(حقیقتِ دین) اسماء اللہ الحسنیٰ (۵) - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

13 /

اسماء اللہ الحسنیٰ(۵)از: پروفیسر حافظ قاسم رضوان(۳۲) اَلْمُقِیْتُ
اسم اَلْمُقِیْتُ کے معنی سب کو روزی دینے والے اور عطائے قوت میں توانائی رکھنے والے کے ہیں۔ یعنی وہ ذاتِ اقدس جو اپنی تمام جاندار مخلوق کے لیے غذا پیدا کرے اور ان کو مہیا کرے‘ خواہ جسم کے لیے ہو جیسے کہ مختلف النوع اسبابِ رزق وغیرہ ‘اور خواہ روح کےلیے ہو‘ جیسے تقویٰ ‘علم ‘ اخلاق وغیرہ۔ بعض نے اس کا مطلب قدرت اور قابو پانے والا بھی لیا ہے۔ مُقِیت‘ قُوْت سے بھی ہے‘ جو غذا کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو جزوِ بدن ہو سکے اور قوت و صحت کے قیام کا ذریعہ بن سکے۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:{ وَکَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ مُّقِیْتًا(۸۵)} ’’اور اللہ تعالیٰ ہر شے پر قوت رکھنے والا ہے۔ ‘‘
(۳۳) اَلْحَسِیْبُ
لفظ حَسِیْب کا معنی ہے سرداری اور شرف و کمال والا‘ یعنی وہ مقدّس ہستی جو سب مخلوقات و موجودات کی سردار اور ان سب سے اشرف و اکمل ہے۔حَسِیْب کے معنی کفایت کرنے والے کے بھی ہیں‘یعنی اللہ تعالیٰ ہی اپنی ساری مخلوق کو وہ تمام چیزیں عطا فرماتے ہیں جوانہیں ان کی زندگی میں اور ان کی ضروریات میں کفایت کر سکیں۔ اسی ضمن میں محاورہ ہے : ھٰذَا حَسْبُکَ مِنْ غَیْرِہٖ (یہ تجھے غیر سے کفایت کر جائے گا)۔ بعض حَسِیْب کو حساب کرنے والے اور حساب فہمی کرنے والے کے معنوں میں بھی لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ ’’حَسِیْب‘‘ تین جگہ استعمال ہوا ہےاور اسی سے ’الحسیب‘ کا اسم تخریج کیا گیاہے۔ سورۃ النساء میں آتا ہے:{ وَکَفٰی بِاللہِ حَسِیْبًا(۶)} ’’اور اللہ کافی ہے حساب لینے کے لیے ۔ ‘‘یہی الفاظ سورۃ الاحزاب (آیت ۳۹)میں بھی آئے ہیں۔مزید ارشاد ہوا: { اِنَّ اللہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ حَسِیْـبًا(۸۶)}(النساء) ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ حسیب ہے‘ اس کی حفاظت اور پناہ کافی ہے۔ سورۃ الطلاق کی آیت۳ میں فرمایا:{وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ط } ’’اور جو کوئی اللہ پر توکّل کرتا ہے تو اُس کے لیے وہ کافی ہے۔ ‘‘ سورۃ التوبۃمیں فرمایا: {فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللہُ ز لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَط عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ(۱۲۹) } ’’پھر بھی اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو (اے نبیﷺ!) کہہ دیجیے کہ میرے لیے اللہ کافی ہے‘ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اُسی پر میں نے توکّل کیا اور وہ بہت بڑے عرش کا مالک ہے۔ ‘‘ سورئہ آلِ عمران میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَقَالُــوْا حَسْبُـنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ(۱۷۳)} ’’اور انہوں نے کہا: اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ ‘‘
حَسِیب کے معنی حساب کنندہ کے بھی ہیں۔ حَسَبَ (ن) کا معنی ہے شمار کرنا۔ حُسْبَانٌ اس سے مصدر ہے۔ سورۃ الرحمٰن میں فرمایا: {اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ(۵)} ’’سورج اور چاند (مقررہ) حساب سے ہیں۔ ‘‘بروزِقیامت ارشادِ ربانی ہو گا:{اِقْرَاْ کِتٰبَکَ ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(۱۴) } (بنی اسرائیل) ’’پڑھ لو اپنا اعمال نامہ!آج تم خود ہی اپنا حساب کر لینے کے لیے کافی ہو‘‘۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اپنی کسی نماز میں یہ دعا کرتے ہوئے سنا :  ((اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا)) ’’اے اللہ میرا حساب آسان لینا!‘‘ (مسند احمد)
(۳۴) الْکَرِیْمُ
خدائے بزرگ و برتر‘ الکریم‘ وہ ذات ہے جو بغیر سوال اور طلب کے اپنے بندوں کو ہر چیز عطا فرماتا ہے۔ان بندوں میں اُس کے شکر گزار بندوں کے علاوہ وہ بندے بھی شامل ہیں جو یا تو اس کو قطعی نہیں مانتے یا پھر اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس لیے بعض حضرات نے الکریم کے معنی درگزر کرنے والا بھی کیے ہیں ۔ یہ اسم کرم سے ہے جس کے معنوں میں عظمت ‘ شرف‘ عزت اور جود و سخاوت شامل ہیں۔ اہل ِزبان کہتے ہیں کہ کریم وہ ہے کہ وعدہ کرے تو پورا کرے‘ قدرت رکھتے ہوئے قصور معاف کر دے‘عیب دیکھے اور پردہ پوشی کرے‘ قصور اور خطا کا پتہ ہو اوردرگزر فرمائے۔
سورۃ الانفطار میں ارشاد ہوتا ہے: {یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ(۶) } ’’اے انسان !تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں۔ ‘‘ سورۃ النمل میں فرمایا:{وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ(۴۰) } ’’ اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی (بھلے کے) لیے کرتا ہے۔ اور جو کوئی ناشکری کرتا ہے تو میرا رب یقیناً بے نیاز ہے‘ بہت کرم کرنے والا۔ ‘‘اللہ تعالیٰ کریم ہے کیونکہ وہ رسولِ کریم کو بھیجنےو الا ہے۔ سورۃ الدخان میں فرمایا:{وَجَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ(۱۷) } ’’اور ان کے پاس ایک بہت معزز رسول آیا تھا۔ ‘‘اللہ تعالیٰ کریم ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کا اتارنے والا ہے ۔ سورۃ الواقعۃ میں ارشاد ہوا:{ اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ (۷۷) } ’’یقیناً یہ بہت عزّت والا قرآن ہے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کریم ہے کیونکہ وہ اجر کریم عطا کرنے والا ہے۔ سورۃ الحدید میں فرمایا:{وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ(۱۸)}’’ اور اُن کے لیے بڑا باعزّت اجر ہے۔ ‘‘
(۳۵) الرَّقِیْبُ
الرَّقیب(نگہبان‘ نگران) وہ ذات ہے جو ہر شے کی حالت سے بخوبی واقف ہو اور اس کی ایسی نگہبان ہوکہ اس سے کسی وقت بھی غافل نہ ہو پائے اور اس پر لازماً ہمیشہ نظر رکھے۔ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے کہ بروزِ قیامت اللہ تعالیٰ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مجھے اور میری ماں کو بھی اپنا معبود بنا لو؟ تو حضرت عیسیٰ ؑجواب دیں گے:
{مَا قُلْتُ لَـہُمْ اِلَّا مَـآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّیْ وَرَبَّــکُمْ ج وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّـیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ ط وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَہِیْدٌ (۱۱۷) } (المائدۃ)
’’مَیں نے ان سے کچھ نہیں کہامگر وہی کچھ جس کا تُو نے مجھے حکم دیا تھا(اور وہ یہی بات تھی)کہ بندگی کرو اللہ کی جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے۔اور مَیں ان پر نگران رہا جب تک اُن میں موجودرہا ۔ پھرجب تُو نے مجھے اٹھا لیا تو (اس کے بعد) تُو ہی ان پر نگران تھا۔ اور یقیناً تو ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘
سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتا ہے:{وَکَانَ اللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ رَّقِیْبًا(۵۲)} ’’اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ ‘‘ سورۃ النساء میں فرمایا:{اِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِـیْـبًا(۱)} ’’یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔ ‘‘
(۳۶) الْقَرِیْب
ربّ ذوالجلال‘ القریب ہے ۔ یعنی وہ ذات جو بندے سے بہت قریب ہےجب وہ اس سے دعا کرتا ہے‘ التجا کرتا ہے‘ اپنی عرضداشت اس کی بارگاہ میںپیش کرتا ہے۔ یہ اسم اس آیت سے لیاگیا ہے:
{وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ۭ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (۱۸۶)}(البقرۃ)
’’اور (اے نبیﷺ!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) مَیں قریب ہوں۔مَیں تو ہر پکار نے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے‘پس انہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیںاور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔‘‘
بعض مفسرین کے مطابق قریب کا معنی یہ ہے کہ علم کے اعتبار سے تمہارے قریب ہوں‘ کوئی چیز مجھ سے پوشیدہ نہیں۔
جب انسان دنیوی وسائل سے محروم ہوجاتا ہے‘اسباب کو اپنے مخالف پاتا ہے اور بے اختیار اللہ کی مدد کو پکارتا ہے تو ساتھ ہی اس کا جواب بھی پاتا ہے۔ارشاد ہوتا ہے: {..... حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ(۲۱۴)} (البقرۃ) ’’...... یہاں تک کہ پکار اٹھا رسول اور اس کے ساتھی اہل ِایمان کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟ (اب انہیں یہ خوشخبری دی گئی کہ) آگاہ ہو جائو‘یقیناً اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘ سورۃ الاعراف میں ارشاد ہوا:{اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ(۵۶) }’’یقیناً اللہ کی رحمت اہل ِاحسان بندوں کے بہت ہی قریب ہے۔‘‘سورئہ سبا میں فرمایا: { اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ(۵۰)} ’’یقیناً وہ خوب سننے والا‘ بہت قریب ہے۔ ‘‘سورئہ ہود میں حضرت صالح علیہ السلام کی زبانی کہلایا گیا: {اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(۶۱) }’’یقیناً میرا ربّ قریب ہے اور دعا کا قبول کرنے والا ہے۔ ‘‘ نبی کی زبان سے ادا شدہ یہ الفاظ اس قرب کو ظاہر کرتے ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کو بوجہ قبولیت و شرف و اختصاص حاصل ہوتا ہے کہ پروردگار کی طرف سے ان کی حمایت کی جاتی ہے‘ نصرت فرمائی جاتی ہے اور ان کی معروضات کو درجہ اجابت دیا جاتا ہے۔اسی اسم سے سورۃقٓ میں لفظ اَقْرَبُ (قریب تر)استعمال ہوا ہے: { وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (۱۶)} ’’ اور ہم تو اُس سے اُس کی رَگِ جاںسے بھی قریب ترہیں۔ ‘‘
(۳۷) اَلْمُجِیْبُ
یہ اسم عَلم جواب اور اجابت سے بتایا گیا ہے‘ یعنی اپنے بندوں کی دعائیں سننے اور قبول کرنے والا۔اللہ عزّوجل‘ المجیب‘ وہ ذاتِ اَقدس ہے جو اپنے بندوں کے ہر ایک سوال کو سمجھتا‘ ان کی دعا کو قبول فرماتا اور ان کی ضروریاتِ طبعی و اتفاقی کو پورا کر دیتا ہے ۔ سورۃ النمل (آیت۶۲)میں فرمایا:{ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓئَ } ’’بھلا کون ہے جو سنتا ہے ایک مجبور و لاچار کو جب وہ اُس کو پکارتا ہے اور (اُس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے؟‘‘ سورۃ البقرۃ(آیت۱۸۶ )میں فرمایا:{ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا} ’’اور (اے نبیﷺ!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو (ان کو بتا دیجیے کہ) میں قریب ہوں۔ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے ‘‘۔ سورئہ ہود میں فرمایا:{اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(۶۱)} ’’یقیناً میرا ربّ قریب ہے اور دعا کا قبول کرنے والا ہے۔ ‘‘سورۃ المؤمن میں فرمایا:{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ(۶۰)}’’اور تمہارا ربّ کہتا ہے کہ مجھے پکارو‘ میں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔ یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبّر کی بنا پر اعراض کرتے ہیں وہ جہنّم میں داخل ہوں گے ذلیل و خوار ہو کر۔‘‘
صحیحین اور دیگر کتب ِحدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْآخِرُ فَیَقُوْلُ: مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہُ؟ مَنْ یَسْاَلُنِیْ فَاُعْطِیَہُ؟ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرَ لَہُ؟)) ’’ہمارا بلندی و برکت والا ربّ‘ ہر رات کو جب کہ رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے آسمانِ دُنیا پر نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: کون مجھ سے دُعا مانگتا ہے کہ میں اسے قبول کروں؟ کون مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ کون مجھ سے بخشش چاہتا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟‘‘
(۳۸) اَلْوَاسِعُ
’ الوَاسِعُ‘ جس کا علم ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہو‘ جس کا علم اتنا وسیع تر ہو کہ کوئی شے اس کے علم سے باہر نہ ہو ۔اگر وہ ذات احسان کرے اور نعمت عطا فرمائے تو اس کی بھی کوئی حد نہ ہو۔ بعض علماء کے قول کے مطابق الوَاسِع کا مطلب ایسا غنی ہے جو تمام موجودات سے بے نیاز ہو۔ وسعکا معنی فراخی ‘ تونگری‘ دسترس اور طاقت کے ہیں‘ سِعَۃ بھی انہی معنوں میں آتا ہے۔ سورۃ البقرۃمیں ارشاد ہوتا ہے:{وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج} (آیت۲۵۵) ’’اُس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین کو محیط ہے۔ ‘‘سورۃ الانعام میں ارشاد ہوا:{ وَسِعَ رَبِّیْ کُلَّ شَیْ ئٍ عِلْمًاط } (آیت۸۵)’’اورمیرا ربّ علم کے اعتبار سے ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ‘‘سورۃ المومن میں حاملین ِعرش کی دعا کے الفاظ نقل ہوئے:{ رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا} (آیت۷)’’اے ہمارے پروردگار! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ ‘‘ سورۃ الاعراف میں ارشاد ہوتا ہے:{وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍ ط} (آیت۱۵۶)’’اور میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ واسع ہے لیکن اپنے بندوں کو ان کی وسعت و طاقت سے بڑھ کر کوئی حکم اور آزمائش نہیں دیتا۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایا:{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط} (آیت۲۸۶) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق ۔ ‘‘ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوتا ہے: { اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۱۱۵)} ’’یقیناً اللہ بہت وسعت والا‘ سب کچھ جاننے والاہے۔ ‘‘رسول اللہﷺ کی ایک دعا یوں نقل ہوئی ہے : ((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذَنْبِیْ وَوَسِّعْ لِیْ فِیْ دَارِیْ وَ بَارِکْ لِیْ فِیْ رِزْقِیْ))(رواہ احمد) ’’یااللہ! میرے گناہوں کو بخش دیجیے‘ اور میرے گھر میں کشادگی کر دیجیے ‘اور میری روزی میں برکت عطا فرمایئے۔‘‘
(۳۹) اَلْحَکِیْمُ
اَلْحَکِیْم (حکمت والا)‘وہ ذات جس کی حکمت کی کوئی حد نہیں ہے‘ اس لیے کہ اس ذات کا عمل ہر شے پر حاوی اور محیط ہے‘ اس کے علم اور حکمت کو زوال نہیں ہے اور وہ ہر شے کے اسرار و رموز سے واقف ہے۔ امام راغب اصفہانی کے بقول یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی تمام اشیاء کی مکمل معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں۔ابن اثیر نے اسم حکیم کو حکم اور حکمت سے مشتق بتایا ہے۔البتہ حکیم کا حکمت سے مشتق ہونا سب کے نزدیک مسلّم ہے۔ حکمت‘ اعمال میں افضلیت اور افعال میں احسنیت کے علم کو کہتے ہیں۔ حکمت‘ ان غایات حمیدہ کا نام ہے جو سلسلہ تکوین میں ملحوظ ہیں ۔ حکمت‘ ان مصالح کلیہ کا نام ہے جو نظامِ عالم کا قوام ہیں۔ حکمت کا مفہوم یہ ہے کہ افضل العلوم سے افضل الاشیاءکو معلوم کیا جائے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:{ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱۲۹)} ’’اور اے ہمارے پروردگار! ان لوگوں میں اٹھائیو ایک رسول خود انہی میں سے جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائےاور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دےاور ان کو پاک کرے۔ یقیناً تُو ہی ہے زبردست اور کمال حکمت والا۔‘‘سورۃ البقرۃ ہی میں فرمایا:{ یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط } (آیت۲۶۹) ’’وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے۔ اور جسے حکمت دے دی گئی اسے تو خیر کثیر عطا ہو گیا ۔ ‘‘سورئہ صٓ میں فرمایا:{وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ(۲۰) }  ’’اور ہم نے اُس (دائودؑ)کی حکومت کو خوب مضبوط کیا تھا‘اور ہم نے اُسے حکمت عطا کی تھی اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بھی۔‘‘سورۃالنحل میں فرمایا:{ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ} (آیت۱۲۶)’’آپؐ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ ۔ ‘‘
حکمت کی تفسیر میں اقوالِ ائمہ دین کا خلاصہ یوں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حکمت کے معنیٰ علم القرآن بتلائے ہیں‘ یعنی ناسخ و منسوخ‘ محکم و متشابہ‘ مقدم و مؤخر اور حلال و حرام وغیرہ کی شناخت۔ امام مجاہدؒ نے اس کےمعنی قرآن‘ علم اور فقہ بتلائے۔امام نخعی ؒکے مطابق حکمت معانی الاشیاء اور فہم معانی کا نام ہے۔ امام حسن بصریؒ کا قول ہے کہ دین ِالٰہی میں روح کا نام حکمت ہے۔ امام شافعیؒ کا کہنا ہےکہ جن آیاتِ قرآنی میں کتاب کے ساتھ حکمت کا لفظ آیا ہے‘ وہاں اس سے مراد حدیث اور سُنّت ِنبوی ؐہے۔ امام مالکؒ کا قول ہے کہ حق کی شناخت اور عمل برحق کا نام حکمت ہے۔ گویا حکمت خیر ِکثیر ہے‘ حکمت بصیرتِ قلب ہے‘ حکمت حقیقت ِفطرت ہے اور حکمت غایت ِخلقت ہے ۔لہٰذا حکیم مطلق (اللہ تعالیٰ) ہی کے حکم سے ایمانِ حقیقی والا قلب ان مراتب کو حاصل کر سکتا ہے۔ اسی لیے عربی میں مشہور عام ہے : فِعْلُ الْحَکِیْمِ لَا یَخْلُو عَنِ الْحِکْمَۃِ ’’حکمت والے (حکیم) کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((لَا حَسَدَ اِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: ‏‏‏‏‏‏رَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ آتَاهُ اللّٰهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا))’’قابلِ رشک صر ف دو شخص ہیں: ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے راہِ حق میں خرچ کرنے کی توفیق دی‘ دوسرے وہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکمت دی اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا اور دوسروں کو تعلیم دیتاہے۔‘‘
(۴۰) اَلْوَدُوْدُ
اَلْوَدُوْدُ :بڑی محبت کرنے والی ذات۔ وداد کا درجہ محبت سے اعلیٰ ہے ۔ وداد کے معنیٰ محبت کی صفائی اور اونچائی ہے۔ محبت کے لب اور خلاصہ کا نام وداد ہے۔ یہ محبت کا وہ درجہ ہے جو اخلاص سے حاصل ہوتا ہے اور اغراض کے دھوکے کے شائبہ سے بھی پاک ہے۔ ودود کے معنی مودودکے بھی ہیں‘ یعنی وہ ذات جس سے محبت کی جائے‘ جس کو دل کا نقد نذرانہ پیش کردیا جائے اور اس سے محبت کا شدید تعلق پیدا کیا جائے۔ اسی طرح ودود کے معنی وَادَّ کے بھی ہیں یعنی وہ ذات جو ہم سے محبت کرتی ہے۔ امام بخاریؒ نے اپنی الجامع الصحیح میں ہر دو معانی کے اعتبار سے ودودکا ترجمہ حبیب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ بابرکت ذات ہے جو اپنے بندوں سے خود بھی محبت کرتا ہے اور اس کے بندے بھی اس سے محبت کرتے ہیں‘ یعنی محبت کا وجود ہر دو جانب محقق و مسلّم ہے۔ سورۃ المائدۃ(آیت۵۴ )میں اسی حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ } ’’جنہیںاللہ محبوب رکھے گا اوروہ اُسے محبوب رکھیں گے۔ ‘‘حضرت شعیب علیہ السلام کی زبانی سورئہ ہود میں ارشاد ہوتا ہے:{وَاسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ ط اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(۹۰) } (آیت۹۰) ’’اور استغفار کرو اپنے رب سے ‘پھر اُس کی طرف رجوع کرو۔یقیناً میرا رب رحیم بھی ہے‘محبّت فرمانے والا بھی۔ ‘‘سورئہ مریم میں فرمایا:{اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(۹۶) } ’’یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ عنقریب ان کے لیے رحمٰن (لوگوں کے دلوں میں) محبّت پیدا کر دے گا۔ ‘‘
پروردگار سراپا محبت تو ہے ہی لیکن اُس ذات کا وَدُود ہونا اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اول تو وِدَاد کا درجہ محبت سے بڑھ کرہے‘ پھر ربّ کائنات نے اس صیغہ کے اسم مبالغہ کو اپنے لیے پسند فرمایا۔ اس سے بڑھ کر وُدّ اور سراپا محبت کو اپنے بندوں کے لیے خاص فرما دیا۔رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ حضرت دائود علیہ السلام کی ایک دعا یہ تھی : ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبّکَ وَحُبَّ مَن یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ))(رواہ الترمذی) ’’اے اللہ! میں آپ سے آپ کی محبت مانگتا ہوں‘ اور جو کوئی آپ سے محبت کرتا ہے‘ اس کی بھی محبت میں مانگتا ہوں‘ اور اس عمل کی محبت بھی مانگتا ہوں جو مجھے آپ کی محبت سے قریب اور نزدیک کر دے۔‘‘
(۴۱) اَلْمَجِیْدُ
مجد‘ پایۂ بلند‘ مرتبہ عالی‘شرفِ واسع‘ شرفِ نسب اور شرفِ افعال کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ مجید وہ ہے جس ذات میں درج بالا صفات پائی جائیں۔ مجید وہ ہستی ہے جس میں مجد نفسی‘ شرفِ ذاتی‘ سلامت ِافعال‘ کرامت ِافضال‘ جزالت ِعطا اور کثرتِ نوال پائی جائے۔ ’المجید‘ وہ ذات جو انتہائی عزت و شرف کی مالک ہو‘جو تمام موجودات میں سب سے بلند تر اور بلند قدر ہو‘ جس ہستی کی ذات شریف ترین‘ افعال پسندیدہ ترین اور اس کی عطا گراں قدر ہو۔ المجید (شرف و بزرگی‘ خوبیوں اور شان والا)‘ ربّ العز ّت کے علاوہ اور کوئی ذات ہو ہی نہیں سکتی جس میں کہ مندرجہ بالا خوبیاں پائی جاتی ہوں۔سورئہ ہود میں فرمایا:{ اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ(۷۳)} ’’یقیناً اللہ لائق ِحمد اور بزرگی والا ہے۔ ‘‘سورۃ البروج میں فرمایا:{ وَہُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ(۱۴) ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیْدُ(۱۵) } ’’اور وہ بخشنے والا بھی ہے‘ محبّت کرنے والا بھی ہے۔عرش کا مالک ہے‘ بڑی شان والا ہے۔ ‘‘سورئہ قٓمیں ارشاد ہوتا ہے: {قٓ قف وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ (۱) } ’’ق‘ قسم ہے عظیم الشان قرآن کی۔ ‘‘
(۴۲) الشَّھِیْدُ
شہادت عربی میں درست آگاہی‘ خبر قاطع‘ بیان صحیح‘ گواہی اور خدا کی راہ میں قربان ہونے کو کہتے ہیں۔ مجاہدؒ نے شَہِدَ کے معنی حکم و قضا بیان کیے ہیں۔ زجاج نے بَیَّن بتلائے اور دیگر علماء کا قول اَعْلَمَ وَاَخْبَرَ کا ہے۔ گویا ان آراء سے واضح ہوتا ہے کہ شہاد ت حکم و قضا اور اعلام و بیان و اخبار کا نام ہے۔ اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ کا اسم پاک الشَّہِید ہے۔ سورئہ آلِ عمران کی آیات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:{ شَہِدَ اللہُ اَنَّــہٗ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَلا وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَــآئِمًا بِالْقِسْطِ ط لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱۸)} ’’اللہ خود گواہ ہے کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور سارے فرشتے (گواہ ہیں) اور اہل علم بھی (اس پر گواہ ہیں)‘ وہ عدل وقسط کا قائم کرنے والا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ زبردست ہے‘ کمال حکمت والا ہے ۔ ‘‘{قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ(۸۱)} ’’اللہ تعالیٰ نے کہا:اچھا اب تم بھی گواہ رہو اور مَیں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔ ‘‘سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے: {یٰٓــایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج } (آیت۱۳۵)’’اے اہل ِایمان!کھڑے ہوجائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر خواہ یہ (انصاف کی بات اورشہادت) تمہارے اپنے خلاف ہو یا تمہارے والدین کے یا تمہارے قرابت ‘داروں کے۔ ‘‘
اللہ عزوجل‘ الشَّھِید ہے‘ کیونکہ اپنی مخلوقات کے ساتھ ہر جگہ اور ہر لمحہ موجود ہے۔ شہید کے معنی حاضر رہنے والا اور گواہی دینے والا بھی لیے جاتے ہیں۔ سورۃ المائدۃ میں فرمایا: {وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَہِیْدٌ (۱۱۷) } ’’اور یقیناً تُو ہر چیز پر گواہ ہے ۔ ‘‘سورۃ الزخرف میں فرمایا:{ وَلَا یَمْلِکُ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ(۸۶)} ’’اور کوئی اختیار نہیں رکھتے کسی بھی شفاعت کا جن کو یہ پکاررہے ہیں اللہ کے سوا‘سوائے اُس کے کہ جو حق کی گواہی دیں اور وہ جانتے ہوں۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کا اسم پاک ’الشَّہِید‘ اس لیے ہے کہ شہود اسی ذات کو حاصل ہے اور اس لحاظ سے شہید بمعنی حاضر وناظر ہے۔ اللہ تعالیٰ ’شہید‘ ہے کہ اس نے علوم معرفت اور اسرار حقیقت کا اعلام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ شہید ہے کہ عالَم (کائنات) کی کوئی شے‘ کوئی سکون‘ کوئی حرکت اس کی شہادت سے باہر نہیں۔ سورئہ سبا میں ارشاد ہوتا ہے:{ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ شَہِیْدٌ(۴۷)} ’’اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ ‘‘
(جاری ہے)