(مطالباتِ دین) تکبیر ِ ربّ کا حقیقی مفہوم - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

تکبیر ِ ربّ کا حقیقی مفہوم
سورۃ المدثر کی آیات۱ تا ۳ کی روشنی میں
ڈاکٹر اسرار احمدؒ

سورۃ المدثر میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں :
{ یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ(۲) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) }

پہلی دو آیات کا ترجمہ ہے:
’’ اے لحاف میں لپٹنے والے( یا کپڑے میں لپٹنے والےﷺ!)کھڑے ہوجاؤ‘ پس خبردار کرو!‘‘
نیند کے ماتوں کو جگائو‘ بیدار کرو۔ یہ جو مدہوش ہیں انہیں فکر ہی نہیں ہے‘ ان کو خبردار کردو کہ ان کی آخری منزل کون سی ہے ‘اصل زندگی کون سی ہے۔
اب تیسری آیت پر توجّہ کیجیے: { وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) }’’اور اپنے رب کی تکبیر یا بڑائی کرو!‘‘میں نے یہاں پرجو ’’بڑائی کرو‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ بہت سے تراجم کے اندر الحمدللہ یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے‘تاہم اس کے صحیح صحیح مفہوم کو ادا کرنے میں بڑی کوتاہی ہوئی ہے۔ اس کابھی ایک تاریخی پس منظر ہے۔تکبیر کے دراصل تین مراحل ہیں۔ تفاسیر میں عام طور پر صرف پہلے یا دوسرے مرحلے تک بات ا ٓکر ختم ہو جاتی ہے جبکہ تیسرا مرحلہ ذہن سے نکلا ہوا ہے۔ یہ مرحلہ آج مجھے آپ کے سامنے تفصیل سے رکھنا ہے۔
تکبیر کا معنی و مفہوم
تکبیر کے لفظی معنی کیا ہیں ؟یہ بابِ تفعیل کا مصدر ہے۔ اس وزن پر جو الفاظ آتے ہیں‘ ان کے حوالے سے اس لفظ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ تکبیر کے معنی ہیں کسی شے کو بڑا کرنا یا بڑا بنانا۔ عربی کا مقولہ ہے:’’تُعۡرَفُ الۡاَشۡیَاءُ بِاَضۡدَادِھَا‘‘ یعنی انسان اگر مخالف چیز کو سمجھ لے تو پھر اصل شے بھی سمجھ میں آ جاتی ہے ۔چنانچہ تکبیر کی ضد ہے تصغیر اور تصغیر کے معنی ہیں کسی چیز کو چھوٹا کرنا یا چھوٹا بنانا۔ جیسے کتاب سے کتابچہ اسم تصغیر ہے ۔ تکبیر کے معنی بڑا کرنا یا بڑا بنانا ہے ۔اسی طرح تسہیل ہے۔ بچپن میں ’’تسہیل الاملاء‘‘ایک کاپی ہوتی تھی جس میں نقطوں کی صورت میں الفاظ لکھے ہوتے تھے۔ ان کے اوپر قلم پھیر کر لکھنا سیکھتے تھے۔ یہ تسہیل الاملاء ہے ‘یعنی املاء کو آسان بنانا۔ پھر باب تفعیل کا ایک خاصہ ہے تدریج یعنی تھوڑا تھوڑا کر کے کسی کام کو آگے بڑھانا‘ایک دم نہیں ہو جانا۔ اس کے لیے پیہم‘ مسلسل ‘ درجہ بدرجہ کوشش ‘ محنت لازم ہے۔ جیسے ایک ہےانزال اور ایک ہے تنزیل۔ انزال کے معنی ہیں دفعتاً کسی شے کو اُتار دینا‘جب کہ تنزیل کے معنی ہیں تھوڑا تھوڑا کر کے ا تارنا۔ چنانچہ سورۃ النساء کی آیۂ مبارکہ بہت اہم آیات میں سے ہےجس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایمان کے بالکل علیحدہ علیحدہ دو درجے ہیں۔ اس ایک ہی آیت میں یہ دونوں الفاظ آ گئے ہیں:
{ یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط } (آیت۱۳۶)
’’اے اہل ِایمان ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول (ﷺ)پر اور اس کتاب پر بھی جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہے (بصورت تنزیل) اور اس کتاب پر بھی جو اس نے پہلے نازل کی تھی (بصورت انزال)۔‘‘
تورات دفعتاًحضرت موسیٰ علیہ السلام کو دے دی گئی جو الواح پر لکھی ہوئی تھی ۔ کوہِ طور پر وہ الواح آپـؑ کے حوالے کر دی گئیں‘ پوری کی پوری کتاب آپؑ کو مل گئی۔ چنانچہ وہاں  ’’انزال‘‘ ہے۔ حضور ﷺپر قرآن مجید ۲۲ برس میں( قمری حساب سے ۲۳ برس میں) رفتہ رفتہ ‘ درجہ بدرجہ ‘تدریجا ً‘ تھوڑا تھوڑا کر کے نجماً نجماً نازل ہوا۔ یہ تنزیل ہے۔ اسی طریقے سے اعلام اور تعلیم ہے۔ اعلام سے مرادکسی کو کوئی بات بتا دینا‘ خبردار کر دینا ہے بس۔ اس کے بعد اس نے سمجھا یا نہیں سمجھا‘ اس سے آپ کو غرض نہیں۔ اس کے برعکس تعلیم یہ ہے کہ کسی کو اچھی طرح بات سمجھانا‘ اس کے دماغ میں اچھی طرح اتارنا ‘جائزہ لینا سمجھا کہ نہیں!پچھلا سمجھا ہوا سبق سننا اور پھر آگے سبق دینا ‘درجہ بدرجہ ۔جو فرق اعلام اور تعلیم میں ہے‘ جو انزال اور تنزیل میں ہے‘ یہ خاصّہ ہے باب تفعیل کا۔اب سمجھیے کہ {وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) } کے معنی ہوں گے ’’اپنے ربّ کو بڑا کرو!‘‘اور بہت بڑا کرو ‘اور بہت بڑا کرو۔ یہ مسلسل کرنا ہے ۔
اسی طرح ایک لفظ ہے توحید ‘ یہ بھی باب ِ تفعیل سے ہے ۔ ہم نے اسےبس ایک لفظ کی حیثیت سے سمجھا ہوا ہے‘ وہ ایک اصطلاح بن گئی ہے لیکن ایک خطبے میں یہ الفاظ آئے ہیں:’’یَـااَیُّھَا النَّاسُ وَحِّدُوا اللّٰہَ فَاِنَّ التَّوۡحِیۡدَ رَأْسُ الطَّاعَات‘‘ ۔’’ وَحِّدُوا‘‘ فعل امر کے صیغے میں آیا ہےتاکہ توحید کا ادراک‘ اس کا شعور ذہن کے اندر مسلسل اُترتا جائے۔ اس کا صحیح صحیح ادراک ہو جائے ۔ پھر اس کا اعلان بھی کیا جائے‘ اس کے عملی تقاضوں کو بھی پورا کیا جائے۔’’توحید ِعملی‘‘کے نام سے میری ایک پوری کتاب ہے۔سورۃ الزمر ‘ سورۃ المؤمن ‘ سورۃ حٰم السجدہ اور سورۃ الشوریٰ میں توحید ِ عملی زیر ِ بحث آئی ہے ۔توحید عقیدے کی حد تک تو یہ ہے کہ مان لیا اللہ ایک ہے ‘ اس کی صفات میں کوئی اس کا برابر نہیں‘ کوئی ساجھی نہیں‘ لَا مِثْلَ لَہُ، لَا مِثَالَ لَہُ ، لَا مَثِیْلَ لَہُ، لَا ضِدَّ لَہٗ وَ لَا نِدَّ لَہُ، وَ لَا کُفْوَ لَہُ۔ ساری بات کہہ دی ‘الفاظ کہہ دیے‘ اب اس یقین کو دل کے اندر واقعتاً بٹھانا ہے۔ اپنے شعور میں ‘اپنے قلب کی گہرائیوں میں بھی اس یقین کو بٹھانا ہے۔ پھر اگلا مرحلہ آتا ہے کہ عملاً اُسی ایک اللہ کا بندہ بن جانا۔جب اُس کو مانا ہے تو اب کوئی عمل اُس کی مرضی کےخلاف نہیں ہونا چاہیے۔ اُس کی منشا کے خلاف اَعضاء و جوارح میں کوئی حرکت پیدا نہ ہو ۔قدم اس راستے پر چلنے کے لیے نہ اٹھے کہ جس پر چلنے سے اُس نے روک دیاہے۔ زبان نہ کھلے وہ لفظ نکالنے کے لیے کہ جس کا نکلنا اُس کو پسند نہیں۔ یہ توحید ِعملی ہوئی۔ ایک ہی رب کی اطاعت و بندگی میں اپنے پورے وجود کو ‘اپنی پوری شخصیت کو دے دینا۔ اسی کی پھر آخری منزل ہے کہ ایک ہی رب کا نظام قائم ہو جائے۔ یہ اجتماعی سطح پر توحید ِعملی ہوگی۔
بیسیویں صدی میں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایک توفیق دی تھی کہ ہمارے ہاں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پاس ہوگئی‘ اگرچہ ابھی تک اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔ ہو سکتا ہے کچھ عرصہ بعد میں کوئی بات اچھی نکل ہی آئے۔ ہمیں امید تو اچھی رکھنی چاہیے۔ع ’’پیوستہ رہ شجر سے اُمید ِبہار رکھ!‘‘جب ہمارے ہاں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پاس ہوئی تو یہ کسی معجزے سے کم بات نہیں تھی کہ بیسویں صدی کے وسط میں ایک قوم نے یہ اقرار کیا کہ ہمارا معبود اور ہمارا حاکم اللہ ہے۔ حاکمیت (Sovereignty) اللہ کی ہے۔ ہمیں جو بھی اختیار حاصل ہے وہ ہمارا ذاتی نہیں بلکہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ہم اسے اللہ کی معیّن کردہ حدود ہی کے اندر استعمال کریں گے۔ یہ بہت بڑی بات تھی ۔اگر اس کا عملی تقاضا پورا کردیا جائے کہ پورا اجتماعی نظام واقعتاً اللہ ربّ العزت کے دین کے تابع ہو جائے تویہ توحید ِعملی ہے۔
تکبیر ِربّ کے تین مرحلے
اب اسی پر ’’تکبیر‘‘ کو قیاس کیجیے ۔ اس کے بھی تین مرحلے ہوں گے ۔ پہلے تو شعور اور ادراک میں ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے ۔اللّٰہُ اکبر!انسان کو اس کا پختہ یقین حاصل ہو۔ اپنے اندر اللہ ربّ العزت کی عظمت کا نقش واقعتاً قائم ہو گیا ہو۔ یہ نہیں کہ بس صرف زبان سے ایک زور دار آواز نکال کر ’’نعرئہ تکبیر :اللہ اکبر‘‘ کہہ دیا‘ بلکہ یہ کہ اس کا گہرا شعور ہو کہ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔تمام اسباب اُس کے تابع ہیں۔ کوئی پتّا بھی اُس کی مرضی کے بغیر جنبش نہیں کرسکتا۔ پوری کائنات کے تخت ِحکومت پر وہ متمکن ہے۔ اس کی بادشاہی پوری کائنات پر عملاً قائم ہے۔یہ تو صرف عالم ِانسانیت ہے یا جِنّات کی دنیا ہے جہاں کچھ فساد اور سرکشی ہے‘ ورنہ پوری کائنات جس کی پہنائیوں کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ‘ وہ تو سب {وَلَــہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَـیْہِ یُرْجَعُوْنَ(۸۳)} (آلِ عمران) کی بنیاد پر قائم ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے تو ہر شے سر بسجود ہے اور اُسی کے حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ جو بھی آسمانوں میں اور زمین میں ہیں‘ خواہ اپنی مرضی اور پسند سے خواہ مجبوری سے ‘اُس کی اطاعت کر رہے ہیں۔ اُس کی حکومت پوری کائنات پر پھیلی ہوئی ہے۔اللہ تعالیٰ کی عظمت کایہ نقش قائم ہو۔ اللہ کی کبریائی کا ہمیں اپنے قلب کی گہرائیوں کے اندر واقعتاً ادراک اور شعور ہو۔ یہ پہلا مرحلہ ہے۔ اس کی کوشش کرنی پڑے گی ۔اس کے لیے اپنے ذہن ‘ اپنے شعور کی تربیت کرنی ہوگی ۔ اس کا اقرار ‘ اعلان اور اعتراف تکبیر ظاہر ’’اللہ اکبر‘‘کی صورت میں پہلا قدم ہوا۔ یہ تکبیر ِباطنی ہے ۔
تکبیر ِرب کا دوسرا مرحلہ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان و اعتراف ہے۔ ہمارے ذہن میں تکبیر کا صرف یہی مرحلہ بیٹھا ہوا ہے کہ ’’اللہ اکبر‘‘کہنا ‘اسے بار بار کہنا۔اللہ کی کبریائی کا اظہار کرنا۔میں ان چیزوں کی نفی نہیں کرتا ۔ان کا فائدہ ہے ۔اپنی جگہ پر یہ بھی ذکر کی ایک شکل ہے ۔جو وقت اس میں لگتا ہے یقیناً اس کا اجر و ثواب انسان کو ملے گا۔ پھر یہ کہ کچھ نہ کچھ شعور کے اندر بھی یہ بات اُترتی ہے ۔اگر انسان ذرا سا بھی سوچ سمجھ کر یہ الفاظ کہہ رہا ہو تو یہی چیز اسے اپنے باطن کے اندر تکبیر کے معانی کو اُتارنے میں مدد دے گی۔ اگر یہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا صرف زبان کی نوک ہی پر رہ جائے‘ نہ تو یہ اندر کی تکبیر ہو جو خود اپنے شعور ‘ ادراک اور احساس کے اندر اُتر جاتی ہے اور نہ تیسرا مرحلہ پیش نظر ہو تو پھر یوں سمجھیے کہ ذہن سے بالکل ہی نکل گیا کہ تکبیر کے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ کے دین کو قائم کرو ‘ اللہ کے دین کو غالب کرو ۔’’لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ الْعُلْيَا‘‘ تاکہ اللہ کا کلمہ ہی سب سے بلند ہوجائے۔ اللہ کے حکم کے سامنے کسی کی گردن اکڑی نہ رہ جائے ۔اللہ کی مرضی کے سامنے کوئی اور اپنی مرضی چلانے والا نہ رہے۔اگر یہ نہیں ہے تو پھر تکبیر عملاً تو نہیں ہو رہی۔ یہ تو صرف قولی تکبیر ہے‘ صرف عقیدے کی تکبیر ہے۔ عمل میں‘ حقیقت میں‘ واقعات کی دنیا میں تو کسی اور کا سکہ چل رہا ہے‘کسی اور کی مرضی کے مطابق نظام چل رہا ہے ۔گویا لوگوں نے کہا کہ ہم خود اپنے معاملات کے مالک ہیں اور جو چاہیں گے‘ قانون بنائیں گے ۔ قانون سازی کا اختیار ہمارے ہاتھ میں ہے ‘ حاکمیت ہماری ہے۔ اللہ کے مدّ مقابل لوگ کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ فساد ہے‘ یہ بغاوت ہے۔ فرض کیجیے کوئی فرد ِواحد بیٹھا ہوا ہے اور ’’کوسِ لمن الملک‘‘بجا رہاہے کہ میرے ہاتھ میں اختیار ہے ‘ مَیں جو چاہوں فیصلہ کروں‘ جیسے فرعون نے کہا تھا :
{وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ قَالَ یٰـــقَوْمِ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ج اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(۵۱)} (الزخرف)
’’اور فرعون اپنی قوم میں پکارا کہ اے میری قوم !کیا مصر کی سلطنتمیرے لیے نہیں اور یہ نہریں میرے نیچے بہتی ہیں‘ تو کیا تم دیکھتے نہیں!‘‘
کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟کیا آب پاشی کا یہ سارا نظام میرے کنٹرول میں نہیں ہے؟ جس کو چاہوں پانی دوں ‘جس کو چاہوں نہ دو ں۔یہ سارا اختیار میرے ہاتھ میں ہے ‘ لہٰذا میرا حکم چلے گا ۔چنانچہ ایک فرد کی حاکمیت سے جمہور کی حاکمیت تک ‘یہ سب درحقیقت اللہ کے نِدّ ‘اللہ کے ضد‘ اللہ کے مدّ ِمقابل ‘اللہ کو چیلنج کرنے والے بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ‘اور اگر بالفعل انہی کا سکہ رواں ہے تو اللہ بڑا کہاں ہے! اللہ تو شاید صرف مسجد کی چار دیواری میں بڑا ہےبلکہ وہاں بھی اکثر و بیشتر اللہ کی بڑائی نہیں ہوتی۔چودھریوںکی بڑائی ہوتی ہے‘بے چارے امام کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ جو منتظمین ہیں اور جو تنخواہیں دیتے ہیں ‘ان کا سکہ چل رہا ہوتا ہے ۔
ایک ہے اللہ کی کبریائی کا ادراک اور شعور ۔ یہ احساسات میں‘ ذہن میں‘ شعور میں‘ سوچ کے اندر پیوست ہو چکی ہو۔اللہ کی عظمت‘ اس کی کبریائی کا نقش قائم ہو چکا ہو۔ نمبر دو‘ اس کا اعلان ہے۔زبان سے کہنا ہے۔ اس کی تکرار بھی ہے ‘اس کا نعرہ بھی ہے‘ اس کو بلند آواز سے بھی کہنا ہے اور خاموشی سے بیٹھ کر اس کی مالا جپنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔اس کا بھی فائدہ ہے لیکن اصل شے ہے’’عملی تکبیر‘‘یعنی اس تکبیریا اس کبریائی کی تنفیذ اور اس کی تعمیر۔ وہ نظام برپا کیا جائے جس میں واقعتاً اللہ ’’اکبر‘‘ہو جائے ۔اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔اُس کی بات کےسامنے کسی کی بات‘ اُس کی مرضی کے سامنے کسی کی مرضی ‘اُس کے حکم کے سامنے کسی کا حکم‘ اُس کی منشا و مشیت کے سامنے کسی اور کی خواہش پر ِکاہ کے برابر وقعت نہ رکھتی ہو۔ جب تک یہ بات نہیں ہوتی ‘تکبیر کہاں ہوئی! یوں سمجھیے کہ درحقیقت ان تین آیات میں حضور ﷺ کی سیرت کا پورا خلاصہ ہے۔ اے محمدﷺ !اب اس غور و فکر کے دَور سے نکلیے ‘ سوچ بچار کے مرحلے کو ختم کیجیے‘ کھڑے ہو جائیے۔کھڑے ہو نے کے بعد کام کیا کرنا ہوگا ؟
دعوت کی اساس اور ہدف
اب دعوت دینی ہے ۔ دعوت کی اساس اور بنیادی بات کیا ہو گی؟انذارِآخرت: {قُمْ فَاَنْذِرْ(۲)}۔ سفر میں پہلا قدم رکھ دیا ہے تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہدف کیا ہے ! جانا کہاں ہے؟منزل کیا ہے؟ ایک تو وہ آخرت کی منزل ہے ‘ لیکن اس دنیا میں آپ کا مشن کیا ہے! فرضِ منصبی کیا ہے؟ آپ کو کہاں تک جانا ہے؟مجھے مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور مولانا حمید الدین فراہی (رحمہما اللہ) کی اس رائے کے ساتھ پورا اتفاق ہے‘ میری رائے پہلے سے بھی تھی اور جب ان حضرات کی رائے بھی علم میں آئی تو میں نے اس کا بھی حوالہ دیا ہے کہ سورۃ المزمل میں جوالفاظ آئے تھے: {اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵)} ’’عنقریب ہم آپ پر (اے محمدﷺ!) بہت بھاری بات ڈالنے والے ہیں ‘‘ اس کا مصداق یہی (سورۃ المدثر کی ابتدائی) آیات ہیں اور ان میں اصل مصداق یہ آیت نمبر تین ہے۔ اس لیے کہ محض زبانی کلامی دعوت کو لوگ برداشت بھی کر لیتے ہیں کہ چلیے ٹھیک ہے کہتے رہیں جو کہتے ہیں‘ اگر انہیں یہ معلوم ہو He doesn’t mean it۔ اگر وہ یہ سمجھیں کہ وعظ کہنے آیا تھا ‘وعظ کہہ کر چلا گیا‘ہمیں کچھ کڑوی کسیلی بھی سنا گیا‘ کوئی بات نہیں۔ البتہ اگر یہ معلوم ہو کہ وہ ڈنکے کی چوٹ کھڑا ہو جائے گا کہ جو بات میں نے کہی ہے I mean it‘ میں اسے نافذ کرواؤں گا تو معاملہ اور ہو گا۔میں عدل اور انصاف کا علم بردار بن کر آیا ہوں۔ مجھے حکم ہوا ہے ۔جیسے سورۃ الشوریٰ میں آیا : {وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط’’اور(کہہ دیجیے کہ )مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے مابین عدل قائم کروں۔‘‘میں صرف واعظ بن کر نہیں آیا:{ اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲)}(الشوریٰ)’’ مواخذہ تو اُنہی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں۔ اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ اصل میں ساری ملامت تو ان لوگوں کے لیے ہے جو لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں ‘لوگوں پر ظلم کرتے ہیں‘ ناانصافیاں کرتے ہیں اور خود زمین کے اندر ناحق سرکشی اختیار کرتے ہیں ۔بڑائی کا حق تو صرف اللہ کا ہے۔ کبریائی صرف اُس کے لیے‘ حاکمیت صرف اُس کے لیے ہے ۔ ؎
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی‘ باقی بتانِ آزری!
جو بھی مدّ ِمقابل بن کر آیا وہ گویا کہ اللہ کو چیلنج کر رہا ہے۔بالفاظ ِدیگر اللہ کی حاکمیت کی نفی کررہا ہے۔ لہٰذا اب اس کام کے لیے رسولﷺ کو کھڑا کیا گیا ہے کہ آپؐ کو ان سب کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا ہو گی۔ ان سب نے لوگوں کی گردنوں پر اپنی اپنی کبریائی کے‘اپنی اپنی خدائیوں کے جوئے رکھے ہوئے ہیں۔ان سب سے نوعِ انسانی کو آزاد کرانا ہے اور اللہ کی بندگی پر لانا ہے۔ توحید ِرب عملی اعتبار سے بلند ترین اجتماعی سطح پر بھی نافذ کرنا آپﷺ کا فرضِ منصبی ہے۔ ا س سے وہ مشن معیّن ہوا۔
قرآن مجید کا ایک خاص اسلوب ہے جس کو سورۂ ہود کے آغازمیں یوں بیان کیا گیا ہے:
{الٓرٰقف کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ(۱)}
’’الف‘ لام‘ را ‘ یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات (پہلے) بڑی محکم کی گئیں ‘پھر ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے اُس ہستی کی طرف سے جو حکیم اور خبیر ہے۔‘‘
پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے احکام کو خوب مضبوط اور پختہ کیا گیا ۔پھر اس کی تفصیل بھی اُسی ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب سے ہوئی ۔چنانچہ ابتدا میں تو گویا دریا کوزے میں بند کیا گیا ہے۔ ایک ایک لفظ کے اندر حقائق اورمعارف ہیں۔ یہی چیزیں بعد میں جا کر کھلی ہیں۔ چنانچہ یہی ’’تکبیر ربّ‘‘ بعد میں ان اصطلاحات کے حوالے سے آئی:{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ}’’دین کو قائم کرو۔‘‘یہی چیز تین مرتبہ مدنی سورتوں میں آئی:{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت ِکاملہ اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔‘‘ان الفاظ کے بعد سورۃ التوبۃ اور سورۃ الصف میں {وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo } کے الفاظ ہیں‘ یعنی چاہے مشرک کتنا ہی بُرا مانیں‘ جبکہ سورۃ الفتح میں فرمایا: { وَکَفٰی بِاللہِ شَہِیْدًا(۲۸)} ’’اور اللہ کافی ہے بطور گواہ۔‘‘ باقی آیت ہر جگہ یکساں الفاظ کے ساتھ آئی ہے ‘ایک شوشے کا فرق نہیں ہے۔ یہ ہے در حقیقت ہدف ۔بتا دیا گیا کہ جانا کہاں ہے! یہ ہے آخری منزل۔آپ ﷺکی جدّوجُہد میں اصل بو جھل کام یہی ہے ‘ اصل ثقیل کام یہی ہے ۔ جھوٹے خداؤں کی خدائی کا انکار کرنا‘ جنہوں نے اپنی محکومی کے جوئے رکھے ہوئے ہیں لوگوں کی گردنوں پر‘ ان کو اس سے نجات دلانا۔جیسے کہ فاتح ایران سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا ان کے کسی ایلچی کا وہ مشہورجملہ تاریخ کے اندر آیا ہے کہ ہمیں تو بھیجا گیا ہے‘ ہم مشن پر ہیں‘ اللہ نے بھیجا اپنے رسول کو اور رسول ﷺنے بھیجا ہمیں۔ مشن یہ ہے کہ لوگوں کوگمراہی کے اندھیروں سے نکالنا ہے ۔ انہیں ہدایت‘ ایمان اور معرفت کی روشنی کی طرف لانا ہے۔لوگوں کو بادشاہوں کے ظلم و ستم سے نکال کر اسلام کے عدل و انصاف کے نظام سے روشناس کرنا ہے۔ گویا کہ { قُمْ فَاَنْذِرْ(۲) } میں حضور ﷺ کی نبوت اور رسالت کے مشن کا نقطۂ آغاز معیّن ہوا ہےجبکہ{ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) } میں اس کی منزل کی طرف اشارہ ہے کہ آپﷺ کی جدّوجُہد کا ہدف کیا ہے!
عام دُنیاوی اعتبار سے بھی ذرا عمومی انداز سے اس بات کو سمجھ لیجیے۔ ہر تحریک کے معاملہ میں دو چیزیں ضروری ہیں ۔ ایک ‘یہ تعین ہو کہ شروع کہاں سے کرنا ہے۔ اگر غلط سمت میں قدم اٹھا لیا تو گویا آئندہ کے مرحلہ کا سارا کام غلط ہوجائے گا۔ غلطی بڑھتی چلی جائے گی چونکہ سمت ہی غلط معیّن ہوئی ہے۔ دوسرا ‘یہ معلوم ہو کہ ہدف کیا ہے! وہ نہ ہو کہ جو علامہ اقبال نے کہا ہے : ع ’’آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف!‘‘ اگر ہدف صحیح معیّن نہیں ہوا‘ تب بھی منزلِ مقصود تک پہنچنے کا کوئی امکان نہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ہی جگہ پر دائرے میں گھومتے رہیں اور یہ سمجھیں کہ ہماری حرکت تو جاری و ساری ہے لیکن پیش قدمی تو ہوگی ہی نہیں کیونکہ ہدف ہی معیّن نہیں ہے۔ ایک ہی جگہ پر کھڑے ہوئے اچھل کود کر رہے ہیں ۔ پسینہ بھی آ رہا ہے‘ تھک بھی رہے ہیں‘لیکن ایک انچ بھی سفر آگے طے ہی نہیں کیا۔لہٰذا ہدف کا بھی تعین صحیح ہونا چاہیے اور اس کے لیے نگہ بلند ‘سخن دل نواز‘ جاں پُر سوز کی صفات پیدا ہونی چاہئیں۔ بلند ترین ہدف نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہوں تواس کا بھی شعور ہو لیکن یہ نہ ہو کہ کہیں کسی بھی درمیانی مرحلے کو یہ قرار دے لیں کہ بس منزل پر پہنچ گئے۔ اس سے تو آئندہ کی پوری تحریک بالکل غیر مؤثر ہو کر رہ جائے گی۔
ہدف معیّن رہنا چاہیے لیکن یہ بھی معلوم ہو کہ تحریک شروع کہاں سے ہوگی۔کسی نے جمہوریت کا نعرہ لگا دیا‘ یا کہیں سوشل ازم کا نعرہ لگا‘ یاکہیں کسی اور نے نعرہ لگایا اور اگر ہم نے دیکھا کہ وہ نعرے چل گئے‘ جیسے’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘کا نعرہ چل گیا تھا تو ع ’’ آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی!‘‘ہو سکتا ہے کہ ہمارا بھی کام بن جائے ۔ایک نعرے سے ایک شخص نے پوری قوم کے اندر بجلی بھر دی تھی تو ہم بھی ویسا ہی کوئی نعرہ استعمال کر لیں۔ کوئی جذباتی نعرہ سوائے اس انذارِ آخرت کے اگر اختیار کیا گیا تو وہ دعوت علیٰ منہاج النبوۃ نہیں ہو گی ۔ اصل شے یہی ہے کہ آخرت کا یقین گویا کہ ایمان ‘ایمان کی جدّوجُہد۔ اسی سے پھر وہ ہدف معیّن ہوگا۔آخرت کی بازپرس کا احساس پیدا ہوگا ۔
محاسبہ ٔ اُخروی کا احساس
خاص طور پر مسلمانوں میں ایک اور کام کرنا بہت ضروری ہےکہ محاسبہ ٔ اُخروی کا حقیقی احساس پیدا کیا جائے۔ درحقیقت انکارِ آخرت کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ کوئی آخرت ہےہی نہیں:{اِنْ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ (۳۷)}﴿ (المؤمنون) ’’زندگی تو صرف ہماری دنیا کی زندگی ہے‘ ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم اٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔‘‘ کوئی آخرت نہیں ‘ دوبارہ پیدا ہونا ممکن ہی نہیں‘ مٹی ہو کر مٹی میں مل جائیں گے‘ بس یہی خاتمہ ہے۔عہد ِرسالت میں کچھ لوگ ایسے موجود تھے جن کا قول قرآن مجید میں ایک سے زائد جگہ پر نقل ہوا کہ کوئی بعث بعد الموت نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ بعث بعد الموت تو برحق ہے لیکن ہمارے کوئی سفارشی بیٹھے ہوئے ہیں جو ہمیں بچا لیں گے۔ معلوم ہوا کہ آخرت کے عقیدے کا عمل پر جو اثر ہوسکتا تھا وہ ختم ہو گیا۔
اس کے علاوہ آخرت کے انکار کے کچھ اور بھی انداز ہیں۔ مثلاً اس دنیا میں بعض لوگوں کو اللہ نے دولت دی یا حیثیت دی ‘ وجاہت دی‘ تو انہوں نے اسی کو دلیل بنا لیا کہ ہم اللہ کے بہت لاڈلے اور پیارے ہیں‘ لہٰذا ہم سے تو کوئی محاسبہ وغیرہ نہیں ہوگا۔یا یہ کہ ہم تو فلاں کا دامن پکڑے ہوئے ہیں‘ ان کے ساتھ نکل ہی جائیں گے۔ یا کسی شخصیت کی اولاد یا اس سے متعلق ہونے کی بنا پر ہمارا محاسبہ نہیں ہو گا۔ یہودی کہتے تھے کہ ہم ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ‘ہم تو اللہ کے بیٹوں کی مانند ہیں ‘اس کے بڑے چہیتے اور لاڈلے ہیں: {وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓـــؤُا اللہِ وَ اَحِبَّـــآؤُہٗ ط} (المائدۃ:۱۸) ’’اور کہا یہودیوں اور عیسائیوں نے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اُس کے پیارے ہیں۔‘‘ہمیں تو اگر اُس نے جہنم میں ڈالا بھی تو گنتی کے چند دن {وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃًط} (البقرۃ:۸۰) ’’اور انہوں نے کہا کہ ہمیں ہرگز آگ نہ چھوئے گی مگر گنتی کے چند دن۔‘‘ اوریہ بھی دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کہ لوگ اعتراض نہ کر سکیں کہ یہ کیا نا انصافی ہو رہی ہے ‘اس لیے ہمیں اگر وہ جہنم میں جھونک بھی دے تو فوراً نکال لے گا۔ سب سے انوکھا انداز یہ ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے ‘بڑا نکتہ نواز ہے۔ گویا جہنم کی یہ ساری خبریں اور دھمکیاں تو صرف شاعری ہے یا لفاظی ہے ۔معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ! لوگ چاہے یہ الفاظ نہ کہیں لیکن سب سے لطیف انداز یہی ہے۔ سورۃ الانفطار کا تو مرکزی مضمون ہی یہی ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ(۶) الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰىکَ فَعَدَلَکَ(۷) فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ (۸) کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ(۹)}
’’اے آدمی! تجھے کس چیز نے فریب دیا اپنے کرم والے رب سے۔جس نے تجھے پیدا کیا‘ پھر ٹھیک بنایا ‘پھر ہموار فرمایا ‘جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دیا۔ کوئی نہیں بلکہ تم انصاف ہونے کو جھٹلاتے ہو۔‘‘
درحقیقت اس پردے میں کہ اللہ بڑا غفور ہے‘ بڑا رحیم ہے‘ تم جزاو سزا کا انکار کر رہے ہو۔جزا اور سزا کا انکار صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی بعث ِ بعد الموت نہیں ‘کوئی حساب کتاب نہیں۔ انکارِ آخرت کی درجہ بدرجہ بہت سی چھپی ہوئی شکلیں ہیں‘ مخفی صورتیں ہیں جن میں محاسبہ ٔ اُخروی کے فکر کو انسان اپنے ذہن سے نکال کر دور رکھ دیتا ہے۔ بس عقیدے کی ایک پوٹلی رہ جاتی ہے کہ ہاں آخرت ہے لیکن اس کی کوئی فکر دامن گیر نہیں ہو سکتی۔ ان تمام چیزوں کا رد کر کے ہی کہیں جا کر لوگوں کے اندر مسؤلیت کا احساس پیدا ہوگا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی:
{وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی (۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی(۴۱) }(النّازعات)
’’اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرااور نفس کو خواہش سے روکا‘تو بے شک جنّت ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔‘‘
جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو تو یوں سمجھیے کہ دعوت سیدھے رخ پر نہیں ہے۔ بائی پاس کیا گیا ہے یا کسی اور حوالے سےکسی اور چیز کو اپیل کر کے لوگوں کو جمع کر لیا ہے ۔ دنیا میں تو سارے دھندے چل رہے ہیں۔ آخر کمیونسٹ انقلاب بھی آتے ہیں ‘سیاسی انقلابات بھی آجاتے ہیں‘ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اس طرح کی کوئی تبدیلی آپ بھی لے آئیں گے لیکن وہ ویسی تبدیلی نہیں ہوگی جو رسولوں کے ذریعے سے آئی ہو ۔وہ تبدیلی نہیں ہوگی جو محمد رسول اللہ ﷺکے ذریعے سے آئی‘ اس لیے کہ اس کے لیے نقطۂ آغاز ہے انذار۔
اصل ہدف : تکبیر ِعملی
اسی کے بالکل ہم وزن ایک دوسرا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ شروع تو یہاں سے کردیا لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ منزل کیا ہے تو محض ایک تبلیغی انداز‘ اصلاحی انداز‘ واعظوں کا ساانداز ہے۔ وعظ ہی کہتے پھر رہے ہیں ۔بس اسی میں محنت ہو رہی ہے‘ صلاحیت لگ رہی ہے‘ وقت لگ رہا ہے‘ اطمینان ہو رہا ہے ۔یہ وہی دائرے میں گھومنے والی بات ہے۔جب تک کہ یہ معیّن نہ ہو جائے جو تیسری آیت نے تعین کر دیا کہ جانا کہاں ہے: {وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) } وہ ربّ کی کبریائی کہ جس کو علامہ اقبال نے انتہائی خوب صورتی سے اردو اشعار میں بیان کیا ہے۔ ؎
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات!
بس زبان سے ’’سبحان اللہ‘‘ ‘ ’’سبحان اللہ‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کی تسبیح کرتے رہو ۔خاک کے آغوش میں یہ جو تسبیح و مناجات ہیں‘اس کا تقابل ہے : ’’یا وسعت ِافلاک میں تکبیر مسلسل!‘‘ ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ اس ارادے اور شعور کے ساتھ ‘اس احساس کے ساتھ ‘یہ ہدف معیّن کرتے ہوئے کہ یہ صرف تکبیر قولی نہیں بلکہ عملی طور پر تکبیرکرنی ہے۔ ہمیں اللہ کو واقعتاً بڑا بنانا ہے ‘بایں معنی کہ ہر جگہ پر‘ زندگی کے ہر گوشے میں اس کی بڑائی نافذ ہو ‘اس کی بڑائی مانی جائے۔ پورے اجتماعی نظام کو اس کے تابع لایا جائے۔ اس کے لیے جدّوجُہد ہے۔ ظاہر بات ہے کہ پھر جو بڑے بنے ہوئے ہیں‘ ان کی بڑائی کا انکار کیا جائے گا اور وہ لوگ جو بڑائی کا دعویٰ کر رہے ہیں یعنی {یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط} (الشوریٰ:۴۲) وہ تو کبھی ٹھنڈے پیٹوں اس تحریک کو برداشت نہیں کریں گے۔ ان کے مفادات ‘ان کی سیادتیں‘ ان کی چودھراہٹیں ‘ان کی مسندیں ‘ان کا اقتدار‘ ان کی قوت ‘ان کی مراعات جو انہیں ملی ہوئی ہیں ان سب کو چیلنج کرنا پڑے گا۔ تب جا کر کہیں{رَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳)} کے حکم پر عمل ہو گا۔ لہٰذا اصل میں {اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵)} ’’ہم تو آپؐ پر عنقریب ایک بہت بھاری بات ڈالنے والے ہیں‘‘ کا مصداق ہیں یہ تینوں آیات: ﴿ { یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ(۲) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) }لیکن میرے نزدیک سب سے بڑھ کر تیسری آیت اس کا مصداق ہے ۔اس میں درحقیقت وہ ہدف مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺکے دست ِمبارک سے اس تکمیلی مرحلے تک پہنچایا ہے‘ جس میں یقیناً اللہ کی مدد بھی شامل حال رہی ہے۔ البتہ اللہ کی مدد کا اپنا ایک نظام ہے‘اس کی اپنی شرائط ہیں ۔ انسان اپنا سب کچھ لا کر میدان میں ڈال دے ‘ اپنا وقت‘ اپنی صلاحیتیں‘ اپنی قوتیں ‘اپنا پیسہ‘ تب اللہ کی مدد آتی ہے۔اگر اپنے آپ کو بچا بچا کر رکھنا ہو اور دعا کرنا ہو ‘تو لاکھ گڑگڑا لیں ‘اللہ تعالیٰ کی مدد نہیں آئے گی۔ {اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ} (محمد:۷) ’’ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ تم اپنا سب کچھ لا کر جھونک دو ‘ ڈال دو ‘ لگا دو پھر اللہ سے مدد مانگو تو مدد آتی ہے۔ جب تک انسان خود کمر نہ کس لے اور اس کے لیے شرائط پوری نہ کر لے تب تک اللہ کی مدد نہیں آتی۔ قرآن مجید میں بھی نقشے کھینچے گئے ہیں کہ جب رسول اور ان کے ساتھیوں پر تکالیف آتی تھیں تو وہ اللہ تعالیٰ  کو پکارتے تھے :
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّـثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَـبْلِکُمْ ط مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْبٌ(۲۱۴)} (البقرۃ)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنّت میں داخل ہوجائوگے حالانکہ ابھی تک تمہارے اوپر وہ حالات و واقعات وارد نہیں ہوئے جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔ پہنچی اُن کو سختی بھوک کی اور تکلیف اور وہ ہلا مارےگئے‘ یہاں تک کہ (وقت کا) رسول اور اُس کے ساتھی اہل ایمان پکار اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟(اب انہیں یہ خوشخبری دی گئی کہ) آگاہ ہو جائو‘یقیناً اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
ان پر تکالیف آئیں‘ مصیبتیں آئیں۔ طرح طرح کی تکالیف کو انہوں نے جھیلا۔وہ ہلا مارے گئے ‘ یہاں تک کہ وقت کے رسول اور ان کے ساتھی اہل ایمان پکار اُٹھےکہ اللہ کی مدد کب آئے گی! تب انہیں مژدہ سنایا گیا کہ اللہ کی مدد آیا چاہتی ہے:{ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْبٌ(۲۱۴)}
اصل ہدف سے صرفِ نظر کیوں؟
’’تکبیر ربّ‘‘ کا تیسرا مرحلہ نگاہوں سے اوجھل کیوں رہا؟ تفاسیر میں اس تیسری بات کا ذکر نہیں ملتا ‘حالانکہ میرے نزدیک بیسویں صدی کے اندر ایسی تحریکیں اُٹھی ہیں جنہوں نے بالفعل اس تصور کو اجاگر کر دیا ہے۔البتہ قرآن مجید میں اس تصور کے لیے جو مختلف اصطلاحات ہیں ‘ابھی تک ان سب کی اس طرف نگاہ نہیں گئی ہے۔ کسی کے سامنے وہ آیت تو آگئی :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}
اس کا مفہوم تو واضح ہو گیا کہ اللہ نے اپنے رسول (ﷺ)کو الہدیٰ اور دین حق دے کر بھیجا ہی اس لیے ہے تاکہ غالب کردے اسے کُل کے کُل نظام زندگی پر ۔اسی طرح کچھ لوگوں کے سامنے مزید بڑھ کر وہ بات بھی واضح ہو گئی کہ{اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ} کا مطلب ہے اللہ کے دین کو اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ قائم کیا جائے ۔تاہم‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس تصور کو سمجھنے کی ابھی تک ضرورت ہے کہ اس کی جو جڑبنیاد ہے ‘وہ آیۂ مبارکہ ذہن سے کیوں اوجھل ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ یہ چیزیں منکشف ہو رہی ہیں‘ اس لیے کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ جب کوئی چیز سامنے ہی نہ رہے تو وہ ذہن سے بھی اوجھل ہو جائے گی۔
ہوا یہ ہے کہ اللہ کی سیاسی کبریائی یا حکومت اور ریاست کی سطح پر کبریائی ہمارے ہاں بہت جلدختم ہوگئی۔ خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت شروع ہو گئی‘ جاگیرداریاں شروع ہو گئیں ۔ محل بن گئے اور شان وشوکت آگئی ۔شرو ع میں تو پھر بھی غنیمت تھی ۔ بنواُمیہ کے دور میں تو ابھی وہ شان وشوکت والی باتیں نہیں تھیں۔ابھی محل نہیں بنے تھے‘ ان کی وہ بدویانہ سادگی سلامت تھی لیکن جیسے جیسے بنو عباس کا دور آیا تو بڑے بڑے عالی شان محل بن گئے۔ پھر جہاں تک بنو اُمیہ کی اس شاخ کا تعلق ہے جو سپین میں گئے‘ انہوں نے بھی بڑے بڑے محل بنائے‘ الحمرا بنایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی بڑائی کا یہ تصور ذہن سے اوجھل ہوگیا اور دوسری بڑائیاں بالفعل سامنے ا ٓگئیں ۔ان بڑائیوں کے خلاف ابتدا میں کوششیں بھی ہوئیں ۔حضرت حسین‘حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم ‘ حضرت زید رحمہ اللہ‘ حضرت نفس زکیہ رحمہ اللہ نے کوششیں کی جو ناکام ہوگئیں۔ البتہ اس کے بعد سے ذہناً سمجھوتہ کر لیا گیاکہ اب یہ معاملہ جیسے چل رہا ہے ‘ چلتا رہے۔کم از کم لوگوں کے اخلاق تو درست کرو ‘لوگوں کو دین کی صحیح تعلیم تو دے دو ‘لوگوں کے عقائد صحیح رکھو‘ لوگوں کے اندر آخرت کی طرف رجحان تو باقی رہے‘ لوگوں کے دل میں اللہ کی محبت تو ہو۔ چنانچہ ہمارے جتنے بھی مخلصین تھے‘ اتقیاء ‘صلحاء ‘ صوفیاء‘ اولیاء اللہ انہوں نے اس کبریائی کی چھت کے نیچے نیچے تو سارا کام جاری رکھا ‘لیکن عصبیت ِقبائلی ‘عصبیت ِقومی جیسی کوئی نہ کوئی عصبیت بالاتر رہی ہے۔ سیاسی نظام ‘ حکمرانی کا نظام اس کے بل پر قائم رہا ۔ لہٰذا یہ چیزیں رفتہ رفتہ ذہن سے اوجھل ہو گئیں کہ اللہ کی کبریائی کا جو مقامِ مقصود ہے ‘جو ہم سے مطلوب ہے ‘وہ تو یہ ہے کہ اللہ کی اس کبریائی ‘اس تکبیر کے لیے تن من دھن لگا دیں ۔ ع
زِ نوری سجدہ می خواہی‘زِ خاکی بیش ازاں خواہی!’’ تو فرشتوں سے تو صرف سجدوں کی تمنا رکھتا ہے‘ لیکن خاکی انسان سے سجدے کے علاوہ جان لٹانے کی طلب بھی رکھتا ہے۔‘‘
اس خاکی انسان سے اللہ تعالیٰ نہ معلوم کیا کچھ چاہتا ہے!گردنیں کٹواؤ میری بادشاہی قائم کرنے کے لیے ‘اپنے تن من دھن لگا دو میری حکومت برقرار رکھنے کے لیے ‘یا اگر اس کو ہٹا دیا گیا ہے تو اس کواز سر ِنوا ستوار کرنے کے لیے۔ شہنشاہیت کی اصل بساط تو درحقیقت بنوعباس کےدَور میں بچھی ‘ اس لیے کہ ان کی پشت پر اصل قوت ایرانیوں کی تھی اور ایرانیوں کا تو شروع ہی سے مزاج شہنشاہیت والا ہے ۔ ان کا ایک خاص مزاج نسلاً بعد نسلٍ بن چکا تھا ۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک حدیث ہے جس میں وہ یہ فرماتے ہیں:
حَفِظْتُ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِﷺ وِعَائَیْنِ، فَاَمَّا اَحَدُھُمَا فَبَثَثْتُہُ، وَاَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُہُ قُطِعَ ھٰذَا الْبُلْعُوْمُ (ح:۱۲۰)
’’میں نے رسول اللہﷺ سے (علم کے) دو برتن یاد کر لیے ہیں‘ ایک کو تو میںنے پھیلا دیا ہے‘ اور دوسرا برتن اگر میں پھیلائوں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے گا۔‘‘
یعنی مجھے رسول اللہﷺ سے علم کے دو برتن ملے۔ایک برتن سے میں تم لوگوں تک علم پہنچا رہا ہوں ‘ تمہاری علمی تشنگی کی سَیری اور سَیرابی کا اہتمام کر رہا ہوں ۔البتہ اگر میں دوسرے برتن کا منہ بھی کھول دوں تو میری گردن مار دی جائے گی۔ بعض لوگوں نے اس حدیث کو تصوف کی طرف پھیر دیا‘ حالانکہ اس سے مراد یہی تھا کہ دین کا ایک پہلو تو وہ ہے کہ جو انفرادی زندگی ہے۔ نماز پڑھو ‘روزہ رکھو ‘تکبیر ہے‘ تسبیح و تحمید ہے ‘طہارت کے مسائل ہیں ‘زکوٰۃ کے قوانین ہیں۔ یہ تووہ کام ہیں جو انسان کو کرناہی ہیں اور اس کے کرنے میں کوئی مانع نہیں ہوتا ‘کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بدترین حکومت بھی کبھی اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتی ۔غیروں کی حکومتیں آئی ہیں تو انہوں نے بھی ان پر قد غنیں نہیں لگائیں ۔ انگریز یہاں ۲۰۰ برس حکمرانی کر گیا‘ اس نے کبھی ان چیزوں میں رکاوٹ نہیں ڈالی ۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں یا سکھاگردی کے دور میں مساجد کی بے حرمتی ضرور ہوئی ہے۔ یہ ہماری بادشاہی مسجد اصطبل بنی رہی ہے۔ انہوں نے اس درجے گری ہوئی حرکتیں بھی کی ہیں کہ مسجدوں کی سیڑھیوں پر قرآن مجید رکھے جاتے تھے اور ان کے اوپر خالصہ پاؤ ں رکھ کر جاتا تھا۔ وہ ایک بدترین دَور تھا‘یوں سمجھیے کہ ایک عذاب تھا جو اس علاقے کے اوپر آیا ۔اسی لیے ’’سکھاگردی‘‘اور’’ سکھا شاہی‘‘ ہمیشہ کے لیے محاورے کے الفاظ بن گئے۔البتہ انگریز اتنے عرصے یہاں رہا ہے‘ لیکن ا س نے کبھی نماز سے نہیں روکا۔ دین کا یہ حصہ دوام اور تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ کوئی شخص چاہے نمازپڑھتا ہو یا نہ پڑھتا ہو ‘اسے معلوم ہے کہ دین میں نماز فرض ہے ۔پانچ نمازیں روزانہ پڑھنا فرض ہے۔ اس لیے کہ یہ معاملہ مسلسل نگاہ کے سامنے رہا ہے۔ وہ بابر کا دور ہو یا لودھی کا‘یا وہ کوئی ہندو راجا ہوجس کے ہاں مسلمان بھی آباد رہے ہیں لیکن کہیں کسی نے دین کے اس حصے کو نہیں روکا۔ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ گائے کے ذبیحہ کا معاملہ ہے کہ چونکہ یہ ہمارا مقدس حیوان ہے ‘ گائو ماتا ہے اور ہمارے لیے دیوتا یا دیوی کی حیثیت رکھتی ہے لہٰذا اس کو نہ ذبح کیا جائے۔ اس کے سوا دین کے اس حصے میں رکاوٹ نہیں آئی ۔
دین کا وہ ایک حصہ جو ختم ہوا تھا وہ ہےحکومت و ریاست کا نظام اللہ کے احکام کے تابع ہو اور کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہو((کُونُوا عِبَادَ اللّٰہِ اِخۡوَاناً))۔تم سب برابر ہو‘ آپس میں بھائی بھائی ہو ۔تم میں کوئی حاکم و محکوم نہیں۔ ع ’’ تمیز ِبندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے!‘‘((سَیِّدُ الۡقَوۡمِ خَادِمُھُمۡ)) تمہارے ہاں تو حاکم وہ ہوں گے جو لوگوں کے خادم ہوں گے۔ یہ نہیں کہ ان کے محل ہوں ۔ ہمارے لیے تو آئیڈیل حکومت حضرت ابوبکراور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ہے۔ اس اعتبار سے دورِ ملوکیت میں دین کا یہ پہلو اگر کوئی بیان کرتا تو ظاہر بات ہے اس کی گردن ماردی جاتی ۔ اس کا تو مطلب ہے آپ عوام کو بادشاہت کے خلاف اُبھار رہے ہیں ۔ آج ذرا یہ بات سعودی عرب میں کر کے دیکھیے ‘ پتا ہی نہ چلے گا کہ آدمی کہاں گیا! اس کا وجود ہی نہیں رہے گا کہیں۔ اس لیے کہ یہ چیز شہنشاہیت گوارا ہی نہیں کر سکتی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ یہ نہ ہمارے بیان میں رہا نہ ہمارے تصور میں رہا‘ نہ ذہن میں رہا۔ ہوتے ہوتے اس درجے اوجھل ہوا ہے کہ ’’تکبیر ربّ‘‘ کے معنی ہی میں سے خارج ہو گیا کہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ کی کبریائی کو نافذ کرو !
ملّا کی اذاں اور‘ مجاہد کی اذاں اور!
میرے نزدیک یہ تینوں آیات اس اعتبار سے قرآن مجید کی اہم ترین آیات میں شمار کیےجانے کے قابل ہیں کہ ان میں حضورﷺ کا مشن‘ اس کی آخری منزل کہ کہاں تک جانا ہے اور شروع کہاں سے کرنا ہے ‘یہ دونوں چیزیں معیّن ہو گئی ہیں۔ اگر ایک خط کھینچنا ہے اور اس کے دو نقطے معیّن ہو جائیں تو بڑی آ سانی سے معلوم ہو جائے گاکہ یہاں سے ا سے شروع ہونا ہے اور یہاں تک اس کو لے کر جانا ہے ۔اب وہ سیدھا سواء السّبیل یا صراطِ مستقیم بن جائے گا۔ کارِرسالت اور فریضہ ٔ رسالت کا نقطۂ آغاز ’’انذار‘‘ ہے اور اس دُنیا کے اندر اس جدّوجُہد کی آخری منزل ’’تکبیر ِرب‘‘ہے۔وہ تکبیر شروع کہاں سے ہوگی؟ بندئہ مؤمن کے قلب میں ‘ اس کے احساسات میں‘ اس کے شعور میں اللہ کی عظمت اور کبریائی کا نقش قائم ہو۔ یہ تکبیر ہے باطن میں۔ اس کے بعد اس کا اظہار واعلان یعنی نعرۂ تکبیر بھی اس میں شامل ہے۔ ’’اللہ اکبر‘‘ ڈنکے کی چوٹ ہو۔ اس کا اعلان برملا ہو۔اگر اس شعور کے ساتھ ہے ‘اس فہم کے ساتھ ہے تو ٹھیک‘ ورنہ تو انگریز کی چھاؤنیوں میں بھی اذانیں ہوتی تھیں لیکن اسے کوئی تشویش نہیں ہوتی تھی۔ انہیں بھی پتا تھا کہ مؤذن کو شعور ہی نہیں کہ مَیں کیاکہہ رہا ہوں ۔اگر اسے معلوم ہو تو وہ کلمہ ٔ بغاوت ہے۔ اُس وقت بڑا تو انگریز تھا۔ قانون اُس کا‘ بالاتر اختیار اُس کا‘ باقی سب کچھ اُس کے نیچے تھا۔مسلمان تو صرف اس پوزیشن میں تھے کہ وہ اپنے پرسنل لا ءکے اندر نماز روزہ کر لیں‘ نکاح کے معاملات طے کر لیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ باقی لاء آف دی لینڈ‘ فوجداری قانون‘ دیوانی قانون انگریز کاتھا ۔ چنانچہ اصل میں تو ’’اکبر‘‘ وہ تھا ‘ اللہ کہاں تھا! لیکن چونکہ مؤذن کو بھی اس امر کا شعور نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور یہ تو اعلانِ بغاوت ہے تو انگریز نے بھی پروا نہیں کی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ علامہ اقبال کے وہ اشعار بڑے پیارے ہیں : ؎
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملّا کی اذاں اور‘ مجاہد کی اذاں اور!
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور!
یہاں ’’ملّا‘‘ کو روایتی مذہب سمجھیے جس میں صرف نماز‘ روزہ اور یہی چیزیں رہ گئی ہیں۔وہ بھی اذان دیتا ہے جبکہ ایک وہ مجاہد جو باطل کو للکارتا ہے ‘جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آتا ہے وہ بھی اذان دیتا ہے ۔تو ملّا کی اذاں اور ہے جبکہ مجاہد کی اذاں اور ہے ۔
تکبیر ِربّ درحقیقت کارِ رسالت یا فریضہ ٔ رسالت کا ہدف ہے ‘ اس کی آخری منزل ہے۔ ان تین آیات کو میرے نزدیک سیرت النبیﷺ کے اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ سورۃ الصف کی مرکزی آیت:
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹) }
درحقیقت اسی ’’رَبَّکَ فَکَبِّرْ‘‘ کی تشریح ہے اور اسی کی توضیح پر مشتمل ہےتوغلط نہ ہو گا‘اس اصول کے عین مطابق کہ:
{الٓرٰقف کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ(۱)}(هود)
کہ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کی آیات پہلے محکم کی گئیں ‘پختہ کی گئیں‘ پھر ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے اس ہستی کی جانب سے جو علیم اور خبیر ہے۔
بَارَکَ اللّٰہُ لیِ وَ لَکُمۡ فیِ الۡقُرۡآنِ الۡعَظِیۡمِ وَ نَفَعْنِیْ وَ اِیَّاکُمْ بِالْآیاتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیمِ

(بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کا ۱۹۸۸ء کا ایک خطاب‘ جسے ترتیب و تدوین کے بعد پیش کیا گیا ۔)