سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ(۳)
مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒ
تاویل ِخاص اور تاویل ِعام
سورۃالبقرہ کےپہلے دو رکوع تمہیدی نوعیت کے ہیں۔ ان کے ضمن میں تاویل ِعام اور تاویل ِخاص کی دو اصطلاحات خاص طورپرنوٹ کرلیجیے کہ قرآن حکیم ایک خاص وقت اور مخصوص ماحول میں‘ ایک خاص time and space complex میں نازل ہوا۔ ۶۱۰ء سے۶۳۲ء کا زمانہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ اکثر و بیشتر حجاز میں نازل ہوا‘ا س لیے کہ مکہ مکرمہ بھی حجاز میں ہے اورمکی دور میں آپﷺ کے جوسفر ہوئے وہ سب کے سب بھی حجاز میں تھے ۔ طائف بھی حجازکا شہر ہے‘ پھر ہجرت فرما کر آپﷺ مدینہ تشریف لے گئے تووہ بھی حجاز کا شہرہے۔ پھرآپﷺ نے مختلف غزوات کے سلسلہ میں جو سفر کیے وہ تقریباً سب کے سب حجاز میں ہیں۔ آپﷺ کاسب سے طویل سفر غزوئہ تبوک کاہے اوروہ بھی حجاز کا سرا ہے۔
آپﷺ کی اوّلین مخاطب ایک قوم تھی جس کے کچھ عقائد ونظریات تھے۔ اس کی کچھ اخلاقی حالت تھی۔ کچھ ثقافتی ‘تہذیبی اور اجتماعی کیفیات تھیں۔ یہ بھی ایک خاص پس منظر ہے جس میں کہ قرآن نازل ہو رہا ہے۔ اسی طریقے سے جو سورتیں اور آیات مختلف مواقع پر نازل ہوئیں‘ ان کا ایک واقعاتی پس منظر بھی ہے۔ ہجرتِ مدینہ سے قبل نازل ہونے والی سورتیں مکی جب کہ ہجرت کے بعد نازل ہونے والی سورتیں مدنی کہلاتی ہیں۔ سورۃ البقرۃ ہجرتِ مدینہ کے فوراً بعد سے غزوئہ بدر سے متصلاً قبل تک نازل ہوئی‘ ماسوائے چند آیات کے کہ جو پہلے یا بعد میں نازل ہوئیں۔ پوری سورئہ مبارکہ میں زیادہ سے زیادہ پانچ یا چھ آیات ہوں گی جو اس عرصے سے باہر ہوں‘ ورنہ پوری سورت اسی عرصے میں نازل ہوئی۔ ایک خاص وقت میں جو آیات نازل ہو رہی ہوتیں تو ان کا ایک خاص ماحول اور سیاق و سباق (context)ہے۔
یہ ہے تاویل خاص کہ اس ماحول اور contextمیں رکھ کر سمجھنا ‘غور وفکر کرنا کہ اُس وقت ان افراد پر کیا مفہوم واضح ہوا جنہوں نے پہلی مرتبہ یہ آیات محمد رسول اللہﷺ کی زبانِ مبارک سے سنیں۔ بسا اوقات ایک روئے سخن یا گفتگو کی طرف انگلی اُٹھا کر اشارہ کردیا جاتا ہے۔ البتہ دوسری طرف یہی کلام پاک اَبدی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے ہدایت ہے۔ یہ صرف اُس دوراور صرف اُس علاقے کے لوگوں کے لیے نازل نہیں ہوا‘ بلکہ پوری نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے ۔اس کو تمام انسانوں کی ضروریات ابد الآبادتا قیامِ قیامت پورا کرنی ہیں ۔ اس کے اعتبار سے اصول یہ ہے : الاعتبار لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی اصل اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوگا نہ کہ خاص شانِ نزول کا۔ جب قرآن مجید پر غور کیا جائے گا اور تاویل عام کی جائے گی تو الفاظ کے عموم پرنگاہ ہوگی‘ اگرچہ اسے اس کے تاریخی پس منظر سے کاٹ بھی دیا جائے۔ فرض کریں کسی کو کسی آیت یا کسی سورت کا تاریخی پس منظرنہیں معلوم‘ تب بھی بہرحال الفاظ اور اُن کے معنی پیش نظر رکھے جائیں گے۔ اُن الفاظ کا معنی کے اعتبار سے مفہوم سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ تاویل عام ہو گی۔ ان دو رکوعوں کے اعتبار سے اس کی بڑی اہمیت ہے کہ تاویل خاص کے حوالے سے اس کا مفہوم علیحدہ سمجھا جائے اور تاویل عام کے حوالے سے علیحدہ سمجھا جائے ۔
ان دو رکوعوں میں لوگوں کو تین اقسام میں ممیز کر دیا گیا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس قرآن سے ہدایت پائی ہےیاجواس قرآن سے ہدایت پاسکتے ہیں ۔ پہلی پانچ آیات کا مطالعہ کریں تو دوسری آیت میں الفاظ آتے ہیں: {ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲)} یعنی یہ کتابِ ہدایت ہے ایسے متقیوں کے لیے جن کی صفات آگے آ رہی ہیں‘ لیکن اختتام ہو رہا ہے : {اُولٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ} کہ یہی متقی لوگ اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔ ابتدا میں ایک آیت میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اس کی ہدایت سے استفادہ کون کر سکتے ہیں یا کن لوگوں نے کیا ہے جبکہ پھر آیت ۵ میں بیان کر دیا گیاکہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہیں اس کتاب سے ہدایت ملی ہے۔ یہ اس کا نمونہ ہیں ‘مرقع ہیں۔ جیسے درخت کواس کے پھل سے پہچانا جاتاہے ‘ اس کتاب کی تاثیر کو دیکھنا ہو ‘اس کی ہدایت کے اثرات کو دیکھنا ہو ‘اس کی کیمیاگری کا مشاہدہ کرنا ہو تو دیکھ لو یہ محمدﷺ کے ساتھی ‘صحابہ کرامؓ موجود ہیں ۔ ابو بکر‘ عمر‘ عثمان ‘علی‘ حمزہ‘ طلحہ‘ زبیر ‘ مصعب بن عمیر اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہم ‘ یہ سب اس شجر نبوت کے پھل ہیں۔ اس اعتبار سے جو تاویل خاص ہم کر رہے ہیں اس کی روسے تو اِن کا مصداق ہیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ‘ جن کی ایک بڑی جمعیت ہجرت کرکے نقل مکانی کرکے حضورﷺ کے ساتھ مدینہ آئی۔ حضورﷺ تنہا نہیں آئے تھے‘ بلکہ اکثر صحابہؓ مدینہ پہلے تشریف لا چکے تھے‘کیونکہ انہیں ہجرت کی اجازت دے دی گئی تھی۔آپﷺ خود منتظر رہے اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح اورصریح اجازت آگئی توپھرہجرت کا سفر کیا ۔ گویا کہ یہ ایک گروہ تھا جوپہلے مدینہ پہنچ گیا اور اُن کی طرف انگلی اُٹھا کر اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اگر اس الکتاب کی برکات و ثمرات کا مشاہدہ کرنا ہو ‘اس کے اندر مضمر ہدایت کا ثبوت دیکھنا ہو تو یہ صحابہؓ کی جماعت موجود ہے۔ یہ ہے تاویل خاص۔جب کہ تاویل عام یہ ہو گی کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے بھی اس کتاب سے اگر کسی کو ہدایت پانی ہے تو اس کی کچھ شرائط ہیں۔ اگر یہ شرائط پوری نہیں کی جائیں گی تو اس کتابِ ہدایت سے استفادہ ممکن نہیں ۔
تقویٰ : لغوی اور اصطلاحی مفہوم
تقویٰ کی اصل اساس کیا ہے؟ تقویٰ بنا ہے وَقَی یَقِی سے‘ جس کے معنی ہیں بچانا۔ اِسی سے فعل امرہے اس دُعامیں : وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ فعل امر صرف ’’قِ‘‘ ہے جبکہ ’’و‘‘ اس میں حرفِ عطف ہے۔ ’’وَقٰی‘‘ سے بابِ افتعال میں ماضی کا صیغہ ’’اِوْتَـقٰی ‘‘ بنتا ہے ’’و‘‘ کے ساتھ‘ لیکن ’’و‘‘ تبدیل ہو جاتا ہے ’’ت‘‘ میں اور ادغام کے بعد یہ ’’اِتَّـقٰی ‘‘ بن جاتا ہے۔اِتَّـقٰی کا لغوی اور بنیادی مفہوم ہے بچنا۔ اس سے اسم الفاعل ہے ’’مُتَّقِیْ‘‘ جس کی جمع یہاں آئی ہے : الْمُتَّقِیْنَ ‘ بچنے والے‘ بچنے کی خواہش رکھنے والے۔ جن کی فطرت صحت و سلامتی پر قائم ہے‘مسخ (pervert ) نہیں ہوئی‘ تو ان کے اندر اخلاقی حس ہو گی۔ وہ پہچانیں گے کہ یہ نیکی ہے ‘یہ بدی ہے‘ اور بدی سے بچنا چاہیے۔ یہ جذبہ جن کے اندر ہے وہ طالب ِہدایت ہیں۔ انہیں قرآن مجید کی ہدایت فائدہ پہنچائے گی۔ اس اعتبار سے یہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے۔
اس کا تقابل کریںاسی سورئہ مبارکہ کی آیت ۱۸۵کے ساتھ ‘جہاں رمضان المبارک کاذکر آیا ہے :
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَ الْفُرْقَانِ ج }
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ۔ ‘‘
وہاں ’’ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ آیا کہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ سورئہ آلِ عمران کے آغاز میں بھی آیا : ’’ہُدًی لِّلنَّاسِ ‘‘ کہ یہ کتاب تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔
قیامِ پاکستان سے تقریباً ۷۰ برس قبل’’ ستیارتھ پرکاش‘‘ نامی کتاب لکھی گئی ‘جس کا مصنف سوامی دیانند سرسوتی تھا۔ اس کتاب کے چودہویں باب میں قرآن مجید پر اعتراضات تھے۔ان میں ایک بڑا اعتراض یہ تھاکہ یہ عجیب کتاب ہے جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے یعنی یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے ۔ متقی تو پہلے ہی پرہیزگار ہیں‘خداترس ہیں‘ نیک ہیں۔تو ایک متقی انسان کو اب ہدایت کی کیا ضرورت ہے؟ ہدایت کی ضرورت تو ہے گمراہوں کو‘بھٹکے ہوئوں کو ‘یا جو تلاشِ حق میں سرگرداں ہوں۔ جس کے پاس پہلے ہی سے تقویٰ ہو‘ اسے ہدایت کی ضرورت کیا ہے؟ اس چیز کو سمجھ لیں کہ لفظ ’’تقویٰ‘‘ کا بہت broad spectrum ہے۔ چنانچہ متقی کے یہ معنی بھی ہوں گے کہ جس میں اخلاقی حس برقرار ہے‘اور نیکی بدی میں تمیز کرنے کی صلاحیت درحقیقت صحت ِ فطرت کی علامت ہے۔ یہاں سے آگے چلیے‘ جس میں یہ حس ہے وہ بدی سے بچےگا۔ پھر مزید آگے بڑھ کر جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا ‘وہ اگر اللہ کی کتاب سے واقف ہے اور اس پر عمل کرتا ہے تو اب اس کے اندر تقویٰ پیدا ہو گا۔ وہ ایک ایسا شخص ہو گا جو اللہ کے احکام کو توڑنے سے بچتا ہو‘ اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے کوشاں ہو۔ یہ اب اصطلاحی معنی میں متقی بن گیا۔ اصطلاحی معنی میں متقی وہ شخص ہے جو پرہیزگار ہے‘ بدی سے اور گناہوں سے بچتا ہے‘اللہ کے احکام کوتوڑنے سے بچتا ہے ‘اُس کے احکام پر عمل پیرا ہے ‘ عذابِ جہنم سے لرزاں و ترساں رہتا ہے‘ بچنا چاہتا ہے۔ آخرت کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے ۔ البتہ ابتدائی درجے میں متقی کا لغوی مفہوم یہ ہے کہ جس کے اندر اخلاقی حس بیدار ہے اور وہ نیکی و بدی میں تمیز کرتا ہے۔ جس میں یہ بھی نہیں ہے توہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایسے ہی ہے جیسےاندھے کے سامنےآپ نے ہیرے بکھیر دیے ‘وہ نہیں دیکھ سکتا کہ ہیرے اور کانچ کے ٹکڑے میں کیا فرق ہے۔ اسی طرح بھینس کے آگے بین بجائی جائے تواسے کیاپتاکہ یہ کیاعمل ہے جومیرے سامنے کیا جارہاہے ۔ اس سے بھی زیادہ عمدہ تشبیہ یہ ہو سکتی ہے کہ جس شخص کو سرے سے بھوک ہی نہیں‘ اس کے سامنے بہترین کھانے رکھ دیجیے مگر اس کو ان کی رغبت ہی نہیں ہوگی‘ وہ ہاتھ ہی نہیں بڑھائے گا ‘جیسے بعض بیماریوں میں بھوک مر جاتی ہے۔ بچوں کےلیے مائیں خوشامدیں کرتی ہیں کہ یہ لےلو‘یہ کھالو‘ لیکن کسی شے کی طرف بچہ رُخ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔اسی طرح جس میں طلب ہی نہیں ہے‘اعلیٰ سے اعلیٰ شے اس کے سامنے رکھ دیں اسے اس کی رغبت نہیں ہو گی‘ اس کی طرف متوجہ نہیں ہو گا۔
چنانچہ { ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ} کی ابتدائی لغوی مفہوم کے اعتبار سے تاویل عام یہ ہوگی کہ قرآن سے ہدایت کی شرطِ لازم یہ ہے کہ انسان کے اندر نیکی اور بدی کی تمیز موجود ہو اور اس کے اندر بدی سے بچنے کا ایک جذبہ پایا جائے۔ اگر یہ طلب موجود ہے تو وہ قرآن مجید کی ہدایت سے استفادہ کر سکے گا‘ ورنہ نہیں۔ تاویل خاص کے اعتبار سے {ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ} کا مفہوم یہ ہو گا کہ دیکھو یہ ہے متقیوں کی جماعت ‘جیسے کبارِ صحابہؓ جن کی تربیت قرآن کی نظری ‘ فکری اور علمی ہدایت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ حضورﷺ کی تیرہ برس کی تربیت و تزکیہ سے مستفید ہونے والوں کی جماعت تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہے‘ یہ گلدستہ موجود ہے ‘ اسےدیکھ لو۔ یہ کتابِ ہدایت ہے‘ جس کی ہدایت کا مرقع‘ جس کا مظہر‘ جس کی برکات کا ظہور ان اشخاص کی زندگیوں میں نظر آ رہا ہے جو تمہارے سامنے موجود ہیں۔
آیت ۳ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳)
{الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ}’’ وہ لوگ کہ جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر‘‘ یا ’’ایمان رکھتے ہیں غیب میں ہوتے ہوئے۔‘‘ یہاں پر بِ کو اگر صلہ مانا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ کن کن چیزوں پرایمان‘ جیسے کہ ایمان بِاللّٰہ ( اللہ پر ایمان)‘ ایمان بالآخرۃ (آخرت پر ایمان)‘ ایمان بالرسول(رسول پر ایمان)۔ اَمِنَ یَأمَنُ: امن میں ہونا۔ باب افعال میں آمَنَ یُؤْمِنُ:کسی کو اَمن دینا۔ اس کے بعد جب ’’بِ‘‘یا ’’لَ‘‘ آ جائے تو کسی کی تصدیق کرنا‘وثوق اور اعتماد کے ساتھ کسی کو ماننا۔ یہ اس کا اصطلاحی مفہوم ہے۔ چنانچہ اگر ’’بِ‘‘ کو صلہ مانا جائے تو اس کا معنی ہو گا کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
ایمان بالغیب کے تین مفہوم
(۱) غیب کی چیزوں پر ایمان : {یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ}سے مراد یہ ہے کہ ایمانیات کے جتنے بھی اجزاء (articles of the faith) ہیں ‘جن جن چیزوں پر ایک بندۂ مومن سےایمان مطلوب ہے ‘ وہ تمام چیزیں غیب سے متعلق ہیں۔ بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہﷺ تو اُن کے سامنے موجود تھے ‘غیب میں تو نہیں تھے‘لیکن غور کریں رسول جو اُن کے سامنے تھے وہ ایک بشر تھے۔ عبد اللہ کے بیٹے‘عبدالمطلب کے پوتے ‘ابو طالب کے بھتیجے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر تھے۔ وہ ایک رسول تھے اور رسول کا رسول ہونا غیب سے متعلق شے ہے۔ یہ تو ان کے مشاہدے کی چیز نہیں تھی۔ اس اعتبار سے ایمان درحقیقت کُل کا کُل ایمان بالغیب ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے قرآن تو ہمارے سامنے موجود ہے ‘لیکن ہمارے سامنے تو ایک عربی میں لکھی ہوئی مطبوعہ کتاب ہے۔ اس قرآن کا کتاب اللہ اور کلام اللہ ہونا غیب سے متعلق شے ہے۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ ہر جگہ اور ہر آن موجود ہے: {ہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط} (الحدید:۴) ’’اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے‘‘لیکن غیب کا پردہ اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان حائل ہے۔ ایمان درحقیقت کُل کا کُل غیب پر ہے‘ چاہے بظاہر وہ ایسی چیز بھی ہو جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ وہ ہمارے سامنے ہے۔ حقیقت میں رسولﷺ کی ذات‘ کتاب اللہ اور رسول کی رسالت غیب سے متعلق ہے۔ہمارے سامنے رسول اللہﷺ نہیں ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے توموجود تھے ۔ تب بھی آپﷺ کی رسالت غیب سے متعلق تھی ۔ اسی طرح قرآن کا کتاب اللہ ‘کلام اللہ ہونا بھی غیب سے متعلق ٹھہرا۔ تو فرمایا:{الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} ’’جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
حکمت (wisdom) کا نقطۂ آغاز ہی یہ ہے کہ انسان سمجھ لے کہ اس کائنات میںجو کچھ سامنے نظر آ رہا ہے ‘کُل حقیقت یہ نہیں ہے۔ یا یہ سمجھ لے کہ ہمارے ان حواس کے ذریعے اصل حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔ اصل حقیقتیں وہ ہیں جو ہمارے حواس سے ماوراء ہیں۔یہ توبہت ہی کم ہے جو نظر آ رہا ہے۔یہ tip of the icebergکی مانند ہے۔ اصل آئس برگ پانی کی سطح کے نیچے ہے‘ جونظر نہیں آرہا‘ وہ چھپاہوا ہے۔ اس حقیقت کو جان لینا حکمت کا آغاز ہے۔ کنفیوشس چین کے ایک حکیم اورداناانسان تھے۔ انہوں نے بڑی پیاری بات کہی :
“There is nothing more real than what cannot be seen, and there is nothing more certain than what cannot be heard.”
’’جو چیزیں ان آنکھوں سے نہیں دیکھی جا سکتیں‘ ان سے زیادہ حقیقی چیز اور کوئی نہیں اور جو باتیں ان کانوں سے نہیں سنی جا سکتیں اُن سے زیادہ یقینی باتیں کوئی نہیں۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ ہمارے حواس کی رسائی تو بہت ہی محدود ہے۔ اصل حقائق پردۂ غیب میں مستور ہیں‘ جن تک ہمارے حواس کی رسائی نہیں ہے۔ یہ گویا حکمت کا نقطۂ آغاز ہے: {یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} ۔
غیب کے مقابلے میں لفظ آئے گا تجربہ و شہود اور اسی پر آج کے انسان کے فکر کا اصل تانا بانابنا ہے ۔ آج کے Scientific Era کے انسان کی جو تہذیب ہے‘ اُس کی بنیاد اس فکر پر ہے کہ ماورائی حقائق کی ہم نفی نہیں کرتے۔ شاید کوئی خدا‘ کوئی خالق(Creator) ہو‘ لیکن اُسے چونکہ ہم نہ چھو سکتے ہیں نہ ہمارے حواس کی وہاں تک رسائی ہے ‘لہٰذا ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ واقعتاً موجود ہے۔ شاید ہو ‘شاید نہ ہو۔ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ممکن ہے ہو‘ ممکن ہے نہ ہو۔ اس لیے کہ کسی نے موت کی سرحد کے پار جھانک کر نہیں دیکھا اور کسی نے واپس آ کر خبر نہیں دی۔ اسی طرح روح کوئی شے ہے یا نہیں‘ ہم نہیں کہہ سکتے۔جسم تو موجودہے ‘اس کی فزیالوجی کا علم بھی ہمارے سامنے ہے‘ اس کی Anatomy بھی ہم جانتے ہیں لیکن روح کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں‘ ہم نہیں جانتے۔ نتیجتاً ماورائی چیزوں سے توجّہ ہٹ گئی اور اصل بحث‘ اصل جستجو‘ اصل دلچسپی اُس عالم محسوس و مشہود سے ہے جس تک ہمارے حواس کی رسائی ہے ۔یہ دنیاوی زندگی سامنے موجود ہے۔ اس کا نفع بھی محسوس‘ ا س کا نقصان بھی محسوس‘ اس کی لذتیں بھی انسان کو محسوس ہوتی ہیں‘اس کی کلفتیں بھی انسان محسوس کرتا ہے ۔ یہ کائنات تو موجود ہے البتہ اس سے ماوراء کوئی اور عالم ہے‘ کوئی عالم ِاَمر بھی ہے‘ ہم نہیں کہہ سکتے۔ ملائکہ اور جِنّات ہیں یا نہیں‘ ہم نہیں کہہ سکتے۔ جن کو ہم نے دیکھا ہی نہیں‘ جوہمارے حواس کی گرفت میں آتے ہی نہیں‘ وہ ہیں یا نہیں‘ ہم نہیں جانتے۔ اس طریقے سےآج کے انسان کی پوری سوچ‘ تجربہ اور شہودکی بنیاد یہ ہے کہ جو چیز ہمارے experienceمیں آئے ‘ ہمارے حواس کی گرفت میں آئے اور اس تک حواس کے ذریعے رسائی ہو سکے۔ یہی انسان کی دلچسپی ‘ اس کی گفتگو اور اس کی تحقیق و تفتیش کا مرکز اور focus بن چکا ہے۔
قرآن مجید پہلے ہی قدم پر‘ آغاز ہی میں واضح کر رہا ہے کہ {الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} ’’وہ لوگ جو غیب پر ایمان لائے ہیں۔‘‘ بریڈلے کی بڑی مشہور کتاب ہے : ’’Appearance and Reality ‘‘ جس میں اُس نے واضح کیا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے ‘نظر کچھ اور آرہی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے جو کوئی ان حقائق تک پہنچا ہو وہ قرآن کی ہدایت سے استفادہ کر سکے گا۔ یہ تاویل عام ہو گی۔ اس کی شرطِ اَوّل یہ ہے کہ اس کے اندر اخلاقی حس برقرار ہو‘نیکی اور بدی کی تمیز موجود ہو‘ نیکی کی طرف فی الجملہ رغبت اور بدی سے فی الجملہ نفر ت موجود ہو۔ یہ ایک علامت ہے ‘شرطِ اوّل ہے تاویل عام کے اعتبار سے‘ قرآن حکیم کی ہدایت سے مستفید ہونے کے لیے۔
پھر یہ بات پیشِ نظر رہے کہ حکمت کا نقطۂ آغاز ہی یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے ہے یہی سب کچھ نہیں ہے ۔یہ ہمارا مادّی عالم جو ہمارے حواس کی دسترس میں ہے‘ اس سے ماوراء بھی بہت کچھ ہے۔ انسان نے ٹیلی سکوپ ایجاد کرلی ہے تووہ بینائی کے لیےمحض ایک aid ہے ‘اس میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔ دیکھنے والی شے تو یہی آنکھ ہے۔ اسی طرح مائیکروسکوپ ایجاد کرلی تو دیکھنے والی شے تویہی آنکھ ہے۔بصارت کی صلاحیت ہی کو بڑھا دیا گیا ہے ‘چاہے ٹیلی سکوپ کے ذریعے فاصلے کے اعتبار سے ‘ اور چاہے مائیکروسکوپ کے ذریعے اس کی تفاصیل اور باریکیوں کے اعتبار سے ۔ اصل شے تو یہی آنکھ ہے۔ لہٰذا فرمایا: {یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} واقعہ یہ ہے کہ جو اصل حقائق ہیں اس کائنات کے ‘کون و مکان کے‘ وہ تو غیب سے متعلق ہیں۔ تاویل عام کے اعتبار سےیہ مفہوم ہوا ۔
تاویل خاص کے اعتبار سے دیکھیں تو اُس وقت موجود صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں سب کو معلوم تھا کہ یہ اللہ کو مانتے ہیں ‘ آخرت کو مانتے ہیں‘ وحی کو مانتے ہیں ‘ نبوت ورسالت کے قائل ہیں ‘ بعث بعد الموت کے قائل ہیں ‘جنت کو مانتے ہیں ‘دوزخ کومانتے ہیں‘ فرشتوں کومانتے ہیں ‘جِنّات کے وجود کے قائل ہیں۔ یہ سورۂ مبارکہ اس وقت نازل ہو رہی ہےجبکہ قرآن کو نازل ہوتے ہوئے تیرہواں برس ہے۔ بارہ برس میں دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھاجس میں ایمان سے متعلق مفصل بحثیں آ چکیں۔ اس اعتبار سے تاویل خاص زمانۂ نزول کے اعتبار سے دیکھیں گے۔ اس خاص contextمیں رکھ کر اِن آیات پر غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ وہ جماعت جومحمد رسول اللہﷺ کی مسیحائی اورآپﷺ کی تربیت و تزکیہ کے نتیجے میں و جود میں آئی تھی‘ نظر آ رہا ہے کہ وہ غیب پر یقین رکھتے ہیں‘ اور یقین بھی اتنا پختہ کہ اپنے حواس سے حاصل ہونے والی معلومات کو اتنا یقینی نہیں سمجھتے جتنا ان کو جو غیب کی خبریں محمد رسول اللہﷺ نے دی ہیں۔ان معلومات پران کایقین کہیں زیادہ ہے ان چیزوںسے جو آنکھوں سے نظر آنے والی اورکانوں سے سنی جانی والی ہیں۔
(۲) غیب میں رہتے ہوئے ایمان :دوسرا مفہوم اس کا یہ لیا گیا ہے کہ یہ ب ِ ظرفیہ ہے۔ اس اعتبار سے {یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} کا ترجمہ یہ ہوگا کہ غیب میں رہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ اصل میں یہ بڑی عمدہ تعبیر ہے اور مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے بڑے شدّ و مدّ کے ساتھ یہ دوسری رائے ظاہر کی ہے۔ عام طور پر مفسرین کی رائے وہی ہے جو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ قرآن مجید میں بِ ظرفیہ کا بہت سے مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ مثلاًارشاد ہو تاہے :
{الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ وَہُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ(۴۹)}(الانبیاء)
’’جو ڈرتے رہتے ہیں اپنے ربّ سے غیب میں (ہونے کے باوجود) اور وہ قیامت (کے تصور) سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔‘‘
یہاں بِالْغَیْبِ کا معنی ’’غیب پر‘‘ نہیں ہوسکتا۔ یہ بڑا پیارا انداز ہے۔ اصل میں اللہ غیب میں نہیں ہے ‘غیب میں ہم ہیں۔ غائب ہم ہیں‘ اللہ غائب نہیں ہے۔ ہمارے اور اللہ کے مابین غیب کا پردہ حائل ہے۔ اب ہم محجوب ہیں یا اللہ! اللہ غیب میں ہے یا ہم غیب میں ہیں! یہ بڑی خوبصورت تعبیر ہے کہ غیب میں ہم ہیں۔ میں نے اپنے میٹرک کے زمانے میں عربی کی ایک نظم پڑھی تھی‘ جوہمارے نصاب میں تھی۔ اس کا بڑا پیارا شعر ہے :
أغِیبُ وَ ذُو اللَّطَائِفِ لَا یَغیبُ
وَ أَرْجُوہُ رَجَاءً لَا یَخِیْبُ
یعنی مَیں غائب ہو جاتا ہوں‘ مَیں غافل ہو جاتا ہوں‘ وہ صاحبِ الطاف (مہربانیاں فرمانے والا ربّ) تو غائب نہیں ہوتا۔ اورمَیں اُس سے ایسی اُمیدباندھے ہوئے ہوں جو ناکام نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہے‘ ہر آن موجود ہے۔ وہ تو متوجہ رہتا ہے۔ وہ تو بندے کے انتظار میں رہتا ہے۔ جیسے کہ حدیث میں آتاہے کہ ہر رات کےآخری حصے میں اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک نزول فرماتا ہے اور پھر ندا ہوتی ہے :
((ھَلْ مِنْ سَائِلٍ یُعْطٰی؟ ھَلْ مِنْ دَاعٍ یُسْتَجَابُ لَہُ؟ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ یُغْفَرُ لَہُ؟))(صحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا‘ باب الترغیب فی الدعاء والذکر فی آخر اللیل و الاجابۃ فیہ‘ ح:۱۷۷۴)
’’کیا ہے کوئی مانگنے والا کہ اُسے عطا کیا جائے؟ کیا ہے کوئی دُعا کرنے والا کہ اُس کی دعا قبول کی جائے؟ کیا ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ اُسے بخش دیا جائے؟‘‘
ہم تو مائل بہ کرم ہیں‘ کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے‘ راہروِ منزل ہی نہیں!اس اعتبار سے اصل میں ہم محجوب ہیں۔ ہم اپنے دھندوں میں لگے ہوئے ہیں‘ دنیا کی دلچسپیوں میں مگن ہیں۔ کچھ حال مست ہیں‘کچھ مال مست۔ اللہ کی طرف ہم متوجّہ ہی نہیں ہوتے۔
اس معنی میں یہ تعبیر بڑی خوبصورت ہے کہ بِالغَیْب یعنی غیب میں رہتے ہوئے ایمان لانا۔ حقائق اگر سامنے ہوں تو کون ایمان نہیں لائے گا؟ اس میں ایک طرح سے تعریف اور تحسین کا پہلو ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جو غیب میں ہونے کے باوجود ایمان لائے ہیں۔ اللہ کو دیکھا نہیں لیکن مان رہے ہیں ۔ جنت کو دیکھا نہیں لیکن اس کے لیے درخواستیں کر رہے ہیں۔ دوزخ کودیکھانہیں لیکن اس سے پناہ طلب کر رہے ہیں۔ تمام چیزوں کو بغیر دیکھے اور غیب میں ہوتے ہوئے مان رہے ہیں۔ یہ گویا کہ تحسین کا ایک کلمہ ہے :{الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ}۔
اسی بِ ظرفیہ کی کچھ اورمثالیں بھی ہیں۔ سورۃ الملک میں ارشاد ہوا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ(۱۲)}
’’بے شک وہ لوگ جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں غیب میںرہتے ہوئے‘ اُن کے لیے مغفرت بھی ہے اور بہت بڑا اجر بھی۔‘‘
سورۃ فاطر میں ہے :
{اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ} (آیت۱۸)
’’(اے نبیﷺ!) آپ تو انہی لوگوں کو خبردار کر سکتے ہیں جو ڈرتے ہیں اپنے ربّ سے غیب میں رہتے ہوئے۔ ‘‘
(۳)غیب اور تنہائی میں بھی ایمان پر ثبات : اس کا ایک مفہوم یہ لیا گیا ہےکہ {یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} میں منافقین کی طرف بھی ایک طرح کا اشارہ کیا گیا ہے۔یہ منافق مسلمانوں کی مجلس میں آ کر تو دعویٰ کرتے تھے کہ ہم بھی ایمان رکھتے ہیں‘ مانتے ہیں محمد رسول اللہﷺ کواور قرآن کو‘ لیکن جب وہ غیب میں ہوتے تھے تو اپنی مجلسوں میں جا کر استہزاء کرتے تھے ‘تمسخر کرتے تھے‘مذاق اڑاتے تھے۔ یہاں گویا کہ ان پر ایک تعریض ہے‘ اور ان الفاظ میں اُن لوگوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو صرف لوگوں کے سامنے ایمان کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ جب غیب میں ہوتے ہیں‘ غائب ہوتے ہیں‘ تنہائی میں ہوتے ہیں‘ جب ان کو کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا اس وقت بھی ان کا ایمان و یقین برقرار رہتا ہے۔
{یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ} کے جو تین مفہوم بیان کیے گئے ان کا اعادہ کر لیجیے۔ ایک مفہوم تاویل عام کے اعتبار سے کہ وہ لوگ جو اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ اصل حقائق حواس کی سرحد سے ماوراء ہیں۔ یہ یقین اگر ہے تو ہی درحقیقت قرآن مجید کی ہدایت اپنے آپ کو منکشف (unfold)کرے گی ‘ اپنے آپ کوآشکار (reveal) کرے گی اور وہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ تاویل خاص کے اعتبار سے دو مفہوم ہو گئے۔ایک طرف صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف اشارہ کہ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان حقائق کو انہوں نے دیکھا نہیں لیکن ان کا یقین دیکھی جانے والی چیزوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور ایک اعتبار سے تعریض ہو گئی منافقین پر کہ جو مجلس میں آ کر اہل ِایمان سے کہتے تو ہیں کہ ہم ایمان لے آئے‘ لیکن ان کے دل کا حال بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ آگے ہم پڑھیں گے:
{وَاِذَا لَـقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ لا قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِئُ‘وْنَ(۱۴)}
’’اور جب یہ اہل ِایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم بھی ایمان رکھتے ہیں‘ اور جب یہ خلوت میں ہوتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاس تو کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے تو محض مذاق کر رہےہیں۔‘‘
اس اعتبار سے گویا تعریض کاانداز ہوا۔
نظام ِصلاۃ: حیاتِ مؤمن کا عمود
{ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ } ’’اورقائم کرتے ہیں نماز‘‘
صلوٰۃ:کسی کی طرف توجّہ‘ عنایت‘ یاکسی کی طرف التفات‘ اس کی طرف اقدام‘ د عا‘ مناجات‘ یہ تمام معانی اس لفظ کےاصل مفہوم میں شامل ہیں۔ البتہ اصطلاح کے طورپر اس کا ترجمہ ’’نماز‘‘ کیا جاتاہے۔ اَقامَ یُقِیمُ:کسی چیز کو سیدھا کرنا‘ کھڑا کرنا‘ قائم کرنا۔ مراد کیا ہے؟ نماز کا پورا ایک نظام ہے۔ یہ صرف ایسے ہی نہیں کہ جب جی چاہا (off and on) قیام‘ سجدہ یا مناجات کر لی‘ نہ جی چاہاتونہ کی ۔ دراصل اسے زندگی کے معمولات میں ایک مستقل پروگرام کی حیثیت سے شامل کرنا اور اس کا التزام مطلوب ہے۔ ایسی کیفیت ہو جائے کہ انسان کے شب و روز کے معمولات میں نماز کی حیثیت کھونٹے کی مانند ہو کہ ساری چیزیں اس کے گرد گھوم رہی ہوںاوراسی سے بندھی ہوں ۔ کوئی پروگرام ہے‘ ملاقات( appointment)ہے ‘کوئی اورمعاملہ ہے تو ان سب کے لیے انسان نماز کے حوالے سے نظام العمل اور نظام الاوقات بنائے کہ زندگی کے اندر نماز ایک عمود اور کھونٹے کی حیثیت اختیار کر جائے۔
{وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ} میں بھی دونوں امکانات (تاویل عام اور تاویل خاص) ہیں۔ تاویل ِعام کے اعتبار سے میں حوالہ دے رہا ہوں حضرت لقمان کا۔ ان کی نصائح میں بھی یہ نصیحت موجود ہے: { یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ } (لقمٰن:۱۷) ’’اے میرے بچے نماز قائم کر۔‘‘ ظاہر ہے یہ نماز وہ نہیں تھی جو ہمیں محمدعربی ﷺکے ذریعے ملی۔ یہ نماز کانظام اپنے تمام ارکان کے ساتھ ہے۔ اس کا جزوِ اعظم یہ دعا ہے جو سورۃ الفاتحہ کی صورت میں قرآن مجید میں نازل ہوئی ہے۔حدیث ِقدسی کے الفاظ ہم پڑھ چکے ہیں : ’’قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ۔‘‘ یہ پنج وقتہ نماز کا نظام‘ اس کے اوقات‘ اس کے ارکان کی ترتیب ‘ اس کے قواعد وضوابط‘ یہ پورا نظام محمد عربی ﷺنے اُمّت کو دیا۔ اس سے قبل اللہ تعالیٰ سے تعلق‘ اپنا ذہنی رابطہ قائم رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی مناجات کا نظام ہمیشہ موجود رہا ہے۔ انسان دنیا کے معمولات و مشغولات میں گم ہو کر رہ جاتا ہے اور اپنے خالق و مالک کو بھول جاتا ہے۔ جب اپنے معمولات میں‘ حوائج میں‘ زندگی کی ضروریات اور مشغولیات میں مصروف ہو جاتا ہے اور اُس کا اپنے ربّ سے ذہنی رابطہ منقطع ہونے کے قریب ہوتا ہے تو ضرورت ہوتی ہے کہ اس کو از سر ِنو اُجاگر کیاجائے۔ اس کے ادراک و شعور کو اپنے قلب و شعور کے اندر زندہ کیا جائے۔اس کے لیے مجھے حفیظ جالندھری کا یہ شعر بہت پسند ہے ؎
سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آئو سجدے میں گریں‘ لوحِ جبیں تازہ کریں!یہ نماز درحقیقت اللہ کے ساتھ ہمارے میثاق (covenant)کو از سر ِ نو تازہ کرنا‘ اس کی تجدید کرناہے۔ ہم دن میں پانچ مرتبہ اپنے میثاق کی ‘قول وقرار اور معاہدے کی تجدید کرتے ہیں ۔
تاویل خاص کے اعتبار سے اس سے نماز کا پنج وقتہ نظام مراد ہے۔رسول اللہﷺ نے اُمّت کو یہ نظام پہلے ہی دے دیا تھا۔ صلاۃِ پنج گانہ کا نظام مکی دور میں آ چکا تھا‘ اس لیے کہ یہ شب ِمعراج میں تفصیل کے ساتھ حضورﷺ کو عطا کیا گیا۔ اس کے بعد سےاقامت ِصلاۃ مکی دَور ہی میں شروع ہو چکی تھی۔ گویا نظامِ صلاۃ ان آیات کے نزول کے وقت موجود تھا۔
اِنفاق فی سبیل اللہ
{ وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳)}
’’اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہےاس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘
نَفَقَ یَنْفُقُ کے معنی ہیں خرچ ہو جانا‘ختم ہوجانا۔ نَفَقتِ الدَّرَاھِمُ:’’پیسے ختم ہوگئے یاخرچ ہوچکے۔‘‘ بابِ افعال سے ’’اِنفاق‘‘ کے معنی ہوں گے کھپانا‘ خرچ کرنا‘ لگانا‘ صَرف کردینا۔ خرچ توانسان کرتا ہی ہے ۔ خسیس اور بخیل لوگ جو سینت سینت کر رکھتے ہیں‘ ان کو یہاں خارج کر دیجیے۔ چنانچہ {وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳)} سے وہ لوگ نکل گئے۔ پھر خرچ کرنے میں بھی ایک ہے اپنی عیش پر خرچ کرنا‘ اپنی عیاشی‘ اپنے اسراف اور تبذیر میں یعنی زائد از ضرورت یا بلاضرورت خرچ کرنا۔ یا پھر اپنی ہی ضروریات پرخرچ کرناجوہرانسان کرتا ہے ۔ یہ چیزیں بھی یہاں سے خارج ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ یہاں اِنفاق کا ذکر مقامِ مدح میں ہو رہا ہے۔ اگرچہ الفاظ موجود نہیں مگر مراد ہے ’’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ یا ’’فِیْ مَرْضَاتِ اللّٰہِ‘‘ یعنی اللہ کی راہ میں یا اللہ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرنا۔
{وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳)} ’’اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (اللہ کی رضا کے لیے)۔‘‘ قرآن مجید میں اللہ کی رضاجوئی میں خرچ کرنے کے لیے جو الفاظ آتے ہیں ان میں زکوٰۃ بھی ہے‘صدقات بھی ہیں‘ انفاق بھی ہے‘ ایتائے مال بھی ہے ۔ان میں سب سے جامع اصطلاح ’’اِنفاق‘‘ ہے۔ اس سورئہ مبارکہ میں آگے چل کر خاص طور پر انفاق کے موضوع پر پورے دو رکوع آئیں گےاور یہ اصطلاح بہت ہی شرح وبسط کے ساتھ پوری طرح اُجاگر ہو کر‘ نکھر کر سامنے آئے گی۔ اس میں زیادہ نمایاںپہلو ہوتا ہے دین کے لیے خرچ کرنا‘ جیسا کہ ہمارے سامنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہے۔ آپؓ خاصے بڑے سرمایہ دار ‘ تاجر تھے‘ لیکن اپناسارا سرمایہ خرچ کر دیا‘ لگا دیا۔ خاص طور پرغلاموں کے طبقات میں سے جولوگ ایمان لائے تھے ان کےآقائوں کومنہ مانگے دام دے کر ‘بڑی بھاری رقمیں دے کران کوخریدا اورآزاد کردیا۔ان میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں۔ چنانچہ یہ ان کاانفاق ہے۔
یہ تاویل خاص کے اعتبار سے اللہ کی رضا کی خاطر دل کھول کر خرچ کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک علامت ‘ایک وصف اور ایک نمایاں خصوصیت بیان ہو رہی ہے۔ تاویل عام میں یہاں پر بخیل لوگ بھی نکل جائیں گے اور وہ لوگ بھی جو تبذیر یا اسراف کے طور پر پیسہ لٹاتے ہوں یا اپنے ہی لیے اور اپنی ہی ضروریات پر خرچ کرتے ہوں۔ درحقیقت وہ لوگ مراد ہوں گے جو خیر کے لیے‘ بھلائی کے لیے‘ نیکی کے لیے ‘ غرباء‘ محتاجوں اور مساکین کے لیے خرچ کرتے ہیں۔یہ بھی درحقیقت فطرت کی صحت و سلامتی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ نیکی اور تقویٰ کا ایک رخ جہاں شکر ہے وہاں دوسرا رُخ رحم ہے کہ انسان بھوکے کو دیکھ کر تڑپ اُٹھے اوراس کو کھانا کھلائے۔ جیساکہ قرآن مجید میں بار بار آیاہے: {وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ(۳)} (الماعون) ’’اور مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا۔‘‘گویا کسی شخص کی دنائت ‘ پستی اورفطرت کے مسخ ہوجانے کی ایک بہت بڑی علامت یہ ہے کہ خود بھی بخیل ہے‘کسی بھوکے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر تیار نہیں اور کسی اور کوبھی کہنے کو آمادہ نہیں‘ اس لیے کہ اندیشہ ہوتاہے کہ اگر میں کسی سے کہوں گا تو وہ پلٹ کر مجھے کہہ دےگا کہ تم بھی توپیسے والے ہو‘ تم کیوں نہیں خرچ کرتے! یہ گویا اخلاقی پستی کی انتہا کے لیے تعبیر ہے جوان الفاظ کے ذریعے سے کی گئی ہے:{وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ(۳)} اس کے برعکس یہ ہے کہ {وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳)}’’جوکچھ ہم نے انہیں عطافرمایاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
رزق اگرچہ عام طور پر کھانے پینے کی چیزوں کے لیے مستعمل ہے لیکن حقیقت میں رزق اور نصیب وسیع مفہوم رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کو جو کچھ ملا ہے وہ رزق ہے۔ کسی کو ذہانت ملی ہے تو یہ بھی اللہ کا رزق ہے‘ جواُس نے اپنے بندے کو دیاہے۔کسی کو دوسرے لوگوں سے امتیازی حیثیت میں اللہ تعالیٰ نے کوئی خصوصیت یاخاص صفت عطا کی ہے تویہ بھی اُس کا رزق ہے۔ اسی طرح علم‘ اولاد‘ صحت‘ مال اور دنیاوی اسباب سب رزق ہیں۔
وحیٔ الٰہی اور آخرت کے ماننے والے
آیت۴ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج
’’اور وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اس پر بھی جو نازل کیا گیا (اے محمدﷺ!) آپ کی طرف اور جو نازل کیاگیا آپ سے پہلے۔‘‘
یُؤْمِنُوْنَ بِمَا میں ’’بِ‘‘ صلہ (preposition)ہے۔ اس میں بھی تاویل خاص کے اعتبار سے ایک تعریض ہے۔ وہ یہ کہ یہود صرف اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب کو‘ صحیفوں کو اور تورات کو مانتے تھے۔ ’’عہد نامہ قدیم‘‘ (Old Testament) صرف ’’تورات‘‘ پر مشتمل نہیں ہے‘ بلکہ اس کی پہلی پانچ کتابیں خواہ تحریف شدہ صورت میں ہیں‘ تورات ہیں۔ اس کے بعد بہت سے انبیاء کے صحیفے ہیں۔ چنانچہ یہودی {یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْکَ} سے خارج تو ہیں ہی‘ {مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ} سے بھی خارج ہو جاتے ہیں۔ وہ توانجیل کو بھی نہیں مانتے۔ مدینہ میں نصاریٰ ویسے ہی موجود نہیں تھے۔ وہ لوگ جو مدینہ میں تھے (یعنی یہودی) وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اور کسی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بس ہمارے پاس جو بھی کتاب ہے‘ جو بھی اللہ کی طرف سے وقتاً فوقتاً وحی آئی ہے ہم اس کو مانتے ہیں۔ تو یہ ان پر تعریض ہے۔ گویا ان پر تنقید کی جا رہی ہے اور اس کے مقابلے میں محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانے والوں کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہےکہ ان میں وسعت ِ قلب ہے‘ وسعت ِ نظر ہے۔ وہ کسی تنگ نظری میں مبتلا نہیں ہیں‘ بلکہ وہ حق کے جویا ہیں۔ حق جہاں بھی ہے‘ اس کو مانتے ہیں۔ اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اے نبیﷺ آپ کی طرف نازل کیا جا رہا ہے یا نازل کیا جا چکا ہے اور اس پر بھی جو آپؐ سے پہلے نازل کیا گیا ۔
وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ(۴) ’’اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔‘‘
آخِر: پچھلا ‘اس کا مؤنث آخرۃ: کوئی پچھلی چیز۔ یہ ایک وصف ہے ‘ایک صفت ہے‘ لیکن اس سے پہلےگویا محذوف مانا جائے گا: الحیاۃ الآخرۃ(پچھلی زندگی)‘ یا الدار الآخرۃ: (پچھلاگھر)‘ یا العالَم الآخرۃ ـ(عالم آخرت ‘ پچھلا عالم) یا النشأۃ الآخرۃ (ـپچھلا اٹھایا جانا)۔ ایک نشا ٔۃِاولیٰ ہے:{وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی فَلَوْلَا تَذَکَّرُوْنَ (۶۲)} (الواقعۃ) ’’اور تم (اپنی) پہلی زندگی کے بارے میں تو جانتے ہی ہو‘ تو پھر تم سمجھتے کیوں نہیں ہو؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ جوتمہیں اٹھایا توآخر دوبارہ اٹھانا اُس کے لیے کیسے ناممکن ہوجائے گا؟ چنانچہ کوئی نہ کوئی لفظ یہاں (اس کے موصوف کے طور پر) محذوف ماننا پڑے گا۔ ویسے قرآن مجید میں یہ لفظ (الآخِرَۃ) بغیر کسی موصوف کے اس کثرت کے ساتھ آیا ہے کہ اس سے مراد اُخروی زندگی ہی ہے۔ جیسے:{وَالْاٰخِرَۃُ خَیْـرٌ وَّاَبْقٰی(۱۷)} (الاعلٰی) ’’جب کہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی۔‘‘ کہیں کہیں موصوف کو نمایاں کر دیا گیاہے لیکن اکثر و بیشترمحض ’’آخِرۃ‘‘ ہی آیا ہے۔
ایقان ‘ ایمان سے برتر!
یہاں یہ نوٹ کیجیے کہ اب تک لفظ ’’یُؤْمِنُوْنَ ‘‘چلا آرہا تھا لیکن یہاں لفظ ’’یُوْقِنُوْنَ‘‘ آیا ہےکہ ’’آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں‘‘۔’’ایقان‘‘ درحقیقت ’’ایمان‘‘ سے بڑھ کر ایک کیفیت ہے۔ گویا عمل کے اعتبار سے اہم ترین ایمان بالآخرۃ ہے۔اگر آخرت کا یقین ہو گا تو انسان کا عمل درست ہو گا۔البتہ نظری‘ اصولی‘ فکری وعملی اعتبار سےاصل ایمان ہے: ایمان باللہ۔ ایمان بالرسالت اللہ تعالیٰ کی صفت ِہدایت پر ایمان کی توسیع (extention) ہے۔ اسی طرح ’’آخرت‘‘ اللہ تعالیٰ کے جزا وسزا کا یقین ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ِعدل کا ظہور ہے ۔ اس اعتبار سے ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرۃ ایمان باللہ کی فروع (شاخیں) ہیں ۔
قانونی اعتبار سے اہم ترین ایمان ہے: ایمان بالرسالت ۔ یہ بات آگے چل کردوسرے رکوع میں واضح ہوگی ‘ جہاں پردرحقیقت منافقوں اور یہودیوں کے ضمن میں پانی مرتا تھا کہ وہ حضورﷺ کو ماننے کوتیار نہیں تھے‘ جبکہ اللہ کو ماننے کااقرار بھی کرتے تھے اور آخرت کو ماننے کا بھی اقرار کرتے تھے۔فرمایا:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ(۸)}
’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اللہ پر بھی اور یومِ آخر پر بھی‘ مگر وہ حقیقت میں مؤمن نہیں ہیں۔‘‘
وہاں ایمان بالرسول کی کمی یانفی تھی جبکہ قانونی اعتبار سے اہم ترین ایمان ‘ایمان بالرسول ہے ۔ رسولﷺ کو مانیں گے تبھی یہ معلوم ہو گاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو کن اَسماء و صفات کے حوالے سے ماننا ہے: آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ ۔ اسی طرح جب رسولﷺ کو مانیں گے تو معلوم ہو گا کہ آخرت کی تفاصیل کیا ہیں۔ بعث بعد الموت ‘ حساب کتاب‘ جزا و سزا ‘ وزنِ اعمال ‘ جنت اور دوزخ سب کو ماننا ہو گا۔ قانونی اعتبار سے کوئی شخص خواہ کتنا ہی موحد ِاعظم ہو اگر وہ رسول اللہﷺ کو نہیں مانتا تو کافر شمار ہوگا۔اسی طرح کوئی شخص کتنا ہی آخرت کو مانتا ہو مگر رسول اللہﷺ کو نہیں مانتاتو وہ کافر قرار پائے گا۔
قانونی اعتبار سے اصل ایمان ’’ایمان بالرسول‘‘ ہے اور عملی اعتبار سےیعنی انسان کے اپنے عمل اور اخلاق کی درستگی کے اعتبار سے اہم ترین ایمان ’’ایمان بالآخرۃ‘‘ ہے۔ انسان کا عمل تبھی درست ہوگا جب جزا وسزا کا یقین ہو‘ بعث بعد الموت کا یقین ہو کہ مرنے کے بعد جی اُٹھنا ہے ‘ ہر عمل کی جواب دہی کرنی ہے اور ہر عمل وزن میں آئے گا۔ جیسے کہ سورۃ الکہف میں فرمایاگیا :
{وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَاج }(آیت۴۹)
’’اور رکھ دیا جائے گا اَعمال نامہ‘ چنانچہ تم دیکھو گے مجرموں کو کہ ڈر رہے ہوںگےاس سے جو کچھ اس میں ہو گا اور کہیں گے: ہائے ہماری شامت! یہ کیسا اَعمال نامہ ہے؟ اس نے تو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑا ہے اور نہ کسی بڑی کو‘ مگر اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔‘‘
اگر یہ یقین ہے تو آدمی تیرکی طرح سیدھا ہو جائے گااور اس کا ہر عمل صحیح ہو گا۔ وہ زبان سے کوئی بھی لفظ نکالنے سے پہلے تولے گا کہ مجھے یہ لفظ کہنے کا حق ہے کہ نہیں! اگریہ یقین نہیں ہے تو بے پروائی ‘ لاابالی پن اور غیر ذمہ دارانہ رویّہ اختیار کرے گا۔ جو چاہے گا کہے گا‘ جو چاہے گا کرے گا۔
’’یُؤْمِنُوْنَ‘‘ کے بجائے’’یُوْقِنُوْنَ‘‘ میں ایمان کی گہرائی اور یقین کی کیفیت زیادہ ہے۔ ایک ایمان باللسان بھی ہے یعنی ایمان کا زبانی اظہار‘ اور ایک حقیقی ایمان ہے یعنی یقین بالقلب کی کیفیت: ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں ‘یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!یہاں آخرت کے ساتھ لفظ یقین آیا ہے :{وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ(۴)} ’’اور آخرت پر یہی لوگ یقین رکھتے ہیں۔‘‘ اگر اس کو عام عربی زبان کے انداز میں تحریر paraphrase) کیا جائے تو جملہ ہونا چاہیے: وھُمْ یُوْقِنُوْنَ بِالْآخِرَۃِ لیکن یہاں فرمایا:{وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ(۴)} اس میں ایک تو تاکید (emphasis) ہے کہ آخرت پر تو ان کا یقین ہے۔ پھر عام عربی میں یہاں پر ھُمْ کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’یُوْقِنُوْنَ ‘‘ فعل ہے جس میں فاعل از خود (ضمیر فاعلی کی صورت میں) موجود ہے‘ لیکن ’’ ھُمْ‘‘ کو مزید تکرار کے طور پر لایا گیا‘ پھر اس کو مقدّم کیا گیا اس اعتبار سے کہ اور زیادہ emphasisہو جائے: ’’آخرت پر توا ن کا یقین ہے۔‘‘ بلکہ اس سےبھی آگے بڑھ کر ’’آخرت پر تو ان ہی کا یقین ہے۔‘‘ ھُمْ لانے سے حصر کا انداز پیدا ہوا۔ اس میں بھی تعریض ہو گئی کہ کہنے کو تو کچھ اور لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہم آخرت کو بھی مانتے ہیں‘ جیسے آگے چل کر یہود یا منافقین کا قول آ جائے گا‘ لیکن یہ کہ حقیقتاً آخرت کا یقین صرف انہی لوگوں کا ہے جن میں یہ اوصاف موجود ہیں۔
تاویل عام کے اعتبار سے غور کریں تو آخرت کا ایمان اور یقین اس اجمالی ایمان کا جزوِ لازم ہے جو ہم سورۃ الفاتحہ کے مطالعے میں دیکھ چکے ہیں کہ جہاں تک سلیم الفطرت‘ صحیح العقل انسان کی رسائی ہو جاتی ہے‘ اس کا ایک جزوِ لازم یہ بھی ہے : {مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo} کہ اللہ ہی جزا و سزا کے دن کا مالک ہے۔ اگر یہاں تک رسائی نہیں ہو گی تو پھر ایمان باللہ‘ حمد و شکر اور اللہ تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم ماننا یہ سب شاید ذہنی عیاشی بن کر رہ جائے۔ اصل میں جو چیز انسان کو سیدھا کرنے والی ہے‘ اُس کے عمل‘اس کے اخلاق ‘ اس کے معاملات اور اُس کی روِش کو درست کرنے والی ہےوہ آخرت کا یقین ہے۔
ہدایت یافتہ گروہ
اس کے بعد فرمایا:
آیت۵ اُولٰٓـئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ق
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جو اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔ ‘‘
یہاں ان آیات کی تاویل خاص نکھر کر آگئی۔ اُولٰٓـئِکَ دیکھو‘ وہ لوگ ہیں‘ ابوبکر‘عمر‘ عثمان‘ علی‘ طلحہ ‘زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم ۔ حضور اکرمﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو انصار میں سے بھی بہت سے لوگ ایمان لا چکے تھے۔ ۷۲ تو وہ تھے جنہوں نے بیعت ِعقبہ ثانیہ میں حصہ لیا اور حضور اکرمﷺ کو دعوت دی کہ آپﷺ مدینہ تشریف لائیے۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لوگ بھی موجود تھے۔ تو یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں۔ گویا ان آیات کا ابتدائی حصہ تاویل عام کی طرف زیادہ اشارہ کر رہا ہے کہ قرآن مجید کی ہدایت سے استفادے کی یہ شرائط ہیں‘ جبکہ ان آیات کا اختتام تاویل خاص کی طرف زیادہ اشارہ کر رہا ہے کہ یہ ہیں وہ لوگ جو اس شجرۂ مبارکہ کے برگ وبار ہیں۔ درخت کو اگر پھل سے پہچانتے ہو تو ان کودیکھ لو‘ان کے نمایاں اوصاف تمہارے سامنے ہیں۔ ان کے معمولات نماز کے گرد گھوم رہے ہیں۔ نماز ہی ان کی زندگی کا مرکز ومحور بن چکی ہے ۔ آخرت پر ان کے یقین کا مشاہدہ ان کی زندگیوں میں کر لو۔ ان کاایمان دیکھ لو۔کوئی تنگ ظرفی نہیں ہے کہ ہم تو صرف اسی کو مانیں گے جو ہمارے لیے نازل کیاگیا‘ بلکہ جوبھی اللہ نے اس سے پہلے اتارا ہے اس پر بھی ان کا ایمان ہے۔ان کی نگاہ وسیع‘ان کاسینہ کشادہ ہے۔ ان کے نقطۂ نظر(approach)کے اندر کوئی تنگی نہیں ہے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور ہدایت قرآنی کا مظہر اور ثبوت ہیں۔ یہ اس کی برکات کا ظہور ہیں۔ {اُولٰٓـئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ق} ’’یہ ہیں وہ لوگ جواپنے رب کی طرف سے ہدایت پرہیں ۔‘‘
وَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)
’’اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘
یہاں پرپھر ھُمْ لاکرگویا حصر کااسلوب لایا جارہا ہے ۔ مُفْلِحُون: فلاح پانے والے۔ فَلَحَ یَفْلَحُ(ف) فَلْحًا کا معنی ہوتاہے کسی چیز کو کاٹنا‘ توڑنا‘ چیرنا‘پھاڑنا‘زمین میں ہل چلانا۔ اسی سے لفظ فَلَّاح بنا ہے‘ یعنی ہل چلانے والا۔ کسان اپنے ہل کی نوک سے زمین کے سینے کو چیرتا ہے۔ مصر میں فَلَّاحین کی تحریک تھی‘ جیسے ہمارے ہاں کسان موومنٹ یا کسانوں کی تحریک۔تو فلّاح،فَلَحَ سےبنا ہے۔ اسی سے محاورہ ہے: اِنَّ الْحَدِیْدَ بِالْحَدِیْدِ یُفْلَحُ: لوہا ‘لوہے سے ہی کٹتا ہے ۔فَلَحَکے علاوہ فعل فَلِحَ یَفْلَحُ (س) بھی آتا ہے‘ یعنی خود ٹوٹ جانا‘ پھٹ جانا۔چنانچہ کہا جاتا ہے : فَلِحَتْ شَفَتَہُ کہ اُس کے ہونٹ پھٹ گئے۔ باب افعال میں اَفْلَحَ یُفْلِحُ فَلَاحًا (مصدر کے طور پر یہاں بھی لفظ فَلاح ہی استعمال ہوتا ہے بجائے اِفلَاحْ کے)کا مفہوم بھی وہی ہے جو فَلَحَ یَفْلَحُ کا ہے یعنی پھاڑنا‘ لیکن اس میں مبالغہ اور تاکید ہے‘زور اور شدّت ہے کہ کسی شے کو پوری طاقت کے ساتھ پھاڑنا اور اس میں سے کوئی شے برآمد کرنا۔ جیسے زمین کو کھود کر مدفون خزانے کو نکال لینا۔کسی چیز کے او پر crust آ گیا ہے‘ پپڑی جم گئی ہے‘ کسی اعتبار سے کوئی پردہ آ گیا ہے تو اُسے ہٹا کر اُس چیز کو منکشف کرنا۔ پپڑی جم گئی ہے تو اسے توڑ کر اس میں اصل شے کو باہر نکال لینا۔
یہ اَفْلَحَ کا اصل مفہوم ہے اور یہ لفظ قرآن مجید کی بڑی بنیادی اصطلاح ہے۔ دوسرے مذاہب میں زیادہ تر لفظ ’’نجات‘‘ آتا ہے۔ ویسے نجات کا لفظ قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ سورۃ المؤمن میں مؤمن ِآلِ فرعون کی تقریر کے الفاظ نقل ہوئے ہیں:
{وَیٰــقَوْمِ مَا لِیْٓ اَدْعُوْکُمْ اِلَی النَّجٰوۃِ وَتَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَی النَّارِ(۴۱)}
’’اور اے میری قوم! مجھے کیا ہوا کہ مَیں تمہیں بلاتا ہوں نجات کی طرف اور تم مجھے بلاتے ہو دوزخ کی طرف!‘‘
اسی طرح انسان کا کسی حیثیت سے بچ جانااور کامیاب ہو جانا‘ اس کے لیے فَائِزُوْنَ، رَاشِدُوْنَ وغیرہ مختلف الفاظ آئے ہیں‘ لیکن سب سے زیادہ کثرت کے ساتھ اور انسان کی سب سے اونچی منزلِ مقصود کی تعبیر کے لیے لفظ فلاح آیا ہے۔ اس کی اصل حقیقت سمجھ لیجیے۔
فلاح اور انسان کا روحانی و باطنی وجود
انسان وجودِ مرکب کا حامل ہے۔ اس کی ایک باطنی حقیقت ہے‘ ایک روحانی وجود ہے جو اصل انسان ہے۔ اس کے گردایک مادی غلاف یا مادی خول ہے جس کے اندر انسان کی اصل حقیقت لپٹی ہوئی ہے۔ انسان سے مطلوب یہ ہے کہ اس مادی غلاف کو توڑ پھوڑ کراس میں سے اپنی انا کو‘ اپنی خودی کو برآمد کرے۔ اپنے روحانی وجود کو پروان چڑھائے ‘جیسے کہ گٹھلی پھٹتی ہے‘ اس میں سے پتیاں نکلتی ہیں اور پودا پروان چڑھتا ہے ۔یہ مادی غلاف ہمیں ہماری اصل حقیقت سے غافل اور بے خبر رکھتا ہے‘جیسے کہ سورۃالحشر میں ارشاد ہوا :
{وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰىہُمْ اَنْفُسَہُمْ ط } (آیت۱۹)
’’اور (اے مسلمانو دیکھنا!) تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا۔‘‘
ہم یہی سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ہمارا اصل وجود یہی جسمانی وجود ہے جس کے کچھ تقاضے اور ضرورتیں ہیں‘اور پھر ہم انہی کی فکر میں رہتے ہیں۔ جسم کو کوئی عارضہ لاحق ہو جائے تو ہم بے چین ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے درد محسوس ہوتا ہے جبکہ روح کی کوئی فکر نہیں۔اس کی غذا کا کوئی اہتمام نہیں۔ اس کو تروتازہ رکھنے کی کوئی کوشش نہیں۔ روح بیمار ہو‘ پژمردہ ہو‘ مضمحل ہو تو ہمیں کوئی تشویش نہیں ہوتی۔ اس کے لیے کوئی بھاگ دوڑ نہیں ہوتی۔ علاج معالجے کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اپنشد کابڑا پیارا جملہ ہے :
" Man, in his ignorance, identifies himself with the material sheaths that encompass his real self."
یعنی انسان اپنی جہالت اور نادانی میں اپنے آپ کو ان مادی غلافوں سے تعبیر کر بیٹھتا ہے کہ جو اس کی اصل اَنا اور خودی کے گرد لپٹے ہوئےہیں۔ اپنے مادی خول ہی کو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ میں یہ ہوں‘میرا یہ جسم ہے‘ حالانکہ اس کی اصل خودی اور اَنا وہ روحانی وجود ہے جو اس کے اندر مضمر ہے۔ اس کو پروان چڑھانا مطلوب ہے۔ یہ ریاضتیں ‘ مشقتیں ‘ تپسیائیں جومختلف لوگ کرتے رہے ہیں‘ یہ سب اپنے مادی خول کو توڑ کر اس روحانی وجود کو برآمد کرنے کے لیے تھیں۔
قرآن مجید نے بھی ہمیں اس مقصد کےلیے کچھ مشقتیں اورریاضتیں دی ہیں‘ جن میں سے ایک شکل نماز کی ہے۔نماز ایک ریاضت ہے‘ ایک مشقت ہے۔ دنیاوی دلچسپیوں کو چھوڑ کر اپنا وقت نکال کر ہم اللہ تعالیٰ سے لَو لگاتے ہیں‘اپنے میثاق کوتازہ کرتے ہیں ۔ اسی طریقے سے روزہ ہے۔یہ بھی مادی وجود کے تقاضوں کو روکنے‘ ان کو دبانے اور suppressکرنے کے لیے ہے تاکہ اصل روحانی وجود تقویت پائے۔ پھر انفاق ہے ‘ زکوٰۃ و صدقات ہیں کہ مال کی محبت سے اپنے آپ کو روکا جائے۔مال کی محبت کےخول کو توڑنے کے لیے اسے خرچ کرنے اور زکوٰۃ و صدقات کی تعلیم دی گئی۔ جہاد و قتال اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال لگانا ہے‘صَرف کرنا ہے ۔ یہ سب درحقیقت ریاضتیں ہیں جن کے ذریعے سے اصل میں خودی کی نشوونمامطلوب ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی کتاب ’’حکمت ِاقبال‘‘ میں خودی کا تصوّر بڑی خوب صورتی سے اُجاگر کیا ہے ۔ اگرچہ مصنف کی ہربات سے توکوئی اتفاق نہیں کر سکتا لیکن انہوں نے واضح کیا ہے کہ خودی ہی انسان کی اصل حقیقت ہے۔ علامہ اقبال کا فلسفہ ٔ خودی ویسے تو چیستان بن گیاہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب نےجس طرح اسے سمجھا ہے اورسمجھایاہے‘ شاید کسی اور نے اس طور سے نہ سمجھا ہے اور نہ سمجھایا ہے‘ چاہے وہ کتنا ہی علامہ اقبال کانام لیوا رہا ہو۔اقبال کے نزدیک ہماری اصل حقیقت ہمارا مادی وجود نہیں بلکہ ہماری خودی ہے۔ ’’خودی‘‘ فارسی کا لفظ ہے ‘عربی میں اسے اَنا کہیں گے اور انگریزی میں self اور ego۔’’اَسرارِ خودی‘‘(Secrets of the Self) علامہ اقبال کی شہرئہ آفاق مثنوی ہے۔درحقیقت قرآن مجید کی رُوسے ہماری روح جو ہم میں پھونکی گئی وہ ہمارا روحانی وجود ہے جو ایک مستقل وجودہے لیکن ہمارا مادی وجود اس پر غالب ہے‘ چھایا ہوا ہے۔ وہ اس کے اندر دبی ہوئی ہے‘ سسک رہی ہے ‘اسے پروان چڑھانااصل فلاح ہے۔ آخرت میں اس کا ظہور جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام و اکرام اور اعزاز کی صورت میں ہو گا وہ گویا اس کا نتیجہ ہے۔اصل فلاح تو انسان یہاں حاصل کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے روحانی تقاضوں کو اپنے حیوانی وجود سے برآمد کر کے ‘حیوانی وجود کو دبا کر اپنے روحانی وجود کو پروان چڑھاتا ہے تویہ ہے فلاح ۔گویا اصل کامیابی!
ذاتی عصبیت اور ہٹ دھرمی میں مبتلا گروہ
آیت۶ اِنَّ الَّـذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۶)
اگلی دو آیات میں تاویل خاص کا پہلو بہت نمایاں ہے۔ تاویل عام کے اعتبار سے اس کا مفہوم بعد میں بیان کردوں گا۔ یہاں اصل اشارہ مشرکین ِمکّہ کی طرف ہو رہا ہے‘ خاص طور پر سردارانِ قریش جو۱۳ برس تک رسول اللہﷺ کی دعوت سنتے رہے لیکن ایمان نہیں لائے۔ ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جن کے دل نے گواہی بھی دی کہ یہ دعوتِ حق ہے‘ صحیح بات یہی ہے‘ محمد(ﷺ)جھوٹے نہیں ہیں ‘دھوکے باز نہیں ہیں۔ ان سے بڑھ کر یہ حقیقت کس کو معلوم تھی! اور پھریہ کہ یہ کلام انسانی نہیں ہے۔ انہیں واقعتاً ماننا پڑا کہ یہ انسانی کلام نہیں۔ انسان کے اندر یہ طاقت نہیں ہے کہ ایسا کلام موزوں کر سکے۔ اس اعتبار سے حقیقت منکشف ہو چکنے کے باوجود وہ عناد ‘ تعصب ‘ہٹ دھرمی‘ حسد اور تکبر کی بنا پرکفر پر اَڑ گئے ۔ چنانچہ یہ دوسری جماعت ہے جس کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے ۔ پہلا گروہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا تھا جنہوں نے قرآن مجید کی ہدایت سے استفادہ کیا اور ان کی شخصیتیں ہدایت ِقرآ نی کا ایک مرقع ہیں۔ دوسرا گروہ ہٹ دھرم کافروں کا تھا جن کا تذکرہ {اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا} کےالفاظ سے کیا جا رہا ہے۔
یہاں کفر کو انتہائی معنی میں لیجیے ۔ کفر کا اصل مفہوم تو کسی چیز کو چھپا دینا‘ دبا دینا ہے۔ انسان کے اندر کسی شے کے بارے میں یہ گواہی اُبھرے‘ دل گواہی دے دے کہ یہ بات صحیح ہے لیکن کسی مصلحت کی وجہ سے وہ اس کو نہ مانے‘ یہ کفر ہے۔ اسی طریقے سے کسی کے احسان کے جواب میں جذبہ شکر اُبھرا لیکن کسی وجہ سے انسان اس کو دباتا ہے‘ ظاہر نہیں کرتا ‘زبان سے شکر ادا نہیں کرتا ‘یہ بھی کفر ہے۔ کفر شکر کے مقابلے میں بھی آتا ہے ‘ اس لیے کہ شکر فطرتِ انسانی کا جذبہ ہے جسے انسان نے دبا دیا‘ چھپا لیا۔کفر کسی بات کا بھی ہوتا ہے بایں معنی دل نے تو مانا کہ یہ بات صحیح ہے لیکن یہ سوچنا کہ اگر میں اسے مان لوں گا تو یہ جیت گیا ‘میں ہار گیا۔ یہ بازی لے گیا اور میں بازی ہارگیا۔یا اس کی فوقیت ثابت ہوجائے گی اورمیں تو کمتر درجے کا ثابت ہو جائوں گا۔ اس وجہ سے کسی شے کی حقانیت کے انکشاف کے بعد بھی اس کو ردّ کر دینا ‘یہ کفر ہے۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی طرف سے کسی عصبیت کی وجہ سے کوئی کفر ہوا ہو۔ اگروہ عصبیت قومی ہو کہ ہمارے آباءو اَجداد کا ایک دین تھا ‘یہ ان کے عقائد تھے ‘ یہ رسوم و رواج ہمارے ہاں صدیوں سے چلے آ رہے ہیں ‘یہ ہماری ریت ہے‘ ہم کیسے چھوڑ دیں! تو ہو سکتا ہے کہ یہ تعصب کچھ وقت کے بعد زائل ہو جائے۔ اگر حقانیت کا انکشاف زیادہ واضح طور پر ہو جائے تو یہ آبائی عصبیت ختم ہو سکتی ہے‘ لیکن ذاتی عصبیت ‘ اپنا تکبر‘ اپنی ضد زائل نہیں ہوسکتی۔ اسے قرآن مجیدنے شِقاق کہا ہے: {ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ ج} (البقرۃ:۱۳۷) یعنی ضِدم ضِدا کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔تکبر‘ حسد‘ بغض‘ عناد‘ شقاق کی بنا پرجب کوئی کفر پر اَڑ چکا ہو تو اب اس کے حق میں کوئی اِنذار‘ کوئی افہام و تفہیم‘ کوئی بات سمجھانا‘ دلائل سے قائل کرنا سب بے سود اوربیکار ہے۔ یہ خاص گروہ ایسے عنادی کافروں کا ہے جس کا یہاں تذکرہ ہو رہا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ یہ عام معنی میں نہیں ہے‘ اس لیے کہ بے شمار لوگ اس کے بعد بھی ایمان لے آئے۔ مکہ میں بھی ایسے لوگ تھے جو بعد میں ایمان لائے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ابتداء ً انکار کیا‘ جیسے کہ عمر بن الخطاب ‘ تاہم ان کا انکار و اعراض آبائی تعصب یا عصبیت کی بنیاد پر تھا۔ آبا ء و اَجداد کے طور طریقوں کے ساتھ ایک عصبیت تھی۔ البتہ ابو جہل کا معاملہ ذاتی عناد‘حسد اورتکبر کا تھا‘ اس وجہ سے وہ دھل نہیں سکا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ چھ سال لگ گئے لیکن پھر اسلام کی آغوش میں آ گئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں عصبیت نہیں تھی‘ بس غفلت اور بے پروائی تھی۔ کھیل کود اور دیگر مشاغل میں دلچسپی زیادہ تھی۔ ہفتوں صحرا اور جنگلوں میں شکار کے اندر مصروف رہتے۔ اس طرف توجّہ ہی نہیں تھی کہ محمد رسول اللہﷺ کیا دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں! محض غفلت کی بنا پر یا آبائی رسوم و رواج کی وجہ سے تعصب اور عصبیت کی بنا پر آیا ہوا زنگ دھل سکتا ہے‘ لیکن جہاں ذاتی تکبر‘ عناد ‘ شقاق اور ضدم ضدا کی کیفیت ہو تو یہ شے زائل ہونے والی نہیں ہے۔ یہ معاملہ مکہ میں تو سردارانِ قریش کا تھایا پھر مدینہ میں علمائے یہودکا ۔ اس لیے اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ان دو آیات (۶‘ ۷) میں اِن ہی دونوں گروہوں کی طرف اشارہ ہے۔ مکہ کے زعماء اور سردارانِ قریش جبکہ مدینہ میں یہود کے علماء اور مذہبی پیشوا‘ ان کی طرف روئے سخنہے ۔تو فرمایا:
{اِنَّ الَّـذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۶)}
’’یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا (یعنی وہ لوگ کہ جو کفر پر اَڑ گئے) ان کے لیے برابر ہے (اے محمدﷺ) کہ آپ انہیں انذار فرمائیں یا نہ فرمائیں‘ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔‘‘
یقیناً وہ لوگ جو کفر پر اَڑ چکے ہیں‘ کفر پر جم چکے ہیں‘ ضد کی بناپر کفر پر راسخ ہو گئے ہیں‘ ان کے حق میں برابر ہے ‘خواہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں! عَلٰی حرفِ جار اکثر مخالفت کے لیے آتا ہے لیکن حروفِ جار کے استعمال میں بعض اوقات ادل بدل بھی ہو جاتا ہے۔ عَلٰی کی جگہ لام اور لام کی جگہ عَلٰی آ سکتا ہے۔ اگرچہ یہاں پر عَلٰی آیا ہے {سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ} ’’ان پر برابر ہے‘‘ لیکن یہاں مراد ہے ’’سَوَاءٌ لَّـھُمْ‘‘ یعنی ان کے حق میں برابر ہے۔ {ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ} ’’خواہ آپؐ انہیں انذار کریں یا انذار نہ کریں۔‘‘
ہمارے ہاں عام طور پر لفظ انذار کا ترجمہ ڈرانا کر دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا لفظی ترجمہ خبردار کرنا (to warn) ہے۔ نذیر کے معنی ہیں : خبردار کرنے والا (warner)‘
آگاہ کردینے والا۔اگر آگے گڑھا ہے اورکوئی نابیناشخص جا رہا ہے اور آپ اسے پکار کرکہتے ہیں کہ دیکھنا بھائی آگے گڑھا ہے تویہ درحقیقت انذار ہے‘ تخویف نہیں ہے۔ چنانچہ عنادی کافروں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ اے نبیﷺ! آپ کتناہی انہیں خبردار کریں ‘ آخرت کی خبرسنائیں‘جہنم کی وعیدیں سنائیں‘ یہ ایمان نہیں لائیں گے۔اب ان کے حق میں بالکل برابر ہےخواہ آپؐ انہیں خبردار کریں یانہ کریں۔
آیت۷ خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ ط
’’مہر کر دی ہے اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر۔
’’ختم‘‘کا لفظ اردو میں جس معنی میں مستعمل ہے‘ یعنی کسی چیز کو ختم کر دینا‘ کسی کام کو مکمل کردینا‘ عربی میں بھی اسی معنی میں مستعمل ہے اور بغیر صلے کے آتا ہے ‘جیسے خَتَمْتُ الْقُرْآن ’’مَیں نے قرآن کی تلاوت پوری کرلی۔‘‘البتہ جب اس کے ساتھ عَلٰی کاصلہ آ جائے (خَتَمَ عَلٰی) تواس کے معنی ہوں گے کسی شے پر مہر لگادینا‘یعنی کسی چیز کو مہر بند (سیل بند) کر دینا کہ اب اس میں کوئی شے نہ داخل ہو سکے اور نہ نکل سکے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو sealکر دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر۔ ’’سمع‘‘(سننا) اگرچہ مصدر ہے لیکن یہ لفظ مصدر سے آگے بڑھ کر ’’سماعت‘‘ کے لیے بھی مستعمل ہے اور آلۂ سماعت (کان) کے لیے بھی۔ مزید یہ کہ واحد اور جمع دونوں کے لیے آتا ہے۔ یہاں مراد کان ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کانوں پر بھی مہر کر دی ہے۔
{وَعَلٰی اَبـْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ ز}
’’اور ان کی آنکھوں پرپردے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
بصر(دیکھنا)مصدر ہے ۔یہاں بینائی اور اس کے ساتھ ہی دیکھنے والی شے یعنی آنکھ مراد ہے ۔اَبْصَار جمع کے صیغہ میں آیا ہے آنکھوں کے لیے ۔’’ اِن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
{ وَّلَـھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۷) }
’’اور ان کے لیےبہت بڑا عذاب ہے۔‘‘
بہت بڑے عذاب اور بہت بڑی سزا سے مراد آخرت کی سزا ہے جو انہیں ابدی جہنم کی صورت میں ملے گی۔
ختم ِقلوب کی حقیقت
اب ختم ِقلوب کے بارے میں بھی کچھ عرض کردوں۔ ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ کے مصنف کویقیناًاس پربھی اعتراض ہوا ہوگاکہ جب اللہ نے ہی ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کردی توان کافروںکا قصور کیاہے !اللہ نے مہر کر دی‘ ہدایت ان کے دلوں میں داخل ہی نہیں ہو سکتی تو پھر ان کی مذمت کس بات کی؟ ان کا قصور کیا ہے؟ یہ قاعدہ بھی قرآن میں تفصیل سے آیاہے کہ جب کسی شخص کے اندر ضد ‘عناد ‘ ہٹ دھرمی ‘تعصب اورتکبر جیسی چیزیں پیدا ہو جائیں اور اس کی وجہ سے وہ حق سے روگردانی کرے تو شروع میں تو وہ اس شے کو حق سمجھ کر اعراض کر رہا ہوتا ہے‘ لیکن ہوتے ہوتے اس کی اپنی ذہنیت اس طرح مسخ ہو جاتی ہے کہ واقعتاً اس کے اندر صلاحیت ہی نہیں رہتی کہ حق کو حق سمجھ سکے۔ اس سے حقیقت کو دیکھنے کی استعداد ہی سلب کرلی جاتی ہے۔
فزیالوجی کے حوالے سے بھی یہ طبعی مظہر (physical phenomenon)سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا جو عضو جس کام کے لیے بھی بنایا ہے اگر وہ کام اس سے لیا جاتا رہے تو وہ عضو صحیح و سالم رہے گا‘اوراگر وہ کام اس سے نہ لیاجائے تواس میں ڈی جنریشن ہوگی یعنی اس عضوکے اندر سے وہ صلاحیت سلب ہونی شروع ہوجائے گی ۔ مثلاً کسی انسان کے ایک جوڑ کو اگر لاک کردیں اوراس کے اوپرپلستر بہت دیر تک کے لیے چڑھا رہے تویہ جوڑ جام ہوجائے گااور اس کے اندر حرکت کی صلاحیت باقی نہیں رہے گی۔ آنکھوں پرطویل عرصے تک پٹی بندھی رہی توبینائی سلب ہوجائے گی ۔اسی طرح انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے حق کو سمجھنے اور پہچاننے کی استعداد رکھی ہے۔ جیسے ایک بصارتِ ظاہری ہے ‘اسی طرح ایک بصیرتِ باطنی بھی اس کو عطا کی گئی ہے۔ اس بصیرت نےبتایا ہے کہ یہ صحیح ہے‘یہ حق ہے۔ اگر اسے ردّ کر دیا اور مسلسل ردّ کرتے رہے تووہ بصیرت ہی ختم ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ صحیح اور غلط میں امتیاز کی وہ صلاحیت ہی سلب کرلےگا۔ اسی کو تعبیر کیا جاتا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی: {خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ}۔
یہ ابتدائی مرحلہ نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت انسان کے اعراض ‘انکار‘ حق کو حق سمجھنے کے باوجود قبول نہ کرنے پر اصرار کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس کی سزا اس دنیا میں یہ ہے کہ پھر اس کے اندر حق کو پہچاننے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ اس قانون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصف میں بایں الفاظ بیان فرمایا: {فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ ط }’’پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو بھی ٹیڑھا کر دیا۔‘‘ یہ دلوں کو کج کر دینا بعد میں ہوا۔ یہ نتیجہ ہے اس کا کہ جب وہ ٹیڑھے ہوئے۔ ساتھ ہی فرمایا:{وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(۵)}’’اور اللہ ایسے فاسقوں کو ( زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ جو ہدایت کو اس طرح ردّ کردیں‘ ہدایت کی ناقدری کریں‘ اللہ تعالیٰ انہیں زبردستی ہدایت نہیں دیتا۔ اگر زبردستی ہدایت دے تو پھر اس پر اجر و ثواب کس بات کا؟ اگر کسی کو زبردستی گمراہ کر دے تو اس کی گمراہی پر عذاب اور سزا کس بات کی؟یہ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار (choice) دیا ہے۔ اگر انسان اپنی صلاحیت کو معطل کر کے رکھ چھوڑتا ہے توپھر اللہ تعالیٰ اس صلاحیت کو سلب کر لیتا ہے۔
اس اعتبار سے بات واضح ہوگئی کہ ہم یہاں تاویل خاص ہی پیش نظر رکھ سکتے ہیں۔ اگر تاویل عام کی صورت میں جو بھی کافر ہے اس پر اس کا اطلاق کر دیں گے تو پھر تبلیغ کس لیے؟ انذاراور تبشیر کاہے کے لیے؟ ایسا تو نہیں ہے کہ جو اِس وقت کفر میں ہے وہ ہمیشہ کفر ہی میں رہے گا۔ چنانچہ یہاں پر درحقیقت تاویل خاص ہی منطبق ہو گی کہ وہ لوگ جو اپنے عناد‘ بغض‘ تعصب ‘تکبر‘حسداورشقاق کی وجہ سے کفر پر اَڑ گئے‘ضدم ضدا کی وجہ سے اس پرجازم ہوگئے‘ اے نبیﷺ! آپ ان کو خواہ کتنا ہی سمجھائیں ‘افہام وتفہیم میں اپنے آپ کو کتنا ہی ہلکان کر لیں‘ کتنے ہی دلائل وبراہین کی روشنی ان کے سامنے لے آئیں‘ یہ اب ماننے والے نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ صلاحیت ہی سلب کر لی ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ اس کے لیے قرآن مجید میں کہیں ’’ طَبَعَ اللہُ‘‘ کا لفظ بھی آتا ہے کہ اللہ نے ٹھپا لگادیاہے ۔جیسے سورۃ النحل میں فرمایا :
{اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ سَمْعِہِمْ وَ اَبْصَارِہِمْ ج وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۰۸)}
’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں ‘ کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے‘ اور یہی لوگ ہیں جو غافل ہیں۔‘‘
زیر ِمطالعہ آیت میں آنکھوں کے لیے ذرا مختلف ا سلوب اختیار کیا گیا: {وَعَلٰی اَبـْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ ز} ’’اور ان کی آنکھوں پرپردے ہیں‘‘ اس لیے کہ آنکھ صرف سامنے دیکھتی ہے۔ ہمارا بینائی کا دائرہ (field of vision) محدود ہے۔ سامنے کے علاوہ تھوڑا دائیں‘ تھوڑا بائیں دیکھ سکتے ہیں‘ لیکن کان اور دل کا معاملہ درحقیقت کسی خاص سمت سے متعلق نہیں ہے۔ آواز کسی بھی سمت سے کان میں آ جائے گی ۔ اسی طرح سے ہمارے دل کا معاملہ ہے۔ یہ دل صرف خون کو پمپ کرنے والا آلہ ہی نہیں بلکہ انسان کی معنوی حقیقت ہے ‘جوروح کا مسکن ہے۔ اس کے لیے بھی کوئی خاص سمت معیّن نہیں ہے کہ اسی سے اس کوکوئی خبرپہنچ رہی ہواورمعلومات پہنچتی ہوں‘ بلکہ اسے ہرچہار طرف سے حقائق کااِدراک اورشعور ہوسکتاہے ۔ ا س اعتبار سے{قُلُوْبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ}کے لیے لفظ ’’خَتَمَ‘‘ استعمال کیا گیا‘ جبکہ آنکھ سے چونکہ انسان سامنے ہی کی چیز ‘ ایک ہی سمت میں دیکھتا ہے‘ اس لیے وہاں لفظ ’’غِشَاوَۃٌ‘‘(پردہ) آ گیا ہے۔
سورئہ یٰسین کی ابتدائی آیات سے تقابل
قرآن مجید میں ان آیات کے لیے مثنیٰ سورئہ یٰسین کی ابتدائی آیات ہیں۔ چنانچہ یہ آیات جو ہم نےاس نشست میں پڑھی ہیں ان کا سورئہ یٰسین کی ابتدائی آیات سے اجمالی طور پر ایک تقابل کر لینا مفید ثابت ہو سکتا ہے:
{ یٰسٓ(۱) وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ (۲) اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۳) عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۴) }
’’یٰس‘ قسم ہے اس قرآن کی جوحکمت بھرا ہے۔ (اے محمد!ﷺ) یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں۔ صراطِ مستقیم پر ہیں۔‘‘
یہاں ’’صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ‘‘ خاص طورپر قابلِ توجّہ ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں آچکا ہے: {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} سورۃ البقرۃ کے شروع میں صرف لفظ ’’ھُدًی‘‘ (ہدایت) آیا‘ صِرَاط کالفظ دوبارہ نہیں لایا گیا۔
{ تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ(۵) }
’’(اس قرآن کا) نازل کیا جانا ہے اُس ہستی کی جانب سے جو بہت زبردست‘ نہایت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
یعنی قرآن کے من جانب اللہ ہونے میں ہرگز کوئی شک نہیں ۔
{لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ(۶) لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓی اَکْثَرِہِمْ فَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۷) }
’’تاکہ آپؐ خبردار کریں اُس قوم کو جن کے آباء و اَجداد کو خبردار نہیں کیا گیا‘ پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی اکثریت پر ہمارا قول (قانونِ عذاب) سچ ثابت ہو چکا ہےتو اب وہ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ قانون کہ جوکوئی مسلسل اپنے تکبر اور ضدکی بنا پر حق سے اعراض کرے گا اس کے اندر سے حق کو پہچاننے کی صلاحیت ہی سلب کر لی جائے گی‘ وہ ان کے اوپر منطبق ہو چکا ہے‘ یہ اس کی زد میں آچکے ہیں۔
{ اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ(۸) }
’’ہم نے ان کی گردنوں میں طوق لٹکا دیے ہیں پس وہ اِن کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کے سر اوپر اٹھے ہوئے ہیں۔‘‘
یہ معناً اشارہ ہورہا ہے تکبر کی طرف۔ تکبر میں انسان کی گردن اکڑ جاتی ہے۔ یہ جو ابوجہل اور عتبہ بن ابی معیط وغیرہ کی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں اصل میں تمہیں نظر نہیں آ رہا‘ ان کے گلوں میں ہم نے طوق ڈال دیے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں اور سر اٹھے ہوئے ہیں۔
{وَجَعَلْنَا مِنْ م بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْنٰہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ(۹) }
’’اور ہم نے ان کے سامنےبھی دیوار حائل کردی ہے اور ان کے پیچھے بھی‘ اس طرح ہم نے ان کو ڈھانپ دیا ہے‘ پس اب وہ دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
یعنی سامنے کے حقائق انہیں نظر نہیں آ رہےاور پیچھے کی جو تاریخ انسانی ہے وہ اس سے بھی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ (سورئہ یٰسین مکی سورت ہے جس میں انبیاء ورسل علیہم السلام کے تاریخی حالات و واقعات اور ان کی خبریں ‘یہ سارے مضامین تفصیل سے آئے ہیں۔)
{ وَسَوَآئٌ عَلَیْہِمْ ئَ اَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۰)}
’’اور ( اے نبیﷺ!) اِن کے حق میں بالکل برابر ہے خواہ آپ ان کو انذار کریں یا نہ کریں ‘یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ‘‘
{اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ ج }
’’ آپؐ تو بس اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہیں جو الذکر (قرآن) کی پیروی کرے اور غیب میں ہونے کے باوجود رحمان سے ڈرے۔‘‘
{ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّاَجْرٍکَرِیْمٍ(۱۱) }
’’ پس ایسے انسان کو آپؐبشارت دیجیے مغفرت کی اور باعزّت اجر کی۔‘‘
اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! آمین یاربّ العالمین
tanzeemdigitallibrary.com © 2025