(حقیقتِ دین) اسماء اللہ الحسنیٰ (۴) - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

9 /

اسماء اللہ الحسنیٰ(۴)از: پروفیسر حافظ قاسم رضوان(۲۳) اللَّطِیْفُ
یہ لطف سے ہے جس کے معنی گفتار وکردار میں نرمی اور مہربانی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لطیف (بڑا لطف و کرم کرنےو الا) ہے کیونکہ اس کے جملہ اقوال و افعال بندوں پر رفق ومہربانی اور شفقت و عنایت کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لطیف ہے اور اس کے لطف صوری نے اشیائے مادیہ کو صورِجمیلہ‘ ہیئاتِ موزوں‘ اجسامِ لطیفہ اور اجرامِ نورانیہ کی خوشنمائی‘ تناسب‘ نورانیت‘ شفافیت‘ موزونیت اور رنگارنگی عطا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ لطیف ہے‘ اسی کے لطف ِعلمی نے حکماء و عقلاء‘ سالکین و شائقین‘ مجاہدین و علمائِ راسخین‘ اولیاء و انبیاء کو بقدرِ مراتب عرفانِ علمی عطا فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ لطیف ہے اور اسی کے لطف ِعلمی نے صاحبانِ عقل کو معاملت‘ معاشِ دوراں کو منفعت‘ اہل ِشعور کو آگاہی اور اہل ِتقویٰ کو بصیرت عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ لطیف ہے اور اسی کا لطف ِمعنوی اشیائے مجردہ ‘ عقول و نفوس اور ملائکہ و انبیاء کی حسب ِضرورت تربیت فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ لطیف ہے اور اس کا لطف اُخروی اہل قرب سے معیت رکھتا اور اہل ایمان کو نجاتِ اُخروی عطا فرمائے گا۔
لطف کے معنی دانائے امور ِمخفیہ اور واقف ِدقائق ِعجیبہ بھی ہیں۔ سورئہ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوتا ہے : {اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآئُ ط} (آیت۱۰۰)’’بے شک میرا ربّ جو چاہے‘ اس کے لیے بہترین تدبیر کرنے والا ہے ۔ ‘‘سورۃ الشوریٰ میں فرمایا: {اَللہُ لَطِیْفٌ  بِعِبَادِہٖ} (آیت۱۹)’’اللہ اپنے بندوں کے حق میں بہت مہربان ہے۔ ‘‘ قرآن پاک میں چار مقامات پر اس کا استعمال اسم خَبِیْر کے ساتھ ہوا ہے ۔ سورئہ لقمان میں فرمایا: {اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶)} ’’یقیناً اللہ بہت باریک بین‘ ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘سورۃ الملک میں فرمایا:{وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۴)} ’’اور وہ بہت باریک بین ‘ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ عزوجل کی لطف و مہربانی تمام امور میں ہماری ہادی و رہنما ہے اور اسی ذات سے توفیق خیر ملتی ہے۔
(۲۴) الْخَبِیْرُ
خَبَرَ یَخْبُرُ (ن) سے اسم الفاعل خَبِیر (خبر رکھنے اور جاننے والا) ہے۔ گویا خبیر وہ ہستی ہے جو جملہ اخبار ِغیب و شہادت کی اطلاع پر حاوی ہے‘ جودنیااور آخرت کے احوال کو جانتا ہے اور جسے تمام وقائع کی خبر ہے۔ جب خَبِیرکے ساتھ علیم کا اسم ہوتا ہے تب علیم کا تعلق علم ذات سے ہوتا ہے اور خبیر کا تعلق دوسرے افعال سے۔ قرآن مجید میں اس اسم کا اطلاق کہیں اسم بصیرکے ساتھ‘ کہیں اسم علیم کے ساتھ اور کہیں اسم لطیف کے ساتھ ہوا ہے اور یہ تمام اسماء اطلاع و خبر اور واقفیت و علم کے مختلف مدارج کو ظاہر کرتے ہیں۔ سورۃ الشوریٰ میں فرمایا:{اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ  بَصِیْرٌ(۲۷)}’’یقیناً وہ اپنے بندوں (کے حالات) سے باخبر ‘ ان کو دیکھنے والا ہے۔ ‘‘ سورئہ لقمان میں فرمایا:{اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶)} ’’یقیناً اللہ بہت باریک بین‘ ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘سورۃ الانعام میں فرمایا: {وَہُوَ الْحَکِیْمُ الْخَبِیْرُ(۱۸)} ’’ اور وہ ہے کمال حکمت والا اور ہر شے کی خبر رکھنے والا۔‘‘سورئہ آلِ عمران میں فرمایا:{وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۸۰)} ’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔‘‘
(۲۵) الْحَلِیْمُ
حلمکے معنی بُردباری ‘ آہستگی اور عقل کے ہیں۔ سورۃ الطور کی آیت۳۲{اَمْ تَاْمُرُہُمْ اَحْلَامُہُمْ بِہٰذَآ} ’’کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھا رہی ہیں ‘‘------- میں حلم‘ عقل و دانش کے معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ حلیم(بُردبار‘ برداشت کرنے والا) ہے‘ یعنی تخیراتِ اعتبار یہ اس کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے۔ غضب اس کی رحمت پر غالب نہیں آ سکتا اور رحمت اس کی صفت غضب کے لیے مانع نہیں ہو سکتی۔ ا للہ تعالیٰ حلیم ہے کہ بدلہ اور انتقام کے لیے جلدی نہیں کر تا اور گناہ کی سزا کے طور پر رزق کے دروازے بند نہیں کرتا۔ خدائے بزرگ و برتر نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں حلیم کا لقب عطا فرمایا ہے‘ یعنی حضرت اسماعیلؑ میں اس قدرتمکین نفس اور وقارِ ذات تھا کہ جو سکون و اطمینانِ قلب ان کو اپنی قربانی کی خبر سننے سے پہلے حاصل تھا‘ ان کی وہی حالت قربان ہوجانے کا حکم سن کر بھی رہی اور یہ عظیم خبر ان کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کر سکی ۔ قرآن شریف میں لفظ حلیم درج ذیل اسماء کے ساتھ آیا ہے:
سورۃ البقرۃ:{وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(۲۲۵)} ’’اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا ‘ بردبار ہے۔ ‘‘ سورۃ البقرۃ:{وَاللہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ(۲۶۳)}’’اوراللہ تعالیٰ غنی ہے اور حلیم ہے۔‘‘سورۃ الحج :{وَاِنَّ اللہَ لَعَلِیْمٌ حَلِیْمٌ(۵۹) } ’’ اور اللہ یقیناً سب کچھ جاننے والا‘ تحمل کرنے والا ہے ۔ ‘‘سورۃ التغابن: { وَاللہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۱۷) }’’اور اللہ شکور (یعنی قدر دان) بھی ہے اور حلیم (یعنی بردبار) بھی ۔ ‘‘
غفران کے ساتھ حلم کا ہونا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں کو جلد عذاب نہ دینا اس لیے ہے کہ اس ذات کی مغفرت بندے کو توبہ کی مہلت عطا فرماتی ہے۔ غنی کے ساتھ حلم کا ہونا بتاتا ہے کہ ایذا دینے والے‘ شرک کرنےوالے‘ کفر کرنے والے‘ یہ سب اللہ کی نگاہ میں بالکل حقیر و ذلیل ہیں۔ اسی طرح علم کے ساتھ حلم کا ہونا بردباری کی انتہا ہے اور شکور کے ساتھ حلیم کا ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اعمالِ حسنہ کو قبول فرماتا‘ان کو بڑھاتا ‘نیز اعمالِ سیئہ کے کفّارہ میں دیر کرتا اور آہستگی کے ساتھ زمانۂ مستقبل تک اصلاح کی مہلت عطا فرماتا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے: کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَدْعُوْ عِنْدَ الْکَرب یَقُوْلُ : ((لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْاَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْم)) ’’نبی اکرمﷺ رنج و غم میں یہ دعا پڑھتے تھے: ’’اُس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت ہی بزرگ اور بڑا ہی بردبار ہے۔ اُس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ اُس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب اور عرشِ کریم کا ربّ ہے۔‘‘
(۲۶) اَلْعَظِیْمُ
باری تعالیٰ اَلْعَظِیْمُ (بہت بڑا‘ صاحب ِعظمت) ہے۔ اہل زبان کے ہاں جب ایک شے کی بڑائی دوسری پر بیان کرنی ہو تو لفظ عظیم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سورۃ النمل میں ارشاد ہے:{وَلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ(۲۳)}’’اور اُس کا تخت بہت عظیم الشان ہے۔ ‘‘ سورۃ النور میں فرمایا: {ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ(۱۶)} ’’یہ ایک بہت بڑا بہتان ہے! ‘‘سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا: {اِنَّکُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا(۴۰)} ’’یہ تو تم بہت بڑی (گستاخی کی) بات کہتے ہو! ‘‘ سورۃ النساء میں فرمایا:{وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا(۱۱۳)} ’’اور یقیناً اللہ کا فضل ہے آپؐ پر بہت بڑا۔ ‘‘سورۃ الاحزاب میں فرمایا:{اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵) } ’’اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
العَظِیم وہ ذات ہے جس کی عظمت و بڑائی کو دوسرا کوئی بھی نہ پا سکے‘ جس کا تصور بھی ناممکن ہو‘ جس ذات کی عظمت و بڑائی زمان و مکان سے پاک اور مبرا ہو‘ اور اس کی ساری عظمت ذاتی ہو۔ وہ ذاتِ الٰہی ربُّ العرشِ العظیم ہے‘ وہ فضل عظیم کا مالک ہے‘ وہ قرآن عظیم کا نازل کرنے والا ہے‘ وہ بندے کو کربِ عظیم سے نجات دلانے والا ہے‘ وہ ملک ِعظیم کا عطا کرنے والا ہے اور وہ نورِ عظیم تک بندوں کو لے جانے والا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ(۲۵۵)}’’اور وہ بلند و بالا (اور) بڑی عظمت والا ہے ۔ ‘‘سورۃ الواقعۃ میں ارشاد ہوا:{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ(۹۶)} ’’(اے نبی ﷺ!) آپ تسبیح کیجیے اپنے ربّ کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔ ‘‘ اسی حکم کی تعمیل میں دورانِ نماز رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھاجاتا ہے۔
(۲۷) اَلْغَفُوْرُ
غَفَّار اور غَفُور دونوں اسم غُفران سے بطورِ صیغہ مبالغہ مستعمل ہیں۔ غَفّار کے معنی کا تعلق مغفور بندوں کی تعداد سے ہے‘ یعنی غَفَّار وہ ذات ہے جو حد سے زیادہ تعداد کے گناہوں کو معاف کرے‘ اور غَفُور کے معنی میں مغفرت کا زائد از مقدار ہونا واضح ہوتا ہے‘ یعنی غفور وہ ذات ہے جس کی عطا و بخشش بغیر کسی انتہا کے ہو۔ ذاتِ باری تعالیٰ الْغَفُور(بہت بخشنے والا ‘ معاف کرنے والا‘ بے انتہا مغفرت کا مالک ) ہے یعنی وہ ذات جس کی مغفرت اتنے اعلیٰ درجے پرہو کہ پھر کوئی درجہ باقی نہ رہے۔ سورۃ الحجر میں ارشاد ہوتا ہے:{نَــبِّیْٔ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۴۹) } ’’(اے نبیﷺ!) میرے بندوں کو بتا دیجیے کہ مَیں یقیناً بہت بخشنے والا‘ نہایت رحم کرنے والا ہوں۔ ‘‘سورۃ النساء میں فرمایا:{وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۹۶)} ’’اور یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘سورۃ النساء میں دوسرے مقام پرفرمایا: {وَکَانَ اللہُ عَفُوًّا غَفُوْرًا(۹۹)}’’اور اللہ واقعتاً ‘معاف فرمانے والا‘بخشنے والا ہے۔‘‘ سورۃ القصص میں فرمایا:{ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶) } ’’ یقیناً وہی ہے بڑا بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا۔ ‘‘سورئہ فاطرمیں ارشاد ہوا:{اِنَّ اللہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ(۲۸)}’’یقیناً اللہ بہت زبردست ہے ‘ نہایت بخشنے والا۔ ‘‘مزید فرمایا:{اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرٌ(۲۴) } ’’یقیناً ہمارا رب بہت بخشنے والا ‘ بہت قدر افزائی فرمانے والا ہے۔ ‘‘صحیحین میں حضور اکرمﷺ سے ایک دعا نقل کی گئی ہے: ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْ لِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ))’’اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا گناہوں کا بخشنے والا کوئی نہیں ہے‘ تو اپنی (خاص) مغفرت سے میرے گناہ بخش دے اور مجھ پر رحم فرما‘ بے شک تُو بڑا بخشنےو الا‘رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
(۲۸) الشَّکُوْرُ
یہ شکر سے ہے ۔ شکر کے چند معانی ہیں اور خدائے بزرگ و برتر کا شَکُورہونا ان سب معانی سے متعلق ہے۔ شکر کا ایک معنی مدح و ثنا بیان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ شَکُور ہے کیونکہ اُس نے اپنی ذات کی خود مدح و ثنا فرمائی ہے اور اپنی صفاتِ عالیہ خود بیان کی ہیں۔ الشَّکُور بمعنی قدردان‘ بڑا قدر کرنے والا اور اطاعتوں کی قدر افزائی کرنے والا۔شکر کا ایک معنی کسی کام کا قبول کرنا اور کسی خدمت سے راضی ہو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ شَکُور ہے ‘کیونکہ وہ بندوں کے اعمالِ صالحہ کو قبول فرماتا ہے اور ان کی عبادات و طاعات سے راضی ہو جاتاہے۔ سورئہ فاطر میں فرمایا:{اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ(۳۰)} ’’یقیناً وہ بہت بخشنے والا‘ بہت قدر دان ہے۔ ‘‘آگے مزید فرمایا: {اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُ(۳۴) } ’’یقیناً ہمارا ربّ بہت بخشنے والا ‘ بہت قدر افزائی فرمانے والا ہے۔ ‘‘سورۃ التغابن میں ارشاد ہے:{وَاللہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۱۷) } ’’اور اللہ شکور (یعنی قدر دان) بھی ہے اور حلیم (یعنی بردبار)بھی ۔ ‘‘ ربّ کائنات‘ الشَّکُور(بڑا قدر کرنےو الا‘ قدر دان‘ اطاعتوں کی قدر افزائی کرنے والا) ہے۔ وہ اپنے بندوں کو توفیق ِشکر دیتا ہے‘ وہ اپنے شاکرین کے شکر کو قبول فرماتا ہے‘وہ شکر کرنے والوں کی زیادہ قدر دانی فرماتا ہے اور جو بندے اس کا شکر کرتے ہیں‘ انہیں مزید نوازتا ہے۔ سورئہ ابراہیم میں ارشادِ الٰہی ہے:{لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)} ’’اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘ اور اگر تم کفرانِ نعمت کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بھی بہت سخت ہے۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز (تہجد) پڑھتے تو طویل قیام کرتے‘ یہاں تک کہ آپؐ کے قدم مبارک سوج جاتے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نےعرض کیا: اے اللہ کےرسولﷺ! آپؐ ایسا کرتے ہیں‘ حالانکہ آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائوں کی مغفرت کی (یقین دہانی کرائی) جا چکی ہے! اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا:((یَا عَائِشَۃ: أَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا؟))’’اے عائشہ! کیا میں (اللہ تعالیٰ کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
(۲۹) الْعَلِیُّ
یہ عُلُو سے ہے جس کے معنی بلندی‘ بزرگی‘ بلندیٔ مرتبہ اور غلبہ کے ہیں۔ اَلْعَلِیّ (بلندوبالا اور برتر) یعنی وہ ذات جو بلند ہے ‘ ایسی بلند کہ جس کے رتبے سے بڑا کوئی اور رتبہ نہیں ہے۔ اس کے مرتبے کے نیچے ہی دیگر تمام مراتب ہیں۔ علا النھار (دن چڑھ آیا) ‘ علا الدّابۃ (گھوڑے پر سوار ہو گیا)‘ علا فی المکارم (خصائل بزرگی میں برتر ہو گیا)‘ علا بالامر (حکومت میں آگےبڑھ گیا یا مستقل ہو گیا)۔اللہ تعالیٰ العَلِیُّ ہے کہ وہ سب پر غالب اور توانا ہے۔ اللہ تعالیٰ العَلِیُّ ہے کہ ارتفاعِ مراتب اُسی کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ العَلِیُّ ہےکہ وہ جملہ سفلیات و علویات سے بالاتر ہے۔ سورۃ الشوریٰ میں فرمایا:{اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ(۵۱)} ’’وہ بہت بلند و بالا ‘کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘سورۃ المؤمن میں فرمایا: {فَالْحُکْمُ لِلہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ(۱۲) } ’’تو اب کل اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو بہت بلند ‘ بہت عظمت والا ہے۔ ‘‘ سورۃالبقرۃ میں ارشاد ہوا:{ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ(۲۵۵)} ’’اور وہ بلند و بالا (اور) بڑی عظمت والا ہے ۔ ‘‘
ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ علو ربانی‘ حکمت و کبریائی اور عظمت الٰہی کے ساتھ ہے۔ عَلِیٌّ وہی ذاتِ الٰہی ہے جو اپنے خاص برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کے لیے بہترین تعریف کو دنیا میں قائم فرماتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل واولاد کے حوالے سے سورئہ مریم میں ارشادہوتا ہے : {وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا(۵۰)} ’’اور ہم نے ان کو اعلیٰ درجے کی سچّی شہرت عطا فرمائی۔ ‘‘بے شک عَلِیّ وہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے جس کا نام بلند‘ جس کا حکم بلند اور جس کی شان بلند ہے۔سورۃ التوبہ کی آیت۴۰ میں فرمایا:{ وَکَلِمَۃُ اللہِ ہِیَ الْعُلْیَاط}’’اور اللہ ہی کا کلمہ سب سے اونچا ہے۔ ‘‘
واضح رہے کہ اسی مادہ سے اللہ تعالیٰ کی صفت اور علَم باسم اَعْلیٰ بھی قرآن مجید میں آیا ہے۔ صفات کے حوالے سے‘ سورۃ النحل کی آیت ۶۰ میں فرمایا:{ وَلِلہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی ط } ’’اور اللہ کے لیے تو بہت ہی بلند مثال (صفت) ہے۔ ‘‘سورۃ الروم کی آیت ۲۷ میں ارشاد ہوتا ہے: {وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج}’’اوراُسی (اللہ) کی بہترین اور اعلیٰ مثال ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی‘‘۔ بطور عَلم سورۃ الاعلیٰ میں فرمایا:{ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی(۱)} ’’(اے نبیﷺ!) اپنے بہت ہی بلند ربّ کے نام کی پاکیزگی بیان کرو۔ ‘‘حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ اس کے جواب میں ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔سورۃ اللیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اِلَّا ابْتِغَـآئَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی(۲۰)} ’’بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے (متقی شخص عمل کرتا ہے)۔ ‘‘
(۳۰) الْکَبِیْرُ
یہ کبر سے ہے۔ اہل دنیا میں کبر کا استعمال خصوصاً عمر میں بڑا ہونے کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اردو میں بھی کبرسنی کا لفظ مستعمل ہے۔ مطلقاً بزرگی و بزرگ بھی اس کے معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ الکبیر(بڑا ‘ برتر) ہے۔ وہ ہر شے سے بڑا ہے‘کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ ہر شے سے بے نیاز اور بےپروا ہے۔ کبیرسے مراد صاحب کبر اور کبریاء سے مراد ذاتِ کمال ہے‘ اور کمالِ ذات کا معنیٰ کمالِ وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کبیر ہے اور جملہ موجوداتِ زمانی و غیر زمانی پر اسے سبقت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کبیر ہے اور اس کی کبریائی کے سامنے ہر ایک ادنیٰ ترین صغیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کبیر ہے جو خاص اپنے بندوں پر فضل کبیر کرتا ہے ‘ جو مخلصین اہل طاعت کو فوز کبیر تک پہنچاتا ہے۔سورۃ الحج میں ارشاد ہوتا ہے: {ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ وَاَنَّ اللہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ(۶۲)} ’’یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور یہ کہ جس کو یہ لوگ اُس کے سوا پکارتے ہیں وہ سب باطل ہےاور یہ کہ یقیناً اللہ ہی سب سے بلند اور سب سے بڑا ہے۔‘‘ سورۃ الرعد میں فرمایا:{ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ(۹)} ’’وہ جاننے والا ہے غیب اور ظاہر کا ‘(وہ) بہت بڑا ‘ بہت بلندی والا ہے۔ ‘‘سورئہ لقمان میں فرمایا:{وَاَنَّ اللہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ(۳۰)}’’اور یقیناً اللہ ہی سب سے بلند و بالا اور عظمت والا ہے ۔ ‘‘ سورۃ المؤمن میں فرمایا: {فَالْحُکْمُ لِلہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ(۱۲)} ’’ تو اب کل اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو بہت بلند ‘ بہت عظمت والا ہے۔‘‘ سورئہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا:{ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یَقُوْلُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا(۴۳)} ’’وہ پاک ہے اور بہت ہی بلند و برتر ہے ان باتوں سے جو یہ کہہ رہے ہیں۔ ‘‘ نبی کریمﷺ نے ہمیں ایک بڑی خوبصورت دعا سکھائی ہے :((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا)) ’’اے اللہ! مجھے میری نگاہ میں چھوٹا بنا دیجیے اور لوگوں کی نظروں میں مجھے بڑا بنا دیجیے۔‘‘
(۳۱) اَلْحَفِیْظُ
حفیظ کے معنی حفاظت کرنے والا‘ نگہبان اور نگران کے ہیں۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ جو ہر چیز کی ہمیشہ نگران اور نگہبان ہے‘ چاہے وہ زمین کے اوپر ہو‘اندر ہو‘ نیچے ہو‘ یاآسمانوں میں ہو۔ وہ ذات مؤمن اور کافرہر ایک کی نگہبان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے اور ہر چیز اس کی نگرانی میں ہے۔ وہ اپنی کسی بھی مخلوق اور اُس کے اعمال سے غافل نہیں۔ روزِ آخرت وہ ہر ایک کو اُس کے کیے کا بدلہ دے گا۔ سورۃ البقرۃ کی آیت۲۵۵ میں فرمایا: { وَلَا یَــــُٔوْدُہٗ حِفْظُہُمَاج’’اور اُس پر گراں نہیں گزرتی ان دونوں (آسمان و زمین) کی حفاظت۔ ‘‘سورئہ سبا میں فرمایا: {وَرَبُّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ حَفِیْظٌ(۲۱) }’’اور آپؐ کا پروردگار ہر چیز پر نگران ہے۔ ‘‘ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہوا : {وَکُنَّا لَہُمْ حٰفِظِیْنَ(۸۲) } ’’اور ہم ہی اُن پر نگران تھے۔ ‘‘ سورئہ یوسف میں ارشاد ہوا: {فَاللہُ خَیْرٌ حٰفِظًا ص وَّھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۶۴) } ’’پس اللہ ہی بہترین محافظ ہے اور وہی تمام رحم کرنے والوں میںسب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
حضورِ اَقدس ﷺ کے حوالے سے بھی یہ اسم قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ النساء میں فرمایا: {مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَـآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا(۸۰) } ’’ جس نے اطاعت کی رسو ل کی اُس نے اطاعت کی اللہ کی۔ اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپؐ کو ان پر نگران بناکر نہیں بھیجا ہے۔ ‘‘اللہ تعالیٰ ہی حفیظ ہے‘ جو اپنے بندوں کے لیے حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے فرشتے) مقرر فرماتا ہے ۔ ایک مرتبہ حضورﷺ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا: ((اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ، اِحْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ)) ’’تم اللہ کو یاد رکھو ‘ وہ تمہیں یاد رکھے گا ‘ تم اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو‘ تم اسے اپنے سامنے پائو گے (یعنی وہ گناہوں سے تمہاری حفاظت کرے گا۔)‘‘ (جامع ترمذی)