(ابوظبی سیریز) عظمت ِقرآن - ڈاکٹر اسرار احمد

13 /

عظمت ِقرآنڈاکٹر اسرار احمدؒ

تعارفی پس منظر (ازسید نسیم الدین)

میں سید نسیم الدین‘ جو بظاہر صرف نام کا ایک مسلمان ‘ نمازِ جمعہ کی ادائیگی ہی کو اپنی دینی وابستگی سمجھتا تھا۔ میرا دفتر ابوظبی شہر کے مضافات میں تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع تھا۔ روزانہ طویل ڈرائیونگ کے دوران عام طور پر گانے اور غزلیں سننا ایک معمول تھا ۔
کسی تقریب سے واپسی میں ایک صاحب نے (نام مجھے یاد نہیں‘ جس کا شدید قلق آج تک ہے) آڈیو کیسٹ رکھ دی۔ بے خیالی میں آفس جاتے ہوئے وہی کیسٹ چلا دی اور جیسے ہی تلاوتِ قرآن کی آواز کانوں سے ٹکرائی‘ خیال آیا کہ بند کردوں ‘لیکن بہرحال مسلمان تھا‘ تو سوچا کہ تلاوت ختم ہوجائے پھر بند کردوں گا۔ تلاوت کے بعد سوچا کہ تھوڑا سا سن لیتا ہوں کہ یہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ جیسے جیسے سنتا گیا ‘دل کی دنیا بدلتی گئی۔ یہ کیسٹ سورۃ العصر کے درس پر مشتمل تھی‘ جو کینیڈا کے رفقاء تنظیم کے سامنے بیان کیاگیا تھا۔ مقرر کوئی عام شخص نہیں بلکہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ تھے‘ جن کے نام کا علم مجھے بعد میں ہوا۔
یہ لمحہ میری زندگی کا نقطۂ انقلاب ثابت ہوا۔ خیال ہوا کہ جس شخص کی کیسٹ سن کر میرے اوپر اتنا گہرا اثر ہوا ہے وہ میرے سامنے بیان کرے تو میرے کیا احساسات ہوں گے! چنانچہ میں نے کیسٹ پر دیےگئے پتے پر خط لکھا۔ جواب میں جناب چودھری غلام محمد مرحوم و مغفور کا خط ملا جس میں مجھے ڈاکٹر صاحب کی کتب کے مطالعہ کی ترغیب دی گئی تھی۔ میں نے بھی جواباً خط لکھ کر تمام کتب منگوالیں۔ خطوط کا یہ تبادلہ کچھ عرصہ رہا لیکن بانی ٔ محترم رحمہ اللہ کے ابو ظبی آنے کے متعلق کوئی واضح بات کوشش کے باوجود سامنے نہیں آئی۔ بعد ازاں مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹرصاحب ہر ماہ کراچی درسِ قرآن کے لیے تشریف لے جاتے ہیں‘ اگر آپ کراچی میں ہوں تو ملاقات ہوجائے گی اور رابطہ کے لیے ایک ٹیلیفون نمبر بھی دیا گیا۔ میں نے بھی ابوظبی سے کراچی کا رخت ِسفر طے کیا اور ڈاکٹر صاحب کے آنے سے چند دن پہلے ہی کراچی آ پہنچا۔ کچھ گھریلو کام سے برنس روڈ کی طرف گیا تو وہاں ایک دکان پرجس میں بجلی کا سامان ملتا تھا‘ لکھا دیکھا کہ’’یہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی کتب اور کیسٹ دستیاب ہیں۔‘‘ دکان کے اندر گیا تو جناب عبدالواحد عاصم مرحوم و مغفور سے ملاقات ہوئی۔ ان سے سارا ماجرا کہہ سنایا تو انہوں نے ٹیلیفون نمبر کے متعلق دریافت کیا۔ نمبر دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ آپ کو رابطہ کے لیے جو نمبر دیا گیا ہے وہ میرا ہی ہے۔
شومئی قسمت کہ صحت کی خرابی کے باعث ڈاکٹر صاحب اس ماہ کراچی تشریف نہ لا سکے۔ میں بھائی عبدالواحد عاصم کے پاس دوبارہ حاضر ہوا تو انہوں نے وہاں تشریف فرما ایک اور صاحب شیخ جمیل الرحمٰن مرحوم و مغفور سے ملاقات کروادی ۔ شیخ جمیل الرحمٰن نے اسی وقت تقریباً پون گھنٹہ انٹرویو کے دوران میری ذاتی‘ خانگی‘ معاشرتی و معاشی حالات سے واقفیت کے بعد تسلی دی کہ آپ انتظامات کریں‘ ڈاکٹر صاحب ‘ان شاء اللہ‘ ابو ظبی تشریف لائیں گے جن کے ہمراہ مَیں اور قمر سعید قریشی صاحب بھی ہوں گے۔
میں اس وقت ابو ظبی میں پاکستان کلچرل سینٹر کااعزازی جنرل سیکرٹری تھا۔ یہاں پاکستان کے مختلف ثقافتی طائفے‘ علمی و ادبی شخصیات کی آمد ہوتی تھی‘ جو بعد ازاں شارجہ‘ دبئی اور متحدہ عرب امارات کے مختلف شہروں میں بھی جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دل میں آیا کہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے خطابات دس دن تسلسل سے پاکستان کلچرل سینٹر‘ ابوظبی ہی میں رکھے جائیں تا کہ سامعین کے سامنے ڈاکٹر صاحبؒ کا مکمل فکر آ سکے۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے اس کی منظوری بھی دے دی۔ ابو ظبی میں اشتہار یا بینر لگانا ممنوع تھا ‘ اس لیے کلچرل سینٹر کے ذریعے ممبران کو اس پروگرام کے خطوط لکھ دیے گئے۔ اس کے علاوہ تشہیر کا دوسرا ذریعہ صرف ٹیلیفون تھا ۔ بطور جنرل سیکریٹری میرا حلقۂ احباب بھی بہت وسیع تھا ‘تو میں نے ان سب حضرات و خواتین کو فرداً فرداًٹیلیفون بھی کردیا۔
دسمبر ۱۹۸۵ء میں مرد حضرات کے لیے ہال میں اور خواتین کے لیے ہال کے اوپر والے حصہ میں شرکت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پروگرام دس دن پر مشتمل تھا۔ جمعرات کے دن سے اس کا آغاز ہوا۔ جمعہ کے روز امارات میں چھٹی ہوتی ہے۔پہلے ہی دن تقریباً ایک ہزار کی گنجائش والا ہال تنگی ٔداماں کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے خطاب شروع کرنے سے قبل سامعین سے ارشاد فرمایا’’کل چونکہ چھٹی کا دن ہے اس وجہ سے آپ لوگ آج زیادہ آ گئے۔‘‘احتیاطاً دوسرے دن کے لیے ہال کے دونوں طرف کے برآمدوں میں بھی ٹیلی ویژن کا اہتمام کردیا گیا ‘ لیکن لوگوں کی حاضری میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ اس لیے میدان میں بھی انتظام کرنا پڑا ۔ حاضرین کی اتنی بڑی تعداد پاکستان کلچرل سینٹر میں پہلے کسی موقع پر نہیں ہوئی تھی۔
اسی موقع پر ایک بہت اچھے دوست وقار صاحب نے اپنے ذاتی کیمرے سے پروگرام ریکارڈ کیا۔ — یہی ریکارڈنگ اس دور میں تنظیم اسلامی کی پہلی کوالٹی ویڈیو ریکارڈنگ قرار پائی۔ اس وقت ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ریکارڈنگ دعوتی حوالے سے کتنی مؤثر ثابت ہو گی!
ادارہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے مقررین کی میزبانی میری ذمہ داری تھی ۔اس لیے نو روزہ پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر صاحبؒ کی خواہش پر ابوظبی میں موجود تنظیم کے پرانے رفیق سرفراز چیمہ صاحب (جوالحمداللہ حیات ہیں) کے ڈیرے پر ڈاکٹر صاحبؒ اور ان کے ہمراہیوں کو لے کر جانا ہوا۔ احباب نے ڈاکٹر صاحبؒ کے ہاتھ پر بیعت کی(طویل وقت گزرجانے اور یادداشت کے ساتھ نہ دینے کے باعث کوئی اندازہ بھی نہیں ہے کہ یہ کتنے احباب تھے) اور ڈاکٹر صاحب نے وہاں پرانے (جن کی تعداد پانچ تھی) اور نئے رفقاء سے خطاب بھی کیا۔ اگلے دن ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا: نسیم الدین صاحب!میں نے جو کچھ نو راتوں میں بیان کیا‘ آپ کو سمجھ میں آیا ہے؟‘‘میں نے جواب دیا : ’’جی ہاں!‘‘ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ’’تو پھرآپ نے بیعت کیوں نہیں کی؟‘‘میں نے چند لمحوں کے تامل کے بعد کچھ باتیں کہیں جو مجھے اب یاد نہیں ہیں‘ البتہ ان ہی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ میں اس حوالہ سے کچھ اور لوگوں کو بھی پڑھنا اور سننا چاہتا ہوں لیکن بیعت کرنے کے بعد نہ انہیں پڑھ سکوں گا اور نہ سن سکوں گا۔اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ وہ تو آپ بیعت کرنے کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں‘ سمجھ سکتے ہیں۔ بیعت کرنے کے بعد کسی اور کو سننا یا پڑھنا ممنوع نہیں ہے۔ چندلمحوں کے تامل کے بعدالحمدللہ مجھے انشراح حاصل ہوا اور میں نے بھی بیعت کی سعادت حاصل کرلی —۔ یوں اللہ تعالیٰ نے میرے لیے دین کے صحیح تصور اور مقصد ِزندگی کو سمجھنے کے لیے ایک نیا باب کھول دیا۔
اسی دورے میں ڈاکٹر صاحبؒ کا ایک خطاب دوستوں کی مدد سے ابوظبی ریڈیو پر بھی نشر ہوا۔ابو ظبی ریڈیو انتظامیہ نے پروگرام کی مد میں کچھ رقم پیش کی‘ جسے ڈاکٹر صاحبؒ نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔جب ریڈیو کی انتظامیہ نے بھی رقم واپس لینے سے انکار کیا تو ڈاکٹر صاحبؒ نے میرے ہی ذمہ یہ کام لگایا کہ’’یہ رقم دین کے کام میں لگائی جائے۔‘‘
ڈاکٹر صاحبؒ کے اس نو روزہ پروگرام کے بعد ہی پہلے ابو ظبی میں اور بعد ازاں دیگر شہروں دبئی‘ شارجہ‘ العین وغیرہ میں دروسِ قرآن کی محافل ہفت روزہ/ ماہانہ بنیادوں پر قائم ہوئی تھیں۔ راقم کی رہائش گاہ پر بھی خواتین کے لیے ہفت روزہ بنیادوں پر حلقہ قرآنی قائم ہوگیا۔واقعی‘ یہ تمام سلسلہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کے بغیر ممکن نہ تھا۔
آج بھی اُس دور کی ویڈیوز کے ذریعے دین کا جامع تصور واضح طور پر دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔ —ابوظبی میں ہونے والی یہ ویڈیو ریکارڈنگز تنظیم اسلامی کی تاریخ میں ایک سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ پہلی ویڈیوز تھیں جن کے ذریعے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے افکار و پیغامِ قرآن کو عالمی سطح پر پہنچنے کا موقع ملا۔ ان بیانات میں دین اسلام کا جامع اور انقلابی تصور نہایت واضح انداز میں پیش کیا گیا‘ جس نے ہزاروں افراد کے فکر و عمل پر اثر ڈالا۔ ان ویڈیوز نے تنظیم کی دعوتی و فکری شناخت کو مضبوط کیا‘ نئے رفقاء کے لیے تربیت کا مؤثر ذریعہ فراہم کیا‘ اور آئندہ نسلوں کے لیے استقامت‘ اخلاص اور حکمت ِدعوت کا عملی نمونہ چھوڑا۔ آج بھی یہ ریکارڈنگز قرآن حکیم کے پیغام کو سمجھنے اور دین کے تصور کو اجاگر کرنے میں بے حد نافع ہیں۔
الحمد للہ‘ ایک آڈیو کیسٹ کے ذریعے میری زندگی میں جو تبدیلی واقع ہوئی‘ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس پر استقامت عطا فرمائے اور اس تبدیلی میں جن جن لوگوں کا حصہ رہا‘ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔ بالخصوص بانی محترم رحمہ اللہ جن کی غیر معمولی شخصیت نے اپنے بیان اور عمل کے ذریعے مجھے اس دنیا کی حقیقت سے آشنا کیا اور حقیقی مقصد ِزندگی کی طرف مائل کیا۔

 

خطبہ مسنونہ کے بعد:

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ --------- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
فقال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فی سورۃ الرحمٰن:

{اَلرَّحْمٰنُ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَ(۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴)}
وقال اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فی سورۃ یونس:
{یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷) قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (۵۸) }
وقال اللّٰہ تعالیٰ فی سورۃ الحشر:
{ لَــوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْـتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ ط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَـعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(۲۱) }
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمِ
عَنْ عُثْمَان بْنِ عَفَّانَ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ:
((خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہُ)) (متفق علیہ)
•عن عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ :
((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ))(صحیح مسلم)
• وَعَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ :
((اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ)) قُلْتُ: مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ؟ قَالَ: کِتَابُ اللّٰہِ، فِیْہِ نَبَأُ مَا قَبْلَکُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ، وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ ...... مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ، وَمَنْ حَکَمَ بِہٖ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا اِلَیْہِ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ))

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ

آج کی گفتگو نو روزہ سلسلہ وار پروگرام کے لیے بطورِ تمہید ہے۔ ہمیں ان شاء اللہ ایک منطقی ترتیب کے ساتھ قرآن مجید کے چند مقامات کا مطالعہ کرنا ہے۔ لہٰذا آج کا موضوع ’’عظمت ِقرآن‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس کے ضمن میں قرآن مجیدکے کچھ پہلو تو وہ ہیں جن کا اقرار و اعتراف غیرمسلموں کو بھی ہے لیکن ساتھ ہی کچھ پہلو ایسے ہیں جن کا ادراک و شعور صرف صاحبِ ایمان ہی کو حاصل ہو سکتا ہے۔ آج کی گفتگو کا آغاز اُن نکات سے کیا جائے گا جن کا اعتراف غیر مسلموں نے ڈنکے کی چوٹ پر کیا۔
اصل متن کی حفاظت
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جتنی بھی کتابوں کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ آسمانی یا الہامی ہیں یا جتنی کتابوں نے خود دعویٰ کیاہے کہ وہ اس کائنات کے خالق کے کلام پر مشتمل ہیں‘ ان میں سے صرف ایک یعنی قرآن مجید ہی ایسی کتاب ہے جس کی حجیت (integrity) اور حقانیت (authenticity) پرآج تک قطعاً کوئی حرف نہیں رکھا جاسکا۔باقی کوئی کتاب اپنے اصل متن (text)کے ساتھ آج محفوظ نہیں۔ مثلاً تورات کے بارے میں قرآن مجید تصدیق کرتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب تھی :
{اِنَّــآ اَنْزَلْـنَا التَّوْرٰىۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُــوْرٌج } (المائدۃ : ۴۴)
’’بے شک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا۔ ‘‘
لیکن اس کے ماننے والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ تورات کا اصل نسخہ پوری دنیا میں آج کہیں بھی موجود نہیں۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں جب یروشلم تباہ و برباد ہوگیا تھا‘ اُس کے بعد سے یہود تقریباً ۱۵۰ برس تک جلا وطنی کے عالَم میں رہے ۔پھر جب وہ بابل سے واپس آئے تو اُن میں سے کچھ لوگوں نے اپنی یاد داشت سے تورات کو مرتّب کیا۔ گویا یہ بات تورات کے ماننے والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ اس کےاحکامِ عشرہ (Ten Commandments) جوپتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے دیے گئے تھے‘ اُن کا آج دنیا میں کہیں وجود نہیں ہے۔
اسی طرح کا معاملہ انجیل کا ہے۔قرآ ن مجید تسلیم کرتا ہے کہ انجیل بھی اللہ تعالیٰ کی کتاب تھی:
{وَاٰتَـیْنٰـہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ہُدًی وَّنُوْرٌ}(المائدۃ :۴۶)
’’اور ہم نے اُسے انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا۔‘‘
لیکن وہ اصل انجیل آج دنیا میں کہیں نہیں ہے بلکہ چار اناجیل پائی جاتی ہیں۔میں نے زمانہ طالب علمی میں جب ایک پادری صاحب سے سوال کیا: ان چار میں سے بائبل کون سی ہے؟ تو انہوں نے انتہائی ذہانت سے جواب دیا: ان میں سے کوئی بائبل نہیں لیکن بائبل ان میں ہے۔ بہرحال یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان یا تو عبرانی تھی یا آرمینائی لیکن آج دنیا میں ان دونوں زبانوں میں انجیل کا کوئی نسخہ موجود نہیں۔ جو سب سے قدیم نسخہ ہے ‘وہ بھی یونانی ترجمہ ہے لیکن ترجمہ کبھی اصل ہو ہی نہیں سکتا‘ کیونکہ کسی بھی کتاب کو کسی دوسری زبان میں جوں کا توں منتقل کرنا ممکن ہی نہیں۔اسی وجہ سے بر صغیر پاک و ہند میں علماء کرام ایک طویل عرصہ تک قرآن مجیدکے ترجمہ کرنے کی مخالفت کرتے رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی توجہ تراجم کی طرف ہو جائے اور اصل متن کی طرف سے ہٹ جائے۔ لہٰذا جب پہلی مرتبہ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فارسی میں قرآن مجیدکا ترجمہ کیا تو بعض علماء نےاُن کے خلاف باقاعدہ شورش برپا کی کہ ا ُن کو قرآن مجیدکا ترجمہ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔
بہر حال ان دونوں کتابوں کے بارے میں ان کے اپنے ماننے والےاِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اصل کتاب اب کہیں نہیں ہے جبکہ دُنیا میں سب نے تسلیم کیا ہےکہ قرآن مجید واحد کتاب ہے جوحضرت محمدﷺ نے اپنی اُمت کو عطا کی ہے‘ چاہے وہ یہ نہ مانیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ یعنی’’ اللہ تعالیٰ نے اسے محمد رسول اللہﷺ پر نازل فرمایا‘کیونکہ اس صورت میں تو وہ مسلمان کہلائیں گے۔بے شمار مستشرقین نے اس بات کو تسلیم کیا ہےکہ قرآن حکیم کا متن (text) محفوظ ہے۔ اس کی integrity اور authenticity کے بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ یہاں تک کہ اگر اس کی قراءت (mode of recitation) میں بھی ذرا سا فرق ہے تو اسے بھی محفوظ رکھا گیا۔آج بھی سبعہ قراءت اور عشرہ قراءت کے قاری ملتے ہیں جو کہ اپنی جگہ پر ایک فن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جو شخص اسے جیسے چاہے پڑھ لے‘ بلکہ اس کا ایک ایک شوشہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔ پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اس کی حفاظت کاذریعہ اس کا حفظ ‘ اس کا لوگوں کے سینوں میں جمع ہوجانا ہے۔ خود نبی اکرمﷺ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ(۱۶) اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ(۱۷) فَاِذَا قَرَاْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ(۱۸) ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ(۱۹)}(القیٰمۃ)
’’( اے نبی ﷺ!) اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت مت دیا کریںـ ۔ بے شک ہمارے ذمہ ہے اس قرآن کو جمع کر دینا اور اس کو پڑھوا دینا۔ پھر جب ہم قرآن کو پڑھا کریں توآپ اس کے پڑھنے کی پیروی کیا کریں۔پھر ہمارے ذمہ ہے اس کی وضاحت بھی۔‘‘
ایک غلط فہمی کا ازالہ
ہمارے ذہن میں ایک مغالطہ ہے اور اس کی وجہ سے دشمنوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ہماری مسجدوں میں جمعہ کے خطبات میں قافیہ ملانے کی کوشش میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کےساتھ ’’جامِعُ آیاتِ القُرآن‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس طرح کسی کو کہنے کا موقع مل سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں آ کر قرآن مجید کو جمع کرنے کا کام ہوا‘ حالانکہ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے۔اصل میں انہوں نے تو ایک کتا بت شدہ نسخہ پر اُمّت کو جمع کیا تھا۔ جمع قرآن کا کام تو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لیا۔ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کسی صحابی یا رسول اللہﷺ پر بھی نہیں چھوڑا بلکہ خود اس کو حضرت محمدﷺ کے سینہ میں محفوظ فرمایا۔ حضورؐ ہر رمضان المبارک میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے تھے جبکہ اپنی حیاتِ دنیوی کے آخری رمضان المبارک میں حضرت جبریلؑ کے ساتھ دومرتبہ پورے قرآن مجید کا دور کیا ہے۔ ظاہرہے کہ قرآن مجیداُسی وقت جمع ہو کر مرتب ہو چکا تھا۔البتہ اولاً قرآن مجید حضورﷺ کے سینہ میں جمع کیا گیا‘پھر یہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سینوں میں جمع ہوا۔اُس وقت کاغذ بہت نایاب تھا ‘اس لیے حضورﷺ کے انتقال کے وقت قرآن مجید کتابی شکل میں(مَا بَیْنَ الدُّفَّتَیْنِ) تو نہیں تھا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے پاس کچھ کتابت شدہ اوراق موجود تھے۔ کسی کے پاس اونٹ کے شانہ کی ہڈی پر ‘ کسی کے پاس جھلی پر اور دوسری چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور ہی میں قرآن مجیدکوکتابی صورت میں جمع کردیا گیا تھا۔ جب جنگ یمامہ میں بہت سارے حفاظ شہید ہو گئے تو تشویش پیدا ہوئی کہ قرآن مجید کی حفاظت کیسے ہوگی! تب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ سے ایک بورڈ مقرر کیا جس میں اُن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کیا جو حضورﷺ کے زمانہ میں کتابت ِوحی کی ذمہ داری انجام دیتے تھے اور پھر اُن سب نے قرآن مجیدکو کتابی شکل میں جمع کردیا۔
ہر بڑی زبان کی طرح عربی زبان میں بھی کچھ بولیاں (colloquials) رائج تھیں‘جن کے حوالہ سے حضورﷺ نے رعایت دی تھی کہ لوگ مختلف لہجوں میں قرآن مجید پڑھتے تھے۔ البتہ اس سے یہ اندیشہ ہوا کہ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف نہ ہوجائے ۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مصدقہ(authentic) نسخہ کتابی شکل میں تیار کیا تاکہ اس کے بعد دنیا میں صرف یہی رہے ۔ باقی سارے نسخوں کو تلف کر دیا گیا تاکہ لہجے کا کوئی اختلاف بھی باقی نہ رہے۔ اس اصل نسخہ کی جوچار نقول (copies) تیار کی گئیں ‘ وہ آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک نسخہ وہ ہے جس سے حضرت عثمانؓ اپنی شہادت کے وقت تلاوت فرما رہے تھے اور اس پر اُن کے خون دھبے موجود ہیں۔اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمانوں کو ایک کتابت شدہ نسخہ پر جمع کردیا گیا۔ آج اُمّت ِمسلمہ میں حفاظت ِقرآن کے عمل میں بہت بڑے پیمانہ پر حفاظ حصہ لے رہے ہیں۔ دنیا میں کوئی اور کتاب ایسی نہیں جس کے لا کھوں حفاظ موجود ہوں۔ بعض ممالک میں آٹھ‘ دس سال کے حافظ بچے بڑوں کی تصحیح کر دیتے ہیں ۔اس طرح قرآن مجید کا ایک ایک شوشہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی عظمت و فضیلت کے ضمن میں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جن کتابوں کو بھی آسمانی ہونے کا دعویٰ ہے ‘ان میں قرآن مجید واحد کتاب ہے جس کا متن محفوظ ہے۔ دنیا میں کوئی اورکتاب ایسی نہیں جو یہ دعویٰ کر کے قرآن مجید کے مقابلہ میں آسکے۔ اس حقیقت کے ادراک و شعور کے لیے قرآن مجید پر ایمان لازم نہیں‘ بلکہ اس کا اعتراف ہر شخص کرنے پر مجبور ہے خواہ وہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانتا ہو یا نہ مانتا ہو۔
انقلاب کا آلہ
قرآن مجید کی عظمت کے ضمن میں دوسری بات جو کہ پوری دنیا کو ماننی پڑے گی اور اصحابِ دانش و بینش مانتے بھی ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق کسی زمانہ قبل از تاریخ (pre-historic era) سے نہیں۔حضورﷺ کی شخصیت کا ظہور صرف ۱۴۰۰ برس قبل ہواجبکہ تاریخ کانصف النہار(the very mid-day of history) تھا۔ چنانچہ آپﷺ کی شخصیت کا کوئی پہلو بھی پردہ ٔاخفا میں نہیں۔ہرشخص یہ ماننے پر مجبور ہے کہ آپ ﷺنے تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا کیا۔
موجودہ دور میں مشاہیر عالم کے موضوع پر امریکہ میں ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے ایک منفرد( unique)کتاب’’ The Hundred‘‘ تصنیف کی جس میں پوری انسانی تاریخ کی ۱۰۰ عظیم ترین شخصیات کا انتخاب کیا گیااور پھران کی درجہ بندی قائم کی گئی۔یہ ترتیب تاریخی اعتبار سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے کی گئی کہ ان میں عظیم ترین انسان کون ہے! اُس نے نمبر ایک پرجس شخصیت کو رکھا ‘ وہ ہیں حضرت محمدﷺ ۔ اُس نے کہا کہ لوگ میری تصنیف میں محمد(ﷺ) کا ذکر پہلے نمبر پر دیکھ کر حیران ہوں گے(اس لیے کہ وہ خود عیسائی ہے )‘چنانچہ اس نے وضاحت یوں پیش کی :
" He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels." 

’’(محمدﷺ )تاریخ میں نسلِ انسانی کی وہ واحد شخصیت ہیں جومذہبی اور سیکولر دونوں سطح پر پوری طرح انتہائی کامیاب ہیں۔‘‘
دراصل آج کے انسان نے زندگی کے دو خانے اپنے ذہن میں قائم کر لیے ہیں۔ ایک کو وہ مذہبی خانہ کہتا ہے جسے انفرادی زندگی سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً عقائد‘ عبادات‘ خوشی غمی کے مواقع کی رسومات (پیدائش‘ فوتیدگی وغیرہ)۔ دوسرا خانہ سیکولر سمجھا جاتا ہے جو سیاست‘ معیشت‘ تمدن ‘ قانون‘ عدالت وغیرہ سے متعلق ہے۔ اس میں اُن کے خیال میں کسی مذہب کی بات نہیں ہونی چاہیے بلکہ جو بھی اُس ملک کے رہنے والوں کی اکثریت کی رائے ہو ‘اُسی کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔ اسلام کے نزدیک انسانی زندگی ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ایک حیاتیاتی اکائی (organic whole) ہے جس کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔جدید ذہن رکھنے کے باوجود مائیکل ہارٹ نے جو سب سے بڑی تحسین (tribute)ہو سکتی ہے‘ وہ حضورﷺ کو پیش کر دی۔ اُس نے کہا کہ پوری انسانی تاریخ میں ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب انسان صرف ایک ہیں اور وہ ہیں محمد(ﷺ)‘ بلکہ ان کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ اُن کی زیادہ عظمت مذہبی میدان میں ہے یا سیکولرمیدان میں۔ دُنیا میں اور جو بھی عظیم شخصیات نظر آئی ہیں ‘وہ یک رُخی ہیں۔ یا اِس اعتبار سے عظیم یا اُس اعتبار سے۔جو شخصیات دین میں ‘مذہب میں‘ روحانیت میں‘ اخلاقیات میں عظمت کی حامل ہیں جیسے حضرت مسیح علیہ السلام یا گوتم بدھ ‘ان کا سیاست میں کوئی دخل نہیں۔وہ کوئی انقلاب برپا نہیں کر سکے‘کوئی نئی حکومت قائم نہیں کی۔ اس کے برعکس سکندر اعظم‘ چنگیز خان‘ ہٹلر ہیں جن کی فتوحات جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہیں‘ یعنی مشرق سے مغرب یا مغرب سے مشرق تک ‘لیکن مذہب و اخلاق کے میدان میں انہیں صرف صفر دینے سے بھی کام نہیں چلتا بلکہ کوئی minus value معین کرنی پڑتی ہے۔ یقیناً محمد عربیﷺ ہی کی واحد شخصیت ہے جن کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی زیادہ عظمت مذہبی میدان میں ہے یا سیاسی و ملکی میدان میں۔ ایک نئی تہذیب‘نیا تمدن‘ نیا طرز حکومت‘ نیا نظام معیشت‘ نیا سماجی و معاشرتی نظام‘نیا قانون ‘غرض یہ کہ زندگی کے ہر اعتبار سے ایک انقلاب برپا کیا۔ یہ ہے محمدﷺ کا وہ کارنامہ جس کو غیر مسلم بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
اس حوالہ سے ایک اور مثال ہندوستان کے ایک اہم اشتراکی کارکن ایم این رائے (۱۸۸۷۔۱۹۵۴ء) کی ہے‘ جس نے اپنی کتاب "The Historical Role of Islam" میں تسلیم کیا ہے کہ تاریخ انسانی میں عظیم ترین انقلاب محمد ﷺ نے برپاکیا۔ آج کا موضوع اگرچہ سیرت النبیﷺ کے حوالہ سے نہیں بلکہ عظمت ِقرآن ہے‘البتہ جس بات کی جانب توجہ دلانی مقصود ہےوہ یہ ہے کہ اس عظیم ترین انقلاب کے لیے حضورﷺ کا آلۂ انقلاب قرآن مجیدہی تھا۔؎
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
اس قرآن کے ذریعہ لوگوں کے ذہن بدلے‘ سوچ بدلی‘عقائد بدلے‘ نقطۂ نظر بدلا۔اُن کا value structure تبدیل ہو گیا۔ پہلے زندگی عزیز ترین متاع شمار ہوتی تھی‘اب موت سب سے بڑھ کر خوش آئند ہو گئی: ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت‘ نہ کشور کشائی
سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنُ وَجَاھِدْہُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا(۵۲)}
’’(اے نبیﷺ) آپ ان کافروں کی بات نہیں مانیے اور اس (قرآن )کے ذریعہ ان سے جہادکیجیے۔‘‘
اصل میں حضرت محمدﷺ نے جو انقلاب برپا کیا ‘ اس کا آغاز تو قرآن مجید سے ہوا لیکن اس کی تکمیل تلوار کے ذریعہ ہوئی۔درحقیقت سب سے پہلے تبدیلی تو انسان کی سوچ میں ‘ اس کے نقطۂ نظر میں آتی ہے ۔پھر انسان کے کردار وشخصیت میں ‘اُس کے شب و روز کے انداز میں انقلاب آتا ہے۔ حضرت محمدﷺ نے تو فرد واحد کی حیثیت میں دعوت کا آغاز فرمایا۔ ان کے پاس اصل تلوار قرآن مجید ہی کی تھی۔ اسی سے ذہنوں میں تبدیلی آئی‘ عقائد و نظریات بدلے‘ لوگوں کا تزکیہ ہوا اور اسی کو اُن کے اندر اُتارا۔ عظمت ِ قرآن کے ذکر میں علامہ اقبال ایک فارسی شعر میں فرماتے ہیں:
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود!
’’جب یہ قرآن کسی کے اندر اتر جاتا ہے تو اس کی شخصیت میں انقلاب آجاتا ہے۔ اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے۔‘‘
پہلے وہ سمجھتا ہو گا کہ یہ کائنات خود بخود (by an accident ) وجود میں آئی ہے۔ اندھا‘ بہرہ مادّہ اسے چلا رہا ہے۔اب وہ سمجھتا ہے کہ ایک اللہ ہے جو عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ، بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ، الْحَیُّ الْـقَـیُّـوْمُ ہے جس نے اس کائنات کو بنایا ہے اور اسے چلا رہاہے۔ جو مدبر ہے : {یُدَبِّرُالْاَمْرَمِنَ السَّمَاءِ اِ لَی الْاَرْضِ} (السجدۃ:۵) پھر یہ کہ اس سے پہلے وہ حیاتِ دُنیوی کے بارے میں وہی سمجھتا ہوگا جو کہ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے اس شعر میں کہا: ؎
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے‘ دو انتظار میں!
یعنی کُل زندگی محض ۳۰‘ ۴۰‘ ۵۰‘۶۰‘ ۷۰برس کی ہے۔ اس حوالہ سے قرآن مجید کے فلسفہ کی ترجمانی علامہ اقبال نے یوں فرمائی: ؎
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم دواں ‘ہر دم جواں ہے زندگی!
زندگی ایک ابدی سلسلہ ہے‘اس کا کوئی اختتام نہیں۔ جسے ہم موت کہتے ہیں‘وہ The end نہیں۔ یہ زندگی کا ایک وقفہ ہے۔ انسانی سوچ و فکر کے اس انقلاب کے نتیجہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک مخلص (dedicated)اورپُر عزم (committed) جماعت تیار ہوئی جو آخرت کے طالب تھے۔ اللہ کے عاشق‘ محمدﷺ کے دیوانے‘ تن من دھن قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار تھے۔آپﷺ کے چشم وابرو کی جنبش اُن کے لیے حکم کے درجہ میں تھی جس کی وہ لازماً تعمیل کرتے تھے۔ اسی کے لیے انہوں نے اپنی گردنیں کٹوا دیں‘ اپنے گھر اُجڑوا دیے‘ اپنا جو بھی دنیاوی اثاثہ تھا وہ قربان کر دیا‘ تب کہیں جا کر انقلاب آیا۔ یہ جو شخصیتیں تیار ہوئیں‘ ان کی تیاری کا ذریعہ قرآن مجید ہی تھا۔
نبی اکرمﷺ کا اصل معجزہ
تاریخ ِانبیاء کے ضمن میں بھی بڑی عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے اصل معجزات دو تھے: عصائے موسیٰ اور ید ِبیضا۔ ویسے قرآن مجید نے ان کے نو معجزات بتائے ہیں: { وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْ سٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ  بَیِّنٰتٍ} ( بنی اسرائیل:۱۰۱) ’’اور ہم نے یقیناً موسٰی کو نو کھلے کھلے معجزات عطا کیے‘‘جو فرعون اور آلِ فرعون کو دکھائے گئے۔ پھر یہ کہ ان کے عصا کی ضرب سے سمندر کا پھٹ جانا‘ ایک چٹان سے بارہ چشموں کا پھوٹ بہنا ‘ منّ و سلویٰ کا نزول‘ صحرا میں بادلوں کا سایہ نمایاں معجزات ہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو احیائے موتیٰ اور خلق ِحیات کے بڑے بڑے معجزات عطا ہوئےجو خالص اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں۔ اصل میں ’’معجزہ‘‘ عاجز کر دینے والی شے کو کہتے ہیں۔ یوں تو اولیاء اللہ کی کرامات کےبھی ہم قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی نیک بندے کے مقام و مرتبہ کے اظہار کے لیے کسی وقت کوئی ایسی چیز ظاہر کر دے جو قانونِ طبیعی کے خلاف ہو ۔یہ کراماتِ اولیاء یقیناً حق ہیں اور جب ان کے لیے اس درجہ کی کرامات ہیں تو انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے تو یقیناً اس سے بڑھ کر ہوں گی۔دراصل نبی یا رسول کا اصل معجزہ وہ ہوتا ہے جس کو وہ چیلنج کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ یہ ہے میری رسالت کاثبوت!آؤ اس سے مقابلہ کرلو۔ سیرتِ مبارکہﷺ میں ہمیں بے شمار خرقِ عادت واقعات ملتے ہیں لیکن قرآن بار بار کہتا ہے کہ محمدﷺ کا اصل معجزہ صرف اورصرف قرآن مجید ہے۔اِسی کو باربار پیش کیا گیا کہ آؤ اس کا مقابلہ کرلو۔
یہاں پر ایسا کوئی مغالطہ نہ ہو کہ حضورﷺ کے بقیہ معجزات کی نفی کی جا رہی ہے۔یہ خرقِ عادت واقعات اپنی جگہ پر حق ہیں کہ حضورﷺ کو پتھراور درخت بھی سلام کرتے تھے۔ جب مسجد نبویؐ میں لوگوں کی تعداد میں اضافہ کے سبب ایک منبر بنایا گیا اور آپ ﷺنے پہلی باراس پر قدم مبارک رکھا تو جس کھجور کے سوکھےتنےکے ساتھ حضورﷺ ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے اُس سے ایسی آواز آنے لگی جیسے بچہ بلک بلک کررو رہا ہوتا ہے کہ جو سعادت آج تک مجھے حاصل رہی تھی‘ اُس سے میں محروم ہو گیا۔ یہ انبیاء کرام علیہم السلام کا اعلیٰ مقام ہے۔ اسی لیے مولانا روم ؒنے فرمایا:
فلسفی کُو منکر حنانہ است
از حواسِ انبیاء بیگانہ است!
’’فلسفی (عقلیت پرست انسان )تو حنانہ کا انکار کردے گا (کہ کیسے ممکن ہے کہ سوکھے تنے سے بچے کے بلکنے جیسی آواز آئے ) اس لیے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کے خصوصی احوال اور مقام و مرتبہ سے واقف ہی نہیں۔‘‘
اِس قسم کے خرقِ عادت واقعات حضورﷺ کی زندگی میں بے شمار ہو ئے لیکن آپ ﷺ کا وہ معجزہ جس سے تحدی کے ساتھ‘ چیلنج کے انداز میں کہا گیا کہ آؤ مقابلہ کرو‘ وہ صرف اور صرف قرآن مجید ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل (آیت ۸۸ )میں تمام جِنّ و اِنس کو اس جیسا قرآن لانے کا چیلنج دیا گیا۔ فرمایا:
{قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّـاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا(۸۸) }
’’کہہ دیجیے :اگر تمام انسان اور جِنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ اِس جیسا قرآن لے آئیں‘ہرگزنہیں لا سکیں گےاس کے جیسا‘چاہے وہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔‘‘
اس سے آگے بڑھ کر سورئہ ہود( آیت ۱۳ )میں یہ بات کہی گئی :
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ ط قُلْ فاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۱۳)}
’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے (یہ قرآن) خود گھڑ لیا ہے! تو آپ کہہ دیجیے کہ تم لے آؤ اِس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں اور تم بلا لو جس کو تم بلا سکو سوائے اللہ کے اگر تم سچے ہو۔‘‘
یعنی اگر پورا قرآن نہیں لا سکتے تو کم از کم اس قرآن مجیدکی طرح کی دس سورتیں ہی تصنیف کر کے لے آئو۔ جب اس کا بھی جواب نہیں دیا جا سکا تو بر سبیل ِتنزل سورۃ یونس (آیت۳۸)میں کہا گیا:
{اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ ط قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۸)}
’’کیا وہ کہتے ہیں کہ اس کو پیغمبرؐ نے خود گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجیے پھر تم اس کے جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ اور بلا لو جس کو بلا سکو‘ اللہ کو چھوڑ کر اگر تم سچے ہو۔‘‘
پھر ہجرت کے بعد مدنی دور میں سورۃ البقر ۃ میں اس موضوع کو دُہرا دیا گیا :
{وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ ص وَادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۲۳) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّـقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُج اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ(۲۴)}
’’ اگر تمہیں کوئی شک ہے اس کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا (کہ یہ محمد ﷺ کا کلام ہے یا کوئی اور انسان ہے جو انہیں سکھا پڑھا رہا ہے)تو تم اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ (چاہے سورۃ العصر یا سورۃ الکوثر کی طرح تین آیات کی ہو) اور بلا لو اپنے حمایتیوں کو اللہ کو چھوڑ کراگر تم سچے ہو۔اور اگر ایسا نہ کرسکو‘ اور ہرگز نہیں کر سکو گے‘ تو پھر ڈرو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘ جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
بہرحال اس تاریخی حقیقت کا کوئی کافر بھی انکار نہیں کرسکتا وہ قرآن مجید سے اِس درجہ مرعوب ہوئےکہ سرے سے اس چیلنج کو قبول کرنے کی کوئی بھی شخص جرأت نہیں کر سکا۔ حضورﷺ کا اصل معجزہ جو آج تک زندہ ہے وہ قرآن مجید ہی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات اُن کی اپنی ذات کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔ عصائے موسیٰ کئی سو برس تک تابوتِ سکینہ میں رکھا رہا لیکن پھر وہ محض سوکھی لکڑی تھا‘ معجزہ نہیں رہا۔ حضرت محمدﷺ کی رسالت دائمی ہے یعنی تا قیامِ قیامت ‘لہٰذا آپﷺ کا معجزہ بھی نہ صرف آج تک موجودہے بلکہ دائمی ہے۔
فصاحت و بلاغت
قرآن مجید کے اعجاز کے تین پہلو ہیں۔پہلا پہلو اس کی فصاحت و بلاغت‘ اس کی ادبیت و چاشنی ہے۔اس کا شعور و اِدراک اور اصل اندازہ اُسی دور کے عربوں کو ہو سکتا تھا کیونکہ قرآن مجیدان کی اُس وقت کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ اس زبان کے فصحاء‘ بلغاء‘ شعراء ‘خطباء کو اتنا زعم تھا کہ وہ باقی پوری دنیا کو عجمی یا گونگا کہتے تھے۔ سمجھتے تھے کہ بولنا ہمیں آتا ہے‘ شعر و خطبہ کہنا ہمیں ہی آتا ہے۔اُن کا دعویٰ تھا کہ دوسروں کے کلام میں نہ فصاحت و بلاغت ہے ‘نہ کوئی چاشنی اور شکوہ۔ اُن کے سبعہ معلقہ میں سے آخری شاعر حضرت لبید بن ربیعہ عامری( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) تھے جو ایمان لے آئے تھے۔جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ اُن سے سوال کیا کہ اب آپ شعر کیوں نہیں کہتے‘ تو انہوں نے کہا : أَبَعْدَ الْقُرْآن؟ کیا اب قرآن کے بعد؟ قرآن مجیدتو فصاحت و بلاغت کی ایک معراج ہے جس تک کسی انسان کی رسائی ممکن نہیں۔ اس کی فصاحت و بلاغت اور ادبیت کا در حقیقت اہلِ زبان ہی کو ادراک ہو سکتا ہے۔جو تراجم سے پڑھتے ہیں‘ چاہے کتنی ہی صرف و نحو یا گرامر پڑھ لیں‘ واقعہ یہ ہے کہ الفاظِ قرآنی کی feeling کوعجمی لوگ اُس طور سے محسوس نہیں کر سکتے جیسا کہ اہل ِ زبان اس کو سمجھ سکتے ہیں‘ خاص طور پر جیسا کہ اُس زمانہ کے اہل ِزبان نے سمجھا۔ عربی جو ایک فصیح زبان ہے ‘وہ جوں کی توں اپنی اصل پر قائم ہے۔ ایسا اس قرآن مجید ہی کی وجہ سےہےورنہ دنیا میں کوئی دوسری زبان ایسی نہیں جو ۱۵۰۰ برس تک اصلی حالت میں رہ جائے اوراس میں تبدیلی نہ آئے۔اردو زبان کو ۳۰۰ برس ہوئے ہیں لیکن آج اگر دکن کی اردو پڑھی جائے تو وہ موجودہ اردو سے بہت مختلف ہے ‘یعنی ۲۰۰ سے ۲۵۰ برس میں اردو میں انقلاب آچکا ہے۔ لہٰذا تمام اہل ِعرب کے لیے بھی اب قرآن مجید کے اعجاز کے اس پہلو کو صحیح طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔
قرآن مجیدکی ادبیت کا چرچا تو ہوتا ہےلیکن اس کے اعجاز کے باقی دو پہلو ہماری توجہ کے خاص طور پر حق دار ہیں‘ جن کی طرف ہمیں ضرور توجہ کرنی چاہیے۔ اصل میں قرآن مجید علمِ انسانی کی معراج ہے۔ اس کی ابدی حکمت ا ور فکر و فلسفہ لازوال ہے۔ پھر یہ کہ قرآن مجید انسانی مسائل کےحل کی طرف مکمل رہنمائی کرتا ہے۔
فکر و فلسفہ کا ماخذ
اس دور میں قرآن مجید کے اعجاز کی سب سے بڑی دلیل خاص طور پر علامہ اقبال کی شخصیت کو کہا جا سکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق علماء کرام کے طبقہ سے نہیں تھا۔ جن لوگوں کی پوری زندگی‘ اُن کے شب و روز ہی قال اللہ اور قال الرسول میں گزرتے ہوں‘ اُن کے دل میں قرآن مجید کی عظمت ‘ رسول اللہﷺ کی محبت ہونی ہی چاہیے۔ البتہ ایک ایسا شخص جس نے کالج ‘یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی‘مشرق و مغرب کے فلسفے کھنگال ڈالےاور وہ بھی اُس دور میں جب ہم پر مغرب سے مرعوبیت بہت شدید تھی۔آج تو وہ مرعوبیت بہت کم ہو چکی ہے۔آج کے مسلمان نوجوان میں خود اعتمادی ہے۔ وہ اسلام کے معاشی‘ سیاسی‘ سماجی نظام اور معاشرتی اقدار ( social values ) سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں زندگی کے تمام مسائل کا حل موجودہے۔ احیاء اسلام کی جدّو جُہد مرحلہ در مرحلہ آگے بڑھ رہی ہے۔ وقت لگے گا لیکن الحمد للہ اس میں یقیناً ترقی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ گئے جبکہ ہم انگریز کے محکوم تھے اور مسلمانوں میں شدید مرعوبیت پائی جاتی تھی۔ جووہاں جاتا تھا‘ ان کا سالباس ‘ان کی وضع قطع‘ان کی تہذیب و تمدن اپنا لیتا تھا۔ہر طرح سے اُن کے گُن گاتا ہوااوران کی تعریف میں قصیدے کہتا ہوا واپس آیا کرتا تھا۔ ایک علامہ اقبال کی وہ شخصیت ہے کہ انہوں نے خود کہا: ع ’’کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل۔‘‘ یعنی مغربی تہذیب کےاس الاؤ میں مجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح ڈالا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا۔میں اُس تہذیب کے الاؤکے اندر سے ہو کر آرہا ہوں اور میں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ یہ تہذیب اندر سے کھوکھلی ہے‘ اس کے اندر کوئی پائیداری نہیں۔ علامہ اقبال نے کہا: ؎
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!
اور یہ کہ :  ؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو‘ وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا‘ ناپائیدار ہوگا!
اندازہ کریں کہ جو شخص بنیادی طور پر فلسفہ کا طالب علم ہے اسے جرمنی اور انگلستان کی یونیورسٹیوں میں قدیم وجدید فلسفے کھنگالنے کے بعد اگر تسکین حاصل ہوئی‘اس کے علم کی پیاس کو سَیری اگر میسرہوئی تو صرف قرآن مجیدکے ذریعہ سے ہوئی۔ ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو ِبندہ نواز میں!
یہ وہ شخص ہیں جو اپنی آخری زندگی میں بیشتر وقت قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔اپنے گھر سے انہوں نے ساری کتابیں اُٹھوا دی تھیں ‘صرف قرآن مجید موجود تھا۔ سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے آخری عمر میں علامہ اقبال سے پوچھا کہ آپ کے فلسفہ خودی کا ماخذ (source )کیا ہے! علامہ اقبال نے کہا کہ کل آ جانا۔ وہ بہت خوش ہوئےکہ یہ سعادت میرے حصہ میں آ رہی ہے کہ وہ اپنے فلسفہ خودی کا ماخذ مجھے خود تحریر کروائیں گے۔ جب وہ اگلے دن پہنچے تو علامہ اقبال نے اُن سے کہا: ذرا قرآن مجیدنکال کر لےآؤ اور سورۃ الحشر کا آخری رکوع کھولو۔ پھر یہ آیت پڑھی:
{وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰىہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۹) }
’’ اُن لوگوں کی مانند نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے بھلا دیا(اپنی خودی سے غافل کر دیا‘ اپنے آپ سے بیگانہ بنا دیا) یہی لوگ فاسق ہیں۔‘‘
پھر فرمایا کہ میرے فکر و فلسفہ کی اصل بنیاد یہی آیت ہے۔
میں اسی وجہ سے اِس دور میں علامہ اقبال کی شخصیت کو اعجازِ قرآن کا سب سے بڑا مظہر سمجھتا ہوں۔بیسویں صدی عیسوی کا ایک عظیم شخص جو کسی مسجد‘ مدرسہ کے ماحول میں نہیں پلا بڑھا بلکہ سکول ‘کالج‘ یونیورسٹی میں پڑھا لکھا اور صرف ہندوستان ہی کی نہیں بلکہ انگلستان ‘جرمنی کی یونیورسٹی میں بھی گیا لیکن پھر بھی وہ کہتا ہے کہ میرے فکر کی بنیاد‘ میرے فلسفہ کی source‘ میری تمام سوچ کی رہنمائی قرآن مجید نے کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید واقعتاً آج بھی معجزہ ہے۔
تمدنی مسائل کا حل
قرآن مجیدکے اعجاز کا تیسرا اہم پہلو اِس دور کے لحاظ سے اہم تر ہے کہ عملی لحاظ سے انسان کے لیے پیچیدہ تمدنی مسائل کا کیا حل ہو! قرآن مجیدنے سوشل سائنسز کے حوالہ سے جس جس طرح سے رہنمائی کی ہے ‘ہمیں اس کا شعور و ادراک بہت ضروری ہے۔ سیاسی‘ معاشرتی‘ معاشی مسائل! مثلاً مَرد اور عورت کے حقوق و فرائض میں توازن کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ عورت کو بھیڑ بکری کی طرح ملکیت بنا لیا جائے یا پھر ملکہ بن کر وہ قوموں کی قسمت سے کھیلے؟ دنیامیں یہ دو انتہائیں ہیں مگر نقطہ عدل کہاں ہے؟ مَردوں اور عورتوں کے حقوق و فرائض میں صحیح ترین نسبت کیا ہے؟ اسی طرح فرد و ریاست کا معاملہ کہ یا تو مادر پدر آزادی دے دی جائے کہ دو مَردوں کو بھی میاں بیوی کی صورت تسلیم کرکے قانونی تحفظ دے دیا جائے ‘یا دوسری طرف فرد کی آزادی بالکل ختم کر دی جائے کہ اس کے پاس ملکیت کا حق بھی نہ ہو‘ جیسے روس یا دوسرے اشتراکی ممالک میں ہے۔ اسی طرح سرمایہ و محنت کا توازن کیسے ہو؟ اگر سرمایہ دار یا جاگیردارکو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو وہ مزدور یا کاشت کار کا خون چوستا ہے ۔دوسری طرف مزدور یا کارکن کو تحفظ دے دیا جائے تو وہ کام نہیں کرتا ‘نتیجتاً معیشت ڈوبنے لگتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ان پیچیدہ مسائل کا حل قرآن مجید میں موجود ہے مگرہم بد قسمتی سے اِن چیزوں کے حل کےلیے دوسروں سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ہمارا حال تو یہ ہوا تھا کہ بیسویں صدی کے شروع میں مصطفیٰ کمال پاشا نے ترکی میں اسلام کے عائلی قوانین بھی منسوخ کیے۔ یہ دراصل اس صدی کا المناک واقعہ ہے کہ جب عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت( revolt )کی۔ایک انگریز کرنل لارنس کی ریشہ دوانیوں پر ترکوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا جس کے نتیجہ میں عظیم سلطنت ِ ِعثمانیہ کے چیتھڑے اُڑ گئے۔انگریز نے عربوں کو پوری حکومت دینے کا وعدہ کیا تھا جبکہ سلطنت ِعثمانیہ کےچھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے مسلمانوں کو تقسیم کر دیا اور مغربی سامراج کا دور شروع ہو گیا۔ مصطفیٰ کمال پراس کا ردّعمل اِس درجہ شدید ہوا کہ اُس نے ہر اُس چیز کو جس کا تعلق عربوں سے تھا‘ اپنے ملک سے ختم کر دیا۔ عربی میں اذان نہیں ہوگی‘ عربی میں نماز نہیں پڑھی جائے گی! اور پھر وہ اس حد تک گیا کہ فیملی لاز بھی رومن نافذ کردیے۔اس پر اُس وقت کے یورپی اخبارات نے طنز کیا تھا کہ یہ مسلمان عجیب قوم ہیں‘ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دنیا کا بہترین ضابطہ و قانون ہے اور حال یہ ہے کہ فیملی لاز کے لیے بھی ہم سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ آج بد قسمتی سے اکثر وبیشترمسلم ممالک میں فیملی قوانین رومن اور انگریز کے نافذ ہیں۔ جمہوریت کا فلسفہ‘ سوشلزم کا نظام‘ مَرد و عورت کی کامل مساوات (شانہ بشانہ)کے نظریات ہم مغرب سے مانگ کر قبول کر رہے ہیں۔ کاش کہ قرآن مجید کے اس اصل اعجاز کی جانب توجّہ کی جائے کہ آج کے دور کے لیے بھی اس میں بہترین نظام ہے۔
قرآن مجید کے اعجاز کے اوّلین پہلو یعنی اس کا فصاحت و بلاغت کی معراج ہونے کا معجزہ‘ کی قدر تو اہلِ عرب ہی کر سکتے ہیں اور ان میں سے بھی درحقیقت اُس زمانہ کے عرب جو قدیم جاہلی شاعری کے جاننے والے ہیں۔ البتہ دوسرا پہلو یعنی فکر وفلسفہ جس کے اعتبار سے اس کا سب سے بڑا ثبوت اس دور میں علامہ اقبال کی شخصیت ہے‘اورپھر تیسرا یعنی معاشی و سماجی و سیاسی پہلو کے لیے قرآن مجیدنے جس طرف راہنمائی کی ہے اُس نظام کو ہم سمجھیں اور دنیا کے سامنے دین اسلام کا یہ نظام پیش کر یں ‘تب در حقیقت قرآن مجید کا اعجاز سامنے آئے گا۔ (جاری ہے)