اسلامی تحریکوں کے ذمہ داران
کے مطلوبہ اوصافمولانا صدر الدین اصلاحیؒ
ہر تنظیم بنیادی طور پر دو قسم کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ تنظیمی لحاظ سے دونوں کی حیثیتیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں اور ان کی ذمہ داریاں بھی جدا جدا ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو اُس تنظیم میں اعضائے رئیسہ کاسا مقام رکھتے ہیں ‘اور باقی تمام لوگ وہ ہوتے ہیں جن کی حیثیت عام اجزائے جسم کی سی ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی اجتماعی ادارہ نہ تو صرف اعضائے رئیسہ کی بدولت برقرار رہ سکتا ہے‘ نہ صرف عام اعضاء و جوارح کے بل پر زندہ رہ سکتا ہے ۔ اس کی زندگی‘ اس کی توانائی اور اس کی ترقی کے لیے چندچیزیں انتہائی حد تک ناگزیر ہوتی ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی قسم کے لوگ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ٹھیک طور سے ادا کرتے رہیں‘ انہیں اپنی اپنی حدود بھی معلوم ہوں اور اپنے فرائض کا بھی پورا پورا احساس ہو۔اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اس علم اور اس احساس میں کوتاہ رہا تو یہ اجتماعی ادارہ ڈیڑھ پہیے کی گاڑی بن کر رہ جائے گا۔ اگر کوتاہی و خام کاری کے مرض میں دونوں ہی مبتلا رہے تو پھر گاڑی ٹوٹے ہوئے پہیوں پر بُری طرح ہچکولے کھاتی ہوئی بس جوں توں گھسٹتی رہے گی‘ اور نہیں کہا جا سکتا کہ کب کس کھڈ میں جا گرے ۔
اسلام نے اپنے پیروئوں کو بالعموم ہر کام اجتماعی شکل میں اور نظم کے ساتھ انجام دینے کی ہدایتیں دی ہیں ۔ان کا بیّن تقاضا ہے کہ اس دین کی حمایت اور نصرت و اقامت کے لیے قائم کی جانے والی تحریکیں بھی ان کے تقاضوں کو اچھی طرح محفوظ رکھیں‘ اور منظم طور سے اپنی منزلِ مقصود کی طرف قدم بڑھائیں۔ اسلامی تحریکوں یا تنظیموں کے ’’اعضائے رئیسہ‘‘ جماعتی ذمہ دار اور اُمراء کہلاتے ہیں‘ اور عام اعضاء و جوارح ان کے ماتحت یا ’’ما ٔمورین‘‘ ہوتے ہیں۔ خدا اور اُس کے رسولﷺ نے ان دونوں ہی قسم کے لوگوں کی ذمہ داریوں کو بڑی وضاحت سے بیان فرما رکھا ہے‘ اور ان اخلاقیات پر بھی پوری طرح روشنی ڈال دی ہے جن کی اس خصوص میں نمایاں اہمیت ہے۔ میں اِس وقت صرف انہی ذمہ داریوں اور انہی اخلاقی صفات کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں جو اسلامی تحریکوں کے اصحابِ امر سے‘ خواہ وہ کسی درجے اور حیثیت کے ہوں‘ تعلق رکھتی ہیں۔
ایک جامع الفرائض دعا
قرآن کریم کی ایک دعائیہ آیت کا آخری ٹکڑا ہے:
{… وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴)} (الفرقان)
’’… اور (اے پروردگار!) ہمیں متقیوں کا سربراہ بنا۔‘‘
اس دعا کا سادہ انداز میں مفہوم یہ ہے کہ خدایا! جو لوگ ہماری ماتحتی اور نگرانی میں ہیں انہیں تقویٰ کی راہ پر چلا۔
تین لفظوں کا یہ دعائیہ جملہ جوامع الکلم میں سے ہے‘ اور ایک فرض شناس مسلمان کی نگہ جستجو کے لیے اس میں سب کچھ موجود ہے۔ یہ اگرچہ بظاہر صرف ایک دعا ہے ‘مگر اس دعا کے پس منظر میں ان سبھی واجبات اور صفات کے مطالبے موجود ہیں جن سے ہم اہلِ ایمان کی تصویر مکمل ہوتی ہے۔ جب ایک مردِ مؤمن اپنے ربّ سے یہ التجا کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اسے اہل ِتقویٰ کا سربراہ بنا دے ‘ تو یہ التجا دعا ہونے کے ساتھ ساتھ لازماً اس عہد پر بھی مشتمل ہوتی ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک میں خود بھی اس مدّعا و مطلوب کے حصول کے لیے کوشاں رہوں گا‘ کیونکہ دعا صحیح معنوں میں دعا ہوتی ہی اُس وقت ہے جب اس کا رشتہ دعا کرنے والے کی اپنی ممکنہ کوششوں سے جڑا ہوا ہو۔ آدمی اپنے مطلوب کے لیے خود توکچھ نہ کرے‘ اور صرف یاربّ یا ربّ پکارتا رہے تو یہ دعا نہیں‘ تمنی علی اللہ ہو گی‘ جو نہ عقلاً کوئی پسندیدہ چیز ہے نہ شرعاً۔
اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اہل ِایمان کو ’’اِجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا‘‘ کی دعا کے ساتھ ساتھ کیا کوششیں انجام دینا اور دیتے رہنا چاہیے کہ ان کی یہ عظیم المقاصد دعا صحیح معنوں میں دعا بن جائے‘ تمنی علی اللہ بن کر نہ رہ جائے؟ جواب اس سوال کا یہ ہے کہ دعا کرنے والا اپنے جن زیر ِاثر اور ماتحت لوگوں کو متقی دیکھنا چاہتا ہے‘ انہیں تقویٰ کی صفات سے آراستہ کر دینے یا آراستہ بنائے رکھنے کی جس طرح وہ خدا سے التجا کرتاہے‘ اسی طرح اس مقصد کی خاطر خود بھی سعی وتدبیرکرتا رہے‘ اور اپنے ماتحتوں کو تقویٰ کے مقام تک پہنچا دینے میں اپنی سی کوئی کوشش اٹھا نہ رکھے۔ لیکن ذرا ٹھہریے‘ یہ جواب ابھی تشنہ ہے‘ اور یہ مکمل اسی وقت ہو سکتا ہے جب معاملہ کا ایک اور اہم پہلو بھی سامنے آ جائے۔ وہ یہ کہ ’’اِجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا‘‘ کی دعا میں اگرچہ ذکر تو صرف ماتحتوں کے صاحبِ تقویٰ ہونے یا بنائے جانے کی التجاکا ہے ‘مگر لفظوں میں مذکور نہ ہونے کے باوجود اس التجا سے پہلے ایک اور اہم تر التجا بھی اس دعا میں موجود ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ خدایا! خود ہمیں بھی نہ صرف متقی بلکہ ان سب سے بڑھ کر متقی بنا دے۔ یہ بالکل بے معنی سی بات اور بڑی بے جا قسم کی جسارت ہو گی کہ آدمی خود تو تقویٰ کے معاملہ میں کچھ یوں ہی سا ہو‘ مگر اللہ تعالیٰ سے عرض پر عرض کرتا رہے کہ وہ اسے متقیوں کا امام بنا دے۔ ایسی عرض و معروض تو اسی شخص کو زیب دے سکتی ہے جو خود بھی صاحب تقویٰ ہو اور تقویٰ کی صفت سے اپنے کو بیش از بیش بہرہ ور کرتے رہنے کی بصدقِ دل التجا کرتا رہے‘ بلکہ اَتْقٰی یعنی دوسروں سے بڑھ کر متقی ہو‘ یا اَتْقٰی بن جانے کی فکر اور کوشش میں ہو۔ مذکورہ بالا سوال کا یہ مکمل جواب سامنے آ جانے کے بعد واضح طور پر اہل ِایمان کی ذمہ داریاں دوگونہ قرار پاجاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ تقویٰ اور خدا پرستی کی راہ میں اپنے کو زیادہ سے زیادہ آگے بڑھاتے رہیں‘ دوسری یہ کہ اپنے ماتحت افراد کو بھی اس مدارِ دین ایمانی صفت سے بہرہ ور کرتے رہنے کے لیے برابر فکر مند اور کوشاں رہیں ‘اور پھر دونوں ہی باتوں کے لیے خدا سے سچی دعائیں بھی کرتے رہیں۔
یہاں یہ حقیقت بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ تقویٰ کی صفت بجائے خود تو مطلوبِ دین ہے ہی‘ ساتھ ہی اس لیے بھی مطلوب اور ضروری ہے کہ جب تک پیروانِ اسلام کے اندر یہ ایمانی جوہر ایک معقول حد تک موجود نہ ہو اُس وقت تک اسلام اپنے پورے وجود کا مظاہرہ کر ہی نہیں سکتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ جو نظامِ رحمت لے کر آیا ہے وہ خدا کی زمین پر ہرگز قائم نہیں ہو سکتا ‘اور اگر پہلے سے قائم ہو تو اپنی جگہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کوئی بھی اسلامی تحریک اپنے سفر کے اس اصل زادِ راہ سے تہی دامن رہ کر‘ یا اس کی محض معمولی سی مقدار کے بل پر کبھی قدم آگے نہیں بڑھا سکتی۔
ان تمہیدی‘ مگر بنیادی نکتوں کے واضح ہو جانے کے بعد اب ان اہم صفات کو ذہن نشین کرلیں جو کسی اسلامی تحریک کے ذمہ داروں میں خصوصی اہمیت کے ساتھ لازماً پائی جانی چاہئیں‘ اور جن کی موجودگی پر ہی اس تحریک کی کامیاب پیش قدمی بہت بڑی حد تک موقوف رہتی ہے۔
(۱) احتسابِ نفس
سب سے پہلی اور سب سے اہم صفت تو احتسابِ نفس کی صفت ہے۔ جب تک اس احتساب پر بھرپور توجّہ نہ رہے گی اُس وقت تک یہ ذمہ دارانِ تحریک ان صلاحیتوں اور صالحیتوں کے مالک بن ہی نہیں سکتے جو تحریک میں اقدام کی روح دوڑا سکتی اور اسے ترقی کی راہ پر رواں دواں رکھ سکتی ہیں۔ پس مبالغہ نہ ہو گا اگر احتسابِ نفس کو تحریک کی کامیابی کی شاہِ کلید سمجھا جائے۔
یہ احتساب کیوں ضروری ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا نظری جواب اگرچہ ہم سب جانتے ہیں‘ مگر موضوعِ گفتگو کی اہمیت چاہتی ہے کہ اس جانے ہوئے جواب کو پھر سے جان لیا جائے‘ تاکہ وہ ذہن میں تازہ ہو رہے۔ یہ جواب جس قدر معلوم اور واضح ہے اسی قدر اس کے تقاضوں کو پورا کرنا دشوار‘ اور اس کا عملی نتیجہ کم یاب ہے۔ کون نہیں جانتا کہ نفس کی کیادی (مکروفریب) بے مثال اور اس کے حملوں کی شدت بے نظیر ہوتی ہے۔یہ حملے اتنے شاطرانہ انداز کے‘ اور اس طرح چھپ چھپ کر ہوا کرتے ہیں کہ بس حضرات انبیاء علیہم السلام ہی اس سے پوری طرح محفوظ رہ سکے ہیں۔ آدمی کو محسوس تک نہیں ہو پاتا اور وہ متاعِ دین و ایمان لوٹ لے جاتا ہے۔ یہ نفس جس شیطانِ اعظم کا ایجنٹ ہے وہ عین دربارِ خداوندی میں چیلنج دے آیا ہے کہ میں ابن آدم کو اپنی گرفت میں لے لینے کی کوئی تدبیر اور کوشش اٹھا نہ رکھوں گا ‘اور اس پر سامنے سے ‘پیچھے سے‘ دائیں سے‘ بائیں سے‘ غرض ہر جہت اور ہر رُخ سے چھاپے ماروں گا۔ پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے جو عہد کیا تھا اسے پورا کر دکھانے میں کم از کم اسّی نوے فی صد تو بہرحال کامیاب رہا۔ کوئی چالاک دشمن جب بھی اپنے حریف پر دھاوا مارتا ہے تو اس کی طاقت کا اندازہ لگا کر مارتا ہے۔ شیطان اور اس کا ایجنٹ نفسِ امارہ اس اصولِ جنگ کے ماہر ہیں۔ جو افرادِ انسانی جتنے ہی زیادہ قوی الایمان اور صاحبِ علم و عرفان ہوتے ہیں انہیں پھانس لینے کے لیے وہ اتنا ہی زیادہ مضبوط آہنی جال بچھاتے رہتے ہیں ‘اور اگر وہ قوی الایمان اور صاحب ِعلم و عرفان ہونے کے ساتھ ساتھ نصرتِ دین کے مردِ میدان بھی ہوں تو وہ اپنے اس آہنی جال کی کڑیوں کو اور زیادہ کس دیتے ہیں۔
صحیح معنوں کی اسلامی تحریکوں سے بڑھ کر اس موذی کا مبغوض اور کوئی نہیں ہوتا۔ وہ بڑے سے بڑے عابدوں اور زاہدوں کو تو شاید کچھ دیر کے لیے برداشت کر لے‘ مگر دین حق کاعلَم اٹھانے والوں کو ایک آن بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ اس جنگی تدبیر سے بھی بخوبی آگاہ ہے کہ غنیم کے لشکر کو تہ و بالا کر کے رکھ دینے کی سب سے کارگر شکل یہ ہے کہ اس لشکر کے سالاروں اور کمانڈروں کا کام تمام کر دیا جائے ‘پھر باقی فوج آپ سے آپ سفید جھنڈے لہرانے لگےگی۔ یہ خوف ناک حقیقت متنبہ کرتی ہے کہ اسلامی تحریکوں کے عام ارکان بالعموم اور ان کے ذمہ دار بالخصوص ‘نفس اور شیطان کی طرف سے برابر چوکنے رہیں۔ ایک طرف تو انہیں ان کے شر سے خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے ‘ دوسری طرف اپنے اندرون میں جھانک کر دیکھتے رہنا چاہیے کہ کہیں شیطان نقب تو نہیں لگا رہا ہے۔ ان دوگونہ فکرمندیوں اور کوششوں کے بعد ہی اس توقع کا رکھنا حق بجانب ہو سکتا ہے کہ اس کے مذموم عزائم کامیاب نہ ہونے پائیں گے۔
احتسابِ نفس کے پہلو ایک دو نہیں ‘ بہت سے ہیں۔ مَیں یہاں صرف دو اہم ترین پہلوئوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانے پر اکتفا کروں گا۔
(i) اخلاصِ نیت:پہلی چیز جسے اس احتساب کے سلسلے میں خصوصیت سے ملحوظ رکھنا چاہیے‘ نیت کا اخلاص ہے۔ اہل ایمان کی نیتوں کا خلوص شیطان کے لیے حد درجہ سوہانِ روح ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی شعلہ بار نگاہیں اسے برابر گھورتی رہتی ہیں۔ اس کے لیے یہ لڑائی کا ایسا محاذ ہوتا ہے جسے وہ سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے‘ اور اگر اسے توڑ دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو دوسرے سارے مورچے آپ سے آپ ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں۔ گویا اکیلے اِس محاذ کا ختم ہو جانا پوری لڑائی کے ہارجانے کے ہم معنی ہوتا ہے ‘کیونکہ اس کے بعد نہ نماز ‘نماز رہ جاتی ہے اور نہ زکوٰۃ‘ زکوٰۃ رہ جاتی ہے ۔دعوت الی اللہ‘ نصرتِ اسلام اور اقامت ِدین کے صرف دعوے اور الفاظ رہ جاتے ہیں۔ ان کے اندر سے معنویت اسی طرح غائب ہو جاتی ہے جس طرح دل کی حرکت بند ہو جانے سے جسم سے زندگی ناپید ہو رہتی ہے۔ اس خوف ناک بلا کے خطروں سے ما ٔ مون تو کوئی بھی نہیں ہوتا ‘مگر جو شخص جتنی ہی زیادہ نمایاں دینی پوزیشن رکھتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ ان خطروں کی زد میں رہتا ہے ۔اسلامی تحریکوں کے ذمہ دار اوراصحابِ امر‘ خواہ وہ کسی درجے کے ہوں‘ اپنے اپنے دائروں میں بہرحال ایک خاص پوزیشن کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ پوزیشن بجائے خود بھی کمزور آدمی کے لیے فتنہ کا سامان بن سکتی ہے۔ نفس آسانی سے اسے یہ وہم دلا سکتا ہے کہ امارت کا یہ منصب اس کے لیے ایک اعزاز اور وجہ ٔ افتخار ہے‘ حالانکہ فی الاصل وہ ایک بھاری ذمہ داری کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اگر اس منصب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی عنایت نے اسے کسی مخصوص اور نمایاں قسم کی صلاحیت سے بھی نواز رکھا ہو‘ مثلاً تحریر و تصنیف کی صلاحیت‘ یا تقریر و خطابت کی صلاحیت‘ یا مؤثر افہام و تفہیم کی صلاحیت‘ یا حسنِ کارکردگی کی صلاحیت‘ تو پھر خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے اور غافل شخص بڑی آسانی سے تعلّی کا شکار اور شہرت کا حریص بن جاتا ہے۔ اپنی کسی اچھی صلاحیت پر لوگوں کی تحسین سے خوشی محسوس کرنا تو کوئی معیوب بات نہیں‘مگر جب یہ خوشی آگے بڑھ کر اپنی شخصیت کی بلند قامتی کے احساسِ فخر میں تبدیل ہو جائے تو پھر بڑی تباہ کن بیماری بن جاتی ہے۔ اس طرح کا احساس نہ صرف یہ کہ بجائے خود ایک انتہائی ناپسندیدہ چیز ہے‘ بلکہ وہ تحریر و تقریر کے مٹھ کو بھی مار دیتا ہے اور بات کا اثر بس اپنی ایک لپک سی دکھا کر ختم ہو رہتاہے ۔ یہ اس تحریک کے حق میں ایک بڑی خیانت اور ایک بڑا ظلم ہے جس نے اسے امارت کی کوئی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری سپرد کی ہوتی ہے۔
(ii) شرائع کی پابندی میں عزیمت کا رویّہ:احتسابِ نفس کے ضمن میں تحریکی نقطۂ نظر سے دوسری اہم چیز یہ ہے کہ ذمہ دارانِ تحریک کو شرائع کی پابندی میں‘ بالخصوص ان کی دونوں عملی بنیادوں‘ نماز اور زکوٰۃ کے بارے میں ‘نسبتاً زیادہ عزیمت کا رویہ اختیار کیے رہنا چاہیے اور معمولی معمولی عذرات کی آڑ ہرگز نہ لینی چاہیے۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک بار ایک نابینا صحابیؓ نے نبی اکرمﷺ سے عرض کیا کہ ’’میں ایک اندھا آدمی ہوں اور مدینہ کی بستی میں سانپ‘ بچھو اور درندے کثرت سے نکلا کرتے ہیں۔ کوئی ایسا شخص بھی میسر نہیں جو مجھے مسجد تک پہنچا دیا کرے ‘ اس لیے حضورؐ اجازت دے دیں کہ میں نماز گھر ہی میں پڑھ لیا کروں‘‘۔ آپؐ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ اجازت حاصل کر کے جب وہ صاحب لوٹ کر جانے لگے تو انہیں واپس بلا کر آپﷺ نے پوچھا: ((ھَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاۃِ؟)) ’’کیا تمہیں نماز کی اذان سنائی دیا کرتی ہے ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : ’’نَـعَمْ‘‘ (ہاں حضورؐ !سنائی تو دیتی ہے) یہ سن کر آپﷺ نے انہیں ہدایت فرمائی :((فَاَجِبْ))(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب یجب اتیان المسجد علی من سمع النداء، ح ۱۴۸۶) ’’تو پھر اس کا جواب دیا کرو‘‘۔یعنی پھر تو تمہیں مسجد آناہی چاہیے۔ اس حدیث سے اندازہ لگایئے کہ عام اور معمولی عذرات کی بات اللہ و رسولﷺ کی نظر میں کتنی بے وزن ٹھہرا کرتی ہوگی!
فقہی رخصتوں کا معاملہ بھی عذرات کے معاملے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اصحابِ امر کو ان رخصتوں سے فائدہ اٹھانا بالکل زیب نہیں دیتا‘ اِلا آنکہ خود شریعت ہی نے کسی رخصت پر عمل کرنے کوواجب یا مستحسن قرار دے رکھا ہو۔ رخصتوں سے فائدہ اٹھانے کا مزاج دراصل دینی مزاج کی خامی پر دلالت کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ دینی مزاج کی خامی ایک عام مسلمان اور ایک عام فردِ تنظیم کے حق میں بھی کچھ کم افسوس ناک چیز نہیں‘ لیکن تحریک اسلامی کے اصحابِ امر کے حق میں تو اسے قابلِ ملامت ہی کہا جائے گا ‘کیونکہ اس خامی کے اثرات صرف انہی کی ذات تک محدود نہ رہیں گے‘ بلکہ اس کا کچھ نہ کچھ اثر ان کے ما ٔمورین پر بھی پڑ کر رہے گا۔ یہ تحریک کا اتنا بڑا زیاں ہو گا جسے کوئی بھی حساس شخص انگیز کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔
(۲)اصحابِ امر کاما ٔمورین کے ساتھ رویّہ
یہ تو وہ خاص خاص اہم باتیں تھیں جو اصحابِ امر کے اپنے احتسابِ نفس اور اپنی اصلاحِ ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔ اب ان ذمہ داریوں کی طرف آیئے جو اُن پر اُن کے ما ٔمورین کی نسبت سے عائد ہوتی ہیں‘ تاکہ معلوم ہو جائے کہ اصحابِ امر کو اپنے منصبی فرائض انجام دینے کے لیے کن صفات سے خاص طو رپر متصف ہونا اور کن طور طریقوں پر کاربند رہنا ضروری ہے۔
اس بحث کے سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ اصحابِ امر اور ان کے ما ٔمورین کے درمیان ربط و تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اس سوال کا واضح اصولی جواب رسول اکرمﷺ کے اس مشہور ارشاد میں موجود ہے :
((کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، اَلْاِمَامُ رَاعٍ وَّمَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ…الخ ))(صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب الجمعۃ فی القری والمدن،ح۸۹۳۔ وصحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل و عقوبۃ الجائر و الحث علی الرفق ...... ح ۴۷۲۴)
’’تم میں سے ہر شخص راعی اور نگران ہے اور تم سب کو اپنی رعیتوں کے بارے میں جواب دہی کرنی ہو گی۔ مسلمانوں کا سربراہ ایک راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا…‘‘
یہ فرما کر آپﷺ نے چند اور اقسام کے راعیوں اور ان کی رعیتوں کی نام بہ نام مثالیں دے کر بات کو پوری طرح واضح کر دیا ۔ اس ارشادِ نبویؐ کے مطابق تحریکوں کے ذمہ دار اور اصحابِ امر بھی ایک خاص نوعیت کے راعی اور نگران قرار پاتے ہیں‘ اور دنیا اور آخرت دونوں ہی جگہ وہ اپنی اپنی رعیتوں کے یعنی اپنے ما ٔمورین اور اپنے زیر ِنگرانی افرادِ تحریک کے بارے میں جواب دہ ٹھہرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے جو راتوں کی نیند اڑا دے سکتی ہے‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی انجام دہی کا اجر بھی بہت بڑا ہے۔
یہاں اس بھاری ذمہ داری کی نوعیت بھی سمجھ لینی چاہیے۔ یہ ایک واضح اصولی بات ہے کہ مختلف قسم کے راعیوں کی ذمہ داریاں مختلف نوعیتوں کی ہوں گی جن کا تعین ان راعیوں کی رعیتوں کے مفاد اور مصالح کی بنیاد ہی پر ہو گا۔اس اصول کی روشنی میں تحریکی ذمہ داریاں اورمسئولیتیں اپنے ما ٔمورین کے تئیں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتیں کہ جس مقصد کی خاطر یہ لوگ ان کی رہنمائی اور نگرانی میں دیے گئے ہیں وہ انہیں اس مقصد کے کام کے آدمی بنائیں۔ ان کے اندر اپنے تحریکی نصب العین کے حق میں زیادہ سے زیادہ ذہنی یکسوئی پیدا کریں ۔اس کی خاطر جدّوجُہد کا حوصلہ پروان چڑھائیں۔ ان انفرادی اور اجتماعی اوصاف سے انہیں بیش از بیش آراستہ کرتے رہنے کی فکر اور کوشش کریں جو تحریک کو مطلوب اور اللہ اور اس کے رسولﷺ ‘کو محبوب ہیں۔
اصحابِ امر اور ما ٔمورین کے درمیان تحریکی تعلق کی نوعیت اور اس کے تقاضے معلوم ہوجانے کے بعد اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اُن صفات سے جن کا حامل ہونا اور ان رویوں سے جن کا اختیار کرنا اصحابِ امر کے لیے ضروری ہے ‘ واقفیت حاصل کر لی جائے۔
(i)نرم خوئی ونرم گیری:پہلی ضروری چیز نرمی اور لیّنت کی صفت ہے۔ اصحابِ امر کو اپنے مامورین کے ساتھ ممکن حد تک نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے ‘اور اگر کبھی خود مفادِ تحریک کا تقاضا ہو کہ ان پر گرفت کی جائے تو اس گرفت میں بھی حتی الوسع سخت گیری سے بچنا چاہیے۔ پھر اتنی بات بھی کافی نہیں ہے کہ یہ نرم رویہ محض تدبیر اور پالیسی کے طور پر اپنا لیا گیا ہو‘ بلکہ مطلوب یہ ہے کہ یہ تاحد ِامکان ان کا مزاج بن گیا ہو۔ یہ روش اور صفت سب سے زیادہ جس چیز کے لیے اہمیت رکھتی ہے وہ تحریک کی ہیئت ِاجتماعیہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ہیئت ِاجتماعیہ اپنی صحت اور اپنے اندرونی استحکام کے لیے بڑی حد تک اصحابِ امرکی اسی نرم روی پر انحصار کرتی ہے۔ جہاں کسی تحریک کا اجتماعی نظم اپنے اس سامانِ بقا سے محروم ہوا ‘اس کا نظامِ اعصاب اسی طرح ٹوٹ کر رہ جائے گا جس طرح کسی زلزلے کے بعد پختہ عمارتیں بھی اندر سے چٹخ کر رہ جاتی ہیں۔ انسانی فطرت کے خالق نے کسی اور کو نہیں ‘ خود اپنے پیغمبراعظمﷺ کو ایک بڑے اہم واقعہ کے بعد مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ:
{فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَـہُمْ ج وَلَـوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْـفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص } (آل عمران:۱۵۹)
’’سو یہ اللہ ہی کی مہربانی تھی کہ تم (اپنے) اِن (ساتھی اہل ایمان) کے لیے نرم ہو‘ ورنہ اگرکہیں تم تند خو اور سخت دل ہوتے تو لوگ تمہارے پاس سے لازماً چھٹ گئے ‘ہوتے۔‘‘
سوچیے اور بار بار سوچیے کہ جب تند خوئی اور سخت دلی کے ساتھ رسالت پناہ جیسی عظیم اور بے مثال شخصیت کے لیے بھی اپنے لوگوں کی جمعیت کو برقرار رکھ سکنا ممکن نہ ہوتا تو دوسرے کس شمار و قطار میں ہیں؟ معلوم ہوا کہ نرم مزاجی جہاں انسان کی سیرت کا ایک دلکش حسن ہے ‘ وہاں اپنوں کو مضبوطی سے جوڑے رکھنے کا ایک ناگزیر ذریعہ بھی ہے۔ اس کے بغیر تحریک کا اجتماعی نظم پائیدار ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ نرم خوئی کس پائے کی ایمانی صفت ہے‘ اسے جاننے اور سمجھنے کے لیے قرآن کریم کا یہ بیان کافی ہے کہ نبی اکرمﷺ کی نرم مزاجی تو فی الواقع اللہ تعالیٰ کی رحمت کا خاص عطیہ تھی۔ آنحضرتﷺ نے بھی اس وصف کی غیر معمولی اہمیت کا اظہار اِن لفظوں میں کیا ہے:
((مَنْ یُحْرَمِ الرِّفْقَ یُحْرَمِ الْخَیْرَ))(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فضل الرفق،ح۶۶۰۰)
’’جو شخص نرم مزاجی سے محروم ہو وہ (گویاہر طرح کی) بھلائی سے محروم ہے۔‘‘
غور کیجیے کہ جب نرم مزاجی سے محرومی آدمی کی اپنی شخصی زندگی میں ساری بھلائیوں سے محرومی کا باعث بن جاتی ہے تو یہ جماعتی زندگی کے لیے کیا کچھ مصیبتیں نہ پیدا کر دے گی‘ اگر خدانخواستہ اس کے اصحابِ امر اس محرومی کا شکار ہوں!
نرم خوئی‘ رفق اور لیّنت سے محرومی کے معنی تند خوئی اور سخت گیری کے ہیں۔ سخت مزاج اُمراء و حکام نبی اکرمﷺ کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم ہیں کہ رحمۃٌ للعالمین اور رئوف و رحیم ہونے کے باوجود آپؐ ‘اُن کے حق میں دلوں کو ہلا دینے والی یہ بددعا کرنے پر مجبور ہو گئے:
((اَللّٰھُمَّ مَنْ وَلِیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْھِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ))(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق)
’’اے اللہ! جو کوئی میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ دار ہو اور وہ لوگوں پر سختی کرے تو تُو اس پر سختی کر۔‘‘
سختی اور سخت گیری کا یہ ہولناک انجام سامنے رکھیے تو نرمی اور نرم خوئی کی قدر وقیمت آپ سے آپ معلوم ہو جائے گی۔
(ii) عفو و درگزر : نرم خوئی اور لیّنت سے نہایت قریبی تعلق رکھنے والی ایک خاص صفت جماعتی معاملات میں عفو و درگزر سے کام لینے کی صفت ہے ‘ جس سے اصحابِ امر کاخصوصیت سے متصف رہنا انتہائی ضروری ہے۔ عفو ودرگزر کی مدح و منقبت سے اور اس کی ترغیب و تاکید سے کتابِ الٰہی بھری پڑی ہے ‘اور رسولِ خداﷺ کی حیاتِ مبارکہ اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ غزوئہ اُحد کے موقع پر مسلمانوں کے ایک گروہ کی غلطی سے لڑائی کا پانسا یکایک مشرکوں کے حق میں پلٹ گیا اور اس کے نتیجے میں بہت سے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شہادت کا اور خود نبی اکرمﷺ کے زخمی ہو جانے کا الم ناک سانحہ پیش آ گیا تھا۔ مسلمانوں کی یہ غلطی کوئی معمولی غلطی نہ تھی۔ دنیا کا کوئی اور سپہ سالار ہوتا تو ایسے لوگوں کا کورٹ مارشل کر کے انہیں بدترین سزائیں دیے بغیر ہرگز نہ چھوڑتا‘ لیکن حضور اکرمﷺ نے اپنے ان خطاکار لشکریوں کے حق میں کسی اقدام کی بات سوچی تک نہ تھی اور عفو عام سے کام لیا۔اس کی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف تصویب فرمائی‘ بلکہ تحسین بھی کی اور اسے اپنی رحمت کا ثمرہ قرار دیا۔ پھر اس تحسین ہی پر اکتفا نہیں کر لیا بلکہ ساتھ ہی آپﷺ‘کو اس بات کی ہدایت بھی کی کہ:
{فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِج}(آلِ عمران:۱۵۹)
’’پس انہیں معاف کر دو اور ان کے لیے مغفرت کی دعا مانگو ‘اور معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔‘‘
مقصود اس ہدایت کا یہ تھا کہ انہیں معاف کرنے ہی تک اپنی روش کو محدود نہ رکھیے‘ بلکہ آگے بھی ایسا رویّہ اختیار کیجیے جس سے انہیں اطمینان ہو جائے کہ یہ معافی کوئی رسمی اور قانونی معافی نہیں ہے بلکہ حقیقی معافی ہے۔ زبانِ مبارک ہی نے نہیں‘ قلب ِاطہر نے بھی انہیں معاف کر دیا ہے اور اب ان سے سرزد ہو جانے والی غلطی کا کوئی انقباضی اثر آپؐ پر باقی نہیں رہ گیا ہے۔ مقتدائے عالمﷺ کو دی جانے والی اس ہدایت میں عام افرادِ اُمّت کے لیے بالعموم اور کسی طرح کی جماعتی ذمہ داریاں رکھنے والوں کے لیے بالخصوص رہنمائی کا پورا سامان موجود ہے۔ یہ اس امر کی کھلی ہوئی تلقین ہے کہ جماعتی معاملات میں اگر عام افراد سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اصحابِ امر کو عفوودرگزر سے کام لینا چاہیے‘ اور یہ کہ یہ عفوودرگزر صدقِ دل سے ہو‘محض قانونی انداز کا نہ ہو۔ بلاشبہ یہ کوئی لازمی کلیہ نہیں ہے اور بعض اوقات خود تحریک ہی کا مفاد تقاضا کرتا ہے کہ اس موقع پر سرزنش سے کام لیا جائے‘ لیکن یہ استثنائی صورتیں ہوتی ہیں۔عام روش عفوودرگزر ہی کی رہنی چاہیے ‘اس کے بغیر جماعتی نظم میں باہمی حسنِ تعلق قائم نہیں رہ سکتا۔
(iii) صبر و تحمل:نرم خوئی سے ایسا ہی قریبی تعلق رکھنے والی ایک اور بھی ضروری صفت صبر و تحمل کی صفت ہے۔ یہاں صبر و تحمل سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات پر ناروا حملوں کے موقع پر اپنا غصہ پی جائے۔ اشتعال انگیز حالات میں برداشت سے کام لینا عام طور سے بہت مشکل ہوتا ہے ‘مگر جس قدر یہ چیز کڑوی ہے اسی قدر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ تحریکی زندگی کے لیے تو یہ پھل مقوی غذا کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی اسلامی تحریک کے سربراہ اگر خدانخواستہ اپنے اندر صبر و تحمل کا مادہ نہ رکھتے ہوں تو صرف ان کی اپنی ذات ہی نہیں‘ تحریک بھی اس کا خمیازہ بھگتنے سے نہیں بچ سکتی۔ اصحابِ امر کو اپنی ذات پر ہونے والی ناروا تنقیدوں سے سابقہ پیش آنا کوئی غیر متوقع بات نہیں۔ ہر تنظیم میں ایسے خام کار لوگ موجود ہوا ہی کرتے ہیں جو حدود کا لحاظ نہیں رکھ پاتے۔ ایسے لوگوں کی طرف سے اگر اشتعال انگیز حرکتیں ہو جائیں تو ان پر غصہ کا آنا فطری ہے اور یہ شرعاً بھی کوئی مذموم چیز نہیں ہے۔ مذموم بات صرف یہ ہے کہ غصہ کے عالم میں صبر و تحمل کا دامن چھوڑ دیا جائے۔ زندگی کے ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی نبی اکرمﷺ کا اُسوہ ایک مسلمان کے لیے واجب الاتباع ہے۔ آپﷺ کی پوری زندگی بتاتی ہے کہ آپؐ نے اپنی ذات کے خلاف ہونے والی کسی زیادتی کا کبھی انتقام نہیں لیا‘ بلکہ ہر بات پر صبر کیا۔ مثال کے طور پر د و واقعات کا سن لینا کافی ہو گا۔
پہلا واقعہ غزوئہ حنین کے موقع کا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ حنین میں حاصل ہونے والے اموالِ غنیمت کو رسول اللہﷺ نے جب لوگوں میں تقسیم کیا تو (دعوتِ اسلامی کے پیش نظر) کچھ اشرافِ عرب کو باقی لوگوں پراس معاملے میں ترجیح دی اور انہیں نسبتاً زیادہ دیا۔ ایک اَن گھڑ شخص نے یہ دیکھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ : وَاللّٰہِ اِنَّ ھٰذِہِ الْقِسْمَۃُ مَا عُدِلَ فِیْھَا وَمَا اُرِیْدَ فِیْھَا وَجْہُ اللّٰہِ (بخدا یہ ایک غیر عادلانہ تقسیم ہے اوراس میں اللہ کی رضا کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے)۔ جب آپﷺ تک یہ بات پہنچی تو چہرئہ مبارک متغیر ہو گیا‘ یہاں تک کہ سرخ رنگ کی طرح لال ہو گیا‘ مگر صرف اتنا فرما کر آپﷺ خاموش ہو رہے کہ:
((فَمَنْ یَعْدِلْ اِذَا لَمْ یَعْدِلِ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ، رَحِمَ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ اُوْذِیَ بِاَکْثَرَ مِنْ ھٰذَا فَصَبَرَ))(صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب ما کان النبیﷺ یعطی المؤلفۃ قلوبھم وغیرھم…ح۳۱۵۰۔ وصحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم علی الاسلام وتصبر من قوی ایمانہ، ح۱۰۶۲)
’’اگر اللہ اور اس کا رسول ہی عدل نہ کریں گے تو پھر اور کون کر سکتا ہے؟ ‘‘پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی رحمت سے نوازے ‘ ان کی اس سے بھی بڑھ کر دل آزاری کی گئی تھی‘ مگر انہوں نے ہر بات پر صبر کیا۔‘‘
دوسرا واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر لگائے جانے والے بہتانِ عظیم کا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں مسلسل ایک ماہ تک نبی اکرمﷺ نے جس قلبی اذیت کے ساتھ زندگی کے شب و روز گزارے‘ اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اتنا کچھ ہو جانے پر بھی صبر و تحمل کے اس پیکر مقدس نے ایسی عالی ظرفی سے کام لیا جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ یہ دونوں واقعات ایسا آئینہ ہیں جس میں نبی اکرمﷺ کی شانِ صبروتحمل کی پوری کیفیت دیکھ لی جا سکتی ہے۔ آپﷺ کے اس اُسوہ میں افراد ہی کی ایمانی زندگی کا نہیں‘ جماعت کی بھی اندرونی صحت و توانائی کا راز چھپاہوا ہے۔
(iii) فروتنی: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو اُن کے اہل ِایمان اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سلسلے میں جو مختلف ہدایتیں دی تھیں ان میں سے ایک اہم ہدایت یہ بھی تھی کہ:
{وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۱۵) } (الشُّعراء)
’’اوراپنے اہل ایمان پیروئوں کے لیے اپنے بازوئوں کو جھکائے رکھو۔‘‘
’’بازوئوں کو جھکائے رکھو‘‘ یعنی فروتنی اور تواضع کا رویہ اپنائے رکھو۔ تواضع اگرچہ بجائے خود ایک اعلیٰ انسانی جوہر اور ایمانی صفت ہے‘ لیکن آیت کا موقع کلام اور اس کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں آپﷺ‘کو اس کی تلقین دعوتِ اسلامی کے مفاد کے حصول میں کی گئی ہے ۔وہ مفادِ دعوت یہ تھا کہ آپﷺ‘ کا متواضعانہ رویہ پیروانِ اسلام کے اندر آپؐ ‘کی ذات اور دعوت دونوں سے گرویدگی پیدا کرے گا۔ جب حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے داعیٔ حق اور سربراہ کو بھی اپنے نصب العین کی خاطر کامیاب جدّوجُہد کرنے کے لیے اپنے پیروئوں کے ساتھ فروتنی کا رویہ اختیار کرنے کی ضرورت تھی تو دوسروں کو یقینی طور پر بدرجہ ٔ اولیٰ ہو گی ‘اور اس سے صرف ِنظر کر کے کوئی سربراہ بھی اپنے تحریکی منصب کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
فروتنی و خود شکنی کی روش اختیار کیے رہنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے ‘اور عام لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے تو اور زیادہ مشکل ہے جو کوئی نمایاں پوزیشن رکھتے ہوں‘ کیونکہ یہ پوزیشن ان کے لیے ایک فتنہ بن جانے کے بڑے امکانات رکھتی ہے۔ اس لیے تحریکی سربراہوں کے لیے اس خلق کریم سے بہرہ ور ہونا بڑا ذہنی ریاض چاہتا ہے۔ اس ذہنی ریاض کی پہلی ضروری تدبیر یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنی ذمہ دارانہ حیثیت کی صحیح نوعیت کا گہرا شعور حاصل ہو۔ پھر یاد کر لیجیے کہ کسی اسلامی تحریک میں مناصب کی حیثیت اصلاً نہ تو کسی استحقاق کی ہوتی ہے نہ کسی اعزاز کی ہوتی ہے‘ بلکہ ایک ہمت آزما بھاری ذمہ داری کی ہوتی ہے۔ اصحابِ امر کی فروتنی‘ اگر وہ فی الواقع فروتنی ہو‘ وہ کیمیا ہے جو انہیں زرِ خالص بنا دینے میں بڑا اہم رول انجام دیتی ہے۔ یہ بظاہر ایک پستی ہوتی ہے‘مگر فی الواقع عظمت کا نشان ہوتی ہے۔ نبی اکرمﷺ نے بشارت دی ہے کہ:
(( مَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ))( صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب استحباب العفو و التواضع‘ح۶۵۹۲)
’’جو شخص اللہ کے لیے متواضعانہ روش اختیار کرتاہے اللہ تعالیٰ اسے بلند کر کے رہتا ہے۔‘‘
فروتنی اور تواضع کا یہ ثمرہ آدمی کی اپنی ذات کو توملتا ہی ہے‘ تحریک کو اس کا فائدہ اس سے بھی بڑھ کر ملتا ہے۔ ایسے اصحابِ امر اپنے ما ٔ مورین کی نگاہوں کا تارا بن جاتے ہیں‘ اور ان کی امارت ان لوگوں کے ظاہر ہی کی طرح ان کے دل اور دماغ پر بھی قائم ہو جاتی ہے۔ فی الواقع ایسے ہی اصحابِ امر وہ اصحابِ امر ہوتے ہیں جو اپنے ما ٔمورین کے اندر اطاعت ِامر اور دعوتی جدّوجُہد کا ولولہ پیدا کر سکتے ہیں‘ اسے بیدار رکھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ خداﷺ نے مسلمانوں کے اچھے اُمراء اور حکام انہیں قرار دیا ہے جن سے ان کو دلی محبت ہو۔ارشادِ نبویؐ ہے:
((خِیَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَـکُمْ، وَتُصَلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ))(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمۃ و شرارھم‘ح۴۸۰۵)
’’تمہارے اچھے امام و پیشوا وہ ہیں جن کو تم محبوب رکھو اور جو تم سے محبت رکھیں‘ جن کے لیے تم دعائے رحمت کیا کرو اور جو تمہارے لیے دعائے رحمت کیا کریں۔‘‘
جیسا کہ ابھی اشارہ کیا جا چکا‘ اُمراء و ذمہ دارانِ تحریک کے لیے محبوبیت کے اس مقام کا حاصل ہونا بہت کچھ ان کے متواضعانہ رویے پر موقوف ہے۔
(iv) مأمورین کی خیرخواہی:اپنے زیر امارت افراد کی دلی خیرخواہی بھی ان خاص اور اہم صفات میں سے ایک ہے جن سے ذمہ دارانِ تحریک کا متصف رہنا ضروری ہے‘ ورنہ وہ کبھی کامیاب صاحبِ امر نہیں بن سکتے۔ یہ ان کے عین منصب کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے ما ٔمورین کی بہی خواہی کو اپنے فکر و عمل کا جزو بنائے رکھیں۔ جہاں تک ممکن ہو ان کے نجی حالات سے بھی
بے خبر نہ رہیں۔ اگر وہ کسی مشکل سے دوچار ہوں تو اس کے حل میں ان کی لازماً معاونت کریں۔ یہ ان کی شرعی ذمہ داری ہے ۔ نبی اکرمﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ:
((مَا مِنْ اَمِیْرٍ یَلِیْ اَمْرَ الْمُسْلِمِیْنَ، ثُمَّ لَا یَجْھَدُ لَھُمْ وَیَنْصَحُ، اِلَّا لَمْ یَدْخُلْ مَعَھُمُ الْجَنَّۃَ))(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب استحقاق الوالی الغاش لرعیتہ النار،ح۳۶۶)
’’ہر وہ امیر جو مسلمانوں کے معاملات کا نگران و ذمہ دار ہو‘ مگر وہ ان کے (بھلے کے) لیے جدّوجُہد نہ کرے‘ نہ ان کی خیر خواہی کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔‘‘
اور یہ کہ:
((مَنْ وَلَّاہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ شَیْئًا مِنْ اَمْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَاحْتَجَبَ دُوْنَ حَاجَتِھِمْ وَخَلَّتِھِمْ وَفَقْرِھِمُ احْتَجَبَ اللّٰہُ عَنْہُ دُوْنَ حَاجَتِہٖ وَخَلَّتِہٖ وَفَقْرِہٖ))(سنن ابی داوٗد، کتاب الخراج والفیء والامارۃ، باب فیما یلزم الامام من امر الرعیۃ والحجبۃ عنہ، ح ۲۹۴۸)
’’جس کسی کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے کسی معاملے کا بھی والی وانتظام کار بنایا ہو وہ اگر ان کی ضرورتوں‘ حاجت مندیوں اور ناداریوں کے مسائل اپنے تک نہ پہنچنے دے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی ضرورتوں‘ حاجت مندیوں اور ناداریوں کی طرف سے پردہ کرے گا۔‘‘
اپنے ما ٔمورین کے ساتھ خیر خواہی کا رویہ اختیار کرنے کی یہ اہمیت تو اُخروی نقطۂ نگاہ سے ہے۔ تحریکی اور تنظیمی نقطۂ نگاہ سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ ما ٔمورین کی نفسیات پر اس کا بڑا گہرا اثر پڑتا ہے۔ ایک طرف تو اپنے ذمہ داروں کے ساتھ ان کی محبت اور الفت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف تحریک کے فروغ کے لیے ان کے اندر ایثار و قربانی کا جذبہ متحرک سے متحرک تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی برعکس صورت میں نتائج اُلٹے نکلتے ہیں۔ ذمہ داروں اور ما ٔمورین کے درمیان وہ قربت باقی نہیں رہتی جو رہنی چاہیے اور پھر تحریک کے اعصاب ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ کے طرزِعمل کو یاد کیجیے۔ آپؐ عامۃ المسلمین کے ساتھ جس محبت‘ شفقت اور بہی خواہی کا برتائو کرتے تھے اور ا ن کی ضرورتوں اور مصلحتوں کا جتنا خیال رکھتے تھے‘ اس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے کر لیجیے۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ایک صحابیؓ کا یہ بیان مذکور ہے کہ ’’ہم کچھ نوجوان‘ جو سب کے سب تقریباً یکساں عمر کے تھے‘ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے اور رسول اللہﷺ کے پاس بیس روز تک ٹھہرے رہے ۔آپﷺ بڑے رحم دل اور رقیق القلب تھے۔ آپؐ نے از خود محسوس کر لیا کہ ہمیں اپنے اہل و عیال کی یاد آ رہی ہے۔ یہ محسوس کرتے ہی آپؐ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ ’’تم لوگ اپنے گھروں پرکن کن کو چھوڑ کرآئے ہو؟‘‘ ہم نے جو بات تھی بتا دی۔ صورتِ حال معلوم کر کے آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِرْجِعُوْا اِلٰی اَھْلِیْکُمْ، فَاَقِیْمُوْا فِیْھِمْ، وَعَلِّمُوْھُمْ وَمُرُوْھُمْ))(صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب الاذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ وکذلک۔ وصحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلَاۃ، باب من احق بالامامۃ)
’’اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جائو‘ ا ن کے درمیان مقیم رہو‘ اور انہیں دین سکھاتے رہو اور اچھے کاموں کی تلقین کرتے رہو ۔‘‘
(v) اصلاح و تربیت کا حکیمانہ انداز:قرآن کریم نے دعوت الی اللہ کے جو اصولی طریقے تلقین فرمائے ہیں ان میں سے ایک ’’موعظۃ حسنۃ‘‘ کا اصول بھی ہے۔ اس ’’موعظت حسنہ‘‘ کے اصول کو اسلامی تحریکوں کے نظامِ تربیت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھنا چاہیے۔ پند و نصیحت اگر مخلصانہ اور دردمندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کا انداز بھی لیے ہوئے ہو تو اپنا اثر دکھا کررہتی ہے اور اصلاح و تربیت کے سو پروگراموں اور رسمی تدبیروں پر بھاری ثابت ہوتی ہے۔ مربی ٔ اعظمﷺ اصلاح و تربیت کا عام طور سے جو طریقہ اپنایا کرتے تھے اور اس کے جو نتائج نکلتے تھے اس کی صرف دو مثالیں سن لیجیے۔
سنن ابی دائود کی روایت ہے کہ ایک بار آپﷺ نے حضرت خریم الاسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں فرمایا:
((نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَیْمٌ الْاَسَدِیُّ لَوْ لَا طُوْلُ جُمَّتِہٖ وَاِسْبَالُ اِزَارِہٖ))(سنن ابی داوٗد، کتاب اللباس، باب ما جاء فی اسبال الازار)
’’خریم بڑے اچھے آدمی ہیں‘ کاش ان کے بالوں کی لٹ اتنی لمبی اور ان کی تہبند نیچے تک لٹکتی نہ ہوتی!‘‘
نتیجہ اس طرزِ تربیت کا حسب توقع یہ نکلا کہ آپ ﷺ کے یہ الفاظ حضرت خریمؓ تک پہنچے تو دل میں تیر بن کر اُتر گئے۔ انہوں نے ایک چھری اٹھائی اور اپنی لٹوں کو کاٹ کر رکھ دیا۔
اسی طرح بخاری شریف کی روایت ہے کہ آپﷺ نے اپنے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا:
((نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللّٰہِ لَوْ کَانَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ))(صحیح البخاری‘ کتاب التھجد‘ باب فضل قیام اللیل،ح۱۱۲۲۔وصحیح مسلم‘ کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عبد اللّٰہ بن عمرؓ،ح ۲۴۷۹)
’’عبداللہ خوب آدمی ہیں‘ کیا اچھا ہوتا کہ وہ رات میں نماز بھی پڑھا کرتے !‘‘
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد معلوم ہوا تو ذہن نے معاً فیصلہ کر لیا اور پھر وہ راتوں میں کم سونے لگے۔
آدمی جن خامیوں کا شکار ہوتا ہے اور جن کی اصلاح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک تو کردار کی خامی‘ دوسرے اندازِ فکر کی خامی۔ کردار کی خامی کی اصلاح کے سلسلے میں حضورﷺ کا انداز بالعموم ایسا ہی حکیمانہ اور مشفقانہ ہوا کرتا تھا۔ البتہ اندازِ فکر کی خامی آپﷺ کی نگاہ میں زیادہ قابل توجہ اور قابلِ گرفت قرار پاتی تھی۔ اس لیے اس کی اصلاح کے اندر حکمت کے ساتھ تنبیہہ اور قدرے زجر و توبیخ کا عنصر بھی شامل ہوا کرتا تھا۔ وہ بالعموم ’’مَا بَالُ اَقْوَامٍ‘‘ کے لفظوں سے شروع ہوتا تھا ۔یعنی آپﷺ ایسے مواقع پر یوں فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسا ایسا کرتے یا ایسا ایسا کہتے ہیں! گویا ایسے مواقع پر بھی آپﷺ فکری خامی کا مظاہرہ کرنے والوں کے نام لیے بغیر نصیحت اور تنبیہہ بالکل عمومی انداز میںفرمایا کرتے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اندازِ کلام آپﷺ اس مصلحت کی خاطر اختیار فرماتے کہ لوگوں میں کہیں ناگواری کا جذبہ نہ ابھر آئے اور اس طرح نصیحت و تنبیہہ کا مقصد ہی فوت ہوکر نہ رہ جائے۔
اصلاح و تربیت کے بارے میں ہمیں بھی اِسی اُسوہ کی پیروی کرنی چاہیے ‘کیونکہ اس اندازِ تربیت سے بہتر انداز دوسرا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین
tanzeemdigitallibrary.com © 2025