(عرض احوال) وَیْلٌ لِّلْعَرَب! - ادارہ

9 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ

تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسراراحمد رحمہ اللہ مشرق ِوسطیٰ کے حالات کے تناظر میں اکثر بخاری شریف کی یہ حدیث سنایا کرتے تھے : 
((وَيْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ))
’’عنقریب عربوں کے لیے بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اُس آفت کی وجہ سے جو اُن کے سروں پر آن پہنچی ہے ۔‘‘
ڈاکٹر اسراراحمدؒ جب یہ حدیث بڑے شدّومدّ کے ساتھ سنایا کرتے تھے تو اُس وقت بہت سے لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ عرب پر کیسے کوئی تباہی آسکتی ہے ۔خود عرب ممالک بھی اسرائیل سے دوستانہ تعلقات بڑھا نے میں پُرجوش تھےجبکہ بعض عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم بھی کر چکے تھے اور ان کو یہ زعم تھا کہ اب نہ تو ہمارے اقتدار کوزوال ہے اور نہ ہی ہماری ریاستی سلامتی کو کوئی خطرہ ۔ مگر اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی باتیں سچ ثابت ہوتی نظر آرہی ہیں ۔ جنوری ۲۰۲۵ء میں اسرائیل کے آفیشل سوشل میڈیا نے گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ جاری کیا جس میں فلسطین‘ شام ‘ لبنان اور اردن کے علاقے شامل ہیں۔ اِس پرسعودی عرب ‘ قطر ‘ اُردن ‘ فلسطینی اتھارٹی اور متحدہ عرب امارات نے شدید احتجاج کیا اور اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ریاستوں کی خود مختاری اور عالمی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا ۔سعودی وزارت خارجہ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ خطے کے ممالک اور عوام کے خلاف اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی قبضے کی پالیسیاں‘ غیر قانونی آباد کاروں کی پیش قدمی اور مسجد الاقصیٰ کے احاطے پر مسلسل حملے اس بات کے متقاضی ہیں کہ فلسطینی عوام کو جنگ اور تباہی کا نشانہ بننے سے روکنے کے لیے فوری طور پرایک بین الاقوامی موقف اختیار کیا جائے۔متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے اس اسرائیلی اقدام کوقبضے کو وسعت دینے کی دانستہ کوشش اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے واضح طور پر مسترد کرنے پر زور دیا۔
اسرائیلی آفیشل سوشل میڈیا نے گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ جاری کیا ہے اُس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ فیز ون یعنی پہلا مرحلہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد فیز ٹو یعنی دوسرا مرحلہ بھی ان کی منصوبہ بندی میں شامل ہو گا جس کا اظہار اکثر اسرائیلی حکام کے بیانات میں ہوتا رہا ہے ۔ ایریل شیرون نے کہا تھا کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا سارا علاقہ گریٹر اسرائیل بنےگا۔ بعض اسرائیلی اس میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کو بھی شامل کرتے ہیں(معاذاللہ) جوکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات ہیں ۔ یہ اسرائیلی عزائم پورے عالم ِاسلام کے لیے انتہائی خطرے اور تشویش کی علامت ہیں‘ لیکن حیرت انگیز طور پر مسلمان اِس عظیم خطرے سے نمٹنے کی بجائے نہ صرف غفلت کا شکار ہیں بلکہ اکثر مسلم حکمران دانستہ و غیر دانستہ طور پر مغربی ایجنڈے کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مسلم ممالک کی خودمختاری اور سالمیت کے خلاف اسرائیل کے اِن کھلم کھلا عزائم اور مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف پورا عالم ِاسلام متحد ہو کر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرتا اور مسلم ممالک کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے مشترکہ لائحۂ عمل تیار کیا جاتا۔ بجائے اس کے ۴۷ مسلم ممالک کےحکام نے اسلام آباد میں منعقدہ مشترکہ کانفرنس میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کے نظامِ تعلیم کو نشانہ بنانا ضروری سمجھا اور ’’لڑکیوں کی تعلیم‘‘ کے نام پر مادر پدر آزاد مغربی معاشرت کو مسلم معاشروں میں رائج اور نافذ کرنے پر زور دیا گیا ۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒاپنے دروسِ قرآن میں بھی اور بانی تنظیم اسلامی کی حیثیت سے بھی شروع دن سے ہی یہ کہتے آئے کہ جو عرب ممالک فلسطینیوں کی نسل کشی اور ان پر اسرائیلی مظالم سے نظریں چرا کر اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے کے خواہش مند ہیں‘ جلد یا بدیر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جارحانہ ہاتھ ان کے گریبانوں تک بھی پہنچیں گے۔ انہوں نے اپنی تقریروں اور تحریروں  میں ہمیشہ عرب ممالک کے حکمرانوں اور عوام کو اس حوالے سے جگانے کی کوشش کی۔ ہم جانتے ہیں کہ آج عرب ممالک اسرائیلی عزائم کے خلاف جو احتجاج اور مذمت کررہے ہیں اس سے کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔ تاہم ان ممالک کو کم از کم یہ احساس تو ہوا کہ ان کی سالمیت خطرے میں ہے ۔ اگر اب تک یہ اسرائیل کے حوالے سے کسی فریب کا شکار تھے تو اب ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہےکہ مذمت اوراحتجاج سے آگے بڑھ کر اپنی بقا اور سالمیت کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں ۔ امریکہ اور مغرب پر انحصار کی بجائے اپنے بازؤوں میں دم پیدا کریں اور کھل کر اہل ِ غزہ اور حماس کی مدد اور حمایت کریں ۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران کہا تھا کہ مسلم ممالک کو مل کر نیٹو کے طرز پر اپنا عسکری اتحاد بنانا چاہیے۔ ۳۴ عرب ممالک کی جو مشترکہ فوج بنائی گئی تھی وہ اس وقت کہاں ہے ؟ اب تک اس کا کوئی کردار سامنے کیوں نہیں آیا اور کیا مستقبل میں مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اس کا کوئی کردار ہوگا ؟ اس حوالے سے بھی عرب ممالک کو سوچنا چاہیے ۔ اسرائیلی ذرائع نے گریٹر اسرائیل کے فیز ون کا نقشہ جاری کرکے عرب ممالک کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اپنے جارحانہ اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹے گا‘ لہٰذا عرب ممالک کو بھی ہنگامی بنیادوں پر اپنے دفاع کا انتظام کرنا چاہیے ۔
اسرائیلی عزائم کے نتیجہ میں عالم ِاسلام کے مرکز حرمین شریفین کی سلامتی اگر خطرے میں پڑتی ہے تو یہ پورے عالم اسلام کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگا ۔ اسرائیل اور اس کی پشت پناہ قوتیں یہ جانتی ہیںکہ اس صورت میں پاکستان بھی کسی صورت پیچھے نہیں رہے گا۔ چونکہ وہ پاکستان پر براہِ راست حملہ نہیں کر سکتےاس لیے اس کی میزائل ٹیکنالوجی پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں ۔ پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے تمام ذرائع اور حربے استعمال کر رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انتشار پھیلایا جارہا ہے ۔ افواجِ پاکستان اور عوام کے درمیان نفرت کی خلیج بڑھائی جارہی ہے ۔ ان کی کوشش ہو گی کہ معاشی طور پر پاکستان کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ آخر کار وہ اپنی ایٹمی صلاحیت کو رول بیک کرنے پر مجبور ہو جائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے میزائلوں  کی رینج اسرائیل تک نہیں ہے‘ اور اگر ہو بھی تو راستے میں پانچ مقامات پر ان کو مارگرایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا پڑوسی بھارت اسرائیل کا فطری اتحادی ہے‘ اس لیے پاکستان کے خلاف یہ سب اقدامات اُٹھائےجا رہے ہیں ۔ دوسری جانب پاکستان کے حکمرانوں ‘ سیاست دانوں ‘ عسکری قیادت اور دیگر مقتدر حلقوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ممالک کی سالمیت اور خود مختاری کی اگر اسرائیلی عزائم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تو وہ پاکستان کا بھی کسی صورت میں کوئی لحاظ نہیں کرے گا ۔ لہٰذا ہماری سیاسی اور عسکری قیادتوں کو چاہیے کہ وہ امریکی مفادات کا تحفظ کرنے اور مغرب کے CEDAWجیسے ایجنڈوں کا تحفظ کرنے کی بجائے اپنی ملکی سلامتی اور بقا کے تحفظ کو ترجیح اول بنائیں ۔ خاص طور پر جس نظریہ کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ عربوں کے لیےوَيْلٌ لِلْعَرَبِ کی بات کرتے تھے کہ قرآن عربوں کی زبان میں نازل ہوا تھا‘ بجائے اس کے کہ وہ قرآن کے پیغام کو دنیا تک پہنچاتے اور اس کے نظام کو قائم کرکے دنیا کو ایک نمونہ دکھاتے ‘ وہ نیشنل ازم اور سیکولرازم جیسے مغربی مکرو فریب کا شکار ہوگئے ۔ ان میں سے بعض نے خلافت کے خاتمے میں بھی مغرب کا ساتھ دیا۔ ڈاکٹر صاحبؒ پاکستان کے حوالے سے بھی خبردار کرتے تھے کہ عربوں کے بعد سب سے بڑی تباہی پاکستان کی ہوگی کیونکہ یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر لیا اور پھر مسلسل اسلام سے سرکشی اور بغاوت کے راستے پرڈٹ گئے ۔ اس وعدہ خلافی اور دین سے بے وفائی کا نتیجہ بہت بڑی تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے ۔ اسلام سے دُوری نسلی ‘ لسانی اور جغرافیائی بنیادوں پر ہمیں تقسیم کر کے کمزور کردے گی ۔ ہمارے حکمران محض امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے امارتِ اسلامیہ افغانستان سے جنگ اور محاذ آرائی سے باز رہیں ۔ آپس کی اس جنگ میں کودنے سے فائدہ صرف اسرائیل اور امریکہ کو پہنچےگا۔ پاکستان کے حصے میں صرف نقصان آئے گا اور شاید ہم ۱۹۷۱ء سے بھی بد تر حالات سے دوچار ہوجائیں ۔ ان حالات میں جبکہ پورا عالم ِ کفر مسلمانوں کے خلاف متحد ہورہا ہے اور گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کر رہا ہے ‘ ہمیں اپنے پڑوسی مسلم ممالک سے محاذ آرائی اور جنگ چھیڑنے کی حماقت ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ ان حالات میں ہمیں آپس کے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہیے تاکہ عالم اسلام کے خلاف متحد ہونے والی طاغوتی قوتوں سے خطرے کی صورت میں ایک دوسرے کے دست و بازو بن کر ان کا مقابلہ کر سکیں ۔
آج پورے عالم اسلام کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ خلافت کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں کی آپس کی تقسیم اور لڑائیوں نے صرف اور صرف اسرائیل کو فائدہ پہنچایا ہے ۔ عرب نیشنل ازم کے جھانسے میں آکر جو ممالک خلافت ِعثمانیہ کے خلاف مغربی قوتوں کے آلہ ٔ کار بنے‘آج ان پر واضح  ہو جانا چاہیے کہ نیشنل ازم محض دھوکا اور فریب تھا ۔ یہ اُمّت کوتقسیم کرکے اس کے سینے میں اسرائیل جیسے زہریلے نشتر کو پیوست کرنے کی صہیونی سازش تھی ۔اُمّت ِمسلمہ کو تقسیم کر کے جو قومی ریاستیں بنائی گئیں اُن کا فائدہ باطل قوتوں کو ہی ہورہا ہے کیونکہ وہ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولے پر گامزن ہیں ۔اس سے سبق سیکھتے ہوئے پورے عالم اسلام کو مغرب کے پھیلائے ہوئے نیشنل ازم ‘ سیکولر ازم اور لبرل ازم جیسے فریبوں سے نکل آنا چاہیے اور متحد ہو کر خلافت کے نظام کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش اور جدّوجُہد شروع کرنی چاہیے ۔ ایک نمائندہ مثالی اسلامی فلاحی مملکت ہی عالم ِ اسلام کے مسائل کا اصل حل ہے کیونکہ طاغوتی قوتوں کا اصل خواب یہی تھا کہ خلافت کا نظام کبھی قائم نہ ہو ۔ جب ایسا نظام قائم ہو گا تو وہ باطل کے تمام حربوں کا توڑ ہوگا ۔بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کے اندر ایمانی تحریک پیدا ہو ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانانِ  پاکستان سمیت اُمّت ِمسلمہ کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین !