اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ
ڈاکٹر ربیعہ ابرار
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات وہ حکمت بھری روشنیاں ہیں جو ہر دور کے انسان کے لیے زندگی کے تنگ و تاریک راستوں میں مشعل ِراہ ہیں۔ رسول اللہﷺ کی بعض احادیث عوام الناس میں‘ بعض علماء اور محدثین میں اور بعض فقہاء میں خاص مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان معروف احادیث میں جو علماء‘ طلبہ اور عوام الناس میں یکساں معروف ہیں‘ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مبارک بھی ہے کہ ’’بے شک اَعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے......‘‘ دین کا بنیادی علم رکھنے والاہر شخص اس حدیث مبارکہ کو بارہا سن پڑھ چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح عام لوگوں کو بھی کبھی اپنے دفاع میں تو کبھی کسی کو بطور ِتوبیخ یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ عمل کی جزا تو نیت کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ نیتوں کا حال خوب جانتا ہے۔
یوں تو رسول الله ﷺ کی ہر بات میں حکمت کے خزانے ہیں‘ لیکن یہ حدیث مبارکہ اپنے اندر انسانی زندگی کے بے شمار اَسرار سموئے ہوئے ہے۔ زندگی کے ہر ہم ّ و غم سے نجات کا راز‘ انسانوں کے درجوں میں تفاوت کا سبب‘ چیزوں کے لافانی ہو جانے کی ترکیب‘ دورِ حاضر میں سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی شے یعنی اطمینان اور سکون کو پانے کا طریقہ سبھی اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ تحریر اسی حدیث مبارکہ سے حکمت کے چند موتی اخذ کرنے کی عاجزانہ سعی ہے۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر پر فرمایاکہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَاِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ اِلَى اللّٰهِ وَرَسُولِهِ فَھِجرَتُهُ اِلَى اللّٰهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ اِلٰى دُنْيَا يُصِيبُهَا اَوْ اِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَھِجْرَتُهُ اِلَى مَا هَاجَرَ اِلَيْهِ))
’’ تمام اَعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترکِ وطن) اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہو تو اُس کی ہجرت (اللہ کے نزدیک ) اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہی شمار ہوگی‘ اور جس شخص کی ہجرت دولت ِدنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو‘ پس اُس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے شمار ہوگی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔‘‘
تعارف
اس حدیث کے موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسے عموماً دینی کتب اور خصوصاً کتب حدیث کے آغاز میں لایا جاتا ہے۔ امام نوویؒ اپنی ’’اربعین‘‘ کے آغاز میں اور امام بخاریؒ اپنی شہرئہ آفاق ’’الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول اللّٰه ﷺ وسننہ وأيّامہ‘‘ (صحیح البخاری) میں بطورِ مقدمہ اسی حدیث کو لائے ہیں۔ یہی حدیث صحیح بخاری میں ۶ دیگر مقامات پر بھی وارد ہوئی ہے (ح:۵۴، ۲۵۲۹، ۳۸۹۸، ۵۰۷۰، ۶۶۸۹)۔امام مسلم اس حدیث کو صحیح مسلم میں کتاب الامارہ (ح:۴۹۲۷) میں لائے ہیں۔صحاحِ ستہ کی دیگر کتب میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ مختلف روایات میں الفاظ کی معمولی کمی بیشی ہے۔ بعض علماء نے کہا ہےکہ حدیث کے موضوع پراگر سو کتابیں لکھی جائیں گی تو یہ حدیث ان سب کتابوں کے مقدّمے میں لائی جائے گی۔ امام احمدؒ کہتے ہیں کہ اسلام کے اصول تین حدیثوں پر مبنی ہیں: پہلی حدیث عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (زیر موضوع حدیث)‘ دوسری حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (صحیح مسلم: ۴۴۹۳) اور تیسری نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ( صحیح بخاری: ۵۲)۔
راوی کی نسبت سے یہ حدیث‘ حدیث ِعمر ؓکہلاتی ہے اور روایت کے اعتبار سے یہ غریب مطلق ہے۔ یعنی دورِ صحابہؓ میں سے اسے حضور اکرم ﷺسے روایت کرنے والے صحابی صرف ایک ہی ہیں۔ البتہ یہ غرابت اس حدیث کو کمزور کرنے والی نہیں ہے‘ کیونکہ اس کے راوی فاروقِ اعظم عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جن کی حدیث کے معاملے میں احتیاط ایک معروف بات ہے۔ مزید یہ کہ اس حدیث مبارکہ کو انہوں نے اپنے دورِ خلافت میں کئی صحابہ ؓ کی موجودگی میں منبر سے بیان فرمایا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کسی نے اس پر کوئی کلام نہیں کیا۔
الفاظ کی وضاحت
اِنّما کلمۂ حصر ہے‘ یہ اِنَّ (بمعنی بے شک) اور مَا نافیہ (بمعنی نہیں) کا مجموعہ ہے‘ جس کا معنی بنتا ہے: ’’سوائے اس کے نہیں۔‘‘ جیسا کہ کلمہ حصر مذکورہ شے پر حکم صادر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تو گویا اِنّماجس کلمے کے ساتھ استعمال ہوگا‘ اس کے علاوہ باقی سب کی نفی کر دے گا۔
الْاَعْمال میں عموماً عادات اور خصوصاً عبادات شامل ہیں۔ ان میں سوچ اور ارادہ جو کہ دل کے اعمال ہیں‘ قول جو زبان کا عمل ہے‘ اور باقی سب افعال عبادات ومعاملات جو بدن کے اعمال ہیں‘ سب کے سب شامل ہیں۔
نِیّات نیت کی جمع ہے جو نویٰ سے ہے۔ نویٰ کے معنی گٹھلی کے ہیں۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے: { اِنَّ اللہَ فَالِقُ الحَبِّ وَالنَّوٰی ط } (الانعام:۹۵) ’’بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا ہے۔‘‘ اصطلاح میں اس کا معنی عزم القلب علی امر من الامور ہے‘ یعنی دل کا کسی کام کو کرنے کا قصد کرنا۔
ھَجَرَ کے معنی ترک کرنے کے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ((وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ)) (صحیح البخاری، کتاب الایمان، ح:۱۰) ’’اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔‘‘ اصطلاحی معنی میں یہ خروج من الارض الی الارض ہے‘ اور اسلام میں ہجرت دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف چلے جانا ہے۔
تفکر وتدبر
اس حدیث مبارکہ کا ابتدائی حصّہ اس کا مغز (crux) ہے‘ یعنی تمام اعمال کا دارومدارکلّی طور پر نیت پر ہے اور نیت کے سوا کسی دوسری چیز پر نہیں۔ بظاہر کوئی بہت بڑا نیکی کا کام ہی کیوں نہ ہو‘ لوگوں میں نہایت مقبول اور دیکھنے سننے میں بہت خوبصورت ہو‘ اس کے فائدے بھی بے شمار ہوں‘ لیکن اللہ کے ہاں اس کا معاملہ منحصر ہے اس عمل کی محرک نیت پرجو کہ عامل کے دل میں مخفی ہے۔ دل کے معاملات وہ ہیں جنہیں ربّ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کہا جاتا ہےکہ ببول بو کر گلاب نہیں کاٹے جا سکتے‘ یا یہ کہ جو بوئیں گے‘ وہی کاٹیں گے۔ جزا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہےکہ وہ اپنی نیت کی کھیتی ہے۔ پہاڑ جیساعمل اس ایک نظر نہ آنے والی نیت کی وجہ سے الله تعالیٰ کے ہاں یا مقبول ہو سکتا ہے یا مردود۔ گٹھلی پھل میں کہیں چھپی ہوتی ہے لیکن سارا کا سارا درخت اسی میں چھپا ہوتا ہے۔ اس درخت سے ملنے والے تمام فوائد یعنی اس کا سایہ‘ اس کی لکڑی‘ اس کا حسین سبزہ‘ اس کےمہکتے پھول‘ اس کا میٹھا پھل‘ سب کچھ اس ایک بیج میں پنہاں ہے۔
یہی معاملہ نیت اور عمل کا بھی ہے‘ یعنی کوئی چھوٹی سی نیکی بھی اگر خلوصِ نیت سے کی گئی ہو تو ربّ تعالیٰ اُسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتے ہیں اور لقمہ کو پہاڑ جتنا کر دیتے ہیں (مسند ِ احمد: ۷۶۲۲)۔ وہ ربّ ِرحیم تو اس حد تک قدردان ہے کہ خالص نیت سے رکھے جانے والے روزے کو نہ صرف بیش بہا اجر سے نوازتا ہے بلکہ روزے دار کے منہ کی بو کو مشک وعنبر سے زیادہ محبوب رکھتا ہے۔ (صحیح بخاری: ۷۴۹۲)۔ تہجد کی نیت کر کے سونے والا اگر قیام کے لیے نہ اُٹھ پائے تو بھی اپنا پورا اجر پا لیتا ہے‘ صرف اپنی نیت کی بدولت۔ اس کے برعکس بُری نیت اس بے کار بیج کی طرح ہے جس کا پودا نہ پھل لائے‘ نہ سایہ دے اور نہ ہی مالی کا دل خوش کرے۔ جس طرح بیج اپنے لیے پوری خدمت کا تقاضا کرتا ہے یعنی آبیاری‘ زرخیز زمین‘ موافق موسم‘ پرندوں اور کیڑے مکوڑوں سے حفاظت‘ اسی طرح نیت کے معاملے میں بھی صرف یہی کافی نہیں کہ کسی شر کا ارادہ نہ ہو بلکہ اس عمل کا خالص اللہ کے لیے ہونا بھی ضروری ہے۔ حدیث ِ قدسی ہے:
((قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ)) (صحيح مسلم:۷۴۷۵)
’’اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ مَیں شراکت سے مستغنی ہوں۔ جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کیا تو مَیں اُسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
وہ ربّ ذوالجلال تمام جہانوں کا اکیلا مالک ہے اورہر طرح کی شراکت سے مستغنی ہے۔ کوئی ایسا کام جو اُس کے نام سے کیا جائے مگر اس میں اُس کی رضا کے علاوہ کسی اور کی بھی نظر کرم کی چاہت کو ملحوظ رکھا جائے تو وہ کام اُس کے حضور کیسے شرفِ قبول حاصل کر سکتا ہے ! عبادات کے سلسلے میں تو یہ معاملہ اور بھی سنگین ہے کہ ذرا سی ریاکاری کو بھی شرکِ خفی کہا گیا ہے۔ نبی آخر الزماں ﷺ نے اپنی اُمّت کے لیے اسے دجّال کے فتنے سے بھی زیادہ محسوس فرمایا۔
عظیم سے عظیم عمل جان توڑ کوشش سے کر رہے ہیں‘ لیکن اگر اس میں شرک یا ریا کی ملاوٹ کر دی جائے تو ثواب تو دور ایسا عمل وبالِ جان ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث روایت کرتے ہوئے بار بار بے ہوش ہو جاتے (سنن الترمذی: ۲۳۸۲)۔ حدیث تھی ہی ایسی جھنجوڑ دینے والی۔ روزِ قیامت حساب کتاب کی ابتدا جن لوگوں سے کی جائے گی‘ وہ ایسے تین اعمال کرنے والے ہوں گے جو چوٹی کے بہترین اعمال ہیں۔ میدانِ جنگ میں شجاعت دکھاتے ہوئے شہید ہونے والا مجاہد‘ قاریٔ قرآن جو رات دن کتاب اللہ کی تلاوت کیا کرتا تھا اور وہ مال دار سخی جو ہر اُس راستے میں خرچ کیا کرتا تھا جو اللہ کی رضا کا تھا۔ جب فیصلہ سنایا جائے گا تو وہ اُن کے حق میں نہ ہوگا بلکہ انہیں منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یہی وہ پہلے تین اشخاص ہوں گے جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ اس کی وجہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمائی کہ اُن کا عمل اللہ کے لیے نہ تھا بلکہ لوگوں میں مقبولیت اور ناموری حاصل کرنے کے لیے تھا۔ (صحیح مسلم:۱۹۰۵)
اسی طرح زیر موضوع حدیث میں ہجرت کے بارے میں نیت کی درستگی کا ذکر آتا ہے کہ کسی شخص کی ہجرت اُسی چیز کے لیے شمار ہوگی جو اُس کی نیت میں ہے۔ ہجرت جیسا عظیم عمل سابقہ گناہوں کا کفّارہ بن جانے والا ہے۔ ایک موقع پر نبی اکرم ﷺ نے اَنصار سے اپنی محبّت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ((لَوْلَا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارٍ)) (صحیح البخاری: ۳۷۷۹) ’’اگر ہجرت نہ ہوتی تو مَیں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا۔‘‘ یہاں بھی ہجرت کے ثواب کو مقدّم رکھا‘ لیکن وہ بھی اکارت ہے اگر نیت دنیا میں سےکسی شے کی طلب ہے۔ یہ بڑے بڑے اعمال یعنی جہاد‘ ہجرت‘ قرآن کا پڑھنا پڑھانا‘ راہِ خدا میں خرچ کرنا سب اپنے کرنے والے کی نیت کے تابع ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بہت وسیع ہیں۔ اُس کی رضا کے لیے کیے گئے ایک عمل کا ثواب ۱۰ سے ۷۰۰ گنا تک ہے بلکہ بعض اعمال کا اجر انسانی فہم سے ماورا ءہے‘ جیسے صبر کا اجر الله تعالیٰ اپنے ہاتھوں سے لپ بھر بھر کر عطا فرمائیں گے‘ اسی طرح روزے کے اجر کا معاملہ ہے۔ دوسری طرف دنیا کے طالب کے لیے دنیا اسی قدر ہے جتنی اس کے نصیب میں پہلے سے لکھ دی گئی ہے۔
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بندۂ مؤمن کے لیے دنیا میں کوئی حصّہ نہیں؟ بات وہی نیت کی ہے۔ اچھی نیت کے ساتھ عادت بھی عبادت ہے جبکہ بعض لوگوں کی عبادات بھی عادت ہیں۔ مثلاً بعض لوگ نماز اس لیے پڑھتے ہیں کہ عادت ہے‘ نہ پڑھے بغیر چین نہیں آتا‘ یا بعض خواتین پردے کا اہتمام صرف اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے خاندان میں پردہ کیا جاتا ہے۔ یعنی عبادت کے کاموں کو عادتاً کر لیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگ چائے بھی اسی لیے پیتے ہیں کہ علم دین پڑھنے پڑھانے کے لیے تازگی حاصل کر سکیں‘ یا ورزش اس لیے کرتے ہیں کہ ازروئےفرمانِ نبویؐ :((الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ)) (صحیح مسلم: ۶۷۷۴) ’’قوی مؤمن کمزور مؤمن کی نسبت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر اور زیادہ محبوب ہے۔‘‘ یعنی دنیاوی کاموں کو عبادت بنا لیا۔ گویا روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی نیت کی مستقل جانچ پڑتال کی ضرورت رہتی ہے۔ سیرتِ مطہرہ سے بھی ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ اس طرح حکیمانہ انداز میں نبی ﷺ اپنے اہل کی توجّہ نیتوں کی درستگی کی طرف دلواتے رہتے تھے۔ ایک موقع پر جب ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی مسجد ِنبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگا لیے تو نبی مکرمﷺ نے خود اپنا اعتکاف بھی ترک فرما دیا‘ کیونکہ ازواجِ مطہراتؓ میں یہ مسابقت اللہ کی رضا کے بجائے رقابت کی طرف مائل نظر آتی تھی۔
قرآن کریم جو ذکر ِعظیم ہے اور انسان کو ضروری چیزوں کی یاد دہانی کرواتا رہتا ہے‘ وہ نیتوں کی درستگی کا بھی بارہا ذکر کرتا ہے۔ سُنّت ِابراہیمی کی یادگار عید ِقربان جو الله کی راہ میں اپنی سے اچھا عزیز ترین چیز کو قربان کر دینے کا سبق ہے‘ اس موقع پر ہر شخص اپنی حیثیت سے بڑھ کر اچھے سے اچھا جانور الله کی راہ میں قربان کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اُس تک نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں نہ خون بلکہ جو تم سے درکار ہے وہ تقویٰ ہے۔ (الحج: ۳۷)
اسی طرح صدقات کے معاملے میں دو مثالوں سے سمجھایا گیا کہ اللہ کی رضا کی خاطر صدقات کی مثال اونچی جگہ پر واقع باغ جیسی ہے جس پر جب بارش برستی ہے تو دو گنا پھل لاتا ہے‘ اور اگر بارش نہ بھی میسر ہو تو شبنم کی معمولی نمی بھی کافی ہے کہ مالک کو اپنے پھل سے آسودہ رکھے (البقرۃ:۲۶۵)۔ یعنی نیک نیتی کے ساتھ تھوڑا صدقہ بھی کافی ہے ‘جیسے کہ غزوئہ تبوک میں ایک صحابیٔ رسول کی پیش کردہ مٹھی بھر کھجوروں کی مثال ہمارے لیے رہنما ہے۔ دوسری طرف مثال دی گئی ایک کھجور اور انگور کے باغ کی کہ جس میں اور طرح کے پھل بھی آتے ہوں ‘نہریں بہتی ہوں‘ لیکن وہ ایسے وقت آفت کا شکار ہو جائے جبکہ مالک خود بڑھاپے کو پہنچ چکا ہو اور اس کی اولاد ابھی ناتواں ہو۔ یعنی اصل تو برباد ہوا ہی‘ نیا پھل اُگانے کی بھی اب سکت باقی نہیں۔ یہ مثال بعض اوقات ہم دنیا میں اس طرح دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے فلاحی اور خیراتی اداروں کو چلانے والے یا تو مسلمان نہیں ہوتے یا ان کا مطلوب و مقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتی۔ چنانچہ دنیا میں تو ان کے بھلائی کے کام خلق ِخدا کے لیے مفید اور خود ان کے لیے نتیجہ خیز ہو سکتے ہیںـ لیکن روزِ قیامت جب ایسے شخص کو میدانِ حشر کی تپتی دھوپ میں اپنے صدقات کے سائے کی ضرورت ہوگی تب اسے معلوم ہوگا کہ دنیا میں لگایا ہوا اس کا باغ یہاں اُس کے کسی کام کا نہیں۔ مزید یہ کہ عمل کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہوگا ‘لہٰذا ایسےمیں وہ بالکل ہی خالی ہاتھ رہ جائے گا۔
نیت کا معاملہ صرف انفاقِ مال تک ہی محدود نہیں۔ بندۂ مؤمن کے لیے مال جمع کرنا بھی درست ہے (شکر اور حقوق کی ادائیگی کے ساتھ)۔ مثال دیکھیے الله کے صابر نبی حضرت ایوب علیہ السلام کی۔ ایسے حال میں جب اللہ تعالیٰ اُن کی آزمائش کے بعد ان کو پھر سے بہت نواز چکے ہیں تب بھی وہ اپنے اوپر گرنے والی سونے کی ٹڈیاں سمیٹنے لگتے ہیں۔ یہ اُن کی مال کے لیے حرص نہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ اپنے رب کی طرف سے آنے والی برکت کو سمیٹ رہے ہیں۔ (صحیح بخاری:۲۷۹)
پھر مثال لیجیے حضرت سلیمان علیہ السلام کی‘ اللہ کے نبی بھی ہیں‘ بے مثل بادشاہ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی عطا کی کوئی حد نہ رکھی تھی لیکن مزید کا سوال کر لیا ‘ایسی بادشاہت مانگ لی جو اُن کے بعد کسی کو سزاوار نہ ہو۔ یہ دنیا کی طلب نہ تھی بلکہ اس لیے تھا کہ وہ جانتے تھے ان کی سب سے بڑی خوبی اور صلاحیت عادلانہ بادشاہت ہے۔ انہیں ادراک تھا کہ وہ الله کی زمین پر اُس کا دین اپنی بادشاہت کے ذریعے غالب کر کے اللہ کے دین کی بہترین خدمت کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُن کو اُس زمانے کا بہترین مال یعنی عمدہ اصیل گھوڑے پیش کیے گئے تو فرمانے لگے کہ میں نے اِس مال کو اپنے ربّ کی یاد کے لیے محبوب رکھا ہے۔ یہی نیتوں کا فرق ہے جو مال کو خیر اور شر بناتا ہے۔
اسی ضمن میں صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ گھوڑے تین طرح کے ہیں: خیر ‘شر اور ستر۔ جو اللہ کی راہ میں ہو وہ خیر ہے‘ جو ریاکاری اور مسلمانوں کی عداوت کے لیے ہو وہ شر ہے‘ اور جو انسان کی اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ہو وہ ستر ہے۔ یعنی ایک ہی شے ہے‘ ایک چوپایا‘ لیکن اُس کے مالک کی نیت اسے تین مختلف صورتوں میں لے آتی ہے۔ پھر جس پر اللہ تعالیٰ کی رضا کی نیت ہے اُس کا کھانا‘ پینا‘ اُچھلنا حتیٰ کہ فضلے کا اخراج بھی مالک کے نامہ ٔ اعمال میں نیکی کے طور پر لکھا جائے گا۔
اخلاصِ نیت کے فوائد
اس حدیث ِمبارکہ کو اساسی اہمیت حاصل ہونے کی وجہ دوہری ہے۔ ایک یہ کہ یہ ہر انسان سے متعلق ہے اور دوسری یہ کہ یہ اس کی روزمرہ زندگی سے متعلق ہے۔ ہر انسان روزانہ ہر وقت کسی نہ کسی عمل میں ہے‘ جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی نیت ہوتی ہے۔ اگر نیت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کر لیا جائے تو وہ اس کے لیے کئی فوائد لا سکتی ہے۔ چند ایک پرغور کرتے ہیں:
(i) تعریف و تنقید سے بے نیازی: انسان جب کسی کام کو الله تعالیٰ کے لیے خالص ہو کر کرتا ہے تو اس کے لیے یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے! یہ چیز اسے خود اعتمادی بھی دیتی ہے اور وہ بے فکر ہو کر کام کرتا چلا جاتا ہے۔ ع ’’نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا!‘‘ نہ وہ لوگوں کی تحسین کا منتظر رہتا ہے کہ پزیرائی ملے تو وہ آگے بڑھے ‘ اور نہ ہی کسی کی بے جاتنقید پر بددل ہو کر کام چھوڑ بیٹھتا ہے۔
(ii) اعمال میں خوبصورتی : بندہ مؤمن جب کسی کام کو الله تعالیٰ کی رضا کے لیے خالص ہو کر کرتا ہے تو اسے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ میرا یہ کام اللہ کی نظر میں ہے‘ چنانچہ اس کام میں خودبخود خوب صورتی پیدا ہو جائے گی۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جب صدقہ دیا کرتے تھے تو اس پر خوشبو لگا کر دیا کرتے تھے‘ کیونکہ وہ اسے کسی حاجت مند کے ہاتھ پرنہیں رکھتے تھے بلکہ الله کے حضور پیش کیا کرتے تھے۔ مزید یہ کہ ایسے کام میں ہونے والی تھکاوٹ بامعنی ہو جاتی ہے۔
(iii)ڈپریشن سے نجات : اللہ کی خاطر بھلائی کرنے والے کسی قسم کے بدلے کی آس سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ یہ غم کہ ہم کسی رشتے دار کے لیے کتنے پیار سے اتنا کچھ کر رہے ہیں اور بدلے میں وہ ہمارے لیے اچھا رویہ تک نہیں رکھتے‘ اسی طرح کے اور غم جو انسان کو ڈپریشن اور مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں‘ انسان ان سے نجات پا جاتا ہے۔
(iv)تقویٰ کا حصول: وہ انسان جو بار بار اپنی نیت کا جائزہ لیتا رہتا ہے‘ اسے درست کرتا رہتا ہے‘ اپنی توجّہ اللہ اور آخرت کے معاملات کی طرف رکھتا ہے تو گویا وہ متقی ہو جاتا ہے۔ تقویٰ کی روح یہی ہے کہ انسان کا دل اللہ کی طرف متوجّہ رہے۔ قرآن کریم کی رو سے جسے تقویٰ حاصل ہو گیا‘ یقیناً وہ ہدایت پا گیا اور فلاح پانے والوں میں سے ہو گیا۔
(v) برکت کا حصول : یہ بات مصمم ٹھہری کہ ساری کائنات کو فنا ہے سوائے ربّ ذُوالجلال کی ذات کے۔ لہٰذا جو کام اُس کی خاطر کیے جاتے ہیں ‘دوام بھی انہی کو نصیب ہوتا ہے۔ خیر کے وہ کام جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے ہوتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں قرار بخشتے ہیں۔ ان کاموں میں سے بھی سب سے زیادہ برکت والے وہی ہوتے ہیں جو اللہ کی رضا کی خاطر اُسی کے نام پر کیے جاتے ہیں۔ زندگی میں آنے والی کئی پریشانیاں‘ کتنی ہی رکاوٹیں‘ کیسے کیسے پتھر اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کاموں کے توسط سے ہٹ جاتے ہیں۔ غار میں پھنسنے والے تین اشخاص کا واقعہ ایک مثال ہے کہ جب یقینی موت کا پیغام لے کر آنے والا پتھر بھی اُن اعمال کے واسطے کی دعاؤں سے ہٹ گیا تھا جو خالص اللہ کی خاطر کیے گئے تھے۔ (صحیح بخاری ۲۲۱۵)
برکت کے ثمرے کی ایک حسین مثال
خلوصِ نیت سے کیے گئے کام میں کس طرح برکت ہوتی ہے اور اس کے اثرات الله عزّوجل کس طرح برقرار رکھتے ہیں‘ اس کی ایک مثال حضرت حنّا زوجہ عمران کے واقعے میں ہے۔ وہ اپنے سب سے عزیز اثاثے یعنی اپنی آنے والی اولاد کو خالص اللہ کے لیے وقف کردیتی ہیں۔ خلافِ توقع ان کے ہاں بیٹی (مریم ؑ ) ہوتی ہے‘ مگر وہ اللہ سے اپنے کیے گئے عہد کو پورا کرتی ہیں۔ وہ ربّ جو نیتوں کا سب سے بہتر جاننے والا ہے‘ وہ ان کے خلوص کو قبول فرماتا ہے۔ ابتدا اس طرح ہوتی ہے کہ وقت کے نبی حضرت زکریا علیہ السلام کو مریم (سلامٌ علیہا) کا کفیل بنا دیا جاتا ہے۔ حضرت مریم ؑکے پاس بند کمرے میں بے موسم پھل دیکھ کر حضرت زکریا علیہ السلام کو ایک نئی امید نصیب ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے حصولِ اولاد کی دعا کرتے ہیں اور انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا فرزند عطا ہو جاتا ہے۔ نہ صرف حضرت یحییٰ علیہ السلام نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں‘ بلکہ خود مریم سلامٌ علیہا کو اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر جو بیٹا عطا کرتے ہیں وہ بھی نبی ہے۔ ان انبیاء کی اپنی نیکیاں‘ دعوت اور تبلیغ‘ پھر ان کے مخلص ساتھیوں کی نیکیاں‘ پھر جس طرح ایک عرصے تک عیسائی حق پر رہے اور سچے دین کو مانتے رہے‘ اس ساری خیر کا تصور کرتے جائیں۔
اگرچہ آج عیسائیت عقائد کے اعتبار سے درست راہ سے پھر گئی ہے‘ لیکن خیر کے کئی کام ان کے کھاتے میں رہے ہیں۔ مزید الله تعالیٰ نے بھی اپنے پاس سے ان کے دل میں شفقت اور رحم رکھنے کا ذکر قرآن میں فرمایا ہے: {وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَــۃً وَّرَحْمَۃًط} (الحدید:۲۷) آج بھی عیسائیت کے نام پرفلاح کے کچھ نہ کچھ کام جاری ہیں۔ قریب قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول‘ ان کے ہاتھوں دجال کا خاتمہ‘ یہودیوں کا قلع قمع اور دنیا بھر میں عادلانہ اسلامی حکومت کا نفاذ‘ اس ساری خیر و برکت کو پیچھے کی طرف ٹریس کرتے چلے جائیں‘ تو اس کی بنیاد میں نہ نظر آنے والا بیج‘ جس کا عموماً ذکر بھی نہیں کیا جاتا‘ وہ اُس ایک عورت کی خالص اللہ تعالیٰ کے لیے مانی گئی نذر تھی۔ حضرت حنّا بس نیکی کا ایک کام کرنا چاہتی تھیں‘ ایک نذر پوری کرنا چاہتی تھیں‘ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے اس کے آثار اور اثرات کو قیامت تک کے لیے باقی کر دیا۔
سب سے اعلیٰ نیت
نیتوں میں سب سے اعلیٰ نیت کیا ہے؟ ثواب کی نیت‘ جنت کا حصول‘ لوگوں کی بھلائی! یہ نیتیں بھی اچھی ہیں لیکن حدیث مبارکہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ اہلِ جنّت کے لیے سب سے بڑی نعمت ربّ تعالیٰ کا دیدار ہوگا (صحیح مسلم: ۴۴۹)۔ قرآن کریم میں بھی اسے کامیابی کی علامت قرار دیا گیا ہے (الروم: ۳۸ )۔ اپنے تمام اَعمال خصوصاً عبادات میں ہماری نیت الله کا چہرہ چاہنے کی ہونی چاہیے۔ وہ کون سے اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کے لیے کیے جا سکتے ہیں؟ فجر اور عصر کی نماز کی پابندی( صحیح بخاری:۵۷۳)‘ اللہ کی خاطر صدقہ کرنا (الروم:۳۹)‘ کھانا کھلانا‘ صبر اور نماز (الرعد: ۲۲) صبح وشام اللہ کو پکارنا۔ خصوصاً تہجد کی نماز (الانعام:۶)
عملی نکات
یوں تو زندگی کے ہر معاملے میں ہی نیت کی درستگی ضروری ہے‘ لیکن انسان خطا و نسیان کا پُتلا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک دو پہلوئوں پرخصوصی توجّہ کرکے اپنی نیت کی درستگی کے سفر کا آغاز کر سکتا ہے۔ پہلا اپنی عبادات کی طرف توجّہ دینا۔ سوچیں کہ کیا میں اپنی نماز‘ روزہ اور دیگر عبادات کو عادتاً کر رہا ہوں یا اس کی اصل روح بھی میرے ذہن میں ہے!
دوسرا‘ ہر شخص یہ جائزہ لے سکتا ہے کہ میری زندگی میں سب سے اہم کام یا غالب مصروفیت کیا ہے! عام قسم کی مصروفیات تین ہیں‘ جن کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
٭ طلبہ سوچیں کہ ان کے طلب علم کا مقصد کیا ہے! کیا صرف دنیا حاصل کرنا؟ یاد رکھیں کہ قرآن کا طالب ہونا اتنا بڑا شرف ہے کہ مچھلیاں اور چیونٹیاں تک طالب علم کے لیے دعا کرتی ہیں۔ اگر نیت ریا کاری ہو یا لوگوں سے بحث کرنا ہو‘ اپنی شان جتانا ہو تو یہ خراب نیت جہنم تک لے جانے والی ہے۔
٭ وہ لوگ جو ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں خصوصاً مرد حضرات ‘ وہ اس دنیاوی کام کو بھی آخرت کے لیے اس طرح ذخیرہ بنا سکتے ہیں کہ حلال رزق کمانا بھی عبادت ہے۔ کفالت میں آنے والوں کی ضروریات اور تربیت ان پر فرض ہے اور فرض کو احسن انداز سے پورا کرنا نفل عبادت سے بڑھ کر ہے۔
٭ خواتین کا واسطہ عموماً امور خانہ داری اور کھانا پکانے‘ کھلانے سے رہتا ہے۔ اسے بوجھ سمجھنےکے بجائے سعادت بھی بنایا جا سکتا ہے۔ کھانا کھلانا ہمارے دین کا حصّہ ہے۔ کتنی عظیم ہے اُمّت کی وہ عورت جو نہ تو کسی کی تعریف کے لیے اور نہ ہی روز مرہ کی ذمہ داری سمجھ کر کھانا پکاتی ہے بلکہ اس کی نیت اللہ کا چہرہ چاہنے کی ہوتی ہے۔وہ اس کا صلہ اللہ سے چاہتی ہے اور اسے کسی کا شکریہ تک درکار نہیں ہوتا (الدھر:۹)۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ پہلے عورت بچے کو دودھ پلاتی تھی کہ وہ اسلام کے لیے جہاد کر ے گا تو اُمّت میں مجاہد پیدا ہوتے تھے‘ آج مائیں دودھ پلاتی ہیں کہ بچہ سو جائے‘ تو نتیجہ یہ ہے کہ اُمّت سو رہی ہے۔ عورت کا کردار اُمّت میں معمار کا ہےاگراس کی نیت درست ہو۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ زندگی درست ہو سکتی ہے اگر نیت درست ہو تو۔ حدیث ِعمرؓ کے اس جائزے کا اختتام ہم دعائے عمرؓ ہی سے کرتے ہیں اور آپؓ ہی کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے نیتوں کی درستگی کا سوال کرتے ہیں :
اللّٰهُمَّ اجْعَلْ عَمَلِي كُلَّهُ صَالِحًا، وَاجْعَلْهُ لِوَجْهِكَ خَالِصًا، وَلَا تَجْعَلْ لِأَحَدٍ فِيهِ شَيْئًا
’’اے اللہ! میرے تمام عمل کو صالح کر دے اور اس کو اپنے چہرے کے لیے خالص کرلے اور اس میں کسی ایک کا بھی حصّہ نہ رکھ۔‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2025