وقت کی قدرپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
مشہور ہے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ۔جو وقت گزر جاتا ہے وہ ہر گز واپس نہیں آتا۔ ہر شخص کو وقت کی ایک مخصوص مقدار ملتی ہے جسے عمر کہتے ہیں ۔اگر وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو حسرت اور افسوس کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ گھڑی وقت کا پیمانہ ہے۔ یہ کہیں رکتی نہیں بلکہ لگاتار چلتی رہتی ہے۔ اگر ہماری گھڑی خراب ہو جائے اور رک جائے تو وقت نہیں رکتا۔
انسان کے بچپن اور لڑکپن تو کھیل کود میں گزر جاتے ہیں۔ پھر سنجیدہ عمر آجاتی ہے جب اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہے۔ اگر وہ یہ وقت گنوا دیتا ہے تو اپنا اس قدر نقصان کرتا ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ دانش مندی یہ ہے کہ وقت سے پورا فائدہ اٹھایا جائے ۔آنے والے وقت کو یاد رکھا جائے اور موجود وقت اس طرح گزارا جائے کہ اس کے لمحات سےبھرپور فائدہ اٹھایا جائے‘ ورنہ زندگی گھاٹے میں گزرے گی۔ ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادیانسان کسی غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ کام پھر کر لوں گا۔ اگلا وقت اپنے کام ساتھ لائے گا۔ اسی لیے کہتے ہیںکہ آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔ وقت سے فائدہ اٹھانے والے لوگ جب اس کے اچھے نتائج پاتے ہیں تو خود کو شاباش دیتے ہیں ۔اس کے برعکس جنہوں نے وقت کی قدر نہیں کی ‘اُن کے حصے میں ناکامی آتی ہے اور وہ ہمہ وقت حسرت کا شکار رہتے ہیں ۔
قدرت کا نظام دیکھ لیجیے۔ چاند اور سورج اپنی حرکات میں ایک لمحہ بھی تعجیل یا تاخیر نہیں کرتے۔ رات اوردن اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اوقات کے مطابق شروع اورختم ہوتے ہیں۔ ہر فصل کے بونے اور کاٹنے کا وقت قدرت کی طرف سے معیّن ہے۔ کسان بر وقت فصل بوئے گا تو بھر پور انداز میں پھل پائے گا۔ اگروہ غفلت کرے اور وقت پر بیج نہ ڈالے تو وہ پھل سے محروم رہے گا۔ یہ بات صرف کسان پر منحصر نہیں بلکہ ہر کارکن اور پیشہ ور اپنے وقت کی قدر کرتا ہے تو فائدہ اٹھاتا ہے۔
اچھے طالب علم درس گاہ میں اپنے اساتذہ کے اسباق کو غور سے سنتے ہیں۔گھر میںاپنے اوقات کو مضامین کے اعتبار سے تقسیم کرتے ہیں۔چنانچہ امتحان کا دن آتا ہے تو وہ اس کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ امتحان کے آغاز اور اختتام کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ جن بچوں نے سارا سال محنت کی ہوتی ہے ‘وقت سے بھرپور فائد اٹھایا ہوتا ہے وہ امتحانی پرچے کو وقت کے اندر حل کرلیتے ہیں۔ انسان کے لیے سب سے قیمتی متاع وقت ہے جس کے صحیح استعمال سے وہ کامیاب و کامران ٹھہرتا ہے اور اپنی منزل کو پالیتا ہے۔
وقت کی صحیح قدر و قیمت کاپتا اُس وقت چلتا ہے جب وہ ختم ہو رہا ہوتا ہے‘ یعنی موت کا فرشتہ جان لینے آجاتا ہے۔ اس وقت انسان کہتا ہے کہ ربّ تعالیٰ کیوں نہ اس وقت کو ابھی کچھ دور رکھتا تاکہ میں اچھے کام کر لیتا اور وہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کر لیتا جو جوڑ جوڑ کر سنبھال کے رکھا تھا۔ مگر اس وقت مہلت ختم ہو چکی ہو گی‘ یعنی فائدہ اٹھانے کا وقت بیت چکا ہو گا۔ اس زندگی کو آخرت کی کھیتی کہا گیا ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے ۔
یہ زندگی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی اور انسان سے قبر میں ہی سوالات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ یعنی موت آتے ہی انسان کو دنیا میں گزارے ہوئے وقت کی قدر معلوم ہوجائے گی۔ پھر روزِ محشر جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری ہو گی اور اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ زندگی کن مشاغل میں گزاری اور دولت کیسے کمائی‘ کہاں خرچ کی؟ تو اُس وقت اسے سمجھ آ جائے گی کہ کاش میں وقت کی قدرکرتا اور وہ کام کرتا جو مجھے کامیاب کر دیتے۔مگر اُس وقت کا یہ پچھتاوا کسی کام نہ آئے گا۔ وہ کہے گا کہ مجھے ایک دفعہ واپس دنیا میں بھیج دیا جائے تو میں نیک کام کروںگا یعنی وقت کو اچھے کاموں میں گزاروں گا‘ لیکن وقت کی ناقدری کا انجام عذاب کی صورت میں سہنا پڑے گا۔ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی کوتاہیوں سے توبہ کر لے اور آنے والے وقت میں اچھے کاموں میں لگانے کا پختہ عہد کر لے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025