قافلهٔ تنظیم :منزل به منزلخورشید انجم
مرکزی ناظم تعلیم وتربیت‘تنظیم اسلامی
اس مضمون کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نئے رفقاء کو معلوم ہو جائے اور پرانے رفقاء کی یاد دہانی ہو جائے کہ تنظیم اسلامی کن کن راہوں سے گزر کر‘ کن کن مرحلوں کو طے کر کے اور کون کون سے موڑ کاٹ کر آج یہاں تک پہنچی ہے ۔ اس کے ساتھ اہم سنگ ہائے میل بھی ہمارے لیےواضح ہو جائیں۔
تعارف : بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ
محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء کو مشرقی پنجاب ( جواب ہندوستان میں شامل ہے) کے صوبہ ہریانہ کے ایک قصبے حصار میں پیدا ہوئے۔بچپن ہی میں علامہ اقبال کی شاعری سے لگاؤ پیدا ہوا۔ بانگ ِدرا‘ بالِ جبریل‘ ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کو پڑھ ڈالا۔ابھی آٹھویںجماعت ہی میں تھے کہ حفیظ جالندھری کا ’’ شاہنامہ ٔاسلام ‘‘ بھی پورا پڑھ لیا۔
۱۹۴۶-۴۷ کے عرصے میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک فعال کارکن کی حیثیت سے کام کیا۔ میٹرک کے زمانہ تعلیم میں عملاً مسلم لیگ سے وابستہ رہے۔
گورنمنٹ ہائی سکول حصار سے ۱۲ جولائی ۱۹۴۷ء کو میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا۔۷ نومبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان ہجرت کی۔ اس سے قبل حصار میں محصوری کے دوران ’’ تفہیم القرآن‘‘ سے متعارف ہوئے۔ اس سے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی رغبت ہوئی۔ اسی عرصے میں اخبار ’’ الہلال‘‘ کے پرانے پر چے پڑھے‘ جن سے مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی تعارف حاصل ہوا ۔ایف ایس سی کی تعلیم کے دوران جماعت اسلامی کے ’’حلقہ ہمدرداں ‘‘ سے منسلک ہو کر بہت جاں فشانی سے کام کیا اور مولانا مودودیؒ کے تمام لٹریچر کا مطالعہ کر لیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کیا۔
۱۹۴۹ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج‘ لاہور میں داخل ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے۔۱۹۵۱ء میں اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم بنے۔۱۹۵۳ء میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ جمعیت کی رکنیت کے زمانے ہی میں درس وتدریس شروع کی اور اسی دور میں تحریر و تقریر کی صلاحیت حاصل ہوئی۔ اسی دوران مولانا امین احسن اصلاحی کی تصانیف کا بھی مطالعہ کیا اوران کے دروس سے بھی استفادہ کیا۔ ۱۹۵۴ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ رکن بننے کے فوراً بعد ہی محسوس ہوا کہ جماعت ِاسلامی نے اقامت ِدین کے اپنے اصل طریقہ کار سے انحراف کرلیا ہے‘ لہٰذا ۱۹۵۶ء میں رکن جماعت کی حیثیت سے۲۵۰ صفحات پر مشتمل ایک تحریر لکھی اور اپریل ۱۹۵۷ء میں جماعت کی رکنیت سے استعفا دے دیا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب ساہیوال میں پریکٹس کر رہے تھے ۔ ۱۹۵۸ء میں اپنا مطب بند کر کے اہل و عیال سمیت کراچی منتقل ہو گئے۔ پھروالد صاحب کی علالت کے باعث ۱۹۵۹ء میں ساہیوال واپس آگئے۔ ساہیوال آتے ہی حلقۂ مطالعہ ٔقرآن قائم کیا۔ تقریباً اڑھائی سال ساہیوال میں گزار کر۱۹۶۲ءمیں دوبارہ کراچی گئے اور ۱۹۶۵ء میں واپس آگئے ۔ ۱۱ستمبر۱۹۶۵ء کو والد صاحب کے انتقال کے بعد لاہور منتقل ہو گئے۔ اس عرصے کےدوران مطالعہ ٔ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے درس دیتے رہے۔ کراچی قیام کے دوران ایم اے (اسلامیات) بھی امتیازی پوزیشن کے ساتھ کرلیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔
تنظیم اسلامی :قدم بہ قدم
٭ ’’تنظیم اسلامی ‘‘ کا نام پہلی بار آج سے ۵۸ سال قبل۸‘۹ ستمبر ۱۹۶۷ء کو رحیم یار خان میں منعقدہ ایک اجتماع میں سامنے آیا تھا۔ اس اکٹھ میں تقریباً ۴۰ایسے حضرات نے شرکت کی تھی جن کی اکثریت ۵۸ - ۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئی تھی۔ اواخر ۱۹۶۵ء میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒنے جماعت اسلامی کے حوالہ سے اپنے اختلافی بیان کو ’’تحریک ِجماعت ِاسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی سے الگ ہونے والوں میں کسی نئی تشکیل کی خواہش پیدا ہوئی اور آپس میں ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ بالآخر شیخ سلطان احمد‘ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور سردار محمد اجمل خان لغاری نے ایک قرار داد پر دستخط کیے‘ جوجولائی ۱۹۶۷ء کے ’’میثاق‘‘ میں ’’قرار دادِرحیم یار خان‘‘کے نام سے شائع ہوئی۔ مذکورہ بالا اجتماع کاانعقاد ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی تقریباً ڈیڑھ دو سال کی محنت ِشاقّہ کا نتیجہ تھا۔ اس اجتماع میں ایک سات رکنی مشاورتی کمیٹی بنی۔البتہ کچھ حوادث کی بنا پر یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر یہ طے کر لیا کہ اب جو کچھ بھی کرنا ہے ‘اپنے بل بوتے پر تن تنہا ہی کرنا ہو گا۔
٭ جون ۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒنے ’’ اسلام کی نشا ٔ ۃ ثانیہ : کرنے کا اصل کام‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر لکھی جو اقامت ِ دین کے لیے ایک نئی جدّوجُہد کے حوالے سے ان کی سب سے پہلی تحریر تھی۔ اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب ؒنے ’’ قرآن اکیڈمی ‘‘ کے قیام کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ اس کے علاوہ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق ‘‘ نامی کتاب شائع ہوئی۔
٭ جنوری ۱۹۶۸ء سے سمن آباد‘ لاہور میں ایک عزیز کے گھر درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ حاضری بڑھ جانے پر مسجد خضراء‘ سمن آباد میں درس ہونے لگا۔ یہاں ڈاکٹر صاحب ؒنے سب سے پہلے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا درس مکمل کیا۔ اس سے پہلے ساہیوال اور کراچی میں منتخب نصاب کے مکمل درس ہوچکے تھے۔
٭ ۱۹۷۰ء میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ حج کے لیے تشریف لے گئے ۔وہیں پر انہوں نے میڈیکل پریکٹس کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا۔
٭ مارچ۱۹۷۱ء میں حج سے واپسی پر دین کے لیے بالکل یکسو ہو کر از سرِ نو کام کا آغاز کیا۔
٭ اگست۱۹۷۱ء سے کراچی میں دعوتِ قرآنی کا آغاز ہوا ۔ لاہوراور کراچی آمد ورفت کے دوران ملتان‘ رحیم یار خان‘ صادق آباد اور سکھر میں بھی درسِ قرآن کی نشستیں منعقد ہونے لگیں۔ اس سے قبل مسجد خضراء ‘سمن آباد لاہور قرآنی تحریک کا ایک مؤثر مرکز بن چکی تھی۔
٭ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے منتخب قرآنی نصاب کے دروس کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اور جس کی بنیاد سورۃ العصر ہے‘ اس کے تقاضے اسی طرح پورے ہو سکتے تھے کہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے لیے ایک ہیئت ِاجتماعیہ وجود میں آجائے۔ یہ دعوت اواخر ۱۹۷۲ء میں انفرادی سعی و جُہد کے دائرے سے نکل کر پہلے مرحلے کے طور پر ایک اجتماعی ادارے ’’ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ کے تحت منظم ہوئی۔
٭ انجمن کی قرار دادِ تاسیس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر اسراراحمد ؒنے فرمایا :
’’ اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ اور غلبہ ٔدین ِحق کے دورِ ثانی کا خواب اُمّت ِمسلمہ میں تجدید ِایمان کی عمومی تحریک کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے لازم ہے کہ اولاً منبع ِ ایمان ویقین یعنی قرآنِ حکیم کے علم و حکمت کی وسیع پیمانے پر نشر و اشاعت کی جائے۔ ‘‘
٭ مرکزی انجمن خدام القرآن کی تشکیل دراصل سمع و طاعت کے ٹھیٹھ اسلامی اصولوں پر مبنی ایک اسلامی جماعت کے قیام وتشکیل کی تمہید تھی ۔ ڈاکٹر صاحب ؒکے پیش نظر صرف انجمن بنانا مطلوب نہیں تھا بلکہ اصل مقصد اقامت ِدین کے لیے ایک جماعت قائم کرنا تھا‘ اور اس کی وضاحت انجمن کے دستور میں بھی کردی گئی تھی۔
٭ مرکزی انجمن خدام القرآن کے تحت اگست ۱۹۷۲ء میں پہلی دس روزہ قرآنی تربیت گاہ منعقد ہوئی۔ ۱۹۸۹ء تک ہر سال ایک یا دو دس روزه‘ پندرہ روزہ‘ اکیس روزہ اور کبھی کبھار چالیس روزہ تربیت گاہیں مرکزی سطح پر منعقد ہوتی رہیں۔
٭ مرکزی انجمن کے زیر اہتمام ۲۱ روزہ قرآنی تربیت گاہ (یکم جولائی تا ۲۱ جولائی ۱۹۷۴ء منعقدہ مسلم ماڈل ہائی سکول‘لاہور) کے اختتامی اجلاس میں تنظیم اسلامی کے قیام کے عزم کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا:
’’اب بہت غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد محض اللہ کی تائید و توفیق پر توکّل اور بھروسے پر مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ میری زندگی میں یہ کام صرف درس و تدریس تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ‘ان شاء اللہ‘ احیائے اسلام اور غلبہ ٔ دِین حق ہی عملاً میری زندگی کااصل مقصود ہوں گے اور میری بہتر اور بیشتر مساعی بالفعل دعوتِ دین اور خلق ِخدا پر دین ِحق کی جانب سے اتمامِ حُجّت میں صَرف ہوں گی۔ گویا { قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۱۶۲) } (الانعام) اور اس کی دعوت میں اپنے تمام عزیزوں‘ دوستوں اور جاننے والوں حتیٰ کہ بزرگوں تک کو دوں گا تا کہ وہ بھی ان مقاصد ِعالیہ کے لیے منظم جدّوجُہد کر سکیں۔‘‘
٭ اس اعلان کے بعد تقریباً آٹھ ماہ تک لاہور‘ کراچی‘ سکھر وغیرہ کے دوروں میں ان قریبی ساتھیوں سے تبادلۂ خیال اور مشورے ہوئے جودعوتِ رجوع القرآن سے متاثر ہو کر قریب آئے تھے۔ اس عرصے کے دوران ڈاکٹر صاحب حج کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ بعد ازاں ۲۷‘۲۸ مارچ ۱۹۷۵ء کولاہور میں ایک اجتماع منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تنظیم اسلامی کے اس تأ سیسی اجتماع کا پہلا اجلاس جمعرات ۲۷ مارچ کی شام کو بعد نمازِ عصر ۱۲ -افغانی روڈ‘ سمن آباد لاہور میں منعقد ہوا۔ اس میں تنظیم اسلامی کی قرار دادِ تاسیس مع توضیحات اور اس کےدستور کا حصہ اوّل مشتمل ’’بر نام‘ شرائط ِشمولیت اور عہد نامہ رفاقت‘‘ بھی منظور کر لیے گئے۔
٭ اسی اجلاس میں ایک سولہ رکنی مشاورتی کمیٹی کا تقرر ہوا جس نے ۲۸ مارچ کی صبح کو ایک اجلاس میں دستور کے حصہ دوم مشتمل بر’’ ہیئت تنظیمی‘‘ کی تدوین مکمل کی۔
٭ پہلی نشست میں لاہور‘ کراچی‘ سکھر‘ بہاول پور‘ ساہیوال‘ فیصل آباد‘ شیخوپورہ‘ گوجرانوالہ اور واہ سے ۱۰۳ حضرات نے شرکت کی۔ اس تاسیسی اجلاس کا افتتاح محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے کیا اور فرمایا کہ اس اجتماع کی کارروائی مرحلہ وار رو بعمل آئے گی۔
(i) پہلے مرحلہ میں اس بات کی وضاحت کی جائے گی کہ از روئے قرآن اقامت ِدین کی جدّوجُہد محض نفلی یا اضافی نیکی نہیں بلکہ فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے التزامِ جماعت ضروری ہے۔
(ii) دوسرے مرحلہ میں تنظیم اسلامی کی قرار دادِ تاسیس اور توضیحات منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی۔
(iii) تیسرے مرحلہ میں تنظیم اسلامی کے اساسی اعتقادات و نظریات اور تنظیم میں شمولیت کی شرائط کی منظوری کا کام انجام پائے گا۔
٭ اجلاس کی تیسری نشست یعنی تیسر امرحلہ۲۸ مارچ کو جمعہ کی نماز کے بعد ہوا۔ اس میں ۷۳افراد نے شرکت کی۔
٭ ۲۸ مارچ ہی کو مغرب کی نماز کے بعد اس اجلاس کی آخری نشست ہوئی جس میں اس موقع پر موجود حضرات کی شمولیت سے تنظیم اسلامی کا قافلہ ترتیب پایا۔ داعی ٔ عمومی محترم ڈاکٹر اسر ار احمدؒ عہد نامہ رفاقت کی ایک ایک شق پڑھتے رہے اور ۶۲ حضرات اس کو دُہراتے رہے۔
٭ اسی اجلاس میں داعیٔ عمومی نے شیخ جمیل الرحمٰن کو تنظیم کا ناظم عمومی جبکہ قاضی عبد القادر کو مرکزی ناظم بیت المال مقرر کر دیا۔
٭ بعد ازاں جلد ہی کراچی‘ سکھر‘ گوجرانوالہ‘ راول پنڈی اور لاہور سے مزید ساتھی بھی شامل ہوگئے۔ ۲۲ نومبر۱۹۷۵ء کو جناب بشیر ملک ناظم عمومی اور جناب قمر سعید قریشی ناظم بیت المال مقرر کیے گئے ۔
٭ تنظیم اسلامی کا پہلا سالانہ اجتماع ۲۵‘۲۶ مارچ ۱۹۷۶ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔ اس وقت رفقاء کی کل تعداد ۸۹ تھی‘ جن میں سے ۶۴ رفقاء نے شرکت کی۔ اس اجتماع میں محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے فرائض دینی کے جامع تصوّر کی وضاحت کی۔ ۸ رفقاء مجلس ِشوریٰ کے رکن مقرر ہوئے۔
٭ دوسرا سالانہ اجتماع مارچ یا اپریل۱۹۷۷ء میں منعقد ہونا تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ (PNA)کی تحریک کے نتیجے میں افرا تفری کا عالم تھا۔۵جولائی ۱۹۷۷ء کو مارشل لاءلگ گیا اور یوں حالات معمول پر آگئے۔ اس کیفیت کو غنیمت جانتے ہوئے ۵ تا ۱۱ /اگست ۱۹۷۷ء کو ۷۸ - ۱۹۷۷ء کا مشتر کہ سالانہ اجتماع قرآن اکیڈمی‘ لاہور میں منعقد کیا گیا۔ اس اجتماع میں رفقاء نے انتخابات کے حوالے سے اپنی آراء کاکھل کر اظہار کیا۔ بعد ازاں انتخابات کے حوالے سے تنظیم کی پالیسی بنائی گئی۔ اسی اجتماع میں یہ معاملہ بھی زیربحث آیا کہ آئندہ نظام جماعت کیا ہو !
سیر حاصل گفتگو کے بعد طے کیا گیا کہ آئندہ تنظیم اسلامی کا نظام بیعت کے اصول پر مبنی ہوگا۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تنظیم کی امارت سنبھال لی۔ اس اجتماع میں جناب رحمت اللہ بٹر کو ناظم عمومی مقرر کیا گیا۔
٭ چوتھا سالانہ اجتماع ۲۸ تا ۳۰ اپریل ۱۹۷۹ء کولاہور میں منعقد ہوا۔ بعض وجوہات کی بنا پر دعوت کا کام آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے رفقاء کی تعداد ۶۷ رہ گئی تھی۔ ان میں سے بھی ۵۲ رفقاء نے شرکت کی تھی۔ نئے منظور شدہ نظام العمل کی روشنی میں جناب بشیر ملک کو قیم تنظیم مقرر کیا گیا۔ تنظیم کا مکتبہ بھی قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔
٭ پانچواں سالانہ اجتماع ۲۲ تا ۲۴ اپریل ۱۹۸۰ء قرآن اکیڈمی‘ لاہور میں منعقد ہوا۔ اس میں قاضی عبد القادر کو قیم تنظیم مقرر کیا گیا۔ ہر رفیق تنظیم سے تقاضا کیا گیا کہ وہ ’’عہد نامہ رفاقت‘‘ گھر یا دفتر میں کسی نمایاں جگہ آویزاں کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی اس پر نظر پڑسکے۔ اب تک لاہور میں۱۲ ایسے حلقہ ہائے دروسِ قرآن وجود میں آچکے تھے جہاں رفقاء نے منتخب نصاب کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ڈاکٹراسرار احمدؒ نے کراچی تنظیم کو دعوت دی کہ وہ بھی اس طریق کار کو اپنانے کی طرف متوجہ ہوں۔ اس اجتماع کے موقع پر رفقاء کی کل تعداد۱۰۵ تھی اور صرف ۳ تناظیم تھیں: لاہور‘ کراچی اور سیالکوٹ۔ باقی منفر در فقاء تھے۔ صرف لاہور تنظیم میں چھ اُسرہ جات قائم تھے۔ جناب الطاف حسین لاہور تنظیم اور جناب عبد الرزاق کراچی تنظیم کے امیر تھے۔ اسی اثناء میں قاضی عبدالقادر کراچی میں’’ دعوت و عزیمت ‘‘ کے نام سے سائیکلو سٹائل کے ذریعے ایک ماہنامہ بلیٹن کا آغاز کر چکے تھے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ جنوری ۱۹۸۰ءمیں مارشل لاء کی سختی کی وجہ سے بند کر دیا گیا۔
٭ ٹیلی ویژن پر محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا سب سے پہلا پروگرام ’’ الکتاب‘‘ کے عنوان سے رمضان ۱۹۷۸ء میں شروع ہوا۔ پورے رمضان المبارک کے دوران روزانہ ایک پارے کا خلاصہ بیان ہو تا رہا۔ اس پروگرام کو بہت مقبولیت ملی۔ پی ٹی وی نے اگلے سال رمضان المبارک میں اسےدوبارہ ٹیلی کاسٹ کیا۔ رمضان۱۹۸۰ء میں ڈاکٹر صاحب نے ’’الٓمّٓ‘‘ کے زیر ِعنوان ٹیلی ویژن پر پروگرام پیش کیا۔۳۰ اپریل ۱۹۸۱ءسے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب پر مشتمل ‘‘الہدیٰ‘‘ پروگرام پیش ہوا۔ اس پروگرام کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ مقررہ وقت پر پورے گھرانے کے افراد اپنے تمام کام کاج سے فراغت حاصل کر کے ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ جاتے تھے۔ یہ پروگرام نہ صرف ملک بھر میں مقبول ترین دینی پروگرام کی حیثیت اختیار کرگیا بلکہ بھارت میں بھی اسے بہت پزیرائی ملی۔ اس طرح لاکھوں لوگوں تک قرآن کی دعوت پہنچی۔ یہ پروگرام لادینی قوتوں کے احتجاج کے باعث جون ۱۹۸۲ء میں بند ہو گیا جبکہ ابھی نصف منتخب نصاب باقی تھا۔
٭ ستمبر۱۹۸۴ء سے تاج محل ہوٹل‘ کراچی کے ایک آڈیٹوریم میںپی ٹی وی کی طرز پر ’’شامِ الہدیٰ‘‘ پروگرام شروع کیا گیا ‘جو حاضری کے اعتبارسے بہت کامیاب رہا۔
٭ کراچی کے پروگرام کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے واپڈا آڈیٹوریم ‘لاہور میں بھی ’’شامِ الہدیٰ‘‘ کاماہانہ درسِ قرآن شروع کیا گیا‘ جو بہت کامیاب ہوا۔
٭ چھٹا سالانہ اجتماع یکم تا۴ مئی ۱۹۸۱ء قرآن اکیڈمی‘ لاہور میں ہوا۔ اس میں۱۳۴ رفقاء میں سے ۹۳ رفقاء نے شرکت کی۔اس اجتماع میں بیعت کے نظام کو بر قرار رکھنے کا عزمِ مصمم کیا گیا۔اگست۱۹۸۱ء میں حکومت پاکستان نے ڈاکٹر صاحب ؒکو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔
٭ ۱۹۸۱ءہی میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر صاحب ؒؒکو وفاقی وزارت کی پیش کش کی‘ جسے انہوں نے ٹھکرادیا۔ بعدازاں دسمبر۱۹۸۱ء میں جنرل ضیاء الحق نےوفاقی مجلسِ شوریٰ کی تشکیل کا اعلان کیا اور اس کے لیے ڈاکٹر صاحب ؒ کو بھی نامزد فرمایا۔ اس زمانے میں جنرل صاحب کے بعض اقدامات سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اسلام کی بالا دستی کے لیے کچھ کام کرناچاہتے ہیں‘ لہٰذا ڈاکٹر صاحب ؒنے مجلسِ شوریٰ میں شمولیت اختیار کر لی تا کہ حکومت کو صحیح مشورے دیے جائیں اور ان کے درست کاموں میں تعاون کیا جائے۔ البتہ صرف دو ماہ بعد ہی ڈاکٹر صاحب ؒاس نتیجے پر پہنچے کہ اس میں ان کی شمولیت کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جنرل ضیاء الحق نفاذِ شریعت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مزید بر آں‘ اس میں شمولیت کی وجہ سے ان کی دعوتی و تدریسی سر گرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔ لہٰذا۵ مئی ۱۹۸۲ء کو ڈاکٹر صاحب ؒنے مجلسِ شوریٰ سے استعفا دے دیا۔
٭ ساتواں سالانہ اجتماع ۱۹۸۲ء میں منعقد ہوا۔
٭ مارچ ۱۹۸۲ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے میگزین میں ڈاکٹر صاحب ؒکا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوںنے پردے کے احکامات کےبارے میں اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی فکر پیش کی۔ اس پر مارشل لاء قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبہ سندھ کے گورنر کی اہلیہ کی قیادت میں آزادخیال خواتین نے ڈاکٹر صاحب ؒکے خلاف کراچی ٹی وی سٹیشن پر مظاہرہ کیا‘ جس کے نتیجے میں ’’الہدیٰ‘‘ پرو گرام در میان میں ہی ختم ہو گیا۔
٭ رمضان ۱۹۸۴ء میں قرآن اکیڈمی ‘لاہور سے نماز تراویح کے ساتھ دورئہ ترجمہ قرآن کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ہر سال دورہ ترجمہ قرآن باقاعدگی سے ہو تا رہا۔ ڈاکٹر صاحب ؒکے علاوہ تنظیم کے کئی مزید مدرّسین آگے بڑھے اور انہوں نے بھی دورۂ ترجمہ قرآن کرانے کی ذمہ داری ادا کرنا شروع کر دی۔ ہر سال یہ تعداد بڑھتی رہی یہاں تک کہ اب پورے ملک میں تقریباً سو سے زائد مقامات پر دورۂ ترجمہ قرآن اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں خلاصہ مضامین قرآن حکیم کے پروگرام ہوتے ہیں۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کئی اور اداروں اور علماء نے بھی اپنے طور پر دورہ ٔترجمہ قرآن کرانے شروع کردیے اور اکثر مساجد میں رمضان میں تراویح کے بعد خلاصہ مضامین قرآن حکیم بھی بیان ہونے شروع ہو گئے۔
٭ مئی تا دسمبر۱۹۸۴ء کے دوران مسجد دار السلام باغِ جناح لاہور میں خطاباتِ جمعہ میں ’’منہج ِانقلابِ نبویﷺ‘‘ مکمل بیان ہوا۔
٭ آٹھواں سالانہ اجتماع ۱۹۸۵ء میں منعقد ہوا۔
٭ ۲۳ تا ۲۸ مارچ ۱۹۸۵ء چھ روزہ محاضراتِ قرآنی روزانہ بعد نماز مغرب قرآن اکیڈمی‘ لاہور میں منعقد ہوئے۔ موضوع تھا:’’قرآن کا تصوّرِ فرائض ِدینی۔ ‘‘ ان محاضرات کا مقصد یہ تھا کہ علماء و فضلاء کے سامنے ڈاکٹر صاحب ؒاپنا ’’فرائض ِدینی کا جامع تصوّر‘‘ رکھیں اور انہیں تنقید کی دعوت دیں۔ اگر انہیں اس تصور میں کوئی غلطی نظر آئے تو اس کی نشان دہی کریں‘ بصورت دیگر تائید کریں۔ تقریباً۱۰۰ علماء کرام کو دعوت دی گئی تھی۔ جن حضرات نے بالفعل شرکت کی‘ ان کی تعداد ۲۱ تھی۔ مولانا مفتی سیاح الدین کا کا خیل‘ مولانا محی الدین لکھوی‘مولانا مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری‘ مولانا اخلاق حسین قاسمی اور دیگر مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء کی واضح اکثریت نے ڈاکٹر صاحب ؒکے فکر کی کلّی یا جزوی تائید کی۔
٭ ۱۱ دسمبر تا ۲۰ دسمبر۱۹۸۵ء ڈاکٹر صاحب ؒنے ابو ظبی میں’’قرآن کی عظمت اور اس کی تعلیمات‘‘ پر مشتمل دس روزہ پروگرام کیا۔ اس کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی۔ ایک وسیع حلقے تک تنظیم کی دعوت پہنچی اور ایک بہت بڑی تعداد نے تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔
٭ ۱۹۸۶ء میں تنظیم اسلامی نے متحدہ شریعت محاذ میں شمولیت اختیار کی۔ البتہ جلد ہی یہ محسوس ہوا کہ محاذ میں شامل جماعتیں نفاذِ شریعت کےمعاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں یا پھر نفاذِ شریعت ان کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔ لہٰذا اس سے علیحدگی اختیار کر لی گئی۔
٭ ۱۹۸۶ء ہی میں اکیس روزہ تربیت گاہ میں منتخب نصاب نمبر۲ ( حزب اللہ کے اوصاف) کی تدریس مکمل ہوئی۔
٭ ۱۹۸۶ء میں تمام رفقاء تنظیم کو تحریری صورت میں تجدید بیعت کی دعوت دی گئی تا کہ جو بھی تنظیم میں شامل رہنا چاہے وہ شعوری طور پرعلیٰ وجہ البصیر ہ ایسا کرے۔
٭ ۱۹۸۷ء میں ڈاکٹر صاحبؒ کی تالیف’’ جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی ‘‘ شائع ہوئی۔
٭ ۱۹۸۸ء میں سالانہ اجتماع طارق آباد‘ ضلع بہاول نگر میں منعقد ہوا۔
٭ مرکزی مجلسِ مشاورت منعقدہ ۲‘۳ مارچ ۱۹۸۸ء میں طے کیا گیا کہ قراردادِ تاسیس مع توضیحات اور شرائط شمولیت پر مشتمل مفصل تحریرکو آئندہ تنظیم کی آئینی و دستوری اساس نہیں بلکہ اس کے دعوتی و تربیتی لٹریچر کا اہم اور بنیادی حصہ سمجھا جائے گا۔ علاہ ازیں‘ تنظیم کو انقلابی خطوط پر چلایا جائے گا۔ ضروری مشاورت کے بعد رفقاء کے تین درجات متعین کیے گئے: مبتدی‘ منتظم اور غیر فعال۔بعد ازاں ’’منتظم‘‘ کے بجائے ’’ملتزم ‘‘کی اصطلاح اختیار کرلی گئی۔
٭ ۱۹۸۹ء سے پہلے ہر سال ایک یا دو مرکزی تربیت گاہیں منعقد ہوتی تھیں۔ ان کا دورانیہ کبھی ۱۰ روزہ‘ کبھی ۱۵ روزہ ‘ کبھی ۲۱ روزہ اور کبھی ۴۰ روزہ ہوتا تھا۔۱۹۸۹ء میں سالانہ اجتماع کے موقع پر رفقاء کے لیے با قاعدہ مبتدی اور ملتزم تربیت گاہیں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ پہلی مبتدی تربیت گاہ ۲ تا ۹ جون ۱۹۸۹ء اور پہلی ملتزم تربیت گاہ ۱۶ تا ۲۳ جون ۱۹۸۹ء قرآن اکیڈمی ‘لاہور میں منعقد ہوئیں۔
٭ ۱۹۸۹ء میں حلقہ جاتی تقسیم کا اعلان کیا گیا۔ کل سات حلقہ جات کراچی‘ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب‘لاہور‘ شمالی پنجاب‘ سرحد اور وسطی پاکستان بنائے گئے۔
٭ ۱۹۹۰ء میں بیعت کے تقاضوں کے مطابق نظام العمل مرتب کیا گیا۔
٭ اواخر۱۹۹۱ء میں تحریک خلافت پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ پہلا جلسہ ٔ خلافت دھوبی گھاٹ ‘فیصل آباد میں ہوا۔
٭ ۲ تا ۳ اپریل ۱۹۹۵ء ملتزم رفقاء کا ایک مشاورتی اجتماع قرآن اکیڈمی‘ لاہور میں منعقد ہوا۔ یہ اجتماع درج ذیل امور کے بارے میں مشورہ کے لیے تھا:
(i) آئندہ تنظیم کا نظم دستوری ہو یا بیعت سمع وطاعت پر مبنی ہو؟ اکثریت کی آراء نظامِ بیعت کے حق میں آئیں۔
(ii) ڈاکٹر صاحب ؒکو جانشین نامزد کرنا چاہیے یا اس کا فیصلہ مرکزی مجلس شوریٰ پر چھوڑ دیا جائے؟ نامزد کرنے کی صورت میں اس کا اعلان کر دیا جائے یا وصیت کی شکل میں محفوظ رکھا جائے؟اکثریت کی رائے تھی کہ ڈاکٹر صاحبؒ کو اپنی زندگی ہی میں اپنے جانشین کا اعلان کردینا چاہیے۔
٭ ۲۰ ‘ ۲۱ اکتوبر ۱۹۹۵ء کوسالانہ اجتماع مینارِ پاکستان سے ملحقہ وسیع میدان میں منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر ’’پہلی عالمی احیاء ِخلافت کانفرنس ‘‘ کا بھی انعقاد کیا گیا۔
٭ ۱۹۹۶ء میں سالانہ اجتماع لیاقت باغ ‘ راول پنڈی میں منعقد ہوا۔
٭ اپریل۱۹۹۶ء میں ملتزم رفقاء کا دو سر امشاورتی اجتماع برائے جانشین (آئندہ امیر )منعقد ہوا‘ جس میں رفقاء کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔
٭ ۱۴ فروری ۱۹۹۷ء کو مسجد دارالسلام‘ باغ جناح‘ لاہور میں خطابِ جمعہ میں بانی محترمؒ نے ’’مسلم لیگ: احیاء کے تقاضے اور نواز شریف کو مخلصانہ مشورے‘‘ کے حوالےسے گفتگو کی۔ بعدازاں ۱۸ فروری ۱۹۹۷ء کو اس گفتگو کی کیسٹ مع ایک خط نواز شریف کے والد محترم جناب میاں محمد شریف کی خدمت میں اس استدعا کے ساتھ ارسال کی کہ وقت نکال کر اس کی سماعت فرمائیں اور اگر مزید وضاحت کی ضرورت محسوس ہو تو مجھےطلب فرمائیں یا آپ تشریف لانے کی زحمت گوارا کر لیں۔ اس کے جواب میں ۲۳ فروری ۱۹۹۷ء بروز اتوار میاں محمد شریف صاحب مع اپنےتینوں بیٹوں میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور میاں عباس شریف‘ قرآن اکیڈمی تشریف لائے۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب ؒنے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ کو دو تہائی اکثریت سے شاندار کامیابی عطا فرمائی ہے۔ یہ سنہری موقع ہے کہ آپ آئین میں وہ تمام ضروری ترامیم کر اسکتے ہیں جن کا وعدہ آپ نے سابقہ دور حکومت میں کیا تھا۔ میاں شہباز شریف نے استفسار کیا کہ ہم بھی خلافت راشدہ کا نظام لانا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے ہمیں عملی طور پر کیا کرنا ہو گا! ڈاکٹر صاحب ؒنے فرمایا کہ آئین میں یہ واحد ترمیم کر دیں کہ ’’ہر سطح پر قرآن و سُنّت کی غیر مشروط اور بلا استثناء بالا دستی ہو گی۔‘‘ اس کے ساتھ آئین میں موجود ان تمام دفعات کو ختم کر دیاجائے جو قرار دادِ مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ مزید بر آں‘ شرعی عدالت کا درجہ کم از کم ہائی کورٹ کے برابر کر دیا جائے اور اس پر سے وہ تمام پابندیاں ختم کر دی جائیں جو صدر جنرل ضیاء الحق نے عائد کی تھیں۔ سود کے خاتمے کے بارے میں بھی گفتگو ہوئی۔
٭ ۱۵ مارچ ۱۹۹۷ء کو ’’مطالبہ تکمیل دستورِ خلافت‘‘ مہم کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ اس مہم میں خاص طور پر رفقاء کی طرف سے بڑی تعداد میں پوسٹ کارڈ‘ خطوط اورٹیلی گرام وزیر اعظم سیکریٹریٹ ‘اسلام آباد ارسال کیے گئے۔
٭ اپریل ۱۹۹۷ء میں ملتزم رفقاء کا تیسر امشاورتی اجتماع منعقد ہوا۔ رفقاء کی اکثریت نے رائے دی کہ ڈاکٹر صاحب ؒجانشین کے نام کا اعلان کر کے اپنےساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کریں تاکہ نئے امیر کی تربیت بھی ہو جائے۔
٭ ۲۶ اکتوبر تا یکم نومبر ۱۹۹۷ء ملتزم رفقاء کا چوتھا مشاورتی اجتماع منعقد ہوا۔ آئندہ امیر کے لیے رائے لی گئی۔کل چھ نام آئے:چودھری رحمت اللہ بٹر‘ ڈاکٹر عبدالخالق‘ ڈاکٹر عبدالسمیع‘ جناب عبدالرزاق‘ حافظ عاکف سعید اور جناب مختار حسین فاروقی۔ مرتب شده سوال نامہ کی روشنی میں ان حضرات نے رفقاء کے سامنے اپنا تعارف رکھا۔دسمبر ۱۹۹۸ء میں منعقدہ مجلسِ شوریٰ کے اجلاس میں تمام تجاویز پر غور کیا گیا۔رمضان ۱۴۱۸ھ کے آخری عشرہ میں ڈاکٹر صاحب ؒنے اس معاملے پر استخارہ کیا۔
٭ ۴سالہ مشاورت کے بعد۱۴ فروری ۱۹۹۸ء کو ملتزم رفقاء کے ایک خصوصی اجتماع میں حافظ عاکف سعید کی جانشینی کا اعلان کیا گیا۔
٭ ۱۹۹۸ء میں تنظیم اسلامی‘ تحریک اسلامی‘ الاخوان‘ جمعیت اہل حدیث (لکھوی گروپ) پرمشتمل’’متحدہ انقلابی محاذ ‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ؒکو اس محاذ کا صدر منتخب کرلیاگیا۔
٭ ۱۹۹۸ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے قرآن اکیڈمی ‘ڈیفنس‘ کراچی میں دورئہ ترجمہ قرآن کیا‘ جس کی ویڈیو ریکارڈنگ جدید ڈیجیٹل کیمروں کے ذریعہ کی گئی۔ یہ ریکاڑڈنگ QTV اور کئی دیگر چینلز پر نشر ہوئی اور۱۲۶ ممالک میں لاکھوں لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچا۔ بعد ازاں‘ اسے کیسٹس سے اُتار کر قرآن اکیڈمی لاہور کے شعبہ مطبوعات نے تسوید و تبییض اور ترتیب و تدوین کے جملہ مراحل طے کر کے ’’بیان القرآن‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا ۔
٭ فرقہ واریت میں شدّت پسندی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خاتمے کی خاطر مناسب قوانین کا مسودہ تیار کرنے کی غرض سے حکومت کی جانب سے علماء کمیٹی بنائی گئی اور ڈاکٹر صاحبؒ کو اس کی سربراہی سونپی گئی۔ بعد ازاں بعض حلقوں کی جانب سے ڈاکٹر صاحب ؒ نے اپنی ذات پر اعتراض کی بنیاد پر اس کمیٹی کی سربراہی سے استعفا دے دیا۔
٭ ۱۵ تا ۱۷ ستمبر ۲۰۰۲ء مرکزی مجلسِ مشاورت کے اجلاس میں ڈاکٹر صاحب ؒنے اپنی علالت کی بنا پر امارت حافظ عاکف سعید صاحب کو سونپ دی اور نئے امیر کے ہاتھ پر بیعت کر کے خود سبک دوش ہو گئے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر صاحب ؒنے رفقاء کو درج ذیل محکم اساساتِ اربعہ کو مضبوطی سے تھامنے کی وصیت کی:
(i) دعوت بذریعہ قرآن
(ii) نظامِ بیعت
(iii) انفرادی طور پر ہر رفیق کا اصل نصب العین رضائے الٰہی کا حصول اور اُخروی نجات کی غرض سے دین کے قیام کی جدّوجُہد ہے۔
(iv) منہج ِانقلابِ نبوی ﷺ
٭ ۲۷ دسمبر۲۰۰۲ء کو امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید نے جناب اظہر بختیار خلجی کو ناظم اعلیٰ مقرر فرمایا جبکہ سابق ناظم اعلیٰ ڈاکٹر عبد الخالق کو ناظم نشرو اشاعت مقرر فرمایا۔
٭ مرکزی مجلسِ شوریٰ۲۰۰۳ء کے موقع پر تنظیم میں ’’اعانت‘‘ کی بجائے ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ آئندہ انفاق کے ضمن میں بازپُرس اور محاسبہ نہیں ہو گا‘ البتہ ترغیب وتشویق کا اہتمام کیا جائے گا۔
٭ ۲۵ تا ۲۷ دسمبر ۲۰۰۳ء کل پاکستان ملتزم رفقاء کا تربیتی اجتماع کراچی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر انفرادی دعوت کا نظام متعارف کروایاگیا۔
٭ ۲۰۰۵ء میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شدید زلزلہ آیا۔ اس کی وجہ سے سالانہ اجتماع کو منسوخ کر دیا گیا اور اس کے لیے مختص کردہ فنڈ ز زلزلہ زدگان کی امداد اور تعمیر ِنو کے لیے خرچ کیے گئے۔
٭ ۲۰۰۵ء میں امیر تنظیم اسلامی نے بھرپور مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ تنظیم اسلامی میں آئندہ سے زکوٰۃ کو’’ فی سبیل اللہ ‘‘ کی مد میں خرچ نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ زکوٰۃ اصلاً فقراء و مساکین کا حق ہے اور’’ فی سبیل اللہ ‘‘ میں توسّع کے معاملہ میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے‘لہٰذ ا زکوٰۃجیسے معاملہ میں محتاط طرزِ عمل زیادہ بہتر ہو گا۔
٭ ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۶ء کے سالانہ اجتماعات در اجکے‘ سادھو کے میں منعقد ہوئے۔
٭ ۲۰۰۶ء میں نئے شامل ہونے والے رفقاء کو پہلے مرحلہ کے طور پر تنظیم کی فکر سے روشناس کرانے کے لیے حلقہ کی سطح پر ایک تعارفی پروگرام ترتیب دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نئے شامل ہونے والے رفقاء اکثر اوقات فوری طور پر مبتدی تربیتی کورس میں شمولیت اختیارنہیں کر پاتے۔
٭ ۲۰۰۸ء میں تنظیم اسلامی میں شادی شدہ رفقاء کے لیے گھریلو اُسرہ منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ حلقہ جات کی زونز میں تقسیم اور نائبین ناظم اعلیٰ کی تقرری عمل میں آئی۔
٭ ۲۰۰۹ء میں سالانہ اجتماع مرکزی اجتماع گاہ بہاول پور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں لیکن اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف نے ڈاکٹراسرار احمدؒ کو عین وقت پر فون کرکے اجتماع منسوخ کرنے کی سفارش کی۔ لہٰذا اجتماع منسوخ کر دیا گیا۔
٭ ۴ تا ۹ مارچ ۲۰۱۰ء پہلی مرتبہ آل پاکستان اُمراء مقامی تناظیم کے لیے ایک خصوصی تربیتی کورس فیصل آباد میں منعقد ہوا۔
٭ ۱۴ اپریل ۲۰۱۰ء کو ڈاکٹر اسرار احمدؒ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے مرقد پر رحمتوں کا نزول فرمائے!
٭ ۲۲ تا ۲۹ اکتوبر ۲۰۱۰ء ’’توبہ کی پکار ‘‘ کے عنوان سے ایک ملک گیر مہم چلائی گئی۔
٭ مدرّسین کے لیے سالانہ ریفر یشر کورسز منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔
٭ کل پاکستان اُمراء ِ تناظیم کے لیے دوسر ا خصوصی تربیتی اجتماع۲۴ تا ۲۷ مارچ ۲۰۱۲ء فیصل آباد میں منعقد ہوا ۔
٭ فحاشی اور عریانی کے خلاف ملک گیر دستخطی مہم شروع کی گئی‘ جو ۳ نومبر۲۰۱۳ء تا ۵ جنوری ۲۰۱۴ء جاری رہی۔ ان دستخطی شیٹوں کو صوبہ جاتی بنیادوں پر جلد کروایا گیا اور ان کی سی ڈی بنا کر وزیر اعظم پاکستان کو ارسال کی گئی۔
٭ اُمرائِ مقامی تناظیم کے لیے تیسر ا خصوصی تربیتی کورس ۲۲ تا ۲۵ نومبر۲۰۱۴ء فیصل آباد میں منعقد ہوا۔
٭ ۲۰۱۵ء میں ملک گیر انسدادِ سود مہم ۹ نومبر تا ۲۵ دسمبر جاری رہی۔ یہ مہم بہت کامیاب رہی۔ پورے ملک میں تنظیم اسلامی کا تعارف ہوا۔
اس مہم کے دوران اخبارات میں سود کے خلاف کالم لکھے گئے۔ جماعت اسلامی اور کئی دوسری جماعتوں کی بھر پور تائید حاصل ہوئی۔ متعدد علماءنے خطاباتِ جمعہ میں سود کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس طرح پورے ملک میں سود کے خلاف ایک فضا بن گئی۔ تنظیم اسلامی کی سود کےخلاف کوششوں کا آغاز ۲۰۱۲ء سے ہوا تھا۔ ۲۰۱۳ءمیں امیر تنظیم اسلامی کی جانب سے سپریم کورٹ میں سود کو ختم کرنے کے لیےدرخواست دائر کی گئی۔۲۰۱۵ء میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس سرمد جلال عثمانی نے یہ کہہ کر درخواست خارج کر دی کہ ’’جو سود نہیں لینا چاہتےوہ نہ لیں اور جو سود لے رہے ہیں ان کو اللہ خود پوچھ لے گا۔‘‘۲۰۰۲ء سے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کی جانب سے انسدادِ سود کاایک نہایت اہم مقدمہ فیڈرل شریعت کورٹ کے پاس معرضِ التوا میں پڑا تھا۔ تنظیم اسلامی کی کوششوں سے اسے ۲۰۱۵ء میں سماعت کےلیے منظور کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے چودہ سوالات پر مشتمل ایک سوال نامہ جاری کیا‘ جن کے جوابات انجمن خدام القرآن لاہور کے شعبہ تحقیق کی طرف سے دیے گئے۔
٭ ۲۰۱۶ء میں ایک ماہ پر مشتمل قرآنی تربیت گاہ برائے مدرسین کراچی میں منعقد ہوئی۔
٭ ۲۰۱۹ ء میں امراء ِ مقامی تناظیم کے لیے چوتھا خصوصی تربیتی کورس ۲۱ تا ۲۴ مارچ فیصل آباد میں منعقد ہوا۔
٭ ۲۰۱۹ءہی میں ملک گیر ’’دعوتِ فکر ِاسلامی‘‘ مہم یکم اگست تا۳۱ اکتوبر منعقد کی گئی۔
٭ امیر تنظیم اسلامی نے مشاورت کے بعد ۱۲ دسمبر ۲۰۱۹ء کو جناب اعجاز لطیف کو نائب امیر تنظیم اسلامی مقرر کیا۔
٭ یکم تا ۷ مارچ ۲۰۲۰ء’’ حیا مہم ‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔
٭ ۱۴جولائی۲۰۲۰ء کو امیر تنظیم اسلامی حافظ عاکف سعید نے اپنی علالت کے باعث مرکزی مجلس عاملہ کے نام ایک تحریر میں امارت سے دست برداری کا اظہارکیا اور ہدایت کی کہ نئے امیر کے تقرر کے حوالے سے جلد از جلد مرکزی شوریٰ کا اجلاس بلایا جائے۔ مرکزی عاملہ کے خصوصی اجلاس منعقدہ ۱۶ جولائی ۲۰۲۰ء میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو اور مشاورت کے بعد غالب اکثریت نے اس بات سے اتفاق کیا کہ امیر محترم کی علالت اور تنظیم کی بہتری کے پیشِ نظر امارت کی تبدیلی ضروری ہے۔ نئے امیر کے تقرر کے لیے مجلس شوری کا اجلاس ۸‘۹ اگست ۲۰۲۰ء کومنعقد کرنے اور ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کو ناظم استصواب رائے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی‘ جسے امیر تنظیم نے منظور فرمایا۔
مرکزی مجلس شوریٰ کے کل۸۸ ارکان میں سے۸۲ نے شرکت کی۔ واضح اکثریت نے جناب شجاع الدین شیخ کے حق میں رائے دی۔ امیر محترم حافظ عاکف سعید نے نئے امیر جناب شجاع الدین شیخ کے تقر رکا با قاعدہ اعلان فرمایا۔ امارت کی اس منتقلی کے موقع پر سابق امیر محترم نے اپنی الوداعی تقریر میں ان ۶ اساسی محکمات کا خاص طور پر ذکر کیا جو ڈاکٹراسراراحمدؒ نے ۲۰۰۸ء کے سالانہ اجتماع کے موقع پر رفقاء تنظیم کے نام اپنے پیغام میں بیان کیے تھے:
(i) ہمارا نصب العین صرف اور صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کا حصول ہے۔
(ii) ہماری اجتماعی جدّوجُہد کا ہدف اور مقصود اللہ کے دین کوبتمام و کمال ایک مکمل نظامِ اجتماعی شکل میں نافذ کرنا ہے اور یہ اپنی نوعیت کے اعتبارسے ایک انقلابی ہدف ہے۔
(iii) ہماری دعوت کا مرکز و محور قرآن ہے۔
(iv) ہمارا طریق تربیت و تزکیہ بھی’’ خانقاہی ‘‘ نہیں بلکہ انقلابی یعنی نبوی طریق تزکیہ پر مبنی ہے۔
(v) ہماری تنظیم کی اساس’’ بیعت سمع وطاعت فی المعروف ‘‘ پر قائم ہے۔
(vi) ہمارا منہج سیرتِ نبوی ﷺ سے ماخوذ ہے۔
بعدازاں‘ سوائے ایک رکن شوریٰ تمام موجود اراکین شوریٰ بشمول سابقہ امیر حافظ عاکف سعید نے نئے امیر کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔آخر میں نئے امیر (جناب شجاع الدین شیخ ) نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا و نبی کریم خاتم النّبیّین ﷺپر درودوسلام اور دعا کے بعد ایک حدیث مبارکہ کے حوالے سے کہا کہ امارت بغیر مانگے مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مددشامل حال ہوتی ہے‘ اور اگر کوئی خود سے مانگے تو پھر وہ اسی کے سپرد کر دیاجاتا ہے۔ انہوں نے اپنا ذاتی تعارف اور موجودہ ذمہ داریوں کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ مجھے آپ حضرات کی تائید و نصرت اور دعاؤں کی شدیدضرورت ہو گی۔ اس خطہ میں چار سو سالہ دینی جدّوجُہد اور امانت کا بار ہمارے ذمہ ہے۔ آپ امیر تنظیم کی مشکلات کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس حوالےسے یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالی سے آسانی اور عافیت کی دعاما نگتےرہناچاہیے۔
٭ ۲۰۱۹ء تا ۲۰۲۱ء لاہور‘ فیصل آباد‘ اسلام آباد اور کراچی میں ایک ایک ہفتے پر مبنی فکری و عملی رہنمائی کورس اور تین روزہ ’’حزبُ اللہ کے اوصاف‘‘ کورس منعقد ہوئے۔
٭ ۲۰۲۰ء میں تزکیۂ نفس کے لیے درج ذیل چار بنیادی حصوں پر مشتمل ایک جامع پروگرام ’’احسان اسلام ‘‘ ترتیب دیا گیا:
(ا) پابندیٔ شریعت
(ب) اخلاقیات و آداب
(ج) انفرادی و اجتماعی دعوت
(د) اقامت ِدین
٭ ۲۱ تا ۲۳ مارچ ۲۰۲۱ء فاضلین درسِ نظامی کا ایک خصوصی اجتماع منعقد ہوا۔
٭ ۲۰۲۲ء میں سیلاب کی وجہ سے سالانہ اجتماع منعقد نہ ہو سکا۔ اس کی بجائے ۱۹ تا ۲۰ نومبر پانچوں زونز میں زونل اجتماعات منعقد ہوئے۔ کراچی زون میں دو اجتماعات منعقد ہوئے تھے جبکہ باقی زونل اجتماعات اسلام آباد‘ لاہور‘فیصل آباد اور مردان میں منعقد ہوئے۔
٭ ۵ تا ۸ فروری ۲۰۲۳ء آل پاکستان اُمراء اجتماع منعقد ہوا۔
٭ تربیتی نصاب برائے مبتدی رفقاء میں درج ذیل کتب کا اضافہ کیا گیا:
(ا) اعتصام باللہ (شعبہ تعلیم و تربیت)
(ب) شمائلِ نبوی ﷺ(شعبہ تعلیم و تربیت)
(ج) تعمیر ِسیرت کی اساسات اور قرآن کا انسانِ مطلوب (منتخب نصاب۱‘ درس۱۰) (ڈاکٹراسرار احمدؒ)
(د) اللہ کے محبوب بندوں کی شخصیت کے خدوخال (منتخب نصاب ۱‘درس ۱۱) (ڈاکٹر اسرار احمدؒ)
٭ تربیتی نصاب برائے ملتزم رفقاء میں درج ذیل کتب کا اضافہ کیا گیا:
(ا) احسانِ اسلام (تزکیۂ نفس) (شعبہ تعلیم و تربیت)
(ب) قربِ الٰہی کے آسان طریقے (خرم مراد)
(ج) ترکِ رذائل اور اکتسابِ فضائل (شعبہ تعلیم و تربیت)
٭ تربیتی نصاب برائے ذمہ داران میں درج ذیل کتب کا اضافہ کیا گیا:
(ا) اسلام کا اخلاقی و روحانی نظام (ڈاکٹر اسرار احمدؒ)
(ب) نبی اکرم ﷺ کا اساسی منہج (سورۃُ الجمعہ‘ آیت ۲) (ڈاکٹر اسرار احمدؒ)
(ج) تعبیر کی کوتاہی (‘‘اسلام کی نشا ٔۃِثانیہ‘‘ از ڈاکٹراسرار احمدؒ کا ایک باب)
(د) تحریک اور کارکن (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
٭ مدرسین کے تربیتی نصاب میں درج ذیل کتب کا اضافہ کیا گیا:
(ا) منہاج القاصدین (ابنِ جوزی)
(ب) تزکیۂ نفس (امین احسن اصلاحی)
٭ بنیادی دینی تربیتی نصاب مندرجہ ذیل کتب پر مشتمل ترتیب دیا گیا:
(ا) آدابِ زندگی (مولانا محمد یوسف اصلاحی)
(ب) آسان فقہ (مولانا محمد یوسف اصلاحی)
(ج) بلوغ المرام (ابن حجر العسقلانی)
٭ اسی سال شعبہ تعلیم و تربیت نے’’بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات‘‘ نامی کتابچہ شائع کیا۔
٭ فلسطین کی صورتِ حال کے حوالہ سے درج ذیل خصوصی مہمات کا انعقاد کیا گیا:
(ا) ’’اہل ِغزہ اور فلسطین کی صورتِ حال‘‘ کے حوالہ سے ۲۱ روزہ خصوصی مہم کا اہتمام کیا گیا۔ اس مہم کے دوران حکومتی اداروں اور سیاسی زعماء کو خطوط لکھے گئے۔
(ب) ’’اہل ِغزہ کی پکار اور ہمارا کردار‘‘ کے نام سے۲۳ تا ۲۵ مارچ ۲۰۲۴ء مہم چلائی گئی۔
(ج) ۱۵ تا ۲۵ دسمبر ۲۰۲۳ء’’حرمت مسجد اقصیٰ اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ مہم کا اہتمام کیا گیا۔
(د) ۲۶ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو’’ فلسطین کی موجودہ صورتِ حال میں مسلمانوں کے کرنے کا کام ‘‘ مہم کا انعقاد کیا گیا۔
(ھ) ۳۰ مارچ ۲۰۲۴ء کو’’حرمت ِمسجد ِاقصیٰ‘ غزہ میں مظالم اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے مہم چلائی گئی۔
(و) ۴ ستمبر۲۰۲۵ء کو’’اسرائیل نواز ممالک کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ‘‘ مہم کا آغاز کیا گیا۔
٭ ۲۶ فروری تا ۷ مارچ ۲۰۲۳ء ’’حیا اور ایمان‘‘ مہم چلائی گئی۔
٭ ۱۱ تا ۳۱ اگست دو ہفتوں پر مبنی’’بقائے پاکستان: نفاذِ عدلِ اسلام‘‘ مہم کا اہتمام کیا گیا۔
٭ ۲۸ اپریل تا یکم مئی ۲۰۲۵ء آل پاکستان اُمراء خصوصی اجتماع مرکز دارالاسلام‘ چوہنگ میں منعقد ہوا۔
٭ ہر سال امیر محترم کے ہر حلقہ میں تنظیمی اور دعوتی دورے معمول کے مطابق جاری رہے۔
٭ امیرمحترم باقاعدگی کے ساتھ کراچی اور لاہور میں اجتماع جمعہ سے خطاب کرتے رہے۔ (امیر محترم ہر ماہ کا پہلا اور تیسرا جمعہ لاہور جبکہ دوسرا اور چوتھا جمعہ کراچی میں پڑھاتے ہیں۔ )
تنظیم اسلامی کے پچاس سال
قافلۂ تنظیم منزل بہ منزل‘ خاص توفیق و تائید اور نصرتِ الٰہی سے اپنے تیسرے امیر کی قیادت میں‘ پچاس سالہ زندگی کو مکمل کرتے ہوئے اپنے اکیاون (۵۱)ویں سال میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ قافلہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے‘ گو کہ رفتار دھیمی ہے۔ راستے میں بہت سے اُتار چڑھاؤ آئے ہیں‘ لیکن اس بات پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ وہ قافلہ جو مارچ ۱۹۷۵ء میں باسٹھ (۶۲) افراد پر مشتمل ترتیب پایا تھا‘ اور جس نے ۱۹۷۷ء میں بیعت کا نظام اختیار کیا تھا‘ آج ماہِ اکتوبر ۲۰۲۵ءکے اختتام پر یہ قافلہ گیارہ ہزار (۱۱۰۰۰) سے متجاوز افراد پر مشتمل ہے۔ یہ کارواں قدم بہ قدم رواں دواں ہے۔ یہ بات بھی انتہائی اطمینان بخش ہے کہ ہمارے رفقاء میں عام و متوسط درجے کے افراد کے ساتھ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کی بھی ایک قابلِ ذکر تعداد موجود ہے‘ جس کی وجہ سے ان شاء اللہ یہ قافلہ کبھی اپنے راستہ سے بھٹک نہ پائے گا اور نہ ہی کبھی قیادت کے فکری بحران کا اندیشہ ہے ۔ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِندِ اللّٰهِ
آئیے! اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کریں کہ یہ قافلہ اسی طرح رواں دواں رہے۔ رفقائے تنظیم اسی طرح غلبہ ٔ دین کی جدّوجُہد میں جان و مال کھپاتے رہیں‘ یہاں تک کہ کرۂ ارضی پر غلبہ ٔ دین ِحق کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو جائے۔ اس طرح ہم تمام رفقائے تنظیم بھی اللہ جل جلالہٗ کے ہاں سرخرو ہو جائیں۔آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025