(افکار و آراء) عمر رسیدہ افراد کے لیے لمحہ ٔفکریہ - ممتاز ہاشمی

17 /

عمررسیدہ افراد کے لیے لمحہ ٔفکریہممتاز ہاشمی

اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب انسان ساری عمر دنیاوی جدّوجُہد میں مصروف رہنے یعنی پڑھنے لکھنے اور نوکری یا کاروبار میں گزارنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو مختلف حالات و مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے روزمرہ کے معمولات میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ‘ جن کی قبولیت میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مواقع پر اکثر لوگ یہ مشورہ دیتے کہ مصروفیت کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ اپنایا جائے یا کوئی چھوٹا موٹا کام کر کے خود کو مصروف رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔
درحقیقت زندگی کے اس اہم اور نازک موڑ پر فرصت کے لمحات کی صورت میں اللہ تعالیٰ ہمیں یہ موقع فراہم کرتاہے کہ ہم اپنے ماضی کو پرکھیں اور اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے بقیہ زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دیں۔اگر گزر اوقات کے لیے اسباب میسر نہ ہوں تو زندہ رہنے کے لیے کام کرنا بھی عبادت میں شامل ہے۔ اگر ہمارے پاس سادگی سے زندہ رہنے کے لیے اسباب میسر ہیں تو اپنے وقت اور صلاحیتوں کواللہ کی بندگی کے لیے وقف کرنا ہی ہمارے لیے کامیابی کی امید ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے طرز زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی ضروریات کو کم کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ غیر ضروری معاملات کو چھوڑنے اور ان سے بچنے والے وقت‘ مال اور صلاحیتوں کو اللہ کی بندگی کے لیے وقف کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ شامل کیا ہے کہ جب وہ اللہ کی طرف راغب ہوتا ہے اور ایمان بالیقین کی کیفیت میں داخل ہوتا جاتا ہے تو اس کی دنیاوی زندگی میں خودبخود عاجزی‘ انکساری اور سادگی بڑھتی جاتی ہے۔ یہی پیمانہ ہے ہر ایک لیے اپنے ایمان کے دعوے کو جانچنے کا۔
ہم میں سے اکثریت اس بات سے غافل ہوتی ہے کہ اس عمر تک پہنچ جانے کے بعد اللہ کے احکامات اور حکمت عملی کیا ہے ۔ عمر کے اس حصے میں انسان جسمانی اور ذہنی طور پر اس قدر تندرست و توانا نہیں ہوتا جو وہ جوانی کی عمر میں تھا۔ عمررسیدہ افراد کے لیے کیا لائحۂ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے ‘اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن اور سُنّت ہی سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
((اَعْمَارُ اُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ اِلَى السَّبْعِينَ‘ وَاَقَلُّهُمْ مَنْ يَجُوزُ ذٰلِكَ))
(ترمذی: ۳۵۵۰۔ ابن ماجہ: ٤۲۳٦ )

’’میری اُمّت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی‘ اور اس سے تجاوز کرنے والے لوگ بہت کم ہوں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے ‘ دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ساٹھ سال کا عرصہ کافی طویل ہے۔ اس لیے جو بندے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کے عذر‘ حجت اور بہانے کو ختم کر دیتا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
{ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوْخًاج وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۶۷) } (غافر)
’’وہی ہے (اللہ) جس نے تمہیں پیدا کیا پہلے مٹی سے‘ پھر نطفے سے‘ پھر علقہ سے‘ پھروہ تمہیں بچہ بناکر نکالتا ہے‘ پھر (تمہیں پروان چڑھاتا ہے) تاکہ تم اپنی پوری قوت (جوانی) کو پہنچ جاؤ‘ پھر (تمہیں مزید عمر دیتا ہے ) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ۔ (جبکہ) تم میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہیں اس سے پہلے ہی وفات دے دی جاتی ہے اور (تم میں بعض کو مہلت دیتا ہے) تاکہ تم وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ‘ اور (یہ اس لیے ہے) تاکہ تم سمجھو ۔‘‘
یہاں وقت ِمقررہ سے مراد موت کا وقت ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت میں شکم مادر میں تخلیق انسانی کے مختلف مراحل ‘پھر دنیا میں انسانی زندگی کے مختلف اَدوار کا بیان کرکے یہ بتا دیا ہے کہ جس شخص کو بچپن اور جوانی سے گزارتے ہوئے بڑھاپے میں پہنچا دیا جائے اس کے لیے اپنے رب کو نہ پہچاننے کی کوئی حجت باقی نہیں رہتی‘ اگر وہ سوچ سمجھ سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :
((اَعَذَّرَ اللّٰہُ اِلَی امْرِئٍ اَخَّرَ اَجَلَہُ حَتّٰی بَلَّغَہُ سِتِّیْنَ سَنَۃً))
(صحیح البخاری:۶۴۱۹)

’’اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا جس کو ساٹھ برس تک (دنیا میں) مہلت دی۔‘‘
جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ساٹھ سال تک کی لمبی عمر عطا کی اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دی‘ اس کے باوجود وہ توبہ کرکے گناہوں سے باز نہیں آتا اور اب بھی اپنے رب کریم کی طرف رجوع نہیں کرتا تو پھراس کے لیے عذر خواہی کا وہ کون سا موقع رہ گیا ہے جس کے سہارے وہ قیامت کے دن عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے! اگر کوئی جوان شخص گناہ و معصیت اور بے عملی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ جب بڑھاپا آئے گا تو اپنی بدعملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرکےزندگی کے اس حصہ کو اللہ کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا‘ لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے اس کے ہاتھ سے توبہ وانابت اور نیک عمل کرنے کا آخری موقع بھی نکلا جا رہا ہے ۔ایسے میںوہ اپنی بے عملی اور گناہوں پر اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟
کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کی آخری منزل میں پہنچ کر بھی اپنی بے عملیوں اور اپنے گناہوں پر نادم و شرمسار نہیں ہیں ! اس آخری مرحلہ پر بھی جب کہ موت آ دبوچنے کے لیے بالکل تیار کھڑی ہے‘ انہیں اپنے رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و رحمت پکڑ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ جب اسی حالت میں ایسے لوگوں کی موت واقع ہو جاتی ہے تو جہنم ان کا مقدّر بن جاتا ہے۔ ان کے لیے یہ آخری موقع ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اپنی بقایا زندگی کو اللہ کی عبادت میں گزارنے کا عہد کریں۔
اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فرصت یا مہلت ہمیں مہیا کی ہے تو یہ اس کا ہم پر بہت بڑا کرم ہے ۔ وہ اب بھی ہمیں یہ موقع فراہم کر رہا ہے کہ قرآن کی طرف لوٹ آئیں۔ اپنے مقصد ِحیات کو کامیاب بنانے کے لیے اللہ کے احکامات کی پابندی اور اس کے دین کے نفاذ کے لیے عملی جدّوجُہد میں حصہ لیا جائے۔اس عظیم مقصد اور اس کے حصول کے لیے عملی لائحۂ عمل کو مفکر ِ قرآن علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے :
وقت فرصت ہے کہاں‘ کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ اکثر اقبال کے اس شعر کو سناتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ عموماً یہ سمجھاجاتا ہے کہنبی کریمﷺ کی بعثت کا مقصد مکمل ہو چکا ہے‘ جبکہ درحقیقت ابھی ایسا نہیں ہوا۔اس کی تکمیل اسی وقت ہو گی جب کرۂ ارض پر اللہ کا دین غالب اور نافذ ہو جائے گا اور اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا فریضہ تمام اہل ِایمان پر فرضِ اوّلین ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت عطا فرمائے اور اپنی بقایا زندگی اللہ کی عبادت یعنی دین ِاسلام کے نفاذ کی جدّوجُہد میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!