مسلمانانِ ہند کا مقدّمہارسلان اللہ خان
ہم پاکستانی بچپن سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ مسلمانوں پر کشمیر ‘ بوسنیا اور فلسطین میں ظلم ہورہا ہے اور واقعتاً یہ حقیقت بھی ہے ۔ پھر چیچنیا اور روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے بھی منبر و محراب سے دُعائیں بلند ہوئیں اور اللہ کے فضل سے اب ان دونوں جگہوں پر معاملات بہتر ہیں ۔ البتہ ایک مسئلہ ایسا ہے جس پر مسلمانانِ پاکستان نے خال خال ہی آواز اُٹھائی ہے اور وہ ہے مسلمانانِ ہند کا مسئلہ۔اس ضمن میں یقیناً پاکستان کے بہت سے علماء نے آواز اُٹھائی ہوگی لیکن مجموعی طور پر ہماری مساجد اور مدارس جو کہ اسلام کے قلعے ہیں ‘وہ بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے کوئی خاطر خواہ آواز بلند کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔ہندوستان میں بابری مسجد کی شہادت ہی سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ پاکستان بننے کی قیمت تو شمالی ہندوستان کے اُن مسلمانوں نے دی ہے جن بے چاروں کو یہ شرح صدر تھا کہ اُن کے علاقے کسی بھی اعتبار سے پاکستان میں شامل نہیں ہوں گے۔ پھر بھی اُنہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے مسلم لیگ کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا‘ جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دل میں ہندوستان کے مسلمانوں کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ آپؒ نے اُس وقت ہندو انتہا پسند تنظیموں کے خطرناک عزائم کو بے نقاب کیا جب اس کی بابت بہت کم لوگ علم رکھتے تھے ۔ آپؒ نے واضح طور پرکہہ دیا تھا کہ جس دن آرایس ایس کی گود میں پلنے والی ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی اقتدار میں آئے گی وہ مساجد کو شہید کرے گی اور مسلمانانِ ہند کے لیے عرصۂ حیات تنگ کرے گی ۔ آج یہ سب ہم اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بتادیا تھا کہ ہندوستان میں انتہا پسندی کا گڑھ مہاراشٹر ہے اور جملہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں وہیں سے ہیں خواہ وہ ویشوا ہندو پریشد ہو ‘ شیو سینا ہو یا بجرنگ دل ہو ۔ ان کی فکر مرہٹہ چھاپہ مار شیواجی کی طرزپر ہے جنہوں نے مغلوں کا جینا حرام کردیا تھا‘ یہاں تک کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالیؒ کو خط لکھا کہ آپ ان مرہٹوں سے ہماری جان بخشی کرائیں ۔پھر پانی پت کی تیسری جنگ میں اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل و کرم سے احمد شاہ ابدالی ؒ کے ذریعے مرہٹوں کا صفایا ہوا ۔اگر یہ جنگ نہ ہوئی ہوتی تو مرہٹے پورے ہندوستان پر قبضہ کرکے مسلمانوں کا جینا حرام کردیتے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ رام جی کی جنم بھومی (یعنی جائے پیدائش) کے بارے میں ہندو دھرم خاموش تھا لیکن پھر عیار اور مکّارعیسائیوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں میں فساد ڈالنے کے لیے یہ شوشہ چھوڑا کہ مغل بادشاہ بابر نے رام جی کی جنم بھومی کی جگہ پر موجود مندر کو توڑ کر بابری مسجد بنائی تھی ۔ عجیب بات ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں نے فوراً انگریزوں کی اس بات کو اس طرح مان لیا جیسے انگریز اُن کے بھگوان ہوں ۔ جو بات ہندوؤں کی مقدّس کتب پران ‘ رامائن ‘ وید ‘ بھگوت گیتا اور مہابھارت میں بھی نہیں تھی وہ تیسرے ٹھکانے یعنی عیسائیوں کی تحقیق کے تحت فوراً مان لی گئی۔ ہندوؤں کا یہ طرزِ عمل اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ انہوںنے انگریزوں کی غلامی اور اُن کے دور میں ہونے والے مظالم یکسر فراموش کرکے اُنہیں معاف کردیا ہے اور اب اُن کی اگر کسی سے دُشمنی ہے تو وہ مسلمانوں سے ہے ۔
حال ہی میں ایک عیسائی نے دعویٰ کیا ہےکہ تاج محل تیجو مندر کے اوپر بنا ہے اور یہ سنتے ہی انتہا پسند ہندو اب تاج محل کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔پہلے تو ہندو عیسائیوں کی بات پر عمل کرکے کوئی کارروائی کرتے تھے لیکن اب فرعونِ ہندوستان مودی ‘اَمیت شاہ اور یوگی نے تو ظلم و بربریت کی تمام حدوں کو عبور کرلیا ہے۔ آج کوئی بھی ایرا غیرا ہندو تھانے جاکر اگر یہ کہہ دے کہ مجھے شک ہے فلاں مسجد ایک مندرتوڑ کر بنائی گئی ہے تو اُسی وقت ہندو پولیس اُس مسجد کا سروے رکھ دیتی ہے ۔ مسلمان بیچ میں آتے ہیں تو اُنہیں مارا جاتا ہے۔ پھر کورٹ اُس جگہ کو متنازع قرار دے دیتی ہے اور وہ مسجد بند کردی جاتی ہے۔ اس کے بعد کچھ ہی دنوں میں مسجد کو شہید کردیا جاتاہے ۔ جس طرح ہندوؤں نے عیسائیوں کی بات پر یقین کرکے بابری مسجد شہید کرکے اُس کی جگہ رام مندر بنایا ہے اس سے ہندو عیسائی گٹھ جوڑ کی حکمت ِعملی واضح ہے ۔دوسری جانب ہندوستان کی اسرائیل سے دوستی اور موساد اور را کا مل کر کام کرنا یہودوہنود ملاپ کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ حضورِ اکرم ﷺ نے تو ہمیں پہلے ہی بتادیا تھا کہ کفر ایک ہی ملت ہے لیکن افسوس ہم مسلمان نہ اس بات کو سمجھے اور نہ ایک ہوسکے ۔بابری مسجد کے انہدام کے بعد مسلمانوں کے احتجاج پر ہندوستان بھر میں مسلم کش فسادات ہوئے۔ اس کےبعد مساجد اور مزارات شہید کرنے کا ایک سلسلہ چل نکلا۔
اب ہندوستان کی گیان پوری مسجد اور پھر سنبھل مسجد کو شہید کیا جارہا ہے ۔ آج ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ نفرت ‘ امن کے خاتمے اورمسلمانوں کے قتل عام کا نعرہ بن چکا ہے ۔ یہی نہیں‘ اب تو نوبت بہ ایںجا رسید کہ سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے دربار کو بھی (معاذ اللہ) مسمارکرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ رام جی کے پیروکار آج انہی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ وہ رام جی کا نام لے کر مسلمانوں کو شہید تو کرسکتے ہیں لیکن ان کی امن پسندی اور اہنسا یعنی عدم تشدد کی حکمت ِعملی پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ انتہا پسند ہندو رام جی کے نام کی مالا جپ کر راون سے جاملے ہیں۔اُنہیں امن و امان ‘ حق پرستی اور شانتی کے حوالے سے رام جی کی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ’’ جے شری رام‘‘ کے نعرے لگالگاکر مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہیں ‘ اُن کے گھروں کو مسمار کرتے رہیں ‘ مساجد کو مندروں میں تبدیل کرتے رہیں۔
اس سارے قضیے میں سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی مساجد میں جمعہ کی نماز کے بعد بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے سرے سے کوئی دُعانہیں کی جاتی ۔ دوسری جانب ہمارے وزیر ِدفاع صاحب محمود غزنویؒ کو لٹیرا کہہ رہے ہیں۔ سندھ میں راجا داہر کو ہیرو جبکہ محمد بن قاسمؒ کو غاصب کہا جارہا ہے۔ پنجاب میں رنجیت سنگھ اور بھگت سنگھ کے ناموں کو ثقافت کے نام پر زندہ کیا جارہا ہے۔حال ہی میں سہیل وڑائچ نے اپنے ایک کالم میں بتایا ہے کہ ہندوؤں کے قدیم کٹاس راج مندروں کو ازسر نو تعمیر کیا جارہا ہے ۔ ایک طرف ہندوستان کے ہمارے مسلمان بھائی ہیں جو بے بسی کے عالَم میں ہماری طرف دیکھ رہے ہیں اور دوسری جانب ہماری بے اعتنائی اپنے عروج پر ہے۔یہاں تو اُلٹی گنگا بہ رہی ہے ۔ہم نے اپنی نوازشوں اور کرم کو رواداری کے نام پر اغیار کے لیے وقف کرلیا ہے جبکہ ہمارا غصّہ ‘ نفرت اور انتقام اپنے مسلم بھائیوں کے لیے ہی رہ گیا ہے ۔ہم اپنی سیاسی اور عسکری قیادت کو کیا کہیں جب پاکستان کے منبر و محراب ہی سے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے نہ کوئی دُعا کی جاتی ہے نہ کوئی بات۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام طبقات کے مسلمان اپنی اپنی بساط کے مطابق ہند وستان کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کریں ۔اس ضمن میں پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اپنا کردار ادا کرے۔ پُرامن احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں۔ اوآئی سی کو خط لکھا جائے بلکہ جس طرح ہندوستان میں مساجد ایک کے بعد ایک شہید کی جارہی ہیں ‘اس پر تو اوآئی سی کا مرکزی اجلاس فوری طور پر بلانے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کہا کرتے تھے کہ اگر مسلمانانِ پاکستان نے ہندوستان کے مسلمانوں کو تنہا چھوڑ دیا تو ہم سب اُن کے مجرم ہوں گے ۔ آج جس طرح عرب ممالک نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا ہے اسی طرح اب ہمارے یہاں بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے جذبہ ماند پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر مسجد میں مسلمانانِ ہند کے لیے دُعائیں مانگی جائیں ۔ہندوؤں کے مظالم کو ہر ممکن طریقہ اور ذریعہ سے طشت از بام کیا جائے۔بقول اقبالؒ:؎
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
tanzeemdigitallibrary.com © 2025