اُمّت ِمسلمہ کی خصوصیت
اعتدال اور میانہ رویمولانا عبدالمتین
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ۭ } (البقرۃ : ۱۴۳)
’’اور (مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل اُمّت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو ‘ اور رسول تم پر گواہ بنے ۔‘‘
اس آیت میں اللہ ربّ العزت اُمّت محمدیہﷺ کے حوالے سے ایک خاص بات بیان فرماتے ہیں۔ قرآن کریم کے مذکورہ مضمون کے سیاق وسباق میں اُمّت ِمسلمہ کے حوالے سے یہ باتیں ذکر ہوئی ہیں :
(۱) اُمّت کے افراد یعنی اُمّت ِمسلمہ
(۲) اُمّت کا مرکز یعنی بیت اللہ
(۳) اُمّت کے نبی یعنی نبی کریم محمد ﷺ
اس تحریر کا موضوع اُمّت ِمحمدیہ کے افراد سے متعلق ہے۔
اُمّت ِمسلمہ کی خصوصیت
مذکورہ بالا آیت میں اللہ ربّ العزت اُمّت ِمحمدیہ کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے ایک خاص اصطلاح ذکر فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہیں’’اُمّت ِوسط‘‘ بنایا ہے۔ عربی میں ’’وسط‘‘ اعتدال‘میانہ روی اور بیچ کے راستے کو کہتے ہیں۔
اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جو چیز درمیان میں ہوتی ہے وہ زیادہ اچھی لگتی ہے اور زیادہ آویزاں ہوتی ہے ۔ اسی طرح جب کسی مجلس میں اسٹیج بنتا ہے تو بالکل بیچ میں بنتا ہے اور صدرِ مجلس کی کرسی اسٹیج کے بالکل بیچ میں لگائی جاتی ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ اس مجلس میں سب سے معزز ہیں ۔ اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں کہ تمہاری بھی خصوصیت ایسی ہی ہے کہ تم افراط وتفریط کا شکار نہیں ہو۔ نہ تم حد سے آگے بڑھنے والے ہو اور نہ حد سے گرنے والے ہو۔ اس لیے کہ ہم نے تمہیں ایک معتدل اور درمیانی اُمّت بنایا جو اعتدال پر اور انصاف پر قائم رہنے والی ہے تاکہ روزِ محشر تم لوگوں پر گواہ بن سکو اور نبی آخر الزماں ﷺ تم پر گواہ بن سکیں۔ یہ تمہاری سب سے بڑی خصوصیت ہے۔
روزِ محشر اُمّت ِمسلمہ کی خصوصیت
رسول اللہ ﷺ کے دنیا میں آنے سے پہلے بہت سی اُمتیں رہی ہیں لیکن اللہ ربّ العزت نے کسی اُمّت اور کسی قوم کو یہ اعزاز نہیں بخشا جو اُمّت محمدیہ ﷺ کو بخشا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ روزِ محشر جب تمام لوگ جمع ہوں گے تو کُل ایک سو بیس صفیں قائم ہوں گی جن میں سے ۸۰ صفیں اُمّت ِمحمدیہ ﷺکی ہوں گی اور بقیہ ۴۰ دیگر اُمتوں کی۔
پچھلی اُمتوںمیں یہ خرابی پیدا ہوگئی تھی کہ وہ بات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے یا پھر بہت ہی زیادہ معمولی بنا دیتے۔اُمّت ِمحمدیہﷺ کی یہی خصوصیت بتائی گئی کہ یہ باتوں کے اعتدال کو جانتی ہے اور اسے دین و شریعت کے مزاج کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا آتا ہے ۔اسی وجہ سے اس اُمّت کو آخری اور سب سے زیادہ فضیلت والی اُمّت قرار دیا جارہا ہے۔
فضیلت و انعام کا یہ سلسلہ اللہ ربّ العزت نے بنی اسرائیل کو بھی عطا فرمایا لیکن انہوں نے افراط و تفریط سے کام لیا اور بالآخر بہت سی خرافات میں مبتلا ہوگئے۔ یہاں تک کہ سیدنا عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر توحید تک کا انکار کردیا اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام و‘ نعوذباللہ‘ اللہ کا بیٹا مان لیا۔ ایک طرف یہ غلطی کر رہے ہیں کہ نبیوں کو خدا کا مقام دے رہے ہیں اور دوسری طرف معجزات کا انکار کر رہے ہیں۔ گویا ان میں درمیانہ پن نہیں رہا کہ ایک طرف اتنا اونچا مقام دے رہے ہیں کہ بات کو آسمان تک پہنچاتے ہیں اور دوسری طرف نبی ان کے سامنے معجزات دکھاتے ہیں تو وہ انکار کردیتے ہیں۔
صحابہ کا مزاج اعتدال سے بھرپور نظر آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک اشارے پر اپنی جان و مال قربان کرنے کو تیار ہیں‘ لیکن کبھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں رسولِ مکرم ﷺ کو‘ نعوذباللہ‘ خدا کا درجہ دوں گا‘ بلکہ کہتا یہی ہے: أَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔‘‘
صحابہ کرامؓ کو اعتدال کی تربیت
حضرت انس رضـی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں :
جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ اِلٰى بيُوتِ اَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ يَسْاَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّﷺ، فَلَمَّا اخبروا كَاَنَّهُمْ تقالُّوها، فَقَالُوا: وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَاَخَّرَ‘ قَالَ اَحَدُهُمْ: أمَّا أَنا فَاِنِّي اُصَلِّي اللَّيْل ابدًا، وَقَالَ آخَرُ: اَنا اَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا اُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: اَنَا اَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا اَتَزَوَّجُ اَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ اِلَيْهِمْ فَقَالَ: ((اَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا؟ اَمَا وَاللّٰهِ اِنِّي لَاَخْشَاكُمْ لِلّٰهِ وَاَتْقَاكُمْ لَهُ، لٰكِنِّي اَصُومُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّي وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّيْ)) (مشکوٰۃ:۱۴۵)
’’تین اشخاص نبی ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھنے کے لیے نبی ﷺ کی ازواجِ مطہرات کے پاس آئے۔ جب انہیں اس کے متعلق بتایا گیا ‘ تو گویا انہوں نے اسے کم محسوس کیا۔ چنانچہ انہوں نے کہا : ہماری نبی ﷺ سے کیا نسبت ؟ اللہ نے تو ان کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا : میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا ۔ دوسرے نے کہا : میں دن کے وقت ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا ‘اور تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے اجتناب کروں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا ۔ نبی ﷺ ان کے پاس آئے اور پوچھا : تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اس طرح ‘ اس طرح کہا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں ‘ لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں ‘ رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ‘ پس جو شخص میری سُنّت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔‘‘
بہت ہی خوب صورت اور تسلی بخش انداز میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کے توسط سے اُمّت کو اعتدال کا پیغام دیا اور اپنی مثال دے کر بیان فرمایا تاکہ اس پر عمل کرنا‘مشاہدہ کرنا‘ سیکھنا آسان ہوجائے ۔ایک حتمی نکتہ یوں بیان فرمایا کہ یہی میرا طریقہ ہے‘ یہی شریعت ہے اور اسی معتدل انداز میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ۔جو یہود و نصاری کی طرح افراط وتفریط کا شکار ہوگا ‘اس کا اُمّت ِمسلمہ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس اُمّت کی پہچان ہی اعتدال ہے۔
شریعت کا منہج و مزاج
شریعت یہ نہیں بتاتی کہ زندگی میں بیک وقت دین رہے گا یا دنیا رہے گی‘ یہ نہیں کہ اگر میں عبادت میں مگن رہا تو کسی سے تعلق نہیں رکھوں گا‘ نہ یہ کہ میں مکمل طور پر بازار سے چمٹ جاؤں یا پھر مسجد سے۔ شریعت بتاتی ہے کہ تم نے دین اوردنیا کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہے۔ تجارت بھی کرنی ہے اور عبادت کے فرائض بھی انجام دینے ہیں۔اللہ کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں اور اللہ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ تم اللہ کے حقوق ادا کرنے میں بندوں کے حقوق سے غافل ہوجاؤ اور نہ ایسا ہوکہ بندوں کی خدمت میں ہی لگے رہو اور خدا کی بندگی بھول جاؤ۔تم مال کے لیے محنت ضرور کرو لیکن اسے اپنی ضرورت سمجھو‘ مقصد مت سمجھو ورنہ تم ’’حب ِمال‘‘ کی بیماری کا شکار ہوجاؤگے۔ اسی طرح دنیاداری کرو لیکن اس کے لیے اتنی ہی کوشش کرو جتنا تمہیں یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے اتنی کوشش کرو جتنا تمہیں وہاں رہنا ہے۔ اگر تم دنیا کی مختصر سی زندگی کے لیے آخرت والی محنت کرنا شروع کروگے تو ’’حب ِدنیا‘‘ کی بیماری میں مبتلا ہوجاؤگے ‘جسے رسول اللہ ﷺتمام خرابیوں کی جڑ والی بیماری قرار دیتے ہیں۔
عقائد میں اعتدال کی تعلیم
ایک مسلمان کچھ اہم باتوں پر ایمان لے آتا ہے لیکن اسے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ تمام عقائد ایک برابر نہیں بلکہ ان میں ایک ترتیب قائم ہے ۔مثلاً توحید کو عقائد میں سب سے پہلا درجہ حاصل ہے اور رسالت کو دوسرا۔اب اگر کوئی عقیدۂ رسالت پر اتنا زور دے کہ اسے توحید سے بھی زیادہ اہم ثابت کرے تو یہ اعتدال کی پٹڑی سے ہٹ جانے والی بات ہے۔
عقائد میں اعتدال نہ ہونے کی ایک بڑی شکل یہ ہے کہ عقیدۂ توحید کو اس درجہ شدت سے بیان کیا جائے کہ اُمّت کے ہر دوسرے فرد کو مشرک سمجھنے لگے۔ توحید پر ایمان لانے کا یہ مطلب ہرگز درست نہیں کہ اولیاء اللہ کی گستاخی کی جائے‘ ان کی کرامات کا انکار کیا جائے اور توحید کو سمجھانے کے بہانے اہل اللہ پر معاذاللہ مزاحیہ جملے کسے جائیں۔ یہ توحید کے بیان کرنے کا طریقہ ہے نہ ہی دعوتی حکمت عملی کے موافق ۔بے شک توحید دین کا مرکزی ستون ہے اور شرک ایکگناہِ عظیم بلکہ ظلم عظیم ہے لیکن اس کی آڑ میں اسی توحید کے داعی صوفیاء اور اولیاء کی کردار کشی کرتے ہوئے سستے بازاری جملوں کا استعمال ان بزرگوں کے بالکل بھی شایان شان نہیں۔ یہ سب کے سب توحید کے حوالے سے اعتدال سے ہٹ جانے والے رویے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین کے ساتھ عقیدت و محبت کا تعلق پیدا ہوجانا ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کے بغیر دین کے بہت سے پہلو ادھورے رہ جاتے ہیں لیکن اپنے سوا ہر ایک کو گستاخ قرار دینا اور محبت و عقیدت کو اپنا ٹھیکہ سمجھ لینا غلط بات ہے۔ عقیدت کی آڑ میں اولیاء کو صحابہ سے بلند مرتبہ دینا یا انبیاء کو خدا کا مرتبہ دینا اور پھر عقیدت کی اوڑھنی اوڑھ کر شرک‘بدعت کے دھندوں میں لگ جانا‘ اسلاف کے مدفن بیچ کھانا اور یہ سب عاشق رسول کا لیبل لگاکر کرنا‘ اس عقیدت کے سہارے خود کو عبادات سے یہ سوچ کر بری سمجھنا کہ یہی عقیدت میری نجات کے لیے کافی ہے‘ جہالت کی انتہااور اُمّت ِمسلمہ کی اعتدال والی خصوصیت کے یکسر خلاف ہے۔
اس میں اعتدال کا طریقہ یہ ہے کہ توحید پر ایمان رکھے لیکن بزرگان دین کے مقام کو بھی سمجھے۔ رسالت پر ایمان رکھے لیکن عقیدت و محبت کا درست استعمال بھی سیکھے۔
تحریکات میں اعتدال کی ضرورت
اعتدال کا جنازہ نکالنے میں مختلف دینی تحریکات کے ناسمجھ کارکن بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ ہر ایک کی یہ چاہت ہوتی ہے کہ دین کا کام اسی طرز پر کرنے کی ضرورت ہے جس پر ہماری تحریک کارفرما ہے ۔ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دین کے مختلف شعبہ جات ہیں اور ان تمام کو ایک ساتھ کرنے کی خصوصیت صرف رسول اللہ ﷺکو حاصل تھی ۔ قرآن آپ کے اوصاف و مناصب تلاوتِ کتاب‘ تعلیم ِکتاب‘ تعلیم ِحکمت اور تزکیۂ نفس کی صورت میں بیان کرتا ہے۔
آپ ﷺکے دنیا سے جاتے ہی اُمّت کے پہلے طبقے یعنی صحابہ کی جماعت میں ہی یہ سارے کام خوب صورت انداز میں تقسیم ہوچکے تھے۔ ٹھیک یہی ترتیب اُمّت کے موجودہ طبقے میں پائی جاتی ہے جو کہ سیاست‘ تعلیم و تعلّم ‘ سلوک و تصوف‘ دعوت و تبلیغ‘ تحقیق‘ تصنیف و تالیف‘ جہاد و اعلائے کلمۃ اللہ وغیرہ کی صورت میں اُمّت کررہی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کام کو ناگزیر سمجھنا اور باقی سب کو بےکار یا کم اہمیت کا حامل سمجھنا یا پھر ہر ایک سے اپنی تحریک کے نظم کا تقاضا کرنا بے اعتدالی کے رویے ہیں ۔ ان سب کو اعتدال پر لانے کی یہی ایک صورت ہے کہ اُمّت کے کسی ایک شعبے پر لگ کر محنت کی جائے اور بقیہ کو اپنا حریف اور مخالف نہ سمجھاجائے۔
دین و دنیا میں اعتدال کی تعلیم
حضرت عبداللہ بن عمرو رضـی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں ایک آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت طلب کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
((أَحَيٌّ وَالِدَاكَ؟(( قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ))فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ)) (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
وَفِي رِوَايَةٍ:
((فَارْجِعْ إِلَى وَالِدَيْكَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا))(مشکوٰۃ:۳۸۱۷)
’’ کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟‘‘ اس نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ان دونوں (کی خدمت) میں مجاہدہ (انتہائی کوشش) کر! ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے :
’’ اپنے والدین کے پاس چلا جا اور ان سے اچھی طرح سلوک کر۔‘‘
جہاد ایک بہت ہی عظیم عمل ہے لیکن اس صحابی کے لیے اس وقت اس کے والدین کی خدمت کرنا زیادہ عظیم عمل تھا تو آپﷺ نے ان کو والدین کی خدمت میں لگے رہنے کا حکم دیا۔اس سے گویا شریعت کا یہ مزاج سمجھایا گیا کہ اس موقع پر دین پر عمل کرنے کی بہتر صورت کون سی ہے!
خالق اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی میں اعتدال
ایک ایسا شخص کہ جس کا گھر مسجد حرام کے اتنا قریب ہے کہ وہ گھر سے نکلے اور مسجد حرام میں پہنچ جائے ۔ گھر میں اس کی والدہ بیمار ہیں اور انہیں تیمارداری کی ضرورت ہے ۔وہ مریضہ ایسی صورتِ حال کا شکار ہے کہ اگر کوئی اسے چھوڑ کر چلا جائے تو اس کی حالت مزید بگڑسکتی ہے‘ ضرورت ہے کہ اس کے پاس کوئی نہ کوئی رہے ۔ اسی دوران عشاء کی نماز کا وقت ہوتا ہے تو اس کا اکلوتا بیٹا اگر یہ کہے کہ میں مسجد حرام میں نماز پڑھوں تاکہ مجھے ایک لاکھ نمازیں پڑھنے کا ثواب ملے تو شریعت اس کے متعلق رہنمائی کرتی ہے کہ تم گھر میں ہی نماز پڑھو اور اپنی ماں کا خیال رکھو۔اس موقع پر تمہارے لیے یہ زیادہ بہتر ہے۔
شریعت کی تعلیمات ایسی ہیں جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کے حوالے سے درمیانی راہ دکھلاتی ہے ۔
انصاف اور اعتدال
ایک موقع پر کسی قبیلے کے جنگ و جدل کا معاملہ پیش آیا۔ آپ ﷺنے صحابہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
((اُنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُوْمًا)) قُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ‘ نَصَرْتُہٗ مَظْلُوْمًا‘ فَکَیْفَ اَنْصُرُہُ ظَالِمًا؟ قَالَ: ((تَکُفُّہٗ عَنِ الظُّلْمِ فَذَاکَ نَصْرُکَ اِیَّاہُ))(جامع الترمذی:۲۲۵۵)
’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے ظلم سے باز رکھو‘ اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے۔‘‘
یعنی اگر تمہارا مسلمان بھائی ظلم کر رہا ہے تو تمہیں اس کا ساتھ یوںدینا ہے کہ اسے ظلم سے روکنا ہے اور اگر تمہارا بھائی مظلوم ہے تو اس کی بھی تمہیں مدد کرنی ہے اور ظلم سے بچانا ہے۔ شریعت نے دونوں کے متعلق احکامات سمجھا دیے کہ کس معاملے میں کون سا رویہ اپنانا ہے !
مال کمانے کے متعلق اعتدال
اگر کوئی کہے کہ میں کماتا ہی نہیں کیونکہ کمانا دنیاداری ہے اور میں دین دار بننا چاہتا ہوں تو یہ غلط رویہ ہے ‘کیونکہ حلال کمائی بھی دینی فرائض میں شامل ہے۔ کتنی ہی ایسی عبادات ہیں جو مال خرچ کرکے ادا کی جاتی ہیں جیسے زکوٰۃ‘صدقہ‘فطرہ‘قربانی‘حج‘صلہ رحمی وغیرہ۔ اسی طرح اگر کوئی مال کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لے اور اس پر دولت جمع کرنے کی دھن سوار ہوجائے تو شریعت رہنمائی کرتی ہے کہ یہ بھی غلط طریقہ ہے ۔مال کو اللہ نے انسان کی خدمت و ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے ‘اپنے آپ کو اس پر کھپانے کے لیے نہیں ۔تم مال کماؤ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے‘ جب تمہاری ضرورت پوری ہو جائے تو مزید مال کو اپنا مقصد مت بناؤ۔
مال خرچ کرنے کے متعلق اعتدال
اگر کوئی اپنے مال کو بے تحاشا خرچ کرتا ہے تو شریعت منع کرتی ہے فضول خرچی اور اسراف سے بچو ۔اگر کوئی اپنے مال کو خرچ ہی نہیں کرتا تو شریعت یہ کہتی ہے کہ کنجوسی سے بھی بچو۔ اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتے ہیں:
{وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا(۶۷)}(الفرقان)
’’اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں ‘ نہ تنگی کرتے ہیں ‘ بلکہ ان کا طریقہ اس ( افراط و تفریط ) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے۔‘‘
اللہ کریم ہمیں یہ بتلا رہے ہیں کہ رحمان کے بندے وہ ہیں جو اعتدال اور میانہ روی پر قائم ہیں۔ خرچ کرنے میں افراط اور تفریط سے بچے ہوئے ہیں۔ جب فضول خرچی کرے گا تو گناہ اور عیاشی میں مبتلا ہوجائے گا اور بہت سی غیر ضروری چیزوں کو ضروری سمجھ کر خریدنے کا بوجھ اٹھائے گا۔ اگر کنجوسی کرے گا تو زکوٰۃ‘قربانی‘حج‘صدقہ خیرات‘صلہ رحمی‘اہل و عیال کے حقوق وغیرہ کیسے ادا کرے گا؟ اسی لیے شریعت نے اعتدال کی راہ دکھلائی کہ انفاق بھی کرنا ہے اور اسراف سے بھی بچنا ہے۔
نوافل اور فرائض کے درمیان اعتدال
فرائض وہ ہیں جو کسی حال میں معاف نہیں جبکہ نوافل کہتے ہی اس عبادت کو ہیںجو لازم نہیں بلکہ اضافی اجروثواب کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بھی بہت افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ہم نوافل کو تو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ فرائض کو بھی نہیں دیتے‘ جیسے فضیلت والی راتیں آجاتی ہیں تو ان میں ساری رات عبادت کی جاتی ہے لیکن جب فجر کی فرض نماز ادا کرنے کا وقت آتا ہے تو یہی نفلی عبادت کرنے والے سب سو جاتے ہیں۔ اس صورت میں نفلی عبادت کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے جس کے متعلق کوئی بازپرس نہیں ہوگی لیکن فرض کو چھوڑا جارہا ہے حالانکہ قیامت کے دن پہلا سوال ہی فرض نماز سے متعلق ہوگا۔
قربانی کے موقع پر جو قربانی کرنے کا اردہ کرتے ہیں وہ یکم ذی الحجہ سے قربانی تک اپنے ناخن اور جسم کے اضافی بالوں کو صاف نہیں کرتے جبکہ یہ ایک مستحب عمل ہے ‘یعنی جو یہ عمل کرے گا اسے ثواب ملے گا اور جو نہیں کرے گا اسے کوئی گناہ نہیں ملے گا۔ حیرت ہے کہ ایک شخص دس دن تک یہ نفلی کام کرتا رہتا ہے لیکن جیسے ہی قربانی کرتا ہے تو اپنی داڑھی کے بال بھی صاف کردیتا ہے ‘حالانکہ داڑھی کاٹنا گناہِ کبیرہ ہے ‘مکروہِ تحریمی ہے۔ ایک طرف نفلی عبادت کی فکر ہے اور دوسری طرف حرام کی بھی فکر نہیں تو یہ افراط وتفریط ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا مزاج صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا اور دین کی جو حکمت والی درمیانی تعلیم ہے اس کو نہیں اختیار کیا گیا۔
قبور سے متعلق اعتدال
قبروں سے متعلق ہم دو انتہاؤں پر کھڑے ہوئے ہیں جبکہ شریعت یہاں بھی اعتدال ہی سکھاتی ہے۔ مثلاً میت کو غسل دیتے وقت اعضاء کا خیال رکھو‘ زیادہ ٹھنڈا اور زیادہ گرم پانی کے بجائے نیم گرم پانی کا استعمال کرو‘ تدفین کے وقت اعزاز سے رکھو‘ جنازہ پڑھو‘ کندھا دو اور جب دفن کرلو تو قبر پر قدم مت رکھو‘ قبر کو اپنی نشست گاہ مت بناؤ‘ قبر کو مسمار مت کرو۔یہ سب مرحوم کے لیے احترام کی ایک معتدل شکل ہے۔
اسی طرح شریعت یہ بھی بتلاتی ہے کہ حد سے بڑھ جانے والے کام بھی نہ کرو۔ قبر کی پختہ تعمیر مت کرو‘ مزار مت بناؤ‘ چراغ مت جلاؤ‘ قبر کا طواف نہ کرو نہ ہی اسے سجدہ گاہ بناؤ‘ نہ صاحب ِقبر سے دعا مانگو وغیرہ۔ گویا دونوں چیزیں ساتھ ساتھ سمجھا دیں کہ تم حد سے بڑھنے کی کوشش بھی مت کرو اور حد سے گرنے کی کوشش بھی مت کرو۔
شادی بیاہ کے موقع پر اعتدال
جب یہ کہا جاتا ہے کہ شادی شریعت کے مطابق کرو تو ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ شریعت کے مطابق شادی شاید سوگ منانے جیسا عمل ہے۔ اگر شادی شریعت کے مطابق ہوگی تو تسبیح پڑھنی ہوگی‘ قرآن خوانی یا آیت کریمہ کا ختم کرنا ہوگا اور پھر ایسا لگے گا کہ خوشی کا ماحول ہی نہیں ہے۔درحقیقت ایسا بالکل نہیں ہے ۔شادی ایک خوشی کا موقع ہے اور اسے خوشی خوشی ہی منانا چاہیے ۔خوشی منانے کا جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے اس سے منع نہیں کیا جارہا البتہ چند شرائط بتائی جارہی ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے۔ مثلاً بےپردگی نہ ہو‘ ڈھول باجے نہ ہوں‘ ہندوانہ رسم و رواج نہ ہوں۔ان شرائط کے ساتھ جیسے چاہو اپنی خوشی منالو۔ آپﷺ خود اس کی ترغیب دے رہے ہیں کہ نکاح کی تقریب کا بھرے مجمع میں اہتمام کرو‘ مسجد میں نکاح کرو‘ ولیمہ کرکے سب کو اپنی خوشی میں شریک کرو‘ وغیرہ وغیرہ۔
باہمی تعلقات میں اعتدال
اکثر ہمارے آپس کے تعلقات میں بھی افراط وتفریط کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ کسی سے ایسا تعلق قائم کریں گے کہ اس پر جان بھی نثار کریں گے۔ ہر وقت اسی کے ساتھ بیٹھک لگائیں گے‘ گپ شپ لگی رہے گی۔ وقت بے وقت یار کو ڈھونڈتے رہیں گے۔ کہیں آنا جانا ‘ تقریبات میں شرکت کرنا‘ یہاں تک کہ لین دین بھی اسی کے ساتھ کرنے کا سوچیں گے۔ اگر ایک اختلاف سے یہ گہری دوستی دشمنی میں بدل جائے تو پھر ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔یہ ہمارے تعلقات میں پائی جانے والی بڑی عام بے اعتدالی ہے۔
شریعت یہ نہیں کہتی کہ ہم ہر ایک سے دوستیاں کرتے پھریں ‘ہر ایک کو اپنے سر کا تاج بنالیں اور ہر ایک سے لین دین شروع کردیں بلکہ جو روش اپنانی چاہیے اس کے متعلق فرمایا کہ ایک مسلمان کی مال ‘جان‘ عزت و آبرو کی حفاظت کرو۔ اس کے ساتھ علیک سلیک رکھو۔ ضرورت پڑنے پر اس کی مدد کرو۔ بس اتنا ہی کافی ہے ۔
کسی سے ایسی دوستی کرنا کہ اس کے غلط کو بھی صحیح قرار دینا اور کسی سے ایسی نفرت کرنا کہ اس کی ساری اچھائیاں نظر انداز کرنا‘ دونوں رویے غلط ہیں۔ اگر ہم کسی سے تعلق رکھتے ہیں تو اس میں خوبی بھی ہو سکتی ہے اور خامی بھی تو ہم اس کی خوبی پر نظر رکھیں اور اس کی خامی کو نظر انداز کریں۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلقات میں بھی اعتدال کا لحاظ رکھیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی ایک اختلاف کی وجہ سے ہم تعلق کو دشمنی میں بدل دیں۔ یہ بڑے ظلم کی بات ہے۔
مزاج کا اعتدال
کوئی اپنے مزاج میں اتنی زیادہ بہادری رکھتا ہے کہ وہ ظالم بن جاتا ہے تو شریعت اس رویے کی مذمت کرتی ہے ۔اگر کوئی اپنے مزاج میں اتنا ڈھیلا پن لاتا ہے کہ بالکل بزدل ہی بن جاتا ہے تو شریعت اس رویے کی بھی ممانعت کرتی ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص اس قدر احساس کمتری کا شکار ہے کہ وہ نا شکری میں مبتلا ہونے لگتا ہے تو شریعت کہتی ہے کہ یہ ناشکری تمہیں اللہ کی رحمت سے مایوس کرکےکفر کے کنویں میں دھکیل سکتی ہے ۔کوئی بہت زیادہ احساس برتری کا شکار ہے جس سے گھمنڈ اور تکبّر میں مبتلا ہو رہا ہے تو شریعت اس رویے کی بھی روک تھام کرتی ہے کہ تم اپنے اندر تواضع اور عاجزی پیدا کرو۔ خود کو بہت گھٹیا بھی مت سمجھو اوربہت اعلیٰ بھی مت سمجھو ۔اپنے اندر عاجزی کی روش پیدا کرکے اعتدال پر قائم رہو۔
عقل اور جذبات میں میانہ روی
انسان میں عقل اور جذبات کے بڑے شدید مادے پائے جاتے ہیں جو اکثر اوقات انسان کو اعتدال پر قائم رہنے نہیں دیتے ۔زیر بحث آیت کی روشنی میں یہ اہم اصول سمجھنے کو ملتا ہے کہ تم اُمّت وسط ہو۔ دین کا مزاج اور دین کی جو اصل بنیاد اور ریڑھ کی ہڈی ہے‘ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ اپنے جذبات اور عقل کو بیچ میں مت لاؤ کیونکہ انسان ایسا ہے کہ کبھی وہ جذبات میں آکر غلط فیصلہ کرتا ہے‘ اور کبھی اپنی عقل کے خودساختہ پھندے میں پھنس کر ناقص فیصلہ کرسکتا ہے۔اس لیے اس اُمّت کو سمجھایا گیاکہ فیصلے اپنی طبیعت کے مطابق مت کرو بلکہ جیسے شریعت رہنمائی کرے ویسے فیصلے کرو چاہے تمہاری عقل میں آئے یا نہ آئے‘ تمہارا دل مانے یا نہ مانے۔ جب تم اپنے آپ کو شریعت کے حوالے کروگے تو وہ تمہیں نہ حد سے آگے بڑھنے دے گی نہ حد سے گرنے دے گی کیونکہ شریعت میں اعتدال پایا جاتا ہے ۔
خلاصہ
ہمارے ہر عمل میں اعتدال کی ضرورت ہے۔ عقیدے میں بھی‘ عبادت میں بھی ‘ حقوق کی ادائیگی میں بھی‘ خرچ میں بھی‘ سیاست میں بھی‘ نیکیوں میں بھی‘ آپس کے تعلقات میں بھی ‘ ہمارے مزاج اور اہم فیصلوں میں بھی اعتدال ہونا چاہیے تاکہ ہم اُمّت ِمسلمہ کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025