(حسن معاشرت) سرکاری ملازمین کا اخلاق و کردار - شجاع الدین شیخ

13 /

سرکاری ملازمین کا اخلاق و کردار
قرآن و سُنّت کی روشنی میں

 

امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کا رورل اکیڈمی پشاور میں خطاب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸)} (البقرۃ)
’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے‘ اور شیطان کے نقش ِقدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تو یقیناً تمہارا بڑا کھلا دشمن ہے۔‘‘
تمہیدی بات
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل ۳۱ میں درج ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے قرآن و سُنّت کی تعلیمات کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کے مواقع فراہم کرے۔ اس تناظر میں سرکاری ملازمین کی پیشہ ورانہ تربیت میں یہ پہلو بھی سامنے رہنا چا ہیے کہ ہماری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور اﷲ کے رسول ﷺ کی سُنّت میں کیا تعلیم دی گئی ہے! خوشی کی بات ہے کہ رورل اکیڈمی پشاور میں سرکاری افسران کی تربیت کے ضمن میں قرآ ن و سُنّت کی روشنی میں اخلاق و کردار کے موضوع پر گفتگو اور سوال و جواب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اخلاق و کردار کی بہتری کا معاملہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔پاکستان کے دس اور دنیا کے دس بڑے فراڈ اٹھا لیں‘ ان میں سے ایک شخص جاہل نہیں ملے گا جس نے اربوں کھربوں کی کرپشن کی ہو۔ انتہائی پڑھے لکھے‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے پوری قوم کو بیچا اور لوٹا ہے۔اس کی بنیادی وجہ اخلاق و کردار کا فقدان ہے جو اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہم یہ آیت پڑھتے رہتے ہیں‘ بلکہ اکثر کو زبانی یاد بھی ہے:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ } (الاحزاب:۲۱)
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول(ﷺ)میں ایک بہترین نمونہ ہے۔‘‘
لہٰذاہمارے لیے رسول اﷲﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ البتہ وہ نمونہ موجود ہونے کے باوجود آج ہمارا اجتماعی طر زِعمل اس کی گواہی پیش کررہا ہے؟ یہ ہے سب سے بڑا سوال ۔ اس حوالہ سے سرکاری افسرا ن کے تربیتی کورس میں اس موضوع پر کلام کیا جانا لائق تعریف ہے۔ذیل میں۱۲ نکات کے تحت سرکاری ملازمین و افسران کے اخلاق و کردار کے ضمن میں قرآن و سُنّت کی روشنی میں کچھ گزارشات پیش ِخد مت ہیں:
(۱) امانت (Trust)
سرکاری افسر ہونا ایک امانت (trust) ہے نہ کہ استحقاق(privilege) ۔قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کا تعارف کراتے ہوئے ہر رسول سے کہلوایا ہے:{اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ } یعنی مَیں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ رسول اﷲﷺ کوصادق اور امین کہا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ آئین کے آرٹیکل ۶۲‘۶۳ کے تحت ہم نے ان اصطلاحات کو کافی بدنام کر دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:((کُلُّکُمْ رَاعِ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ))(صحیح البخاری ) کہ تم میں سے ہر ایک راعی (بمعنی ذمہ دار)ہے۔ راعی چرواہے کوکہا جاتا ہے۔ چرواہے کو اگر دیکھیں تو اس کی زندگی بڑی اجیرن ہوتی ہے۔ بکری اِدھر بھاگ رہی ہے‘ بھیڑ اُدھر بھاگ رہی ہے۔ صبح وہ پورا ریوڑ لے کرجائے گااور شام کو پھر واپس بھی لے کر آنا ہے۔ گویا آرام کا تو موقع ہی نہیں اس کے لیے۔ جانوروں کو سنبھالناایک بڑی ذمہ داری ہے اور اگر ایک جانور بھی ضائع ہو جائے تو مہینے بھر کی اجرت ضائع ہو جائے گی۔ بہر حال رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص ذمہ دار ہے‘ اور جو اُس کے ما تحت ہیں اُن کے بارے میں کل اﷲ کے ہاں اس سے سوال ہوگا۔
چنانچہ پہلی بات ہر سرکاری افسر یاد رکھے کہ اس کا منصب ایک امانت ہے نہ کہ استحقاق ۔ اب غور کیجیے کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص (sole proprietor) کے ہاں یا کسی نجی ادارہ میں ملازمت کر رہا ہو جہاں دس بارہ دیگر ملازمین بھی ہیں ‘وہاں اگر اُس سے کوتاہی یا غلطی ہوتی ہے تو دس بارہ لوگوں کے ادارے یا دکان کا نقصان ہوگا۔ البتہ جو لوگ ریاست کے اداروں میں ملازم ہوں جہاں کروڑوں باشندوں کے ملکی سطح پر‘ کئی کروڑ صوبوں کی سطح پر‘ کئی لاکھ ضلعوں کی سطح پر‘ معاملات سرکاری افسران سے متعلق ہو جائیں تو وہاں اگر کوتاہی یا غلطی ہوتی ہے‘ تو یہ معاملہ صرف دو چار افراد کا نہیں بلکہ لاکھوں اور کبھی کروڑوں کا بن جاتا ہے۔ اس احساس کے ساتھ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنا ہے ۔ جتنا یہ احساس پختہ ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ کی قسم ہمارا معاشرہ اتنا ہی بہتر ہو جائے گا۔ آج عوام اچھے معاشرے کے لیے ترس رہے ہیں ۔ اچھے کردار اور رویے کے لیے ترس رہے ہیں ۔ بے چین ہیں کہ کوئی اچھے انداز سے خوش آمدید کہنے اور معاملہ کرنے کا انداز عوام کو سرکاری دفتر میں ملے ۔ مگر درحقیقت معاملہ برعکس ہے کہ افسرا ن اور متعلقہ افراد سے ملنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ ان کے کمرہ میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ قطار میں لگنے کے لیے بھی بہت مشقت اٹھانا پڑتی ہے۔
اﷲ کے رسول ﷺنے فرمایا: ((لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَہُ)) ( بیہقی) ’’ اُس کا کوئی ایمان نہیں ہے جس میں امانت کا وصف موجود نہ ہو۔‘‘ رسول اﷲﷺ یہاں ایمان کی نفی کر رہے ہیں۔یہاں ہمارا محدود تصوّر لائق ِتشویش ہے کہ ہم نے ایمان کے تقاضوں کو جمعہ کی دو رکعتوں اور پانچ نمازوں تک محدود کر لیاہے۔ بعض کا خیال ہے کہ ہم نے روزہ رکھ لیا ‘ حج کر لیا‘ عمرہ کر لیا تو ایمان کے تقاضے پورے ہوگئے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ یہ توعبادات ہیں جن کو انجام دینا ضروری ہے‘ البتہ یہ کُل دین نہیں ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنا حق تو معاف کر دے گا‘ ہمیں بس بندوں کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ جملہ ایک درجے میں ٹھیک ہے مگر مکمل ٹھیک نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کی چھٹی (license to kill) مل جائے کہ اﷲ تعالیٰ کے حقوق کو پامال کیا جائے۔ قرآن کریم میں سورۃ المدثر کی آیات ۴۲تا۴۵ میں قیامت کے دن جنت اور جہنم والوں کے ایک مکالمہ(dialogue) کا ذکر ہے ۔پہلا سوال جنت والے پوچھتے ہیں: {مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)}’’ کیا چیز تمہیں جہنم میں لے گئی؟‘‘ تو جہنم والے کہیں گے: {لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(۴۳)} ’’ہم نماز ادا کرنے والے نہیں تھے۔‘‘{وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ(۴۴)} ’’ اور ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘‘۔یہ حقوق العباد ہیں۔ {وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِیْنَ(۴۵)} ’’اور ہم (حق کے انکاری ) بحث کرنے والوں کے ساتھ مل کربحث کرنے میں مشغول رہے۔‘‘ گویا اﷲ تعالیٰ کا حق بھی پامال کیا‘ مخلوق کا حق بھی پامال کیا‘اور اپنے وجود کا حق بھی پامال کیا۔
بہر حال امانت ایک بہت ہی اہم وصف ہے ۔ خاص طور پر جن کو ریاستی اداروں میں ذمہ داری مل جائے ان کے لیے امانت کے وصف کی اہمیت اور زیادہ ہوجاتی ہے ۔
(۲)پیشہ ورانہ علمی ترقی اور تربیت (Professional Development)
ہر ادارہ اور پیشہ(profession) میں افراد کی تربیت ایک لازمی بات ہے۔ڈاکٹر‘ انجینئر ‘ اساتذہ اور افسران سب ہی کے لیے ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے حوالہ سے علمی اضافہ اور پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کیا جا تا ہے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ بنی اسرائیل‘ آیت ۳۶ میں ارشاد ہے :{وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ط} یعنی جس بات کا علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ ایک شخص کوئی عقیدہ اورنظریہ اختیار کرے یا کوئی کام کرے تو قرآن کریم تقاضا کرتا ہے کہ اس کی کوئی علمی بنیاد ہونی چاہیے۔ ہم عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ فلاں کام (job) کے لیے قابلیت (eligibility criteria) ضروری ہے۔ کسی ذمہ داری پر مقرر کرنے کے وقت تو یہ تقاضا پورا ہوجا تا ہے لیکن پھر حالات ‘ تقاضوں‘ ذمہ داریوں‘ ٹیکنالوجی وغیر ہ کے بدلنے سے علم میں اضافہ اور پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام ضروری ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم اس بات کی طرف متوجہ کر رہا ہے ۔
رسول ﷲﷺ کے دور میں دیکھیں کہ تورات ( تحریف شدہ حالت میں) موجود تھی جو عبرانی(Hebrew) زبان میں تھی۔ مسلمانوں کو یہود سےمباحثہ کرنے کی ضرورت بھی تھی۔ چنانچہ رسولﷺ نے چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو عبرانی سیکھنے کی تلقین فرمائی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول کریم ﷺ نے اس حوالہ سے دعا بھی دی ۔ انہوں نے چند دن ہی میں عبرانی زبان نیز پھر حبشی اور فارسی زبان بھی سیکھی ۔ اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ اہل کتاب سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی کتابوں کا حوالہ بھی آئے گا اور مباحثہ ہوگا۔ نیز ان کو دعوت بھی پیش کرنا تھی جس کے لیے ان کی کتب کے حوالہ سے بھی کلام کرنے کی ضرورت تھی۔ بہرحال اپنی ذمہ داری کے اعتبار سے اپنے علم میں مسلسل اضافے اور پیشہ ورانہ تربیت کی ضرورت ہے ۔ اس پر بھی اسلامی تعلیمات میں توجّہ دلائی گئی ہے۔
(۳) محاسبہ (Accountability)
ہمارا ایمان ہے کہ جس دنیا میں ہم جی رہے ہیں یہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ ہمیں پلٹ کرﷲ کی طرف جانا ہے۔ کسی کی موت کی خبرپر ہم پڑھتے ہیں: اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُوْنَ ’’بے شک ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور ہمیں لوٹ کر بھی اسی کی طرف جانا ہے ۔‘‘ گویاہم یہ مانے بیٹھے ہیں کہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ملنی ہے جو دا ئمی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ علم (knowledge) الگ شے ہے اوریقین(conviction) الگ شے۔محاسبہ کا یقین سات پردوں میں بھی بندوں کو ٹھیک رکھتا ہے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کا مشہور واقعہ ہے جب ایک ماں نے بیٹی سے کہا کہ رات کا وقت ہے‘ ابھی حضرت عمرؓ نہیں دیکھ رہے تو دودھ میں پانی ملادو۔ بیٹی نے کہا: اماں !اگرعمرؓ نہیں دیکھ رہے توکیا ہوا!عمرؓ کا ‘ میرا اور آپ کا رب تو دیکھ رہا ہے !
قرآن کریم پڑھ لیجیے ۔ اس کے ایک تہائی حصہ میں آخرت کا ذکر ملتا ہے ۔ آج کسی ہیڈ لائن نیوز اور updates میں و ہ سوالات نہیں ملیں گے جو ہماری زندگی کے اہم ترین سوالات ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ابن آدم کے قدم قیامت کے د ن اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکیں گے جب تک وہ پانچ سوالات کے جوابات نہ دے دے:(۱) زندگی کہاں گزار ی؟ (۲)جوانی کہاں کھپائی؟ (۳) مال کہاں سے کمایا ؟(۴)مال کہاں خرچ کیا؟(۵) جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟‘‘ ( جامع الترمذ ی) آج ہمارے ہاں نعرے لگتے ہیں: میرا جسم میر ی مرضی‘ It’s my choice ۔ It’s my style ۔ میں جو چاہوں سو کروں۔ حالانکہ اسلام کا تو مطلب ہی اپنےآپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھکا دینا ہے۔ submitting your will to the will of Allah ۔
سورۃ الحشر‘آیت۱۸میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج} ’’اورچاہیے کہ تم میں سے ہر ایک یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا تیاری کی ۔‘‘ہمیں تنہائی میں بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ کیا ہم مرنے کو تیار ہیں!۹۵ فیصد کا جواب ہی نہیں آتا۔ اچھا اگر ہم تیار نہ ہوں تو کیا عزرائیلؑ رک جائیں گے ؟ آج ہم سب چاہتے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ ہو ۔ کون نہیں چاہتا! جو کرپشن کر رہا ہے جب وہ کسی کرپشن سے ڈسا جائے گا تو وہ بھی کہے گا کہ کرپشن نہیں ہونی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپنے لیےہمارے معیارات (standards) کچھ اور ہیں اور دوسروں کے لیے کچھ اور ۔ اسی لیے بگاڑ ہے۔ اس سب کو اگر ختم کرنا ہے تو سات پردوں میں بھی بیٹی کہے کہ اماں عمرؓ نہیں دیکھ رہے تو کیا ہوا‘ ا ن کا رب تو دیکھ رہا ہے ۔ بہرحال موت کی یاد اور کل قیامت کے محاسبہ کا جس قدر یقین ہوگا‘ معاملات اسی قدر بہتر ہوں گے ۔
(۴) معاشرتی و معاشی عدل (Social and Economic Justice)
’’ عدل ‘‘اسلام کا catch word ہے ۔ ہم ’’انصاف‘‘ کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں ‘ جس کا مطلب ہے نصف نصف کرنا ‘جبکہ عدل کا مطلب ہے جس کا جو واقعی حق (due right) بنتا ہو وہ اسے دینا۔خطبہ جمعہ میں ہم ایک آیت سنتے ہیں۔سورۃ النحل‘آیت ۹۰ میں ارشاد ہوتا ہے:{ اِنَّ اللهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ}’’ اﷲ عدل کا حکم دیتا ہے۔‘‘ قرآن کریم عدل پربہت زور دیتا ہے۔ سورۃ النساء‘ آیت ۱۳۵ اور سورۃ المائدۃ‘ آیت۸میں یہ فرماتاہے کہ کسی کی محبت عدل کرنے میں رکاوٹ نہ بنے اور نہ ہی کسی کی دشمنی عدل کرنے سے تمہیں روک دے ۔ کئی مرتبہ اداروں اور ماتحت افراد (subordinates) میں کسی سے اگر خوا مخواہ ناراضگی یا نفرت ہوجائے تو جو اس کا جائز حق بنتا ہےوہ بھی نہیں دیا جاتا۔ یا اگر کسی سے محبت ہےتو اس کے ساتھ تو کسی بھی طریقہ سے out of the way جا کر بہت کچھ جو اس کا حق بھی نہ ہو‘ دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔دورِ نبویؐ کا مشہور واقعہ ہے کہ فاطمہ نامی عورت نے چوری کی تھی‘ جو بڑے قبیلے کی تھی۔ آپﷺ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری فرمایا۔معافی کے حوالہ سے بڑی بڑی سفارشیں آئیں۔ اس پر غصے کی وجہ سے حضور اکرمﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا ۔ آپؐ نے فرمایا: ’’دیکھو پچھلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ ان کا کوئی بڑا جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے‘ اگرکوئی چھوٹا جرم کرتا تو اسے سزا دیتے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’بالفرض اگر میری بیٹی فاطمہ نے بھی یہ معاملہ کیا ہوتا تو اس کے بارے میں بھی مَیں یہی حکم جاری کرتا۔‘‘(سنن نسائی) حضور اکرمﷺ نے صرف عدل کی باتیں نہیں کہیں‘بلکہ عدل کی بنیاد پر بالفعل ایک معاشرہ قائم کر کے بھی دکھا دیا۔
عدل کاایک سادہ مفہوم ہے کسی شے کو اس کے مقام پر رکھنا۔ عدل کی ضد (opposite) ظلم ہے ۔ظلم کا مطلب ہے کسی شے کو اس کے مقام سے ہٹا دینا۔ ہم اپنے گھروں‘ رشتہ داروں اور اداروں میں دیکھ لیں ۔اولاد‘ رشتہ دار اور ماتحت افراد کے ساتھ رویوں اور عوام الناس سے معاملہ (public dealing ) کرتے ہوئے کسی ایک کے ساتھ بے جا طرف داری اور نفع رسانی (undue favour) جبکہ کسی دوسرے کے ساتھ زیادتی اور حق تلفی تو نہیں کررہے ؟ فلاں پسند ہے ‘ رشتہ دار ہے‘ فائدہ پہنچاتا ہے تو اس کے ساتھ عمدہ سلو ک بلکہ حق سے بڑھ کر معاملہ اور دوسرے کا جائز حق بھی نہ دیا جارہا ہو تو یہ ظلم ہے ۔ چنانچہ عدل ہے کسی شے کو اس کے مقام پر رکھنا اور ظلم ہے کسی شے کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ۔ بہرحال ظلم ‘ حق تلفی اور زیادتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی ہونی ہے اور یاد رہے کہ حقوق العباد کا معاملہ بہت حسا س بھی ہے ۔
(۵) شفافیت (Transparency)
مالی معاملات ‘ سرکاری دفاتر‘ عوامی امور میں شفافیت کا ہونا فطر ی اور اخلاقی تقاضاہونے کے ساتھ دینی تقاضا بھی ہے۔ قرآن کریم کی طویل ترین آیت (سورۃ البقرۃ‘آیت ۲۸۲ ) قرض جیسے اہم مالی معاملہ کے موضوع پر ہے۔ شفافیت کا تقاضا ہے کہ ایک سرکاری افسر چونکہ عوامی منفعت (public interest)کے حوالے سے ذمہ دار ہے اور اس کو ملنے والی تنخواہ اور مراعات حکومتی وسائل ( جن کا بڑا حصہ عوام کے ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے) سے دی جاتی ہیں تو اس کے معاملات خاص طور پر مالی معاملات کو پبلک ہونا چاہیے ۔ یہ عوام کا ایک حق بھی ہے اور سرکاری امور کو شفافیت سے انجام دینے کے لیے بھی ضروری ہے۔
خلیفہ وقت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک صاحب نے بھرے مجمع میں دورانِ خطبہ کہا کہ آپ کی بات نہ سنیں گے نہ مانیں گے! غور کیجیے کیا آزاد یٔ تقریر(freedom of speech) ہے! سیدنا عمرؓ نے دریافت فرمایا :کیوں نہیں سنو گے اور کیوں نہیں مانوگے ؟ ان صاحب نے استفسار کیا:آپ یہ بتائیں کہ جو لباس آپ نے پہنا ہوا ہےا س کا اتنا کپڑا آپ کے پاس کہاں سے آیا! مالِ غنیمت میں ہم سب کو جو کپڑا ملا وہ اتنا نہیں تھا کہ ہمارے پورے جسم کو ڈھانپ لے‘ تو ا س سے آپ کا لباس کیسے بن گیا؟ (سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وسیع اور مضبوط جسامت والے تھے)۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ نے صحیح سوال کیا ہے ۔ پھر اپنے بیٹے سے فرمایا کہ آپ جواب دیجیے۔ بیٹے نے عرض کی کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا والد صاحب کو دے دیا تھا ‘تب ان کا لباس تیار ہوا۔ یہ وضاحت ہونے کے بعد ان صاحب نے عرض کی: اب ہم آپ کی بات سنیں گے بھی اور مانیں گے بھی۔ کیا آج ہمارے سرکاری افسران کے مالی و دیگر معاملات ایسے شفاف ہیں؟کیا سرکاری افسران کا ریکارڈ عوام کے لیے شفافیت کی غرض سے پیش کیے جانے کا معاملہ سرکاری اداروں کی ترجیحات میں شامل ہے؟
نبی کریمﷺ حیاتِ طیبہ کے آخری ایام میں ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔آپ ﷺ معصو م اور خطاؤں سے پاک تھے‘ تاہم فرمایا کہ اگر میں نے کسی سے کچھ زیادتی کامعاملہ کیا ہو تو آئے اور مجھ سے بدلہ لے لے۔ خیال رہے کہ امام الانبیاء ﷺ ریاست کے حکمران بھی تھے۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کی:یا رسول اﷲﷺ! ایک مرتبہ صفیں درست کراتے ہوئے آپ سے ایک چھڑی میرے جسم پر لگ گئی تھی۔ آپﷺ نے فرمایاکہ آؤ بدلہ لے لو۔ انہوں نے عرض کی: اس وقت میرے جسم پر قمیص نہیں تھی۔ حضورﷺ نے اپنی قمیص ہٹا دی۔ وہ دوڑتے ہوئے آئے اور حضورﷺ کے دونو ں شانوں کے درمیان جو مہر نبوت تھی‘ اسے چوم لیا اور عرض کی : یا رسول اللہﷺ! مجھے تو اس مہر نبوت کو چومنا تھا۔یہ تو ان کی محبت اور شوق کا معاملہ تھا‘ مگر نبی کریم ﷺ کا طرزِ عمل دیکھیے کہ اپنے آپ کو لوگو ں کے سامنے پیش کردیا۔ ہم غور کریں کہ عوام‘ ماتحت افراد اور دیگر لوگ تو دور کی بات‘ کیا ہم اپنے آپ کو اپنے اہل خانہ کے سامنے بھی پیش کرسکتے ہیں؟ اگر یہ بہت مشکل محسوس ہوتا ہے تو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو کیا کیفیت ہوگی!لہٰذا ہمارے مالی معاملات ‘ کردار اور اختیارات کے استعمال سب میں شفافیت ضروری ہے۔
(۶) باہمی مشاورت (Mutual Consultation)
مشورہ انسانی ضرور ت بھی ہے اور اجتماعی معاملات کے لیے لازم بھی ۔ نبی کریم ﷺ گھر والوں اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مشورہ فرماتے تھے ۔ سورۂ آل عمران‘ آیت ۱۵۹میں آپ ﷺ سے فرمایا گیا :{وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِج} یعنی ان سے معاملات میں مشورہ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو مشورہ کی تلقین فرمائی گئی ہے حالانکہ آپ ﷺ پر وحی کانزول ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مستقل رہنمائی عطا ہوتی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے کئی مرتبہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ فرمایا‘ مثلاً غزوۂ بدر میں اپنا خیمہ نصب کرنے اور غزوۂ اُحد کے موقع پر مدینہ شریف میں رہ کر یا باہر نکل کر کُفّارِمکّہ کا مقابلہ کرنے کے بارے میں مشورہ فرمایا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺ نے اپنی زوجہ اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مشورہ پر احرام کھول دیا تو ۱۴۰۰صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اپنا احرام کھول دیا تھا( ان واقعات کی تفصیلات سیرت کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں)۔ اس میں اُمّت ِمسلمہ کے لیے راہنمائی ہے کہ اپنے باہمی معاملات مشورہ سے طے کریں۔ سورۃ الشوریٰ‘آیت ۳۸ میں فرمایا گیا کہ {وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ} ’’اور ان (مسلمانوں) کے معاملات باہمی مشورہ سے طے ہوتے ہیں۔‘‘
مشاورت کا ایک اہم فائد ہ یہ ہوتا ہے کہ جن سے مشورہ لیا جا رہا ہے ان کو احساس ہوتا ہے کہ ہماری بھی اہمیت ہے کہ معاملات اور فیصلو ں میں ہم سے بھی رائے لی جاتی ہے ۔ ایک اور اہم فائدہ یہ ہے کہ ماتحت افراد مختلف امور اور فیصلوں کے بارے میں اپنے آپ کو منسلک سمجھتے اور ownership بھی لیتےہیں۔ یوں اجتماعی طورپر team work سے کام ہوتا ہے ۔ یہ سارا عمل سرکاری افسران کے لیے بھی بہت ضروری ہے ۔ہم غور کریں کہ کیا ہم گھر والوں سے ‘ اپنے بچوں اور اہلیہ سے مشورہ کرتےہیں؟ اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کرتےہیں؟ کہیں اپنے علم‘ تجربہ اور صلاحیتوں پر ناز کرتے ہوئے مشورہ کرنے سے اعراض تونہیں کرتے ؟ تکبر بہت برا مرض اور جرم ہے ۔ شیطان بھی اسی کا شکار ہوکر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوگیا تھا۔ کوئی عقل ِ کُل نہیں ہوتا۔ معاملات اور فیصلوں میں مشاورت لازمی ہوتی ہے ۔ مشور ہ کرکے ہم اپنے ماتحت افراد کو ساتھ لے کر چلتے اور on board رکھتے ہیں‘ جس کی ہماری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں شدید ضرورت ہے۔
(۷) اخلاقی رویّہ (Moral Conduct)
اخلاق کا لفظ خُلق سے بنا ہے۔ ایک لفظ ہے خَلق ‘ خ پر زبر کے ساتھ۔ ایک لفظ ہے خُلق‘ خ پر پیش کے ساتھ۔ خَلَق کا معنی ہے پیدا کرنا۔ اسی سے مخلوق اور تخلیق جیسے الفاظ ہیں۔ چنانچہ خَلق ہمارا ظاہری وجودہے اور خُلق ہمارا باطنی معاملہ اور اخلاقی رویہ ہے۔ تو خَلق جسمانی وجود ہے اور خُلق ہمارا کردار ہے۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں ایمانیا ت و عبادات کے ساتھ اخلاقیات پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے: {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)}(القلم)’’اور آپ(ﷺ) اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جو بندہ عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اس شخص کا مقام پا لیتا ہے جو روزانہ رات کو نوافل اور دن میں نفلی روزہ رکھتا ہو۔‘‘( سنن ابی داؤد)
آج ہمارے معاشرے بلکہ دنیا کی مجموعی صورتِ حال بہت پریشان کن ہے۔ جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ خیانت‘ رشوت‘ کرپشن‘ ملاوٹ ‘ ظلم و زیادتی ‘ اختیارات کا ناجائز استعمال وغیرہ عام ہے۔ سرکاری افسران اور ذمہ دارا ن کو اس حوالہ سے بھی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔قرآن کریم سورۃ الحجرات‘ آیات۱۱ اور ۱۲ میں معاشرتی برائیوں سے منع فرماتا ہے جو ہمارے ہاں بہت عام ہیں۔ مذاق اڑانا‘ لعن طعن کرنا‘ دوسروں کے برے نام رکھنا‘ بد گمانی کرنا‘ دوسروں کی ٹوہ میں لگنااور ان کی غیبت کرنا۔ یہ برائیاں نفرتوں کو جنم دیتی ہیں اور معاشرہ تباہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ inside information‘ character assassination اور backbiting جیسے منفی اخلاقی رویے اداروں میں عام ہیں جن کی نحوست اور مضر اثرات معروف بھی ہیں۔
ایک حدیث مبار کہ کا مفہوم ہے کہ مؤمن وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آئے(جامع ترمذی)۔ اس کی تشریح میں یہ بات سمجھ لی جا ئےکہ اُمتی وہ شخص ہوگا جس کو دیکھ کر نبی کریم ﷺ یاد آجائیں۔غور طلب بات ہے کہ کیا آج ہمارے اخلاقی رویوں کو دیکھ کر لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ یاد آتے ہیں! ہم اپنے کردار سے کیا پیغام پہنچا رہے ہیں؟سچی بات ہے کہ خوف ِخدا اور نبی کریم ﷺ کے اُمتی ہونے کا احساس ہو تو کیا بندہ رشوت لے گا؟ حرام کو ہاتھ لگائے گا؟ خیانت کا مرتکب ہوگا؟ کسی کی حق تلفی کرے گا؟یقیناً جواب نفی میں ہوگا۔ چنانچہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اخلاقی رویہ کے اعتبار سے ہمارا طرزِ عمل کیسا ہے!
(۸) احسان (Excellence)
احسان کا لفظ حسن سے بنا ہے جس میں حسین اور عمدہ انداز سے کسی کام کو انجام دینے کا مفہوم شامل ہے۔انگریزی میں اس کے لیے excellence کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ البتہ عربی کے لفظ احسان میں بہت گہرا مفہوم موجود ہے۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں یہ لفظ بکثرت استعمال ہوا ہے۔نماز کے بعد کی دعاؤں میں ایک دعا ہے: اَللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلٰی ذِكْرِكَ وَ شُكْرِكَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِكَ ’’اے اﷲ! میری مدد فرما اپنے ذکر کے لیے اور اپنے شکر کے لیے اور حسن کے ساتھ اپنی عبادت کے لیے ۔‘‘(سنن ابی داؤد)حسن کا مطلب ہے عمل کو بہترین انداز میں انجام دینا ۔ مشہور حدیث میں ’’احسان‘‘ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو‘ اور یہ یقین حاصل نہ ہو تو اتنا تو مانو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (متفق علیہ)
اگرایک boss آفس میں ہے تو ہمیں معلوم ہے کہ ملازمین خوب محنت سے کام کرتے ہیں اور اگر وہ آفس میں نہ ہو تو کارکردگی کی کیفیت کیسی ہوتی ہے‘ہمیں خوب معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو پوری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اگر یہ یقین ہو توہمارے رویے میں کتنا حسن آجائے گا۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺنے فرمایا: قاتل کوبھی قتل کرو تو حسن کے ساتھ اور بکری کو بھی ذبح کرو تو حسن کے ساتھ ۔ یعنی قاتل رحم کا مستحق نہیں مگر اسے بطور سزا قتل اس اندا ز میں کرو کہ تکلیف کم سے کم ہو۔ اگر اس کی گردن اڑاؤ تو جلادکا ہاتھ مضبوط اور تلوار کی دھار تیز ہو تاکہ اس کو تکلیف کم ہو۔ بکری گو کہ جانور ہے مگر اسے بھی حسن کے ساتھ یعنی عمدہ انداز میں ذبح کرو۔ کھلا پلا کر ذبح کرو۔ ہاتھ مضبوط ہو ‘ چھری تیز ہو‘ کسی اور تڑپتے جانور کے سامنے ذبح نہ کرو۔ یہ ہے حسن کا وسیع مفہوم کہ کاموں کو عمدہ اندا ز سے انجام دو۔ جو دین قاتل اور جانور کے معاملے میں حسن اختیار کرنے کی تعلیم دے رہا ہے‘ وہ ریاست کے امور‘ اجتماعی معاملات‘ قوم کو خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے رویوں میں حسن کا کتنا تقاضا کرتا ہوگا!
(۹) خدمت ِخلق (Social Welfare)
مخلوقِ خدا کے کام آنا فطری تقاضا اور دینی فریضہ ہے ۔ سرکاری ملازمین کے لیے بہت سے مواقع ہوتے ہیں جہاں وہ لوگوں کے کام آکر ان کے لیے راحت کاباعث بن سکتے ہیں۔ وہ تمام امور جو قوم اور عوام سے متعلق ہیں‘ ان کوواقعتا ًاحسان کے ساتھ ادا کریںتو لوگوں کا بھلا ہوگا۔ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو ادا کرنا تو ضروری ہے ہی‘ البتہ اس کے ساتھ خدمت کے بھی کئی مواقع ہوتے ہیں۔ عوامی خدمت کے اداروں میں کئی مثالیں ایسی دی جاسکتی ہیں جہاں سرکاری افسران اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے دوران لوگوں کی رہنمائی‘ صحیح معلومات کی فراہمی‘ صحیح فرد یا دفتر تک رسائی‘ مفید مشوروں اور دیگر انداز میں عوام بالخصوص بزرگ ‘ معذور اور کم پڑھے لکھے افراد کی سہولت کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایک حدیث مبارک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ((هَلْ تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَقُوْنَ اِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ)) (صحیح بخاری) یعنی تمہارے کمزوروں کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہیں رزق دیا جاتا ہے ۔ بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ ہماری عقل‘ قوتِ بازو‘ قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پرہمارے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے۔حالانکہ یہ مشاہد ہ ہےکہ بعض نہایت تعلیم یافتہ قابل افراد ملازمت کی تلاش میں پریشا ن رہتے ہیں جبکہ کئی غیر تعلیم یافتہ افراد لاکھوں کروڑوں کے مالک بنے ہوتے ہیں۔ یہ تو بہر حال اﷲ تعالیٰ کی تقسیم ہے‘ البتہ محنت ضرور کرنی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ۔ تاہم یہ حدیث مبارک بتار ہی ہے کہ کمزوروں کی وجہ سے تمہیں مدد اور رزق دیا جاتا ہے ۔بوڑھے والدین‘ چھوٹے بچے‘ خاندان کے بزرگ افراد‘ کوئی یتیم و مسکین یا دیگر ضرورت مند وغیرہ کے کام آجانا ‘ ان کے لیے راحت کا باعث بننا‘ آسانی فراہم کرنا‘ کسی مظلوم کی داد رسی کی کوشش کرنا اور کسی ضرورت مند کا جائز حق دلوانے کی کوشش کرنے جیسے اعمال خدمت خلق ہی کی شکل ہیں۔ اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ روز قیامت فرمائے گا: اے میرے بندے !مَیں بھوکا تھا ‘ تُو نے مجھے کھلایا نہیں‘ مَیں پیاسا تھا‘ تُو نے مجھے پانی نہ پلایا ‘ مَیں بیمار تھا‘ تُو نے میری عیادت نہیں کی‘ اور میں بے لباس تھا‘ تُو نے مجھے لباس نہ دیا۔ بندہ عرض کرے گا: اے اللہ !تُو ربّ العالمین ہے‘ تجھے ان چیزوں سے کیا واسطہ! ا ﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا‘ پیاسا تھا‘ بیمار تھا اور بے لباس تھا۔ اگرتُو نے اسے کھلایا ہوتا‘ تُو نے اسے پانی پلایا ہوتا‘ تُو نے اسے لباس دیا ہوتا اور تُو نے اس کی تیمارداری کی ہوتی‘ تو تُو مجھے پالیتا۔(صحیح مسلم) مخلوقِ خدا کی خدمت کو اﷲ تعالیٰ اپنی رضا کے حصول کا ذریعہ بتا رہا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ہمارے دین میں خدمت خلق کی کیا اہمیت ہے۔ البتہ افسوس ہے کہ اس کا تصور بھی اب غیروں سے سیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
(۱۰) ماتحت افراد سے برتاؤ (Dealing with Subordinates)
اجتماعی امور خصوصاً سرکاری اداروں میں ایک اہم معاملہ ماتحت افراد کے ساتھ برتاؤ اور رویہ کا ہے۔ اداروں میں نظم وضبط (discipline) برقرا ر رکھنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ محکمانہ قوانین (code of conductپر عمل کروانا بھی لازم ہے۔ ا س میں دورائے نہیں۔ تاہم اپنے عہدہ کی بنیاد پر ماتحت کو حقیر سمجھنا اور ان کی تذلیل (degrade) کرنا انتہائی غیر اخلاقی بات ہے۔ یہ تکبر ہے کہ کسی کو تعلیم‘ مہارت یا تجربہ میں کم سمجھ کر یا کمی کوتاہی پر نازیبا کلمات (comments) کہہ دینا یا عزّتِ نفس کو مجروح کرنا ۔اخلاقی و دینی لحاظ سے یہ بہت غلط بات ہے۔آبرو اور عزّتِ نفس ہر انسان کا بنیاد ی حق ہے اور حساس معاملہ بھی ۔خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ جیسے عرفہ کا دن ‘ ذوالحجہ کا مہینہ اور یہ شہر (مکہ) حرام(یعنی محترم) ہے‘ ایسے ہی تم پر ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو بھی حرام ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ)
عزّتِ نفس تو چھوٹے سے بچے میں بھی ہوتی ہے۔ بڑوں کا معاملہ زیادہ حساس ہے۔ ما تحت افراد کو ان کی ذمہ داری‘ تنخواہ‘ گریڈ‘ مالی کمزوری وغیرہ کی بنیاد پر مذاق یا تذلیل کا نشانہ بنانا تکبر کا اظہار ہے ۔ قوانین کی پاس داری اصولی طور پر لازمی ہے مگر عزت نفس کو پامال کرنا ‘ برے الفاظ کہنا‘ بے عزت کرنا ‘ تذلیل کرنا اور کردا ر کشی کرنا حرام ہے۔یہ شے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کو دعوت دے سکتی ہے۔اس کے برعکس ما تحت افراد کےساتھ بہتر رویہ‘ دل جوئی اور غم خواری سے ان کا دل جیتا جاسکتا ہے۔ ذمہ دار (boss) اور ماتحت کافرق اور ادارہ جاتی قوانین کی پاس داری تو اپنی جگہ رہے گی مگر اس عمدہ اخلاقی رویہ سے ہم اپنے ماتحت افرادکو ان کاموں میں شریک (on board) اور متحرک کرسکیں گے جو ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس کا مثبت اثر ادارے کی کارکردگی اور عوام کی فلاح پر بھی لازما ً ہوگا۔ ایسی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں کہ سرکاری افسرا ن نے اپنے ماتحت افراد کے ساتھ عمدہ رویوں کی مثالیں قائم کی ہیں جن میں ماتحت افراد کو سلام میں پہل‘ خوشی و غمی میں شرکت ‘ ضرورت میں ممکنہ حد تک کام آنااور کبھی دفتر میں کھانے میں انہیں شریک کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
(۱۱) آسانی فراہم کرنا (Creating Ease)
سرکاری اداروں کے اکثر کام عوام سے براہِ راست متعلق ہوتے ہیں۔ عوام کی بہبود ان اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ ایسے میں لوگوں کو مشکلات سے بچانا اور آسانی فراہم کرنا ذمہ داری بھی ہے اور دینی تقاضا بھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہےکہ آسانی کرو اور سختی نہ کرو(صحیح بخاری)۔کئی مرتبہ کا مشاہد ہ اور عا م شکایت بھی ہے کہ اکثر سرکاری اداروں میں لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ جائز کام بھی جائز طریقہ سے نہیں ہو پاتے۔ متعلقہ عملہ کئی مرتبہ سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔ لوگوں کے کاموں میں بلاوجہ رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عوام قطار میں لگے انتظار کررہےہوتے ہیں ‘ جس میں کبھی کھلے آسمان تلے اور دھوپ میں بے زاری کی حالت میں بھی کھڑے رہنا پڑتا ہے ‘ مگر متعلقہ افسر ان یا عملہ آپس میں گفتگو‘ چائے یا کھانے پینے‘ موبائل فون پر بات کرنے ‘ کبھی اسکرین پر کرکٹ میچ دیکھنے اور نجی کاموں میں مصروف ہو تا ہے اور عوام بے چارے سڑ رہے ہوتے ہیں۔ اذیت کا یہ رویہ گناہ او ر زیادتی بھی ہے اورسرکاری امانت میں خیانت بھی ۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کی بددعائیں ملنے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کا قوی اندیشہ ہے۔اس کے برعکس اپنی ذِمہ داری کو ادا کرنا تو ضروری ہے ہی مگر لوگوں کا حق ادا کرنے کے ساتھ ا ن سے بھلا سلوک اور ان کے لیے آسانی فراہم کرنا باعث ِاجر بھی ہے اور آخرت میں بہت بڑا سہارا بھی ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ جو آج کسی مشکل میں مبتلا شخص کے لیے آسانی فراہم کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی فراہم کرے گا ۔‘‘(صحیح مسلم)
(۱۲) حرام مال سے بچنا ( Avoiding Haram Earning )
آخر ی مگر ایک اہم ترین بات ہے مالِ حرام سے بچنے کی کوشش کرنا۔ حلال کمانے کی کوشش کرنا فرض ہے اور دین نے اس کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ کردار اور اعمال پر مالِ حلال کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سورۃ المؤمنون ‘آیت ۵۱ میں ارشاد ہے : {يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا} ’’ اے رسولو! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک اعمال کرو۔‘‘ اندازہ کیجیے کہ رسولوں کو پاکیزہ کھانے کا حکم دیا جا رہا ہے‘ جو کہ دراصل اُمتیوں کے لیے راہنمائی ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ نیک اعمال کا ذکر پاکیزہ کھانے کے بعد کیا گیا ہے۔ گویا مالِ حلال کا نتیجہ نیک اعمال کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے برعکس مالِ حرام بے سکونی‘ بے اطمینانی‘ جرائم ‘ کردار کے بگاڑ اور فساد کا ذریعہ بنتا ہے۔
آج معاشرہ میں مال حرام کی کئی شکلیں عام ہیں جو کئی مرتبہ سرکاری اداروں اور سرکاری افسران کے معاملات میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ رشوت‘ کمیشن‘ کرپشن‘ قبضہ مافیا‘ اختیارات کاغلط استعمال‘ اقربا پروری‘ حق تلفی‘ دھوکا دہی وغیرہ جیسی مالِ حرام کی کتنی ہی شکلیں بکثر ت موجود ہیں۔ مالِ حرام جہنم کے انگارے ہیں جن سے کردار‘ نسلیں اور سب سے بڑھ کر آخرت برباد ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ حرام مال سے پلا ہوا جسم جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم)۔ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ وہ جسم جہنم کا مستحق ہے جو مالِ حرام سے پلاہو۔(مسند احمد)
غور کیا جائے کہ حرام ذرائع آمدن سے کمائی گئی دولت جنت سے محرومی اور جہنم میں داخلہ کا باعث بنے گی۔ انسان قبر میں صرف کفن پہن کر جاتا ہے اور اس میں جیب بھی نہیں ہوتی۔ آج کوئی لوگوں سے بچ کر حرام کی دولت کما بھی لے تو اللہ تعالیٰ سے چھپنا اور بچنا ممکن نہیں۔پھر مالِ حرام کمانے والا اپنے ساتھ اپنے زیر کفالت اہل خانہ کو بھی حرام کے استعمال میں مبتلا کرتا ہے اور یوں مزید گناہوں کا بوجھ اپنے سر لیتا ہے۔ اس کے برعکس مالِ حلال سکون و اطمینان ‘ نیک اعمال ‘ اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا باعث بنتا ہے۔
حرفِ آخر
گزشتہ صفحات میں سرکاری ملازمین و افسران کے لیے اخلاق و کردار کے ضمن میں قرآن و سُنّت کی روشنی میں۱۲ نکات کے تحت کچھ باتیں بیان کی گئیں۔اب آخر میں مملکت خداداد پاکستان‘ ہماری دینی ذمہ داریوں اور آخرت کے بارے میں کچھ باتیں پیش خدمت ہیں۔ یہ ملک پاکستان ہمیں بڑا محبوب ہے۔’’ پاکستان کا مطلب کیا : لا اِلہ اِلا اللہ‘‘ کے نعرہ پر اسے حاصل کیا گیا۔ لاکھوں افراد نے اس کی خاطر قربانیا ں دیں اور ہجرت کی ۔ علامہ اقبال کا خواب تھا کہ مسلمانوں کا ایک علیحدہ خطہ زمین ہوجہا ں وہ اسلامی شریعت نافذ کرسکیں۔ قائداعظم کا ویژن تھا کہ اس ملک میں عہد ِحاضر کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کی جائے۔ نبی کریم ﷺ کے اُمتی ایک بڑے مشن کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی کامل بندگی اور نبی کریم ﷺ کی نمائندگی کرنی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس مملکت خداداد میں اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم اور نافذ کیا جائے جو نبی کریم ﷺ کا ۲۳ برس کا مشن تھا۔
دین ِاسلام صرف نمازوں ‘روزوں اور صدقہ و خیرات ہی کا نام نہیں ہے ۔ یہ مکمل نظامِ زندگی ہے اور انفرادی کے ساتھ اجتماعی معالاتِ زندگی میں بھی اپنا غلبہ چاہتا ہے۔غور کریں آج ہم سیاسی سطح پر کتنے ابتر ہیں! ہماری معاشی حالت کس قدر بربادی کا شکار ہے! ہماری معاشرتی کیفیات ساری دنیا کو معلوم ہیں۔ ہمارا نظامِ تعلیم تباہی کا شکار ہے۔ ہماری اخلاقی گراوٹ پستی کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ہمار ے پاسپورٹ کی قدر دنیا میں کیسی ہے؟ کرپشن میں ہمار ا نمبر کیا ہے؟ ہماری عدلیہ دنیا میں کس درجہ پر ہے؟ ہماری افرادی قوت کو کچھ ملک کیوں واپس بھیج رہے ہیں؟یہ اور بہت سارے مسائل کا پہاڑ ہم پر مسلط ہے۔ان سب باتوں کے بہت سے ضمنی اسباب ہیں البتہ سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم ایک نظریاتی ریاست ہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی ۔اگر نظریہ مضبوط نہ ہوگا توریاست کا استحکام ممکن نہیں۔
مسائل کا شکار لاکھوں لوگ مایوس ہو کر پاکستان سے باہر جارہے ہیں۔البتہ سوال یہ ہے کہ بڑی سوچ کے ساتھ فکر کون کرے گا؟اپنی ذات اور گھر والوں سے بڑھ کر اس مملکت خدادداد کا بھی تو سوچیں جس کو ہم نے اللہ تعالیٰ کے نام پر حاصل کیا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ عرض ہے کہ ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کو منفرد (unique )بنایا ہے۔ سرکاری افسران اور عہدہ داران تو بہت سا اختیار بھی رکھتے ہیں اور لوگوں پر اثر انداز بھی ہوسکتے ہیں۔ اپنے اہل خانہ‘ ماتحت افراد‘ دوست احباب اور دیگر ملنے جلنے والے افرادکے حوالے سے کچھ ایسا کرجائیں کہ کل اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہو اور رسول اللہ ﷺ کا سامنا ہو تو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
اس ضمن میں ایمان کی محنت ‘خوفِ خدا ‘بڑا مشن سامنے رکھنا ‘خود اللہ کا بندہ بننا ‘ دوسروں کواللہ کی بندگی کی دعوت دینااور اس زمین پر اللہ کے دین کو نافذ کرنے کی جدّوجُہد کرنا ضروری ہے جس کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا۔آئند ہ کا لائحہ عمل (way forward) کیا ہوگا ‘ یہ اگلی بات ہے۔آج ہم سوچ ‘ فکر اور vision تو بڑا رکھیں۔اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت‘ مخلوقِ خدا کی خدمت اور آخرت کی فکر کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ دنیا جیسی حقیر شے بھی ہمارے قدموں میں ڈال دے گا۔بس اس بڑی سوچ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے میں ہی ہماری دنیا اور آخرت کی فلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!