اسلام ‘ جمہوریت اور پاکستانایوب بیگ مرزا
انگریز کے ہندوستان پر قبضہ سے ہندو کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا ‘اس لیے کہ پہلے اُن پر مسلمان حکمران تھے اب انگریز حکمران بن گئے۔ گویا حکمران بدل گئے۔ہندوپہلے مسلمانوں کی رعیت تھے ‘اب انگریز کی رعیت بن گئے۔ لہٰذا اُن کی سیاسی و سماجی حیثیت بالکل متاثر نہ ہوئی جبکہ مسلمان جو پہلے حکمران تھے ‘اب وہ انگریز کے محکوم ہو گئے۔ حکمرانی بھی ختم ہوئی اور آزادی بھی غلامی میں تبدیل ہو گئی ۔ گویا مسلمانانِ ہند پر تو آسمان ہی گر پڑا۔ مسلمانانِ ہند کی عظیم اکثریت اس تبدیلی کو ذہنی اور قلبی طور پر قبول نہ کر پائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اُن کے کردار اور افعال سے اس صورت حال کی عدم قبولیت کا اظہار ہوتا رہا۔
۱۸۵۷ء کی جنگ ِآزادی جسے انگریز نے غدر کا نام دیا تھا‘ اُس میں حقیقی اور کلیدی کردار مسلمانوں ہی کا تھا۔ آزادی کی اس جنگ میں سکھوں نے کسی حد تک حصہ لیا لیکن ہندو کہیں نظر نہیں آتا ۔یہی وجہ ہے کہ اِس ناکام جدّوجُہد کے بعد انگریز نے مسلمانوں کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایاجبکہ ہندو کو خوب نوازا۔ اِن انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت دب گئی اور ایک خاصی بڑی تعداد نے حالات سے سمجھوتا کر کے انگریز کی غلامی کو کم از کم وقتی طور پر قبول کر لیا ۔یہ لوگ بھی ہندو کی طرح انگریز کی چاپلوسی کرنے لگے اور اُس کی اطاعت کو فریضہ جان لیا۔ اُدھر جب یورپ میں جمہوریت کا طوطی بولنے لگا تو ہندو کو اس میں اُمید کی کرن نظر آئی اور ۱۸۸۵ء میں ہندوئوں نے اپنی سیاسی جماعت ’’آل انڈیا کانگریس‘‘ قائم کر لی۔ سیدھی سی بات تھی کہ اگر کل کلاں ہندوستان میں بھی جمہوریت قائم ہوتی ہے تو ہم (یعنی ہندو) اکثریت میں ہیں‘ ہمیں ہی حکومت کرنے کا موقع ملے گا اور ہم مسلمانوں کو محکوم بنا کر ماضی کا ادھار چکا سکیں گے۔ ہندو جانتا تھا کہ وہ ہند کے مسلمانوں کو عسکری لحاظ سے کبھی بھی پچھاڑ نہ سکے گا اور کبھی بھی پورے ہندوستان کا حکمران نہیں بن سکے گا۔لہٰذا اب انگریز اگر ہندوستان سے نکل جائے تو ہندوئوں کو حکمران بننے سے کوئی نہ روک سکے گا۔
مہاتماگاندھی کی ساری جدّوجُہد اسی تصور کے تحت تھی۔ لہٰذا کبھی ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ تحریک چلائی گئی اور کبھی گاندھی نے ’’مرن بھرت‘‘ رکھے ۔یہ سب اسی مقصد کے لیے تھے۔ مسلمانوں نے بھی اگرچہ ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ بنالی لیکن اُس وقت کی مسلم لیگی قیادت جو زیادہ تر نوابوں پر مشتمل تھی ‘ مخلص ہونے کے باوجود دنیا میں جمہوریت کے غلغلے اور اُس کے ہندوستان پر پڑنے والے زبردست اثرات سے بالکل بے خبر محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا انہوں نے مسلم لیگ کو ایک عوامی جماعت بنانے میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ مسلم لیگ کے اکابرین اکثر اپنی حویلیوں کی بیٹھک میں ہی سیاسی حالات پر گفتگو اور تبصرے کو کافی سمجھتے تھے۔ قائد اعظم جو ابھی صرف محمد علی جناح ہی تھے ‘انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کانگریس میں شمولیت سے کیا۔ وہ ایک ذہین انسان تھے‘ انہیں یہ بات سمجھنے میں بالکل دیر نہ لگی کہ کانگریس کا اصل مقصود ہندو کی بھلائی اور بہتری ہے اور وہ انگریز کے ہندوستان سے نکلنے کے بعدپورے ملک پر ہندو حکمرانی کا خواب دیکھ رہی ہے۔ لہٰذا وہ کانگریس سے علیحدگی اختیار کر کے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ توقع کے برعکس‘ وہ مسلم لیگ کے رہنمائوں سے بہت مایوس ہوئے ۔اُن کے ایک بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ انگریز مسلم لیگ میں اپنے کچھ ایجنٹ بھی شامل کر چکا ہے۔ چنانچہ وہ نا امید ہو کر برطانیہ چلے گئے ۔
علامہ اقبال کا جب دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلہ میں برطانیہ جانا ہوا تو انہوں نے جناح کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کو اسلام کے حوالے سے دیکھیں۔ ہندوستان جا کر لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈالیں کہ آ پ کویہاں ایک مسلمان اور زندہ قوم کی حیثیت سے رہنا ہو گا۔لہٰذا مسلمان صرف انگریز کو ہی ہندوستان سے نہیں نکالنا چاہتا بلکہ اس ملک میں ایک باعزت مقام بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ علامہ اقبال نے جناح کو یہ مشورہ دیا کہ ہندوستان آ کر مسلمانوں کو اسلام کا انجکشن لگائو۔ جناح نے علامہ کا یہ مشورہ قبول کیا اور ہندوستان واپس آکر مسلم لیگ کو ایک عوامی جماعت بنانے کا کام شروع کیا۔ حیرت انگیز حد تک جناح اس میں کامیاب ہو گئے۔ جناح کی زبان انگریزی تھی‘ وہ اُردو اچھی نہیں بول سکتے تھے‘لیکن اس کے باوجود وہ مسلمانانِ ہندمیں مقبول ہوناشروع ہو گئے۔
راقم کہنا یہ چاہتا ہے کہ جب مسلمانانِ ہند کے سامنے اسلام کے حوالے سے بات رکھی گئی تو انہوںنے اُسے ذہنی اور دلی طور پر قبول کیا۔ پاکستان کا مطالبہ اگرچہ بعد میں آیا لیکن ہندوستان کے مسلمان کے لیے آزادی اور اسلام اب ایک نظریہ اور تصور بن گیا۔ پھر جب پاکستان کامطالبہ سامنے آیا تو مسلم لیگ کا نعرہ ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ!‘‘ ایک بہت بڑی حقیقت بن گئی جو آنے والے وقت کی نشان دہی کر رہی تھی۔ راقم یہ تسلیم کرتا ہے کہ اگرچہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلٰہ اِلا اللہ!‘‘ کا نعرہ مسلم لیگ کے سٹیج سے نہیں لگایا گیا تھا لیکن مسلم لیگ نے اس نعرہ کو own کر لیا ۔
قیامِ پاکستان کے حوالے سے اِس تفصیل کے بعد اگر کسی کو شک ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے علاوہ کچھ اور تھی تو جواب کے طور پر عرض ہے کہ انکارِ محض اور ڈھٹائی کا علاج کسی کے پاس نہیں۔ البتہ اس حقیقت سے انکار کرنا کہ اقتصادی مشکلات نے بھی تحریک پاکستان کو مہمیز لگائی‘ تاریخ کو جھٹلانا ہوگا۔ اس لیے کہ جب ۱۹۳۷ءمیں ہندوستان میں انتخابات کروائے گئے تو کانگریس نے مکمل فتح حاصل کی‘ گویا یہ ایک لینڈ سلائنڈ وکٹری تھی۔ مسلم لیگ ایک نشست بھی نہ جیت سکی۔ ہندوستان کے تمام گیارہ صوبوں میں کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم لیگ کی شکست اور کانگریس کی کامیابی نے سوئی ہوئی مسلم قوم کی کمر پر چابک کا کام کیا۔ ہوا یوں کہ ہندوؤں کو یہ کامیابی راس نہ آئی ۔ انہوں نے اسے مسلمانوں کو کچلنے کا سنہری موقع سمجھا ‘یوں ان کی تنگ دلی اور پست ذہنیت کھل کر سامنے آگئی۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہر لحاظ سے خصوصاً اقتصادی طور پر دیوار سے لگانا شروع کر دیا جس سے مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۴۶ء میں جب انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ نے تمام مسلمان نشستیں جیت لیں۔ گویا نو سال کے قلیل عرصہ میں ایک انقلاب رونما ہو گیا۔ اس پر بعض ’’دانشور‘‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد اسلام نہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی مسئلہ تھا۔ یہ دلیل اگر مان بھی لیں تو بڑا سادہ سا سوال ہے کہ جن کی معیشت تنگ کی گئی تھی اس کی وجہ ان کا مذہب یعنی مسلمان ہونا ہی تھا ۔گویا بات پھر وہاں پہنچ گئی کہ چونکہ مذہب ہی وجہ تنازع تھا‘ لہٰذا اسلام ہی پاکستان کی حقیقی بنیاد بنا ۔البتہ یہاں ایک اہم بلکہ انقلابی سوال سامنے آتا ہے۔ وہ یہ کہ اگر مسلم لیگ ۱۹۳۷ء کی طرح ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں بھی بری طرح ہار جاتی تو کیا تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی تھی؟اس کا جواب ہے: ہرگز نہیں! انگریز اور ہندو کا مطالبہ پاکستان تسلیم کرنا تو دور کی بات ‘ وہ یہ مطالبہ سننے کو بھی تیار نہ ہوتے۔ گویا یہ ثابت ہوا کہ پاکستان کی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے اور پاکستان کے قیام کا ذریعہ صرف جمہوریت اور ووٹ ہے۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات کے نتائج نے قابض انگریز اور اکثریتی جماعت آل انڈیا کانگریس کو اِس قابل ہی نہ چھوڑا کہ وہ مطالبہ پاکستان کو رد کر سکتے۔ لہٰذا انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والی نئی صورت حال کا منطقی تقاضا تھا کہ فریقین ۳ جون ۱۹۴۷ء کی تاریخ ساز اور فیصلہ کن میٹنگ میں مطالبہ پاکستان کو تسلیم کر لیں۔ چنانچہ انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑا۔
اب آئیے اس طرف کہ جس پاکستان کے قیام کی بنیاد اسلام اور ذریعہ جمہوریت ہے ‘اس میں روزِ اوّل سے آج تک اسلام اور جمہوریت کے ساتھ کیا سلوک ہوا! قیامِ پاکستان کے فوری بعد اُس وقت کی وفاقی حکومت نے جمہوریت پر ایک کاری ضرب لگائی اور صوبہ سرحد کی حکومت کو ایک انتظامی حکم کے ذریعے نیست و نابود کر دیا۔اگرچہ سرحدی گاندھی غفار خان کا اپنا کردار تھا لیکن اس کی سزا صوبہ سرحد کے عوام کو نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ پھر ۱۹۵۹ء تک جمہوریت کی جس طرح آبرو ریزی ہوئی‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ صرف لیاقت علی خان چار سال تک وزیراعظم رہے ۔ ان کے بعد ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۹ء کے مارشل لاء تک صرف آٹھ سال میں ناظم الدین ‘محمد علی بوگرا ‘ چودھری محمد علی ‘حسین شہید سہروردی ‘ آئی آئی چندریگراور فیروز خان نون چھ وزرائے اعظم بنائے بھی گئے اور انتظامی احکامات سے برخاست بھی کیے گئے۔ پھر ۱۹۵۹ء میں جمہوریت کا بوریا بستر مکمل طور پر لپیٹ دیا گیا اور نو سال کی مدت میں تشکیل پانے والا وہ آئین جو جمہوریت کا علم بردار بھی تھا اور جس سے اسلامی طرز حکومت کی منزل بہت قریب آگئی تھی‘ اسے بھاری بوٹوں نے پاؤں تلے روند ڈالا۔ لہٰذا پنجابی محاورے کے مطابق ’’جتھوں دی کھوتی اوتھے ای آن کھلوتی‘‘ (گدھی جہاں سے چلی تھی وہیں واپس آ کھڑی ہوئی) جمہوریت کے حوالے سے مزید پسپائی ہوئی۔ فوجی عدالتیں قائم ہو گئیں ۔ بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے۔لوگوں کا آزادیٔ رائے کا حق چھین لیا گیا۔ پھر ماشل لائوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیاجو ہر بار مختلف انداز میں سامنے آیا۔
ٍ جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء یوں تو جنرل ایوب خان کے دور حکومت ہی کا تسلسل تھا ۔اس نے تین ماہ میں انتخابات کروانے اور عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے کا اعلان کیا‘ لیکن اقتدار منتقل کرنے کے حوالے سے ٹال مٹول کرتا رہا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا۔جنرل ضیاء الحق کو ’’تحریک نظامِ مصطفیٰ ؐ ‘‘ کی آڑ میں مارشل لاء لگانے کا موقع ملا تھا۔ اس نے گیارہ سال ’’اسلام اسلام‘‘ کی چیخ و پکار کر کے اپنے اقتدار کو طول دیا اور پھر جب بادلِ نخواستہ انتخابات کرائے بھی تو اپنے ہی وزیراعظم کو برخاست کر دیا۔جنرل ضیا ءالحق نے جمہوریت کو اپنی کرسی سے یوں باندھ رکھا تھا کہ جب چاہتا ‘کسی بھی طرف اُسے موڑ دیتا۔ جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء کا لفظ لگانے اور استعمال کرنے سے گریز کیا اور اپنے ساتھ چیف ایگزیکٹو کاسابقہ لگا کر ایسا تاثر دیا جیسے یہ محض اُس حکومت کی تبدیلی ہے جو آرمی چیف کے حوالے سے غلط فیصلہ کرنے جارہی تھی۔ دراصل جنرل مشرف نے امریکہ کے اشارے پر یہ ناٹک رچایا تھا اور میاں نواز شریف کی عوامی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ بعد کےحالات نے ثابت کیا کہ امریکہ نے نائن الیون کا ڈرامہ رچانے سے پہلے جنرل مشرف کے ذریعے پاکستان میں اُس وقت کی عوامی حکومت اس لیے برخاست کروائی تھی تاکہ وہ با اختیار فوجی آمر سے آسانی کے ساتھ معاملات طے کر سکے‘کیونکہ پاکستان میں اگر جمہوری حکومت قائم رہتی تو امریکہ کو اپنے مطالبات منوانے میں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا ۔یہ بات بھی اپنی جگہ پر بڑی اہم ہے کہ جنرل مشرف کو اپنی حکومت کے ختم ہونے پر جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اسے پاکستان چھوڑنا پڑا‘ اس ردّ عمل کو سمجھتے ہوئے مقتدر قوتوں نے براہِ راست مارشل لاء لگانے اور خود حکومت سنبھالنے کے بجائے ریموٹ کنٹرول سول حکومتیں لانے کا فیصلہ کیا جو آج تک کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے۔ آج پاکستان میں نقاب پوش مارشل لاء نافذ ہے ۔ دنیا کو دکھانے کے لیے ایک سول حکومت بنی ہوئی ہے جو نہ داخلی پالیسی بنانے کا اختیار رکھتی ہے نہ خارجہ پالیسی ۔اسے صرف عوامی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی اجازت ہے تاکہ وہ اپنی جگہ مطمئن رہے ۔گویا جمہوریت جو پاکستان کے قیام کا ایک ذریعہ تھی‘ اس کی یوں درگت بنی۔
یہاں ایک بات کی وضاحت انتہائی ضروری ہے۔ اسلامی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے بعض بھائی مغربی معاشرے کے ساتھ ساتھ مغرب میں رائج جمہوری طرزِحکومت سے بھی شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک مغرب میں قائم مادر پدر آزاد جمہوریت کا تعلق ہے جس میں اکاون فیصد کی اکثریت سے آپ جو چاہیں قانون منظور کر لیں اور اللہ کے اٹل قوانین کو بھی نظر انداز کر دیں وہ یقیناً کفر ہے اور کلیتاً کفر ہے‘ لیکن کوئی ایسا طرزِ حکومت جو عوام کی اکثریتی رائے سے طے پایا ہو اور جس میں اللہ اور رسولﷺ کی بالادستی کو عملاً تسلیم کیا گیا ہو وہ طرز حکومت‘ اُسے جمہوری کہیں یا کچھ اور ‘ کسی طرح بھی غلط نہیں۔ جس طرح پاکستان کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ قرآن اور سنت سے انحراف کر کے کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ گویا راقم کی رائے میں مغربی جمہوریت تو یقیناً کفر ہے لیکن ایسی جمہوریت ہر گز کفر نہیں جو اُس طرح کے دستور کے مطابق ہو جیسا پاکستان کا دستور ہے۔ اگرچہ پاکستان کی حکومتیں اِس دستور کی بہت سی اسلامی شقات پر عمل نہیں کرتیں لیکن نظری طور پر دستور کو تسلیم کرتی ہیں۔ اس کی مثال بالکل اِس طرح ہے جیسے کوئی مسلمان گناہ گار تو ہو لیکن اسلام کے بنیادی ارکان پر ایمان رکھتا ہو۔ لہٰذا پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جمہوریت کا ہونا فطری بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ وگرنہ مخالفین جمہوریت اِس بات کی وضاحت کر دیں کہ ۲۵کروڑ کی آبادی کے ملک میں آخر کیسے طے کیا جائے گا کہ کسے حکومت کرنےکا حق ہے اور کسے نہیں؟ لہٰذا ہمارے ساتھی مغربی جمہوریت کی مخالفت ضرور کریں‘ جمہوریت کی مخالفت نہ کریں یا اس کا بدل تجویز کریں جو قابل عمل ہو۔
اسلام اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی کہانی جمہوریت سے بھی زیادہ دردناک ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس وقت کی حکومت نے نفاذِ اسلام کے حوالے سے ٹال مٹول شروع کیا تو مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ جنہوں نے قائدا عظم اور پاکستان کی حمایت کرنے پر اپنی جماعت جمعیت علماء اسلام ہند سے لڑائی مول لے لی تھی‘ انہوں نے اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر بھی حکومت کو بار بار وارننگ دی کہ وہ اسلام کو بطور نظام پاکستان میں نافذ کرے‘ لیکن یہ سب بے سود رہا۔ بالآخر انہوں نے قومی اسمبلی میں انتہائی پُرجوش تقریر کی کہ اگر حکومت نے یہی انداز اختیار کیے رکھا تووہ عوام میں جائیں گے اور لوگوں کو بتائیں گے کہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کو دھوکا دیا ہے ۔یہ تنبیہ کارگر ثابت ہوئی اور اسمبلی نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کی۔البتہ اس قرارداد کو عملی شکل دینے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ پھر ۱۹۵۱ء میں تمام مکاتب فکرکے۳۱ علماء نے۲۲ نکات پر مشتمل ایک جامع منصوبہ پیش کیا اور ان سیکولر طبقات کو منہ توڑ جواب دیا جو کہتے تھے کہ کس کا اسلام نافذ کیا جائے !اہل سنت کا یا اہل تشیع کا؟ یا کسی تیسرے فرقے کا ؟بدقسمتی سے ۱۹۵۱ ءہی میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ شنید ہے کہ وہ’’ قرارداد مقاصد‘‘ پر عمل درآمد کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے جا رہے تھے ۔یہ ایک نا قابل تروید حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسلام کا نام اپنی سیاست چمکانے کے لیے تو بہت استعمال ہو ا‘ سیاسی نعرہ بازی اِس حوالہ سے بہت ہوئی لیکن آج تک کوئی ایک تحریک بھی خالصتاً پاکستان میں نفاذِ اسلام کے حوالے سے نہیں چل سکی۔ کون نہیں جانتا کہ تحریک نظام ِ مصطفیٰ ؐ بنیادی طور’’ بھٹو حکومت ہٹا ئو‘‘تحریک تھی جس میں عوامی جذبات کو اُبھارنے کے لیے اسلام کا نام استعمال ہوا۔ لہٰذا جونہی بھٹو کی حکومت ختم ہوئی‘ اسلام کے نفاذ کے مطالبے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ قادیانیوں کے خلاف‘ مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کے خلاف ‘295-C کو آئین میں برقرار رکھنے کے لیے اور دینی مدارس میں حکومتی مداخلت کے خلاف یقینا ً تحریکیں چلی ہیں اور کامیاب بھی ہوئی ہیں کہ حکومت کو اپنے فیصلے بدلنے پڑے لیکن یہ سب جزوی معاملات تھے ۔مکمل اسلامی نظام کے قیام کے لیے پاکستان میں ہر گز کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔
معذرت کے ساتھ‘ تمام اسلامی جماعتیں اِ س حوالے سے غفلت کا شکار نظر آتی ہیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پہلے عام سیاسی جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں دونوں انتخابات کے موقع پر اسلام اور اسلامی نظام کا نعرہ لگالیتی تھیں‘ اب وہ بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اس حوالے سے عام آدمی کو بھی بریٔ الذمہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو بھی معلوم ہو چکا ہے کہ عوام کی دلچسپی معاشی مفادات تک محدود ہے۔ لہٰذا وہ اسلام کا نعرہ لگانے کی بجائے ’’روٹی کپڑا مکان‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کوئی گھر بنا کر دینے کا وعدہ کرتا اور کوئی قرضہ دلانے کا وعدہ کرتا ہے۔ گویا ہم نظریہ پاکستان یعنی اسلام سے بھی دست بردار ہو چکے ہیں اور حصول پاکستان کے ذریعہ یعنی جمہوریت کو بھی زندہ درگور کر دیا گیا ہے ۔حیرت ہے کہ پھر پوچھا جاتا ہےکہ پاکستان رسوا کیوں ہوا! پاکستان ڈیفالٹ کیوں ہوا چاہتا ہے؟ پاکستان میں عدل مقتدرہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کیوں ہے؟ پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار کیوں ہے؟ ہمارے حکمران ہاتھوں میں کشکول لیے کفار کے دَر پر دستک کیوں دے رہے ہیں؟ یہ دہشت گردی کیوں ہو رہی ہے؟ بھائی بھائی کا گلا کیوں کاٹ رہا ہے؟ صد ہزار سوال ہوں‘ تب بھی ایک ہی جواب ہے کہ واپس آجائو اپنے بنیادی نظریہ پر۔ اللہ اور رسول ﷺ کا دامن تھام لوبلکہ دانتوں سے یوں پکڑ لو کہ دانت ٹوٹ جائیں‘ نظریاتی بنیاد نہ چھوٹے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یاد رکھو‘ اپنے عوام کے رجحان اور ان کی رائے کو یکسر نظر انداز کرنے کا وہی نتیجہ نکلتا ہے جو۱۹۷۱ء میں نکلا تھا۔ اللہ ربّ العزت ہمیں مستقبل میں سقوطِ ڈھاکہ جیسے سانحہ سے بچا کر رکھے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025