(تذکیر و موعظت) اُمّت ِمسلمہ کی زبوں حالی کا علاج - حافظ محمد اسد

17 /

اُمّت ِمسلمہ کی زبوں حالی کا علاجحافظ محمد اسد
استاذ قرآن اکیڈمی یٰسین آباد‘ کراچی

اُمّت ِمسلمہ پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب اُس کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے خوف سےلرزا ں و ترساں ہوا کرتا تھا ۔ وہ نہ صرف مسلمان ماں ‘بہن‘ بیٹی کی عزت کامحافظ تھا بلکہ غیر مسلم بھی اپنی بچیوں کی چادر کے تحفظ کے لیے اسی کی طرف دیکھتے تھے۔مغرب کے کنارے پوری شان و شوکت کے ساتھ صدیوں سے کھڑا جبل الطارق آج بھی ہمیں وہ ایمان افروز داستان سنا رہا ہے جب ایک عیسائی سردار مسلمانوں کے سالارِ اعلیٰ موسیٰ بن نصیر کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے : ہم نے سنا ہے کہ اہل اسلام عورتوں کی عزت کے محافظ ہوتے ہیں ‘وہ خواتین کے تقدس کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں‘ غیر عورت کو دیکھتے ہی احترام سے سر جھکا لیتے ہیں۔ مسلمان معاشرے میں ہر عورت ایک عفت مآب‘ قابل احترام ‘ عز ت و وقار کی حامل اور قابلِ تحفظ ہوتی ہے۔اس کی طرف غلط نگاہ اٹھانے کو شرم ناک جرم سمجھا جاتا ہے۔ اے امیر! ہمارا بادشاہ اس قدر او باش اور بے ضمیر ہو چکا ہے کہ خود ہماری بیٹیاں بھی اب اس کی ہوس ناک نگاہوں سے محفوظ اور مامون نہیں۔ خدارا! ہمیں اس سے نجات دلا دیں اور اندلس پر اسلام کا پرچم لہرا کر ہماری بیٹیوں کے دوپٹے کی لاج رکھ لیں۔ پھرطارق بن زیاد نام کا وہ نوجوان اپنے ساتھیوں کے ساتھ اٹھا اور اندلس ہی پر نہیں تاریخ کے صفحات پر بھی ایسا چھایا کہ آج بھی ان علاقوں کے غیر مسلم اس کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا عروج تھا‘بلندی تھی‘ اوجِ کمال تھا!
اس کے برعکس آج روشن خیالی کے دور کی پستی بھی ملاحظہ فرمائیں۔ اخبارات کا مطالعہ کریں تو ایسی ایسی خبریں نظروں سے گزریں گی کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مسلمان نو جو ان سے اس کی گلی محلے ہی کی مسلمان ماں ‘بہن ‘بیٹی محفوظ نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا تھا وہ سرا پا شیطنت کیسے بن گیا! وہ جو غیرت و حمیت کا استعارہ تھا ‘بے غیرتی اور بے حمیتی میں جانوروں کو بھی کیسے شرمانے لگا!جو رات کے اندھیرے میں بھی اپنے ربّ کے عذاب سے ڈرتا تھا ‘جس کے آنسوؤں سے سجدے کی جگہ تر ہوتی تھی‘ جو خلوت و جلوت میں غلط کام کرتے ہوئے کانپ جاتا تھا‘ جو ’’ شاب نشأ فی عبادۃ اللّٰہ تعالیٰ‘‘ کا صحیح اور سچا مصداق تھا ‘جو اپنوں کے لیے باعث اطمینان اور قابل فخر تھا‘ جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا تن من دھن اسلام اور مسلمانوں پر لٹانے والا تھا ‘وہ اتنے زوال میں کیسے چلا گیا ‘اتنی پستی کا شکار کیسے ہو گیا!
ہاں ! ہم سے بھول ہوئی ہے اور بہت بڑی بھول ہوئی ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم غلطی کی ہے اور بہت خوف ناک غلطی کی ہے۔ ہم نے تباہی کو دعوت دی ہے‘ اور بڑی پُر زوردعوت دی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا: ؎
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
ہم نے اپنے نو جو ان کو جس راستے پر لگایا‘ جس راہ پر چلایا اُس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا اور یہی انجامِ بد ہمیں آنکھوں سے دیکھنا تھا۔ ہم نے اُسے کبھی مخلوط تعلیم کے نام پر‘ کبھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نام پر‘ کبھی آزادی اور ترقی کے نام پر جو کچھ دیا آج وہ قوم کو وہی واپس لوٹا رہا ہے تواب ہمیں برا کیوں لگتاہے!گندم بوئیں گے تو گندم ہی کاٹیں گے۔ ہمیں لوٹنا ہو گا۔ اپنے نوجوان کو بچاناہو گا ۔آنے والی نسلوں کے لیے قربانیاں دینی ہوں گی۔انہیں بتانا ہو گا کہ مسلمانوں کی تاریخ ایسے پُر عزم اور پُر ہمت مجاہدین کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنا لہو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں بہا کر مسلمانوں کو سر نگوں ہونے سے بچا لیا ۔ہمیں پھر سے ایسی مائیں اُمّت کو دینی ہوں گی جن کی گود میں محمد بن قاسم اورصلاح الدین ایوبی جیسے فرزند ارجمند پیدا ہوں۔یہ کیسے ہو گا؟کس طرح ہو گا؟ اس کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔بقول علامہ اقبال ؎
وہی دیرینہ بیماری‘ وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی!
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
اسلام کی آمد سے قبل جس بیماری نے انسانوں کے دل کو زنگ آلود کر دیا تھا ‘توحید کا نظریہ ماند پڑ چکا تھا‘ ایمان بالآخرۃ سے لوگ بے بہرہ ہو چکےتھے‘تقریباً وہی صورت حال آج پھر عود کر آئی ہے۔ مسلمانوں کی حیثیت بھی تقریباً یہی ہے۔ عقیدئہ آخرت زبان پر تو ہے لیکن دل اس سے تقریباً بے بہرہ ہیں۔ اللہ ربّ العزت کے سامنے اعمال کی جواب دہی کا تصور ذہن میں غالب ہو تو ساری برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اس لیے علامہ فرماتے ہیں کہ ساری بدعملیوں کا علاج اسی  شَرَابًا طَھورًا کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل اور تبلیغ ہی سے معاشرہ میں بہتری آ سکتی ہے‘ خصوصاً وہ شریعت جو نبی آخر الزماں جناب رسالت مآب حضرت محمدﷺ دنیا میں لے کر تشریف لائے ۔ علامہ اسی کو بیماری کی دوا سے تشبیہ دے رہے ہیں‘ یعنی وہی آبِ حیات جو دل میں فرحت و انبساط پیدا کرتا ہے‘آج بھی اسی کے ذریعہ دنیا کے تمام روگ اور بیماریاں دور ہو سکتی ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور ذریعہ اصلاح کا نہیں ہے۔ مسلمان قوم کو فکری حوصلہ ملے تو ان شاء اللہ اسی مٹی سے لعل و گہر پیدا ہو سکتے ہیں اور مسلمان قوم اپنی عظمت ِرفتہ حاصل کر سکتی ہے۔
آج دنیا میں مسلمان ہی وہ واحد خوش قسمت قوم ہیں جن کے پاس اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کلام بالکل محفوظ‘ تحریفات سے پاک اور ٹھیک ٹھیک انہی الفاظ میں موجود ہے جن میں وہ رسول اکرم ﷺپر اترا تھا۔ایک اور زاویہ سے دیکھیں تو آج دنیا میں مسلمان ہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے پاس جامع ترین دستورِ الٰہی رکھنے کے باوجود اس کی خیرات و برکات اور بے پایاں نعمتوں سے محروم ہیں۔ قرآن حکیم انہیں اس لیے مرحمت ہوا تھا کہ وہ اسے پڑھیں اور سمجھیں‘ اس کے مطابق عمل کریں اور اللہ کی زمین پر حکومت ِالٰہیہ قائم کریں۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب انہوںنے کتابِ الٰہی کی ہدایتوں پر عمل کیا تو اس نے انہیں دنیا کا پیشوا اور امام بنادیا۔
حضرت عامر بن واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ خلیفہٴ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امیر مکّہ حضرت نافع بن عبدالحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مقام عسفان میں ملاقات ہوئی تو ان سے دریافت فرمایا : اہل ِمکّہ پر اپنی جگہ کسے امیر مقرر کرکے آئے ہو؟ حضرت نافعؓ نے عرض کیا :ابن ابزیٰ کو! فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: یہ ابن ابزیٰ کون ہے؟ نافع نے کہا: میرے آزاد کردہ غلاموں میں سے ہے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :تم نے اہل ِمکّہ پر ایک غلام کو حاکم و امیر بنادیا؟ نافع بولے: ہاں‘ میں نے ایسا ہی کیا ہے‘ کیوں کہ وہ قرآن کا قاری اور فرائض و علومِ قرآنی کا عالم ہے۔ یہ سن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نبی ﷺ کا یہ ارشاد بالکل برحق ہے کہ : ((اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِینَ))(صحیح مسلم:۱۸۹۷)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کا حاصل یہی ہے کہ قرآنِ عزیز انسان کے پاس صرف اس لیے نہیں آیا کہ وہ اس کو پڑھ پڑھ کر دم کرتا رہے ‘بلکہ قرآن تو سراسر خیروبرکات کا مجموعہ اور سعادت و کرامت کا سرچشمہ ہے۔ لہٰذا جو قوم اس نورِ مبین کے ہوتے ہوئے بھی ذلت ونکبت کی تاریکیوں میں سرگشتہ و پریشان ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کتابِ الٰہی کے ساتھ بے اعتنائی کررہی ہے ۔موجودہ محکومیت و مغلوبیت سے نکلنے کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ مسلمان اجتماعی و انفرادی طور پر اللہ کی اس رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ہمارے مرض کا صرف یہی علاج ہے ۔وائے محرومی کہ ہم نے انعام یافتہ بزرگوں کا راستہ چھوڑ کر گمراہ اور مبغوض قوموں کی روش اختیار کرلی ہے۔ وضع قطع‘ صورت و سیرت‘ تعلیم و تربیت‘ تہذیب وتمدن‘ اعمال واخلاق‘ اقتصادی ومعاشی معاملات اور حکومت وسلطنت غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارا رُخ قرآن اور صاحب ِقرآن سے ہٹا ہوا ہے۔ ہم زبان سے تو کہتے ہیں کہ ’’منہ میرا کعبہ شریف کی طرف‘‘ لیکن رفتار کی سمت لندن‘ پیرس‘ ماسکو ‘برلن اور نیویارک ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے علوم و تواریخ سے بے بہرہ‘ اپنے یقینات اور ایمانیات سے لاتعلق ہوکر دوسری قوم کے رسوم و رواج‘ خصائل اور تہذیب ومعاشرت کو اپنا لیتی ہے تو وہ فی الحقیقت دوسری قوم بن جاتی ہے۔ سچ فرمایا محمد عربیﷺ نے :
((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ)) (سنن ابی داوٗد:۴۰۳۱)
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
آج مسلم قوم اسی زبوں حالی کا شکار ہے۔ عصر حاضر کی ایجاد واختراع‘ دولت و ثروت اور ظاہری چمک دمک سے اس کی آنکھیں خیرہ ہوگئی ہیں۔ اعلانِ باری تعالیٰ { اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ......} اس کی آنکھوں سے اوجھل ہے اور وہ تہذیب ِمغرب کو اختیار کرتی جارہی ہے۔ وہی عریانی و آوارگی‘ نفس پرستی و ہوس ناکی جس نے مغرب کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیا ہے‘ ہم اسی طوقِ لعنت کو گلے میں آویزاں کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔
ہمارے باہمی خلفشار اور تنازعات نے ہمارے مستقر پر حملہ کیا اور ہمیں بر باد کرکے رکھ دیا‘لیکن یاد رکھیں کہ ہم ہی اس دینِ متین کے محافظ اور نبی اُمّیﷺ کی تعلیمات کے مبلغ ہیں۔ اُمّت ِمسلمہ کے وجود وبقا کا مدار دین کے تحفظ پر ہے۔ امام مالک بن انس ؒ مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابَ اللّٰهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِهٖ)) (رواہ فی الموطا)
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں‘ جب تک تم ان دونوں چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو گے کبھی گمراہی تمہارا پیچھا نہیں کرسکتی (اور وہ دو چیزیں ہیں)اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی سنت۔‘‘
جب تک ہم احکاماتِ الٰہیہ اور سُنّت ِنبویہ پر گامزن رہیں گے‘ زیغ وضلالت سے محفوظ رہیں گے۔ آج پھر سے دین کے تحفظ کے لیے ایک ہوکر کھڑے ہونا ضروری ہے۔ اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہونا لازم ہے۔ یہ کسی ایک مدرسہ یا جامعہ کا مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ علومِ ایمانی کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ آج پوری انسانیت گمراہی کی طرف جارہی ہے اور بد اخلاقی کی دلدل میں ڈوب رہی ہے۔ ایسے نازک وقت میں ڈوبتی کشتی کا ملاح بھی ہم ہی ہیں‘ اور اُمّت کی شکستہ حالی کو خوش حالی میں تبدیل کرنا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ ظلمتوں کے اس اندھیرے کی چادر کو چاک کرنا ہوگا۔ ہمت کا وہ کوہِ گراں بننا ہوگا جس پر دنیا کی کوئی شہنشاہیت غالب نہ آسکے ۔
یہ کس قدر محرومی کی بات ہے کہ جس قوم کے پاس ایک مستقل نظام‘ فکر و عمل اور ایک مکمل تہذیب وتمدن ہے ‘وہ اپنے اس زریں و جامع ترین نظام کو چھوڑ کر غیروں کے پس خوردہ کے لیےبے تاب ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے زاویہ نگاہ کو بدلا جائے اور قرآن کریم کو اپنا ہادی و راہنما مان کر اس کی تعلیمات سے اپنی زندگی کو مزین کیا جائے اور اس کے عطا کردہ نظامِ عدل و قسط کو اجتماعی طور پر نافذ اور قائم کرنے کی عملی جدّوجُہد کی جائے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پھر سے وہ کھویاہوا مقام عطا فرمائے ۔آمین یاربّ العالمین!

Title

Text