(ظروف و احوال) مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! - ایوب بیگ مرزا

13 /

مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!ایوب بیگ مرزا

پاکستان کا معاشرہ یوں تو بہت سے معاملات میں تضادات کا ملغوبہ ہے لیکن خاص طور پر دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ حیثیت کے حوالے سے معاشرے میں بُعد المشرقین واضح دکھائی دیتا ہے۔ عام شہری اور کم پڑھے لکھے لوگ اسلام کا ذکر کر کے آسمانوں پر اُڑتے نظر آتے ہیں جبکہ پڑھا لکھا طبقہ اور خاص طور پر وہ لوگ جنہیں ایلیٹ کہا جاتا ہےیا سمجھا جاتا ہے وہ اسلام کا نام لینے سے تو ڈرتے ہیں لیکن اپنا سارا غصہ مسلمانوں کا کاندھا استعمال کر کے نکالتے ہیں۔ راقم کے ذہن میں اس وقت خاص طور پر ٹیلی ویژن کےایک بڑے اینکر ہیں جن کی ہر بات کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی حیثیت کیا ہے ‘انہوں نے آج تک کیا کیا ہے‘ سب کچھ مغرب نے ایجاد کیا! بتائیں مشرق کے لوگوں نے کیا بنایا ؟کیا انہوں نے کبھی کوئی تحقیقی کام کیا؟ سب کچھ مغرب سے لیتے ہیں‘ اُسی کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اِن کے پاس خالی خولی باتیں کرنے اور نعرہ زنی کے سواکیا ہے‘ وغیرہ وغیرہ ۔ پھر وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغرب کی ترقی کا بھر پور ذکر کرتے ہیں اور مشرق خاص طور پر اپنے معاشرے کو مفلوج قرار دیتے ہیں ۔
راقم کی رائے میں دونوںطبقات انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دو چیزوں کے تقابل کے لیے انتہائی اہم اصولوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ عام شہری صرف یہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ’’ پدرم سلطان بود‘‘ اور آج کے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتا ہے جبکہ معاشرے کا وہ حصہ جو مغرب سے متاثر ہے اور وہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا تعلیم یافتہ ہے‘ وہ صرف موجودہ حالات کو دیکھتا ہے۔ مغرب کی اقتصادی اور عسکری ترقی پر نظر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے یا کم از کم ایسا تاثر دیتا ہے جیسے مغرب ازل سے ہی دنیا پر چھایا ہوا ہے اور ابد تک رہے گا۔ اُس کے مطابق مغرب مشرق سے خاص طور پر مسلمانوں سے اِس قدر آگے نکل چکا ہے کہ اب اُسے پکڑا نہیں جاسکتا۔ وہ تاریخ یعنی ماضی پر نظر دوڑانا ضروری نہیں سمجھتا اور نہ ہی مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
ہماری رائے میں نہ صرف تاریخ ِعالم پر گہری نگاہ ڈالنے سےبلکہ آج کے حالات کو دیکھ کر اگر مستقبل کا تانا بانا بنا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ماضی میں بھی مغرب کی نسبت مشرق زیادہ عرصہ تک دنیا میں حاوی رہا اور مستقبل بھی آخر کار مشرق ہی کے نام ہوگا ۔راقم نے مشرق کے غلبہ کے حوالے سے جو لفظ’’آخر کار‘‘ استعمال کیا ہے اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے اختتام سے پہلے مشرق کا غلبہ یقینی ہے ‘البتہ اُس سے پہلےا ور بہت پہلے مغرب حاوی نظر آسکتا ہے‘بلکہ زمینی حقائق کے مطابق نظر آ رہا ہے۔ ہمیں اِس بات کا اعتراف ہے کہ مشرق کے غلبہ کے حوالہ سے جذباتیت کا عنصر کار فرما ہو سکتا ہے اور شاید خواہش نے بھی تبصرے کی شکل اختیار کر لی ہو‘ لیکن کچھ عقلی اور منطقی دلائل کے ساتھ مذہبی و روحانی جذبات کا بھی اس میں بھر پور دخل ہو سکتا ہے ۔ واللہ اعلم! ایک بات تو سب کے سامنے ہے کہ علامہ اقبال جو بیک وقت فلسفی ‘ مفکر اور دانشور بھی تھے اور فکر ِقرآنی کے اعلیٰ درجہ کے معلّم بھی ‘ ان کی سیاسی پختگی کا یہ عالم تھا کہ جناح کی انگلی پکڑ کر انہیں ہندوستان واپس لائے اور بتایا کہ ہند کے مسلم کی تحریکی رگ کو کیسے چھیڑا جائے۔ وہ علامہ اقبال جب کہتے ہیں کہ ع ’’ مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!‘‘ تو اُس وقت کےمشرق کے حالات آج سے کہیں بد تر تھے ۔ مشرق کے اکثر ممالک مغرب کے قبضہ یا کنٹرول میں تھے۔ مشرقی اور اسلامی دنیا کا معاملہ ایک جیسا ہی نظر آتا تھا۔ چہار سُو اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ عام آدمی تو ایک طرف‘ بڑے بڑے دانشور اور علماء انتہائی مایوسی کے عالم میںتھے۔ سرسید جیسے دانشور اور نیم عالم دین انگریز کی حاکمیت اور برتری کو مکمل طور پر تسلیم کر چکے تھے اور اپنے ہی وطن میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے ۔ علامہ اقبال کا یہ کہنا کہ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ‘ درحقیقت اُن کی دور بینی کا کمال تھا۔
قصہ مختصر‘ راقم کہنا یہ چاہتا ہیے کہ اگرچہ مغرب کی سائنس اور ٹیکنا لوجی میں ترقی کی وجہ سے اس کی عسکری برتری اب بھی نظر آتی ہے لیکن آج کا مشرق علامہ اقبال کے دور سے کہیں بہتر ‘ ترقی یافتہ اور مغرب کے مقابلے کے لیے کسی حد تک تیار نظر آتا ہے۔ لہٰذا ہماری ایلیٹ کلاس کا یہ کہنا کہ مغرب ماضی میں بھی بالا دستی رکھتا تھا اور آنے والا دور بھی اُسی کا ہے‘ جزوی طور پر تو درست ہو سکتا ہے لیکن پورا سچ ہرگز نہیں ہے ۔
مشرق کی بحیثیت مجموعی مغرب پر برتری کے حوالے سے چند گزارشات پیش ہیں۔ اولاً یہ بات کہ جو کسی غیر مسلم کے لیے غیر اہم ہو سکتی ہے لیکن راقم کو اِس میں ایک مسلمان کی حیثیت سے بڑی روشنی دکھاتی ہے اور مستقبل کے حوالے سے ایک خوش خبری کا درجہ رکھتی ہے وہ یہ کہ قرآن پاک جو حق کے حوالے سے حرفِ آخرہے ‘متعدد بار مختلف جگہوں پر مشرق اور مغرب کا ذکر کرتا ہے لیکن ہر بار مشرق کو پہلے لاتا ہے اور مغرب کو بعد میں ۔ راقم کے نزدیک یہ انتہائی اہم بات ہے اور اصولی طور پر مشرق کی افضلیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پھر یہ کہ تاریخ عالم پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے برطانیہ اور فرانس جو یورپ کے بڑے ممالک ہیں اُن کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی حالات کیسے تھے !عالمی سطح پر ان کی کیا حیثیت تھی! مشرقی ممالک کی مسلمان اور غیر مسلم ریاستیں ان تمام شعبہ جات میں کہاں کھڑی تھیں۔ برصغیر پر انگریز کے قبضہ سے پہلےیہ علاقہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ اسے’’ سونے کی چڑیا‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کا جی ڈی پی حیرت انگیز طور پرباقی دنیا سے بہت زیادہ تھا۔ عوام بھی خوش حال تھے اور حکومتوں کے خزانے بھی بھرے ہوئے تھے۔ مختلف مذاہب کے لوگ گُھل مل کر رہتے تھے‘ جنہیں اپنی عبادات اور رسوم کے حوالے سے پوری آزادی تھی۔لوگوں کا تعلیمی معیار اعلیٰ تھا۔ یہ چند صدیاں پہلے اس دور کی بات ہے جب مغرب میں لوگ ایک دوسرے کے منہ پر شراب پھینک کر لڑائیاں شروع کر دیتے تھے ۔
بہرحال دیانت داری کا تقاضا ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ سترہویں صدی کے آغاز ہی سے صورت حال نے زبردست پلٹا کھایا اورمغرب مشرق سے آگے نکلتا دکھائی دیا۔ پھر یورپ میں صنعتی انقلاب نے تو مغرب کو واضح بالا دستی دی۔ مشرق ہر گزرتے دن پسپا ہوتا نظر آیا۔ ہمارے یہاں مغرب کے گرویدہ دانشور حضرات درحقیقت تاریخ کو یہاں سے دیکھنا شروع کرتے ہیں ‘ جس کی وجہ سے انہیں مغرب ازل ہی سے غالب اور برتر نظر آتا ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی اور اُس کی بنیاد پر عسکری قوت کے حوالے سے نظر ڈالی جائے تو مشرق کے بارے میں منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے:no match ۔واقعتاً مغرب اتنا آگے ہے کہ دوربین سے بھی نظر نہیں آتا۔ مشرقی دنیا پر اس کا محض کنٹرول نہیں بلکہ مکمل قبضہ نظر آتا ہے۔
یہاں حقائق کچھ بدلتے ہیں۔وہ یوں کہ اگرچہ اس ترقی میں یورپ کے عیسائیوں کی بھی بڑیcontribution ہے لیکن باریک بینی سے دیکھیں تویہودی چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر یہ کہ سیاسی طور پر یہودی ایک خاص ایجنڈے کے تحت سرگرم نظر آتے ہیں اور اس ترقی کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے میں استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا کمال یہ تھا کہ عالمی جنگیں تو یورپ کے دو ملکوں کے درمیان کروائیں لیکن تیاپانچا مشرق خاص طور پر مسلمان حکومتوں کا کر دیا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد ادارۂ خلافت دم توڑ گیا اور مسلمان ریاستوں کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ برطانیہ جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘اتنی کمزور ہو گئی کہ اپنے بڑے پن سے خود ہی تائب ہو گئی اور عالمی طاقت کا مرکز لندن سے واشنگٹن منتقل ہو گیا‘ یعنی اس امریکہ میں جہاں یہودی پہلے ہی میڈیا اور تمام وسائل پر قابض ہو چکا تھا۔ یہ بات آن ریکارڈ اور مستند تاریخ کا حصہ ہے کہ یہودی دونوں عالمی جنگوں میں فریقین کو سپورٹ کرتے اور جنگ میں ایندھن ڈالتے رہے۔راقم عرض یہ کرنا چاہتا ہے کہ اگرچہ مغرب مشرق کو پیچھے دھکیلنے اور برتری حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن اس کی یہ برتری یہودیوں نے کافی حد تک اُچک لی ہے۔ امریکہ سپریم پاور آف دی ورلڈ ہے لیکن کوئی امریکی صدارتی انتخابات کے لیے میدان میں اُتر ہی نہیں سکتا جب تک اسے یہودیوں کے ملک اسرائیل سے این او سی نہ ملے۔ صدر رچرڈ نکسن بہتے آنسو سے روتا ہوا وائٹ ہاؤس سے نکلا تھا‘ اس لیے کہ اس نے ایک ایسا بیان دے دیا تھا جو اسرائیل کے مفادات کے خلاف تھا ۔برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے بے ادبی کا مظاہرہ کیا تھا تو اُسے اسرائیل سے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا پڑی تھی۔
یہاں یہ بات قارئین کے سامنے آنی ضروری ہے کہ دنیا کو اپنی مرضی اور اپنے مفادات کے تحت گھمانے والے صہیونیوں سے ایک بہت بڑا بلنڈر ہوا۔ انہوں نے اپنے بڑے پہلوان امریکہ کو اس صدی کے آغاز میں افغانستان کے میدان میں اتار دیا۔ افغانیوں نے امریکیوں کا بیس اکیس سال میں وہ حشر کیا کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ ہو گیا۔ گویا امریکہ دو دہائیاں افغانستان کی دلدل میں پھنسا رہا۔اس دوران مشرق نے انتہائی تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا جیسی ریاستیں معاشی سطح پر بڑی مضبوط ہو گئیں اور مشرقی دنیا کا ملک چین اقتصادی جِنّ بن گیا اور ناقابلِ یقین حد تک عسکری سطح پر آگے بڑھ کر امریکہ اور پورے مغرب کو چیلنج کرنے لگا‘جس سے وہ میزان جو بہت زیادہ مغرب کی طرف جھک چکا تھا اُس میں توازن پیدا ہو ا۔ لہٰذا اب مشرق بڑھتے ہوئے مغرب کے ٹخنوں پر کاٹنے لگا ہے جس سے مغرب غصے اور تکلیف سے بلبلارہا ہے اور ہر صورت مشرق کے اس ملک یعنی چین کے پر کاٹنا چاہتا ہے اور سرد جنگ کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے جو کسی وقت بھی گرم جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ صہیونیوں سے جو بلنڈر ہوا جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے وہ کیا تھا؟انہوں نے مسلمان ممالک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے نائن الیون کا ڈرامہ رچایا۔ اس بنیاد پر امریکہ افغانستان آیا تھا۔لہٰذا جیسے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے : {وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (۵۴)} (آل عمران)’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔ اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے ۔‘‘صہیونیوں کی یہ چال الٹ گئی ۔امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی بیس سال افغانستان میں پھنسے رہے اور مشرقی ملک چین کو اُن کے سامنے آنے کا بڑا اچھا موقع فراہم ہو گیا جس سے اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
اب ہمیں مغرب اور مشرق کی مسابقت اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوششوں کو گریٹر اسرائیل کے قیام کے پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسرائیل اس وقت طاقت کے نشے میں اندھا ہو چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی حکومتیں اسرائیل کو اپنا مائی باپ تسلیم کر چکی ہیں۔ یہ جو دو سال سے غزہ میں وحشت اور درندگی کا ننگا ناچ نظر آرہا ہے‘ اس کی وجہ یہودیوں خاص طور پر صہیونیوں کی حیوانیت اور جنونیت ہے۔ وہ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی لاشوں پر گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ( خدانخواستہ) مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ صدر ٹرمپ کا امن منصوبہ درحقیقت آگے بڑھنے سے پہلے دم لینے والی بات ہے۔ اسرائیل کے عوام ہر صورت میں اپنے ان قیدیوں کی رہائی چاہتے تھے جنہیں حماس نے قید کر رکھا تھا۔ اُن کی رہائی کے بغیر اسرائیلی عوام کی بے چینی ختم نہیں ہو سکتی تھی اور اس حوالے سے اسرائیل کی اپوزیشن حکومت پر بڑاجارحانہ رویہ رکھے ہوئے تھی۔ لہٰذا امریکی صدر ٹرمپ کو ساتھ ملا کر صلح کا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔علاوہ ازیں امریکہ اور یورپ کے عوام جو اسرائیل کے ہاتھوں اہل ِغزہ کے قتل ِعام پر اسرائیل پر تنقید کر رہے تھے‘ انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش ہے ۔ حالات صاف بتا رہے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ بعد جو سالوں نہیں چند ماہ پر محیط ہوگا‘ کوئی نہ کوئی عذر تراش کر فلسطینیوں پر پھر جنگ مسلط کر دی جائے گی۔یوں گریٹر اسرائیل کے لیے اقدامات شروع کر دیے جائیں گے۔ قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل کے ہر فوجی کی وردی پر گریٹر اسرائیل کا نقشہ بنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل دنیا بھر میں خود اور اپنے مغربی غلاموں (امریکہ اور یورپ کے حکمران) کے ذریعے تباہی مچا دے گا لیکن کسی صورت اپنے ایجنڈے سے پسپائی اختیار نہیں کرے گا۔
اس بات کا تصور کرنا کہ اسرائیل اس نام نہاد صلح کے بعد آرام سے بیٹھ جائے گا ایک غلط فہمی نہیں بلکہ حماقت عظمیٰ ہے ۔ اسرائیل اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھ ہی نہیں سکتا اگر وہ دوبارہ جنگ نہیں چھیڑتا۔ راقم کی رائے میں ابھی وہ جنگ تو شاید دور ہے جسے حدیث مبارکہ میں ’’الملحَمۃ العُظمیٰ‘‘ قرار دیا گیا ہے جس کے حوالے سے پہلے امام مہدی اور بعد ازاں نزولِ مسیح کا معاملہ ہے۔ لیکن اسرائیل کے جارحانہ اقدامات سے راقم کی رائے میں تیسری عالمی جنگ ضرور ہو سکتی ہے جس سے دنیا کی آبادی میں بہت بڑی کمی آ جائے گی اور صہیونی یہی چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تعداد تو دنیا میں اتنی بڑھ نہیں سکتی کہ وہ دنیا کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آجائیں‘البتہ دنیا کو خوفناک جنگوں میں ملوث کر کے کُل دنیا کی آبادی کو اتنا کم کر دیا جائے کہ انہیں دنیا کو کنٹرول کرنے میں دِقت نہ ہو۔ لندن سے قوت کے عالمی مرکز کو واشنگٹن لانے والے چاہتے ہیں کہ قوت کے عالمی مرکز کو واشنگٹن سے اب یروشلم منتقل کیا جائے‘ جسے وہ آنے والے وقت میں اسرائیل کا دار الحکومت بنانا چاہتے ہیں‘ جس سے وہ باقی دنیا کو کنٹرول ہی نہیں غلام بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ صہیونیوں کے نزدیک انسان صرف وہ اور یہودی ہیں‘ باقی سب حیوانات ہیں‘ لہٰذا ان سے وہ اسی طرح کام لیں جس طرح آج انسان حیوانات سے کام لیتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ صہیونی تیسری عالمی جنگ اپنی سازشوں سے کروانے کا خواہش مند ہے جس میں مغرب اور مشرق ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔ راقم کی رائے میں ایک طرف امریکہ اور یورپ ہو گا تو دوسری طرف چین‘ روس‘ ایران اور پاکستان ہوں گے۔ اللہ ہی جانتاہے اس سب کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ توقع اور امید ہے کہ علامہ اقبال کی دور بینی حقیقت کا رنگ اختیار کرے گی ۔مشرق ماضی کی طرح کامیاب و کامران ہوگا‘ ان شاء اللہ! ؎

کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ ‘فلک دیکھ‘ فضا دیکھمشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!