خود احتسابی: زندہ قوموں کا شعار
حافظ عاکف سعید
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ط ....}(الانبیاء:۱۸)
’’بلکہ ہم حق کو دے مارتے ہیں باطل پر تو وہ اُس کا بھیجا نکال دیتا ہے‘ تو جبھی وہ نیست و نابود ہوجاتا ہے.....‘‘
علامہ اقبال نے قرآن مجید کی اس آیت کو شعری قالب میں یوںڈھالا ہے: ؎
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب!یعنی وہ قوم جو ہر دور میں اپنے عمل کا احتساب کرنے کی عادی ہو ‘اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک شمشیر کی مانند ہے‘ جس کے ذریعے وہ دُنیا میں اپنی برتری اور حکمرانی کا سکہ جماتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ باطل کا قلع قمع کرنے‘ اُسے نیست و نابود کرنے کے لیے ایسی قوم سے کام لیتا ہے جو سچائی کی علم بَردار ہو۔ ایسی قوم کا ایک اہم وصف علامہ اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ وہ ہر دور اور ہر زمانے میں اپنے عمل کا حساب کرتی ہے‘ اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کرتی ہے‘اپنے حالات کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھتی ہےاور اُن کی روشنی میں اپنے مستقبل کا لائحۂ عمل طے کرتی ہے۔
ہم ہر سال یومِ آزادی مناتے ہیں۔ آزادی کی خوشی میں روایتی جوش و خروش کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر پروگرام اور سیمینارز وغیرہ منعقد ہوتے ہیں۔ میڈیا پر صدر‘ وزیراعظم اوردوسرے حکومتی زعماءکےپیغامات نشر کیے جاتے ہیں ۔شہروں کو قومی پرچموں اور جھنڈیوں سے سجادیا جاتا ہے‘ اور بس! حالانکہ یومِ آزادی ہو‘ یومِ پاکستان ہو‘ یومِ دفاع ہو‘ مصورِ پاکستان کے حوالے سے یومِ اقبال ہو یا بانی ٔ پاکستان کی ولادت و وفات کے تناظر میں یومِ قائد ہو‘ ان سب ایام کا اصل پیغام ’’خوداحتسابی‘‘ ہے۔ اگر ہم اپنا احتساب کریں گے تو یہ ہماری قوم کے زندہ ہونے کی دلیل ہوگی‘ ورنہ ہمارا شمار زندہ قوموں میں نہیں ہوگا‘چاہے ہم کتنی ہی شان و شوکت کے ساتھ یہ ایام منا لیں۔
خود احتسابی کی اہمیت
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((حَاسِبُوْا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا)) (سنن الترمذی)
’’تم اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘
یہ حدیث ایک عمومی ہدایت ہے‘ جسے ہر فرد کو انفرادی طور پر بھی اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور قوم کو اجتماعی طور پربھی!اس کا مدّعا یہ ہے کہ کل روزِ قیامت تمہارا محاسبہ ضرور ہوگا تو اس سے پہلے اپنا حساب خود کرو۔ خود احتسابی کی عادت ابھی سے ڈال لو ‘اس لیے کہ تم اس وقت امتحان کے کٹہرے میں ہو۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اگر تم احساس نہیں کرو گے تو سارا نقصان تمہارا ہوگا‘اور تم اپنا مستقبل اور اپنی عاقبت برباد کربیٹھو گے۔
خود احتسابی کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی قومی زندگی کاتنقیدی جائزہ لیں۔ اس بات پر غورکریں کہ جن مقاصد کے حصول کے لیے یہ خطہ ٔ زمین حاصل کیا گیا تھا‘ اُن کے حصول کی ہم نے جدّوجُہد بھی کی یاانہیں بھلا دیا۔پاکستان کے لیے جس منزل کا تعین کیا گیا تھا‘ اس کی جانب پیش رفت کی یا ہم اُلٹے پائوں پھر گئے۔ ہم نے ہندوئوں سے الگ ’’قومیت‘‘ کی بنیا دپر علیحدہ ملک حاصل کیا تھا‘نظریۂ پاکستان کی جان ’’اسلام‘‘ قرار پایا تھا‘آزاد مسلمان سلطنت کا دستور ’’قرآنِ حکیم‘‘ بتایا گیا تھا‘ دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے اسلام کے ضابطہ ٔحیات کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اختیارکیا‘ اسے دنیا کے لیے مینارئہ نور کے طور پرپیش کیا یا نہیں! اِس پر سوچ بچار بہت ضروری ہے۔
پاکستان کو قائم ہوئے ساٹھ برس (اب ۷۸برس)پورے ہو چکے ہیں۔ ہمیں بار بار خدائی عذاب کے جھٹکے لگ رہے ہیں۔اب تو ہمیں ہوش میں آجانا چاہیے‘کچھ توغوروفکر کرنا چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں ‘ سیاست دانوں اور علماء کو اپنے اندر یہ اخلاقی جرأت پیدا کرنی چاہیے کہ اپنا احتساب کریں کہ آیا انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا ہے یا نہیں ! عوام کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ان کی زندگی اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق بسر ہو رہی ہےیا اُس کے ضابطوں کے خلاف!
قیام ِپاکستان:معجزۂ خداوندی
ہم غور کرتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے وقت مسلمانانِ ہند کن حالات سے دوچار تھے‘ حصولِ پاکستان کا اصل مقصدکیا تھا اور وہ کیا محرکات اور حالات تھے جب برصغیر کی مسلمان قوم ایک جھنڈے تلے جمع ہوئی‘ اور ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا اِلٰہ اِلّا اللہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔
سورۃ الانفال کی آیت ۲۶ کا مضمون بالکل ان حالات کی عکاسی کرتا ہے جن حالات میں پاکستان قائم ہوا تھا۔ تحریک ِپاکستان کے زمانے میں مسلمانانِ ہند کے احوال کی اس آیت کے مضمون سے عجیب مشابہت ہے ۔ فرمایا:
{وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۲۶) }
’’اور یاد کرو جبکہ تم تھوڑی تعداد میں تھے اور زمین میں دبا لیے گئے تھے‘ تمہیں اندیشہ تھا کہ لوگ تمہیں اُچک لے جائیں گے‘ تو اللہ نے تمہیں پناہ کی جگہ دے دی اور تمہاری مدد کی اپنی خاص نصرت سے اور تمہیں بہترین پاکیزہ رزق عطا کیا‘ تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘
ہندوستان میں مسلمان تعداد میں انتہائی کم تھے‘ وہ مغلوب ہو گئے تھے اوراپنے ہی وطن میں بے بسی کا شکار تھے۔ ہندوستان کے قابض حکمران انگریز بھی مسلمانوں کے دشمن تھے۔ ان کی دشمنی کا ایک سبب تو یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو‘ جو برصغیرپر حکومت کر رہے تھے‘ شکست دے کر یہاں کا اقتدار حاصل کیا تھا اور دوسری اور اصل وجہ ٔ رقابت ان کی اسلام دشمنی تھی۔یہود و نصاریٰ روزِاوّل سے مسلمانوں اور ان کے دین کے دشمن ہیں۔ قرآن واضح طور پر بتا رہا ہے :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَـتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓی اَوْلِـیَـآئَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ط وَمَنْ یَّـتَوَلَّـہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ط اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۱)}(المائدۃ)
’’اے ایمان والو! یہودو نصاریٰ کو اپنا دلی دوست (حمایتی اور پشت پناہ) نہ بنا ئو۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور تم میں سے جو کوئی ان سے دلی دوستی رکھے گا تو وہ ان ہی میں سے ہو گا۔ یقیناً اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
الغرض‘ہندوئوں اور انگریزوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا تھا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کو دبایا جارہا تھا۔ تعلیم‘ سرکاری ملازمتوں‘ کاروبار اور تجارت میں ترقی کے دروازے اُن پر بند تھے اور ہندو روز افزوں ترقی کررہے تھے۔ مسلمانوں کو اپنے قومی وجود اور اپنے علیحدہ تشخص کے مٹنے کا خطرہ تھا۔ انہیں اندیشہ تھا کہ ہندو انہیں اُچک لے جائیں گے۔ اسلام کو اِس قدر شدید خطرہ لاحق تھاکہ برصغیر سے اُس کا نام و نشان مٹانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے شدھی اور سنگٹھن جیسی انتہا پسند تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پناہ گاہ دی۔ پاکستان کی شکل میں ایک آزاد خطہ ٔ زمین عطا فرمایا‘ وہ خطہ جس کاخواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔
پاکستان کا وجود میں آنا محال تھا۔ انگریز اور ہندو دونوں قیامِ پاکستان کے مخالف تھے اور مسلمان انتہائی کمزور تھے۔ اس کے علاوہ ایسے بیسیوں شواہد موجود ہیں کہ پاکستان ہر گز قائم نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہخطہ ٔ زمین عطا فرمایااور انگریز اور ہندو کی دوہری غلامی سے نجات عطافرمائی‘ تا کہ ہم آزاد مملکت میں خلافت کا نظام قائم کریں‘ اسلامی اصولوں کی بنیا د پر نظامِ معیشت ترتیب دیںاور اپنی سماجی اقدار social values کو ترقی دیں۔
شکر کے بجائے کفرانِ نعمت کی روش
آزادی کی اس نعمت ِعظیمہ کی بنا پر ہم پر لازم تھا کہ اللہ ربّ العزت کا شکربجا لاتے۔ شکر کا اوّلین تقاضا تویہ تھا کہ ہماری انفرادی زندگی اس بات کی گواہی دیتی کہ ہم واقعتاً سچے مسلمان ہیں اور ہمارا طرزِ زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل بندگی کا نمونہ ہوتا۔ ہم’’اَطِیْعْوُا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ‘‘ کی مثال بنتے‘ تا کہ دنیا ایک بندۂ مؤمن کا کردار ملاحظہ کرتی اور یہ دیکھتی کہ مؤمن کے نزدیک اصل اہمیت اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی ہے۔ اس کی منزل دنیا نہیں‘ آخرت ہے۔
شکر کا دوسرا تقاضا یہ تھا کہ ہم اجتماعی سطح پر دین کو قائم کرتے‘ اسلام کے عدلِ اجتماعی کا کامل نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرتے۔ وطن عزیز کو خلافت راشدہ کا نمونہ اور اسلام کے عالمی غلبے کی بنیاد بناتے۔ یہ نہ صرف ربّ العالمین کے شکر کا لازمی تقاضا تھا بلکہ ہمارا بنیادی دینی فریضہ بھی تھا۔ اِسی لیے بانی ٔپاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی متعدد تقاریر میں اسلامی حکومت کی بات کی تھی۔ دستورِ پاکستان کے سوال پر انہوں نے دو ٹوک کہا تھا:’’ ہمارا دستورقرآن ہو گا‘ جو چودہ سو سال پہلے ہمیں عطا کر دیا گیا ہے۔‘‘ اسلامی ریاست کے لیے ان کے سامنے آئیڈیل دور خلافت ِراشدہ کا تھا۔مگر افسوس کہ ہم نے ناشکری کی اور انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر کفرانِ نعمت کی روش اپنائے رکھی۔
افراد کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو آج بحیثیت ِمجموعی معصیت‘ نافرمانی اور دین سے دوری کا چلن عام ہے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں صاحب ِکردارلوگ بھی موجود ہیں ‘ مگر اُن کی شرح بہت کم ہے۔ عام مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ دو ٹکے کا فائدہ نظر آئے تو اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ معاشی میدان میں ہم دوسروں کے حقوق غصب کرنے کے لیے قرآن کا جھوٹا حلف اٹھانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ دنیا پرستی اور مفادپرستی کا زہر پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ عوام ہوں یا حکمران‘ سیاست دان ہوں یا علماء کا طبقہ ‘ کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ دین داری کے نام پربھی دنیاداری ہورہی ہے۔ اندریں حالات‘ جب تک ہم اپنے اعمال اور کردار کی اصلاح نہیں کرتے ہماری حالت تبدیل نہیں ہو گی۔
نظریۂ پاکستان سے انحراف
ہماری ناشکری کی انتہا یہ ہے کہ وہ نظریہ جس کی بنیاد پر ہم نے پاکستان حاصل کیا‘ اسی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے گئے۔ ہمارے نام نہاد دانشوروں نے قائداعظم کی گیارہ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر سے یہ نتیجہ اخذکر لیا کہ وہ ایک سیکولر ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ کس قدر نا انصافی کی بات ہے کہ ان کی سینکڑوں تقاریر کو جن میں اسلامی ریاست کی بات کی گئی تھی‘ پس پشت ڈال کر ایک مشتبہ بیان پر پورے گمراہ کن موقف کی بنیاد کھڑی کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیکولرازم ہی ہمارا آئیڈیل تھا تو پھر علیحدہ وطن کی تحریک چلانے اور ہندوستان کے بٹوارے کی کیا ضرورت تھی؟پھر تو اسی کا حصہ بن کر رہنا زیادہ فائدہ مند تھا کہ وہاں کم از کم جمہوریت تو ہے‘ جبکہ ہم تو یہاں صحیح معنوں میں جمہوریت بھی نہ لاسکے۔ انہوں نے تو جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا جو ظلم کی بنیاد ہے‘جبکہ ہم وہ بھی نہیں کر سکے۔
ہم نے نظریۂ پاکستان سے عملاً انحراف تو کیا ہی تھا‘ پستی کی انتہا یہ ہے کہ اب نظری طور پر بھی اُسے ختم کرنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔ اسے نصابِ تعلیم سے کھرچ دیا جارہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نظریۂ پاکستان کی زد ہندوئوں پرپڑتی ہے۔ یہ کہناکہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں‘رواداری کے خلاف ہے۔
پاکستان کا تعلیمی نصاب پہلے ہی قومی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ملک میں کئی قسم کے نصاب رائج ہیں۔ ہماری ایلیٹ کلاس کو جو نصاب پڑھایا جاتا ہے‘ اس کا نظریۂ پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ وہ تو مغرب سے درآمدشدہ ہے۔ اِس طرح وہ کلاس جو روزِ اوّل سے پاکستان پر حکومت کرتی چلی آ رہی ہے‘ وہ تو پہلے سے ہی نظریۂ پاکستان اور دین و مذہب سے کاٹ دی گئی تھی۔ اب سرکاری سکولوں کے نصاب میں جو تھوڑ ا بہت نظریاتی پہلو تھا‘ اُسے بھی کھرچ دیا گیا۔ نصاب سے نظریۂ پاکستان کو خارج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا ہم اپنی پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کر رہے ہیں اور پاکستان کی بنیادوں سے دست بردار ہو رہے ہیں۔
ہمارے ملک کے ممتاز دانشور فاروق حسن کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کے دورے پر گئے۔ واپسی پر انہوں نے اپنے ایک مضمون میں جو بات لکھی‘ وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو وکلاء برادری سے ملاقات کے دوران ہندوئوں نے مجھ سے سوال کیا کہ پاکستان بنا کر آپ نے کیا حاصل کیا‘ وہ کون سی چیز ہے جو آپ اسلام اور مذہب کے حوالے سے پاکستان میں لے آئے اور انڈیا میں موجود نہیں ہے۔ مذہبی آزادی جو پاکستان میں ہے وہ یہاں بھی ہے۔ کیا یہاں(انڈیا میں) مسجدیں نہیں ہیں‘ اذانیں نہیں ہوتیں‘ لوگ نماز نہیں پڑھتے‘روزے نہیں رکھتے‘ زکوٰۃ نہیں دیتے۔ بتائیے‘ پاکستان اور انڈیا میں کون سا فرق ہوا؟ فاروق حسن صاحب کہتے ہیں کہ میں بالکل لاجواب ہو گیا۔ اِس واقعہ میں ہمارے لیے غوروفکر کا بہت سا سامان ہے۔ (واضح رہے کہ یہ خطاب ۲۰۰۷ء کاہے۔)ہمارے ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا۔یہ آزادی کی ناقدری اور کفرانِ نعمت کی انتہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم نظریۂ پاکستان کو مضبوط کرتے ہم نے اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ افسوس کہ ہمیں ’’اوپر‘‘ سے جو حکم ملا ہے‘ اُس کی بجا آوری کے لیے ہم نظریۂ پاکستان کو اپنی ہی چھری سے ذبح کر رہے اور پاکستان کی بنیاد ہی کو کھوکھلا کر رہے ہیں؎
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری!روشن خیالی کے نام پر دینی اقدار سے دوری
نصابی تبدیلیوں کے علاوہ نام نہاد’’روشن خیالی‘‘ کے گمراہ کن نعرہ کے تحت پورے معاشرہ سے دینی اقدار مٹائی جا رہی ہیں اور خاص طور پر سُنّت ِرسولﷺ اور اُسوۂ رسولؐ کے تصوّرات کو بالکل ہی خارج کیا جارہا ہے۔ روشن خیالی کے نام پر اسلام کا جو تصوّر مغرب دے رہا ہے‘ اس کو عام کیا جا رہا ہے۔ نصاب میں دین اور دینی اقدار کا ’’سافٹ‘‘ امیج پیدا کیاجا رہا ہے۔جو دین ہمیں نبی اکرمﷺ نے دیا تھا‘ گویا اسے ہم مسترد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمیں وہ ’’دین‘‘ گوارا ہے جو یورپ سے آرہا ہے۔ یہ خیال عام کیا جا رہا ہے کہ اسلام تو بس ’’روشن خیالی‘‘ اور رواداری کا نام ہے اور قرآن مجید کی آیات کی غلط تاویلات کی جارہی ہیں ؎
خود بدلتے نہیں‘ قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!اِس گمراہی کے پس پردہ خطرناک سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ (معاذ اللہ!) دین ِمصطفیﷺ ہمیں قبول نہیں‘ حالانکہ اللہ کے نزدیک دین وہی معتبر ہے جس کی تعبیر کا حق صرف حضوراکرمﷺ کوہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمادیا کہ میرے محبوب ﷺ کی اطاعت ہی میری اطاعت ہے:
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَـآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا(۸۰)}(النساء)
’’ جس نے اطاعت کی رسو ل(ﷺ) کی اُس نے اطاعت کی اللہ کی۔ اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بناکر نہیں بھیجا ہے ۔‘‘
برصغیر پاک و ہند میں ایسا پہلے بھی ہو چکاہے۔ اکبر کے دین ِالٰہی کی کوشش بھی اُس دور کی ’’روشن خیالی‘‘ تھی اور اس کا عنوان بھی رواداری تھا۔ دین الٰہی کے پس پردہ یہی سوچ کار فرما تھی کہ مذاہب کی تفریق ختم کر کے سب کو ایک کردیا جائے۔ آخر ہندو بھی بھگوان کو مانتے ہیں‘ عیسائی اور یہودی بھی اللہ کو مانتے ہیں۔ بدھ مت میں بھی کوئی تصوّ رِ خدا ہے۔ کیوں نہ ایسا ہو کہ تمام مذاہب کی چیدہ چیدہ تعلیمات لے کر دین کا معجون تیار کیا جائے‘ جو سب مذاہب کے لیے قابلِ قبول ہو۔
یہ واضح ہے کہ ’’اعتدال پسندی‘‘ کے تناظر میں جو نیاتصوّرِ اسلام مسلط کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ یہ اسلام وہ دین خالص نہیں جس کو رسول اللہﷺ خدا سے لے کر تشریف لائے‘ بلکہ یہ اصل میں’’دین ِ امریکہ‘‘ ہے اور اس کو پروموٹ کرنے کا شرف آج مغل بادشاہ اکبر کی بجائے فوجی ’’بادشاہ‘‘ پرویز مشرف کو حاصل ہے۔ پھر جیسے اکبر کو اپنے باطل افکار کی تائید اور ترویج کے لیے ابوالفضل اور فیضی جیسے بڑے بڑے مفاد پرست دانشور اور نام نہاد علماء وفضلا ء مل گئے تھے‘ اسی طرح ہمارے صدر صاحب کے افکار کو بھی بہت سے متجددانہ سوچ رکھنے والے عقل گزیدہ دانشور اور سکالرز سند ِجوازعطا کر رہے ہیں۔
پاکستان پر عذابِ الٰہی کے کوڑے
ہماری سیاہ کاریوں اور کفرانِ نعمت کے سبب۱۹۷۱ء میں خدا کے عذاب کا ایک کوڑا ہم پر برسا ۔دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ہمارا مشرقی بازوہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستانی قوم اور فوج کو بدترین ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ خواب سے بیدار ہونے کا موقع تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم نظریۂ پاکستان کی طرف پلٹتے‘ اللہ اور اس کے دین کی طرف رجوع کرتے‘ خود احتسابی کی نظر سے اپنا جائزہ لیتے‘ اصلاحِ عمل کے لیے کمر بستہ ہو جاتے۔ لیکن ہم نہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے ‘نہ ہی ہم نے اپنی روش تبدیل کی اور سقوطِ ڈھاکہ کے عظیم سانحہ اور خدائی جھٹکے کو بھی ہم نے بھلا دیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی سُنّت کے مطابق ہمیں مہلت دی۔ جنگ و جدل کا دور ختم ہو گیا‘حالات موافق ہو گئے‘ ہمیں ترقی عطا فرمائی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں ایٹمی صلاحیت سے بھی نواز دیا جو بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت و تائید کا ایک بہت بڑا مظہر تھا۔ عموماً پاکستان کا شمار تو دنیا کے پس ماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے‘ جہاں علم و تحقیق اور ریسرچ کے معیار کا یہ حال ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں اُسےaccept ہی نہیں کیا جاتا۔ گویا سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہم اس قابل نہیں تھے کہ ہمیں ایٹمی ٹیکنالوجی ملتی ‘مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایٹمی صلاحیت مرحمت فرمائی تو یہ اس کا خصوصی فضل تھا‘لیکن ہم نے اس کی بھی کوئی قدر نہیں کی۔
اپنے اصل مقاصد اور اہداف سے پسپائی میں اب تو اور بھی تیزی آگئی ہے ۔ اسلام اور دینی اقدار سے قوم کو دور کیا جا رہا ہے۔ ’’یہود ‘ نصاریٰ اور ہنود‘‘ یا ’’اسرائیل‘ امریکہ اور بھارت‘‘ تینوں کی شیطانی تثلیث‘ جو پاکستان کے وجود کو مٹانے کے درپے ہے‘ کے دبائو کے نتیجے میں ہم حقیقی اسلام سے منہ موڑ کر روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے راگ الاپنے لگے ہیں ۔ہم دشمنانِ دین کو باور کرا رہے ہیں کہ اسلام کی جو تعبیر تمہیں پسند ہے‘ اسے اختیار کریں گے۔ قرآن حکیم اور سُنّت ِ رسول ؐپر مبنی اسلام کی بجائے تمہارے افکار و نظریات کی کوکھ سے جنم لینے والی ’’روشن خیالی‘‘ کو اسلام کا لبادہ پہنائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم اسلام کا سافٹ امیج پیش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلام میں اس کی گنجائش کہاں ہے؟ اگر سافٹ امیج اور روشن خیالی اسی کا نام ہے کہ اسلام کے اصولوں سے انحراف کر کے اغیار کے ’’Certified Islam‘‘ کو اپنا لیا جائے تو اُسے دجل و فریب اور ابلیسیت کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔علامہ اقبال کہتے ہیں ؎
باطل دوئی پسند ہے‘ حق لاشریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول!تھوڑا عرصہ پہلے آنے والے زلزلہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں غور و فکر اور خود احتسابی کا ایک اور موقع دیا ہے۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ اتنا ہولناک زلزلہ کیوں آیا؟ اگر اب بھی ہم اپنا محاسبہ کر لیں ‘ اسلام کی طرف مراجعت کریں‘ نظریۂ پاکستان کی جانب پیش قدمی کریں تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ سب سے پہلے حکمران طبقہ اپنی سوچ کی اصلاح کرے۔ اپنی سابقہ کوتاہیوں پر نادم ہو کر حصولِ پاکستان کے اصل مقاصد کی جانب پیش قدمی کرے۔ اس کے بعد قوم کو بیدار کیا جائے‘ انہیں آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے گناہوں سے معافی مانگیں‘ اللہ کی اطاعت کا عہد کریں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ بہت بڑا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوسکتاہے۔
کیا پاکستان آزاد ہے؟
یہ تو تھی داخلی صورتِ حال‘ اب ایک نظر خارجہ پالیسی پر ڈالتے ہیں۔ اس وقت حالات کے تیور یہ بتا رہے ہیں کہ ابلیسی قوتیں ایک شیطانی مثلث کی شکل میں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں۔ ان کا سرخیل تو امریکہ ہے‘ لیکن اُس کی ڈور ہلانے والی اصل قوت اور ماسٹر مائنڈ اسرائیل (یہود) ہے ۔ کسی زمانے میں یہ بات ایک انکشاف ہوا کرتی تھی‘ اب یہ راز نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے‘ جسے ہر شخص جانتا ہے ۔ تیسری قوت ہنود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تینوں قوتیں مل کر پاکستان اور اسلام کو مٹانے کے درپے ہیں۔ بحالاتِ موجودہ کوئی احمق ہی ہوگا جو یہ سمجھتا ہو کہ امریکہ کی’’ نظر ِبد‘‘ہمارے ایٹمی پروگرام پرنہیں ہے اور وہ اس کو ختم نہیں کرنا چاہتا ہے۔ باخبر حلقے جانتے ہیں کہ امریکہ کا اصل ٹارگٹ پاکستان ہے۔ کیا امریکی ناظم الامور رابرٹ او بلیک کے بیان کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں گی؟ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں کہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ مل کر کسی تیسرے ملک کے خلاف مشترکہ فوجی آپریشن کر سکتے ہیں۔ یہ تیسرا ملک کون سا ہے‘ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پہلے کنڈولیزا رائس جب پاکستان اور بھارت کا دورہ کر کے امریکہ واپس گئی تھیں تو ان کا یہ چشم کشا بیان سامنے آیا تھا کہ ’’پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ اور بھارت مل کر کریں گے‘‘۔ یہ ہے ہماری آزادی!
ایک طرف دشمنوں کے پے در پے گھنائونے بیانات اور سازشیں ہیں اور دوسری جانب ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ان قوتوں کی چاپلوسی کرنے اور ان کی رضا جوئی حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ان کی خوشنودی کے لیے اپنی آزادی ‘ خودمختاری اور اسلامی تشخص کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔
یہ صوررتِ حال پوری قوم‘ بالخصوص کالج و یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے لوگوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ اُن افراد کے لیے لمحہ فکریہ ہے جوبڑے جوش و خروش کے ساتھ یومِ آزادی مناتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فی الواقع پاکستان آزاد ہے‘حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہم نےا پنی حقیقی آزادی کو مستحکم نہیں کیا‘ گنوایا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ کیسی آزادی ہے کہ ہم نہ سیاسی طور پر آزاد ہیں اور نہ دینی اورمذہبی طورپر۔ ہم نے غلط فہمیوں کی جو پٹیاں اپنی آنکھوں پر باندھی ہوئی ہیں اب انہیں اتارنے کا وقت آچکاہے۔ علامہ اقبا ل نے ایک موقع پر ’’ملّا‘‘کے محدود تصوّرِ دین پر جو پھبتی کسی تھی‘ وہ آج ان لوگوں پر صادق آتی ہے ؎
ملّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!اِن حالات میں ہم اپنے آپ کو آزاد کیسے کہہ سکتے ہیں جبکہ مذہب اور دین کے معاملے میں بھی ہم پر امریکہ کی مرضی ٹھونسی جا رہی ہے اورہمارے سیاسی نظام کی پشت پربھی امریکہ سوارہے۔ دراصل یہ اہل ِ پاکستان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا ہے کہ ہمیں حقیقی آزادی سے محروم کیا جاچکا ہے۔ ہمارے پاس کوئی مینڈیٹ اور اختیارنہیں ہے۔ ہمارا کوئی بھی فیصلہ جو امریکہ چاہتا ہے ’’اوپر‘‘ ہی ہو جاتا ہے۔ہم آزاد شہریوں کو کوئی حق حاصل نہیں کہ حکومت سے پوچھ سکیں کہ قوم کے ساتھ جو واردات ہو رہی ہے‘ کیوں ہو رہی ہے۔ ہماری اسمبلی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ ’’اوپری‘‘ فیصلوں پر بحث کرے۔ دراصل ہم نے اپنے مالک سے بغاوت کر رکھی ہے۔ ہم نے کبھی اللہ پر اعتماد نہیں کیا بلکہ ہمیشہ شیطانی قوتوں پربھروسا کیا۔ امریکہ کے گھڑے کی مچھلی بن کر اس کی خوشنودی کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہے ‘ لیکن اللہ کی خوشنودی کے لیے ایک قدم اٹھانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے ۔ ؎
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں‘ خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!اگر ان حالات میں جبکہ ہمارے خلاف سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں‘ہم امریکہ سے کسی قسم کا تعاون کرتے ہیں یا اس سے خیر کی توقع رکھتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری پوری قوم میں ہمت‘ مردانگی اور غیرت کا جنازہ نکل چکاہے۔ گویا وہ جو چاہیں‘ ہم سے مطالبہ کریں‘ ہم اُسے پورا کرنے کے لیے آمادہ اور تیار ہیں۔یہ ذہنی اور فکری پستی آزاد قوموں کا شعار نہیں ہے‘ خاص طور پر مسلمانوں اور مومنوں کو یہ روش زیب نہیں دیتی۔
نائن الیون کے بعدپاک افغان پالیسی
نائن الیون کے بعد ہم نے جو طرزِ عمل اختیار کیا‘ افغان پالیسی کے حوالے سے یو ٹرن لیا‘ وہ بھی اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور پرویز مشرف صاحب بھی اس پر بہت فخر کرتے ہیں کہ میں مسلمان اور سیّد زادہ ہوں ‘ تو مسلمان کے لیے اصل رہنمائی کا ذریعہ قرآن و سُنّت اور سیرتِ رسولؐ ہے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ حالات ہی ایسے تھے کہ ہم مجبور تھے‘کیونکہ امریکہ کا ٹارگٹ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی تھا۔ امریکہ بہت بڑا اتحاد بنا کر آیا تھا اور اس وقت ہمیں دھمکی دی گئی تھی کہ ہمارا ساتھ دو‘ ورنہ پتھر کے زمانہ میں دھکیل دیے جائو گے۔ چنانچہ جنرل مشرف نے جو کیا ٹھیک کیا‘ ورنہ افغانستان کے ساتھ ساتھ ہمارا ملک بھی تورا بورا بن جاتا۔ ہمارے اندر اتنی سکت نہیں تھی کہ دنیا کی سپر پاور کا اپنے محدود وسائل اور جنگی اسلحہ کے ساتھ مقابلہ کرتے۔ اس رائے کے حاملین یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ اسلام کے عسکری اصول یہ اجازت نہیں دیتے کہ طاقت کا اس قدرعدم توازن ہو‘ پھر بھی آپ دُشمن کے مقابلے پر کھڑے ہو جائیں۔
بعض نام نہاد سکالرز امریکہ سے تعاون کے لیے صلح حدیبیہ کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس صلح سے پتہ چلتا ہے کہ مصلحت کے تحت کبھی دب کر بھی صلح کر لینی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں صلح حدیبیہ کا حوالہ دینا تو صریحاً غلط ہے کیونکہ صلح حدیبیہ جب ہو رہی تھی تب مسلمان دبے ہوئے نہیں تھے‘ بلکہ معاملہ اس کے برعکس تھا۔ سیرت کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ صلح کا پیغام لے کر تو کُفّار آئے تھے۔ چودہ سو مسلمان جو نبی اکرمﷺ کے ساتھ نکلے تھے‘ انہوں نے احرام باندھا ہوا تھا اورہر ایک کے ہاتھ میں تلوار تھی‘اگرچہ نیاموں کے اندرتھی۔ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ہاتھ پر بیعت (رضوان) کی۔ انہوں نے عہد کیاکہ ہم یہاں سے تب تک نہیں ہلیں گے جب تک کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ نہ لے لیں‘ چاہے ہم سب ہلاک ہو جائیں۔ اِسی لیے اس بیعت کو بیعت علی الموت بھی کہا جاتا ہے۔جب کفار کو اس کا علم ہوا تو انہیں اپنی موت نظر آنے لگی اور وہ صلح کا پیغام لے کر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اگرچہ صلح کی بعض شقیں ایسی تھیں جو بظاہر کُفّار کی favour میں تھیں مگر نبی کریمﷺ نے اپنی فراست کی بنیاد پر انہیں تسلیم کر لیا۔ اس سے مسلمانوں میں ایک خلجان بھی پیدا ہوا اور بے چینی بھی مگر یہ بات طے شدہ ہے اور قرآن حکیم کی سورۃ الفتح سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ صلح دب کر نہیں ہوئی۔ صلح حدیبیہ کے برعکس یہاں صورتِ حال مختلف تھی۔ ہم تو مغلوب ہیں‘ ہم صلح کیا کر تے‘ ہم تو امریکہ کا ہر مطالبہ ماننے کے لیے تیار ہو گئے۔ بھلا یہ کون سی صلح ہے؟ ہماری مغلوبانہ پالیسیوں کی صلح حدیبیہ سے کیا نسبت؟
جہاں تک طاقت کے عدم توازن کی صورت میں مقابلہ نہ کرنے والی بات کا تعلق ہے تو یقیناً یہ بات درست ہے‘ لیکن طاقت کے توازن کو تب دیکھا جائے گا جب مسلمانوں نے خود کسی دشمن ملک پر حملہ کرنا ہو یا کُفّار کے اوپر چڑھائی کرنی ہو‘لیکن یہاں صورت یہ نہیں تھی۔ آپ کسی ملک پر حملہ نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک طاقت آپ کو دھمکیاں دے رہی تھی‘ آپ نے تو کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی‘خطرہ تو ان کی طرف سے تھا۔ سیرت میں اس صورتِ حال کی مطابقت غزوۂ احزاب سے ہے۔ اِس غزوہ میں عرب کی تمام طاقتیں مجتمع ہو گئیں اور انہوں نے مدینہ کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ دنیاوی حساب کتاب کے اعتبار سے مسلمانوں کا خاتمہ اور تباہی یقینی تھی۔ جیسے ہمارے ہاں طاقت کاکوئی توازن نہیں تھا‘ وہاں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ اس وقت مدینہ میں جو لوگ لڑنے کے قابل تھے‘ ان کی تعداد بمشکل تین ہزار تھی۔ ان میں بھی اچھی خاصی تعداد منافقین کی تھی جن کے بارے میں اندیشہ تھا کہ عین وقت پر آستین کے سانپ ثابت ہوں گے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی تعداد بارہ ہزار سے چوبیس ہزار تک تھی۔ کثرتِ تعداد کے علاوہ ان کا اسلحہ‘ ان کی جنگی تیاریاں اور جنگی وسائل بھی مسلمانوں سے بہت زیادہ تھے۔
مؤمنانہ اور منافقانہ کردار
اس انتہائی مشکل صورتِ حال میں منافقین اور مومنین کا جو کردار اور طرزِ عمل سامنے آیا‘ قرآن حکیم نے اُس کو واضح کیا ہے۔ اِس حالت میں منافقین کا نفاق ظاہر ہوگیا۔ اُن کی کیفیت یہ تھی جیسے موت کے وقت مرنے والے کی آنکھوں میں دہشت اورخوف ہوتا ہے۔ اُن کی زبان پر وہ الفاظ آگئے‘ جو قرآن حکیم نے نقل کیے ہیں:
{وَاِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا(۱۲) } (الاحزاب)
’’اور جب کہہ رہے تھے منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا کہ نہیں وعدہ کیا تھا ہم سے اللہ اور اُس کے رسولؐ نے مگر دھوکے کا۔‘‘
منافقین کہنے لگے کہ ہم سے وعدے کیے گئے تھے کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تمہارے قدموں میں ہوں گی اور اس وقت کیفیت یہ ہے کہ ہم رفع حاجت کے لیے باہر نہیں نکل سکتے۔
اِس کے برعکس مؤمنین صادقین نے عظمت ِکردار کا مظاہرہ کیا۔سچے اہل ایمان جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پیشگی خبردار کر دیا تھا کہ اس راہ میں آزمائشیں اور امتحانات آئیں گے۔ چنانچہ انہوں نے کہا:
{وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ ز وَمَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا(۲۲)}
’’اور جب اہل ِ ایمان نے دیکھا اُن لشکروں کو تو انہوں نے کہا کہ یہی تو ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے‘ اور بالکل سچ فرمایا تھا اللہ اور اُس کے رسولؐ نے۔ اور اس (واقعہ) نے ان میں کسی بھی شے کا اضافہ نہیں کیا مگر ایمان اور فرماں برداری کا۔‘‘
اس غزوہ کے مشکل حالات سخت آزمائش تھے۔ اس آزمائش سے واضح ہو گیا کہ کون سچا مؤمن ہے جو اللہ پر توکّل کرنے والا اور آزمائش کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والا ہے‘ اور کون ہے جو محض ایمان کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان کے لاکھ دعوے کرے ‘ لیکن اس کا توکّل اللہ پر نہ ہو‘ بلکہ تمام تر بھروسا محض ظاہری اسباب پر ہو تو وہ حقیقی ایمان سے محروم ہے‘خواہ وہ کتنا بڑا مسلمان بنا پھرتا ہو۔ چنانچہ قرآن مجید کا یہی وہ مقام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو اُسوئہ حسنہ کے طور پر اُجاگر فرمایا گیا کہ سچے اہل ِ ایمان کے لیے رول ماڈل نبی اکرمﷺ کی شخصیت اور آپؐ کاطرزِ عمل ہے۔ غزوۂ احزاب میں دشمن کے بے پناہ دبائو کے باوجود آپؐ نے اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا بلکہ اللہ ربّ العالمین پر توکّل کرتے ہوئے پوری پامردی کے ساتھ دشمن کی افواج کے سامنے ڈٹ جانے کا سبق اُمّت کو سکھایا۔
اپنا طرزِ عمل پہچانیے
غزوۂ احزاب کے آئینے میں ہم اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے کون سی روش اختیار کی: منافقین کی یا مومنین صادقین کی؟ ذرا سوچیے‘ امریکی دھمکیوں کے بعد ہمیں بھی اپنی موت نظر آرہی تھی‘ تباہی یقینی دکھائی دیتی تھی‘ تورا بورا ہونے کا خطرہ تھا۔ ہم نے یہ طرزِ عمل اختیار کیا کہ دشمن نے جو بھی مطالبہ کیا‘ ہم نے اُسے من و عن مان لیا۔ جنرل ٹومی فرینکس نے اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہم پر الزام دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے سامنے امریکہ نے جتنے مطالبے رکھے‘ خیال تھا کہ ان میں سے کچھ مان جائیں گے اور کچھ تسلیم نہیں کریں گے ‘لیکن انہوں نے سب کے سب مطالبے مان لیے۔
طالبان کے خلاف یوٹرن لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔طالبان حکومت کوئی عام حکومت نہیں تھی‘بلکہ وہ ایسی نظریاتی حکومت تھی جو کرئہ ارض پر بسنے والےایک ارب مسلمانوں کے گناہوں کا کفّارہ ادا کرنے چلی تھی۔ شریعت کا نفاذ اس کا مشن تھا‘ تا کہ زمین پر اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی شریعت کی بالادستی ہو۔ وہ واحد حکومت تھی جس کا رُخ اللہ کی طرف تھا۔ ہم نے اس کے خاتمےاور اسلام کے عظیم مجاہدین کو ذبح کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیا اورڈھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ اس پر فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں‘حالانکہ اسلامی حکومت کے خلاف امریکہ کی حمایت اللہ کے غضب کو بھڑکانے والی جسارت تھی۔
اِس یوٹرن کے بعد نظریۂ پاکستان سے ہی منحرف ہوگئے۔ بعدازاں جہاد کشمیر کے موقف سے پسپائی اختیار کی۔ وہ جہاد جس کو شروع شروع میں جنرل مشرف نے بہت سپورٹ کیا تھا‘ اور قابلِ تحسین موقف اپنایا تھا کہ یہ جہادِآزادی ہے‘حریت پسند اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن جب امریکہ بہادر کی طرف سے کہا گیا کہ یہ دہشت گردی ہے تو ہم نے بھی کہہ دیا آمَنَّا وَصَدَّقْنَا اور جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی۔
اب امریکی ہدایت پر مدارس کے خلاف یلغار کی جا رہی ہے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں ہزاروں طلبہ و طالبات کے خلاف بہیمانہ کارروائی اِس کا بدترین مظہر ہے۔ نفاذِ اسلام‘ بے حیائی اور عریانی کے خاتمے اور گرائی گئی مساجد کی دوبارہ تعمیر کے جائز مطالبات کو طاقت سے دبا دیاگیا اور ریاستی طاقت استعمال کر کے معصوم طلبہ و طالبات کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔
ان رسواکن اقدامات کے باوجود امریکہ کی جانب سے "Do more" کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن کے ’احکام‘ دیے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ خود کارروائی کرنے کی دھمکی بھی دی جا رہی ہے۔
پس چہ باید کرد...
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو امریکی چنگل سے باہر نکالیں۔ خارجی طور پر صاف کہہ دیا جائے کہ ہمارے نزدیک اللہ اور رسولﷺ کا حکم مقدّم ہے۔ ہم مزید دبائو برداشت نہیں کریں گے۔ اگر ہم نے اب بھی ماضی کی طرح تورابورا بننے کے اندیشہ سے ’’بڑی طاقت‘‘ کی اطاعت گزاری اور اللہ کی بغاوت کا شیوہ اپنائے رکھا تویاد رکھیے‘ بادشاہ حقیقی کے پاس کسی خطہ ٔ زمین کو تورابورا بنانے کے بے شمار طریقے ہیں۔ وہ آنِ واحد میں پورے ملک کو تورابورا بنا سکتا ہے۔ ؎
نہ جا اُس کے تحمل پر کہ ہےبے ڈھب گرفت اُس کی
ڈر اُس کی دیرگیری سے کہ ہے سخت انتقام اُس کا!دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر خوداحتسابی اور توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!!
(۲۰۰۷ء میں کیے گئے تین خطاباتِ جمعہ کا خلاصہ)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025