سُوْرَۃُ الْکٰفِرُوْنَتمہیدی کلمات
سورۃ الکافرون گویاحضورﷺ کا اُن لوگوں سے اعلانِ براء ت ہے جن پر ہر لحاظ سے ’’حق‘‘ واضح ہو چکا تھا اور وہ اس اتمامِ حُجّت کے باوجود بھی آپؐ کو جھٹلانے پر تلے ہوئے تھے ۔ یہ موڑ ہر رسول ؑکی دعوت کے سفر کے دوران آتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسے اعلان کا انداز ناصحانہ یا واعظانہ نہیں بلکہ جارحانہ ہوتا ہے۔یہ سورئہ مبارکہ مکّہ مکرمہ کے اُس دور میں نازل ہوئی جب قریش ِ ِمکّہ وقتاً فوقتاً رسول اللہﷺ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے‘ تاکہ آپؐ ان میں سے کسی ایک کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہو جائے جو آپؐ کے اور اُن کے مابین پیدا ہو چکاتھا۔ اس پر یہ سورئہ مبارکہ نازل ہوئی جس نے کُفّارِ مکّہ کی ساری اُمیدوں کو خاک میں ملادیا اور انہیں ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیا۔
آیت ۱{قُلْ یٰٓــاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ(۱)} ’’(اے نبیﷺ ) آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو!‘‘
نوٹ کیجیے! یہ داعیانہ طرزِ تخاطب نہیں ہے ‘بلکہ لاتعلق اور علیحدہ ہونے کا انداز ہے۔ ظاہر ہے ایک داعی تو اپنے مخاطبین کو یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ کہہ کر پکارتا ہے ‘کہ اے اللہ کے بندو! میری بات سنو! گویا کلمہ ٔتخاطب میں ہی مفہوم واضح کر دیاگیا کہ اگر میری تمام تر ناصحانہ کوششوں کے باوجود بھی تم لوگوں نے کفر و انکار پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو تمہارا یہ فیصلہ اور طرزِعمل تمہیں مبارک ہو۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے بعد اب میری اور تمہاری راہیں جدا ہو چکی ہیں۔
آیت۲{لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ(۲)}’’مَیں اُن کو ہرگز نہیں پوجتا جن کو تم پوجتے ہو۔‘‘
آیت ۳{وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ(۳)} ’’اور نہ تم پوجنے والے ہو اُسے جسے مَیں پوجتا ہوں۔‘‘
اس آیت میں ان کے تمام معبودوں کی نفی کر دی گئی ہے۔ وہ لوگ اللہ کی پرستش تو کرتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے دیوی دیوتائوں کی پوجا کے بھی قائل تھے۔ اس پس منظر میں ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ جس طرح مَیں خالص اللہ کی بندگی کرتا ہوں‘ اس طرح تم لوگ صرف اور صرف اُس کی پرستش نہیں کرتے ہو۔ چنانچہ تمہاری اس انداز کی پرستش تمہارے اپنے خود ساختہ معبودوں کی پرستش تو ہو سکتی ہے ‘ایک اللہ کی پرستش نہیں ہو سکتی۔
آیت۴{وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ(۴)}’’اور نہ ہی مَیں آئندہ کبھی پوجنے والا ہوں اُن کو جن کی تم پرستش کر رہے ہو۔‘‘
ان آیات میں بظاہر تکرار نظر آتی ہے‘ لیکن درحقیقت اس اسلوب میں ماضی‘ حال اور مستقبل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یعنی نہ مَیں نے زمانہ ماضی میں کبھی تمہارے معبودانِ باطل کی پرستش کی اور نہ آئندہ کبھی تم مجھ سے اس کی توقع کر سکتے ہو۔
آیت ۵{وَلَآ اَنْـتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ(۵)} ’’اور نہ تم پُوجنے والے ہو اُس کو جس کومَیں پُوج رہا ہوں۔‘‘
آیت۶{لَـکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ(۶)}’’اب تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
اب میرا تمہارا تعلق ختم۔ تم لوگ جس راستے پر جا رہے ہو تمہیں وہ راستہ مبارک ہو۔تم اپنے حال میں مست رہو‘ مَیں اپنے دین ِ حق پر ثابت قدم ہوں۔ حق و باطل کا یہ معرکہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ کر رہے گا اور تم دیکھو گے کہ جلد ہی جزیرئہ عرب پر دین ِاسلام غالب آکر رہے گا۔
سُوْرَۃُ النَّصْرِ
تمہیدی کلمات
سورۃ النصر کے بارے میں اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ مدنی ہے‘لیکن میری تحقیق کے مطابق یہ سورت ابتدائی مکّی دور میں نازل ہوئی اور اس میں حضورﷺ کو خوشخبری سنائی گئی کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے آپؐ اپنے مشن میں کامیاب ہو جائیں گے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ اس مفہوم میں میرے نزدیک اس سورت کے مضمون کا سورۃ الانشراح کی ان آیات سے گہرا تعلق ہے:{فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ(۷) وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ(۸)} ’’پھر جب آپؐ فارغ ہو جائیں تو خوب محنت کیجیے اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جایئے‘‘۔بلکہ اس سورت کی آخری آیت کے الفاظ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط} تو سورۃ الانشراح کی مذکورہ آیات کے مضمون کا تسلسل محسوس ہوتے ہیں۔
[سورۃ النصر کے زمانۂ نزول کے بارے میں مفسرین نے مختلف آراء نقل کی ہیں۔ ایک یہ کہ فتح مکّہ کے بعد نازل ہونے والی سورتوں میں یہ سب سے آخری سورت ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ فتح مکّہ سے پہلے اس کی بشارت کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ بعض روایات میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ بیان نقل ہوا ہے کہ یہ قرآن مجید کی آخری سورت ہے‘ یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورت رسول اللہﷺ پر نازل نہیں ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول روایت کے مطابق یہ سورت حجۃ الوداع کے موقع پر ایامِ تشریق کے وسط میں بمقام منیٰ نازل ہوئی اور اس کے بعد حضورﷺ نے اونٹنی پر سوار ہو کر اپنا مشہور خطبہ (خطبہ ٔحجۃ الوداع) دیا۔ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو حضورﷺنے فرمایا کہ مجھے میری وفات کی خبر دے دی گئی ہے۔حضرت عبداللہ بن عباسؓسے یہ بھی مروی ہے کہ اس میں حضورﷺ کو خبر دی گئی ہے کہ جب اللہ کی نصرت آ جائے اور فتح نصیب ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپؐ کا وقت آن پورا ہوا۔ اس کے بعد آپﷺ اللہ کی حمد اور استغفار کریں۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ابن عباسؓ کے اس قول کی تائید منقول ہے۔ (حاشیہ از مرتّب)]
واضح رہے کہ قرآن مجید کے مختلف مصاحف میں کسی سورت کے بارے میں مکّی یا مدنی لکھا ہونا حرفِ آخر نہیں ہوتا۔دراصل طویل سورتوں کے زمانۂ نزول کے بارے میں تو تیقن کے ساتھ معلوم ہے کہ یہ مکّی ہیں یا مدنی‘ چنانچہ ان کے بارے میں مفسرین کا اجماع ہے ‘ جبکہ چھوٹی سورتوں میں سے اکثر کے زمانۂ نزول سے متعلق تفاسیر میں بہت سے اقوال ملتے ہیں۔
آیت ۱{اِذَا جَآئَ نَصْرُاللہِ وَالْفَتْحُ(۱)} ’’جب آ جائے مدد اللہ کی اور فتح نصیب ہو۔‘‘
آیت۲{وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(۲)}’’اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
آیت ۳{فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ط} ’’تو پھر آپؐ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کیجیے‘ اور اُس سے مغفرت طلب کیجیے۔‘‘
{اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا(۳)} ’’ یقیناًوہ بہت توبہ قبول فرمانے والا ہے۔‘‘
یعنی ابھی تو آپؐ کو دعوت و تبلیغ اور فریضہ ٔرسالت کے سلسلے میں بہت سی مشقتیں اٹھانی ہیں اور جنگ و قتال کے مراحل سے گزرنا ہے ‘لیکن جب آپؐ اپنے مشن میں کامیاب ہو جائیں یعنی اللہ کا دین غالب ہو جائے تو آپ ؐہمہ وقت ‘ ہمہ تن اپنے رب کی تسبیح و تحمید میں مشغول ہو جایئے گا۔ نوٹ کیجیے !سورۃ الانشراح کی آخری آیات میں بھی اسی اسلوب و انداز میں بالکل ایسا ہی حکم دیا گیا ہے۔
سُوْرَۃُ اللَّھَبِتمہیدی کلمات
حضورﷺ اپنی بعثت کے بعد تقریباً تین سال تک دعوت و تبلیغ کا فریضہ زیادہ تر ذاتی سطح کی انفرادی ملاقاتوں (PP calls) کے ذریعے سرانجام دیتے رہے۔ اسی دوران آپؐ نے اپنے خاندان یعنی بنوہاشم کے لوگوں کو دعوت کی غرض سے دو مرتبہ کھانے پر مدعو کیا۔ بعض مستشرقین نے آپؐ کے اس دور کے دعوتی رابطوں کو زیرزمین (under ground) سرگرمیوں کا نام دیا ہے جو کہ بالکل خلافِ حقیقت بات ہے‘ البتہ اسے دھیمے انداز کی (low key) دعوت کہا جاسکتا ہے۔
بہرحال جب سورۃ الحجر کی آیت {فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ(۹۴)} کے ذریعے آپؐ کو حکم ملا کہ آپؐ اپنی دعوت کو ڈنکے کی چوٹ عام کریں تو آپؐ نے قریش ِمکّہ کو کھلے عام دعوت دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے لیے آپﷺ نے معاشرے کے عام رواج کے مطابق ایک دن کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر وَاصَبَاحَاہ کا نعرہ بلند کیا۔اس زمانے میں دستور تھا کہ اگر کوئی شخص لوگوں کو کسی اہم خبر سے متنبہ کرنا چاہتا تو وہ برہنہ حالت میں کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر وَاصَبَاحَاہ کی آواز بلند کرتا۔ عرب میں یہ نعرہ خطرے کا الارم سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ جو کوئی بھی اُسے اس حالت میں دیکھتا یا اس کی آواز سنتا وہ اس کی بات سننے کے لیے فوراً اس کی طرف دوڑ پڑتا۔اُس زمانے میں زیادہ تر خبریں مخالف قبیلوں کے حملوں وغیرہ کے بارے میں ہوتی تھیں‘ اس حوالے سے کلمہ وَاصَبَاحَاہ کامفہوم یہ تھا کہ کل تم لوگ بہت بُری صبح کا سامنا کرنے جا رہے ہو۔ ( اُس زمانے میں یہ گویا ہنگامی پریس کانفرنس کا ایک انداز تھا۔) چنانچہ حضورﷺ نے اسی رواج پر جزوی انداز سے عمل کرتے ہوئے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر وَاصَبَاحَاہ کے اعلان سے لوگوں کو اپنی طرف متوجّہ کیا ۔گویا آپؐ بھی ان لوگوں کو ایک بھیانک صبح کی خبر دینے والے تھے‘ اگرچہ یہ خبر اگلے دن کی معمول کی صبح کی نہیں تھی بلکہ صبح قیامت سے متعلق تھی : ؎
بات کوئی تو ہنسی کی نکلے
خندئہ صبح قیامت ہی سہی!بہرحال جب قریش کے لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے انہیں مخاطب کر کے انذارِ آخرت کے بارے میں ایک مدلل و مؤثر خطبہ ارشاد فرمایا۔ ابولہب آپؐ کے گھر کھانے کی دعوت میں آپؐ کی یہ باتیں پہلے بھی سن چکا تھا۔اس نے اس موقع پر انتہائی گستاخانہ انداز میں کہا: تَبًّا لَکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا؟ کہ تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں (معاذاللہ! نقل کفر کفر نباشد) تم نے صرف اس بات کے لیے ہمیں بلایا تھا؟ چنانچہ اُس کے اس رویے اور اس جملے کے جواب میں یہ سور ت نازل ہوئی اور اسے ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا کہ ہاتھ تو دراصل تمہارے ٹوٹے ہیں اور تم اپنی بیوی سمیت دہکتی آگ کے گڑھے میں بھی گر چکے ہو۔
اپنے مضمون کے اعتبار سے اس سورت کا انداز سورۃ الکوثر کی آخری آیت {اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْاَبْـتَرُ(۳)} سے ملتاجلتاہے۔ سورۃ الکوثر کی اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے دشمنوں کے گستاخانہ فقروں کاجواب خود دیا تھا اور ان پر واضح کر دیا تھا کہ ’’ابتر‘‘ تو حقیقت میں تم لوگ ہواور تمہارے بعد دنیا میں تمہارا کوئی نام لیوا نہیں ہو گا۔
آیت ۱{تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ(۱)}’’ٹوٹ گئے ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ و برباد ہو گیا۔‘‘
آیت۲{مَـآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ(۲)}’’کچھ کام نہ آیا اُس کے اُس کا یہ مال اور وہ کمائی جو اُس نے کی ہے۔‘‘
آیت ۳{سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ(۳)} ’’عنقریب وہ جھونکا جائے گا بھڑکتی ہوئی آگ میں۔‘‘
لَہَب کے معنی آگ کے شعلے اور انگارے کے ہیں۔ اس شخص کی کنیت(ابولہب) کے حوالے سے یہاں اس لفظ کا استعمال ’’صنعت ِ لفظی‘‘کی بہترین مثال ہے۔ اس کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا‘ لیکن اپنی سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے ’’ابولہب‘‘ (شعلہ رُو)کی کنیت سے مشہور تھا۔ ظاہری اعتبار سے ابولہب بہت وجیہہ اور خوبصورت شخص تھا ۔اس پس منظر میں اس آیت کے الفاظ گویا یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اس شخص کو سرخ و سفید رنگت اور خوبصورت شکل و صورت بھی ہم نے عطا کی ہے اور جہنّم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں بھی اسے ہم ہی جھونکیں گے۔
[قرآن مجید کا یہ واحد مقام ہے جہاں دشمنانِ اسلام میں سے کسی شخص کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے‘ حالانکہ مکّہ‘ مدینہ اور دیگر قبائل ِعرب میں حضورﷺ کے دشمنوں اور بدخواہوں کی کمی نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابولہب حضورﷺ کا حقیقی چچا اور قریب ترین ہمسایہ ہونے کے باوجود آپﷺ کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اس شخص نے اسلام کی دشمنی اور کفر کی محبّت میں صلہ رحمی اور خاندانی حمیت جیسی عرب روایات کا بھی کچھ پاس نہ کیا۔]
آیت۴{وَّامْرَاَتُہٗ ط}’’اور اُس کی بیوی بھی۔‘‘
ابولہب کی بیوی بھی حضورﷺ کی دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھی۔ اس کا نام اَرویٰ بنت حرب اور کنیت اُمّ جمیل تھی اور اس کے دل میں حضورﷺ کی عداوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔حضورﷺ کی دشمنی کے اعتبار سے ان دونوں کے بارے میں جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ میاں بیوی میں سے کون حضورﷺ کا بڑا دشمن تھا۔
قبل ازیں سورۃ التحریم کے آخری رکوع میں ہم خواتین کے کردار کی تین مثالوں کا مطالعہ کر چکے ہیں۔ پہلی مثال میں حضرت لوط اور حضرت نوح علیہماالسلام کی کافر بیویوں کا ذکر ہے۔ یہ بہترین شوہروں کے گھروں میں بدترین بیویوں کی مثال ہے۔ پھر فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ذکر گویا بدترین شوہر کے ہاں بہترین بیوی کی مثال ہے۔ اس کے بعد حضرت مریم سلامٌ علیہا کے حوالے سے ایک ایسی خاتون کی مثال بیان کی گئی ہے جو خود بھی نیک فطرت تھی اور حضرت زکریا علیہ السلام کی سرپرستی میں انہیں ماحول بھی ایسا ملا جو نیکی اور پاکیزگی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ تھا۔ گویا وہاں سورۃ التحریم میں خواتین کے حوالے سے تین قسم کی ممکنہ صورتوں کی مثالوں کا ذکر تو ہو چکا ہے‘جبکہ اس سلسلے کی چوتھی ممکنہ صورت کا ذکر یہاں اس سورت میں ہوا ہے‘ یعنی شوہر بھی بدترین اور بیوی بھی بدترین۔
{حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ(۴)}’’جو ایندھن اٹھانے والی ہو گی ۔‘‘
روایات میں چونکہ ذکر ملتا ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی بہت بخیل تھے ‘اس لیے بعض لوگوں نے ان الفاظ سے یہ سمجھا ہے کہ یہ عورت جنگل سے لکڑیاں چُن کر لایا کرتی تھی‘ حالانکہ یہ بات خلافِ عقل و قیاس ہے۔ ابولہب نہ صرف بہت مال دار تھا بلکہ معاشرتی لحاظ سے وہ اپنے زمانے کا بہت بڑا منصب دار بھی تھا۔ وہ حرم کے محکمہ مالیات کا انچارج تھا (اس حیثیت سے اس پر اگرچہ یہ الزام بھی تھا کہ اس نے حرم کے خزانے سے سونے کے دو ہرن چرالیے تھے)۔ چنانچہ یہ دونوں میاں بیوی اپنے معاشرے کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے تو معاشرے کی ایک وی آئی پی خاتون‘ بنوہاشم کے رئیس کی بیوی‘جسے گویا خاتونِ اوّل کا سا درجہ حاصل تھا‘کے بارے میں جنگل سے لکڑیاں چُن کر سرپر گٹھڑ لاد کر لانے والی بات بالکل قرین قیاس نہیں۔ چنانچہ اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اس عورت کی حرکتیں جہنّم کی آگ کا ایندھن اکٹھا کرنے اور اپنے شوہر کی آگ کو مزید بھڑکانے کے مترادف ہیں۔جب یہ اپنے شوہر کے ساتھ جہنّم میں جھونکی جائے گی اُس وقت اس کا حال اُس مجرم کا سا ہو گا جو اپنے جلانے کا ایندھن خود اُٹھائے ہوئے ہو۔
آیت ۵{فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ(۵)} ’’اُس کے گلے میں بٹی ہوئی رسّی ہو گی۔‘‘
آج یہ عورت اپنے گلے میں جوخوبصورت ہار پہنے پھرتی ہے کل آخرت میں یہی ہار اس کے گلے میں ایک مضبوط بٹی ہوئی رسّی کی صورت اختیار کرلے گاجیسی رسّی ایندھن ڈھوکرلانے والی لونڈیوں کے گلے میں پڑی ہوتی ہے۔ اس رسّی میں یہ اپنے اعمالِ بد کا ایندھن باندھ کر جہنّم میں لے جائے گی اور اپنی اور اپنے شوہر کی آگ کو مزید بھڑکائے گی۔مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے لکھا ہے کہ ’’شاید وہاں زقّوم اور ضریع کی (جو جہنّم کے خاردار درخت ہیں) لکڑیاں اٹھائے پھرے اور ان کے ذریعے سے اپنے شوہر پر عذابِ الٰہی کی آگ کو تیز کرتی رہے۔‘‘
سُوْرَۃُ الْاِخْلَاصِ
تمہیدی کلمات
سورۃ الاخلاص قرآن مجید کی مختصر ترین سورتوں میں سے ہے اور توحید باری تعالیٰ کے موضوع پر یہ قرآن مجید کی جامع ترین سورت ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے اس سورت کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے۔ ’الاخلاص‘ اس سورت کا نام ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے‘ کیونکہ اس میں خالص توحید بیان کی گئی ہے ۔
آیت ۱{قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ(۱)} ’’کہہ دیجیے وہ اللہ یکتا ہے۔‘‘
اَحَد : وہ اکیلا اور یکتا جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔وہی اکیلا ربّ ہے‘ کسی دوسرے کا ربوبیت اور اُلوہیت میں کوئی حصّہ نہیں۔ وہی تنہا کائنات کا خالق‘ مالک الملک اور نظامِ عالم کا مدبر و منتظم ہے۔
آیت۲ {اَللّٰہُ الصَّمَدُ(۲)}’’اللہ سب کا مرجع ہے۔‘‘
صَمَد کے لغوی معنی ایسی مضبوط چٹان کے ہیں جس کو سہارا بنا کر کوئی جنگجو اپنے دشمن کے خلاف لڑتا ہے تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کر سکے ۔بعد میں یہ لفظ اسی مفہوم میں ایسے بڑے بڑے سرداروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو لوگوں کو پناہ دیتے تھے اور جن سے لوگ اپنے مسائل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ اس طرح اس لفظ میں مضبوط سہارے اور مرجع (جس کی طرف رجوع کیا جائے) کے معنی مستقل طو رپر آ گئے۔ چنانچہ اَللہُ الصَّمَدُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کا مرجع اور مضبوط سہارا ہے۔ وہ خود بخود قائم ہے‘اُسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔ باقی تمام مخلوقات کو اُس کے سہارے کی ضرورت ہے اور تمام مخلوق کی زندگی اور ہر چیز کا وجود اُسی کی بدولت ہے۔{وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ ج} (البقرۃ: ۲۵۵) ’’اور وہ احاطہ نہیں کر سکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو وہ خود چاہے‘‘۔ ظاہر ہے وہ الحی اور القیوم ہے‘ یعنی خود زندہ ہے اور تمام مخلوق کو تھامے ہوئے ہے۔ باقی تمام مخلوقات کے ہر فرد کا وجود مستعار ہے اور کائنات میں جو زندہ چیزیں ہیں ان کی زندگی بھی مستعار ہے۔ جیسے ہم انسانوں کی زندگی بھی ’’عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن!‘‘کے مصداق اُسی کی عطا کردہ ہے۔
آیت ۳{لَمْ یَلِدْ لا وَلَمْ یُوْلَدْ(۳)} ’’نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔‘‘
یعنی نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اُس کی کوئی اولاد ہے۔ یہ نکتہ سورۃ الجن میں بایں الفاظ واضح فرمایا گیا: {مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدًا(۳)}’’اُس نے اپنے لیے نہ کوئی بیوی اختیار کی ہے اور نہ کوئی اولاد‘‘۔ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور یہودیوں کے بعض فرقے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے۔ مشرکین ِعرب فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں بتاتے تھے۔ اس آیت میں ایسے تمام عقائد باطلہ کی نفی کر دی گئی ہے ۔
آیت۴ {وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَ حَدٌ(۴)}’’اور کوئی بھی اُس کا کفو نہیں ہے۔‘‘
کُفْو کے معنی ہم سر کے ہیں‘ جو قدرت‘ علم‘ حکمت اور دیگر صفات میں ہم پلہ اور ہم پایہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا نہ تو کوئی ہم پلہ اور برابری کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضد‘ ند‘ مثل‘مثال ‘ مثیل وغیرہ ہے۔
سُوْرَۃُ الْفَلَقِ
تمہیدی کلمات
اب ہم قرآن مجید کی آخری دو سورتوں (مُعَوِّذَتَین) کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ سورتیں گویا قرآن مجید کے اختتام پر دو پہرے دار ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں آتا ہے کہ مدینہ کے ایک یہودی نے حضورﷺ پر جادو کر دیا تھا۔ اس کی وجہ سے آپؐ بعض باتیں بھول جاتے تھے اور آپؐ کو جسمانی طور پر بھی تکلیف رہتی تھی ۔ اس صورتِ حال پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سورتیں نازل ہوئیں۔ حضورﷺ ان سورتوں کی کثرت سے تلاوت کرتے رہے تاآنکہ آپؐ سے جادو کے اثرات زائل ہو گئے۔
جدید دور کے عقلیت پسند(rationalists) ’’اہل ِعلم‘‘ خصوصی طور پر منکرین ِاحادیث ایسی روایات کو تسلیم کرنے میں پس و پیش کرتے ہیں‘ بلکہ ان کے خیال کے مطابق توایسا سمجھنا حضورﷺ کی توہین کے مترادف ہے۔ اس قسم کے دلائل کاجواب یہ ہے کہ بلاشبہ حضورﷺ کامل ترین انسان ہیں اور معراجِ انسانیت کے درجے پر فائز ہیں۔ آپؐ کی عصمت و عظمت کے مراتب بلاشبہ ہمارے تصوّر سے بھی ماوراء ہیں‘ لیکن اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عام بشری کیفیات آپؐ کی ذات پر بھی اثر انداز ہوتی تھیں۔ مقامِ غور ہے کہ اگر حضورﷺ کو بخار ہو تا تھا‘ اگر آپؐ تلوار کے وار سے زخمی ہوئے تھے‘ اگر زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپؐ پر نقاہت طاری ہوئی تھی اور اگر آپؐ پر نزع کی تکلیف واردہوئی تھی تو آخر جادو آپؐ پر کیونکر اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ جادو کا اثر حضورﷺ کی جسمانی صحت تک محدود تھا‘ رسالت کا کوئی پہلو قطعاً اس سے متأثر نہ تھا۔ بہرحال جادو اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حضورﷺ پر جادو کیا گیا اور اس کے منفی اثرات کی وجہ سے آپﷺ کو تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اور اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اُمّت کو ان سورتوں کا بیش بہا تحفہ عطا کیا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: ((اَلَـمْ تَرَ آیَاتٍ اُنْزِلَتِ اللَّـیْلَۃَ لَمْ یُرَ مِثْلُـھُنَّ قَطُّ؟ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ))(صحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب فضل قراء ۃ المعوذتین) یعنی تمہیں خبر ہے اللہ تعالیٰ نے آج رات ایسی آیات نازل فرمائی ہیں جن کی پہلے کوئی مثال نظر نہیں آتی؟ وہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ہیں۔
یہ دونوں سورتیں مدنی ہیں اور ان دونوں کا مضمون ایک ہی ہے ۔ یہ مضمون ایک سورت کی شکل میں بھی نازل ہو سکتا تھا‘ لیکن قرآن مجید کا عمومی مزاج چونکہ ایسا ہے کہ زیادہ تر سورتیں جوڑوں کی شکل میں نازل ہوئی ہیں‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے بنیادی مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو الگ الگ سورتوں کی شکل میں نازل فرمایا۔ مضمون کی اس تقسیم کے مطابق سورۃ الفلق میں ان چیزوں یا ان شرور سے پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو انسان پر باہر سے حملہ آور ہوتی ہیں‘ جبکہ سورۃ الناس میں اندرونی طور پر اثر انداز ہونے والے شرور کا ذکر ہے۔ بہرحال ہمیں چاہیے کہ ان تمام شرور کے اثراتِ بد سے بچنے کے لیے ہم ان سورتوں کے ذریعے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے رہیں۔
آیت ۱{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (۱)} ’’کہو کہ مَیں پناہ میں آتا ہوں صبح کے ربّ کی۔‘‘
فَلَقَ یَفْلِقُ کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے کے ہیں۔ سورۃ الانعام کی آیت ۹۶ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے {فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ج} کے الفاظ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رات کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے سپیدئہ سحر نمودار کرتا ہے۔ البتہ اسی سورت کی آیت ۹۵ میں یہ لفظ دانوں اور گٹھلیوں وغیرہ کے پھاڑنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے : {اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط}۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے زمین کے اندر دانوں یا گٹھلیوں کو پھاڑتا ہے تو پودوں یا درختوں کی پتیاں اور جڑیں نکلتی ہیں۔ چنانچہ فلق سے مراد یہاں صرف صبح ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عدم کا پردہ چاک کر کے وجو د بخشاہے۔ جیسے کہ اگلی آیت میں واضح کر دیا گیا:
آیت۲{مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (۲)}’’(مَیں پناہ میںآتا ہوں) اُس کی تمام مخلوقات کے شرسے۔‘‘
یعنی ’’شر‘‘ مستقل طور پر علیحدہ وجود رکھنے والی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مختلف مخلوقات کے اندر ہی کا ایک عنصر ہے۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقص یا عیب سے پاک ہے‘ لیکن اُس کی مخلوق اپنے خالق کی طرح کامل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ہر مخلوق کے اندر کمی یا تقصیر و تنقیص کا کوئی نہ کوئی پہلو یا عنصر بالقوہ (potentially) موجود ہے۔ جیسے خود انسان کی متعدد کمزوریوں کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ سورۃ النساء میں فرمایا گیا : {وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۲۸)} کہ انسان بنیادی طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں{وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(۱۱)} کے الفاظ میں انسان کی جلد بازی کا ذکر ہوا۔سورۃ المعارج میں اس کی تین کمزوریوں کا ذکر بایں الفاظ ہوا : {اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا(۱۹) اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا(۲۰) وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا(۲۱)}’’یقینا انسان پیدا کیا گیا ہے تھڑدلا۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والاہے۔اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔‘‘
گویا انسان روحانی طور پر اگرچہ احسنِ تقویم کے درجے میں پیدا کیا گیا ہے ‘لیکن اس کے حیوانی اور مادی وجود میں مذکورہ خامیوں سمیت بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہر مخلوق میں مختلف کمزوریوں کے متعدد پہلو پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ’شر‘ جنم لیتا ہے۔ چنانچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہو گا کہ اے پروردگار! تیری جس جس مخلوق میں شر کے جو جو پہلو پائے جاتے ہیں مَیں ان میں سے ہر قسم کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
آیت ۳{وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ(۳)}’’اور (خاص طور پر) اندھیرے کے شر سے جب وہ چھا جائے ۔‘‘
ظاہر ہے رات کے اندھیرے میں انسانوں‘ جنوں اور ضرر رساں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی صورت میں شر پھیلانے والے عناصر زیادہ فعال اور مستعد ہو جاتے ہیں۔ گویا رات کا اندھیرا بذاتِ خود ایک بہت بڑا شر ہے جس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا ضروری ہے۔
آیت۴{ وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ (۴)}’’اور اُن عورتوں کے شر سے جو گرہیں باندھ کر پھونکیں مارتی ہیں۔‘‘
یعنی وہ تمام ٹونے ٹوٹکے ‘تعویذ گنڈے اور سفلی عملیات جن کے ذریعے سے کسی انسان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس موضوع کے حوالے سے یہاں یہ نکتہ اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ کسی چیز کا بالفعل موجود ہونا اور بات ہے اور اس چیز کا حلال ‘ حرام یا جائز‘ ناجائزہونا الگ بات ہے۔ مثلاً جادو ایک حقیقت ہے‘لیکن کفر ہے۔ شراب اپنی ایک مخصوص تاثیر رکھتی ہے‘لیکن حرام ہے۔ اسی طرح علم نجوم‘ پامسٹری(ہاتھ کی لکیروں کا علم) اور سفلی عملیات کی حقیقت اور تاثیر سے انکار نہیں کیا جا سکتا (ظاہر ہے جب ہم اچھے وظائف و کلمات کی اچھی تاثیر کو مانتے ہیں تو ہمیں سفلی و شیطانی کلمات وغیرہ کی منفی تاثیر کا بھی اقرار کرنا پڑے گا) لیکن شریعت نے ہمیں ایسے علوم سے استفادہ کرنے اور ایسے علوم کی بنیاد پر کیے گئے دعووںپر یقین کرنے سے منع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے اس نوعیت کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ تو مؤثر ہو سکتی ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس لیے ان کے شر سے بچنے کا آسان اور مؤثر طریقہ یہی ہے کہ انسان خود کو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دے دے۔
آیت ۵{وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ(۵)} ’’اور حسد کرنے والے کے شر سے بھی (مَیں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) جب وہ حسد کرے۔‘‘
ظاہر ہے جب ایک انسان کسی دوسرے انسان سے حسد کرتا ہے تو عین ممکن ہے وہ اپنے حاسدانہ جذبات سے مغلوب ہو کر عملی طور پر بھی اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((اَلْعَیْنُ حَقٌّ))(صحیح البخاری‘ کتاب الطب‘ باب العین حق۔ وصحیح مسلم‘ کتاب السلام‘ باب الطب والمرض والرقی) یعنی نظر لگ جانا برحق ہے۔ چنانچہ حاسدانہ نگاہ بذاتِ خود بھی منفی اثرات کی حامل ہوسکتی ہے ۔اس لیے حاسد کے شر سے بچنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ کی ضرورت ہے۔
بہرحال جادو‘ٹونے‘ تعویذ گنڈے‘ نظر ِبد وغیرہ کے اثرات اپنی جگہ مسلّم ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۰۲ میں شیاطین جن کا ذکر آیا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔ بلکہ یہ گھنائونا کاروبار کسی نہ کسی انداز سے ہر زمانے میں چلتا رہا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسی چیزیں سیکھنے سکھانے اور پھر مختلف دعووں کے ساتھ اپنا کاروبار چمکانے میں مصروف ہیں۔ البتہ جیسا کہ قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ہماری شریعت میں ایسی چیزیں سیکھنا اور پھر کسی بھی انداز میں ان سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس حوالے سے ایک بندئہ مؤمن کو اپنے دل میں پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اُسے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ‘جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت میں بھی واضح کیا گیا ہے: {وَمَاھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ط} (آیت ۱۰۲)۔ایک بندئہ مؤمن کو یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ جو تکلیف بھی آئے گی وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی آئے گی (یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے اللہ تعالیٰ خود کسی انسان کو کسی تکلیف یا مشکل سے دوچار کرنا چاہے) اور اللہ کے اذن سے ہی دور ہو گی۔ جہاں تک ایسی چیزوں سے حفاظتی تدابیر اپنانے یاایسے کسی شیطانی حملے کے توڑ کرنے کا تعلق ہے توان دو سورتوں (مُعَوِّذَتَین) کے ہوتے ہوئے ایک بندئہ مسلمان کو کسی اور عمل ‘تعویذ یا تدبیر کی ضرورت نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ سورتیں اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو سکھائی تھیں اور اس لحاظ سے یہ حضورﷺ کی وساطت سے اُمّت کے لیے ایک بیش بہا تحفے کا درجہ رکھتی ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کا یہ معمول تھا کہ ہر شب آرام کرنے سے پہلے آخری تینوں سورتیں (سورۃ الاخلاص اور مُعَوِّذَتَین) پڑھ کر اپنے مبارک ہاتھوں پر دم فرماتے اور پھر اپنے سارے جسم پر پھیر لیتے۔ مزید برآں شیطانی اثرات اور نظر ِبد وغیرہ سے حفاظت کے لیے احادیث میں متعدد ادعیہ ماثورہ بھی وارد ہوئی ہیں‘جن کو ہمیں اپنا معمول بنانا چاہیے۔
سُوْرَۃُ النَّاسِ
تمہیدی کلمات
جیسا کہ سورۃ الفلق کے تعارف کے دوران بھی بتایا جا چکا ہے کہ سورۃ الناس مدنی سورت ہے‘ بلکہ میری تحقیق کے مطابق تو سورۃ الملک سے شروع ہونے والی سورتوں کے اس آخری گروپ میں صرف یہی دو سورتیں (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) ہی مدنی ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر مکّی مدنی سورتوں کے اس آخری گروپ اور پہلے گروپ کے درمیان مدنی اور مکّی قرآن کی مقدار کے حوالے سے پائی جانے والی ایک ’’معکوس (reciprocal) نسبت‘‘ کے بارے میں بھی جان لیجیے۔ یعنی جس طرح سورتوں کے پہلے گروپ میں مکّی قرآن بہت تھوڑا (صرف سورۃ الفاتحہ) اور مدنی قرآن کی مقدار نسبتاً بہت زیادہ (سورۃ البقرۃ‘ سورئہ آلِ عمران‘ سورۃالنساء اور سورۃ المائدۃ پر مشتمل تقریباً سوا چھ پارے) ہے‘ اسی طرح زیر مطالعہ آخری گروپ میں مدنی قرآن کی مقدار بہت کم (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) ہے اور اس کے مقابلے میں مکّی قرآن تقریباً دو پاروں پر مشتمل ہے۔
سورۃ الفلق میں ان مضرتوں اور شرانگیزیوں سے پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو انسان کے ظاہری حالات اور جسمانی کیفیات کو متأثر کرتی ہیں‘ جبکہ سورۃ الناس میں ایسے شرور سے پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی جارہی ہے جو انسان کے باطن پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کے ایمان و ایقان پر یلغار کرتے ہیں۔
سورۃ الناس کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اس سورت کا سورۃ الفاتحہ کے ساتھ بھی جوڑے کا تعلق ہے ۔ ان دونوں سورتوں کی آیات میں گہری مشابہت اور مناسبت پائی جاتی ہے۔ دونوں سورتوں کا ایک ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ مشابہت اور مناسبت صاف نظر آتی ہے۔ مثلاً سورۃ الفاتحہ کی پہلی اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و صفات کا بیان اور اس کے ربّ العالمین ہونے کا اقرار ہے‘ جبکہ سورۃ الناس کی پہلی آیت میں تمام انسانوں کے رب سے پناہ طلب کی گئی ہے ۔دونوں سورتوں کی اگلی دونوں آیات (مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(۲) اور مَلِکِ النَّاسِ(۲))کی لفظی و معنوی مشابہت بہت ہی واضح ہے۔ اس کے بعد سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے اور اُس کی عبادت کرنے کے عہد کے ساتھ ا س سے ہدایت کی درخواست کی گئی ہے‘ جبکہ اس کے متوازی سورۃ الناس میں اللہ تعالیٰ کی معبودیت (اِلٰـہِ النَّاسِ(۳)) کے اقرار کے ساتھ شیطان کے وساوس کے خلاف اس کی پناہ طلب کی گئی ہے۔ظاہر ہے سیدھے راستے پر چلنے کے لیے مدد طلب کرنا (استعانت) اور شیطان کے حملوں سے پناہ مانگنا (استعاذہ) باہم ملتی جلتی اصطلاحات ہیں کہ اے اللہ!ہم تیری عبادت کا وعدہ کرتے ہیں مگر ہم تیری مدد کے محتاج ہیں۔ اس کے لیے ہمیں تیرے سہارے اور تیری پناہ کی ضرورت ہے‘تاکہ تیری پناہ میں آ کر ہم شیطان کی وسوسہ اندازی سے محفوظ ہو جائیں۔ اس زاویے سے ان دونوں سورتوں کا جائزہ لیا جائے تو سورۃ الناس‘ سورۃ الفاتحہ کا عکس یا مثنیٰ(duplicate)بنتی نظر آتی ہے۔
آیت ۱{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (۱)}’’کہیے کہ مَیں پناہ میں آتا ہوں تمام انسانوں کے رب کی۔‘‘
یہاں سب سے پہلے ’’رَبّ الناس‘‘ (لوگوں کاپروردگار) کے کلمات سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا گیا ہے کہ تمہیں ایسی ذات سے پناہ مانگنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو تمہاری جملہ ضروریات کا کفیل ہے۔
آیت۲{مَلِکِ النَّاسِ(۲)}’’تمام انسانوں کے بادشاہ کی۔‘‘
وہ تمام انسانوں کا صرف پروردگار ہی نہیں‘ ان کا بادشاہ اور فرماں روا بھی ہے۔ اُس کا حکم ہر وقت‘ ہر جگہ اور ہر چیز پرنافذ ہے۔
آیت ۳{اِلٰـہِ النَّاسِ(۳)} ’’ تمام انسانوں کے معبود کی۔‘‘
انسانوں کا رب اور بادشاہ ہونے کے علاوہ وہ ان کا معبود بھی ہے‘ چنانچہ وہ ان پر کامل اقتدار اور اختیار رکھتا ہے اور ان کی حفاظت پر پوری طرح قادر ہے۔
آیت۴{مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ لا الْخَنَّاسِ(۴)}’’اس بار بار وسوسہ ڈالنے والے ‘ پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔‘‘
شیطان کی وسوسہ اندازی کا طریق کار یہ ہے کہ وہ لگاتار اپنی کوشش جاری رکھتا ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کی کوششوں سے تھکتا نہیں۔ کبھی حملہ کرتا ہے‘ کبھی دفاعی پسپائی اختیار کرتا ہے اور پھر پلٹ کر حملہ آور ہوتا ہے۔
آیت ۵{الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ(۵)}’’جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ اندازی کرتا ہے۔‘‘
آیت ۶{ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ(۶)} ’’خواہ وہ جنوں میں سے ہو یاانسانوں میں سے۔‘‘
انسان کے دل و دماغ پر شیطانی وساوس کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اس کی وضاحت حضورﷺ کے اس فرمان سے ملتی ہے۔ اُمّ المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ))(صحیح البخاری‘ کتاب الاعتکاف‘ باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ۔ وصحیح مسلم‘ کتاب السلام‘ باب بیان انہ یستحب لمن رُئِیَ خالیا بامرأۃ…) ’’شیطان انسان کے وجود میں خون کی مانند گردش کرتا ہے‘‘۔ گویا شیطان نفسِ انسانی کے اندر موجود حیوانی شہوات اور سفلی داعیات (فرائیڈ اسے idیا libidoکا نام دیتا ہے) کو بھڑکاتا ہے۔ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ شیطان اپنی تھوتھنی انسان کے دل پر رکھ کر پھونکیں مارتا ہے اور اس طرح اس کے جذبات و شہوات میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان کے دل میں وسوسے پیدا کرنے اور اس کے جذبات کو انگیخت دینے کی حد تک اختیار دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان سے زبردستی کوئی عمل کرانے کا اختیار اسے نہیں دیا گیا۔ بہرحال نفسِ انسانی بعض اوقات شیطان کے بہکاوے میں آ کر متعلقہ انسان کے لیے شیطان کا نمائندہ بن جاتا ہے اور پھر بالکل شیطان ہی کی طرح اس کے دل میں وسوسہ اندازی شروع کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ قٓ میں ارشاد فرمایا ہے : {وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ج}(آیت ۱۶)’’اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اُس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے ‘‘۔ایسے نفسِ انسانی کو سورئہ یوسف ؑکی آیت ۵۳ میں ’’نفسِ امّارہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے اہم اور بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ شیطان اُسی دل پر اپنی تھوتھنی رکھ کر پھونکیں مارتا ہے اور اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے جو دل اللہ کی یاد سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو دل اللہ کی یاد میں مشغول اوراس کے ذکر سے معمور ہوتا ہے شیطان اس سے دور رہتا ہے۔ بہرحال شیطان کے تمام وسوسے اور حربے انسان کے اپنے نفس کے ذریعے سے ہی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ سورت خصوصی طور پر شیطانی وساوس کے توڑ کے لیے نازل ہوئی ہے۔
بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایّاکم بالآیات والذّکر الحکیمoo
دعائے ختم ِ قرآن
اَللّٰھُمَّ آنِسْ وَحْشَتِیْ فِیْ قَـبْرِیْ، اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ، وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً، اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنِیْ مِنْہُ مَا نَسِیْتُ، وَعَلِّمْنِیْ مِنْہُ مَا جَھِلْتُ، وَارْزُقْنِیْ تِلَاوَتَـہٗ آنَاءَ اللَّـیْلِ وَآنَاءَ النَّھَارِ، وَاجْعَلْہُ لِیْ حُجَّۃً یَّارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ!
اب ہم اس دعا کا مطالعہ کریں گے‘ کیونکہ دعامانگنے کا مزہ تو تبھی ہے جب انسان اپنی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کا مفہوم بھی سمجھتا ہو۔
اَللّٰھُمَّ آنِسْ وَحْشَتِیْ فِیْ قَـبْرِیْ
’’اے اللہ! میری قبر کے اندر مجھے جو وحشت ہو گی اُسے میر ے لیے مانوس کر دے!‘‘
اس وحشت کو دُور کرنے کے لیے مجھے قرآن مجید کا اُنس عطا کر دے!---- یاد رکھیں! قبر کی وحشت قرآن کے ساتھ تعلق کی بنا پر مانوس ہو گی۔ اپنی جوانی کے ایام میں (جب آتش جوان تھا!) جب مَیں اس دُعا کو پڑھا کرتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہو تا تھا کہ قرآن سے متعلق اصل دعا تواگلے فقرے سے شروع ہوتی ہے اور یہ پہلا جملہ اضافی سا ہے ۔ مگر اب جبکہ بڑھاپے میں قبر ہر وقت سامنے نظر آتی ہے تو اب معلوم ہوا ہے کہ اس دعا کا اہم ترین حصّہ تو یہی ہے۔
اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ
’’اے اللہ! مجھ پر رحم فرما قرآنِ عظیم کی بدولت‘‘
وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً
’’اور اس کو میرے لیے امام‘ نُور‘ ہدایت اور رحمت بنا دے!‘‘
یہ الفاظ زبان سے ادا کرتے ہوئے انسان کو چاہیے کہ قرآن مجید کو اپنا امام بنانے کا ارادہ بھی کرے‘ کہ اب مجھے قرآن مجید کو اپنا راہبر و راہنما مان کر اس کی پیروی کرنی ہے۔ لیکن اگر دل میں ایسا کوئی شعوری ارادہ سرے سے موجود ہی نہ ہو تو ظاہر ہے ایسی کیفیت میں یہ دعائیہ کلمہ بھی’’ ذٰلِکُمْ قَـوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ‘‘ کے مصداق محض منہ سے نکلی ہوئی ایک بات بن کر رہ جائے گا اور عملی طور پر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔
اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنِیْ مِنْہُ مَا نَسِیْتُ
’’اے اللہ! مجھے یاد کرا دے جو کچھ مَیں اس میں سے بھول جائوں ‘‘
وَعَلِّمْنِیْ مِنْہُ مَا جَھِلْتُ
اور مجھے سکھا دے اس میں سے جو مَیں نہیں جانتا‘‘
ظاہر ہے یہ دعا بھی تبھی کارگر ہو گی جب عملی طور پر قرآن مجید کو سمجھنے کی نیت اور کوشش انسان کے شامل ِ حال ہو گی۔ یاد رکھیں! قرآن مجید کا علم بہت قیمتی چیز ہے ۔ یہ عظیم دولت اللہ تعالیٰ کسی کی جھولی میں زبردستی نہیں ڈالتا۔ چنانچہ جس طرح انسان دنیا کے دوسرے علوم و فنون کوسیکھنے کے لیے محنت اور کوشش کرتا ہے اسی طرح قرآن مجید کو سیکھنے کے لیے بھی محنت درکار ہے۔ چنانچہ قرآن سیکھنے کے لیے آپ زانوئے تلمذ تہ کریں اور عربی سیکھیں۔ اس حوالے سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ اشعار بہت بصیرت افروز ہیں:
یَغُوْصُ الْبَحْرَ مَنْ طَلَبَ اللُّآلِی
وَمَنْ طَلَبَ الْعُلٰی سَھِرَ اللَّـیَالِی
’’جو شخص بھی موتیوں کا طلب گار ہوتا ہے اسے سمندر میں غوطہ زنی کرنا پڑتی ہے ۔اور جو شخص کسی بلند مقام تک پہنچنا چاہتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے (اور محنت و مشقّت کرتا ہے)۔‘‘
وَمَنْ طَلَبَ الْعُلٰی مِنْ غَیْرِ کَدٍّ
اَضَاعَ الْعُمُرَ فِیْ طَلَبِ الْمَحَالِی
’’اور جوکوئی بلندی کا طلب گار بن جائے بغیر کوشش کے وہ اپنی عمر ضائع کر بیٹھتا ہے ایک محال چیز کی طلب میں۔‘‘
اس حوالے سے پڑھے لکھے خواتین و حضرات کو خصوصی طور پر بہت سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ اگر انہوں نے بہت سے دُنیوی علوم و فنون سیکھ رکھے ہیں تو آخر وہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کیوں نہیں سیکھ سکتے؟ اور یہ کہ قیامت کے دن وہ اپنی اس کوتاہی کے جواز میں آخر کیا عذر پیش کریں گے؟
وَارْزُقْنِیْ تِلَاوَتَـہٗ
’’اور مجھے توفیق عطا فرما کہ مَیں اسے پڑھتارہوں‘‘
آنَـآءَ الَّـیْلِ وَآنَآءَ النَّھَارِ
’’رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی۔‘‘
وَاجْعَلْہُ لِیْ حُجَّۃً یَّارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ!
’’اور اے تمام جہانوں کے پروردگار! اس قرآن کو میرے حق میں دلیل اور گواہ بنا دے۔‘‘
اس جملے کا مفہوم سمجھنے کے لیے نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان مدّ ِنظر رہنا چاہیے: ((اَلْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ))’’کہ یہ قرآن حُجّت (دلیل یا گواہ) ہے تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف!‘‘یعنی قرآن مجید قیامت کے دن ہر انسان کے حساب کے وقت گواہ بن کر کھڑا ہو گا۔ جس کسی نے حسب ِاستطاعت اس کے حقوق (یعنی اس پر ایمان لانے ‘اس کو پڑھنے‘ سمجھنے‘ اس پر عمل کرنے اور اس کی ترویج و تبلیغ کے حوالے سے )ادا کیے ہوں گے تو قرآن مجید اُس کے حق میں گواہی دے گا اور اُس کے شافع کی حیثیت سے اس کے ساتھ کھڑا ہوگا۔لیکن جس شخص نے قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے سے بے اعتنائی برتی ہو گی قیامت کے دن وہ اُس کے خلاف گواہی دے گا۔بلکہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اُس کے خلاف استغاثہ لے کر آئے گا کہ اے اللہ! یہ بدبخت مجھے تیرا کلام تو مانتا تھا مگر اس کے باوجود اس نے مجھے پڑھنے یا سمجھنے یا میرے احکام پر عمل کرنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی۔
یہ تو وہ دعا ہے جو قرآن مجید کے نسخوں کے اختتام پر عام طور پر لکھی ہوئی ملتی ہے۔ اس کے علاوہ نبی مکرمﷺ سے ایک اور دعا بھی منقول ہے‘ جسے مَیں نے تین مختلف روایتوں سے جمع کر کے لوگوں کی سہولت کے لیے ترجمے کے ساتھ شائع کروا یا ہے۔ اس دعا میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ، وَابْنُ عَبْدِکَ، وَابْنُ اَمَتِکَ ، فِیْ قَبْضَتِکَ، نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُکَ، اَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ، سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ، اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ، اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِی کِتَابِکَ، اَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ، اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ الْکَرِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ، وَنُوْرَ صَدْرِیْ، وَجِلَاءَ حُزْنِیْ، وَذَھَابَ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ۔ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!
اس دعا کو پڑھتے ہوئے مجھے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے وہ الفاظ یاد آ جاتے ہیں جو انہوں نے عبادت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہے ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒکے الفاظ میں عبادت ’’غَایۃَ الحُبِّ مَعَ غَایۃِ الذُّلِّ وَالْخُضوع‘‘کا نام ہے ۔یعنی عبادت یہ ہے کہ انسان خود کو حد درجے کی محبّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے بچھا دے۔ اس دعا کے ایک ایک جملے اور ایک ایک لفظ میں اللہ تعالیٰ کے لیے غایت درجے کی محبّت‘ انکساری‘ عاجزی اور تذلل کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہر بندئہ مؤمن کو چاہیے کہ وہ اس دعا کو زبانی یاد کر لے اور حرزِ جاں بنا لے۔ آیئے اب اس دعا کامفہوم اچھی طرح سمجھ لیجیے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ’’اے اللہ! مَیں تیرا بندہ ہوں ‘‘
وَابْنُ عَبْدِکَ، وَابْنُ اَمَتِکَ ’’تیرے ایک ناچیز غلام اور ادنیٰ کنیز کا بیٹا ہوں ۔‘‘
میرا باپ بھی تیرا اَدنیٰ غلام تھا اور میری والدہ بھی تیری ادنیٰ کنیز تھی۔
فِیْ قَبْضَتِکَ ’’مَیں تیرے قبضہ قدرت میں ہوں۔‘‘
نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ’’میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔‘‘
مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ’’میرے پورے وجود میں تیرا ہی حکم جاری و ساری ہے۔‘‘
عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُکَ ’’میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ عدل ہی پر مبنی ہے۔‘‘
اَسْئَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ، سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ
’’مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں ہر اُس پاک نام کے واسطے سے ‘جس سے تُونے اپنی ذاتِ مقدّس کو موسوم فرمایا۔‘ ‘
اس جملے میں گویا قرآن مجید کے اس حکم کی جھلک نظر آ رہی ہے :{وَلِلہِ الْاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَاص} (الاعراف:۱۸۰) کہ سب اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ‘تم اس سے ان ناموں کے حوالے سے دعا کیا کرو۔
اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِی کِتَابِکَ
’’یاجسے تُو نے اپنی کسی کتاب میں نازل کیا‘‘
اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدًا مِنْ خَلْقِکَ
’’یا تُو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا‘‘
اَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ
’’یا اسے ابھی تُو نے اپنے پاس‘ اپنے غیب کے خزانے میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔‘‘
اب دیکھیں حضورﷺ نے اپنی عاجزی و انکساری اور اللہ تعالیٰ کے سارے ناموں کا حوالہ دے کر مانگا کیا ہے؟
اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ الْکَرِیْمَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ
’’(اے اللہ! )ا س قرآن کریم کو میرے دل کی بہار بنا دے‘‘
وَنُوْرَ صَدْرِیْ
’’اور اسے میرے سینے کا نور بنا دے ‘‘
وَجِلَاءَ حُزْنِیْ
’’اور میرے رنج و حزن کا مداوا بنا دے‘‘
وَذَھَابَ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ
’’اور میرے تفکرات اور غموں کے ازالے کا سبب بنا دے۔‘‘
آمِیْنَ! ثُمَّ آمِیْن!!
نوٹ کیجیے! حضورﷺ نے عبدیت‘ تواضع اور تذلل کی انتہا پر جا کر اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ہے تو قرآن کریم کی محبت کا‘ قرآن مجید کی معیت کا اور قرآن حکیم کے سہارے کا ۔ ظاہر ہے یہی تو کائنات کی سب سے قیمتی چیز اور سب سے بڑی دولت ہے۔ ازروئے الفاظِ قرآنی :
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ لا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۵۷) قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (۵۸)}(یونس)
’’اے لوگو! آ گئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے اَمراض) کی شفا اور اہل ِ ایمان کے لیے ہدایت اور (بہت بڑی) رحمت ۔(اے نبیﷺ!ان سے)کہہ دیجیے کہ یہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے ‘تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں! وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
بارک اللہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی واِیَّاکم بالآیات والذِّکر الحکیمoo
(اختتامی نشست دورئہ ترجمہ قرآن ‘ جامع مسجد قرآن اکیڈمی ‘ڈیفنس‘ کراچی‘ ۲۶ رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ/۲۶ جنوری۱۹۹۸ء)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025