(تذکرہ و تبصرہ) اتحادِ اُمّت اور پاکستان کی سالمیت - شجاع الدین شیخ

9 /

اتحادِ اُمّت اور پاکستان کی سالمیتشجاع الدین شیخ

آ ٓج پوری دنیا میں پائے جانے والے دو ارب مسلمان اور ۵۷ مسلم ممالک ہر طرح کی دولت اور وسائل سے مالا مال ہیں لیکن ان کی حیثیت یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا صہیونی ملک جسے چاہتا ہے ایک ایک کرکے تباہ و برباد کر رہا ہے اور مسلم ممالک میں سے کوئی بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں پا رہا۔ آج کل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’’ابراہم اکارڈز‘‘ کی بات بڑے تواتر اور زور شور کے ساتھ کر رہے ہیں‘ جس پر عمل کا مقصد جنگ کے بغیر ہی مسلم ممالک کو فتح کرکے اسرائیل کے قدموں میں ڈالنا ہے۔ یہ قبلہ اوّل سمیت فلسطین پر ناجائز صہیونی قبضہ کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو کہ بحیثیت مسلمان اس امت کو کسی صورت بھی زیب نہیں دیتا۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہیں ۔ ایک طرف امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کا شیطانی اتحادِ ثلاثہ پاکستان کو چاروں جانب سے گھیرنے اور تباہ کرنے کی کوشش کررہا ہے اور دوسری جانب اندرونی سطح پر سیاسی خلفشار ‘ معاشی عدم استحکام‘ دہشت گردی اور اختلافات ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورت حال اس وقت داؤ پر لگ چکی ہے۔ تیراہ اور باجوڑ کے علاقے میں خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔ گویا پاکستان کی بقا اور سلامتی کو اندرونی اور بیرونی دونوں جانب سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔
ہماری نظر میں اس ذلت و رسوائی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی ابدی ہدایت قرآن کریم کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں کو امریکہ کا اتنا خوف ہے کہ پانی کی ایک بوتل تک غزہ کے بھوکے پیاسے بچوں تک نہیں پہنچا سکتے لیکن ٹرمپ کو اربوں روپے کے تحائف دے رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ تھا۔ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر!
مسلمانوں کے دوبارہ غلبے اور اتحاد کی بنیاد اگر کچھ ہے تو وہ یہی قرآن ہے بشرطیکہ مسلمان اسے اللہ کی رسی سمجھ کر تھام لیں ۔ اگر ہم قرآن کو تھامیں گے تو اللہ کے نبی ﷺ کا مشن بھی اِس اُمّت کا مشن بنے گا۔
قارئین! یہ ملک ہم نے اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا۔ لاکھوں لوگ ہجرت کرکے ‘ اپنے گھر بار ‘ کاروبار ‘ روزگار اور جائیدادیں چھوڑ کر اس لیے نہیں آئے تھے کہ یہاں آکر کاروبار کریں گے۔ یہ سب قربانیاں سود کے دھندوں ‘ بے حیائی کے طوفان کے لیے نہیں دی گئی تھیں ‘ بلکہ ان کے نزدیک اصل مشن اس مملکت خداداد میں شریعت ِمحمدی کا نفاذ اور اللہ کے دین کا غلبہ تھا۔ تحریک پاکستان کا مقبول ترین نعرہ تھا: ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الاللہ!‘‘ اس وقت اگر امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کا شیطانی اتحاد ِثلاثہ پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے اور یہ اسلام سے محبت کرنے والے لوگوں کا ملک ہے۔ اس لیے وہ اس ملک کو نقصان پہنچانے بلکہ خدانخواستہ تباہ کرنے کے لیے یہاں ہر طرح کا انتشار پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔۱۹۶۷ءمیں عرب اسرائیل جنگ کے بعد فتح کا جشن مناتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ ’’عرب ہمارے لیے خطرہ نہیں ہیں ‘ ہمیں اصل خطرہ پاکستان سے ہے۔‘‘ نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ مجھے خوشی ہوگی کہ پاکستان ایٹمی صلاحیت سے محروم ہو جائے۔ پاکستان کی سالمیت اور بقا کو آج بیرونی خطرات بھی لاحق ہیں ۔ غزہ‘ لبنان‘ شام‘ یمن اور ایران کے بعد اگلا نشانہ پاکستان بھی ہو سکتاہے۔ لہٰذا آج اگر ہم اُمّت کی سطح پر متحد نہیں ہوں گے تو پاکستان کی سالمیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
اسی طرح پاکستان کی سالمیت کو اندرونی خطرات بھی لاحق ہیں ۔ ایک طرف سیاسی جبر کا معاملہ ہے ۔ سب کو معلوم ہے کہ جمہوریت کی بجائے اس وقت ہائبرڈ سسٹم ملک پر مسلط ہے جو کہ ناکام ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح انسانی جسم کو زندہ رہنے کے لیے ہوا‘ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کی تازگی کے لیے ایمان کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان کی سالمیت برقرار رکھنے کے لیے یہاں اسلام کے نفاذ کی ضرورت ہے جو اس کی بقا کے لیے بھی لازم ہے۔ جب تک شریعت اسلامی کا نفاذ نہیں ہوتا‘ جوہمارا اصل ہدف ہے‘ تب تک اس ملک کو چلانے کے لیے کوئی نہ کوئی نظام تو چاہیے۔ ہمارے نزدیک مارشل لاء سے بہتر جمہوریت ہے تاکہ عوام آزادانہ رائے کے ذریعے اپنی حکومت بناسکیں ۔ وگرنہ عوام میں اضطراب اور مایوسی بڑھے گی ‘ نفرتیں اور عداوتیں جنم لیں گی ‘ نظریہ پاکستان سے دُوری پیدا ہوگی اور انتشار جنم لے گا۔دین دشمن اور ملک دشمن طاقتیں تو یہی چاہتی ہیں کہ ملک میں انتشار پھیلے ‘ عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا ہو اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہو کر خدانخواستہ تباہ ہوجائے۔ہماری حکومتوں اور ریاستی اداروں کو اس کا شعور ہونا چاہیے۔ لازم ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اللہ کے حضور سچی توبہ کریں ۔ یہ توبہ ہمیں اجتماعی سطح پر بھی کرنی ہوگی‘ کیونکہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر لیا تھا لیکن یہاں اسلام کو نافذ نہیں کیا۔ اپنے اس جرم کا بھی اعتراف کرتے ہوئے ہمیں اجتماعی توبہ کرنا ہوگی اور اس کاطریقہ یہ ہے کہ ہم یہاں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کا نفاذ کریں ۔ یہ ملک بنا بھی اسلام کے نام پر تھا اوراب اس کی بقا‘ سلامتی اور اس کا استحکام بھی نظامِ اسلام کے قیام پر ہی منحصر ہے۔