حضورﷺ نے اپنی اُمّت کو عطا کی۔ ہمارا تو اس پر ایمان اور یقین ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جو اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ نے اپنے بندے محمدﷺ پر نازل فرمائی اور آپﷺ نے اُمّت کو عطا کی۔
اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس کے کتاب اللّٰہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بعض مفسرین نےتو اس پر تفصیل سے کلام کیا ہےکہ یہی زیادہ موزوں ہے۔ لَا رَیْبَ فِیْہِ ’’اس میں کوئی شے قابلِ شک نہیں۔‘‘ اس میں جو امور بیان ہوئے ہیں وہ سب یقینی ہیں۔ اس میں جو خبریں دی گئی ہیں وہ سب یقینی ہیں۔ اس میں جو پیشین گوئیاں ہیں وہ سب یقینی ہیں۔ اس میں جو حقائق بیان ہوئے ہیں وہ سب یقینی ہیں۔ اس میں جو اوامر و نواہی (جن امور کا حکم دیا گیا اور جن سے منع کیا گیا) ہیں وہ بھی عقل محکم کی بنیاد پر ہیں‘ پختہ ہیں‘ محکم ہیں‘ یقینی ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ کہ یہ کتاب اللہ ہے‘ اس کے کتاب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اس طرح سے یہ گویا ایک ہی بیان(statement) بن جائےگا۔ {ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ}’’یہ وہ کتاب ہے جس کے کتابِ موعود ہونے میں کوئی شک نہیں۔‘‘ یا ’’یہ وہ کتاب ہے جس کے کتابِ الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔‘‘
اس آیت کی ترکیب نحوی پر غور کریں۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ {ذٰلِکَ الْکِتٰبُ} میں ذٰلِکَ مبتدأہے ‘ الْکِتٰب خبر اوّل‘ لَا رَیْبَ فِیْہِ اس کی خبر دوم اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس کی خبر سوم ہے۔ گویا تین خبریں ہیں اور مبتدأ صرف ذٰلِکَ ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ ’’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ‘‘ اشارہ مشار الیہ مل کر مبتدأ ہے اور باقی لَا رَیْبَ فِیْہِ خبراوّل‘ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ خبر دوم ہے۔ ایک اور رائے بھی ہے کہ اس سے پہلے مبتدأ محذوف ہے: (ھٰذا) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ ’’یہ ہے وہ کتاب‘‘ اور اس کے بعد بدل کے طور پر یا صفت کے طور پر لَا رَیْبَ فِیْہِ آیا ہے۔ یہ ہے وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں۔ اس کے کتابِ الٰہی ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
{ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ}’’یہ (قرآن) ہدایت (رہنمائی) ہے متقین کے لیے۔‘‘ سورۃ الفاتحہ میں ہدایت کی درخواست کرتے ہوئے الفاظ آ چکےہیں: {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo}’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔‘‘ سورۃ الفاتحہ کے ضمن میں تفصیلاً عرض کیا جا چکا ہے کہ ایک سلیم العقل اور سلیم الفطرت انسان ایمان کے بنیادی حقائق تک تو خود پہنچ جاتا ہے‘ البتہ اُس میں یقین کی گہرائی کی ضرورت ہوتی ہے جو انبیاء اور رسولوں کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس خاکے میں تفصیلات کا رنگ انبیاء ورسل علیہم السلام کی تعلیمات ہی کے ذریعے سے بھرا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر جو ایمان کے حقائق ہیں‘ یعنی اللہ کی توحید کہ وہ خالق و مالک ہے‘ تنہا ہے‘ تمام صفاتِ کمال اُس کی ذات میں بہ تمام و کمال موجود ہیں‘ وہ حمید ہے‘ غنی ہے‘سبوح ہے‘ قدوس ہے ‘اوریہ کہ انسانی اعمال ضائع ہونے والی چیز نہیں ہیں‘ مکافاتِ عمل ‘مجازات کا ظہور ہو کر رہے گا۔یہ حضرت لقمانؑ کے نصائح میں بھی بیان ہوئے۔ گویا یہ چیزیں تو وہ ہیں کہ ایک سلیم العقل اور سلیم الفطرت انسان بغیر وحی و رسالت کے بھی یہاں تک پہنچ جاتا ہے‘البتہ اس سے آگے وہ محتاج ہے۔
وہ محسوس کرتا ہے کہ مجھے تفصیلی ہدایت کی ضرورت ہے۔ زندگی میں ہر ہر قدم پر جو دو راہے چوراہے آتے ہیں ان میں کہیں غلط موڑ نہ مڑ جائوں اوروہ کیفیت نہ ہوجائے کہ ع ’’یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ راہم دورشد ‘‘(یا یوں کہہ لیں : ع ’’لمحوں نے خطا کی تھی‘ صدیوں نے سزا پائی !‘‘) انسان ذرا سا غلط موڑ مڑ جائے تو اس کی گمراہی بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ عملی طور پر زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں کدھر جائوں‘ کدھر نہ جائوں‘ کیا کروں ‘کیا نہ کروں! خاص طور پر اجتماعیاتِ انسانیہ میں توازن کیسے پیدا کیا جائے؟ فرد اور اجتماعیت کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن کیا ہو؟ مرد و عورت کے حقوق کے درمیان اعتدال وتوازن کی شکل کیا ہو؟ عدل بھی ہو‘ انصاف بھی ہو‘ اعتدال بھی ہو‘ توازن بھی ہو۔ اسی طرح سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن ‘ اعتدال اور عدل کیسے ہو؟ یہاں انسان احتیاج اور ضرورت محسوس کرتا ہے اور اس کے لیے وہ درخواست کرتا ہے: {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} تو درحقیقت اسی کے لیے قرآن نازل ہوا۔ اس دعا کا جواب ہے جو یہاں سے شروع ہو رہا ہے:
{الٓـمّٓ (۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲)} ’’الف ‘ لام‘ میم۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے۔‘‘
متقی شخص کون ہے؟ جس کے اندر اخلاقی حس موجود ہو۔ انسان کی فطرت کی صحت کی علامت جذبۂ شکر اور اور جذبۂ رحم ہے۔ یہ رحم اور شکر درحقیقت ایک ہی جذبے کے دو رُخ ہیں۔ اگر کسی نے آپ کے ساتھ بھلائی کی تو آپ کے اندر جذبۂ تشکر‘جذبۂ شکر اُبھرنا چاہیے۔ اگر کسی کو آپ تکلیف اور احتیاج میں مبتلا دیکھتے ہیں تو آپ کے اندر جذبۂ رحم پیدا ہونا چاہیے۔ یہ دونوں درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ اگر فطرتِ انسانی اپنی صحت اور سلامتی پر برقرار ہے تو اس کیفیت کا پیدا ہونا لازم ہے۔ انسان کی صحت ِفطرت کی دوسری علامت اور اس کا ثبوت اورمظہر یہ ہے کہ انسان میں نیکی اور بدی کی تمیز موجود ہو۔ گویا کہ اس کی اخلاقی حس بیدار ہو ۔نیکی کی طرف رغبت پائی جائے اور بدی سے ایک گونہ نفرت ہو۔ اگر کسی وقت حالات سے متاثرو مغلوب یا مجبور ہو کر کوئی غلط کام بھی کر بیٹھے تب بھی اُس کو یہ احساس رہےکہ یہ کام غلط ہے جو میں کر رہا ہوںاور یہ میں نے اچھا نہیں کیا۔ گویا کہ ضمیر مردہ نہ ہو گیاہو ‘ضمیر زندہ ہو۔یہی کیفیت ہے جو تقویٰ کا نقطۂ آغازہے۔
(ـجاری ہے)
حواشی
(۶) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی فضل القرآن‘ ح ۳۰۸۲‘ امام الترمذی اور علامہ البانی نے حدیث کو ضعیف کہا ہے۔
(۷) اس اعتبار سے الف ایک حرف ہے۔اگر ہمزہ کو بھی علیحدہ حرف مان لیا جائے تو ۲۹ بن جائیں گے۔ اگر ہمزہ کو شمار نہ کیا جائے تو ۲۸ رہ جائیں گے۔دراصل الف پر اگر زبر ‘زیر‘ پیش یا جزم آ جائے تو اب یہ ہمزہ ہے۔ اگر کسی حرکت کے بغیر ہے تو الف ہے۔ الف‘ وائو اور یا حروفِ مدّہ کہلاتے ہیں۔ یہ حروفِ علت بھی ہیں۔ اگر الف سے پہلے کوئی حرف مفتوح ہے (اُس پر زبر آ رہا ہے) تو اسے دو زبر کے برابر کھینچا جائے گا۔ اسی طرح کا معاملہ وائو ماقبل ضمہ(پیش) اور یا ماقبل کسرہ (زیر ) کا بھی ہے ۔لامِ تعریف(ال) کے اندر بھی الف کو شمار نہیں کرتے اور اسے ہمزئہ وصل کہتے ہیں۔
(۸) ایک دوسری فہرست بھی نوٹ فرما لیں:
الٓمّٓ :  سورۃ البقرۃ، آل عمران، العنکبوت، الروم، لقمان، السجدۃ
الٓمّٓصٓ :  سورۃ الاعراف
الٓر :  سورۃ یونس، ھود، یوسف، ابراھیم، الحجر
الٓمّٓر :  سورۃ الرعد کٓھٰیٰعٓصٓ :  سورۃ مریم طٰہٰ :  سورۃ طٰہٰ
طٰسٓمّٓ :  سورۃ الشعراء، القصص 
(حاشیہ از شبیر احمد نورانی)
(۹) معجم صغیر للطبرانی، کتاب العلم، ح۸۰۔ واخرجہ البخاری فی صحیحہ (۱۴۳) ومسلم فی صحیحہ (۲۴۷۷)