تکبّر اور اس کا علاجحافظ محمد اسد
استاذ قرآن اکیڈمی‘یٰسین آباد ‘کراچی
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کو تکبّر سخت ناپسند ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے :
{ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ(۲۳)} (النحل)
’’یقیناً وہ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اسی طرح حدیث قدسی ہے :
((الْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ))(رواہ ابوداوٗد:۴۰۹۰)
’’ کبریائی (بڑائی) میری چادر اورعزّت میری ازار ہے ۔چنانچہ جو شخص ان دونوں میں سے کوئی شے مجھ سے کھینچے گا میں اسے جہنم میں جھونک دوں گا۔‘‘
یہ حدیث الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ صحیح مسلم(۶۶۸۰) میں بھی وارد ہوئی ہے۔
تکبّر بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے ۔یہ ایسا مرض ہے جس میں مبتلا شخص کبھی اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتا ۔کبر کے معنیٰ اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں بڑا سمجھنا ہیں۔جب کوئی اپنے آپ کو اچھا سمجھے گا تو معاملات میں ‘گفتگو میں ‘میل جول میں اس کا اظہار بھی ہو جائے گا۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اخلاق و کردار میں وہ اعلیٰ صفات جو کبھی اُمّت ِمحمدی ﷺکا خاصہ ہوا کرتی تھیں‘ آج ڈھونڈے نہیں ملتیں ۔ صحابہؓ وتابعین ؒسے موجودہ زمانے کے صالحین کاملین تک جس کو جو کمال حاصل ہوا ہے وہ اپنے باطن کی اصلاح ہی کی بدولت ملا ہے ۔وہ صرف صوم وصلوٰۃ ہی کے پابند نہیں تھے بلکہ کبر ونخوت ‘ تحقیر وتوہین ‘حب ِجاہ جیسے باطنی امراض سے بھی مجتنب تھے۔ہر وقت اپنی باطنی اصلاح کی فکر میں رہتے تھے ۔ علم ومعرفت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تکبّر ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ )) قَالَ رَجُلٌ: اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُونَ ثَوْبُہُ حَسَنًا وَ نَعْلُہُ حَسَنَۃً ،قَالَ:((اِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ،الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ)) (صحیح مسلم:۲۶۵)
’’جس کسی کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبّر ہو‘ وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔‘‘ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی کو یہ پسند ہوتا ہے کہ اُس کا لباس عمدہ ہو اور اُس کا جوتا عمدہ ہو (کیا یہ سب غلط ہے)؟آپ ﷺنے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ خود بھی خوب صورت ہے اور وہ خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبّر تو حق کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ تکبّر کی اصل حقیقت حق کا انکار اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ بعض لوگ اپنے آپ کو اتنی بڑی چیز سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کو یہ باور کرانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے کہ جس چیز کو وہ جانتے اور مانتے ہیں‘ حق اس کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتاہے یا ان کے سوا کوئی اور شخص بھی کسی احترام یا اعتراف کا مستحق ہو سکتاہے ۔یہ اپنی’’ عزّت وشرف ‘‘کو اللہ کافضل سمجھنے کے بجائے اپنا پیدائشی اور موروثی حق سمجھتے ہیں یا اپنی قابلیت کا ثمرہ خیال کرتے ہیں ۔ انسان کے لیے مہلک چیزوں میں سے ایک خود فریبی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((ثَلَاثٌ مُهْلِكاَتٌ وَ ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ، فَقَالَ: ثَلَاثٌ مُهْلِكاَتٌ : شُحٌّ مُطَاعٌ وَ هَوًى مُتَّبَعٌ وَ إِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِه. وَ ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ: خَشْيَةُ اللّٰهِ فِي السِّرِّ وَ الْعَلَانِيَةِ وَ الْقَصْدُ فِي الْفَقْرِ وَ الْغِنَى وَ الْعَدْلُ فِي الْغَضَبِ وَ الرِّضَا)) (السلسلۃ الصحیحۃ:۱۸۰۲)
’’تین عادتیں ہلاك كرنے والی ہیں اور تین عادتیں نجات دلانے والی ہیں۔ ہلاک کرنے والی عادتیں یہ ہیں : انتہائی بخل‘ خواہش پرستی اور خود پسندی ۔ اور تین عادتیں نجات دلانے والی یہ ہیں: ظاہر اور پوشیدہ میں اللہ كی خشیت‘ محتاجی اور غنی میں میانہ روی‘ غصے اور خوشی میں انصاف کرنا۔‘‘
قرآن مجید میں جہاں بھی شیطان لعین کی نافرمانی کا ذکر ہے وہاں بار بار یہ الفاظ آتے ہیں: {اَبٰى وَ اسْتَكْبَر}’’ اُس نے انکار کیا اور تکبّر کیا۔‘‘گویا تکبّر ہی انکار کی اصل وجہ بنی ورنہ شیطان کے پاس اللہ کادیا ہوا بہت سا علم تھا ۔ اس کاوہ علم کچھ کام نہ آیا ‘تکبّر نے اسے اللہ کی رحمت سے ہمیشہ کے لیے دور کر دیا ۔ گویا ؎
تکبّر عزازیل را خوار کرد
بزندانِ لعنت گرفتار کرد’’تکبّر ہی نے ابلیس کو ذلیل و خوار کیا‘ اور اسے ابدی لعنت کا مستحق بنایا۔‘‘
دراصل اپنے کو اچھا سمجھنا اور دوسرے کو کمتر سمجھنا تکبّر کی بنیاد ہے جو کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں ۔جب بندہ اپنی نظر میں حقیر ہوتا ہے تو حق تعالیٰ کی نظر میں عزّت والا ہوتاہے اور جب اپنی نظر میں اچھا اور بڑا ہوتا ہے توحق تعالیٰ کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہوتاہے ۔معاصی سے نفرت واجب ہے لیکن عاصی سے نفرت حرام ہے ۔یہاں تک کہ کسی کافر کو بھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو‘ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ اس کا خاتمہ ایمان پر مقدر ہو چکا ہو ۔البتہ اس کے کفر سے نفرت کرنا ضروری ہے ۔جب حق تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ چاہے تو بڑے سے بڑا گناہ بغیر سزا کے معاف کر دے اور چاہے تو چھوٹے گناہ پر گرفت کر کے عذاب میں پکڑ لے تو پھر آدمی کس منہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھے اور کیسے کسی مسلمان کو حقیر سمجھے ‘ خواہ وہ کتنا ہی گناہ گار ہو۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ولایت و قرب کو حق تعالیٰ نے بندوں اور اپنے درمیان مخفی رکھا ہے ‘لہٰذا کسی بندے کو خواہ وہ کیسا ہی گناہ گار ہو حقیر نہ جانو ۔کیا خبر کہ شاید یہی بندہ علم الٰہی میں ولی ہو اور اس کی ولایت کسی وقت بھی توبہ صادقہ اور اتباعِ سُنّت کی صورت میں ظاہر ہو جائے۔ بعض بندے زندگی بھر رند بادہ نوش اور فسق وفجور میں مبتلا رہتے ہیں‘ پھر اچانک اُن میں تبدیلی آ جاتی ہے اور توبہ کر کے پاک صاف ہو جاتے ہیں‘ جیسے کوئی حسین شاہزادہ جس کے چہرے پر کالک لگی ہو اور اچانک صابن سے منہ دھوکر چاند کی طرح روشن چہرے والا ہو جائے۔
تکبّر ایک ایسا موذی مرض ہے جس کی اگر بروقت تشخیص ہو جائے تو اس کاعلاج ممکن ہے۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ انسان کو ہلاک کر کے جہنم کا مستحق بنا کر چھوڑتاہے۔ افسوس کہ بندہ اسی گھمنڈ میں رہتا ہے کہ وہ صحیح ہے۔ جیسے ہم اپنے ظاہری امراض کی علامات پیدا ہوتے ہی کسی معالج کا رخ کرتے ہیں بالکل اسی طرح باطنی امراض کی علامات کو بھی جانیں اور اس کےعلاج کی فکر کریں۔ ایسا کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے ۔ تکبّر کی سب سے ابتدائی علامت ’’حب جاہ ‘‘کا پیدا ہوناہے۔ یعنی اپنی تعریف چاہنا مگر دوسروں کو حقیر نہ سمجھنا ۔ایسے میں انسان غور کرے کہ یہ صلاحیت جس پر میری تعریف ہو رہی ہے ‘میرے خالق ہی کی عطا کردہ ہے‘اس میں میرا کیا کمال ہے ۔بار بار یہ سوچتا رہے اور شکر ادا کرتارہے تو کافی مفید ثابت ہو گا۔ اگر خیال نہ کیا گیا تو اگلا مرحلہ شروع ہو جائے گا جسے ’’فخر ‘‘ کہتے ہیں اور یہ اس بیماری کی دوسری علامت ہے۔ اب انسان خود سے اپنی تعریف کرنا شروع کر دے گا اور اگر اس کی تعریف نہیں کی جائےگی تو اس کو تعجب ہو گا۔ سوچے گا کہ لوگ اس کی تعریف کرنے میں بخیل ہیں ‘یا شاید حسد کی آگ میں جل رہے ہیں اس لیےکچھ نہیں کہتے‘ ورنہ مجھ جیسا علم وہنر رکھنے والا آج کے زمانے میں کہاں ہے! یہ خود پسندی کی انتہا ہے۔ اب مرض شدّت اختیار کر چکا ہے لیکن ابھی لا علاج نہیں ہے۔ اگر کسی مربی‘ کسی بزرگ کی صحبت میں جائے اور اپنی باطنی حالت بتائے تو اصلاح ممکن ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اب ’’تکبر‘‘ کا وہ مرحلہ شروع ہو گیا جہاں سے یہ مرض ہلاکت خیز صورت اختیار کر جائے گا۔ اب یہ کیفیت ہے کہ کسی کی بات سننا ‘کسی سے مشورہ کرنا‘کسی کو اپنا بڑاسمجھنا یہ اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہو گا۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کبھی علماء کرام اور بزرگوں کو تنقید کانشانہ بنا رہاہے‘کبھی اپنے خاندان کے بڑوں کامذاق اڑا رہاہے اور کبھی کسی سے جھگڑاکر رہا ہے ۔ وہ کسی صورت بھی اپنے آپ کو غلط نہیں سمجھتا۔ اس کے نزدیک ساری دنیا تو غلط ہو سکتی ہے مگر وہ نہیں ۔متذکرہ بالا حدیث میں اس ہلاک کرنے والی عادت کے لیے’’اِعْجابُ المَرء بِنَفْسِہٖ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
اسی مرض کی ضد یہ ہے کہ بعض لوگ ’’تکبّر ‘‘ سے تو کوسوں دور ہوتے ہیں لیکن اپنے آپ کو اس قدر حقیر اور ذلیل سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے اپنی تذلیل ہی پسندیدہ ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ اکثر اپنے اُن گناہوں کاتذکرہ بھی برملا کر دیاکرتے ہیں جن کو صرف وہ اوراُن کا رب جانتا ہے۔ہر بات میں اپنی عاجزی اور کمتری کا اظہار کرنا‘ مثلاً یہ کہنا کہ میں بہت گھٹیا ‘ناکارہ اور حقیر ساآدمی ہوں‘ اب آپ کو کیا بتاؤں جوانی کے دنوں میں کیا کرتا رہا ہوں!یہ طرزِ عمل اصلاً تو تکبّر کی ضد ہے لیکن دینی مزاج کے خلاف ہے ۔ہمارادین ہمیں اپنے گناہوں کا چرچا کرنے سے منع کرتا ہے۔ اپنے گناہوں کا اظہار مخلوق کے سامنے کرنے والے کے لیے سخت وعید آئی ہے۔چاہیے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنے دوست احباب کے پاس اس کو بیان نہ کرے۔ گناہ چھپانے کی چیز ہے۔ لہٰذا حیا اور خوفِ خدا کا تقاضا ہے کہ کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر پردہ ڈالا جائے اور اللہ سے اس کی مغفرت طلب کی جائے۔اگر کوئی شخص کسی معصیت کا ارتکاب کرے اور پھر لوگوں کے سامنے اس کو بیان کرتا پھرے تو اس حرکت پر اللہ تعالیٰ سخت غضب ناک ہوتا ہے ۔ اپنے گناہ کو عام کرنے اور لوگوں کے سامنے اظہار کا مطلب ہے کہ ایسے شخص کو اپنی حرکت پر ندامت نہیں‘ نہ عذاب کا خوف ہے اور نہ گرفت کا احساس‘ گویا وہ اپنے گناہ پر سخت جری ہے۔ جس شخص کو اپنی معصیت پر ندامت کے بجائے جسارت اور گھمنڈ ہوجائے‘ اس کی معافی کا کیا سوال !حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
((كُلُّ اُمَّتِي مُعَافًى اِلَّا المُجَاهِرِينَ، وَاِنَّ مِنَ المُجَاهَرَةِ اَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا، ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ: يَا فُلَانُ، عَمِلْتُ البَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللّٰهِ عَنْهُ)) (صحیح البخاری: ۶۰۶۹)
’’میری تمام اُمّت معاف کردی جائے گی سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے۔ اور اعلانیہ گناہ کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی شخص رات کو کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور اس کی صبح اس حال میں ہو کہ الله نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا ہو اور وہ (کسی سے) کہے کہ اے فلاں! میں نے کل رات یہ یہ کام کیا ہے‘ جب کہ اُس کی رات اس حال میں گزری تھی کہ اللہ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالے رکھا تھا‘ لیکن صبح ہوتے ہی وہ خود اپنے بارے میں اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔‘‘
یاد رکھیں تکبّر اور تذلل دو انتہائیں ہیں جن میں درمیانی راہ تواضع ہے ۔ تواضع کا تعلق قلب اور روح سے ہے ‘ جسم سے نہیں ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا مبارک ارشاد نقل کرتے ہیں:
((مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ دَرَجَۃً، رَفَعَہُ اللّٰہُ دَرَجَۃً حَتّٰی یَجْعَلَہُ فِی عِلِّیِّیْنَ، وَمَنْ تَکَبَّرَ عَلَی اللّٰہِ دَرَجَۃً وَ ضَعَہُ اللّٰہُ دَرَجَۃً حَتّٰی یَجْعَلَہُ فِی اَسْفَلِ السَّافِلِیْنَ)) (مسند احمد: ۹۲۴۸)
’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع اختیار کی‘ اللہ تعالیٰ اس کو بلحاظ درجہ اتنا بلند کرے گا کہ اس کو علیین میں لے جائے گا‘ اور جس نے اللہ تعالیٰ پر ایک درجہ تکبّر کیا‘ اللہ تعالیٰ اس کو درجے کے لحاظ سے اتنا پست کر دے گا کہ اس کو سب سے نچلے اور گھٹیا ترین لوگوں میں شامل کر دے گا۔‘‘
جب انسان کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے تو پھر ہر نعمت وقابلیت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا سمجھتاہے ۔اُٹھتے بیٹھتے شکر بجا لاتاہے۔ ہروقت زبان پر اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ کا کلمہ جاری رہتا ہے ۔ہمارےعلماءکرام اور اسلاف کا یہی طریقہ رہا ہے ۔لہٰذا جو نعمت حاصل ہو اس پر اللہ تعا لیٰ کاشکر ادا کرے‘کیونکہ اُسی ذات کی نعمتیں ہر وقت برستی ہیں ۔
بندے کی تخلیق میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی جتنی نعمتیں ہیں‘ جیسے تندرست بدن‘ آفات سے محفوظ جسم‘ صحیح آنکھیں ‘ عقلِ سلیم‘ ایسی سماعت جوچیزوں کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہے‘ ہاتھوں کا پکڑنا‘ پاؤں کا چلنا وغیرہ اور جتنی نعمتیں بندے پر فرمائی ہیں ‘ جیسے بندے کی دینی اور دنیوی ضروریات کی تکمیل کے لیے پیدا کی گئیں تمام چیزیں ‘ یہ اتنی کثیرتعدادمیں ہیں کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں۔ اگر کوئی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بظاہر چھوٹی سی نعمت کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے تو وہ حاصل نہ کر سکے گا تو ان نعمتوں کاکیا کہنا جنہیں تمام مخلوق مل کر بھی شمار نہیں کر سکتی۔ اسی لیےاللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَاط اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۸)} (النحل)
’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو اُن کا احاطہ نہیں کر سکو گے۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
شکر گزار بندے پر شیطان کاداؤ نہیں چلتا ۔جب شیطان نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے مہلت مانگی تھی کہ میں تیرے بندوں کو بہکاؤ ں گا تو یہ بھی کہا تھا:
{وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ (۱۷)} (الاعراف)
’’اور تُو ان میں اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔‘‘
مطلب یہ کہ اکثر لوگ ناشکری کریں گے اور میرا کام (یعنی گمراہ کرنا )آسان ہو جائے گا۔ خاص طور پر نیک لوگ نیکی کے تکبّر میں اپنی نیکیوں کو ضائع کر دیں گے اور بے خبر رہیں گے ۔چنانچہ جب کبھی اپنی کسی اچھی صفت پر نگاہ جائے تو اس پر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کاشکر ادا کریں کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے یہ صفت عطا فرمائی ہے ‘میں اس کامستحق نہیں تھا ۔جس وقت آدمی یہ تصوّر کرے گا تو‘ ان شاءاللہ‘ تکبّر کی جڑ کٹ جائے گی ۔ اپنے آپ کو ناکارہ اور ناچیز کہنا تواضع نہیں بلکہ ناکارہ سمجھنا تواضع ہے ۔حقیقی متواضع شخص تکلفاً اپنی تحقیر نہیں کرتا لیکن دل میں ہر وقت اپنے عیوب پر نظر رکھتا ہے ۔بقول بہادر شاہ ظفر ؎
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر ‘رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا!اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں تواضع کی دولت عطا فرمائے ۔تکبر‘ حب ِجاہ اور فخر جیسے مہلک امراض سے بچنے کی کامل توفیق عطا فرمائے کہ ہر دم ‘ہر آن اُس ربّ کائنات کا شکر بجا لائیں ۔آمین یاربّ العالمین !
tanzeemdigitallibrary.com © 2025