دَورِ فسادمیں نجات کی راہقیصر جمال فیاضی
معاون‘ شعبہ تعلیم و تربیت‘ تنظیم اسلامی
دورِ حاضر میں ہر باہوش اور سمجھ دار مسلمان پریشان اور فکر مند ہے۔ اپنے اہل و عیال کو فتنہ گر معاشرے کے اثرات سے بچانا چاہتا ہے مگر ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ مسلمان انفرادی طورپر مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ حلال روزی کمانے کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اجتماعی تفکرات علیحدہ سے دامن گیر ہیں۔ غیر اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ وہ ایک طرح سے پنجرے میں قید ہیں۔ مسلم ممالک چاہتے ہوئے بھی ایسےمسلمان بھائیوں کی کسی قسم کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ مسلمان حکمران ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ ان پر خوف طاری ہے کہ اگر ہم نے یورپ‘ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کی حمایت میں ایک لفظ بھی زبان سے نکالا تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ہماری بادشاہتیں جاتی رہیں گی۔ ہماری عیش و عشرت کی زندگی باقی نہیں رہے گی۔یہ کم و بیش وہی کیفیت ہے جونبی اکرمﷺ نے ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمائی۔حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
((یُوْشِکُ الْاُمَمُ اَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْاَکَلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھَا)) فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: ((بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْـرٌ، وَلٰـکِنَّـکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ، وَلَـیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ، وَلَـیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ)) فَقَالَ قَائِلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا الْـوَھْنُ ؟ قَالَ: ((حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ)) [سنن ابی داوٗد‘ کتاب الملاحم‘ باب فی تداعی الامم علی الاسلام]
’’قریب ہے کہ اقوامِ عالَم ایک دوسرے کو تم پر ٹوٹ پڑنے کی دعوت دیں گی جیسا کہ کھانا کھانے والے ایک دوسرے کو اپنے دستر خوان کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘ اس پر کسی نے کہا:’’کیا اُس روزہم تعداد میں کم ہوں گے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’تعداد میں تو اُس روز تم بہت زیادہ ہو گے‘ لیکن تمہاری حیثیت جھاگ سے زیادہ نہ ہو گی‘ جیسا کہ سیلاب کا جھاگ ہوتا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال باہر کرے گا اور خود تمہارے دلوں میں وہن (کی بیماری) ڈال دے گا۔‘‘ کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت!‘‘
اس حدیث کو امام ابو داؤد نے روایت کیا اور کہا: یہ ارشاد فرمانے والے (یعنی نبی اکرمﷺ) ’’الصَّادِقُ الْمَصْدُوق‘‘ ہیں (یعنی آپ ﷺ صادق ہیں اور آپ ؐ کی تصدیق کی جاتی ہے)۔
اسلام وہ دین ہے جس کی تکمیل کا اعلان اللہ جل شانہ نے اپنے کلام پاک میں فرما دیا ہے۔ اس کے ساتھ واضح الفاظ میں مسلمانوں پر اپنے احسان اور نعمت کے پورا ہونے کا ذکر بھی کیا۔ ارشاد ہوتا ہے:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط } (المائدۃ:۳)
’’ آج کے دن مَیں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اِتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے مَیں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے۔‘‘
یعنی تمہارے لیے مجھے دین ِاسلام پسند ہے۔ کیا ہی پیارے اور مسرور کر دینے والے الفاظ ہیں! ایسے مکمل دین کے دعوے دار‘ ایسے کامل دین کے پیروکار اس بات پر پریشان ہوں کہ ہم کیا کریں! اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اور اس کے سچے رسولﷺ نے دین یا دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ضرورت باقی نہیں چھوڑی جس کے متعلق صاف اور واضح الفاظ میں احکام و ہدایات بیان نہ فرما دیے ہوں‘ ان کے نفع و نقصانات نہ بتا دیے ہوں۔ پھر یہ سب کچھ صرف زبانی تلقین یا کتابی علم نہیں ہے بلکہ اللہ کے سچے رسولﷺ اور ان کے فریفتہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان سب احکامات و ہدایات کا عملی تجربہ بھی کر کے دکھا دیا۔ جب مسلمانوں نے نبی اکرمﷺ کے اتباع کو دقیانوسیت گردانااور سنتوں پر مرمٹنے کو تنگ نظری سمجھ لیا تو آخرت میں جو حشر ہوگا سو ہوگا‘اس دنیا میں جو حشر ہورہا ہے وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
آنچہ بر ماست از ماست خود کردہ را علاجے نیست’’جو مصیبت ہم پر آئی ہے‘ وہ ہماری اپنی لائی ہوئی ہے‘ اور اپنی لائی ہوئی مصیبت کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔‘‘
اللہ جل جلالہٗ نے تو بالکل کھلے الفاظ میں سورۃ الشوریٰ میں فرمادیا ہے:
{ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ(۳۰) وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ج وَمَا لَـکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ(۳۱)}
’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطاؤں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کرتا رہتا ہے۔ اور تم زمین میں (اللہ کو) عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ اور تمہارے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
{ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(۴۱) } (الروم)
’’بحر و بر میں فساد رونما چکا ہے لوگوں کے اپنے کرتوتوں کے سبب تاکہ وہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا تاکہ وہ لوٹ آئیں۔ ‘‘
اس قسم کے مضامین قرآن مجید میں دو چار جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات پر وارد ہوئے ہیں۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت۳۰ کے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ میں تجھے اس آیت کی تفسیر بتاتا ہوں:’’اے علی! جو کچھ بھی تجھے پہنچے — ‘مرض ہو یا کسی قسم کا عذاب ہو یا دنیا کی کوئی بھی مصیبت —‘ وہ تیرے اپنی ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔‘‘
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ترک کردینا
ٍ احادیث میں حوادث اور آفات کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا گیا ہے‘ جواس قدر قوی ہے کہ اس کے زہریلے اثرات میں بسا اوقات وہ بھی لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں جو معاصی میں مبتلا نہیں ہوتے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((یَکُوْنُ فِیْ آخِرِ الْاُمَّۃِ خَسْفٌ، وَمَسْخٌ، وَقَذْفٌ)) قَالَتْ : قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنَھْلِکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ؟ قَالَ:((نَعَمْ، اِذَا ظَھَرَ الْخُبْثُ)) [سنن الترمذی ابواب الفتن باب ما جاء فی الخسف]
’’اس اُمّت کے آخر زمانے میں خَسف ہوگا (زمین میں آدمیوں اور مکانوں کا دھنس جانا)‘ اور مَسخ ہوگا (کہ آدمی بندر اور کتے وغیرہ کی صورت ہو جائیں گے)‘ اور قذف ہوگا (کہ آسمان سے پتھر برسنے لگیں گے)۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہﷺ! ہم میں نیک لوگ بھی ہوں گے تو کیا پھر بھی ہم ہلاک ہوں گے؟‘‘حضورﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘ جب خباثت کی کثرت ہو جائے گی۔‘‘
یہ ارشاد گرامی متعدد احادیث میں مختلف عنوانات سے وارد ہوا ہے کہ نیک کاموں کا آپس میں ایک دوسرے کو حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو‘ ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب مسلط کر دے گا‘ اور اس وقت اگر دعائیں بھی کی جائیں گی تو قبول نہ ہوں گی۔ایک حدیث میں ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ کسی بستی کو الٹ دینے کا حکم فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا:پروردگار!’’اس آبادی میں تو تیرا فلاں بندہ ایسا بھی ہے کہ اس نے پلک جھپکنے جتنی دیر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔‘‘ارشاد ہوا:
((اقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمْ فَاِنَّ وَجْھَہُ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیْ سَاعَۃ قَطُّ)) [رواہ البیھقی فی شعب الایمان‘ عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ]
’’الٹو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر ‘کیونکہ اس کا چہرہ میری خاطر کبھی متغیر نہیں ہوا۔‘‘
ان ارشادات کو ذہن نشین کرنے کے بعد آج کل کے معاملات کو شریعت کے پیمانے پر جانچ لیجیے۔ — سودی لین دین نہ صرف کھلم کھلا ہو رہا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر سود کو جائز بتایا جاتا ہے‘ اس کے جواز پر دلائل دیے جاتے ہیں۔ زنا عام ہوگیا ہے اور اس کو کوئی برا فعل نہیں سمجھا جاتا۔ شراب مختلف خوش نما ناموں سے پی جار ہی ہے اور پلائی جارہی ہے۔ گانا بجانا اور آلاتِ موسیقی عام ہوگئے ہیں۔
اب علماء عظمت کے مینار نہیں رہےبلکہ کھیلنے اور گانے بجانے والوں کی عزت کی جاتی ہے اور انہیں ہیرو گردانا جاتا ہے۔ ٹرانس جینڈر اور LGBT کے نام سے عالمی سطح پر فحاشی کے نئے نئے راستے کھول کر اسے فروغ دیا جا رہا ہے۔
تباہی عام کرنے والے اعمال
کچھ اعمال بھی ایسے ہیں جن کے کرنے پر نبی اکرمﷺ نے دنیاوی عذاب اور پریشانیوں کا مرتب ہونا ارشاد فرمایا ہے۔ اگر ہم ان پریشانیوں سے بچنا چاہتے ہیں تو چاہیے کہ ان اعمال کو چھوڑ دیں۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ ایک مرتبہ خاص طور پر متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِيْنَ، خَمْسٌ اِذَا ابْتَلَيْتُمْ بِهِنَّ، وَاَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ تُدْرِكُوْهُنَّ:(۱) لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِيْ قومٍ قطُّ حَتّٰى يُعْلِنُوا بِھَا اِلَّا فَشَا فِيْھِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِيْ لَمْ تَكُنْ مَضَتْ في اَسْلَافِھِمُ الَّذِيْنَ مَضَوْا (۲) وَلَمْ يَنْقُصُوا الْـمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ اِلَّا اُخِذُوا بِالسِّنِينَ وشِدَّةِ الْـمَئُوْنَۃِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ. (۳) وَلَمْ يَمْنَعُوْا زَكَاةَ اَمْوَالِهِمْ اِلَّا مُنِعُوا القَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُـمْطَرُوْا. (۴) وَلَمْ يَنْقُضُوا عَهْدَ اللّٰهِ وَعَهْدَ رَسُوْلِه إِلَّا سَلَّطَ اللّٰهُ عَلَيْھِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ، فَأَخَذُوْا بَعْضَ مَا فِيْ اَيْدِيْھِمْ. (۵) وَمَا لَمْ تَحْكُم اَئِمَّتُھُمْ بِكِتَابِ اللّٰهِ، وَيَتَخَيَّرُوا مِمَّا أنْزَلَ اللّٰهُ إلَّا جَعَلَ اللّٰهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ. [سنن ابن ماجہ‘ کتاب الفتن‘ باب العقوبات]
’’اے مہاجرین کی جماعت ! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے —‘ اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان میں مبتلا ہو — (تو ان کے عذاب تم پر مسلط ہو جائیں گے): (۱)جس قوم میں فحاشی (زنا وغیرہ) کھلم کھلا ہونے لگے‘ اس میں طاعون اور ایسی نئی نئی بیماریاں پھیل جائیں گی جو ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں میں کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ (۲)جو قوم ناپ تول میں کمی کرےگی‘ وہ قحط ‘ مشقت اور بادشاہ کے ظلم میں مبتلا ہو جائے گی۔(۳) جو لوگ زکوٰۃ روکیں گے‘ ان سے آسمان سے بارش روک لی جائےگی۔ اگر (بے زبان )جانور نہ ہوتے تو ذرا بھی بارش نہ برسائی جاتی(مگر جانوروں کی ضرورت سے تھوڑی بہت ہوگی)۔(۴) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے عہد کو توڑیں گے‘ ان پر بیرونی دشمن مسلط کیے جائیں گے‘ وہ ان سے چھین لیں گے جو کچھ ان کے پاس ہے۔ (۵)جب ان کے حکمران اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے اور اللہ کے نازل کردہ احکام میں اپنا اختیار استعمال کریں گے تو وہ قوم خانہ جنگی میں مبتلا ہوجائے گی۔ ‘‘
ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ چند آدمیوں کے کسی (ناجائز) کام کے کرنے سے عام عذاب تب تک نازل نہیں فرماتے جب تک کہ نہ کرنے والوں کے سامنے وہ کام کیا جائے اور وہ اس کے روکنے پر قادر ہوں اور نہ روکیں۔ اور جب یہ نوبت آجائے تو پھر خاص و عام سب ہی پر عذاب آتا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
{وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃًج } (الانفال:۲۵)
’’اور اس فتنہ سے ڈرو جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو نہیں پہنچے گا۔‘‘
ہمارے آج کے لیڈر حضرات موجودہ حالات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں‘ الزام تراشی کرتے ہیں۔ نام نہاد دانشور طبقے میں سے ایک گروہ کا خیال ہے کہ مسلمان سائنسی تعلیم میں پیچھے رہ گئے ہیں‘ انہیں جدید تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ دوسرا گروہ یورپ و امریکہ کے مغربی عوام کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ایک گروہ مسلمانوں کو فلسفیانہ بحثوں میں اُلجھا رہا ہے۔ یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ یہ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری سے منہ موڑ لیا ہے‘ اور یہی اس کا نتیجہ ہے۔
یہی اسباب ہیں جن کی وجہ سے آج کل نئی نئی آفات‘ زلزلے‘ طوفان‘ قحط‘ سیلاب‘ آندھیاں‘ گھر گرنے وغیرہ جیسے حوادث روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ نئی نئی بیماریاں‘ نئے نئے مصائب اور دشمنوں کا غلبہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے‘ جو پہلے کبھی نہ تھا۔نمازوں کے بعد دعاؤں کے لیے اعلان کر دینا کیسے کافی ہو سکتا ہے جبکہ دعائیں قبول نہ ہونے کے اسباب تو ہم خود اختیار کر رہے ہیں؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھے راستے پر پلٹ آنے اور اس پر استقامت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025