(عرض احوال) کیا امن معاہدہ‘ امن لائے گا؟ - رضاء الحق

13 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کیا امن معاہدہ‘ امن لائے گا؟قطع نظر اس بات سےکہ غزہ امن معاہدہ ہماری خواہشات اور تمناؤں کے مطابق ہوا ہےیا نہیں‘ آخر کار غزہ امن معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔ذرائع کے مطابق اِس میں درج ذیل شقیں شامل ہیں:
(۱) غزہ ایسا علاقہ ہوگا جو انتہاپسندی سے پاک ہوگا‘ جو اپنی ہمسایہ ریاستوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں رکھے گا۔
(۲) غزہ کو دوبارہ ایسے انداز سے تعمیر کیا جائے گا کہ وہ وہاں رہنے والوں کی فلاح و بہبود کا باعث بنے۔
(۳) دونوں فریق اس تجویز کو قبول کریں‘ تو جنگ فوراً ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج وہیں واپس جائیں گی جہاں معاہدے کے مطابق طے پایا ہے‘ تاکہ یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو۔
(۴) جب اسرائیل اس معاہدے کی عوامی منظوری دے دے‘ تو زندہ اور مردہ یرغمالیوں کی رہائی ۷۲ گھنٹوں کے اندر مکمل کی جائے گی۔
(۵) یرغمالیوں کی رہائی کے بعد‘ اسرائیل۲۵۰ ایسے افراد جنہیں عمر قید کی سزا ہے‘ اور ۱۷۰۰ دیگر افراد کو رہا کرے گا جو جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ سے گرفتار کیے گئے۔
(۶) یرغمالیوں کی رہائی کے بعد‘ حماس کےوہ کارکن جو پُرامن بقائے باہمی پر قائم رہنا چاہیں اور اپنے اسلحہ کو غیر فعال کرنے پر رضامند ہوں‘ اُنہیں معافی دی جائے گی۔ جو افراد غزہ چھوڑنا چاہیں گے ‘ اُنہیں محفوظ راستہ دیا جائے گا۔
(۷) معاہدے کے قبول ہونے کے بعد‘ غزہ کو انسانی امداد بلا تاخیر فراہم کی جائے گی‘ جس میں پانی‘ بجلی‘ اسپتال‘ نالوں‘ سڑکوں وغیرہ کی بحالی شامل ہوں گی۔
(۸) امدادی سامان اور تقسیم کا عمل بلارکاوٹ جاری رکھا جائے گا اور یہ کام اقوامِ متحدہ‘ ریڈ کریسنٹ‘ اور دیگر غیر جانب دار بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے کیا جائے گا۔
(۹) غزہ کی انتظامیہ عارضی ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے سپرد کی جائے گی‘ جو عوامی خدمات انجام دے گی۔ اس کمیٹی کے کام کی نگرانی بورڈ آف پیس کرے گا‘ جس کی صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کرے گا‘ اور اس میں ٹونی بلیئر سمیت بین الاقوامی ماہرین بھی شامل ہوں گے۔
(۱۰) بورڈ آف پیس غزہ کی تعمیر نو اور فنڈنگ کا فریم ورک ترتیب دے گا‘ اور وقت کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو باقاعدہ کنٹرول منتقل کیا جائے گا‘ بشرطیکہ وہ اصلاحات مکمل کر لے۔
(۱۱) غزہ کی غیر عسکری حیثیت کو قبول کیا جائے گا‘ اور اس کی نگرانی غیر جانبدار مانیٹرز کریں گے۔
(۱۲) اسلحہ کو غیر فعال کرنے کا عمل بین الاقوامی مالی معاونت اور buy-back پروگرام کے تحت کیا جائے گا‘ جس کی تصدیق مانیٹرز کریں گے۔
اس موقع پر جاری کردہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ اسے امن معاہدے کے دستخط کنندگان امریکہ‘ مصر‘ قطر اور ترکیہ نے جاری کیا ہے۔جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
٭ ہم صدر ٹرمپ کی سنجیدہ کوششوں کی حمایت کرتے ہیں کہ وہ غزہ کی جنگ ختم کریں اور مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن لائیں۔
٭ ہم اس معاہدے کو اس طرح نافذ کریں گے کہ وہ امن‘ سلامتی‘ استحکام اور مواقع کی ضمانت دے‘ نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اسرائیلی باشندوں کے لیے بھی۔
٭ ہم اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس خطے کی مذہبی اہمیت ہے‘ اور مقدس مقامات کا احترام اور حفاظت امن معاہدے کا حصہ ہوں گے۔
٭ ہم تشدد‘ انتہاپسندی اور نسل پرستی کے خلاف متحد ہیں‘ اور اختلافات کو مذاکرات اور سفارتی راستے سے حل کرنے کا عہد کرتے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ غزہ امن منصوبہ بظاہر چار بڑے ستونوں یعنی (۱) سفارت کاری‘ (۲) انسانی امداد و تعمیر نو‘ (۳) عوامی و فکری کردار‘ (۴) علاقائی تعاون و سلامتی پر مبنی ہے‘مگراس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جس وقت شرم الشیخ میں یہ معاہدہ ہورہا تھا تو پاکستان کے مختلف شہروں میں اہل ِ غزہ سے اظہارِ یکجہتی کے نام پر شروع ہونے والے مظاہرے‘ مظاہرین اور انتظامیہ کے خون سے رنگین ہورہے تھے۔مظاہروں کو خون سے رنگین کرنے کی اصل ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے ایک الگ اور تفصیلی مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ البتہ اظہار یکجہتی کے لیے یہ خاص وقت ضرور قابل غور ہے اور اسی خاص وقت میں پڑوسی مسلم ملک کے ساتھ سرحدوں پر گولہ باری کی خبروں کو ’’محض اتفاق‘‘ خیال کرنا مشکل کام ہے‘ کیونکہ ماضی میں بھی اہل ِپاکستان یہ منظر دیکھ چکے ہیں کہ اسلام‘دین اور ناموسِ رسالت ﷺ جیسے ایشوزپر اُن کے جذبات کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جا چکا ہے۔ عوام کا خون خواص کے خون سے شاید زیادہ سرخ ہوتا ہے جس کا گرایا جانا خاص مواقع پر زیادہ ’’اچھا‘‘ تاثر دیتا ہے۔ بہرحال ہم واپس غزہ امن معاہدے کی طرف لوٹتے ہیں ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیس نکاتی منصوبے کے ذریعے غزہ میں امن کے قیام کی بات کی ہے۔ وہی ٹرمپ جس نے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں بھی کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا ‘ ابراہم اکارڈ اور ڈیل آف دی سنچری کے نام پر مسلم حکمرانوں سے اسرائیل کو تسلیم کروایا ‘ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا‘ اسی ٹرمپ کے ساتھ مسلم حکمران دوبارہ کھڑے نظر آتے ہیں ‘ خوش ہو کر اس کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔ابراہم اکارڈ۲ کی باتیں بڑے خوش نما انداز میں ہوئیں۔ بعض مسلم حکمرانوں نے ٹرمپ کو ’’امن کا علمبردار‘‘ بھی قرار دے دیا اور نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کردیا‘ حتیٰ کہ شرم الشیخ میں بھی پاکستانی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کردیا۔ کون ہے جو یہ بات بھول چکا ہو گا کہ یہ وہی ٹرمپ ہے جو اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسلحہ اور امداد فراہم کر تارہا اور جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کر تارہا ہے ۔ٹرمپ کے پیش کردہ ۲۰ نکاتی فارمولا میں بھی اسرائیلی مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے کہ حماس کو کسی نہ کسی طرح سےختم کیا جائے ‘ فلسطینیوں کو اسلحہ سے پاک کیا جائے۔ ایک ایسی لولی لنگڑی فلسطینی ریاست کی بات کی جارہی ہے جس کی نہ اپنی فوج ہو گی ‘ نہ اپنی پولیس ہوگی ‘ نہ اپنے دفاع کا انتظام ہوگا ۔ کیا محمود عباس کی نام نہاد فلسطینی اتھارٹی پہلے سے موجود نہیں ؟ کیا وہ فلسطینیوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کر سکی ہے ؟ قائداعظم نے کہا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے اور اس کو تسلیم کرنے کا مطلب ظلم اور جبر کی تائید کرناہے۔ دو ریاستی فارمولے کو تسلیم کرنے کا سادہ سا مطلب اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرناہے ۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی ثالثی دو بلیوں کی کیک پر لڑائی میں بندر کی ثالثی جیسی ہی ہے ۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ٹرمپ اس معاملے میں غیر جانبدار نہیں ہیں۔ وہ اسرائیل کے دیرینہ حلیف اور کئی مواقع پر خود اس جنگ کے فریق رہے ہیں ۔ایران پر حملوں میں اُن کی براہِ راست مداخلت اور اسرائیلی موقف کی غیر مشروط حمایت اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ اُن کا منصوبہ فلسطینیوں کے حق میں نہیں بلکہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا ہے۔جب ایک فریق بھاری اسلحہ اور غیرا علانیہ ایٹمی طاقت رکھتا ہو اور دوسرے سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ انصاف نہیں بلکہ جبر کی انتہا ہے۔ایسی ثالثی امن کو نہیں‘استحصال کو فروغ دیتی ہے۔
۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی حماس کی کارروائی کا نتیجہ یہ ضرور نکلا کہ کچھ عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پیچھے ہٹ گئے ‘ ورنہ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک اور اکثر غیر عرب مسلم ممالک بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے جال میں پھنس کر اسرائیل کو تسلیم کرنے والے تھے ۔ آج ٹرمپ نے دوبارہ وہی جال پھینکا ہے اور مسلم حکمران اِس جال میں پھنسے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہمارے حکمران اور مقتدر ادارے بھی قائداعظم کی پالیسی کی مخالفت کرتے ہوئے دوریاستی حل کی بات کر رہے ہیں ‘حالانکہ پاکستان کی شروع دن سے یہ پالیسی تھی کہ اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے شرم الشیخ میں منعقدہ تقریب میں محض اس لیے شرکت نہیں کی کہ وہاں اسرائیلی وزیراعظم بھی موجود ہوں گے حالانکہ ترکیہ اور اسرائیل میں روابط کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں‘ جبکہ ہمارے وزیراعظم صاحب قائد اعظم کی دی ہوئی پالیسی کو روند کر صدرٹرمپ کوامن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کے لیے وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ صحیح تر الفاظ میں بھاری بوٹوں نے اُنہیں وہاں پہنچایا تھا۔
کہا جارہا ہے کہ شرم الشیخ میں جاری کیے گئے اعلامیہ کے نتیجے میں اگر ایک فلسطینی ریاست قائم ہو جاتی ہے ‘(جو کہ پہلے سے موجود بھی ہے) اور اسرائیل اسےتسلیم کر بھی لیتا ہے تو فلسطینیوں کی اندرونی لڑائی ختم نہیں ہوسکتی۔ستمبر ۲۰۲۵ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو دو ریاستی قرارداد منظور ہوئی تھی ‘اُس کے بارے میں بظاہر تو یہی کہا جارہا ہے کہ یہ قرار داد آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان ہے مگر اس خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ دراصل ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست نہیں بلکہ ایسی ریاست ہے جس پر پی ایل او کا کنٹرول ہوگا اور پی ایل او کس کے کنٹرول میں ہے‘ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
امن فارمولا کے نام پر ٹونی بلیئر کوعبوری سیٹ اپ کاسربراہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کے ہاتھ عراق اور فلسطین کے مسلمانوں کے خون سے پہلے ہی رنگے ہوئے ہیں ۔
اِن حالات میں مسلم حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسلم ممالک کا اپنا اتحاد ناگزیر ہو چکا ہے ۔ اگر غیر مسلم قوتیں نیٹو کے نام سے اکٹھی ہو سکتی ہیں تو مسلم ممالک مشترکہ عسکری اتحاد کیوں نہیں بنا سکتے ؟ اگر آج بھی مسلم ممالک کھڑے نہیں ہوں گے تو کیا ٹرمپ‘ٹونی بلیئر یا نتن یاہو پر بھروسا کرکے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر بھروسا کرکے اور اُن کی جھوٹی سچی تعریفیں کرکے ان کے اپنے اقتدار محفوظ رہ سکتے ہیں تو یہ اُن کی بہت بڑی بھول ہے ۔
دنیا کو مشرقِ وسطیٰ میں اگر واقعی پائیدار امن چاہیے تو یہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا انصاف کے ترازو کو ایک طرف جھکنے سے روکے۔ فلسطینی عوام کو اُن کا حقِ خودارادیت دیا جائے اور اسرائیل کو سمندر بدر کر دیا جائے۔
تادمِ تحریر اسرائیلی جارحیت عارضی طور پر بند ہوچکی ہے اوراہلِ غزہ کے لیے امدادی راستے کھولے جاچکے ہیں ۔البتہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ جب یہ سطور شائع ہو کر قارئین تک پہنچیں‘ ماضی کے جنگ بندی کے معاہدے کی طرح خدانخواستہ بات پھر وہیں سے شروع ہوچکی ہو جہاں رُکی تھی۔ ہم نے ہنری کسنجر کی کہی ہوئی بات کو کبھی غلط ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اُس نے کہا تھا: ’’امریکہ سے اُس کے دشمنوں کو اتنا خطرہ نہیں ہوتا جتنا اُس کے دوستوں کو ہوتاہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ اور ہدایت عطا کرے ۔ آمین!