سب سے کمزور گھر!شجاع الدین شیخ
(خطابِ جمعہ: ۳ اکتوبر۲۰۲۵ء ‘قرآن اکیڈمی ‘لاہور)
خطبہ مسنونہ کے بعد:
{فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ ج فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًاج وَ مِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُج وَ مِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ ج وَ مِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاج وَمَا کَانَ اللہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ(۴۰) مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِیَآئَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ ج اِتَّخَذَتْ بَیْتًاط وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ م لَــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱)} (العنکبوت)
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(۲۱) } (الاحزاب) صدق اللّٰہ العظیم
قرآن حکیم میں سے سورۃ العنکبوت کی دو آیات(۴۰اور ۴۱) اور سورۃ الاحزاب کی ایک آیت(۲۱)تلاوت کی گئی۔ ان آیات کے ضمن میں چند باتوں کی تذکیر اور یاد دہانی مقصود ہے۔
گزشتہ اقوام پر عذابِ الٰہی
سورۃ العنکبوت قرآن حکیم میں بیسویں اور اکیسویں پارے میں ہے۔ عنکبوت کا ترجمہ مکڑی کیا جاتا ہے۔ یہ مکی دور کی سورت ہے ‘ خاص طور پر وہ دور جس کو ’’تعذیب المسلمین‘‘ کہا جاتا ہے یعنی جب ایمان والوں پر زندگی تنگ کی گئی۔ نبی اکرم ﷺ نے آغازِ وحی کے بعد ابتدائی تین برس تک دعوت کا کام انفرادی سطح پر کیا۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ اعلانیہ دعوت پیش کیجیے۔ جب اعلانیہ دعوت پیش کی گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اس دعوت کے عمل میں اپنا حصہ ڈالا تو مسلمانوں پر تعذیب کا دور آیا‘ مشقتوں کا دور آیا‘ مشکلات کا دور آیا۔ان مشکلات کے دور کے حوالے سے سورۃ العنکبوت کا نزول بھی ہے۔ اسی دور میں جو کم و بیش پانچ نبوی ہے‘ سورۃ الکہف کا نزول بھی ہوا۔بہت ساری ہدایات ہیں۔ ہمارا ’’مطالعہ قرآن حکیم کامنتخب نصاب‘‘ جسے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒنے تفصیل سےبارہا بیان کیا‘ اس میں سورۃ العنکبوت کا پہلا رکوع اور مزید کچھ آیات بھی شامل ہیں۔ چنانچہ مشکلات کا یہ دوربڑا اہم موضوع ہے‘ جو سورۃ العنکبوت میں بھی آتا ہےاور سورۃ الکہف میں بھی۔
سورۃ العنکبوت کی آیت ۴۰ کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ پچھلی اقوام پر جو مختلف نوعیت کے عذاب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آئے‘ ان کی کم و بیش تمام ہی اقسام کواس میں بیان کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ ج }
’’چنانچہ ہم نے ان میں سے ہر ایک کو اُس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا۔ ‘‘
یہ عموم کے اعتبار سے اقوام کا ذکر آرہا ہے۔ اس سے پچھلی آیات میں بھی کفر کے حوالے سے‘ شرک کے حوالے سے‘ پیغمبروں کی دعوت کو رد کرنے کے حوالے سے لوگوں کا تذکرہ ہوا۔ یہ موضوعات اس سورت میں بھی اور قرآن حکیم کی دوسری سورتوں میں بھی بار بار آتے ہیں۔ پھر ان قوموں پر آنے والے عذابوں کو بھی قرآن کریم میں جا بجا بیان کیا گیا ہے۔ ان پر آنے والے عذابوں کو ایک سمری کے طور پر اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے۔ فرمایا:
{ فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًاج }
’’ تو اُن میں وہ بھی تھے جن پر ہم نے زور دار آندھی بھیجی۔‘‘
یعنی ایسی تیز ہوا کہ جس میں پتھروں کی بارش بھی برسا دی گئی۔
{ وَ مِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُج وَ مِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ ج وَ مِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاج }
’’اور اُن میں وہ بھی تھے جنہیں چنگھاڑ نے آپکڑا‘ اور اُن میں وہ بھی تھے جنہیں ہم نے زمین میں دھنسا دیا‘ اور ان میں وہ بھی تھے جن کو ہم نے غرق کر دیا۔‘‘
چار قسم کی باتیں آئیں: (۱)تیز ہوا اور پتھروں کا برسایا جانا۔اس کا ذکر ہم حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے حوالے سے پڑھتے ہیں ۔(۲) زور دار آواز‘چیخ کا عذاب۔ سورۃ یٰسین میں بھی یہ لفظ آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو بھیجا جس نے چیخ ماری اور اسی چیخ کے نتیجے میں قوم پرموت طاری ہوئی۔ اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر جو عذاب آئے اس میں زوردار آواز کا عذاب بھی تھا۔ (۳)جن کو زمین میں دھنسا دیاگیا‘ وہ قارون کا واقعہ ہے‘ جسے ہم سورۃ القصص میں پڑھتے ہیں۔ (۴) حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو غرق کیا گیا ‘آل فرعون کو بھی غرق کیا گیا۔ آگے فرمایا:
{وَمَا کَانَ اللہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ(۴۰)}
’’ اور اللہ ایسا نہیں تھا کہ ان پر ظلم کرتا‘ بلکہ وہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔‘‘
شرک : عظیم ترین گناہ
سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ بندہ شرک کرے ۔سورۃ لقمان میں فرمایا:
{یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳)}
’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا۔ یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔‘‘
شرک کی وہ نوعیتیں جو ہمارے ہاں بھی موجود ہیں‘ ان کا ذکر اگلی آیت کے ذیل میں آئے گا‘ ان شاء اللہ تعالیٰ!یہاں بتایا جا رہا ہے کہ سب سے بڑا ظلم تو شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ گزشتہ اقوام پر جو عذاب نازل کیے گئے وہ ظلم کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے‘ شرک میں مبتلا ہو کر‘ کفر میں مبتلا ہو کر اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہو کر۔ مثلاً حضرت لوط علیہ السلام کی قوم شرک کے علاوہ ہم جنس پرستی کے قبیح فعل کا بھی شکار ہو گئی تھی۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں اسے قانونی تحفظ د ے دیا گیا ہے۔ قانون سازی کے تحت اس کو‘ معاذ اللہ‘ حلال کر دیا گیا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم میں شرک بھی تھااور وہ ناپ تول کی کمی میں بھی مبتلا تھی‘ جو آج ہمارے ہاں بھی رائج ہے۔ فرعون اور آلِ فرعون نے سیاسی سطح کا بھی ایک جرم کیا تھا۔شرک تو وہاں پر تھالیکن قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا کر ان کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔چنانچہ یہ معاشی سطح پر‘ معاشرتی سطح پر‘ سیاسی سطح پر قوموں کے جرائم کا ذکر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان جرائم کی وجہ سے عذاب آیا کرتا تھا۔
قوموں کے اعمال اور کردار میں بگاڑ کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ آتی ہے۔ زلزلے دنیا میں ویسے بھی آتے ہیں‘بارشیں ویسے بھی ہوتی ہیں لیکن زلزلے قوموں کے کردار کے بگاڑ کی وجہ سے بھی آتے ہیں۔پتھروں کی بارش قوموں کے کردار کے بگاڑ کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ کسی کے اوپر زلزلہ مسلط ہونا ‘جیسے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے کردار کے بگاڑ کی وجہ سے ہوا‘ زمین پر اس طرح کی کیفیات مسلط کیے جانے کے یہ سب میٹا فزیکل اسباب ہیں۔ یعنی قوموں کے کردار میں بگاڑ کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آتا تھا۔ اس میں ہمارے لیے رہنمائی کیا ہے؟ اِس اُمت ِمسلمہ کے حوالے سے اللہ کے پیغمبر ﷺ کی دعاؤں کا حاصل تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر اُمّت مٹائی نہیں جائے گی ‘ لیکن چھوٹے چھوٹے عذابوں کا آنا کبھی آزمائش کے طور پر ‘کبھی تنبیہات کے طور پر جاری رہے گا۔ یہ نکتہ ہے جو قوموں کے ان واقعات کے بیان میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
اگلی آیت میں فرمایا:
{ مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِیَآئَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ ج }
’’اُن لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا کچھ حمایتی بنا رکھے ہیں‘ ایسی ہے جیسے مکڑی کی مثال‘ ‘
غیر اللہ کو اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے‘ کارساز بنا دیا ہے۔ کیسے ؟ فرمایا:
{اِتَّخَذَتْ بَیْتًاط وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ م}
’’جس نے ایک گھر بنایا۔ اور بے شک تمام گھروں میں سب سے زیادہ کمزور گھر مکڑی ہی کا گھر ہے۔ ‘‘
مکڑی جو جالا بنتی ہے ‘یہاں اس کی بات ہو رہی ہے ۔
{ لَــوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱) } (العنکبوت) ’’کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘
تمثیلاتِ قرآن
سورت کا نام عنکبوت (بمعنی مکڑی)ہے‘ جس کا ذکر اس مقام پر آگیا۔ اس ضمن میں یہ اصول سمجھ لیں کہ کبھی تو کسی سورۃ کا نام ایسے لفظ سے موسوم ہوتا ہے جو اس سورت میں موجود ہو۔ سورۃ البقرہ میں لفظ بقرۃ موجود ہے ‘ بنی اسرائیل کا گائے سے متعلق ایک واقعہ مذکور ہے‘ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری کی ساری سورۃ گائے کے حوالے سے ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سورت کا نام ایسا ہو کہ وہ لفظ سورت میں موجود نہ ہو۔ اس کی آسان ترین مثال سورۃ الاخلاص ہے‘ جس میں لفظ اخلاص موجود نہیں ہے۔ یہ تو ایک نکتہ تھا سورتوں کے نام کے تعلق سے۔یہاں عنکبوت کاذکر آیا۔
قرآن کریم میں ایک لفظ آتا ہے مَثَل‘ جیسے یہاں آیا: کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ ۔یہ تمثیلات بھی بار بار قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔ قرآن کریم میں واقعات اور قصے بھی ذکر کیے گئے ہیں‘ جبکہ قرآن قصوں اور کہانیوں کی کتاب نہیں ہے ‘معاذ اللہ! قرآن تو ہدایت کی کتاب ہے۔ دراصل ان واقعات اور قصوں سے باتیں سمجھنا آسان ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن مثالیں یا تمثیلات بیان کرتا ہے‘ جسے انگریزی میں ہم parablesکہتے ہیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے تمثیلات بیان کی ہیں۔ مثلاً ایک تمثیل سورۃ الحج کے آخری رکوع میں ہے۔یہ رکوع بھی ہمارے منتخب نصاب میں شامل ہے‘ جس کو بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے کئی مرتبہ بیان فرمایا جو کتابی شکل میں بھی ہے‘ آڈیو اور ویڈیو میں بھی ہے‘ مختصر بھی اور طویل بھی۔ ہمارے رجوع اِلی القرآن کورسز‘ شارٹ کورسز اور دروسِ قرآن میں پڑھایا بھی جاتا ہے۔ اس میں یہ ذکر کیا گیا کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے‘بلکہ مکھی اگر ان کے سامنے سے کچھ اُچک کر لے جائے تو یہ بے چارے اسے واپس بھی چھڑا نہیں سکتے۔ارشاد ہوتا ہے :
{ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ(۷۳)}
’’کس قدر کمزور ہے طالب بھی اور مطلوب بھی!‘‘
اس سے اللہ تعالیٰ نےایک حقیقت واضح کی ہے کہ تم اگر مخلوق میں سے کسی کو پکارو تووہ خود محتاج ہے‘اسے پکارنے کا فائدہ کیا!جو خود محتاج ہے وہ کسی اور کے کیا کام آ سکتا ہے؟ قرآن کریم بہت سارے حقائق کو سمجھانے کے لیےہمارے سامنے تمثیلات رکھتا ہے۔ اسی میں سورۃ العنکبوت کا یہ مقام بھی ہے۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو کارساز بنائیں‘سمجھیں کہ یہ ہمارا کام بنا دیں گے‘ ہمیں کچھ دے دیں گے ‘ ہماری بگڑی سنوار دیں گے‘ ہمیں تحفظ دے دیں گے ‘ ہمیں بچا لیں گے‘ سمجھیں کہ یہ ہمارے نفع نقصان کے اختیار رکھنے والے ہیں تو فرمایا کہ جو یہ رویہ اختیار کر تے ہیںان کے لیے مثال ایسی ہے جیسے کہ مکڑی کا گھر‘ اور تمام گھروں میں سب سے زیادہ کمزور مکڑی کا گھر ہے ۔یہ ہم سب کے مشاہدے کی بات ہے۔ کسی مکڑی نے جالا بنایا ‘ہم نے انگلی سے چھوا تو وہ ختم ‘ہوا چلی توختم ‘کوئی چیز ٹکرائی توختم۔
ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس گھر میں ایک مکڑی ہوگی‘ ایک مکڑا ہوگا ‘تو کئی مرتبہ مکڑی مکڑے کو مار ڈالتی ہے۔ یہ گھر اتنا کمزور ہے کہ مادہ اپنے نر پر غالب آ جاتی ہے۔ اس کو بھی ذہن میں رکھیے گا ‘جبکہ اللہ نے نر (مرد)کو قوام بنایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ } (النساء:۳۴) ’’مَرد عورتوں پر حاکم ہیں۔‘‘گھر چلانے کی ذمہ داری اصولاً‘ اصلاً ‘ اولاً مرد پر ڈالی گئی ہے ۔گھر والوں کی مادی حاجات پوری کرنا‘ روحانی ضرورتوں کا خیال رکھنا‘ فیصلہ سازی جیسے معاملات مرد کے ذمہ لگائے گئے ہیں۔
مکڑی کے گھر کی تمثیل اللہ تعالیٰ کس کے لیے بیان کر رہا ہے؟ پچھلی آیت میں گزشتہ اقوام کا ذکر آیا کہ وہ بتوں اور دیوی دیوتاؤں کو پوجنے والے تھے‘اللہ کا کفر کرنے والے ‘اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور اللہ کو چھوڑ کر اس کی مخلوق میں سے کسی کو خدائی کا درجہ دے کر نفع نقصان کا اختیار رکھنے والے سمجھتے تھے۔ ان کا انجام پچھلی آیت میں بیان کر دیا گیا۔اب یہ آیت۴۱ہےجس میں اللہ تعالیٰ یہ تمثیل بیان کر رہا ہے کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو کارساز بناتے ہیں‘ اپنا حمایتی سمجھتے ہیں‘ نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں‘ اپنی حفاظت کرنے والا سمجھتے ہیں‘ انہی سے اُمیدیں رکھتے ہیں ‘ان کا یہ رویہ بھی انتہائی بودا اور کمزور ہے جیسے کہ مکڑی کا گھر انتہائی کمزور ہوا کرتا ہے۔ اس تمثیل کو تھوڑا اور کھولیں۔ یہ انفرادی سطح کے معاملات بھی ہیں اور اجتماعی سطح کے معاملات بھی ۔
اس ضمن میں بھی استاد محترم بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بہت عمدہ خطابات ہیں۔ موضوع ہے: ’’حقیقت و اقسامِ شرک ۔‘‘جو ماسٹر پیس ہے وہ چھ گھنٹے کے آڈیو کیسٹس ہیں۔ اب وہ ڈیجیٹائز ہو چکے ہیں ۔ ویڈیوز کے حوالے سے ۱۹۸۵ء کی ایک ’’ابوظبی سیریز‘‘ ہے جو سب سے متاثر کن اور عمدہ ترینہے۔اس کا دورانیہ تقریباً ڈھائی تین گھنٹے ہے۔ پھر جب ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دعوت پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ ہندوستان تشریف لے گئے تھے تو پیس ٹی وی پر جوپروگرامز نشر ہوئے وہ بھی اسی موضوع پر دو اڑھائی گھنٹے کے معروف ویڈیوز ہیں۔ میں دعوت دوں گا کہ جن لوگوں کو اس موضوع سے دلچسپی ہے‘وہ ان تقاریر کو ضرور سنیں یا کتاب ’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کا مطالعہ کریں۔
نفع نقصان کا مالک کون؟
ایک تو کھلا مشرک ہے ‘کھلا کافر ہے۔ایک مسلمان ہے جس کو اندیشہ ہے یا جس کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ کسی نوعیت کے شرک میں مبتلا نہ ہو جائے۔ ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں!ایک سجدہ کسی دیوی دیوتا کے سامنے ہوتا ہے ‘یہ بھی شرک ہے۔ اس کو سمجھنا کہ یہ حاجت روا ہے‘ مشکل کشا ہے‘ میرے نفع نقصان کا مالک ہے‘ یہ بھی شرک ہے۔ کسی غیر مرئی قسم کی طاقت اور دیوی دیوتاؤں کا تصور رومن ایمپائر کے شرک میں بھی رہا ‘ہندومت میں بھی ہے۔ کسی غیر مرئی قسم کی شے کو مانا جائے کہ وہ ہمارے نفع نقصان کی مالک ہے تو یہ بھی شرک ہے ۔کبھی چلتے پھرتے انسانوں سے بھی بندے ایسی توقعات رکھتے ہیں کہ میرے نفع نقصان کا مالک یہ ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تو یہاں تک کہا کہ اگر ظاہری اعتبار سے میں آپ سے کہتا ہوں مجھے پانی پلا دیجیے‘ میرا فلاں سامان گاڑی پر رکھوا دیجیے تو اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ دنیا اسباب کے تحت چلتی ہے۔ البتہ ہم نے کسی سے کسی کام کے لیے ایک دفعہ کہا‘ دو دفعہ کہا ‘تین دفعہ کہا‘ بس بہت ہے۔ اس کے بعد اللہ کے حوالے کر دیا جائے ۔اس کے بعد بھی اگر ڈٹے ہوئے ہیں تو پھر باطنی طور پر تھوڑا سا جائزہ لے لیا جائے کہ اگر میں اللہ ہی کو مسبّب الاسباب سمجھتا ہوں تو مخلوق کے سامنے یہ بار بار کی خوشامدیں کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے! ڈاکٹر صاحبؒ نے ان چیزوں کو اس حد تک واضح کیا ہے۔ چنانچہ ’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ پر چھ گھنٹے والے خطابات کا سننا یا پھر ان کا پڑھ لیا جانا اس موضوع کے اعتبار سے بڑا اہم ہوگا۔
ظاہر کے اعتبار سے ہم کسے اپنے نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں ؟کسی مال والے کو ‘کسی سیٹھ کو ‘اپنے افسر کو‘ اپنے آجر کو‘ کسی ادارے کے سربراہ کو؟ کیا وہ واقعی نفع نقصان کا مالک ہے؟ آپ کا میرا عقیدہ کیا کہتا ہے کہ ’’النَّافِع‘‘ کس کی ذات ہے؟ اللہ کی !’’ الضَّار‘‘ ـ(نقصان پہنچانے والا) کس کی ذات ہے؟ اللہ کی! ظاہری اسباب کے تحت دوسرے کے کام آنا ایک الگ شے ہے لیکن یہ سمجھنا کہ یہی میرے نفع نقصان کا مالک ہے‘ یہ ہاں کر دے تو میرا کام بنے گا‘ یہ میری پشت پناہی کرے گا تومیری کرسی بچے گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر شرک اور کس چیز کا نام ہے؟
بتوں سے تجھ کو امیدیں‘ خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے!آج مسلم حکمران کدھر کھڑے ہیں؟ کس طرح ٹرمپ جیسے چالاک اور عیار شخص کو‘ جو دو ہاتھ آگے نظر آتا ہے نیتن یاہو سے‘ امن کا علم بردار کہہ رہے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ اس نے امن کے لیے بڑا کام کیا ہے۔ اس کی حمایت میں ہم کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہمارے حکمران اور مقتدر طبقات اس کے ساتھ مسکراہٹوں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے کوبڑا کمال سمجھتے ہیں۔ اللّٰہ اکبرُ کَبِیْرًا! ’’ امن معاہدہ‘‘ کچھ نہیں سوائے اس کے کہ حماس کی کوئی بات نہیں ماننی۔ فلسطین کے مسلمانوں کو کوئی حق نہیں کہ ان کے مسئلے کے بارے میں ان کی رائے لی جائے‘ اس بارے میں فیصلہ ٹرمپ کرے گا یا نیتن یاہو۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی اگرچہ رائے لے لی گئی لیکن اب ان کو کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری تجاویز شامل نہیں کی گئیں۔ ہم نے جو بات کہی تھی وہ تو اس ۲۰ نکاتی امن فارمولے میں آئی ہی نہیں ہے۔ اب اپنی بغلیں جھانک رہے ہیں ۔آج کس سے امیدیں ہیں؟عرب حکمرانوں نے ٹرمپ کی خدمت میں کیا کچھ پیش نہیں کیا؟کوئی طیارے سجا سجا کر دیتا ہے ۔انتہائی لجاجت کے ساتھ خوشامدیں کر رہے ہیں۔ اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ہم اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہو رہے۔ یہ اندیشہ ہے کہ ٹرمپ ناراض ہو جائے گا۔ہماری سربراہی اور بادشاہتیں ختم ہو جائیں گی۔
نیچے سے اوپر تک دیکھ لیجیے‘ ایک ہی رویہ ہے‘ ہمارا یہ کام نہیں کہ محض اپوزیشن کا کردار ادا کریں‘ بلکہ میں نے بات نیچے سے شروع کی تھی۔ سیٹھ کی بات پہلے کی ہے ‘آجر کی بات پہلے کی ہے۔ ادارے کے سربراہ کی بات پہلے کی ہے۔ حکمرانوں کی بات بعد میں کی ہے۔ نیچے سے چلیں اور اوپر تک جائیے ۔اب دوبارہ آیت کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
’’اُن لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا کچھ حمایتی بنا رکھے ہیں ایسی ہے جیسے مکڑی کی مثال‘ جس نے ایک گھر بنایا۔ اور بے شک تمام گھروں میں سب سے زیادہ کمزور گھر مکڑی ہی کا گھر ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘
شرک صرف کسی دیوی دیوتا یا بُت کے سامنے سجدہ کرنے ہی کا نام نہیں ہے۔ اللہ کے پیغمبرﷺ تو یہ فرماتےہیں :((تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَ عَبْدُ الدِّرْھَمِ)) ’’ہلاک ہو گیا درہم کا بندہ اور دینار کا بندہ۔ ‘‘یہ بخاری شریف کی روایت ہے۔ بندگی تو اللہ کی کرنی تھی مگر مال کا بت بنا رکھا ہے‘جس کی سیوا اور پرستش ہوتی ہے۔ مال جمع کرنے کے لیے‘ اسے بڑھانے کے لیے اللہ کا حکم اگر ٹوٹے تو کوئی حرج نہیں۔ حرام میں مبتلا ہونے پر غیرت کا جنازہ نکلے تو کوئی پروا نہیں‘ بس میرا مال اور مفاد محفوظ رہنا چاہیے۔ یہ بھی شرک ہی تو ہے ۔ مال کا بُت نظر نہیں آ رہا لیکن اندر تو بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کسی نے بادشاہت کو معبود بنا لیا ہے ‘ کسی نے اقتدار کو معبود بنا لیا ہے ‘کسی نے اپنےمفادات کو معبود بنا رکھا ہے۔(بانی محترمؒ علّامہ اقبال کا یہ مصرع پڑھا کرتے تھے : ع ’’می تراشد فکر ِما ہر دم خداوندےد گر!‘‘) اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر اللہ کا حکم پامال ہو رہا ہے ‘ شریعت کا حکم پامال ہو رہا ہے‘ اُمّت کا مفاد پامال ہو رہا ہے ‘تو پھر شرک اور کس چیز کا نام ہے؟ اللہ تعالیٰ میری‘ آپ کی‘ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ ہمیں بھی شرک کی ہر شکل سے محفوظ رکھےاور ہمارے حکمرانوں کو بھی!
اُسوئہ رسولﷺ کا ہمہ وقتی استحضار
ایک اور آیت میں نے صرف یاد دہانی کے لیے تلاوت کی تھی۔ سورۃ الاحزاب کی آیت ۲۱ کافی معروف ہے۔ فرمایا:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللہَ کَثِیْرًا(۲۱)} (الاحزاب)
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول(ﷺ)میں ایک بہترین نمونہ ہے‘ (یہ اُسوہ ہے) ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ سے ملاقات اور آخرت کی اُمید رکھتا ہو اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہو۔‘‘
اللہ کے نبیﷺ کی سیرت پر اور زندگی پر غیر مسلموں نے بھی بہت عمدہ کتابیں لکھ ڈالی ہیں مگر ایمان کی دولت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہدایت نہیں ملی۔ ایمان کی دولت اگر نہیں ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ ان کے علم میں اضافہ ہوگیا ۔یہ کتابیں اتنی مستند ہیں کہ مسلمان بھی ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ البتہ مصنف کے اندر اگر ایمان نہیں تو اسے اصل فائدہ نہیں ملے گا۔ اللہ کا ذکر پیش نظر نہیں تو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔ یہ آیت آج میں نے اس لیے تلاوت کی ہے کہ ماہ ربیع الاول گزر گیا‘ اب ربیع الثانی ہے۔ تمام مسلمانوں نے نبی اکرم ﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔اس کے بعد ہم پھر دوبارہ سو جائیں گے what is next? اب بہت سے لوگوں کو اگلے سال اللہ کے رسولﷺ یاد آئیں گے۔ میری گزارش ہے کیوں نہ ہم اپنے اپنے گھروں کی سطح پر طے کریں کہ سیرتِ رسولﷺ کا مطالعہ سارا سال جاری رہے! تنظیم اسلامی میں ہم گھروں کے لیے بھی باقاعدہ ایک تربیتی نصاب دیتے ہیں‘ جس کو ’’گھریلو اُسرہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں ہم تجویز کرتے ہیں کہ قرآن مجید کا ذکر آئے‘ احادیث مبارکہ کا ذکر آئے‘ سیرتِ مطہرہ کا ذکر آئے۔ روزانہ پانچ دس منٹ ہو جائے تو بہت اچھی بات ہے۔ہفتہ وار بنیادوں پر اگر ایک گھنٹے کا ہو جائے تو بہت مناسب ہے۔ کوشش کریں کہ ہمارے گھروں میں اللہ کے پیغمبر ﷺکی سیرت کا مطالعہ ہو۔
’’ آدابِ زندگی‘‘ کے عنوان سے مولانا یوسف اصلاحیؒ کی ایک کتاب ہے۔اس میں بڑے عام فہم انداز سے حضورﷺ کی سیرت ‘ سنتوں اور اعمال کا ذکر آ جاتا ہے‘ روزمرہ کے معاملات کے حوالے سے بھی اور اجتماعی معاملات کے حوالے سے بھی۔ اپنے نصاب میں بھی اس کو ہم نے شامل کر رکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا گھروں میں مطالعہ بھی مفید رہے گا‘ ان شاء اللہ تعالیٰ!
اسی طرح مولانا منظور نعمانی ؒ کی ’’معارف الحدیث‘‘ ہےجو احادیث ِمبارکہ کا انتخاب ہے۔ اس میں ایمانیات سے اجتماعی معاملات تک رسول اللہ ﷺکی احادیث کے حوالے سے بہت کچھ آتا ہے۔ کچھ واقعات کا ذکر بھی آتا ہے۔ اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا ان شاء اللہ۔
غالباً ۱۹۷۰ء کی دہائی میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت عالمی سطح پر سیرت کے حوالے سے ایک مقابلہ ہوا تھا۔ اس میں ۱۷۷ کتب میں سے جو کتاب پہلے نمبر پر آئی وہ ’’الرحیق المختوم‘‘ تھی۔ یہ ہندوستان کے عالم صفی الرحمٰن مبارک پوری کی کتاب ہے۔ ایک ہی جلد میں ہے۔ جس انداز سے حضورﷺ کی حیات طیبہ آگے بڑھتی رہی ‘اسی ترتیب میں انہوں نے اس کو مرتب کیا۔ہمارے ہاں بارہا اس کا حوالہ بھی آتا ہے۔ اسے بھی ہم زیر مطالعہ لانے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔
اس حوالے سے آخری بات انقلابی اعتبار سے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ ہے۔ ایک ہے فقہ السیرۃ‘ جو اپنی جگہ بڑا اہم موضوع ہے۔ فلاں واقعات کیوں ہوئے‘ یہ فقہ السیرۃ ہے۔ اس پر بھی کام ہونا چاہیے۔ البتہ ایک ہے اللہ کے پیغمبرﷺ کی ۲۳ سالہ انقلابی جدّوجُہد۔ اس انقلابی جدّوجُہد نے مراحل کیسے طے کیے ‘یہ اللہ کے رسولﷺ کی سیرت کا انقلابی نقطہ نگاہ سے مطالعہ ہے ۔ اس میں الحمدللہ ‘ثم الحمدللہ استاد محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے جو خطابات اوائل ۱۹۸۰ء کے ہیں‘ ۱۱ خطاباتِ جمعہ وہ ’’منہج ِانقلابِ نبویؐ‘‘کے عنوان سے کتابی صورت میں موجود ہیں‘وہ شاہکارہیں۔ ان کا سن لیا جانا ‘ پڑھ لیا جانا انقلابی جدّوجُہد کے نقطہ نظر سے نہایت مفید ہوگا۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھےکہ آج کے دور میں سیرت النبی ﷺ کی اہم ترین رہنمائی یہ ہے کہ اسلامی نظام نافذ کیسے ہوگا!غلبہ دین کی جدّوجُہد کیسے ہو گی؟ اللہ کا دین بالفعل قائم کیسے ہوگا؟ اس جدّوجُہد کے لیے راہنمائی کہاں سے لیں گے؟اگر نماز کا طریقہ رسول اللہﷺ سے لے رہے ہیںتو اللہ کے دین کی اقامت کا طریقہ حضور ﷺ سے کیوں نہیں لیتے۔زندگی کے آخری دور میں محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے لاہور میں ’’رسولِ انقلابﷺ کا طریق ِانقلاب‘‘ کے عنوان سے اڑھائی گھنٹے کا خطاب کیا۔وہ ویڈیو بھی ہے ‘ آڈیو بھی اور کتابچہ کی شکل میں بھی ہے۔ اس کا مطالعہ بھی مفید رہے گا‘ ان شاء اللہ تعالیٰ! کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبرﷺ کو اور ان کے ذکر ِخیر کو ہم ایک مہینے کے چند دنوں یا چند ساعتوں تک محدود نہ کر دیں‘ بلکہ سیرت کے مطالعے کو ہم اپنے روزمرہ کے معمولات میں شامل کریں۔ اللہ توفیق دے کہ مطالعے سے آگے بڑھ کر اس کا اثر اور عکس ہمارے عمل میں بھی نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025