(اقبالیات) اقبال کا فلسفہ خودی - ڈاکٹر ابصار احمد

17 /

اقبال کا فلسفہ ٔخودیڈاکٹر ابصار احمد
علامہ اقبال کے جملہ فلسفیانہ افکار میں تصورِ خودی کو ایک اہم اور مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس تصور سے دوسرے بہت سے تصوّرات ماخوذ ہیں ‘جو اس سے علمی اور عقلی طور پر منسلک ہیں۔ چنانچہ اقبال کے نظامِ فکر کے مرکز یعنی تصوّر ِخودی کو سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے جملہ افکار کی تفہیم کے لیے ایک کلید حاصل کر لیتے ہیں۔
اقبال چونکہ مادی جسم اور خودی ( نفس یا روح) دونوں کی مستقل و علیحدہ ہستیوں کا اثبات کرتے ہیں اس لیے فلسفیانہ اعتبار سے ان کا شمار ثنوئیین کے ساتھ ہوتا ہے۔ انسان دو عناصر سے مرکب ہے: جسم اور نفس (یا خودی) ۔ جسم روح کے لیےبمنزلہ ایک آلہ ہے جس کو ارادہ‘ احساس‘ علم وغیرہ میں فی نفسہٖ کچھ دخل نہیںجو کہ خودی کے افعال و وظائف ہیں۔ جدید فلسفہ میں روح اور جسم کے تضاد پر جس فلسفی نے سب سے زیادہ زور دیا وہ ڈیکارٹ تھا۔وہ کہتا ہے کہ یہ دو وجود بالکل مختلف النوع ہیں‘ جن کے درمیان کوئی شے مشترک نہیں۔ مادہ میں گو خواص بہت سے پائے جاتے ہیں مثلاً رنگ‘ وزن‘ بُو وغیرہ لیکن اس کا اصلی و طبعی خاصّہ امتداد ہے یعنی وہ اَبعادِ ثلاثہ (طول‘ عرض‘ عمق) رکھتا ہے اور جگہ گھیرے ہوئے رہتا ہے ۔ یہی وہ خاصّہ ہے جس کا شائبہ تک رُوح یا نفس میں نہیں پایاجاتا‘ جس کا اصلی خاصّہ فکر یعنی ذہنی افعال ہیں۔
فکر ِاقبال میں خودی سے مراد شعور کی وہ وحدت ہے جو خود شناس ‘ خود آگاہ اور اپنی ذات اور اپنے مقاصد کا احساس یا شعور رکھتی ہو۔ یہاں خودی کا مطلب ہوش یا تمیز نہیں بلکہ وہ چیز ہے جس کا خاصّہ ہوش یا تمیز رکھنا ہے یا جس کی وجہ سے ایک انسان ہوش یا تمیز رکھتا ہے۔ انسان میں یہی غیر مرئی شے ہے جو خودشناس یا خود آگاہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’مَیں‘‘ کہتی ہے۔ اس لیے اقبال اس کو’ ’انا‘‘ یا’’ایغو‘‘ یا’ ’من‘‘ بھی کہتے ہیں ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ ہے اور جب مرتا ہے تو یہی اس کے جسم سے رخصت ہو جاتی ہے‘ اس لیے وہ اس کے لیے ’’روح‘‘ اور’ ’جان‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں اور اس کو ’’زندگی‘‘ اور ’’حیات‘‘ کے ناموں سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ زندگی بغیر شعور کے نہیں ہوتی لہٰذا ان معنوں میں کہ شعور زندگی ہے‘ ایک خاص سطح کا شعور بشکل حس حیوان میں بھی موجود ہے۔ البتہ حیوان کا شعور آزاد نہیں بلکہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ناقابل تغیر جبلتوں کے تحت کام کرتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کا شعور جبلتوں سے آزاد ہو کر اور ان کی مخالفت میں بھی عمل کرتا ہے ‘اس لیے وہ خودشناس ‘ خود شعور ہے اور اپنے مقاصد کو جانتا ہے۔ حیوان اپنے شعور کی وجہ سے فقط جانتا اور محسوس کرتا ہے جبکہ انسان اپنے شعور کی وجہ سے نہ صرف جانتا‘ سوچتا اور محسوس کرتا ہے بلکہ جب وہ ایسا کرتا ہے تو اسے یہ اعلیٰ (Higher Order) شعور بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ جانتا‘ سوچتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ہم انسان کے شعور کو خود شناس اور خود آگاہ کہتے ہیں۔ اسے صرف شعور نہیں بلکہ خود شناسی‘ خودشعوری یا خود آگاہی کہنا چاہیے۔ اقبال اسی فاعلی عنصر کو ’’خودی‘‘ کہتے ہیں۔
خود آگاہی‘ خودی کا ایک حیرت انگیز خاصّہ ہے۔انسان کی ساری تگ و دو اور جدّوجُہد اسی خاصے کی وجہ سے ہے۔ اسی کی وجہ سے خودی اپنے آپ کو بغیر آنکھوں کے دیکھتی ہے اور بغیر کانوں کے سنتی ہے بلکہ اپنے آپ کو کسی حس کی مدد کے بغیر براہِ راست وجدانی طور پر پوری طرح سے جانتی ہے۔ مَیں جانتا ہوںکہ میں ہوں ‘کیونکہ میں سوچ رہا ہوں‘ وقوف حاصل کر رہا ہوں اور خوشی یا غم محسوس کر رہا ہوں‘ لیکن میری کوئی حس مجھے اپنے آپ کو جاننے میں مدد نہیں دے رہی۔ اگرچہ میں اپنی خودی کو بچشم سر نہیں دیکھ سکتا لیکن اس کے باوجود بغیر ان آنکھوں کے اس طرح دیکھ رہا ہوں کہ میرے لیے اپنے آپ کا علم ان چیزوں کے علم سے بدرجہا زیادہ یقینی ہے جن کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔ خارج کی دنیا کے متعلق ہمارا علم قیاسی ہے اور ہمارا قیاس حواس پر مبنی ہوتا ہے۔ حواس کے تاثرات بدلنے سے ‘خواہ اس کا کوئی سبب خارج میں ہو یا نہ ہو‘ ہمارا علم بدل جاتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص کائنات کے متعلق تو کہہ سکتا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ‘ زمین اور مادی چیزیں درحقیقت موجود نہیں یا ان کی حیثیت ایک ایسے خواب یا وہم سے زیادہ نہیں جو خالق ِکائنات کی ہستی کے لیے ایک پردے کا کام دے رہاہے‘ لیکن کوئی شخص خودی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک وہم ہے۔ خودی کا وجود محسوس دنیا‘خارجی دنیا یا مادّی دنیا کی چیز نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے حواس اس کو جاننے کا وسیلہ نہیں بنتے۔ اگرچہ خودی نظروں سے اوجھل ہے‘ اس کے باوجود اس کا ہونا یقینی ہے ۔یہ ثبوت یا دلیل سے بے نیاز ہے‘ بلکہ تمام دُعاوی اور مسائل اور تمام براہین و دلائل اس کے ہونے پر مبنی ہیں۔
اس کے باوجود کہ خودی انسان کے جسد ِعنصری میں جاگزیں ہے جو سلسلۂ لیل و نہار کی پابندیوں سے گھرا ہوا ہے‘ وہ خود زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہے۔ وہ اپنے خیال کے ذریعہ سے اِدھر ماضی اور مستقبل کی انتہائوں تک اور اُدھر کائنات کے دور دراز گوشوں تک آنِ واحد میں جا پہنچتی ہے۔ بقول اقبال : ؎
نقطۂ نوری کہ نامِ اُو خودی است
زیر خاکِ ما شرارِ زندگی است
’’نور وہ نقطہ ہے جس کانام خودی ہے۔ ہماری خاک کے اندر زندگی کی ایک چنگاری ہے۔‘‘
خودی ایک نور ہے لیکن مادی روشنیوں میں سے کوئی روشنی ایسی نہیں جو اس کی مماثل ہو۔ اسی طرح خودی ایک قوت ہے لیکن مادی قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہیں جس کے ساتھ اس کو مشابہت دی جا سکے۔ اقبال کے الفاظ میں خودی ’’شعور کا وہ روشن نقطہ ہے جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات و تمنیات مستینر ہوتے ہیں۔ وہ ایک لازوال حقیقت ہے جو فطرتِ انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بندہے۔‘‘ اس کا ایک خاصّہ یہ ہے کہ وہ عمل اور خودنمائی کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ اس صفت کی رو سے خودی ایک مقصد کا تصوّر کرتی ہے۔ پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری سعی و عمل صرف کرتی ہے۔ اس عمل سے اسے اپنے مقصد میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کا یعنی اپنی قوتوں کا اظہار کرتی ہے اور اس خود اظہاری یا ’’وا نمودن خویش‘‘سے اسے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
اس بنا پر بعض ناقدین کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ خودی کی فلسفیانہ اصطلاح رو زمرہ کی زبان میں استعمال ہونے والے لفظ خودی کے ساتھ معنی کا اشتراک رکھتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اقبال کے نزدیک جذبۂ خود نمائی یا ذوقِ استیلاء کے جائز و ناجائز استعمال میں فی نفسہٖ کوئی خاص خوبی ہے۔ یہ خیال قطعاً غلط ہے۔ اس غلط فہمی کا ازالہ دو باتوں سے ہو جاتا ہے۔ ایک تو یہ کہ خودی کے مقاصد اچھے بھی ہوتے ہیں ‘برے بھی اور صحیح بھی ہوتے ہیں ‘غلط بھی۔ جدّوجُہد یا عمل سے خودی کو مستقل اور مکمل اطمینان (جو ا س کی پیہم ترقی اور ترفع کا ضامن ہے) اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے جب اس کا مقصد اس کی فطرت کے مطابق ہو۔ غلط مقصد کی پیروی سے خودی کو عارضی تسلی تو ہو جاتی ہے لیکن آخر کار اسے بے اطمینانی اور ناکامی کا احساس ہوتا ہے۔ ثانیاً عمل یا جدّوجُہد احساسِ مدّعا کا لازمی نتیجہ ہے اور خودی ہر آن کوئی نہ کوئی مدّعا اچھا یا برا‘ صحیح یا غلط رکھنے پر مجبور ہے۔ غلط مدّعا غلط عمل پیدا کرتا ہے اور صحیح مدّعا صحیح عمل پیدا کرتا ہے ۔ اقبال صرف اسی عمل کی تلقین کرتے ہیں جو خودی کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہو اور لہٰذا صحیح ہو۔ ان کے نزدیک صحیح مدّعا لہٰذا صحیح عمل فقط مردِ مؤمن کا امتیاز ہے۔ گویا علامہ اقبال نے جس عملی جدّوجُہد اور خود نمائی پر زور دیا ہے اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد یا مدّعا کو درست کریںـ ۔ اسی کو وہ یقین یا ایمانِ محکم کہتے ہیں۔ اقبال نے خود اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ خودی سے ان کی مراد غرور یا تکبّر نہیں۔ چنانچہ’’ اسرارِ خودی‘‘ کے دیباچہ میں انہوں نے لکھا ہے:
’’ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی غرور استعمال نہیں ہوا‘ جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساسِ نفس یا یقین ذات ہے۔‘‘
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’جب میں نفی ٔخودی کی مذمت کرتا ہوں تو میرا مطلب اس سے اخلاقی معنوں میں ایثار یا نفس کشی کی مذمت نہیں ہوتا۔ نفی ٔخودی کی مذمت سے میں ایسے الفاظ کی مذمت کرتا ہوں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ’’میں‘‘ کو ایک مابعد الطبیعیاتی قوت کی حیثیت سے مٹا دیا جائے‘ کیونکہ اسے مٹانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اجزاء بکھر جائیں اور وہ حیات بعد الموت کے قابل نہ رہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں‘ اسلامی تصوف کا نصب العین خودی کو مٹانا نہیں۔اسلامی تصوف کا نصب العین ایک ایسا مقام ہے جو فنا کے مقام سے بھی آگے ہے‘ یعنی مقامِ بقا جو میرے نقطہ نظر سے اثباتِ خودی کا بلند ترین مقام ہے۔ جب میں کہتا ہوں کہ ’’لعل کی طرح سخت ہو جائو‘‘ تو میری مراد نطشے کی طرح یہ نہیں ہوتی کہ بے رحم اور بے درد ہو جائو بلکہ یہ ہوتی ہے کہ خودی کے عناصر کو مجتمع کرو تاکہ وہ بعد از مرگ زندہ رہنے کے لیے فنا کا مقابلہ کر سکے۔ اخلاقی نقطہ نظر سے خودی کا مطلب ہے خوداعتمادی ‘ خود داری‘اپنی ذات پر بھروسا‘ حفاظت ِذات بلکہ اپنے آپ کو غالب کرنے کی کوشش جبکہ ایسا کرنا زندگی کے مقاصد کے لیے اور صداقت‘ انصاف اور فرض کے تقاضوں کو پورا کرنے کی قوت کے لیے ضروری ہو۔ اس قسم کا کردار میرے خیال میں اخلاقی ہے کیونکہ وہ خودی کو اپنے قویٰ مجتمع کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس طرح تحلیل اور انتشار کی قوتوں کے خلاف خود ی کو سخت کر دیتا ہے۔ عملی طو رپر مابعد الطبیعیاتی ایغو دوبڑے حقوق کا علم بردار ہے۔ اوّل زندہ رہنے کا حق اور دوم آزاد رہنے کا حق‘ جیسا کہ خداوندی قانون نے مقرر کیا ہو۔‘‘
خودی کے وظائف میں سے ایک وظیفہ یہ ہے کہ وہ ہماری ذہنی حالتوں (mental states) میں وحدت پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :
’’خودی ذہنی حالتوں کی ایک وحدت کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے۔ ذہنی حالتیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتیں‘ وہ ایک دوسرے میں شامل ہوتی ہیں اور حقیقتاً ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ وہ ایک مرکب کل کی جسے ہم ذہن کہتے ہیں‘ بدلی ہوئی کیفیتوں کے طور پر ہوتی ہیں۔آپس میں تعلق رکھنے والی ان حالتوں کی وحدت ایک مخصوص طرز کی وحدت ہے۔ یہ ایک مادی شے کی وحدت سے بنیادی طو رپر مختلف ہوتی ہے۔‘‘
خودی کوئی ایسی چیز نہیں جو مکاں(space) میں کہیں پڑی ہوئی ہو بلکہ اس کی اصل ایک فعلیت ہے۔ وہ انسان کے فکر و عمل کی ایک قوت ہے جو ایک مقصد اختیار کرتی ہے اور جس کا مقصد انسان کے افعال کو مربوط کرنا ہے۔ یہ انسان کی وہی اندرونی قوت ہے جو فیصلے کرتی ہے‘ اندازے قائم کرتی ہے اور رجحاناتِ فکر و عمل طے کرتی ہے۔ اس موضوع پر قرآن کا ارشاد واضح ہے:
{وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ ط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۵) } (بنی اسرائیل)
’’یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں‘ کہیے روح خدا کے حکم کی پیداوار ہے‘ اور تم لوگ کم ہی علم دیے گئے ہو۔‘‘
لفظ ’’امر‘‘ کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن نے خلق اور امر کے درمیان جو فرق کیا ہے‘ ہم اس کی طرف رجوع کریں۔ خلق کے معنی ہیں پیدا کرنا اور امر کے معنی ہیں حکم کرنا‘ جیسا کہ قرآن میں ہے : {اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط} (الاعراف:۵۴)’’سن لو! اسی کے لیے ہے پیدا کرنا بھی اور حکم کرنا بھی۔‘‘اس آیت کی رو سے روح کی بنیادی فطرت حکم ہے‘ کیونکہ وہ خدا کی حکمران قوت سے پیدا ہوتا ہے‘ اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ کس طرح خدا کا امر ان وحدتوں کی شکل میں ظہور پزیر ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک ایک روح یا خودی ہے۔ ضمیر متکلم جو لفظ رَبِّی میں ہے‘ خودی کی فطرت اور ماہیت پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ روح کو ایک ایسی چیز سمجھا جائے جو منفرد اور معیّن ہے۔ اپنے تمام تر داخلی اختلافات کے باوجود مغرب کے بعض حکماء اور فلاسفہ نے یہ سمجھا ہے کہ انسان کا شعور یا اس کی خودی فقط مادہ کی ایک ترقی یافتہ حالت کا وصف ہے۔ جب مادہ کے ذرات ترقی کر کے حیوان کے دماغ کی صورت میں ایک خاص قسم کی طبیعیاتی ترتیب اور کیمیائی ترکیب حاصل کر لیتے ہیں تو اس میں شعور کا جوہر پیدا ہوجاتا ہے ‘اور جب یہ ترتیب اور ترکیب ختم ہو جاتی ہے تو یہ جوہر بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اقبال ایسے حکماء مادییّن سے یکسر اختلاف کرتے ہیں۔ جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں وہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی بھی ہو سکتی ہے‘ لہٰذا وہ ہمیشہ موت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال مادّہ پرست حکماء کے پیرو سے خطاب کر کے کہتے ہیں: ؎
تری نجات غمِ مرگ سے نہیں ممکن
کہ تُو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی!
اقبال کے نزدیک خودی مادّے کی کسی ترقی یافتہ حالت کا نام نہیں بلکہ مادّے کی ہر حالت کا وجوداس کا مرہونِ منّت ہے۔ انسانی خودی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس کے اندر خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ عمل میں اپنا اظہار پانے کے لیے ہر وقت بے تاب رہتا ہے۔ یہ جذبہ اس قدر طاقتور ہے کہ اگر یہ بھٹک کر کسی اور خواہش کو اپنا مقصود نہ بنا لے تو انسان کی تمام حیوانی قسم کی خواہشات کو اپنا تابع رکھتا ہے اور اس کو اپنی غرض کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا انسان فقط خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے‘ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر یہ جذبہ ختم ہو جائے تو انسان بھی باقی نہ رہے: ؎
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو مَیں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے‘ یہی طغیانِ مشتاقی!
خدا کی معرفت اور اس سے ربط کی خواہش خودی کی اپنی خواہش ہے جبکہ انسان کی حیوانی خواہشات خودی کی اپنی خواہشات نہیں بلکہ انسان کے جسم کی خواہشات ہیں۔ جسم خودی کا خدمت گزار ہے‘ اس کا حاکم نہیں۔ وہ شخص جو اپنے جسم کو اپنا مقصد ِحیات قرار دے لیتا ہے وہ اپنی خودی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرے‘ اور نشوونما پا کر مکمل ہو جائے۔ لہٰذا وہ اپنی اس غیر دانش مندانہ روش کے شدید نقصانات کو اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں جھیلتا ہے۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اقبال نے اپنے تصوّرات فلسفہ ٔمغرب سے مستعار لیے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کی نگاہ میں اقبال پر لکھنے یا ریسرچ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے ماخذ کو فکر ِ مغرب میں تلاش کیا جائے۔ دراصل یہ لوگ مادّی علوم میں مغرب کے تفوق سے مرعوب ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان انسانی علوم میں بھی جن کو اقبال نے اپنے غور و فکر کا موضوع بنایا ہے‘ کہاں مشرق کا کوئی آدمی مغرب سے الگ راہیں پیدا کر سکتا ہے! حالانکہ حکمائے مغرب کو خود اعتراف ہے کہ وہ انسانی علوم میں کوئی ترقی نہیں کرسکے۔ یہ لوگ اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ تمام حکیمانہ افکار کسی نہ کسی تصوّرِ حقیقت کے اجزاء و عناصر ہوتے ہیں‘ اس کی تشریح و تفسیر کرتے ہیں اور اس کے ارد گرد ایک نظام حکمت بناتے ہیں۔ اقبال کا تصوّرِ حقیقت ِاعلیٰ اسلام کا خدا ہے‘ جس کے لیے وہ ’’لامتناہی خودی ‘‘یا ’’انائے کبیر‘‘ (Ultimate Ego) کی فلسفیانہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں جبکہ مغرب میں ایک بھی فلسفی ایسا نہیں جس کا تصوّرِ حقیقت اسلام کا خدا ہو‘ لہٰذا ممکن ہی نہیں کہ کسی مغربی حکیم کا کوئی تصوّر اپنی اصل حالت میں اقبال کے کام آ سکے۔ اس میں شک نہیں کہ خودی (self)کی فلسفیانہ اصطلاح حکمائے مغرب نے بالعموم استعمال کی ہے لیکن ان میں کسی کے ہاں اس اصطلاح کے معنی وہ نہیں لیے گئے جو اقبال نے لیے ہیں اور جس کے منطقی یا عقلی مضمرات یا نتائج اسلام کے خدا کی صفات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں۔ اگر اقبال کے فلسفے کا مرکزی تصوّر یعنی تصوّرِ خودی اس کا اپنا تصوّر ہے جو کسی اور فلسفی کے ہاں موجود نہیں تو پھر ضروری ہے کہ اقبال کے اس مرکزی تصوّر کے مضمرات اور متضمنات بھی اس کے اپنے ہوں‘ اگرچہ ان میں سے بعض ایسے ہوں جو کچھ مغربی فلسفیوں کے تصوّرات سے مشابہت رکھتے ہوں اور بظاہر ان سے مستعار نظر آتے ہوں۔
میں یہاں مختصراً صرف ایک دو فلسفیانہ نظریات پر بحث کروں گا جو خودی یا self کے ایک غیر حسی یا مابعد الطبیعیاتی حقیقت ہونے کا انکار کرتے ہیںـ۔ سب سے پہلے منطقی اثباتیت کو لیجیے۔ حکمائے مغرب کا یہ غیر عقلی عقیدہ کہ صداقت صرف وہی ہے جسے ہمارے حواس براہِ راست دریافت کر سکیں‘ جن غلط فلسفوں کو وجود میں لانے کا باعث ہوا ہے ان میں سے ایک منطقی اثباتیت(Logical Positivism)  ہے۔ پروفیسرکارناپ‘ اے جےائیر اور وزڈم وغیرہ اس کے مشہور پیش کنندگان میں سے ہیں۔ اس فلسفے کے مطابق سائنس یعنی حسی عمل ہی واقعی اور حقیقی (factual) علم ہےجبکہ تمام روایتی اور مابعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھا جاتا ہے ۔ علم کی آخری بنیاد ذاتی وجدانی احساس پر نہیں بلکہ حسّی تجربہ اور تصدیق پر ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عبارت میں تین دعوے کیے گئے ہیں:
اول : حسی علم ہی حقیقی علم ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی علم حقیقی علم نہیں۔
دوم : مابعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں۔
سوم : علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق پر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منطقی اثباتیت کے حکماء کو یہ کیسے علم ہوا کہ حسی علم ہی واقعی علم ہے‘ مابعد الطبیعیاتی عقائد بے معنی ہیں اور علم کی آخری بنیاد تجربہ اور تصدیق ہے جبکہ اس علم کو ان فلاسفہ میں سے کسی نے بھی سائنسی طریق یا تجربہ سے حاصل نہیں کیا اور نہ ہی اس کو تصدیق کے عمل سے گزارا ہے اور نہ ہی کوئی اس کو کسی اور بنا پر حواس کے تجربات میں سے شمار کر سکتا ہے؟ لہٰذا ان دعووں میں سے ہر ایک خود مابعد الطبیعیاتی عقیدہ ہے اور ان فلاسفہ کے اپنے قول کے مطابق بے معنی ہے۔ منطقی اثباتیت کے قائلین مابعد الطبیعیاتی عقائد کو بے معنی سمجھتے ہیں لیکن خود ایسے عقائد پر ایمان رکھتے ہیں۔ مزید برآں تجربہ اور تصدیق جسے وہ علم کی بنیاد قرار دیتے ہیں‘ آخر کسی ذی شعور و عقل ہستی کا تجربہ ہو گا لیکن منطقی اثباتیت اسی غیر حسی فاعل کا انکار کرتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ منطقی اثباتیت اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ جو علم اور نظریہ بھی خودی اور اس کے اوصاف و خواص کو نظر انداز کر کے لکھا جائے گا‘ ضروری ہے کہ اس میں ایک بنیادی علمی تصوّر کے محذوف ہو جانے کی وجہ سے طرح طرح کی استدلالی اور منطقی ناہمواریاں اور علمی خامیاں پیدا ہو جائیں۔ فی الحقیقت خودی ہی ہر علم اور سائنس کی ابتدا اور انتہا ہے۔
ایک اور فلسفیانہ مکتب خیال جو آج کل برطانیہ اور امریکہ میں مقبول عام ہے ‘ منطقی کرداریت(Logical Behaviourism) کا نظریہ ہے۔ وٹگنسٹائن‘ گلبرٹ رائل اور بعض دوسرے مفکرین اس نظریے کے سرخیل ہیں۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ ہمارے عام بول چال کے الفاظ اور جملوں میں وہ الفاظ جو نفسیاتی افعال کو بیان کرتے ہیں‘ باطنی یا انفرادی افعال و کیفیات کی طرف اشارہ نہیں کرتے بلکہ افعال کے صرف ظاہری (public) اور معروضی پہلوئوں کو بیان کرتے ہیں ‘اس لیے صرف وہی حقیقی ہیں۔ داخلی کیفیات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ اسی کو بنیاد بنا کر وہ خودی یا self کاانکار کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نظریے کی خامی ان کے اپنے طرزِ استدلال یعنی لسانی تحلیل کے ذریعے بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک جملہ لیجیے:’’خالد لاہور آ گیا او ر اس نے وہاں ایک لیکچر سنا‘‘ ایک بامعنی جملہ ہے۔ اگر جملے کے دوسرے حصے میں ضمیر’’اس‘‘کی بجائے ہم کہیں کہ’’خالد لاہور آ گیا اور اس کے جسم یا کانوں نے ایک لیکچر سنا ‘‘تو ہمیں یہ از حد غیر مانوس معلوم ہوگا۔ اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ضمیر(pronoun)’’ اس‘‘ یا’’ وہ‘‘ صرف کسی فرد کے جسم یا جسمانی اعضاء کی طرف اشارہ نہیں کرتی بلکہ اس متشکل شخصیت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو جسم اور خودی‘ نفس یا روح دونوں کے مرکب سے عبارت ہے۔
(یہ مقالہ پہلی سالانہ قرآن کانفرنس منعقدہ لاہور ۱۴ تا ۱۶ دسمبر ۱۹۷۳ء میں پڑھا گیا۔)